سلیمانی

سلیمانی

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
ثُمَّ تَوَلَّيْتُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۖ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿بقرہ ٦٤﴾

ترجمہ: پھر تم اس (پختہ عہد) کے بعد پھر گئے۔ سو اگر تم پر اللہ کا خاص فضل و کرم اور اس کی خاص رحمت نہ ہوتی تو تم سخت خسارہ (گھاٹا) اٹھانے والوں میں ہو جاتے.

? تفســــــــیر قــــرآن: ?

1️⃣ اللہ تعالى كا عہد و پيمان جو انسانوں كے ساتھ ہے انكى پابندى ضرورى ہے_
2️⃣ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كى عہد شكنى كا گناہ معاف فرما ديا
3️⃣ خطا و گناہ كے بعد فضل و رحمت كا ذكر كرنا يہ عفو و بخشش كى طرف كنايہ ہے
4️⃣ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كى عہد شكنى اور تورات كے فرامين سے منہ پھيرنے كے باوجود ان پر اپنا فضل و رحمت نازل فرمايا
5️⃣ عہد و پيمان الہى كو توڑنے كى وجہ سے بنى اسرائيل اپنے خسارے اور اپنى ہستى كى تباہى كے گڑھے پر آ كھڑے ہوئے
6️⃣ اللہ تعالى كا فضل و رحمت بنى اسرائيل كو نقصان اور خسارے سے نجات دلانے كا باعث بنا
7️⃣ عہد و پيمان الہى كو توڑنا انسان كے لئے زياں كار بننے اور اس كى ہستى كى تباہى كا باعث ہوتاہے

حوزہ نیوز ایجنسی؍

تفسیر؛عطر قرآن:تفسیر سورۂ بقرہ

تہران، ارنا - اسلامی اتحاد کا دوسرا علاقائی سربراہی اجلاس "انقلاب کے دوسرے مرحلے میں اسلامی مذاہب اور جدید اسلامی تہذیب" کے عنوان سے وسطی ایشیا کے بعض علماء کی شرکت کے ساتھ ایران کے شمالی شہر گرگان میں منعقد ہوگا۔

اسلامی اتحاد کا دوسرا علاقائی سربراہی اجلاس "انقلاب کے دوسرے مرحلے میں اسلامی مذاہب اور جدید اسلامی تہذیب" کے عنوان سے وسطی ایشیا کے بعض علماء کی شرکت کے ساتھ ایران کے شمالی شہر گرگان میں منعقد ہوگا۔

تقریباً چار مہینے پہلے  تقریب اسلامی مذاہب کے سیکرٹری جنرل علامہ حمید شہریاری نے اسلامی اتحاد  کے 36 ویں  بین الاقوامی کانفرنس کی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اس سال کی کانفرنس اور پچھلے سالوں کی کانفرسوں کے درمیان ایک فرق صوبائی صلاحیتوں کا استعمال ہے۔

 

شہریاری نے سنندج میں منعقد ہونے والی پہلی علاقائی کانفرنس کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں عراقی علاقے کردستان سے تقریباً 70 سیاست دانوں اور سائنسدانوں کے علاوہ  ایران کے کردستان، آذربائیجان اور کرمانشاہ کے صوبوں سے 300 سے زائد تعلیم یافتہ مہمانوں نے شرکت کی تھی اور کردستان، آذربائیجان اور کرمانشاہ جیسے صوبوں سے نے شرکت کی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایسی کانفرنس ایرانی اور عراقی دانشوروں کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کا باعث اور ملک کے اندر بھی اسلامی انقلاب اور ولایت فقیہ کی حمایت کرنے والے علماء کی امید کا باعث بن گئی۔

قابل ذکر ہے کہ یہ کانفرنس 14 فروری سے 2 دنوں تک ایران کے شمالی شہر گرگان میں ایران، روس، ترکمانستان، ازبکستان، کرغزستان اور قازقستان کے سنی اور شیعہ مفکرین اور علماء کی موجودگی کے ساتھ منعقد ہوجائے گی۔

یہ بات آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نےبروز پیر چین کے دورے پر روانگی سے پہلے مہرآباد کے ہوائی اڈے میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سفر دوست ملک چین کے صدر کی دعوت پر ہےاور اس سفر میں سب سے پہلے ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ اسٹریٹجک دستاویز کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے بہت سے تعلقات ہیں لیکن دونوں ممالک کے تعلقات بالخصوص اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں بہتر بنانے کی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور بدقسمتی سے اس حوالے سے ہم بہت پسماندگی کا شکار ہیں۔

 رئیسی نے بتایا کہ چین اور ایران جیسے ممالک میں بہت سی صلاحیتیں ہیں اور دو آزاد ممالک کی حیثیت سے خطے اور دنیا میں ان کے مشترکہ مفادات ہیں، لہذا ہمیں دونوں ممالک کے تعلقات میں موجودہ اس پسماندگی کا ازالہ کرنا ہوگا۔

ایکنا نیوز کے مطابق تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے جنرل سیکریٹری نے رهبر معظم انقلاب کے نام انقلاب اسلامی کی سالگرہ پر تہنیتی پیغام میں لکھا ہے: انقلاب اسلامی حقیقی معنوں میں مظلوم اور مجاہد فلسطینی عوام کی امید اور تکیہ گاہ ہے اور صہیونیوں کی امریکی اور مغربی سپورٹ کے باوجود آج فلسطینی عوام بہترین طاقتور پوزیشن میں ہے۔

سوا الاخباریه نیوز کے مطابق زیاد النخاله نے خط میں حضرت آیت الله العظمی امام خامنه‌ای(مدظله‌العالی) کو سالگرہ پر مبارک باد پیش کرتے ہویے لکھا ہے:انقلاب اسلامی نے علاقائی صورتحال کو یکسر بدل دیا اور عالمی سطح پر تبدیلیاں آچکی ہیں۔

النخاله کا کہنا تھا: انقلاب اسلامی  ایران حریت پسندوں کے لیے پناہگاہ اور آزادی طلب افراد کے لیے امید کا بلند پرچم ہے۔

تحریک جہاد اسلامی رہنما کا کہنا تھا کہ «انقلاب اسلامی مجاہد و مظلوم فلسطین کے لیے امید کا مرکز ہے» اور آج ہم طاقت ور پوزیشن میں کھڑے ہیں۔

فلسطینی رہنما نے دعا کرتے ہویے کہا: خدا سے دعا ہے کہ ایران اور رہبر معظم کو اپنی پناہ میں محفوظ رکھے اور فلسطینی کامیابی سے اس سلسلے کو یادگار بنائے۔/

 


اسلامی انقلاب سے پہلے سرزمین ایران بیہودہ اور بھیانک رخ کی جانب رواں دواں تھا۔ مجموعی طور پر ایران کی مذہبی، سیاسی، اقتصادی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی حالت نہایت ابتر تھی۔ انقلاب سے قبل قاجار اور پہلوی کی ذلت آمیز اور مطلق العنان بادشاہت میں یہ سرزمین بے راہ روی، عریانیت، اخلاقی پسماندگی، سیاسی غلامی اور لاقانونیت کی مثال بن گئی تھی۔ ہزاروں سالہ شہنشاہیت نے اس سرزمین کو فتنہ و فساد، ظلم و جبر اور قتل و غارتگری جیسی ہزاروں سماجی برائیوں کا آماجگاہ بنا دیا تھا۔ نااہل اور ناجائز حکمرانوں نے استحصالی نظام تشکیل دیا تھا۔ جہاں دولت کی ہوس میں انسانی و اسلامی اقدار کی توہین کی جا رہی تھی۔ حکومت کے کارندے، علمائے کرام اور باحجاب خواتین کی توہین کرتے تھے، ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا، ان پر طرح طرح کے مصائب اور مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔

ان تمام مسائل و مشکلات کے باوجود علمائے کرام کے سرپرستی میں ایران کا غیور اور باشعور طبقہ ظلم و ظالم کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ سختیاں برداشت کیں، مصائب کو گلے لگایا۔ جیلوں کو ترجیح دی۔ سڑکوں پر خون بہایا، لیکن سامراجی زرخرید حکومت سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ ظلم و ظالم کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، بلکہ تمام فتنوں کے مقابلے میں آکر انسانی و اسلامی اقدار کو ذلت آمیز حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروایا۔ سرزمین ایران پر غیور عوام اور اسلام نے شہنشاہیت کی تاریک تاریخ سے نکل کر سُرخروئی اور سرفرازی حاصل کی۔ اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد کی تاریخ کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلامی انقلاب تاریخ کا ایک پاورفُل، مستحکم، محکم اور صالح انقلاب ثابت ہوا۔

حقیقت یہ ہے انقلاب اسلامی سے پہلے دنیا کی تاریخ الگ ہے اور انقلاب اسلامی کے بعد کی تاریخ پہلے کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔ انقلاب اسلامی نے نہ صرف سرزمین ایران کی تاریخ بدل ڈالی بلکہ دنیا بھرمیں اس صالح اور معاشرہ ساز انقلاب نے گہرے اثرات چھوڑ کر تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ عرب و عجم کی سیاست میں تاریخ ساز تبدیلیوں کو جنم دیا۔ دنیا بھر کے ہر آزاد منش انسان کی فکری ترجمانی کرکے ان کے اندر مزاحمت، جرائت، شجاعت، صبر و استقلال اور عزم و اسقلال اور یقین محکم کے جذبات بیدار کئے۔ بیسویں صدی کا یہ عظیم الشان انقلاب نہ فقط ایران بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور مستضعف قوموں کے لئے اُمید بن کر ظہور پذیر ہوا۔ اس انقلاب نے ایک منصفانہ، عادلانہ اور صالحانہ نظام تشکیل دیا۔ جس نظام میں تمام مظلوم اور مستضعف قوموں نے اپنی قسمت آزمائی اور الحمد اللہ از انقلاب تا ایں دم یہ صالحانہ نظام، جابرانہ، غیر منصفانہ، ظالمانہ اور طاغواتی نظام پر حاوی رہا۔ نظام انقلاب اسلامی کی برکات سے وقت آپہنچا کہ نام نہاد سپر پاور، شیطان بزرگ امریکہ کے رعب و دبدبہ کا جنازہ دھوم دھام سے نکلا ہے۔

اس انقلاب کے بعد جمہوری اسلامی ایران نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑی تیزی کے ساتھ پیشرفت حاصل کی ہے۔ نااہل حکمرانوں نے ایران کا کنٹرول اغیار کے ہاتھ میں رکھا تھا، لیکن بعد از انقلاب ایران کی خود انحصاری اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ ایران نیوکلیئر فیول سائکل، نینو ٹیکنالوجی، بائیو ٹیکنالوجی، صنعت، بجلی، صحت، زراعت اور دیگر شعبوں میں دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ صف اول میں کھڑا ہے۔ انقلاب کے بعد ایران نے پابندیوں کے باوجود طب، انجینرنگ اور زندگی کے دیگر شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور دیگر اسلامی ممالک کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے غیور عوام کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ عوام نے علی الاعلان اور دوٹوک الفاظ میں شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے حواریوں کو پیغام دیا کہ وہ ملک کی سیاست، اقتصاد نیز مذہبی معاملات میں ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ اپنے کندھوں پر یہ سارا بوجھ بآسانی اور خوشی خوشی کے ساتھ اٹھا سکتے ہیں۔

تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ غیور عوام نے علمائے کرام کی قیادت میں انقلاب اسلامی کے تئیں بیش بہا قربانیاں پیش کی ہیں، یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ انقلاب اسلامی لاکھوں شہداء کے خون سے سینچی ہوئی تحریک کا نام ہے اور یہ تحریک دنیا کی دیگر تحریکوں کی طرح دولت کی ہوس یا کرسی کی لالچ پر مبنی نہیں ہے بلکہ خالص انسانی اور اسلامی اصولوں پر مبنی عظیم الشان تحریک ہے۔ صرف ایک دور کی تحریک نہیں بلکہ یہ تحریک تب تک زندہ و پائندہ ہے، جب تک دھرتی پر آخری آزاد منش اور حریت پسند انسان موجود ہے۔ درحقیقت یہ تحریک، کربلا کی عظیم الشان اور مقدس تحریک کا تسلسل ہے، جس نے باطل ایوانوں کو للکارا ہے، جس نے ظالم اور جابر حکمرانوں کا تختہ پلٹ دیا ہے اور ان نجس اور نحس انسانوں کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے لئے ایران کی برگزیدہ شخصیات، علمائے کرام اور دانشوروں نے امام راحل حضرت امام روح اللہ خمینی ؒ کی پیروی میں اہم رول ادا کیا۔ ان شخصیات کی کاوشوں اور قربانیوں سے اسلامی بیداری کی لہر اٹھی، جو سامراجی اور سامراج کے زرخرید حکومت کے لئے ایک آفت بن کر نازل ہوئی اور اس سرزمین سے انہیں اپنا بوریا و بستر گول کرنا پڑا۔ امام خمینی ؒ نے اسلامی انقلاب کے لئے جو تحریک شروع کی تھی، اس کے کئی اہداف تھے، ان میں سے ایک ہدف یہ تھا کہ جن تیل خوروں اور دنیا پر اپنا دبدبہ قائم کرنے والوں نے ایران کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا، اس کو ان کے چنگل سے آزاد کیا جائے۔ کیونکہ انہوں نے پوری ایرانی قوم کو یرغمال بنایا تھا۔ دوسرا اہم ہدف یہ تھا کہ جو اسلامی اقدار پر حملے ہو رہے تھے، ان کا مقابلہ کیا جائے۔ رضا خان پہلوی نے جب سے حکومت سنھبالی تھی، اس دن سے ایران میں برطانیہ اور امریکہ وغیرہ کی مداخلت حد درجہ بڑھ گئی تھی، جس کا ہدف ایران میں اسلام کی جڑیں اکھاڑنا تھا۔ اس سنگین خطرہ کو امام خمینی ؒ نے محسوس کیا۔

تیسرا ہدف امام خمینی کا صیہونیوں سے نمٹنے کا تھا، جو فلسطین کی سرزمین پر قابض بنے بیٹھے تھے، جنہوں نے قبلہ اول کی حرمت پامال کی تھی اور چوتھا ہدف قوم کو غربت اور بدحالی سے نکالنا تھا۔ ایران کے پاس تیل کے زرخیز وسائل تھے، جو دشمن کے نرغے میں تھے، جس کی قیمت برطانیہ اور امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔ اس طرح کے دیگر اہداف تھے۔ کلی طور پر ہدف ایران، اسلام اور مسلمین کی سرفرازی اور کامیابی تھا۔ امام راحل نے قرآن و اہلبیت کے پرچم تلے اپنا نصب العین بنایا اور ایک محکم و مستحکم تحریک شروع کی۔ جس کے لئے آپ کو جیل بھی جانا پڑا، طویل جلاوطنی کی زندگی بھی گزارنی پڑی، ساواک کے مصائب و مشکلات بھی جھیلنی پڑیں، لیکن آپ جدوجہد انقلاب میں ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ آخرکار کئی سالوں کی تحریک انقلاب کامیاب ہوگئی اور 11 فروری1979ء کے دن انقلاب اسلامی کا سورج بڑی آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوا اور سرزمین ایران پر اللہ کی حکومت قائم ہوئی۔

آج بھی یہ انقلاب قائد انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی رہبری و رہنمائی میں ترقی کی منازل تیزی کے ساتھ طے کر رہا ہے اور دشمن خاص طور پر شیطان بزرگ امریکہ اور غاصب اسرائیل کے لئے ملک الموت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس انقلاب کی برکات سے آج دنیا بھر کے مظلوم سپر پاور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے ہیں اور انہیں جنگ کا چلینج دے کر للکار رہے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران بھی سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر علمی میدانوں میں ترقی کے پرچم لہرا کر دشمن کی نیندیں حرام کر رہا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی 44ویں سالگرہ پر دنیا بھر کے تمام حریت پسندوں کو بالعموم ایرانی قوم و رہبر انقلاب اسلامی کو بالخصوص دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
خدایا خدایا تا انقلاب مہدی ؑ انقلاب اسلامی را محافظت بفرما
خامنہ ای رہبر بہ لطف خود نگہدار

تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی

رہبر کبیر امام خمینی (رہ) کی قیادت میں انقلاب اسلامی ایران کی 44ویں سالگرہ کی مناسبت سے دنیا بھر میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا، اس سلسلے میں پاکستان میں بھی مختلف تقاریب، سیمینارز اور مذاکروں کا اہتمام کیا گیا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام بھی انقلاب اسلامی ایران کی 44ویں سالگرہ کی مناسبت سے سیمینار بعنوان ’’انقلاب اسلامی، مظہر وحدت امت مسلمہ‘‘ کا اسلام آباد میں انعقاد ہوا۔ سیمینار میں مختلف مذہبی، سیاسی رہنماوں، دانشوروں اور سینیئر صحافیوں نے شرکت کی۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ہمارے لیے آج کا دن عید کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ انقلاب اسلامی ایران اپنے 45ویں سال میں داخل ہوگیا ہے، انقلاب اسلامی ایران نہ تو مغرب اور نہ ہی مشرق کے نظریہ پر وجود میں آیا بلکہ خالصتاً اسلامی نظریہ پر برپا ہوا، جسے دنیا میں منفرد و نمایاں مقام حاصل ہوا، فلسطین آج انقلاب اسلامی کی وجہ معتبر ہوا، ایران نے موجودہ دور کی ترقی میں بدترین پابندیوں کے باوجود ہر شعبے میں نمایاں مقام حاصل کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی ہمارے لیڈر وہ ہوسکتے ہیں، جو نڈر اور بے باک ہوں، قوم کا درد رکھتے ہوں، نہ کہ ڈرے ہوئے، سہمے ہوئے ہوں۔ اسلامی دنیا کی سربراہی کے نام نہاد دعویدار سارے ہیں، لیکن حقیقت میں فلسطین کو ایک گولی تک دینے سے عاری ہیں، لیکن انقلاب اسلامی نے ان مقاومتی تحریکوں میں نئی روح پھونک دی، انقلاب اسلامی ایران نے امریکی استعماریت کی سپرمیسی کو ملیا میٹ کر دیا، امریکہ نہیں سننا چاہتا کہ ہمارے ملک کی آزاد خارجہ و داخلہ پالیسی ہو، طاغوت کو ایبسلوٹلی ناٹ کہنا قرآنی حکم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمران مت بکیں، مت پست ہوں، ہم بھوک اور سختیاں برداشت کر لیں گے، لیکن کسی کی غلامی برداشت نہیں کریں گے۔ میرے ملک کے باعزت و کریم عوام اٹھیں، مسلم غیر مسلم اٹھیں، شیعہ، سنی کھڑے ہوں، بلوچ، سندھی، پختون اور پنجاب کے باسی اٹھیں اور اپنے ملک کی عزت کی خاطر کمزور اور غیر ملکی کاسہ لیس حکمرانوں سے اپنے ملک کو محفوظ کریں۔

قبل ازیں سابق چیئرمین سینیٹ اور پیپلزپارٹی کے رہنماء سید نیئر حسین بخاری نے سیمنیار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دن کی مناسبت سے تمام عاشقان انقلاب اسلامی ایران کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، انقلاب لانے کے لیے قربانی دینا ضروری ہے اور اسے قائم رکھنے کے لیے اس سے بھی بڑھ کر قربانیاں ایرانی عوام نے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران وہ اسلامی ملک ہے، جس نے مسالک سے بالاتر ہو کر فلسطین اور کشمیر کے مظلومین کی حمایت کی۔ ہمارے ملک کے ساتھ بھی ایرانی عوام کا خلوص روز روشن کی طرح عیاں ہے، ان پر پابندیوں کے باوجود وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں بھی اپنے ملک کے وسیع تر مفادات کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔

ایران کے ثقافتی قونصلر اسلام آباد جناب احسان خزاعی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چیئرمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا شکریہ اور مبارک باد پیش کرتا ہوں، میں اس اقدام کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی ایران نے ظلم کی تمام تر زنجیروں کو توڑ پھینکا، ہمیں اپنی وحدت کی حفاظت اور تربیت بھی کرنی چاہیئے، کیونکہ اسلام دشمن عناصر امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہیں، انقلاب اسلامی ایران ایک بہت بڑی ثقافتی تبدیلی کا نام ہے اور دنیا میں آنے والے دیگر انقلابات سے ممتاز ہے۔

علاوہ ازیں وائس چیئرمین ایم ڈبلیو ایم پاکستان علامہ سید احمد اقبال رضوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ انقلاب اسلامی ایران جن مقاصد اور اہداف کے طور پر آیا، وہ اپنے اہداف پر موجود ہے۔ استقلال، آزادی اور جمہوری اسلامی یعنی ہمارا ملک کسی شرقی و غربی بلاک کا حصہ نہیں، امریکی مداخلت ہمارے ملک کی پہچان بن چکی ہے، ہم اپنے ملک کے فیصلے خود نہیں کرسکتے۔ امام خمینی (رہ) نے مغرب کے بڑے بڑے ماہرین اور دانشمندوں کے منصوبوں کی ایک فیصلے سے سے بساط لپیٹ دی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے پورا ہفتہ وحدت کے طور پر اعلان کیا، ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منانے کے عظیم اعلان نے فلسطین کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔

معروف اینکر پرسن امیر عباس نے کہا کہ ایرانی انقلاب بیسویں صدی کا غیر معمولی انقلاب ہے، باقی سب انقلاب ناکام ہوگئے، لیکن یہ واحد انقلاب ہے جو ناکام نہیں ہوا جبکہ چلی، اٹلی، فرانس اور افریقی انقلاب مٹ گئے، کیونکہ یہ انقلاب جن اہداف کو دوام دینے کے لیے وقوع پذیر ہوا، ان کو رائج کیا۔ ایران کے انقلاب نے پہلوی اور قاچاری بادشاہت کے ظالم ترین نظاموں کو ملیا میٹ کر دیا۔ مفتی گلزار نعیمی نے کہا کہ امام خمینی (رہ) کے اس عظیم انقلاب سے پہلے امت مسلمہ میں قوت مدافعت ختم ہوگئی تھی، مقاومت نام کی کوئی چیز نہیں تھی تو امام خمینی کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ جنہوں نے روشن ضمیری اور رمز قرآن کو جاننے والے نے پوری امت مسلمہ کو نئی جہت اور جلا بخشی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی ایران ہی موجب بنا کہ اسلام کو اب کوئی جھکا نہیں سکتا۔ سیمینار میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے شرکت کی، پروگرام کے دیگر مقررین میں علامہ حیدر علوی، علامہ اقبال بہشتی اور ملک اقرار حسین بھی شامل تھے۔

خصوصی رپورٹ: عدیل عباس زیدی

اسلام ٹائمز۔ دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ نے انقلاب اسلامی کی 44ویں سالگرہ کی تقریبات میں ایرانی عوام کی پرجوش شرکت کو رپورٹ کیا اور کوریج دی۔ اس حوالے سے روسی نیوز ایجنسی "اسپوٹینک" نے انقلاب اسلامی ایران کی 44ویں سالگرہ پر نکلنے والی ریلیوں کی تصاویر جاری کیں اور لکھا کہ "عماد" بیلسٹک میزائل اور "شاہد 136" ڈرون کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر تہران کے آزادی اسکوائر میں آویزاں کیا گیا۔ عرب میڈیا "المیادین" نے بھی گیارہ فروری کی مناسبت سے نکلنے والی ریلیوں کی لائیو کوریج کی۔ اسی مناسبت سے المیادین نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر لکھا کہ ایران میں انقلاب اسلامی کی 44ویں سالگرہ پر نکلنے والی ریلیوں میں عوام کی بھرپور شرکت کا کیا راز ہے۔؟ نیز چینی سفارت کار نے مبارک باد کا پیغام دیتے ہوئے ایران اور چین کے درمیان پائیدار دوستی جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

تہران، ارنا – پاکستانی اسپیکر نے کہا ہے کہ اسلامی انقلاب کی فتح اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ایک اہم موڑ تھی اور وقار اور خودمختاری اس کا تحفہ تھا۔

یہ بات راجا پرویز اشرف نے ہفتہ کے روز ایک پیغام میں اپنے ایرانی ہم منصب محمد باقر قالیباف اور ایرانی عوام کو اسلامی انقلاب کی فتح کی 44ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی واقعہ ایران کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا جسے علاقے اور دنیا پر بہت ہی موثر تھا۔
پرویز اشرف نے اس بات پر زور دیا کہ ایران میں اسلامی انقلاب امید کا ایک نیا دور لے کر آیا کیونکہ ایرانی عوام اپنے وقار اور خودمختاری کے حصول کے لیے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
نائب پاکستانی اسپیکر "زاہد درانی" نے بھی اپنے ایرانی ہم منصب اور ایرانی قوم کو انقلاب اسلامی کی فتح کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایران کی ترقی، خوشحالی، امن اور فخر کے لیے دعاگو ہیں۔

ائیجریا کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ زکزاکی نے کہا ہے کہ غربی اورصیہونی اتحاد کبھی بھی فتح حاصل نہیں کر پائے گا اورایران اسلامی اوردنیا کے اندر اسلامی نور کو بجھا نہیں پائے گا۔

انہوں نے انقلاب اسلامی کی چوالیسویں سالگرہ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امام خامنہ ای وہی امام خمینیؒ ہیں اورہم کہہ سکتے ہیں کہ امام خمینیؒ اگرچہ جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی روح امام خامنہ ای میں موجود ہے۔

انہوں نے نائیجریا میں اسلامی تحریک کی تمام تر مخالفت، تشدد اور دشمنی کے باوجود ترقی اور پیشرفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تحریک انشاء اللہ حضرت صاحب الزمان (عج) کے ظہور تک جاری رہے گی اور کوئی بھی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔

شیخ زکزاکی نے نائیجریا میں شیعوں کے علاوہ اہل سنت اورعیسائیوں کے اسلامی تحریک کو پسند کرنے اور اس کا حصہ بننے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اہل سنت ، اہل تشیع اورحتی عیسائی بھی سب عدالت اورانسانیت کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں اور ان کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ اسلامی تحریک ہی وہ تحریک ہے جو امور کی اصلاح کر سکتی ہے اور عوام کو مشکلات سے نکال سکتی ہے۔

انہوں نے جیل میں گزرے سالوں میں اسلامی تحریک کے جاری رہنے کے راز سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا کہ میں جیل گیا ہوں، تحریک کی فعالیت ہرگز نہیں رکی اورمیرے جیل جانے سے بھی یہ تحریک جاری رہی ہے اور الحمداللہ برادران موجود ہیں جو اپنے وظیفہ پر عمل درآمد کرکے اس تحریک کا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شیخ زکزاکی 1935 میں نائیجریا کی ریاست کادونا کے علاقہ زاریا میں پیدا ہوئے، وہ اسلامی تحریک کے بانی اور ایک باتجربہ سیاستدان ہیں۔ انہوں نے اپنی جوانی میں امام خمینیؒ کے افکار سے آشنائی حاصل کی، ان سے متاثر ہوکر دینی اوراجتماعی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔

انہوں نے 1979 میں پیرس میں امام خمینیؒ سے ملاقات کی اوران کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوئے،انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد وہ ایران آئے اور قم میں اپنی دینی تعلیم کا آغاز کیا اورتعلیم کے بعد واپس اپنے وطن نائیجریا لوٹ گئے اور وہاں پر انہوں نے اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی اور پورے نائیجریا اورہمسایہ ممالک میں دینی مدارس کی بنیاد ڈالی جن کی تعداد 300 سے زیادہ ہے۔

اپنی دینی اور تبلیغی فعالیت کیوجہ سے انہیں کئی بار گرفتار کیا گیا۔ 2015 میں نائیجریا میں ان کے مرکز امام بارگاہ بقیہ اللہ میں فوج نے حملہ کر دیا جس میں سینکڑوں افراد شہید ہوگئے جن میں شیخ زکزاکی کی اپنے بیٹے بھی شامل تھے اور اس میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی، انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ابھی تک شیخ زکزاکی کے چھ بیٹے ، ان کی بہنوں اوربھائیوں کے بیٹے بھی گزشتہ سالوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ نائیجریا کی حکومت نے شیخ زکزاکی کی والدہ اور ان کے شہید بیٹوں کی قبور کو بھی ملیامیٹ کر دیا ہے

شیعہ نیوز: شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے انقلاب اسلامی کی 44ویں سالگرہ کے موقع پر کہا ہے کہ 1979ء میں انقلاب اسلامی جن آفاقی اہداف کے لئے برپا کیا گیا وہ ایسے ہیں کہ جس پر امت مسلمہ اور تمام باشعور انسان متحد و متفق ہے، انقلاب اسلامی کے لئے عوامی جدوجہد کا طریقہ کار اختیار کیا گیا جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ چنانچہ اگر امت مسلمہ کے اندر ملی یکجہتی کو مضبوط بناکر کوشش کی جائے اور عوام کو متحرک کیا جائے تو عوام کی طرف سے مثبت تعاون سامنے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی کا بھی سب سے بڑا درس یہی ہے کہ قرآن و سنت کی آفاتی تعلیمات کا نفاذ ہو، تفرقے اور انتشار کا خاتمہ ہو، اتحاد کی فضاء قائم ہو لٰہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں، تفرقہ بازی اور انتشار اور اس کے اسباب و عوامل کے خاتمے کی کوشش کریں اور پرامن عوامی جدوجہد کے ذریعہ تبدیلی لانے کی جدوجہد کریں۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ انقلاب اسلامی کے قائد اور رہبر حضرت امام خمینیؒ نے انقلاب برپا کرتے وقت اسلام کے زریں اصولوں اور پیغمبر اکرم ص کی سیرت و سنت کے درخشاں پہلوﺅں سے ہر مرحلے پر رہنمائی حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سازشوں، مظالم، زیادتیوں، محاصروں، پابندیوں اور دیگر ہتھکنڈوں کے باوجود انقلاب اسلامی کرہ ارض پر ایک طاقتور انقلاب کے طور پر جرات و استقامت کی بنیادیں فراہم کررہا ہے، جس کی قیادت رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مدظلہ کررہے ہیں۔ علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ اور امت مسلمہ کو استعماری و سامراجی قوتوں کے مذموم عزائم سے باخبر رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج یہ جدوجہد ایک اہم ترین موڑ میں داخل ہوچکی ہے چنانچہ عالمی استعمار خائف ہوکرمختلف خطوں میں اسلامی دنیا کے خلاف نت نئی سازشوں میں مشغول ہے مگر انقلاب کے خلاف یہ تمام سازشیں ناکام ہونگی کیونکہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کا ایک ہی راز ہے کہ یہ محض عارضی اور مفاداتی انقلاب نہیں بلکہ آفاقی شعوری انقلاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ انقلاب عالم اسلام اور انسانیت کا ترجمان انقلاب ہے، جس کے لیے سینکڑوں علماء، مجتہدین، مجاہدین، اسکالرز، دانشوروں اور عوام نے اپنی فکر، اپنے قلم، اپنی صلاحیت، اپنے عمل، اپنے سرمائے، اپنی ذات اور اپنے خاندان کی قربانیاں دے کر انقلاب اسلامی کی عمارت کو مضبوط کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کو ان کے مشترکات پر جمع کرنے اور فروعات کو نظر انداز کرنے کا جو درس دیا وہ قابل تقلید ہے۔ اسی درس اخوت و وحدت کے ثمرات دنیا کے تمام ممالک میں پھیل رہے ہیں چنانچہ پاکستان میں تمام مکاتب فکر کو مشترکات پر اکٹھا کرنے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا کہ پاکستان میں بھی آئین کی روشنی میں ایک ایسے عادلانہ نظام کی ضرورت ہے جس کے تحت تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہو، امن و امان کی فضاء پیدا ہو، عوام کو پرسکون زندگی نصیب ہو، لہٰذا عوام اور خواص سب کے اندر اتحاد و وحدت اور یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کرنے کا شعور پیدا کرکے پرامن انداز میں پرامن طریقے اور راستے کے ذریعے تبدیلی لائی۔