سلیمانی

سلیمانی

اسلام ٹائمز۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت‌ الله خامنه‌ ای نے نئے شمسی سال کے موقع پر حرم مطهر رضوی میں زائرین کے عظیم اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے تبدیلی کو ملک کی بنیاد قرار دیا کہ جس کا مطلب اپنی طاقت کو جمع کرنا اور کمزوریوں کو دور کرنا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ دشمن کی جانب سے تبدیلی کا پیش کردہ معنی خود دشمن کے افکار سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں محکم ارادے، قومی غیرت، خود اعتمادی، امید اور بصیرت سے تبدیلی کے مشکل کام کو شروع کرنا چاہیئے اور بنیادی اقتصادی کمزوریوں کو دور کرکے انہیں اپنے نمایاں اور روشن مستقبل میں تبدیل کرنا چاہیئے۔ رہبر انقلاب نے ملک کے بنیادی مسائل سے رائے عامہ کی آگاہی کو دانشور اور ذہین نوجوانوں کی بنیادی کاوش قرار دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ بنیادی منصوبوں کی تبدیلی کا مسئلہ دوسرے عمومی مسائل سے ہٹ کر ہے۔ کیونکہ اس طرح کے خیالات کو اگر عوامی پذیرائی نہ ملے تو تبدیلی کا یہ منصوبہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تبدیلی کے اصلی معنی اور دشمن کے معنی میں فرق واضح کرتے پوئے فرمایا کہ دشمن تبدیلی کا موضوع پیش کرکے تبدیلی مخالف مطالبات اور نظام سمیٹنے کی بات کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے اندر کچھ لوگ ناسمجھی میں اور کچھ افراد جان بوجھ کر تبدیلی کی رٹ لگاتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ نظام یا اس کے انفراسٹرکچر میں تبدیلی لائی جائے۔

رہبر معظم نے فرمایا کہ دشمن کی جانب سے بنیادی تبدیلی، انقلاب اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ پیش کرنے کا ہدف اسلامی جمہوریہ کے تشخص کو تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کا ہدف ملک اور نظام کے مضبوط پہلوؤں کا خاتمہ اور ان بنیادی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہے، جو عوام کو انقلاب، انقلابی اور اسلام کی یاد دلاتے ہیں۔ جن میں امام خمینی (رہ) کے نام کا دُہرایا جانا، ان کی تعلیمات کا پرچار، مسئلہ ولایت فقیہ، 11 فروری اور انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت شامل ہیں۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دشمن جمہوری اسلامی کے سامنے عوامی حکومت، ڈیموکراسی یا اس جیسی کئی اصطلاحات لا کر دراصل اپنی پٹھو حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ ایسی حکومت جو مغرب کے اشاروں پر ناچے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کسی بھی طرح ایران پر سیاسی اور معاشی تسلط حاصل کرکے اسے لوٹنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مضبوط اور کمزور نکات جاننے کو تبدیلی کی بنیاد قرار دیا۔ رہبر انقلاب نے فرمایا کہ تبدیلی کے کٹھن راستے کو طے کرنے کے لئے قومی غیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ملت ایران غیور قوم ہے، تبدیلی کے راستے کو طے کرنے کے کا دوسرا عنصر بصیرت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کی اندرونی مضبوطی کو ملک کے استحکام کا بنیادی عنصر قرار دیا۔ انہوں نے عالمی سامراج کی دہائیوں پر محیط دشمنی پر ایرانی قوم کے غلبے کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ کون سا ملک اور انقلاب ہے، جو عشروں تک دنیا کے سب سے طاقتور ملکوں کے لگاتار حملوں کے سامنے ڈٹا رہا ہو اور گھٹنے نہ ٹیکے ہوں۔؟ حضرت آیت‌ الله خامنه‌ ای نے بغاوت، پابندیوں، سیاسی دباؤ، میڈیا کے حملوں، سکیورٹی کے خلاف سازشوں اور عدیم المثال معاشی پابندیوں کو دشمن کی مسلسل سازشوں کے کچھ پہلو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں حالیہ ہنگاموں کی امریکا اور بعض یورپی ممالک کے سربراہان نے کھل کر حمایت کی، حالانکہ کہ ان مظاہروں کو عوامی پذایرائی حاصل نہ تھی۔ پھر بھی انہیں اسلحہ، سیاسی، مالی، سکیورٹی اور میڈیا سمیت ہر طرح کی مدد فراہم کی، تاکہ کسی نہ کسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور کرسکیں۔ لیکن نتیجہ اس کے الٹ نکلا اور عملی میدان میں ایران نے اس عالمی سازش پر فتح حاصل کی اور ثابت کیا کہ ایران مستحکم اور مضبوط ہے۔ انھوں نے انقلاب کی سالگرہ پر 11 فروری 2023ء کی ریلیوں میں بھرپور عوامی شرکت کو نظام کی مضبوط اندرونی بنیاد کا مظہر قرار دیا۔ ان ریلیوں میں گذشتہ برسوں کی نسبت دس گنا زیادہ شرکت ایران کی مختلف شعبوں میں زبردست ترقی اس کی اندرونی مضبوطی کی نشانیاں ہیں۔

حضرت آیت‌ الله خامنه‌ ای نے ایران کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ صحت، ایرو اسپیس، نیوکلیئر، دفاع، انفراسٹرکچر، طبی مراکز اور ریفائنریز کے شعبوں میں پیشرفت کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ ایران ان شعبوں میں عالمی ممالک کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے خارجہ تعلقات میں بھی اہم کامیابیاں سمیٹیں ہیں اور دشمن کے ایران کو تنہا کرنے کے منصوبے کو ناکام بنایا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران ایشیاء کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اقتصادی، علمی اور سائنسی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ بعض افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ علاقائی معاہدے ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں۔ ہم یورپی ممالک سے بھی ناراض نہیں ہیں بلکہ اگر یورپ امریکہ سے ہاتھ کھینچ لے تو ہم روابط بڑھانے کو تیار ہیں۔

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ لوگوں کو دشمن کی پالیسیوں اور ہائبرڈ وار سے آشنا ہونا چاہیئے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہائبرڈ وار میں فوجی حملہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں بیرونی پروپیگنڈہ اور میڈیا کی اشتہار بازیاں ہوتی ہیں، تاکہ لوگوں کے دینی اور سیاسی عقائد میں رخنہ ایجاد کیا جا سکے۔ جس سے عوام کے اندر حقائق کی درست تشخیص نہ دے پانا، قومی ارادوں کو متزلزل، جوانوں کے دلوں میں ناامیدی اور ترقی پر مایوسی ایجاد کرنا ہوتی ہے۔ دشمن اسی ہائبرڈ وار کے ذریعے چاہتا ہے کہ اختلاف پیدا کرے، ملک میں دو مخالف فکریں پھیلائے، ایسے سافٹ وئیرز تک عوام کو رسائی دے، جو ان کے ایمان اور ملی اقدار کو چھین لے۔ ان سب اقدامات کے بعد ملک میں افراتفری پھیلے اور اگر ہوسکے تو خانہ جنگی شروع کروائی جا سکے۔ لیکن دشمن اپنے ان تمام منصوبوں میں ناکام ہوا۔ انہوں نے ہائبرڈ وار کے آلات اور ہتھیاروں میں ثقافتی، سلامتی، اقتصادی عوامل اور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے مایوسی پیدا کرنے کا حوالہ دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ دشمن کی کوشش تھی کہ پروپیگنڈے کے ذریعے ہماری عوام کو ہم سے بدگمان کرے۔ دشمن نے پروپیگنڈہ کیا کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر حکومتی ارکان کی رپورٹس مت سنیں یا اپنے رہبر کی بات نہ سنیں، کیونکہ ان کے الفاظ تکراری ہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے بدخواہوں کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دشمن برسوں سے چیخ رہا ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ ایران کو مہار کرنا چاہتے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں قیادت کہتی ہے کہ تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ جملہ دہرایا نہیں جا رہا بلکہ یہ استقامت اور پروردگار عالم کے حکم کے مطابق حق بات پر ڈٹے رہنے کی علامت ہے۔ انھوں نے حالیہ ہنگاموں کے مقابلے میں عوامی موجودگی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اسے بیداری اور استقامت کا نمونہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے ان سبھی لوگوں کو طمانچہ رسید کیا، جنھوں نے ہنگاموں کو ہوا دی یا اس کی حمایت کی۔ اللہ کی مدد اور قوت سے آگے بھی ایرانی قوم اپنے دشمنوں کو تھپڑ رسید کرتی رہے گی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ایرانی قوم مضبوط، ترقی پذیر، اپنے نقائص کو دور اور تبدیلی ایجاد کرنے والی ہے۔ آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے استقامتی بلاک کی حمایت جاری رکھنے پر زور دیا۔ انہوں یوکرائن جنگ میں ایران کی شرکت کے جھوٹے دعوے کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم یوکرائن کی جنگ میں شرکت کے دعوے کو پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں۔ اس دعوے کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔

رہبر معظم نے فرمایا کہ یوکرائن کی جنگ امریکا نے مشرق میں نیٹو کے پھیلاؤ کے لیے شروع کی تھی اور اس وقت بھی جب یوکرائن کے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں، امریکہ اور اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں خوب فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششوں میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ خطے میں الجھن کا شکار ہے۔ حکومت اسلامی خطے میں واضح اور روشن پالیسی رکھتی ہے اور ہمیں اس بات کا کامل ادارک ہے کہ کس وقت کیا کرنا ہے، جبکہ امریکہ حیران و پریشان ہے۔ کیونکہ اگر وہ خطے میں رہتا ہے تو افغانستان کی طرح روز بروز لوگوں کی نفرت میں اضافے کی وجہ سے وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہے اور اگر چلا جاتا ہے تو اپنے اہداف سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ کنفیوژن اس کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔

تسنیم نیوز کی رپورٹ کے مطابق انگلینڈ کے وزیردفاع نے اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یوکرین کو چیلنجر 2 ٹینکوں کے ہمراہ زرہ شکن یورینیم افزودہ گولے بھی فراہم کرے گا۔

رپورٹ کے مطابق روسی صدر نے چین کے صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں میں انگلینڈ کی طرف سے یورینم افزودہ ہتھیاروں کی یوکرین کو فراہمی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ لگتا ہے مغربی ممالک نے واقعا فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ آخری یوکرین فرد تک روس کے ساتھ جنگ کریں گے، وہ بھی صرف باتوں کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر ایسے کام کرکے ثابت کر رہے ہیں، اگر مغربی ممالک نے ایسا اقدام کیا تو روس اس کا مناسب جواب دے گا۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لارووف نے اس حوالے سے کہا کہ لندن کی طرف سے یورینم افزودہ ہتھیاروں کی یوکرین کو فراہمی بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ادھر امریکی وزارت دفاع پینٹاگون کے ترجمان پیٹرک رائیڈر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ یورینیم افزودہ ہتھیاروں کی یوکرین کو فراہمی کا ارادہ نہیں رکھتا۔

یاد رہے کہ ماہرین نے نیٹو کی طرف سے یوگوسلاویہ میں یورینیم افزودہ ہتھیاروں کے استعمال اور ان کے اثرات کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ صربوں کی آنے والی 60 نسلوں پر ان کے منفی اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔

عمان : فلسطین، مصر اور اردن نے فلسطینی عوام کے وجود سے انکار کرنے والے صیہونی وزیر کی مذمت کرتے ہوئے اس کے ریمارکس کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے۔ اردن نے عمان میں تعینات اسرائیلی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا ۔ اسرائیلی حکام نے یقین دلایا کہ سموٹریچ کا طرز عمل اسرائیلی حکومت کے موقف کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ مصر اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے بھی سموٹریچ کے بیان پر تنقید کی۔ فلسطینی وزیر اعظم محمد شطیہ نے صیہونی وزیر کا بیان اس انتہا پسند، نسل پرست صہیونی نظریے کا حتمی ثبوت قرار دیا جو موجودہ اسرائیلی حکومت کی جماعتوں پرغالب ہے۔ صیہونی وزیرخزانہ بیزلیل سموٹریچ نے پیرس میں ایک تقریب سےخطاب میں کہاکہ فلسطینی عوام کا تصور مصنوعی ہے۔فلسطینی قوم نام کی کوئی شئے وجود نہیں رکھتی۔ فلسطین کی کوئی تاریخ ہے نہ ہی ان کی کوئی زبان ہے۔ بیزلیل سموٹریچ نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ مغربی کنارے کے قصبے حوارا کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے منگل کو ٹیلی فون پر بات چیت کی۔

دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے 10 مارچ کو بیجنگ میں ایران، سعودی عرب اور چین کی طرف سے مشترکہ سہ فریقی بیان پر دستخط پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کو دونوں ممالک کی قیادت کی دانشمندی اور دور اندیشی کا ثبوت قرار دیا۔

وزیر خارجہ نے اس عمل کو آسان بنانے میں چین کے اہم کردار کو بھی سراہا۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایران اور سعودی عرب دونوں کے ساتھ پاکستان کے قریبی برادرانہ تعلقات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی تجدید پورے خطے کے لیے امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو بڑھانے کی رفتار کا ذکر کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کے تمام شعبوں میں تعاون کو مزید تیز کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم

یا مقلّب القلوب والابصار، یا مدبّر اللّیل و النّہار، یا محوّل الحول و الاحوال حوِّل حالنا الی احسنِ الحال

(اے دلوں اور نگاہوں کو پلٹنے والے، اے رات اور دن کا نظام چلانے والے، اے سال اور احوال کو تبدیل کرنے والے! ہماری حالت کو سب سے اچھی حالت میں تبدیل کر دے۔)

ایرانی قوم کی فرد فرد کو عید نوروز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، خاص طور پر شہیدوں کے معزز اہل خانہ کو، جنگ میں اپنے اعضائے جسمانی کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو، جنگ میں ایثار سے کام لینے والوں کو، عوام کے لیے خدمت انجام دینے والوں کو اور اسی طرح ان دوسری اقوام کو بھی جو نوروز مناتی ہیں اور اسے اہمیت دیتی ہیں۔ ان شاء اللہ آپ سبھی کو یہ باشرف عید مبارک ہو۔

اس سال فطرت کی بہار کی آمد، معنویت و روحانیت کی بہار یعنی ماہ رمضان کے ساتھ ہوئی۔ جس طرح سے بہار کے بارے میں کہا گيا ہے کہ "تن مپوشانید از باد بہار" (نسیم بہاری سے اپنے تن کو نہ بچاؤ)، اسی طرح ماہ مبارک رمضان کی روحانیت کی بہار کے بارے میں بھی ہمیں اس جملے کو مدنظر رکھنا چاہیے: "الا فتعرضوا لھا"، "ان فی ایام دھرکم نفحات الا فتعرضوا لھا" (بے شک تمھاری دنیا کے اوقات میں کچھ مناسب موقع ہیں، ان سے ضرور فائدہ اٹھاؤ۔) رمضان کے مبارک مہینے میں روحانیت کی نسیم، سبھی کے شامل حال ہے اور ہمیں اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے دلوں کو اس روحانی، الہی اور معطر ہوا کے جھونکے کے سامنے رکھنا چاہیے۔

اس وقت میں اپنی اس گفتگو میں سنہ 1401 (ہجری شمسی 21 مارچ 2022 الی 20 مارچ 2023) پر ایک سرسری نظر ڈالوں گا اور اسی طرح اس وقت شروع ہونے اس سال، 1402 پر بھی اجمالی نظر ڈالوں گا۔ سنہ 1401 (ہجری شمسی) مختلف واقعات و تغیرات کا سال تھا، چاہے وہ معاشی تغیرات ہوں، چاہے سیاسی واقعات ہوں، چاہے سماجی واقعات ہوں۔ ان میں سے کچھ شیریں تھے تو کچھ تلخ، انسان کی زندگي کے تمام برسوں اور خاص طور پر ایک وسیع نگاہ میں اسلامی انقلاب کے بعد کے ایرانی قوم کے دیگر برسوں کی ہی مانند۔ میرے خیال میں سنہ 1401 (ہجری شمسی) میں قوم کے سامنے جو سب سے اہم مسئلہ تھا وہ ملک کی معیشت کا مسئلہ تھا جو عوام کی روز مرہ کی زندگی سے براہ راست جڑا ہوا تھا۔ اس معاملے میں بھی، معیشت کے معاملے میں بھی کچھ تلخیاں تھیں، کچھ شیریں باتیں بھی تھیں۔ بعض شعبوں میں، جن کی طرف میں اشارہ کروں گا، کچھ تلخی تھی تو بعض معاملوں میں شیریں باتیں بھی تھیں جو معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان سب کو ایک ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے اور مجموعی طور پر ان پر نظر ڈالنی چاہیے۔ تلخیوں میں زیادہ تر افراط زر اور مہنگائي تھی جو واقعی تلخ ہے۔ خاص ور پر غذائي اشیاء اور زندگي کی بنیادی ضرورت کے وسائل کی مہنگائي، جب غذائي اشیاء اور زندگي کے بنیادی وسائل کی قیمت میں کافی اضافہ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ دباؤ، سماج کے سب سے نچلے طبقوں پر آتا ہے۔ کیونکہ فیملی باسکٹ میں ان کے لیے سب سے بڑا حصہ غذائي اشیاء اور زندگي کے بنیادی اور ضروری وسائل کا ہوتا ہے۔ اس لیے سب سے زیادہ دباؤ ان پر پڑتا ہے اور یہ چیز تلخیوں میں سے تھی اور میرے خیال میں ملک کے اہم معاشی مسائل میں، یہ چیز زیادہ بنیادی اور زیادہ اہم تھی جو تلخ تھی۔

البتہ اسی معاشی شعبے میں بہت سے اچھے کام بھی انجام پائے اور ایسے تعمیراتی کام بھی ہوئے جو معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان کی طرف میں اشارہ کروں گا، ان تعمیراتی کاموں کو جاری رہنا چاہیے یہاں تک کہ وہ عوام کی زندگي اور ان کی معیشت کی بہتری پر منتج ہوں اور ان سے جڑ جائيں۔ پروڈکشن کی حمایت ہوئي، سنہ 1401 (ہجری شمسی) میں، جہاں تک میرے پاس معلومات ہیں، ملک میں پروڈکشن کی حمایت کی گئي۔ کئي ہزار بند پڑے اور گنجائش سے کم کام کرنے والے کارخانوں نے کام کرنا شروع کر دیا۔ نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، البتہ جتنی تعداد کی میں نے پچھلے سال سفارش کی تھی، اتنی تعداد میں اضافہ تو نہیں ہوا لیکن ان کمپنیوں کی تعداد میں قابل توجہ حد تک اضافہ ہوا۔ ان کمپنیوں کے پروڈکٹس کی قدر میں بھی اضافہ ہوا۔ روزگار کے مسئلے میں بھی کچھ پیشرفت ہوئي، یعنی بے روزگاری میں کچھ فیصد – کچھ ہی فیصد سہی– کمی ہوئي اور روزگار میں کسی حد تک اضافہ ہوا جو بہرحال غنیمت ہے۔ وہ نمائش جو سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر کے صنعت کاروں نے لگائي تھی اور اسی طرح وہ نشست بھی، جس میں ملک کے اہم صنعتکاروں نے حصہ لیا اور ان میں سے بعض نے اپنے خیالات بھی پیش کئے، واقعی مسرت بخش تھی۔ ملک کے صنعتکاروں کے پروڈکشنز کے بارے میں میری رائے، مثبت ہے اور اچھا کام انجام پایا ہے۔ بعض معاشی اشاریوں میں پیشرفت ہوئي، انشورینس میں ہمارے انڈیکیٹرز اچھے ہیں۔ تعمیرات میں، پانی، گيس، سڑک، ماحولیات وغیرہ کے شعبوں میں اچھے کام ہوئے ہیں۔ البتہ جیسا کہ میں نے کہا اور اب زور دے کر عرض کر رہا ہوں، ان کاموں کو عوام کی زندگي میں اپنا اثر دکھانا چاہئے، عوام کی زندگي میں آسائش پر منتج ہونا چاہیے۔ یہ کام کب ہوگا؟ کب ایسی صورتحال بنے گي؟ جب یہ سلسلہ جاری رہے، جب ان کاموں کے سلسلے میں ٹھوس اور گہری منصوبہ بندی ہوگي، ان شاء اللہ اس سال، سنہ 1402 (ہجری شمسی) میں یہ کام جاری رہیں گے تاکہ یہ تعمیری کام، لوگوں کی زندگي میں رونق اور لوگوں خاص طور پر کمزور طبقوں کے دسترخوان میں گشائش پر منتج ہوں۔ البتہ یہ نکتہ بھی مدنظر رہنا چاہیے: معاشی مسائل اور معاشی مشکلات صرف ہمارے لیے ہی نہیں ہیں۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک، شاید کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو خاص معاشی مسائل کا سامنا ہے، یہاں تک کہ دولتمند ممالک، مضبوط اور پیشرفتہ معیشت رکھنے والے ممالک کو بھی۔ واقعی ان کے سامنے بہت زیادہ سخت مسا‏ئل اور دشواریاں ہیں۔ اس لحاظ سے بعض ممالک کی صورتحال تو ہم سے بھی کہیں زیادہ خراب ہے۔ مضبوط معیشت والے ممالک میں بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں جس کی خبر آپ نے ابھی حال ہی میں سنی ہے۔ البتہ بعض ممالک کی خبریں دی گئيں اور بعض کی نہیں دی گئيں لیکن وہ خبریں سامنے آ ہی جائيں گی۔ بعض ملکوں میں بینکوں کا دیوالیہ پن ہے، کھربوں کے غیر معمولی قرضے ہیں اور یہ سب مشکلات ہیں، وہاں بھی ہیں، یہاں بھی ہیں۔ وہ بھی انھیں برطرف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے، کام کرنا چاہیے، عہدیداروں کو کام کرنا چاہیے۔ میری گزارش ہے کہ سرکاری عہدیداروں کی پوری کوشش، ان کے علاوہ معیشت کے شعبے میں کام کرنے والوں، سیاسی اور ثقافتی کارکنوں کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم سنہ 1402 (ہجری شمسی) کو، ایرانی قوم کے لیے ایک شیریں سال بنا دیں۔ یعنی ہم کچھ ایسا کریں، ہماری ذمہ داری ہے کہ ان شاء اللہ، عوام کے لیے نیا سال، ایک شیریں سال ہو، تلخیاں کم ہوں، شیرینیاں بڑھتی جائيں اور ان شاء اللہ ہم کامیابیوں میں اضافہ کرتے جائيں۔

اب سنہ 1402 (ہجری شمسی) کی بات کرتے ہیں۔ میرے خیال میں سنہ 1402 میں بھی ہمارا کلیدی مسئلہ، معیشت کا مسئلہ ہی ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے مسائل کم نہیں، مختلف مشکلات ہیں، ثقافت کے شعبے میں، سیاست کے شعبے میں لیکن اس سال میں بھی ہمارا اصلی اور بنیادی مسئلہ، معیشت کا ہی ہے۔ یعنی اگر ہم ان شاء اللہ معاشی مسائل کو کم کر سکے اور ان شاء اللہ عہدیداروں نے اس شعبے میں ہمت سے کام لیا، غور و فکر کیا اور اہم کوششیں کیں تو ملک کے بہت سے دوسرے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ حکومت بھی، مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) بھی، معاشی شعبے میں کام کرنے والے بھی اور جوان اور پرجوش جوان عوامی گروہ بھی، جن میں سے بعض گروہوں کو میں پہچانتا ہوں اور ان سے واقعی وابستگی رکھتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اسی معیشت کے مختلف شعبوں میں بڑے اچھے کام کر رہے ہیں۔ ان سب کی کوشش، ملک کی مشکلات اور عوام کی مشکلات کو دور کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ ان مشکلات کو دور کرنے کا کام کبھی بنیادی معاشی کاموں کے ذریعے ہوتا ہے جیسے پیداوار جو معیشت میں ایک بنیادی کام ہے، یعنی پروڈکشن، اقتصادیات میں ایک بنیادی کام ہے، یا انسانی اور اسلامی کاموں کے ذریعے ہوتا ہے جیسے معاشرے کے کمزور طبقوں کی دستگیری، ان کے لیے عوامی امداد اور عوامی تعاون۔

البتہ میں نے جو پروڈکشن کہا اور پیداوار پر زور دیا تو پروڈکشن کے ساتھ سرمایہ کاری بھی اہم ہے۔ اس پر محترم حکومتی عہدیدار بھی توجہ دیں اور نجی سیکٹر کے لوگ بھی توجہ دیں، ہم 2010 کے عشرے میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے ملک کا ایک اہم خلا، سرمایہ کاری ہے۔ سرمایہ کاری ہونی چاہیے، یہ بھی ایک اہم کام ہے۔

تو میں تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے، افراط زر کو بھی، ملکی پیداوار کو بھی، یہ چیزیں جو اہم ہیں، افراط زر جو اصل مشکل ہے، ملکی پیداوار جو یقینی طور پر معاشی مسائل سے ملک کی نجات کی کنجیوں میں سے ایک ہے، ان سب کو مدنظر رکھ کر، سال کے نعرے کا اس طرح اعلان کرتا ہوں: "افراط زر پر کنٹرول، پیداوار کا فروغ"، یہ (اس) سال کا نعرہ ہے۔ مطلب یہ کہ عہدیداروں کی تمام تر کوشش ان دو موضوعات پر مرکوز ہونی چاہیے۔ پہلے مرحلے میں سرکاری عہدیداران اور اگلے مرحلے میں، جیسا کہ میں نے عرض کیا، معاشی کارکن، عوامی کارکن، وہ لوگ جو کچھ کر سکتے ہیں، ثقافتی کارکن، ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ جسے ان معاملوں میں ثقافت سازی کرنی چاہیے، یہ سبھی ان دو اصلی نکات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں، پہلے مرحلے میں افراط زر پر کنٹرول یعنی افراط زر کو حقیقت میں کنٹرول کریں اور کم کریں، جہاں تک ممکن ہو کم کریں اور پھر پروڈکشن بڑھائيں۔ بنابریں نعرہ ہوا: افراط زر پر کنٹرول، پیداوار کا فروغ۔

خداوند عالم سے سبھی کے لیے توفیق کی دعا کرتا ہوں، اپنا سلام، عقیدت اور اخلاص، عالم ہستی کی روح حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی کی پاکیزہ روح اور عزیز شہداء کی پاکیزہ ارواح کے لیے خداوند عالم سے درجات کی بلندی کی دعا کرتا ہوں اور ایرانی قوم کے لیے خداوند متعال سے سعادت، مسرت اور حیات نو کی دعا کرتا ہوں۔

کچھ اور باتیں بھی ہیں جنھیں ان شاء اللہ میں اپنی تقریر میں عرض کروں گا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ

صدرمملکت سید ابراہیم رئیسی نے بدھ کو سائنس اور دیگر میدانوں میں نمایاں تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والی منتخب ایرانی طالبات سے ملاقات کی ۔ انھوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں ایران کے اسلامی جمہوری نظام کو جدید ترین انسانی تقاضوں کے مطابق قرار دیا ۔ 
صدر مملکت نے کہا کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے دینی جمہوریت کے نام سے ایک جدید تمدن اور اس دور کے انسانوں کے لئے نیا اسلوب زندگی پیش کیا جو اس دور کے انسانوں کے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ انہوں نے اس نئے تمدن کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مرہون منت قرار دیا۔ 
صدر رئیسی نے زور دیکر کہا کہ اسلام، معاشی خوشحالی اور نعمتوں سے انسان کے لطف اندوز ہونے کا مخالف نہیں ہے اور نہ ہی فطری انسانی تقاضوں کو کچلنے کا قائل ہے۔ 
انھوں نے کہا کہ اسلام، فطری انسانی تقاضوں کو صحیح راستے پر ڈال کر انسان کو زندگی کے اصل ہدف سے آشنا کراتا ہے۔
سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ اس کے برعکس مغربی دنیا نے ہم جنس پرستی جیسے غیرانسانی رویے اور بے حیائی کو تمدن اور ترقی کا مظہر بنا کر لوگوں کو انسانیت کے مرتبے سے گراکر خود فراموشی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب والے اپنی میڈیا کی طاقت اور زور زبردستی کے ذریعے اسلامی ایران سمیت پوری دنیا میں اپنےغیر انسانی کلچر کو پھیلانا چاہتے ہیں۔
صدر ایران نے کہا کہ مغرب کی اس ثقافتی یلغار کا بہت ہوشیاری اور توجہ سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
انھوں نے کہا کہ ایران کا مستقبل ملک کے نوجوانوں سے وابستہ ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ ملک بہت غنی ثقافت اور مضبوط سماجی بنیادوں کا مالک ہے ۔

صدر مملکت نے کہا کہ ملک کے تعلیمی نظام کو ترقی و پیشرفت کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے ۔ 

سحر نیوز/ ایران: ایران کی ایٹمی توانائی کے قومی ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا ہے کہ حقیقی خودمختاری کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں طاقتور ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہماری سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت مفید اور یہ طاقت پائیدار اور بڑھتی رہے اور اس کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک طاقتور صنعت کی بنیاد رکھی جائے جو کہ نالج بیسڈ ہو، تو اس کا مثبت اثر یقینا تمام شعبوں پر مرتب ہوگا۔
ایٹمی ادارے کے سربراہ نے کہا کہ انقلاب اسلامی سے قبل کے دور سے لیکر آج تک ہمارے دشمن نہیں چاہتے تھے کہ ہم ایٹمی ایندھن خود تیار کریں لیکن آج وہ ہمارے اس حق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ مغربی ممالک کی پابندیوں کا اصل ٹارگیٹ بھی ہمارا عزم و ارادہ ہے۔
محمد اسلامی نے کہا کہ دشمنوں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود، آج ایران اپنے ایٹمی سائنسدانوں کے بل بوتے پر دنیا کے اہم ترین ایٹمی ممالک کی صف میں کھڑا ہوچکا ہے اور اب دنیا کی سامراجی طاقتیں ایران کو ایک ایٹمی ملک ماننے پر مجبور ہوچکی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ تہران سے پیش آنے کے لئے ان کے سامنے اب سفارتی راستے کے علاوہ اور کوئی طریقہ باقی نہیں بچا ہے۔

حوزہ/ تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ (ص) کے سربراہ نے کہا کہ آج کا روز دوری کا روز ہے۔ یہ عہد کا دن ہے کہ ہر وہ چیز جس سے خدا اور اسکا رسول دور ہیں اس سے امت رسول اللہ بھی دور و بیزار ہے اور اسی عمل میں ہماری نجات پوشیدہ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شب برأت کی بابرکت مناسبت سے تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ (ص) کے زیر انتظام کارکنان کا مرکزی کنونشن جامعہ عروةالوثقیٰ لاہور میں منعقد ہوا۔ جس میں پروفیشنلز آف تحریکِ بیداری، المصطفیٰ سکاؤٹس اور ملک بھر سے تحریک بیداری امت کے ہزاروں مرد و خواتین کارکنان شریک ہوئے۔

برأت و بیزاری قرآن کی بنیادی تعلیمات اور فرائض میں سے ہے، علامہ سید جواد نقوی

علامہ سید جواد نقوی نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برأت قرآن کی بنیادی تعلیمات اور فرائض میں سے ہے اور یہ کسی ناگوار چیز سے بیزاری کے ساتھ دوری اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ اللہ کے علاوہ بندگی، اللہ کے علاؤہ حکومت، اللہ کے دین کے علاوہ نظام اور جو کچھ بھی سامریوں نے اللہ کے مقابلے میں بنا کر دیا ہے ان سب سے اعلان برأت کرنا، یہ وہ متروک و فراموش فریضہ ہے جو تمام امت اسلامیہ پر واجب ہے۔

برأت و بیزاری قرآن کی بنیادی تعلیمات اور فرائض میں سے ہے، علامہ سید جواد نقوی

انہوں نے کہا کہ آج کا روز دوری کا روز ہے۔ یہ عہد کا دن ہے کہ ہر وہ چیز جس سے خدا اور اسکا رسول دور ہیں اس سے امت رسول اللہ (ص) بھی دور و بیزار ہے اور اسی عمل میں ہماری نجات پوشیدہ ہے۔

برأت و بیزاری قرآن کی بنیادی تعلیمات اور فرائض میں سے ہے، علامہ سید جواد نقوی

برأت و بیزاری قرآن کی بنیادی تعلیمات اور فرائض میں سے ہے، علامہ سید جواد نقوی

واضح رہے کہ مرکزی کنونشن میں علامہ سید جواد نقوی نے محترم تنویر جعفری کو آئندہ سال کیلئے تحریک بیداری امت مصطفی کا نئے میر کارواں نامزد کر دیا۔

برأت و بیزاری قرآن کی بنیادی تعلیمات اور فرائض میں سے ہے، علامہ سید جواد نقوی

پاکستانی معروف عالم دین نے کہا کہ آج پوری دنیا کی نگاہ مکتب اہل بیتؑ پر ہے کیونکہ یہی مکتب اسلام کا اصل چہرہ، اس کی قوت کا مظہر، استعمار ستیزی اور طاغوت سے جنگ کا استعارہ ہے۔ دنیا بھر میں مبارزہ، استقامت، مستدل اور عقلاء کی جدوجہد کی روش مکتب اہل بیتؑ کا ہی خاصہ ہے.

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی اٹھائیسویں برسی کی مناسبت سے حوزہ امام خمینیؒ میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں حوزہ کے فضلاء، ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ طلاب نے شرکت کی۔ کانفرنس سے امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے خصوصی خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے نوجوانوں میں جذبہ شعور کو زندہ رکھنے کے لیے زندگی صرف کی۔ ان کی تمام زندگی مجاہدت، مقاومت اور شعور بانٹنے سے عبارت ہے۔ ہم شہید کی شخصیت میں دو نمایاں خصوصیات کو ملاحظہ کرتے ہیں: اول یہ کہ وہ انتہا درجے کہ متعبد، اسلامی اخلاق سے آراستہ اور دین کے فہم سے مزین انسان تھے۔ دوم یہ کہ جو کچھ انہوں نے دین سے حاصل کیا، اسے زندگی کی جدوجہد، تگ و دو اور مبارزہ میں ڈھال کر نوجوانوں کے درمیان مثال قائم کی۔ مجھے کینیا میں ان کی جائے پیدائش پر جانے کا موقع ملا اور میں اس مسجد میں بھی گیا جہاں ان کے والد بزرگوار تبلیغ دین کرتے تھے۔ کون جانتا تھا کہ وہ وقت آئے گا جب افریقی قوم کے درمیان پیدا ہونے والا ایک بچہ پاکستان کے مومن جوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن جائے گا اور ان کے اذہان کو متاثر کرے گا۔

علامہ امین شہیدی نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی علماء و مراجع عظام کا احترام کرتے تھے۔ وہ امام خمینیؒ کے مرید، پیروکار اور مقلد تھے اور روحی اعتبار سے ایک مبارزاتی شخصیت تھے۔ انہوں نے فہمِ دین کو صرف جائے نماز اور ذاتی زندگی تک محدود نہیں رکھا بلکہ قرآن کریم کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے میدانِ عمل میں مالک اشتر، عمار یاسر، اویس قرنی اور ابوذر غفاری جیسا کردار اپنانے کی کوشش کی اور جوانوں کے لئے نمونہ بنے۔ حوزاتِ علمیہ اور دینی مراکز کی سب سے بڑی ذمہ داری لوگوں کو انہی دینی صفات سے مزین کرنا ہے۔ میدانِ عمل میں ایمان کا اظہار اور نظریہ کی دعوت دینا، دو اہم خصوصیات ہیں۔ اگر آج ہم امام عصر عجل اللہ فرج کے ظہور کے منتظر ہیں تو ظہور کی تیاری کے لیے ان دو بنیادی ترین عناصر کی ہمیں ضرورت ہے۔ یعنی ہم ایک طرف عقیدہ، ایمان اور ذاتی زندگی میں پاکیزگی کے اسلحہ سے لیس ہوں تو دوسری طرف استعمار ستیزی، طاغوت سے جنگ اور استکبار کے مقابلہ میں مبارزہ، قیام اور استقامت کے جذبہ سے سرشار ہوں۔ امام خمینیؒ نے امت کے احیاء کے لئے یہی راہ دکھائی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی عملی زندگی کی پچاس بہاریں اسی ہدف کو سامنے رکھ کر گزاریں۔

انہوں نے کہا کہ آج پوری دنیا کی نگاہ مکتب اہل بیتؑ پر ہے کیونکہ یہی مکتب اسلام کا اصل چہرہ، اس کی قوت کا مظہر، استعمار ستیزی اور طاغوت سے جنگ کا استعارہ ہے۔ دنیا بھر میں مبارزہ، استقامت، مستدل اور عقلاء کی جدوجہد کی روش مکتب اہل بیتؑ کا ہی خاصہ ہے۔ مکتب اہل بیتؑ انتہا پسندی، جہالت اور بے گناہوں کے قتلِ عام کا درس نہیں دیتا  اور نہ کسی شخص کو اسلام سے خارج کرنے کا کوئی راستہ اس مکتب میں ہے۔ مکتب اہل بیتؑ میں دین کا جاذبہ اور بے دین کے مقابلہ میں دفاع بھی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مذکورہ صفات کا مظہر بننے کی بھرپور کوشش کی اور معاشرہ میں اسی خط پر کام کیا۔ آج کے مدارس کے طلاب و علماء اور رہنماؤں کو بھی انہی صفات کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ معاشرہ میں کام کرنے کے لیے متوازن اور بابصیرت حکمت عملی کی تشکیل ضروری ہے۔ یعنی نہ ہم مولا علی علیہ السلام سے آگے نکلیں اور نہ ان سے پیچھے رہ جائیں، نہ دشمنوں کی دشمنی اور نہ دوستوں کی دوستی میں امیرالمومنینؑ سے آگے نکلیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام کو معیار قرار دیتے ہوئے ایسی متوازن اجتماعی پالیسی تشکیل دی جائے جس کے ذریعہ پاکستان کے ہر فرقہ بشمول مکتب اہل بیتؑ کے پیروکاروں کو ظلم و فساد کے چنگل سے نجات دلائی جا سکے، لیکن شرط یہ ہے کہ  ہمارے حوزات، دینی مدارس، ادارے، مساجد اور مجالس شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسی شخصیات پیدا کریں۔ اس بات کا تعلق ہمارے نظامِ تربیت سے ہے، اس نظام کو جتنا زیادہ اہل بیتؑ کی تعلیمات میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے گی، اتنا ہی ہم مؤثر طور پر دین کا پیغام انسانوں تک پہنچا سکیں گے۔
https://taghribnews.

15 شعبان اور یوم ولادت حضرت امام عصر (عج) کے موقع پر کربلا بلدیہ کل سے اپنا سروس پلان شروع کرے گی۔

سڑک کی صفائی

کربلا میں سیکورٹی پلان کے نفاذ کے ساتھ ہی صوبہ کربلا کی بلدیہ کے میڈیا آفیسر محمد الموسوی نے ایک بیان میں اعلان کیا: دو ہزار سے زائد ملازمین سڑکوں کی صفائی کے لیے کام کر رہے ہیں اور بلدیہ نے سڑکوں کی صفائی کے لیے آلات مختص کیے ہیں۔

سیکیورٹی

کربلا میونسپلٹی کے میڈیا اور تعلقات کے افسر احسان الاسدی نے کہا: فوج اور پولیس کی سیکورٹی ٹیمیں داخلی راستوں اور تین شاہ راہوں پر تعینات ہیں تاکہ زائرین کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔تقریباً 600 سی سی ٹی وی کیمرے سڑکوں پر لگائے گئے ہیں۔

موکب کا اہتمام

اس سال 15 شعبان کے موقع پر عراق کے مختلف صوبوں سے 834 موکب زائرین کا خیرمقدم کریں گے تاکہ زائرین کو مختلف خدمات فراہم کی جاسکیں۔

جشن چراغاں

شب ولادت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف مومنین کربلائے معلیٰ میں مقام امام زمان (عج) کے قریب شمع جلا کر جشن مناتے ہیں اور امام علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر کافی تعداد میں شمع روشن کی جاتی ہیں۔

زائرین کی نقل و حمل

توقع ہے کہ عراق، عرب اور بیرونی ممالک، جیسے ہندوستان اور پاکستان سے 11 ملین سے زیادہ لوگ کربلا میں آئیں گے، کربلائے معلی کے ٹرانسپورٹیشن منیجر نے کہا:5 ہزار سے زیادہ گاڑیاں زائرین کو مختلف مقامات تک پہونچانے کے لئے آمادہ ہیں۔

میڈیکل سہولتیں

محکمہ صحت میں کربلا کے سروس ڈیپارٹمنٹ زائرین کو خدمات فراہم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔کربلا کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر صباح الموسوی نے ایک بیان میں کہا: کربلا کے اندر 86 ایمبولینسوں کو تعینات کر دیا گیا ہے اور سات سرکاری ہسپتال خدمت کے لیے تیار ہیں۔ "زینب الکبری" نامی خصوصی سرجری سینٹر بھی کھول دیا گیا ہے اور اسی طرح 33 ٹیمیں زائرین کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔