سلیمانی
فلسفہ امامت ،امام علیہ السلام کی نظر میں
فلسفہ امامت ،امام علیہ السلام کی نظر میں
منجملہ ان تمام چیزوں کے جو امام علیہ السلام کے بیا نا ت کے اس حصہ میں مجھے نہایت ہی اہم اور قابل توجہ نظر آئیں حضرت (ع)کے وہ ارشادات بھی ہیں جن میں اہل بیت علیہم السلام سے وابستہ افراد کے گزشتہ تجربات کا آپ نے ذکر فرمایا --- بیان کے اس حصہ میں جناب امام سجاد (ع)لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :کیا تم لوگوں کو یاد ہے (یا تم کو اس بات کی خبر ہے )کہ گزشتہ ادوار میں ظالم و جابر حکمرانوں نے تم پر کیا کیا زیادتیاں کی ہیں --- یہاں ان مصیبتوں اور زیادتیوں کی طرف اشارہ مقصود ہے جو محبان اہل بیت (ع)کو معاویہ ،یزید اور مروان وغیرہ کے ہاتھوں اٹھانی پڑی ہیں چنانچہ امام علیہ السلام کا اشارہ واقعہ کربلا ،واقعہ حرہ ،حجر بن عدی اور رشید ہجری وغیرہ کی شہادت نیز ایسے بہت سے مشہور و معروف ،اہم ترین حادثوں کی طرف ہے جس کا اہل بیت (ع) کے مطیع و ہمنوا افراد گزشتہ زمانوں میں ایک طویل مدت سے تجربہ کرتے چلے آرہے تھے اور وہ واقعات ان کے ذہنوں میں ابھی موجود تھے ۔ امام علیہ السلام چاہتے ہیں کہ گزشتہ تجربات اور تلخ ترین یادوں کو تازہ کرکے لوگوں کے مجاہدانہ عزم و ارادہ میں مزید پختگی پیدا کریں ۔مندرجہ ذیل عبارت پر ذرا توجہ فرمایئے:
”فقد لعمری استدبرتم من الا مور الماضیة فی الایام الخالیة من فتن المتراکمة والانهماک فیها ماتستد لون به علی تجنب الغوة و “
میری جان کی قسم ،وہ گزشتہ واقعات جو تمھاری آنکھوں کے سامنے گزر چکے ہیں ---فتنوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جس میں ایک دنیا غرق نظر آتی تھی تم لوگوں کو ان حوادث و تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے --- اور ان کو اپنے لئے درس و استدلال بناتے ہوئے زمین پر فساد پرپا کرنے والے گمراہ اور بدعتی افراد سے دوری و اجتناب کر لینا چاہئے۔
یعنی تمھیں اس بات کا بخوبی تجربہ حاصل ہے کہ اہل بغی و فساد ۔یعنی یہی حکام جور ،جب تسلط حاصل کر لیں گے تو تمھارے ساتھ کس طرح پیش آئیں گے ۔گزشتہ تجربات کی روشنی میں تم جانتے ہو کہ تمھیں ان لوگوں سے دور رہنا چاہئے ،اور ان کے مقابلہ میں صف آرائی کرنی چاہئے ۔
امام علیہ السلام نے اپنے بیان میں مسئلہ امامت کو بڑی صراحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے ،مسئلہ امامت یعنی یہی خلافت و ولایت ،مسلمانوں پر حکومت کرنے اور نظام اسلامی کے نافذ کرنے کا مسئلہ ہے ،یہاں امام سجاد علیہ السلام مسئلہ امامت کتنے واضح انداز سے بیان کرتے ہیں جب کہ اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ اس قسم کے مسائل اس صراحت کے ساتھ عوام میں پیش نہیں کئے جا سکتے تھے امام (ع) فرماتے ہیں :
”فقد موا امراللّٰه وطاعته وطاعته من اوجب اللّٰه طاعته “
فرمان الٰہی اور اطاعت رب کو مقدم سمجھو اور اس کی اطاعت و پیروی اختیار کرو جس کی اطاعت و پیروی خدانے واجب قرار دی ہے ۔
امام علیہ السلام نے اس منزل میں امامت کی بنیاد اور فلسفہ کو شیعی نقطہ نظر سے پیش کیا ہے خدا کے بعد وہ کون سے لوگ ہیں جن کی اطاعت کی جانی چاہئے ؟ وہ جن کی اطاعت خدا نے واجب قرار دی ہے اگر لوگ اس وقت اس مسئلہ پر غور فکر سے کام لیتے تو بڑی آسانی سے یہ نتیجہ نکال سکتے تھے کہ عبدالملک کی اطاعت واجب نہیں ہے کیوں کہ خدا کی طرف سے عبد الملک کی اطاعت واجب کئے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،عبد الملک کا اپنے تمام ظلم و جور اور بغی وفساد کی وجہ سے لائق اطاعت نہ ہونا ظاہر ہے ۔ یہاں پہلے تو امام علیہ السلام مسئلہ امامت بیان فرماتے ہیں اس کے بعد صرف ایک شبہ جو مخاطب کے ذہن میں باقی رہ جاتا ہے اس کا بھی ازالہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں :
”ولا تقدموا الا مور الواردة علیکم من طاعة الطواغیت و فتنة زهرة الدنیا بین یدی امراللّٰه و طاعته و طاعة اولی الامر منکم “
اور جو کچھ تم پر طاغوتوں ------عبد الملک وغیرہ ------ کی طرف سے عائد کیا جاتا ہے اس کو خدا کی اطاعت کے زمرہ میں رکھتے ہوئے خدا کی اطاعت اس کے رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت پر مقدم قرار نہ دو ۔
اصل میں امام علیہ السلام نے اپنے بیان کے اس ٹکڑے میں بھی مسئلہ امامت بڑی صراحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے ۔
حضرت (ع) نے گزشتہ بیان میں بھی اور اس بیان میں بھی دو بنیادی اور اساسی مسائل پر توجہ دلائی ہے چنانچہ دونوں بیانات میں مذکورہ تین مراحل تبلیغ میں سے دو مرحلے یعنی لوگوں کے اسلامی افکار و عقائد کی یاد دہانی تاکہ لوگ عقائد اسلامی کا پاس و لحاظ کریں اور ان دینداری کا شوق پیدا ہو سکے اور اس کے بعد دوسرا مسئلہ ” ولایت امر“ یعنی نظام اسلامی میں حکومت و قیادت کا استحقاق واضح کرنا ہے ۔ امام علیہ السلام اس وقت لوگوں میں ان دونوں مسائل کو بیان کرتے ہیں اور درحقیقت اپنے مد نظر نظام علوی یعنی اسلامی و الٰہی نظام کی تبلیغ کرتے ہیں ۔
تنظیم کی ضرورت
امام علیہ السلام کے یہاں ایک تیسری نوعیت کے حامل بیانات بھی ملتے ہیں جوان دونوں سے بھی زیادہ توجہ کے مستحق ہیں ان بیانات میں حضرت (ع) کھلے طور پر لوگوں کو ایک اسلامی تنطیم کی تشکیل کی طرف متوجہ کرتے ہیں البتہ یہ بات ان ہی لوگوں کے درمیان ہوئی ہے جن کو امام (ع) کا اعتماد حاصل رہا ہے ورنہ اگر عام لوگوں کو اس قسم کی کسی جماعت کی تشکیل کی دعوت دی گئی ہوتی تو اس کا پردہ راز میں رہنا مشکل ہو جاتا اور حضرت (ع)کے لئے بڑی زحمت او رپریشانی کا سبب بن جاتا ۔خوش قسمتی سے ” تحف العقول “ میں اس نوعیت کے بیانات کا بھی ایک نمونہ موجود ہے جسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں ۔امام (ع) کا بیان یوں شروع ہوتا ہے ۔
”ان علامة الزاهدین فی الدنیا الراغبین فی الآخرة ترکهم کل خلیط و خلیل و رفضهم کل صاحب لایرید ما یریدون “
دنیا کے وہ زاہدین جو دنیا کے پیچھے نہیں بھاگتے اور اپنی دلچسپی آخرت پر مرکوز رکھتے ہیں ان کی پہچان اور علامت یہ ہے کہ ان کے جو دوست اور ساتھی ہم فکر و ہم عقیدہ بلکہ ہم دل اور ہم مشرب نہیں ہوتے ان کو ترک کردیتے ہیں ۔کیا یہ واضح طور ایک شیعی تنظیم کے تشکیل کی دعوت نہیں ہے ؟!
اس بیان سے لوگوں کویہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو ان کے مطالبات و خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے اور جن کے احساس و جذبات بالکل مختلف ہیں جو حکومت حق یعنی علوی نظام نہیں چاہتے وہ ان سے کنارہ کش ہو کر ان کے لئے اجنبی اور بیگانہ بن جائیں ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے یہاں آمد و رفت اور تعلقات ختم کر لیں یہ تعلقات ویسے ہی ہوں جیسے پہلے تھے یعنی ان سے ملیں لیکن احتیاط کے ساتھ ۔
امام فرماتے ہیں وہ لوگ جو تمھاری فکر و عزائم سے متفق نہ ہوں یا ہدف و مقصد سے ہم آہنگی نہ رکھتے ہوں ان کے ساتھ تمھارے معاملات اور آمد و رفت کسی اجنبی اور بیگانے کے مانند ہونی چاہئے ان سے دوستانہ تعلقات ختم کر دینے چاہئے ۔
میں سمجھتا ہوں اس طرح کے مزید بیانات خود امام سجاد علیہ السلام کے یہاں نیز دیگر ائمہ علیہم السلام کے یہاں بھی مل جائیں گے بلکہ دیگر ائمہ علیہم السلام کے ارشادات میں یہ چیزیں زیادہ مل جائے گی جہاں تک خود میری نظر ہے اس طرح کے بیانات امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام نیزان کے بعد کے کم از کم تین چار ائمہ کے یہاں مجھے ملے ہیں حتی کہ امیر المومنین علیہ السلام کے فرمودات میں بھی منظم و مرتب اسلامی جماعت کی تشکیل کی طرف اشارے موجود ہیں ،البتہ یہاں اس تفصیل طلب موضوع پر زیادہ بحث کی کنجائش نہیںہے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام کے کچھ بیانات و ارشادات ایسے بھی ہیں جن میں پیش کئے جانے والے مطالب کلی نوعیت کے حامل ہیں ان میں ان مخصوص پہلوؤں کو مورد بحث نہیں قرار دیا گیا ہے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ۔مثال کے طور پر امام سجاد (ع) کا ایک رسالہ ،حقوق سے متعلق ہے جو در اصل آپ کا ایک نہایت ہی مفصل خط ہے اور ہماری اصطلاح میں اس کو ایک مستقل رسالہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ،جی ہاں !یہ کتاب جو رسالہ حقوق کے نام سے مشہور ہے حضرت (ع)کا ایک خط ہے جو آپ نے اپنے کسی محب کو لکھا ہے اور اس میں ایک دوسرے کے تئیں انسانی حقوق و ذمہ داری کا ذکر فرمایا ہے ،یقینا یہ ایک رسالہ سے کم نہیں ہے ۔امام علیہ السلام نے اس خط میں مختلف جہتوں سے لوگوں کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں ان کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے ۔مثلا خدا کے حقوق ،اعضا ؤجوارح کے حقوق ،کان کے حقوق ،آنکھ کے حقوق ،زبان کے حقوق ،ہاتھ کے حقوق وغیرہ اسی طرح اسلامی معاشرہ پر حاکم فرمانروا کے عوام پر کیا حقوق ہیں ،عوام کے حاکم پر کیاحقوق ہیں ،دوستوں کے حقوق ،پڑسیوں کے حقوق ،اہل خاندان کے حقوق ------ اور ان تمام حقوق کااس عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جس کا ایک اسلامی نظام میں زندگی بسر کرنے والے شخص کو پاس لحا ظ رکھنا ضروری ہے گویا امام علیہ السلام نے بڑے ہی نرم انداز میں حکومت سے مقابلہ آرائی یا آئندہ نظام کا حوالہ دئیے بغیر مستقبل میں قائم کئے جانے والے نظام کی بنیادوں کو بیان کردیا ہے کہ اگر ایک روز خود امام سجاد (ع)کے زمانہ حیات میں (جس کا اگر چہ احتمال نہیں پایا جاتا تھا ) یا آپ کے بعد آنے والے زمانہ میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو جائے تو مسلمانوں کے ذہن ایک دوسرے کے تئیں عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے پہلے سے مانوس رہیں ۔دوسرے لفظوں میں لوگوں کو آئندہ متوقع اسلامی حکومت کے اسلام سے آشنا بنادینا چاہتے ہیں ۔یہ بھی امام علیہ السلام کے بیانات کی ایک قسم ہے جو بہت ہی زیادہ قابل توجہ ہے ۔
ایک قسم وہ بھی ہے جس کا آپ صحیفہ سجادیہ میں مشاہدہ فرماتے ہیں ظاہر ہے صحیفہ سجادیہ سے متعلق کسی بحث کے لئے بڑی تفصیل و تشریح کی ضرورت ہے ۔مناسب یہی ہے کہ کوئی اس کتاب پر باقاعدہ کام کرے ۔صحیفہ سجادیہ دعاؤں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ان تمام موضوعات کو مورد سخن قرار دیا گیا ہے جن کی طرف بیدار و ہوشمند زندگی میں انسان متوجہ ہوتا ہے ۔ان دعاؤں میں زیادہ تر انسان کے قلبی روابط اور معنوی ارتباطات پر تکیہ کیا گیا ہے اس میں بے شمار مناجاتیں اور دعائیں مختلف انداز سے معنوی ارتقا ء کی خواہش و آرزو سے مملو ہیں ۔امام علیہ السلام نے ان دعاؤں کے ضمن میں دعاؤں کی ہی زبان سے لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی زندگی کا ذوق و شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
دعا کے ذریعہ جو فائدہ اٹھائے جا سکتے ہیں ان میں ایک وہ بھی ہے جسے میں بارہا ذکر کر چکا ہوں کہ دعا لوگوں کے قلوب میں ایک صحیح و سالم محرک و رجحان پیدا کردیتی ہے جس وقت آپ کہتے ہیں :
”اللهم اجعل عواقب امورنا خیرا “
”خدایا ہمارا انجام بخیر فرما “
ظاہر ہے آپ کے دل میں اس وقت انجام کار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور آپ عاقبت کی فکر میں لگ جاتے ہیں بعض وقت انسان اپنی عاقبت سے غافل رہ جاتا ہے اپنے حال میں مست زندگی گزارتا رہتا ہے اور اس بات کی فکر نہیں کرتا کہ عاقبت کا تصور انسانی سرنوشت کے تعین میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے ،جب دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے یک بیک ذہن اس طرف متوجہ ہوا اور انجام کار پر نظر رکھنے کا جذبہ بیدار ہوگیا ۔اور پھر آپ اس فکر میں پڑگئے کہ ایسے امور انجام دیں جو آپ (ع) کی عاقبت بہتربنا سکیں ویسے اس کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے یہ ایک دوسری بحث ہے ۔میں تو اس مثال کے ذریعہ صرف اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا کہ دعا کس طرح انسان کے اندر ایک صحیح اور سچا جذبہ بیدار کر دیتی ہے ۔صحیفہ سجادیہ(ع) ایک ایسی کتاب ہے جو شروع سے آخر تک دعاؤں کے جامہ میںایسے ہی اعلیٰ جذبات و افکار سے معمور ہے جن پر انسان اگر غور کرے تو صرف یہی صحیفہ سجادیہ ایک معاشرہ کی اصلاح اور بیداری کے لئے کافی ہے ۔
فی الحال اس بحث کو ہم یہیں ختم کرتے ہیں البتہ اس کے علاوہ بھی ایسی بہت چھوٹی چھوٹی رواتیں ہیں جو امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں جس کا ایک نمونہ ہم گزشتہ بحث کے ذیل میں پیش کر چکے ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اولا حریدع هٰذه اللماظة لاهلها “
” لما ظلۃ “ یعنی کتے کا بچا ہوا کھانا ،ملاحظہ فرمایئے امام علیہ السلام کا یہ بیان کتنا اہم ہے ۔آیا ایک حریت پسند ایسا نہیں ہے جو کتّے کی بچی ہوئی غذا اس کے اہل کے لئے چھوڑدے !کتّے کی بچی ہوئی غذا کا کیا مطلب ہے ؟ یہی دنیوی آرائش ،اونچے اونچے محل ،شان و شوکت اور تڑک بھڑک ۔ وہ چیزیں جن کی طرف تمام کمزور دل افراد عبدالملک کے دور میں کھنچے چلے جارہے تھے ۔اسی چیز کو امام علیہ السلام نے لفظ لماظہ سے تعبیر کیا ہے ۔وہ تمام لوگ جو عبد الملک کی غلامی یا اس کے غلاموں کی غلامی میں مشغول تھے یا جو کچھ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں ہو رہا تھا اس سے راضی تھے ،ان سب کا مقصد یہی کتے کی بچی ہوئی غذا کا حاصل کرنا تھا امام علیہ السلام اسی لئے فرماتے ہیں کہ کتے کی بچی ہوئی غذا کے پیچھے نہ بھاگتے پھرو تاکہ مومنین کرام عبدالملک کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر اس کی طرف جذب نہ ہونے پائیں ۔
اس طرح کے نہایت ہی قابل توجہ انقلابی بیانات امام علیہ السلام کے ارشادات میں بہت ملتے ہیں
امام زین العابدین (ع)کی زندگی ( ایک تحقیقی مطالعہ )
مؤلف: حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي حَفَظَہُ اللّٰہُ
ایران سے گوادر بندرگاہ تک بجلی کی ترسیل کے نئے منصوبے کا افتتاح جلد متوقع
کوئٹہ میں ایرانی قونصل جنرل حسن درویش وند نے پاکستانی حکام سے ملاقات کے علاوہ گوادر بندرگاہ کے بجلی کے منصوبے اور اس علاقے میں سمندری سہولیات کا بھی جائزہ لیا۔
ایرانی قونصل جنرل حسن درویش وند نے پاکستان کی بندرگاہ گوادر کے دورے کے موقع پر گوادر کے حکام سے ملاقات کی اور کسٹم کے شعبے میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے نیز مشترکہ سرحدی منڈیوں کو فعال کرنے کے لئے ایران کی آمادگی کا اظہار کیا۔
ایران کے قونصل جنرل درویش وند کا گوادر بندرگاہ کا دورہ ایران سے گوادر بندرگاہ تک بجلی کی ترسیل کے نئے منصوبے کے افتتاح کے نزدیک ہوا جو کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے وزیراعظم کی موجودگی میں اس منصوبے کا افتتاح کیا جائے گا۔
درویش وند نے پاکستانی حکام سے ملاقات کے علاوہ گوادر بندرگاہ کے بجلی کے منصوبے اور اس علاقے میں سمندری سہولیات کا بھی جائزہ لیا۔
انہوں نے دونوں ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان کی زمینی اور سمندری سرحدوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بندرگاہی شہروں میں دونوں ممالک کے تجارتی رابطوں کو فروغ دینے اور سمندری علاقے میں باہمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی اہمیت پر زور دیا۔
درویش وند نے گوادر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سربراہ اور اراکین سے بھی ملاقات کی اور فریقین نے سرحدوں کی ترقی، نقل و حمل کے مسائل، مشترکہ سرحدی منڈیوں کو فعال کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو آسان بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔
ایران فلسطینی قوم اور مقاومت کی حمایت جاری رکھے گا، رہبر معظم کے مشیر برائے بین الاقوامی امور
مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی کے مشیر برائے بین الاقوامی امور علی اکبر ولایتی نے فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ کے ساتھ فون پر گفتگو کی۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران غاصب صیہونی قبضے کے خلاف فلسطینی قوم کے اتحاد کی تعریف کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مشیر برائے بین الاقوامی امور نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ اور فلسطینی عوام کی مقاومت کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
دوسری جانب اسلامی جہاد موومنٹ کے سیکریٹری جنرل نے فلسطینی عوام کے جدوجہد جاری رکھنے اور قابضین کا مقابلہ کرنے کے عزم پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی القدس اور پوری فلسطینی سرزمین کی آزادی تک مزاحمت جاری رکھیں گے۔
النخالہ نے زور دے کر کہا کہ مقاومت عقبہ کانفرنس کی مخالفت اور مذمت کرتی ہے جس میں فلسطینی عوام کے مقاومت کے حق اور مجاہدین کی جد و جہد نشانہ بنایا گیا ہے۔
پاسداران انقلاب نے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملادیا: میجر جنرل باقری
ارنا رپورٹ کے مطابق، ایرانی مسلح افواج کے کمانڈر میجر جنرل محمد باقری نے پاسداران اسلامی انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی کے نام میں ایک پیغام میں ان کو حضرت امام حسین (ع) کے یوم ولات اور پاسدار کے دن پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پاسداران انقلاب اسلامی کا وجودی فلسفہ، جس نے انقلاب کی حفاظت اور نظام اور قوم کی ضروریات کو پورا کرنے اور مختلف دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانے اور ان کو ذلت کا شکار کرنے میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، کی جڑیں مذہبی ثقافت اور تعلیمات اور حسینی عاشورا کا شاندار اور ابدی واقعہ ہے۔
میجر جنرل باقری نے مزید کہا کہ آج امت اسلامیہ کے باوفا اور مجاہد فرزندوں کی ایک بڑی تعداد پاسداران انقلاب اور اسلامی نظام کے نعرے کبساتھ، سامراجیت، دہشت گردی، امریکہ کی دہشت گرد حکومت اور جعلی صہیونی ریاست اور ان کے اتحادیوں کی جنگی جنونیت اور جرائم کے خلاف بہادری اور ایمانداری کے ساتھ کھڑے ہیں۔
دشمن ہمیشہ اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں: ایرانی صدر
، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعہ کے روز یوم ولادت ابا عبد اللہ الحسین (ع) اور مغربی آذربائیجان کے محافظوں کے درمیان یوم پاسدار کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں مزید کہا کہ آج دشمن سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا نام سن کر کے کانپتے ہیں اور اس مقدس فورس کے ساتھ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی الہی اقدار، لوگوں اور وطن کے دفاع کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے یہ تصور کیا ہے کہ ہماری افواج اور ہمارے پیارے جرنیلوں کو قتل کرکے وہ ہماری افواج اور عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کریں گے جو کہ غلط خیال ہے۔
صدر نے مزید کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، دین، قرآن، اسلامی اقدار، وطن عزیز ایران، شریف لوگوں کے دفاع میں محنتی، مستعد، موثر اور مجاہد ہے اور دفاع مقدس میں اس کا شاندار ریکارڈ ہے؛ یہ فورس نقصانات اور حادثات جیسے زلزلے، سیلاب اور مختلف شعبوں میں لوگوں کی وفاداری سے مدد کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دشمنوں نے کئی بار اسلامی ایران کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے اور خود اس کا اعلان کیا؛ اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے میں شکست دشمنوں کی بدستور حالت ہے۔
غاصب صیہونی حکومت سے تعلقات منقطع کئے جائیں، افریقی یونین کے رکن ملکوں کا مطالبہ
سحر نیوز/ دنیا: ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق افریقی یونین نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں میں کسی بھی خود ساختہ اور ناجائز حکومت کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہئے۔ افریقنی یونین نے اپنے رکن ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ غاصب صیہونی حکومت سے اپنا ہر طرح کا رابطہ منقطع کر لیں اور اسے اقوام متحدہ کی قرارداد کا پابند بنانے کی کوشش کریں ۔ یہ مطالبہ افریقی یونین کے اجلاس سے صیہونی حکومت کے نمائندے کو نکال باہر کئے جانے کے بعد، اسرائیل کی جانب سے ردعمل کا اظہار کئے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔
افریقی یونین کے اجلاس میں صیہونی حکومت کا ایک وفد نہایت خفیہ طور پر شامل ہوا تھا جس کا پتہ لگنے پر اسے اجلاس سے نکال دیا گیا تھا۔ افریقی ملکوں نے اپنے سربراہی اجلاس میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت کا کھلا اعلان کیا گیا اور صیہونی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ کئے جانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
امام حسین علیہ السلام صفات الہیہ کا مظہر
مقدمہ
اس سے پہلے کہ اصلی موضوع کے متعلق گفتگو کریں اور شخصیت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کچھ لکھیں اپنے فہم و ادراک کے مطابق سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے سلسلے میں مقدمہ کے طور پر کچھ باتیں پیش کرتے ہیں:
۱: یہ بات متفق علیہ ہے کہ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام، مولائے کائنات سے لیکر امام مھدی علیہ السلام تک ایک ہی نور سے ہیں کہ جو حقیقت محمدیہ ہے۔اس بنا پر اصل خلقت کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ یہ سب انوار الٰہیہ ہیں اور نور محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ہیں۔ اور کمالات و فضائل میں سب برابر ہیں۔ یعنی جو فضیلت کسی ایک امام کے لئے ثابت ہو دوسرے ائمہ کے لیے بھی خودبخود ثابت ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو امامت میں نقص لازم آئے گا کہ جو عقلا باطل اور محال ہے۔
۲: بعض ائمہ علیہم السلام کی زندگی میں کچھ خاص مواقع اور فرصتیں پیش آتی رہی ہیں کہ جو دوسرے اماموں کی زندگی میں پیش نہیں آئی تھیں۔ لہٰذا ائمہ میں سے بعض کے کچھ فضائل و کمالات ظاہر ہوئے اور بعض کے کچھ دوسرے فضائل و کمالات ۔ جیسے بنی امیہ کے سقوط اور بنی عباس کے برسر اقتدار آنے کے دوران امام صادق علیہ السلام کو فرصت ملی کہ آپ نےاس سے مکمل فائدہ اٹھایا اور علمی کارنامہ انجام دینا شروع کئے کہ جس کے نتیجہ میں چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کو تربیت کیا۔دنیا میں اسلام کی واقعی پہچان کروائی اور مذہب تشیع کو عروج عطا کیا۔
اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام موسس تشیع اور مجدد اسلام ہیں تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی ائمہ کے اندر معاذ اللہ اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یا امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور حیرت انگیز کارنامہ انجام دے کر اسلام کو حیات جاودانہ عطا کی تو اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ دوسرے امام یہ کام نہیں کر سکتے تھے یا امام حسن علیہ السلام تکوینی طور پر قیام کرنے سے عاجز تھے۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا قیام پہلے مرحلے پر حسنی ہے دوسرے مرحلے پر حسینی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی خصوصیات
۱: پروردگار عالم نے امام حسین علیہ السلام کےلیے ایک خصوصی حساب و کتاب رکھا ہے جو کسی نبی یا معصوم کے لیے نہیں رکھا۔
کیوں اور کیسے امام حسین علیہ السلام نے اتنا بڑاانعام جیتا ہے؟ اس کا جواب آپ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نہ صرف شیعوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تما م مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک آزاد مردکے عنوان سے پہچانتے ہیں۔اور آپ کے لیے کچھ خاص خصوصیات کے قائل ہیں۔ ہم یہاں پر بعض غیر اسلامی دانشوروں اور مورخین کے اقوال امام حسین علیہ السلام سلسلے میں نقل کرتے ہیں:
ع۔ ل۔ پویڈ لکھتے ہیں:
"امام حسین علیہ السلام نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغییر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت ،غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے ۔امام حسین بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ میں خوشی کا احساس کر رہا ہوں کہ میں اس دن ان لوگوں کے ساتھ جن کی جانثاری اور فداکاری بے مثال تھی شریک ہوا ہوں اگرچہ ۱۳ سو سال اس تاریخ کو گزر چکے ہیں۔
امریکہ کےمشہور ومعروف مورخ اپرونیک، واشنگٹن سے لکھتے ہیں:
"امام حسین علیہ السلام کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے۔ لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت طمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین علیہ السلام نے حیات ابدی کا سودا کر لیا ، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسور، اے میرے حسین علیہ السلام"۔
۲:امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گریہ کیا ہے۔ اور شہادت کے بعد قیامت تک گریہ کرتے رہے گے ایسا حادثہ کسی کے لیے نہ پیش آیا ہے اور نہ پیش آ ئےگا۔ ہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لیے بھی آسمان نے گریہ کیا تھا۔ تفسیر مجمع البیان میں اس آیت " فما بکت علیھم السماء وا لارض " کے ضمن میں مرحوم طبرسی نے فرمایا: دو آدمیوں جناب یحیی علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے آسمانوں اور فرشتوں نے چالیس دن تک گریہ کیا ۔ اور اسی تفسیر میں آیا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چالیس دن تک سرخ حالت میں رہا ہے ۔ ابن شہر آشوب کے مناقب میں یوں آیا ہے:
بکت السماء علی الحسین علیہ السلام اربعین یوماً۔( تفسیر صافی ، سورہ دخان)۔
۳: امام حسین علیہ السلام تمام کمالات اور فضائل میں تمام انسانوں سے برتر تھے۔ کیوں آپ کی کنیت ابا عبدا للہ ہے ۔ کیا یہ ایک معمولی سی کنیت ہے؟ بظاہر اس کنیت کے اندر ایک ایسی خصوصیت ہے جو آپ کو تمام کمالات کا محور اور مرکز قرار دیتی ہے۔
ابو عبد اللہ یعنی اللہ کے بندے کا باپ۔ باپ کا ایک خاندان میں بنیادی رول ہوتا ہے۔وہ اس خاندان کے لیے نمونہ ہوتا ہے۔ باپ ایک مربی ہوتا ہے۔ پس امام حسین علیہ السلام بھی تمام اللہ کے بندوں کے باپ ہیں یعنی تمام عبادتگذار انسانی کمالات حاصل کرنے کے لیے آپ کے در پہ آتے ہیں ۔ وہ ہر کمال کا نمونہ ہیں اور ہر کمال آپ میں خلاصہ ہوتا ہے۔
۴: امام حسین علیہ السلام کی زیارت حج اور عمرہ کے مترادف ہے۔ بہت ساری روایات میں آیا ہے کہ اگر کسی دن ایسا ہو کہ خانہ خدا حجاج سے خالی ہو جائے تو اس وقت تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہو جاتا ہے کہ بیت اللہ کی زیارت کرنے جائیں۔ اگر چہ مستطیع نہ بھی ہوں یا حج واجب ادا کر چکے ہوں۔ مرحوم صدوق رضوان اللہ علیہ نے یہی بات امام حسین علیہ السلام کے روضے کے بارے میں لکھی ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوکہ امام حسین علیہ السلام کا روضہ زائرین سے خالی ہو جائے تو تمام شیعوں پر واجب کفائی ہو جائے گا کہ امام کی زیارت کرنے جائیں۔ امام کا روضہ زائرین سے خالی نہیں رہنا چاہیے۔( نقل از آیت اللہ مرعشی نجفی)
کیا امام حسین علیہ السلام کی زیارت خانہ خدا کی زیارت کے برابر ہے؟
یا یہ کہا جائے کہ امام کی زیارت کا ثواب خانہ خدا کی زیارت سے زیادہ ہے یا برابر ہے؟۔ سب سے بڑی دلیل اس سلسلے میں یہ ہے : اس میں کوئی شک نہیں کہ خانہ خدا جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے اس کی عظمت، حرمت اور اس کا احترام جناب ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو تعمیر کیا ہے۔ اور یہی ابراہیم جب حکم خدا سے اپنے فرزند اسماعیل کو ذبح کرنے لگتے ہیں تو آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کئی اسماعیل راہ خدا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن آنکھوں پر پٹی نہیں باندھتے۔ پس زمین کربلا کہ جو فخر اسماعیل علی اکبر اور علی اصغر اور فخر ابراہیم امام حسین علیہم السلام کو اپنی آغوش میں سلائے ہوئے ہے اس کی زیارت خانہ خدا کی زیارت سے اگر زیادہ ثواب نہیں رکھتی تو کسی قیمت پر کم بھی نہیں رکھتی۔
۵: امام حسین علیہ السلام اپنے والد بزرگوارمولاے متقیان علیہ السلام کی طرح رات کی تاریکی میں اپنے دوش پر اناج کر فقراء کے گھروں تک پہنچاتے تھے۔ حتیٰ آپ کی شہادت کے بعد بھی آپ کی پشت پر کچھ ایسے زخم تھے جو نہ تلوار کے زخم تھے اور نہ نیزہ کے بلکہ اناج کی بوریاں اٹھانے کی وجہ سے یہ زخم پڑے تھے۔ لہذا جب امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا گیا فرمایا: یہ زخم فقراء اور مساکین کے گھروں تک غذا پہنچانے کے ہیں۔ اس حدیث کو دوسروں نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ جیسے ابن جوزی نے کتاب تذکرۃ الخواص اور ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں۔
امام حسین علیہ السلام اور دینی حکومت
الٰہی نمائندوں اورآسمانی راہنماؤں نےاپنی آخری سانسوں تک دینی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اورظلم و ستم سے بشریت کو نجات دلانے کے لیے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں ۔ امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد بنی امیہ کے بر سر اقتدار آنے سے اسلامی حکومت استعماری حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ حکام نے اسلامی خلیفہ کے عنوان سے اسلام کو کھلونہ بنا لیا۔
سماج میں نسل پرستی شروع ہوگئی حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کو تمام اسلامی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جانے لگا۔ شعیوں پر زندگی نہات تنگ کر دی گئی۔ علی علیہ السلام اور ان کے خاندان سے محبت عظیم جرم شمار ہونے لگا کہ جو شیعوں کی محرومیت کا سبب بن گیا۔ معاویہ اور اسکے تمام اہلکاروں کو قتل و غارت کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ اسلام کومکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش رچائی گئی۔
بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ کیوں امام حسین علیہ السلام نے زندگی کو خطرے میں ڈال دیا اور حکومت وقوت کے ساتھ صلح نہیں کی؟
مگر چین و سکون کی زندگی کیاہے؟ چین وسکون کی زندگی الٰہی رہبروں کے نزدیک یہ ہے کہ معاشرہ چین و سکون سے زندگی گذارے۔ لوگ اپنی زندگی پر راضی ہوں، آزادی ہو ظلم وستم نہ ہو،قوم پرستی اور نسلی تعصب نہ پایا جاتا ہو۔
امام حسین علیہ السلام اس وقت آرام کی زندگی گذار سکتے ہیں جب لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوتے اور لوگ اپنے مذہب پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکتے، نہ یہ کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جائے اور وہ تنگ ماحول میں زندگی گذار رہے ہوں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک گروہ دوسروں کے حقوق مار کر شان و شوکت کی زندگی بسر کر رہا ہو اور خوشیوں سے مزے اڑا رہا ہو اور دوسرا گروہ ایک لقمہ نان کے لیے ترس رہا ہو۔
حسین علیہ السلام اس علی (ع) کا بیٹا ہیں جنہیں ہمیشہ بے کسوں اور بے بسوں کی فکر لاحق رہتی تھی۔ اور محروم اور مظلوم لوگوں کوظالموں اور ستمگروں سے نجات دلانے میں کوشاں رہتےتھے۔ راتوں کو اناج اپنے کاندھوں پر اٹھاتے اور فقراء کے گھروں تک پہنچاتے تھے اور کبھی بھی ایک ساتھ دوقسم کی غذا تناول نہیں کرتے تھےاور فرماتے تھے: میں کیسے نیا لباس پہنوں اور پیٹ بھر کے کھانا کھاؤں حالانکہ ممکن ہے اسلامی ممالک میں کوئی بھوکا اور برہنہ ہو۔
امام حسین علیہ السلام اور آزادی
حریت اور آزادی ہر نظام کی بقاء کے لیے ایک بنیادی اصل اور اساسی رکن ہے۔قوموں کو آزادی دلاناپیغمبروں کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف رہا ہے۔ وہ آئے تاکہ بشریت کو آزادی دلائیں۔ انسانی سماج کو سپر پاور اور ڈکٹیٹر شپ سے نجات دلائیں۔ آزادی ایسی چیز ہے جسے دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے حتیٰ حیوانات اور دیگر موجودات بھی آزادی کو دوست رکھتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام دنیائے اسلام پر ایک گہری نگاہ ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بنی امیہ کے اقتدار سنبھالنے اور دین اسلام کا کھلواڑ بنانے سے اسلام کا نام ونشان بھی مٹ رہا ہے۔ اسلامی احکام اور قوانین، انحراف کا شکار ہو گئے ہیں شیعہ جو اسلام کے واقعی ماننے والے تھے محرومیت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
اس حالت کودیکھ کر فرزند علی علیہ السلام جگر گوشہ بتول علیہا السلام اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتےکہ خاموشی سے بیٹھ جائیں اور تماشہ دیکھتے رہیں۔ وہ علی علیہ السلام کا لال ہے اسے میدان میں نکلنا پڑے گا اور طاغوت اور یزدیت کو صفحہ ہستی سے نابود کرنا پڑے گا۔
آپ بار بار یہ کہتے ہوئے جارے رہے تھے: اذا بلیت الامۃ علی مثل یزید بن معاویہ فعلی الاسلام السلام۔ یعنی جب بھی اسلامی امت یزید جیسے ملعون کے ہاتھوں گرفتار ہو گی تو اس وقت اس اسلام پر فاتحہ پڑھنی پڑے گی۔ لہذا امام حسین علیہ السلام نے امت اسلامیہ کی آزادی کی خاطرقیام کر کے ایک عظیم انقلاب رونما کر دیا۔
امام حسین (ع) کی زیارت کا ثواب
شیخ صدوق نے کتاب " امالی" میں عبد اللہ بن فضل سے روایت کی ہے، ان کا کہنا ہے : میں امام صادق علیہ السلام کے پاس تھا کہ طوس کا رہنے والا ایک آدمی گھر میں داخل ہوا اور امام سے سوال کیا : اے فرزند رسول! جو شخص امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرے اسے کیا ثواب ملے گا؟۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اے طوس کے رہنے والے! جو شخص امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرے گا اس معرفت کے ساتھ کہ امام واجب الاطاعت ہیں یعنی خدا وند عالم نے تمام انسانوں پر واجب کیا ہے کہ ان کی اطاعت کریں ، تو خدا اس کے گذشتہ اور آئندہ کے تمام گناہوں کومعاف کر دے گا۔ اس کی شفاعت کو ستر(۷۰) گناہگاروں کے حق میں قبول کرے گا اور امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پاس انسان جو حاجت بھی طلب کرے گا خدا اسے بھر لائے گا۔(امالي صدق، ص 684، ح 11، مجلس 86).
امام حسین علیہ السلام کی عفو و گذشت
بعض اخلاقی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ عصام بن مصطلق نے کہا: میں مدینہ میں داخل ہوا امام حسین علیہ السلام کو دیکھا کہ عجیب طرح کی چہرہ پہ نورانیت اور ہیبت تھی۔ میں حسد سے جل گیا اور ان کے باپ کی نسبت جو میرے سینے میں بغض و کنہ تھا وہ ابھر آیا میں نے ان سے کہا: پس ابوترابی آپ ہی ہیں؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ جب انہوں نے جواب میں ہاں کہا، میں نے جوکچھ میری زبان پر آیا انہیں اوران کے باپ کو کہااور گالیاں دی۔امام حسین علیہ السلام نے ایک محبت بھری نگاہ سے میری طرف دیکھا اور فرمایا:
" آعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عفو اور بخشش کو اپنا پیشہ بنا لو اور نیکی اور صبر کی تلقین کرو، اور جاہل لوگوں سے منہ موڑ لو۔ اور جب شیطان تمہیں وسوسہ میں ڈالنا چاہے تو خدا کی پنا لو بتحقیق وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ صاحبان تقویٰ جب شیطانی وسوسوں اور توہمات میں گرفتار ہوتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور فورا آپے سے باہر آتے ہیں اور باخبر ہو جاتے ہیں لیکن شیاطین اپنے بھائیوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں اور اس کے بعد انہیں گمراہ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے۔( سورہ اعراف، ۱۹۹،۲۰۲ )
ان آیات کی تلاوت کے بعد مجھے فرمایا:
تھوڑا آہستہ آہستہ اوراپنے حواس میں رہو، میں اپنے لیے اور تمہارے لیے خدا سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اگر تمہیں مدد کی ضرورت ہے تو تمہاری مدد کرتا ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو عطا کرتا ہوں اور اگر راستہ بھول گئے ہو تو رہنمائی کرتاہوں ۔
عصام کہتا ہے: میں اپنے کئے پہ پشیمان ہوا اور امام نے جب میرے چہرے پہ شرمندگی کے آثار دیکھے تو فرمایا:
کوئی اشکال اور عیب نہیں ہے خدا آپ کو معاف کر دے گا۔ وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔( سورہ یوسف ۹۲)
اس کے بعد فرمایا: کیا تم شام کے رہنے والے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: حیانا اللہ و ایاک۔ یعنی خدا ہمیں اور آپ کو زندہ رکھے۔ اور اسکے بعد فرمایا: شرم مت کرو جو تمہیں چاہیے ہے مجھ سے مانگو۔ اور اگر ہم سے کچھ طلب کیا توہمیں اپنے گمان سے بھی زیادہ عطا کرنے والا پاؤ گے۔
عصام کہتا ہے : زمین مجھ پر تنگ ہو گئی میں سوچ رہا تھا زمین پھٹے اور میں دفن ہو جاؤں اس لیے کہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے امام سے دور ہوتا ہوا دور ہو گیا، لیکن اس کے بعد روۓ زمین پر امام حسین علیہ السلام اور ان کے باپ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی محبوب نہیں تھا ۔(سفينة البحار، ج 2، ص 116)
ایک سائل کے ساتھ امام کی رفتار
شیخ ابو محمد حسن بن علی بن شعبہ صاحب کتاب " تحف العقول" نقل کرتے ہیں :
انصار کا ایک آدمی امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سےاپنی حاجت طلب کرنا چاہتا تھا، امام نے اس سے فرمایا:
اے بھائی ، اپنی عزت کا خیال رکھو، اپنی حاجت کو ایک کاغذ پہ لکھو اور مجھے دو انشا ء اللہ تمہیں راضی کروں گا۔
اس آدمی نے لکھا: میں فلاں شخص کےپانچ سو دینار کا مقروض ہوں اوروہ اس کے واپس لینے میں اصرار کر رہا ہے۔ آپ سے تقاضا کر رہا ہوں کہ اس سے کہیں کہ مجھے اتنی مہلت دے جب تک میں آمادہ کرتا۔
جب امام حسین علیہ السلام نے اس کے نوشتہ کو پڑھا فورا گھر تشریف لے گئے اور اس تھیلی کو جس میں ہزار دینار تھے لا کے اسے دیا اور فرمایا:
پانچ سو دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور پانچ سو کو اپنے پاس محفوظ رکھو تاکہ مشکلات میں تمہاری مدد ہو سکے۔ اور یاد رکھو اپنی حاجت کو ان تین آدمیوں کے علاوہ کسی سے طلب نہ کرنا جن کو میں پہچنوا رہا ہوں:
۱: متدین اور دیندار، ۲: سخی اور اہل کرامت، ۳: وہ شخص جو شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔( تحف العقول ، ص 245)
امام حسین (ع)کا تواضع اور انکساری
روایت میں ہے کہ عاشورا کے دن امام علیہ السلام کے پشت مبارک پر کچھ اثرات رونما تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے ان کی وجہ معلوم کی گئی۔ آپ نے فرمایا: هذا مما كان ينقل الجراب علي ظهره إلي مناز الأرامل و اليتامي و المساكين یہ اثرات اس بوجھ کے ہیں جو آپ اپنی پشت پر اٹھا کر بیواؤں ، یتیموں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔( مناقب ابن شهر آشوب، ج4، ص 66).
امام حسین علیہ السلام کا احسان
انس کہتے ہیں: میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں تھا ایک کنیز داخل ہوئی اور پھولوں کا گلدستہ امام کو ہدیہ دیا۔ امام نے فرمایا:
تم راہ خدا میں آزاد ہو۔
عرض کیا: اس نے آپ کے لئے پھولوں کا ایک گلددستہ لایا ہےکہ جس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ آپ اس کو آزاد کر دیں۔ امام نے فرمایا:
خدا نے اسی طرح کا ہمیں ادب سکھایا ہے۔ اور قرآن میں فرمایا: و إذا حُييتُم بِتَحِية فَحَيوا بِأَحسَن مِنها أو رُدُّوها." ( نساء/86 جب تمہیں کوئی سلام کرے یا تمہارے ساتھ احسان کرے تم یا تو اس کا ویسا ہی جواب لوٹا دو یا اس سے بہتر جواب دو۔ اور
اس کے احسان سے بہتر اس کو آزاد کرنا ہی ہے۔(كشف الغمة، ج 2، ص 31.)
بقلم :سید افتخار علی جعفری
source : www.islamquest.net
اسلامی جمہوریہ نے لبرل ڈیموکریسی کے عزائم کو ناکام کر دیا، رہبر انقلاب اسلامی
،مجلس خبرگان (ماہرین اسمبلی) کے سربراہ اور اراکین نے جمعرات کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں ماہ شعبان کی آمد اور اس مہینے کے مبارک ایام کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، ماہرین اسمبلی کو جمہوریت اور اسلامیت کے اکٹھا ہونے کا حقیقی مظہر بتایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اسمبلی، جمہوریت کے صحیح اور مکمل طور پر عملی جامہ پہننے کے سائے میں، عوام کی منتخب اسمبلی ہے اور ساتھ ہی یہ علمائے دین پر مشتمل ہے اور نظام کی دینی ماہیت کی عکاسی کرتی ہے۔
انھوں نے ماہرین اسمبلی کی پوزیشن، اہمیت اور حساسیت کو نظام کے کسی بھی مرکز اور ادارے سے زیادہ بتایا اور کہا کہ یہ اسمبلی، رہبر انقلاب کا تعین کرنے والی بھی ہے اور اپنی نگرانیوں کے ذریعے قیادت کی موجودگی اور اس کی شرائط کے جاری رہنے کو یقینی بناتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امور مملکت پر ماہرین اسمبلی کی نگرانی کو، اعلی اسلامی قیادت کی خواہش اور ایک صحیح کام بتایا اور کہا کہ سارے مسائل سے زیادہ اہم، ماہرین اسمبلی کے ارکان کے ادارے کے اندر اور باہر کی ذمہ داریوں پر سنجیدگي سے عمل ہے۔
انھوں نے رہبر انقلاب کی شرائط کے تحفظ اور آئين میں درج رہبر کی ذمہ داریوں اور دیگر حتمی فریضوں کی نگرانی کو بہت اہم بتایا اور کہا کہ قیادت کی سب سے اہم ذمہ داری، انقلاب کی صحیح سمت میں ملک اور نظام کے اہم حصوں کو آگے لے جانا ہے تاکہ اصل راستے سے انحراف پیدا نہ ہونے پائے اور اسلامی انقلاب، دوسرے انقلابوں کی طرح راستے سے نہ ہٹ جائے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ماہرین اسمبلی سے دشمنی کو، اسلامی جمہوریہ سے دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ سے کچھ دشمنی، سیاسی مسائل اور فلسطین جیسے معاملات میں اس کے موقف کی وجہ سے ہے لیکن کچھ دشمنیاں، خود نظام اور اس کے ڈھانچے سے ہیں۔
انھوں نے ایران کے اسلامی نظام سے دشمنی کی وجہ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ان افراد کے مقابلے میں ڈٹ گئی جو مغربی جمہوریت پر ایمان رکھتے ہیں اور سماجی مسائل میں دین کی ہر قسم کی دخل اندازی کے خلاف ہیں، اسی طرح یہ نظام لبرل ڈیموکریسی کے سرغناوؤں کے سامنے بھی ڈٹ گيا جنھوں نے آزادی اور جمہوریت کے جھوٹے پرچم کے سائے میں دنیا پر قبضے اور اس کے وسائل کو لوٹنے کی سازش تیار کر رکھی ہے، اسلامی جمہوری نظام نے، دین کے ساتھ، جمہوریت اور آزادی کو اکٹھا کر کے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ماہرین اسمبلی کے ارکان کی دوسری خصوصیت، ان کا عالم دین ہونا ہے اور اسلامی جمہوریہ کی مضبوط عوامی بنیاد اور عوام و نظام کا ایک دوسرے سے مضبوط رشتہ اور ایک دوسرے پر بھروسہ، ایسا قومی سرمایہ اور دنیا میں ایسی ناقابل انکار اور بے نظیر یا کم نظیر حقیقت ہے جس کی جھلکیاں ہم نے کورونا کی وبا کے ایام میں اور قدرتی آفات کے وقت امداد میں عوامی شرکت میں دیکھی ہیں۔
انھوں نے اس سال 22 بہمن مطابق 11 فروری کے جلوسوں کو، اسلامی جمہوری نظام کی مضبوط عوامی بنیادوں کی ایک اور جھلک بتایا اور کہا کہ دنیا میں ایک سیاسی بات کے لیے کہاں پر اس طرح کا عظیم الشان عوامی اجتماع دکھائي دیتا ہے جس میں عوام اتنی کثرت سے اور رجحانوں اور آبادی کے اتنے تنوع کے ساتھ، کمر خمیدہ ضعیفوں سے لے کر بچوں اور نوجوانوں تک چالیس پینتالیس سال سے لگاتار ہر برس اور موسم کی سختیوں کے باوجود، ہر سال میدان میں آتے ہیں؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ عوامی شرکت نے، ہم عہدیداران اور علماء پر حجت تمام کر دی ہے اور اس قومی سرمائے پر صرف فخر کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں اس سرمائے کی لگاتار حفاظت کرنی ہے، اس میں اضافہ کرنا ہے اور اس سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل کرنا ہے۔
انھوں نے عوامی موجودگي اور مضبوط عوامی بنیاد کی بے پناہ اور خطروں کو دور کرنے والی دولت کو نظام کے لیے حیاتی بتایا اور کہا کہ علماء پر، چاہے ان کے پاس سرکاری عہدہ ہو یا نہ ہو، اس عظیم سرمائے کی حفاظت کے لیے بھاری ذمہ داریاں ہیں جن میں سب سے اہم 'تشریح کا جہاد' ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں عوام میں امید پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی دائمی پالیسی، مایوسی پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے 1990 میں ایک سیاسی گروہ کی جانب سے ملک کے ایک اعلی رتبہ عہدیدار کو لکھے گئے خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وفات کے ایک سال بعد اس گروہ نے پوری طرح مایوسی پھیلانے والے کھلے خط میں لکھا تھا کہ ملک اور قوم تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو لوگ خود اور ان کی شخصیت تباہی اور بربادی کے دہانے پر ہے، وہ ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں، جن کے دل اور ذہن امید سے لبریز ہوتے ہیں وہ مسائل اور حالات کو امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
اس ملاقات کی ابتدا میں، ماہرین اسمبلی کے نائب سربراہ حجت الاسلام سید ابراہیم رئيسی نے کونسل کے گيارہویں اجلاس کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔
اعمال ماه شعبان/ رسول اللہ (ص) کی یاری روزے کے ساتھ
ایکنا نیوز کے مطابق بدھ کو شعبان المبارک کا پہلا دن اعلان کیا گیا ہے اور یہ مہینہ پیغمبراعظم(ص) کا مہینہ کہلاتا ہے. روایت میں ہے کہ جب رسول اسلام(ص) نے شعبان کے چاند کو دیکھا تو منادی سے کہا کہ اعلان کرو: «اے لوگو! یہ میرا مہینہ ہے اور، خدا رحمت کرے اس شخص پر جو میری مدد کرے روزہ داری کے ساتھ».
شعبان ایام شعبان کے اہم ایونٹ اور بالخصوص میلاد امام حسین(ع)، میلاد حضرت عباس(ع)، میلاد امام زینالعابدین(ع) اور میلاد نجات دہندہ عالم بشریت حضرت حجت(عج) کا مہینہ ہے. یہ مقدس مہینہ جو ماه رمضان کے مقدمے کا مہینہ ہے اس میں بعض مستحب اعمال کی تاکید کی گیی ہے، تاکہ انسان رمضان المبارک کے مقدس میں پاکیزہ داخل ہوسکے۔
اس اعمال میں ہر روز ستر بار ذکر: «اسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَ أَسْأَلُهُ التَّوْبَهَ» تاکید کی گیی ہے. اسی طرح ہر روز ۷۰ مرتبه : «أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِی لا إِلَهَ إِلا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیمُ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَ أَتُوبُ إِلَیْهِ» کہنا مستحب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں بہتر ذکر اور دعا استغفار کہنا ہے اور جو روزانہ ستر بار استغفار پڑھے ایسا ہے کہ دوسرے اوقات میں ستر ہزار بار استغفار پڑھے۔
صدقہ دینا بھی تاکید شدہ ہے اور روایت میں کہا گیا ہے کہ اس مہینے میں صدقہ دینے سے خدا انسان کے جسم کو آتش جہنم پر حرام کردیتا ہے۔
اس مہینے میں روزے کی بھی کافی تاکید آئی ہے اور جب امام صادق علیهالسلام سے سوال کیا گیا: یابن رسول اللّه جو اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھے تو اسکا کیا ثواب ہے ؟ فرمایا خدا کی قسم اس کا بدلہ جنت ہے۔
دیگر اعمال میں پورے مہینے میں ایک ہزار بار: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَ لا نَعْبُدُ إِلا إِیَّاهُ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ وَ لَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ پڑھنا اور بہت زیادہ درود بھیجنا مستحب ہے۔/
حجاب کی عادت
میری بیٹی بالغ ہو چکی ہے، اسے کس طرح حجاب کا عادی بناؤں؟
حجاب انسانیت کی قبول کردہ اقدار میں سے ایک ہے جو اکثر معاشروں میں رائج ہے۔
چند نکات
حجاب سے متعلق والدین کے لیے کچھ نکات مندرجہ ذیل ہیں:
تربیتی عمل کی رعایت کرنی چاہیے (تربیت ایک نا ہموار سڑک کی طرح ہے کہ جس پر تیز رفتاری سے ڈرائیونگ نہیں کی جا سکتی اور بعض اوقات خطرناک موڑ پر آہستہ رفتار کی ضرورت ہوتی ہے)
والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے لیے ایک بہترین رول ماڈل بنیں
آپ کی بیٹی کی صحبت ان ہم سن سہیلیوں کے ساتھ ہو جو حجاب کی رعایت کرتی ہوں
اپنی بیٹی کو پردہ کرنے کی تشویق کریں لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے اختیار کے ساتھ حجاب کی رعایت کرے اور زور زبردستی سے کام نہ لیں
حجاب کی ضرورت و اہمیت کو واضع کریں اور منطقی دلائل سے وضاحت کریں جس کا سمجھنا اس کے لیے آسان ہو
والدین کے لیے کچھ ضروری ہدایات
منطقی رویہ*
حجاب کا خیال نہ رکھنے والی خواتین سے ہمارا رویہ منطقی ہونا چاہیے۔ مثلا یہ نہ کہیں کہ کتنی خراب عورت ہے بلکہ یہ کہیں کہ کتنا برا کام انجام دے رہی ہے۔
حجاب کی رعایت*
خود والدہ حجاب کی رعایت کرے اور با حجاب خواتین سے مہربانی سے پیش آئے۔
سوشل میڈیا کی مدیریت*
سوشل میڈیا ایک بہت ہی برا رول ماڈل ہے۔ ہمیں عقل مندی کے ساتھ اس کی مدیریت کرنی چاہیے۔
سخت رویے سے گریز*
ایسا کام نہ کریں جس سے ہمارے بچے چادر سے بد ظن ہو جائیں۔
معنوی ماحول سے تعلق*
معنوی ماحول سے اپنا تعلق قائم رکھیں۔ حیا اور حجاب کی رعایت کے لیے اہل بیت ؑ کی سیرت اپنے بچوں سے بیان کریں۔
آئیڈیل خواتین کا تذکرہ*
اپنی بیٹی کے سامنے تاریخی کامیاب خواتین کا ذکر کریں جو حجاب کی رعایت کرتی تھیں کیونکہ ممکن ہے کہ آپ کی بیٹی ان کامیاب خواتین کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دے