سلیمانی

سلیمانی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شمالی خراسان میں ولی فقیہ کے نمائندے حجۃ الاسلام والمسلمین رضا نوری نے آج سنی علماء اور شمالی خراسان کے عدالتی نظام کے درمیان ہونے والے معاہدے کے سلسلے میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ اور سنی اتحاد دشمنوں کی سازشوں کو بے اثر کر دے گا۔

انہوں نے مزید کہا: دشمن شیعہ اور سنی کے درمیان اس اتحاد اور ہم آہنگی سے خوفزدہ ہے، اسی لیے وہ اس اتحاد کو ہر ممکن طریقے سے تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ معاشرے میں اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین نوری نے مزید کہا: دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے آپس میں اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنا لازم اور ضروری ہے۔ کیونکہ شیعہ اور سنی بھائیوں کے درمیان یہ اتحاد و یکجہتی دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور انہیں اپنے تفرقہ انگیز مقاصد حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا۔

انہوں نے شیعہ اور سنی علماء کو پیغام دیتے ہوئے مزید کہا: شیعہ اور سنی علماء کو معاشرے کے نمونے کے طور پر دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنا چاہئے اور انہیں شیعہ اور سنی برادری میں تفرقہ پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین نوری نے بیان کیا: آج ہم ایسے حالات میں ہیں کہ عالمی تسلط اور استکباری نظام انسانی حقوق کے بہانے آئے روز ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور بظاہر دوستانہ طریقے سے پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: آج دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کی عظیم قوم پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کر رہے ہیں، وہ ایرانی قوم کو ہر قسم کی پابندیوں کے ذریعے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

مقبوضہ فلسطین کے بعض میڈیا چینلز صیہونی حکومت کی کابینہ کی خبریں نشر کر رہے ہیں جو کہ بنیامن نتن یاہو کی کابینہ کے سیاسی تحفظ کے حوالے سے تشویش اور بے چینی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اپنے متنازعہ اقدامات اور پالیسیوں سے داخلی اور غیر ملکی مخالفت اور احتجاج کو بھڑکانے والی نتن یاہو کی نئی کابینہ ’غیر ملکی دشمن‘ جیسے مسائل اٹھا کر اندرونی انتشار پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس سلسلے میں صیہونی حکومت کے ٹیلی ویژن چینل- 12 نے منگل کی شب کابینہ کے مسلسل اجلاسوں کے بارے میں بتایا تاکہ اس حکومت بالخصوص اس کی فوج کی تیاری کی سطح میں اضافہ کیا جائے۔

چینل-12 نے اطلاع دی ہے کہ نتن یاہو نے اب تک پانچ خفیہ ملاقاتیں کی ہیں اور ان ملاقاتوں کا نتیجہ، جس کی اطلاع امریکہ اور فرانس کو بھی دی گئی، اسرائیل میں آمادگی اور ہائی الرٹ کی سطح میں اضافہ تھا۔

ان ملاقاتوں میں حکومت کے عسکری اور سیکورٹی (انٹیلی جنس) سربراہان بشمول وزیر انٹیلی جنس یوو گیلنٹ، چیف آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ہرتسی ہیلیوی، موساد کے چیف داؤد برنیا، قومی سلامتی کے مشیر زاہی ہینگبی اور متعدد دیگر افراد نے شرکت کی۔

ان ملاقاتوں میں ملٹری انٹیلی جنس برانچ اور آپریشنز برانچ کے سربراہ اور آپریشنل لیول کے کمانڈر فوجیوں نے بھی شرکت کی۔

صیہونی ٹیلی ویژن نے دعویٰ کیا کہ یہ ملاقاتیں ایران کے خلاف کسی بھی کارروائی کے لیے اسرائیل کی آمادگی کی سطح کو بڑھانے کرنے کے لیے ہیں کیونکہ یورینیم کو 90 فیصد تک افزودہ کرنا، تل ابیب کی ڈیڈ لائن ہے اور آنے والے مہینے "حساس اور پیچیدہ" ہیں اور اسرائیل ان سارے امکانات کے لئے تیار ہو رہا ہے۔

سحر نیوز/ ایران:  اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ نے عراقی صدر  سے ملاقات کی ہونے والی ملاقات میں عراقی صدر نے ایران کا دورہ کرنے کے لئے صدر رئیسی کی دعوت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بغداد اور تہران کے تعلقات تمام شعبوں میں انتہائی مضبوط اور مستحکم ہیں ۔ ایرانی وزیرخارجہ نے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تہران اور بغداد کے تعلقات صرف حکومتی سطح پر مثالی نہیں ہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے گہرے رشتوں نے تمام شعبوں میں تعلقات کو غیر معمولی بنادیا ہے۔
اس سے پہلے ایرانی وزیرخارجہ  امیر عبداللہیان نے اپنے عراقی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سفارتی طریقے سے مذاکرات کا خیر مقدم کرتا ہے اور ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لئے ایک جامع اور اچھے اتفاق رائے تک پہنچنےکے لئے سنجیدہ گفتگو کے لئے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عراقی حکومت نے ایران مخالف ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات کے سلسلے میں مثبت اور تعمیری اقدامات انجام دیئےہیں - انہوں نے کہا کہ ایران آج بھی اپنے ریڈلائن کو مدنظر رکھتے ہوئے مذآکرات کے لئے تیار ہے لیکن امریکی حکام  کی طرف سے متضاد بیانات اور پیغامات موصول ہورہے ہیں ۔

عالمی چیمپئن شپ کے کراس کنٹری سکی مقابلے کا ابتدائی مرحلہ آج خواتین کے حصے میں منعقد ہوا اور اولمپک کا کوٹہ حاصل کرنے والی ایرانی خاتون "سمانہ بیرامی باہر" آٹھویں نمبر پر رہی اور فائنل میں پہنچ گئی۔

ایرانی اسکیئنگ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ خواتین کے  حصے میں کوئی کیھلاڑی عالمی چیمپئن شپ کے فائنل میں حصہ لے جائے گی۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، ناصر کنعانی نے آج بروز بدھ کو مغربی کنارے کے شہر نابلس پر قابض صہیونی افواج کے آج کے وحشیانہ اور دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی جس کے نتیجے میں درجنوں نہتے فلسطینی شہید اور زخمی ہوگئے۔

انہوں نے صہیونی غاصب ریاست اور اس کی نسل پرست اور انتہا پسند کابینہ کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے اور اس کی مذمت کے لیے عالمی برادری سے فوری اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

کنعانی نے مغربی کنارے میں گذشتہ چند مہینوں کے دوران صیہونیوں کی مجرمانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے تسلسل اور اس میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے، جن میں نابلس اور جنین کے علاقوں پر حملے، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا قتل اور فلسطینیوں کے گھروں کی تباہی شامل ہے، کہا کہ اس خطرناک عمل کے جاری رہنے، جو ذمہ دار بین الاقوامی اداروں اور مغرب میں انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں کی خاموشی اور بے حسی کے سائے میں ہوتا ہے، ناقابل برداشت اور ان کے لیے باعث شرم ہے۔

انہوں نے اور یروشلم، جنین، نابلس اور مقبوضہ فلسطین کے تمام علاقوں میں عوام اور خصوصا فلسطینی نوجوانوں کی بہادرانہ مزاحمت کو سراہتے ہوئے فلسطینی قوم کی حمایت اور صیہونی نسل پرست ریاست کے انسانیت سوز اور دہشت گردانہ اقدامات کے خلاف، اسلامی حکومتوں کے درمیان اتحاد اور ان کیجانب سے مربوط اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔

مقاومت و مزاحمت کے شہید کمانڈروں شہید شیخ راغب حرب، شہید سید عباس موسوی اور شہید حاج عماد مغنیہ کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے مقاومت و مزاحمت کے دشمنوں کے مقاصد کی وضاحت و تشریح کی ہے۔ سید حسن نصر اللہ  کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ دشمن کو ایران کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایرانی بلوؤں اور فسادات میں دشمن کے مقاصد پورے نہ ہونے کے بعد اس نے انقلاب اسلامی ایران کی فتح کی سالگرہ میں لوگوں کی شرکت کو وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے متاثر کرنے کی کوشش کی، لیکن لوگوں کی بے مثال حاضری دشمن کی شکست کا سبب بنی۔ سید حسن نصر اللہ نے اس سلسلے میں کہا: "جن لوگوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کو ختم کرنے کا حساب لگایا، ان کا حساب وہم و خیال پر مبنی تھا نہ کہ حقیقت پر، یہی وجہ ہے کہ ان کا حساب غلط اور اندازہ ناکام رہا اور ان کے تخمینوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔"

سید حسن نصراللہ کے بقول ایران میں لاکھوں افراد پر مشتمل عوامی مظاہرے ملک کا شیرازہ بکھیرنے والوں کے دعویداروں کے جھوٹے دعؤوں کا سخت ردعمل اور عملی جواب تھا۔ سید حسن نصراللہ کی تقریر کا دوسرا نکتہ لبنان کے خلاف دشمن کے اہداف پر مرکوز تھا۔ صیہونی حکومت کا کاریش فیلڈ کا یکطرفہ اور غیر قانونی استعمال لبنان کے خلاف دشمن کے اقدامات میں سے ایک ہے۔ اسرائیل اور لبنان نے گذشتہ اکتوبر میں کاریش فیلڈ سے متعلق سمندری سرحدی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم نیتن یاہو کی کابینہ کی طرف سے تاخیر اور لیت و لعل اور اس معاہدے کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے اس معاہدے سے لبنان کو اقتصادی میدان میں کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے اس سلسلے میں کہا کہ اگر ہم پر ثابت ہو جائے کہ لبنان میں تیل اور گیس نکالنے کے معاملے میں تاخیر اور جھوٹے وعدے ہو رہے ہیں تو ہم صیہونی دشمن کو کاریش فیلڈ سے گیس نکالنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے اور ہم اس حوالے سے کسی قسم کی تاخیر کے خلاف خبردار کرتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کے خطاب کا ایک اور اہم محور لبنان میں افراتفری اور بدنظمی کا پیدا ہونا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا خیال ہے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت لبنان میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ ایک طرف صیہونی حکومت کو اندرونی بحران کا سامنا ہے اور دوسری طرف لبنان کے اندرونی حالات میں واشنگٹن کی مداخلت کابینہ کی تشکیل اور نئے صدر کے تعارف میں سیاسی تعطل کا باعث بنی ہوئی ہے۔

اسی بنیاد پر سید حسن نصر اللہ نے لبنان میں افراتفری کے نتائج کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ  "امریکیوں کو جان لینا چاہیئے کہ اگر وہ لبنان کو انتشار کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے اور جہاں امریکہ کو تکلیف پہنچے گی، وہیں ضرب لگائیں گے۔" اور اگر ایسا ہوا تو ہم آپ کے پیارے "اسرائیل" کے ساتھ جنگ ​​کے آپشن پر جائیں گے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ میں امریکیوں سے کہتا ہوں کہ اگر آپ لبنان میں افراتفری اور گڑبڑ پھیلانا چاہتے ہیں تو آپ کو پورے خطے میں افراتفری کی توقع رکھنی چاہیئے۔ میرا مطلب ہے اسرائیل میں۔" سید حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ لبنان کے خلاف دشمن کا ایک اور اہم ہدف عوام کو موجودہ حکام اور لبنان کی حزب اللہ سے بے اعتمادی پیدا کرنا ہے۔ ماضی میں اس مقصد کا تعاقب کیا گیا تھا اور اب بھی یہ ایک سنجیدہ ہدف کے طور پر ایجنڈے پر ہے۔

درحقیقت دشمن حزب اللہ کو لبنان میں مسلسل سیاسی تعطل اور اقتصادی مسائل کا باعث قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس تناظر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے تاکید کی ہے کہ "2019ء کے بعد سے لبنان کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکہ کی نئی کوششوں کے بعد، ہمارے ملک کو ایک بار پھر نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس وقت کے امریکہ کے صدر براک اوباما نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے صرف تباہی اور بدعنوانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد رائے عامہ میں جوڑ توڑ پیدا کرنا ہوتا ہے، تاکہ لوگوں کا اپنے لیڈروں پر سے اعتماد اٹھ جائے اور آج یہی کام امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن لبنان میں کر رہے ہیں۔"

تحریر: سید رضی عمادی

دوسروں کے آئی ڈی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے افریقی یونین کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کرنے والے صیہونی حکومت کے وفد کو انتظامیہ اور سکیورٹی اہلکاروں نے کانفرنس ہال سے نکال باہر کر دیا۔ اسرائیلی وفد کا دعویٰ تھا کہ اسے اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ دیا گیا ہے تاہم وہ اپنے اس دعوے کو ثابت نہیں کر پایا اور اُسے خفت و خواری اٹھاتے ہوئے مجمع کے درمیان سے باہر نکلنا پڑا۔ یہ وفد صیہونی دارالحکومت تل ابیب سے ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس آبابا پہنچا تھا۔

"بعثت" کا لغوی معنی "منتخب ہونا" ہے۔ اسی وجہ سے "مبعث" ایسے دن کو کہا جاتا ہےو جس دن خداوند متعال کی جانب سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت کے مقام کیلئے منتخب کیا گیا۔ لہذا مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے 13 سال قبل 27 رجب کے دن مکہ مکرمہ میں جب رسول خدا (ص) پر غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو یہ دن "روز مبعث" کے طور پر جانا گیا۔ دوسری طرف حضرت محمد مصطفی (ص) خداوند متعال کے آخری نبی تھے جو انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کیلئے بھیجے گئے تھے اور ان کے بعد انبیاء بھیجے جانے کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ جب رسول اکرم (ص) پر خدا کی جانب سے پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ کی عمر 40 سال تھی۔

اس سے پہلے آپ (ص) اہل مکہ میں اپنی صداقت، دیانت اور امانت میں مشہور ہوچکے تھے اور مکہ والے آپ (ص) کو "محمد امین" کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت محمد مصطفی (ص) بعثت سے پہلے عام طور پر مکہ مکرمہ کے قریب واقع پہاڑ میں ایک غار میں خداوند متعال کی عبادت کیلئے جایا کرتے تھے۔ یہ غار بعد میں "غار حرا" کے نام سے مشہور ہوئی۔ آپ (ص) کئی کئی دن اسی غار میں رہ کر خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مکہ کے اکثر باسی بت پرست تھے اور لکڑی اور پتھر سے بنے ہوئے بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ خداوند متعال نے انسانوں کی ہدایت کیلئے حضرت محمد مصطفی (ص) کو مقام نبوت کیلئے چن لیا اور انہیں بت پرست انسانوں کو شرک کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی روشنی کی جانب لے جانے کی سنگین ذمہ داری سونپی۔

لہذا خداوند متعال کی جانب سے انبیاء کو مبعوث کئے جانے کا ایک اہم اور بنیادی ترین مقصد بنی نوع انسان کو جہالت سے نکالنا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول خدا (ص) کی بعثت سے قبل دنیا کے اکثر مقامات پر شرک اور بت پرستی پھیل چکی تھی۔ ایسی صورتحال میں خداوند متعال نے حضرت محمد مصطفی (ص) کو نبوت کا مقام عطا کیا اور انہیں انسانوں کی الہی فطرت کو بیدار کرکے خداوند یکتا کی پرستش پر تیار کرنے اور توحید کی جانب گامزن کرنے کی ذمہ داری عطا کی۔ رسول خدا (ص) کی بعثت کے اہم ترین مقاصد میں انسانوں کو توحید اور شریعت کی جانب دعوت دے کر انہیں خدا کی عبادت اور پرستش کی جانب لے جانا شامل تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا ایک اور مقصد اپنی امت اور انسانوں کو اعلی اخلاقی صفات سے مزین کرنا تھا۔

خداوند متعال نے قرآن کریم میں رسول خدا (ص) کو "اسوہ حسنہ" یعنی "بہترین رول ماڈل" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ"۔ اسی طرح خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بارے میں فرماتے ہیں: "انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق" یعنی میں اخلاقی خوبیوں کی تکمیل کیلئے نبوت کے مقام پر فائز ہوا ہوں۔ آنحضور (ص) کے زمانے میں انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ شرک آلود زندگی بسر کرنا تھا۔ اس مسئلے کا حل اور شرک سے توحید کی جانب سفر کا ذریعہ بھی اعلی اخلاقی خصوصیات اور اقدار کو اپنانا اور ان پر عمل پیرا ہونا تھا۔ البتہ انتہائی اہم اور بنیادی نکتہ جس سے ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے انسانوں کو توحید اور خداپرستی کی جانب دعوت دینا ہے۔
 
کیونکہ اسلامی معاشرے میں اتحاد اور وحدت ایجاد کرنے کا اہم اور بنیادی ترین ذریعہ توحید ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور وحدت اہم اور اسٹریٹجک اہداف میں سے ایک ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے توحید کے ذریعے مختلف انسانی معاشروں کا آپس میں متحد ہو جانے کا مقدمہ فراہم کیا۔ اسی سے مربوط ایک اور اہم نکتہ رسول خدا (ص) کی جانب سے اسلامی معاشرے کو تفرقہ اور اختلافات سے دور کرنے کی کوششیں ہیں۔ اگر مسلمانان عالم ہر قسم کے مسلکی اختلافات کو بھلا کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور رسول اکرم (ص) کی ہدایات پر عمل پیرا ہو جائیں تو امت مسلمہ میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہونے کی گنجائش ہی باقی نہیں بچے گی۔ لہذا مسلمانان عالم کو چاہئے کہ وہ سب مل کر دنیا کی ظالم قوتوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔
 
آج امت مسلمہ کو اس امر کی ضرورت ہے کہ وہ اسلام دشمن قوتوں اور کفار کے مقابلے میں متحد ہو جائے اور باہمی اتحاد اور وحدت کے ذریعے ان کا مقابلہ کرے۔ یہ رسول خدا (ص) کی سیرت سے حاصل ہونے والا سب سے بڑا اور اہم سبق ہے۔ صرف اسی صورت میں امت مسلمہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں طاقتور ہوسکتی ہے اور دشمن اس کے مقابلے میں ضعیف اور ناتوان قرار پا سکتے ہیں۔ پس سیرت نبوی (ص) کی روشنی میں شیعہ اور سنی سمیت تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ باہمی اتحاد اور وحدت ایجاد کرکے اپنی سب سے اہم دینی ذمہ داری انجام دیں۔ امت مسلمہ باہمی اتحاد کی برکت سے عالمی استکباری طاقتوں خاص طور پر امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کے منحوس اور تسلط پسندانہ عزائم ناکام بنا سکتی ہے۔
تحریر: روزبہ قمصری
 
 
 

- رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ کے واضح اور کھلے موقف کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فلسطینی قوم سے واضح حمایت اور دفاع کے علاوہ فلسطینی عوام کی کسی مدد کو جاری رکھیں گے۔

یہ بات سید علی خامنہ ای نے عید مبعث پیامبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مناسبت سے آج صبح تہران کے حسینہ امام خمینیؒ میںقرآن کے بین الاقوامی مقابلوں میں شریک  ایرانی حکام، غیرملکی نمائندے ، سفراء اور مہمانوں سے ملاقات کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایران کے عوام، امت مسلمہ اور پوری دنیا کے حق پرستوں کو عید بعثت کی مبارکباد پیش کی۔

انھوں نے بعثت نبوی کو، انسانیت کے لیے اللہ کا سب سے بڑا اور سب سے قیمتی تحفہ اور نعمت الہی بتایا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے خزانوں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ توحید اور غیر خدا کی بندگي سے رہائي، بعثت کا سب سے عظیم خزانہ ہے کیونکہ پوری تاریخ میں جو بھی جنگ، جرائم اور خباثتیں ہوئي ہیں، ان کا سبب غیراللہ کی بندگي ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بعثت نبوی کے عظیم اور کبھی نہ ختم ہونے والے خزانوں سے استفادے کو، امت اسلامیہ کی تمام مشکلات کا علاج اور دنیا و آخرت میں اس کی کامرانی کا راستہ بتایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے بعثت کے خزانوں کی تشریح کے لیے قرآن مجید کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے استقامت کو ہر مقصد کے حصول کی راہ بتایا اور کہا کہ عدل و انصاف کا قیام بھی اللہ کے بے نظیر تحفوں میں سے ہے جو بعثت نبوی کی نعمت کے سائے میں انسان کو عطا ہوا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے معاشرے کے افراد کے درمیان پیار، محبت، اپنائيت اور خلوص کو بعثت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک اور گرانقدر تحفہ بتایا اور کہا کہ دنیا کے سرکشوں سے اجتناب اور دوری اور جہل، تعصب اور جمود کی تاریکیوں اور زنجیروں سے رہائي، اسلام اور بعثت کے ہزاروں خزانوں میں سے ایک ہے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ بعثت کے خزانوں کو نہ پہنچاننا، ان کے سلسلے میں کفران نعمت کرنا اور عمل کے بجائے صرف زبان سے ان پر فخر کرنا، اس بیکراں نعمت کے سلسلے میں انسانی معاشروں کا غلط رویہ رہا ہے اور تفرقہ، پسماندگی اور دوسری متعدد علمی و عملی کمزوریاں، بعثت کے سلسلے میں اس روئے کا نتیجہ ہیں۔

ایرانی سپریم لیڈر نے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں انسانی معاشرے کے سب سے بڑے تمدن کی تشکیل کو قرآن مجید کی تعلیمات پر کسی حد تک عمل آوری کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ آج بھی اگر بعثت اور قرآن کی بے نظیر صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے تو عالم اسلام کی کمزوریاں ختم ہو جائيں گي اور اس کی سعادت و پیشرفت کی راہ ہموار ہو جائے گي۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلۂ فلسطین کو امت اسلامی کی اہم کمزوریوں اور زخموں میں سے ایک بتایا اور کہا: ایک ملک اور ایک قوم، عالم اسلامی کی نظروں کے سامنے ایک وحشی، خبیث اور شر پسند حکومت کے بے انتہا اور روزانہ کے مظالم کا نشانہ بن رہی ہے اور اسلامی حکومتیں اتنی دولت و ثروت، صلاحیت اور توانائي کے باوجود صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں بلکہ بعض اسلامی حکومتیں تو خاص طور پر حالیہ کچھ برسوں کے دوران اس خونخوار حکومت سے تعاون بھی کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ملکوں کی کمزوری، صیہونیوں سے تعاون اور ان کے جرائم پر خاموشی کا نتیجہ ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئي ہے کہ امریکا، فرانس اور کچھ دوسرے ممالک، مسلمانوں کے مسائل کے حل کے دعوے کے ساتھ، عالم اسلام میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں جبکہ وہ خود ہی اپنے ملکوں کو چلانے اور اپنے ملکوں کے مسائل کو حل کرنے میں لاچار اور ناتواں ہیں۔

آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ اگر پہلے ہی دن اسلامی ملکوں نے نجف کے بزرگ علماء سمیت خیر خواہوں کی بات مانی ہوتی اور غاصب حکومت کے سامنے مضبوطی سے ڈٹ گئے ہوتے تو آج قطعی طور پر مغربی ایشیا کے علاقے کی صورتحال دوسری ہوتی اور اسلامی امت زیادہ متحد اور مختلف پہلوؤ‎ں سے زیادہ طاقتور ہوتی۔

انہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ کے صریحی اور اعلانیہ موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظام کو کسی سے تکلف نہیں ہے اور وہ فلسطینی قوم کی کھلی حمایت کے ساتھ ہی جس طرح سے بھی ممکن ہو اس کی مدد کرے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی جانب سے فلسطین کی حمایت کے سبب دشمنوں کی طرف سے ایرانوفوبیا پر توجہ مرکوز کیے جانے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ وہ حکومتیں بھی، جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی فلسطینی قوم کی مدد کریں، ایرانوفوبیا پھیلا کر اسلام کے دشمن کی آواز سے آواز ملا رہی ہیں۔ انھوں نے مسلم اقوام کے بعثت کی تعلیمات، اتحاد اور ہمدلی کی جانب واپس لوٹنے اور مسلم حکومتوں کی جانب سے دکھاوے نہیں بلکہ حقیقی تعاون کو، امت مسلمہ کی تمام مشکلات کا حل بتایا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں ایک بار پھر ترکیہ اور شام میں آنے والے حالیہ خطرناک زلزلے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے، جس میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے، کہا کہ فلسطین اور امریکا کی مداخلت جیسے سیاسی مسائل کی اہمیت پر ہر حالت میں توجہ دی جانی چاہیے اور امت مسلمہ کو اس پر نظر رکھنی چاہیے۔

اس ملاقات کی ابتداء میں صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی نے اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بعثت نبوی کا فلسفہ، قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر انسانوں اور انسانی معاشرے کی تعمیر ہے، کہا کہ اسلامی انقلاب کے بعد دشمنوں نے، اسلام کے ابتدائي دور کی طرح ہماری قوم کے سامنے فوجی، اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی جنگ کے ذریعے صف آرائي کی لیکن ایران کے عوام نے مثالی استقامت کے ذریعے سامراجیوں کی ہر طرح کی سازش کو ناکام بنا دیا۔