سلیمانی

سلیمانی

عورت کی ایک اہم ترین ذمہ داری گھر کی خانہ داری ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ میرا یہ ماننا نہیں ہے کہ عورتوں کو سیاسی اور سماجی کاموں سے دور رہنا چاہئے، نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس کے معنی یہ لیے جائيں کہ ہم "خانہ داری" کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تو یہ گناہ ہوگا۔ خانہ داری، ایک کام ہے، بڑا کام ہے، اہم ترین و حساس ترین کام ہے، مستقبل ساز کام ہے۔ افزائش نسل ایک عظیم مجاہدت ہے۔

امام خامنہ ای

1 مئی 2013

اہل تبریز کے 18 فروری 1978 کے تاریخی قیام کی سالگرہ پر صوبۂ مشرقی آذربائيجان کے ہزاروں لوگوں نے اتوار کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
     

اس موقع پر اپنے خطاب میں آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پہلی مارچ 2024 کو ہونے والے پارلیمنٹ اور ماہرین اسمبلی کے انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے سامراجی محاذ کو ایران کے انتخابات کا مخالف قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن، نظام کی جمہوریت کا مظہر ہے اور اسی لیے سامراجی طاقتیں اور امریکا، جو جمہوریت کے بھی مخالف ہیں اور اسلام کے بھی خلاف ہیں، انتخابات اور الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کے مخالف ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام سے ماضی کے ایک الیکشن میں شرکت نہ کرنے کی امریکا کے ایک سابق صدر کی اپیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس امریکی صدر نے نادانستگی میں ایران کی مدد کی کیونکہ لوگوں نے اس کی ضد میں اور اس کی مخالفت میں ہمیشہ سے زیادہ اور بھرپور طریقے سے ووٹنگ کی اور اسی وجہ سے اب امریکی اس طرح کی بات نہیں کرتے ہیں لیکن مختلف طریقوں سے لوگوں کو الیکشن سے دور رکھنے اور الیکشن کے سلسلے میں انھیں مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پچھلے عشروں کے درمیان الیکشن میں کبھی بھی ویسی گڑبڑی کا مشاہدہ نہیں کیا گيا جس طرح کی گڑبڑی کا دشمن دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی یہ بات بے بنیاد ہے۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ بعض مواقع پر کچھ دعوے کیے گئے اور تحقیق و تفتیش کے بعد بعض خلاف ورزیاں ثابت ہوئيں لیکن کبھی بھی وہ خلاف ورزیاں، الیکشن کے مجموعی نتیجے میں تبدیلی پر منتج نہیں ہوئيں اور ملک میں انتخابات ہمیشہ صحیح، سالم اور شفاف طریقے سے منعقد ہوئے ہیں۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حادثات اور سازشوں کے طوفان کے درمیان اپنی اب تک کی 45 سال کی عمر میں اسلامی انقلاب کی پیشرفت اور مزید مضبوط ہونے کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قوم اور نظام کے معنی میں یہ انقلاب، سخت اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر زیادہ مضبوط، زیادہ طاقتور، زیادہ با اثر رائے اور زیادہ اثر و رسوخ والا بن چکا ہے اور آج ہمیں اصل ذمہ داریوں کو بروقت سمجھ کر، ان پر بروقت عمل کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب کے مطابق خود پر اور دشمن پر نظر رکھنا سبھی کے دو بنیادی فرائض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا اور دشمن دونوں کا صحیح اندازہ ہونا چاہیے اور اس فریضے سے غفلت ایک بڑی مصیبت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی شناخت کا ہدف، قدردانی، مضبوط نکات کی حفاظت و تقویت اور کمزوریوں کو دور کرنا بتایا اور انقلاب اور قوم کے مضبوط پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ پوری طرح سے بدعنوان، بے ایمان، حق پامال کرنے والے، ظالم، آمر اور سلطنتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ وہ ایسا نظام تھا جو عوام کو کسی طرح کا حق اور احترام دیے جانے کا قائل نہیں تھا اور بہت سے معاملوں میں وہ عملی طور پر امریکیوں اور برطانوی سفارتخانے کے حکم پر کام کرتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت اس زوال پذیر نظام کے بالکل برخلاف، عوام ملک اور نظام کے مالک ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ انتخابات کے ذریعے، ملک چلانے کے لیے ملک کے اہم حکام کا تعین کرتے ہیں۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ انقلاب کے افکار و اقدار کا فروغ خاص طور خطے میں ان کا پھیلاؤ، مغربی تمدن کے پھیلاؤ کو روکنے کی راہ میں حاصل ہونے والی کسی حد تک کامیابی، اپنے آپ عوامی گروہوں کی تشکیل، ملک کے تمام علاقوں میں سہولتوں اور سروسز کا پھیلاؤ اور مختلف میدانوں میں سائنسدانوں اور دانشوروں کی تربیت، ایسی کامیابیان ہیں جو انقلاب نے اپنے اب تک کے سفر میں حاصل کی ہیں۔

انھوں نے قومی اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کو عوام کا فریضہ بتایا اور کہا کہ سبھی کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ ان ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائيگی، دشمن کے مقابلے میں ایک جہادی کام ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ یہ ذمہ داریاں ادا کی جائيں اور اسی وجہ سے وہ اسلامی جمہوریہ میں انجام پانے والے ہر کام کے مخالف ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دوسرے اہم فریضے یعنی دشمن پر نظر رکھنے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دشمن اور اس کے حربوں، عیاریوں اور ہتکنڈوں سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور اسے کمزور اور ناتواں نہ سمجھنے کے ساتھ ہی اس کے خطرات، دباؤ اور رجز خوانی سے مرعوب بھی نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے ایران کا برا چاہنے والوں کی سازشوں اور نفسیاتی دباؤ کی وجہ، اسلامی انقلاب کے مضبوط نکات اور پیشرفتوں کو بتایا اور کہا کہ دشمنوں کے مقابل میں کبھی پسپا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کی پالیسی فریق مقابل کو رسوا اور پسپا کرنا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر 11 فروری کو زبردست جلوس نکالنے پر پورے ملک کے عوام کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قوم نے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں اپنے انقلابی حوصلے، جوش اور گرمی حیات کا مظاہرہ کیا اور ان لوگوں کو متحیر کر دیا جو ایرانی عوام کے دل کو پژمردہ بنانے اور 22 بہمن (11 فروری انقلاب کی سالگرہ) کو بھلا دینے کے خواہاں تھے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں اسی طرح آذربائیجان کے عوام کو تاریخ، موجودہ دور اور حالیہ عشروں میں حمیت، عشق، جوش اور ایمان کا مظہر بتایا۔

انھوں نے اہل تبریز کے 18 فروری 1978 کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے تاریخ رقم کرنے والا واقعہ بتایا اور کہا کہ اس واقعے نے اہل قم کے 9 جنوری 1978 کے قیام کو بے ثمر نہیں ہونے دیا اور پورے ملک میں قیام کا جذبہ اور انقلابی جوش پھیلا کر اسلامی انقلاب کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی۔

 
 

امام زین العابدین علیہ السلام کے حالات اور طرز زندگی سے متعلق مسائل کی تشریح کرتے ہوئے ہم اپنی بحث کے اس موڑ پر آپہنچے ہیں جہاں زمین ایک ایسی عظیم اسلامی تحریک مہمیزکرنے کے لئے ہموار ہوچکی ہے ۔جس کا حکومت علوی اور حکومت اسلامی پرمنتہی ہوناممکن نظر آنے لگا ہے اس صورت حال کو بطور مختصر ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ امام علیہ السلام کے طریقہ و روش میں کچھ لوگوں کے لئے ( معارف اسلامی کا) بیان و وضاحت کچھ لوگوں کے لئے خود کو منظم و مرتب کرنے کی تلقین اور کچھ افراد وہ بھی تھے جن کے لئے عمل کی راہیں معین و مشخص ہو جاتی تھیں یعنی اب تک کے معروضات کی روشنی میں امام سجاد علیہ السلام کی تصویر کاجو خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے اس کے تحت حضرت (ع) اپنے تیس ،پینتیس سال اس کوشش میں صرف کردیتے ہیں کہ عالم اسلام کے شدت کے ساتھ برگشتہ ماحول کو ایک ایسی سمت کی طرف لے جائیں کہ خود آپ (ع)کے لئے یا آپ (ع)کے جانشینوں کے لئے اس بنیادی ترین جد و جہد اور فعالیت کے لئے موقع فراہم ہو سکے جس کے تحت ایک اسلامی معاشرہ اور الٰہی حکومت قائم ہو سکے ۔چنانچہ اگر امام سجاد علیہ السلام کی ۲۵ سالہ سعی و کوشش ،ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے جد اکر لی جائے تو ہرگز وہ صورت حال تصور نہیں کی جاسکتی جس کے نتیجہ میں امام صادق علیہ السلام کو اولا حکومت بنی امیہ اور پھر حکومت بنی عباس کے خلاف اتنی کھلی ہوئی واضح پالیسی اپنانے کا موقع ہاتھ آیا ۔

ایک اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لئے فکری و ذہنی طور پر زمین ہموار کرنا تمام چیزوں سے زیادہ لازم و ضروری ہے ۔اور یہ ذہنی و فکری آمدگی ،اس وقت کے ماحول اور حالات میں جس سے عالم اسلام دو چار تھا ،وہ کام تھا جو یقینا ایک طویل مدت کا طالب ہے اور یہی وہ کام ہے جو امام زین العابدین علیہ السلام نے تمام تر زحمت اور صعوبت و مصیبت کے باوجود اپنے ذمہ لیا تھا ۔

اس عظیم ذمہ داری کے دوش بدوش امام سجاد علیہ السلام کی زندگی میں ایک اور تلاش و جستجو جلوہ گر نظر آتی ہے جو در اصل سابق کی تیار کردہ زمین کو مزید ہموار کرنے کی طرف امام (ع) کے ایک اور اقدام کی مظہر ہے اس طرح کی کوششوں کا ایک بڑا حصہ سیاسی نوعیت کا حامل ہے اور بعض اوقات بے حد سخت شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اس کا ایک نمونہ امام علیہ السلام کا حکومت و قت سے وابستہ اور ان کے کار گزار محدثوں پر کڑی تنقید ہے ۔ موجو دہ بحث میں اسی نکتہ پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔

آئمہ علیہم السلام کی زندگی سے متعلق ولولہ انگیز ترین بحثوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشرہ کی فکر و ثقافت کو رنگ عطا کرنے والے افراد یعنی علماء( ۱ ) و شعراء کے ساتھ ان بزرگواروں کا برتاؤ کیسا رہا ہے ؟ اصل میں عوام کی فکری و ذہنی تربیت و رہبری ان ہی لوگوں کے ہاتھ میں تھی ،خلفاء بنی امیہ و بنی عباس معاشرہ کو جس رخ پر لے جانا پسند کرتے تھے یہ لوگ عوام کو اسی راہ پر لگا دیتے تھے گویا خلفاء کی اطاعت اور تسلیم کا ماحول پیدا کرنا ان ہی حضرات کا کام تھا چنانچہ ایسے افراد کے ساتھ کیا روش اور طرز اپنایا جائے دیگر ائمہ علیہم السلام کی طرح امام سجادعلیہ السلام کی زندگی کا بھی ایک بڑا ہی اہم اور قابل توجہ پہلو ہے۔

 

امام زین العابدین (ع)کی زندگی ( ایک تحقیقی مطالعہ )

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي حَفَظَہُ اللّٰہُ

 

انقلاب اسلامی ایران کی پینتالیسویں سالگری پر 22کو عوام کا سمندر شریک تھا جہاں اجتماع میں ایرانی صدر حجت الإسلام ابراہیم رئیسی شریک تھے۔

 
 

عبدالباری عطوان نے "رائے ال یوم" اخبار میں صہیونی حکام کی طرف سے اپنے دو اسیروں کو رہا کرنے پر بے پناہ خوشی کے اظہار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حکومت کے قائدین کی خوشی ان دو لوگوں کی وجہ سے ہے، جن کو چھڑانے کے لئے انہوں نے سینکڑوں طیاروں کو استعمال کیا۔ ان کو آزاد کرانے کے لیے رفح کے جنوب میں شدید فضائی حملے کیے گئے، جو اسرائیل کی شکست کا ایک اور ثبوت ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "صیہونی حکومت اپنی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے ایک چھوٹی سی فتح کی تلاش میں ہے۔" نیتن یاہو نے اس آپریشن کو اس حکومت کی تاریخ کا سب سے کامیاب آپریشن قرار دیا اور ان کے جنگی وزیر یوو گیلانٹ نے بھی اسے جنگی عمل میں ایک اہم موڑ قرار دیا۔

یہ شرمناک ہے کہ نیتن یاہو اور ان کے سینیئر جرنیل اس معمولی آپریشن کو لمحہ بہ لمحہ فالو کر رہے ہیں اور اسے اہم کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ اس تجزیہ نگار نے مزید کہا: "اگر یہ حکومت مضبوط ہے اور فتح کا دعویٰ کرتی ہے تو کیا وہ کینسر سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ان دو بوڑھے قیدیوں کی رہائی کے لیے خصوصی اجلاس منعقد کرتی؟ حماس ان دو بیمار اسیروں کو رہا کرنا چاہتی تھی اور اسی وجہ سے انہیں رفح کے جنوب میں دو گھروں میں رکھا اور گویا کہہ دیا کہ انہیں لے جاو۔ صیہونیوں نے اس علاقے میں F15 اور F16 سے شدید بمباری کی لیکن نتیجہ صفر رہا۔

انہوں نے مزید کہا: اگر حماس اور اسلامی جہاد کے زیر قیادت دیگر مزاحمتی گروپ کمزور ہوتے، جیسا کہ نیتن یاہو نے پریس کانفرنس کے دوران فخریہ دعویٰ کیا تو کیا وہ 130 دن سے زیادہ مزاحمت کرسکتے۔؟ نیتن یاہو اپنے استاد امریکی صدر جو بائیڈن کی طرح جھوٹا ہے، جس نے جنگ روکنے کے بارے میں ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ رفح پر حملہ کرنے اور رہائشیوں کے لیے شہر سے بھاگنے کے لیے محفوظ راستہ بنانے کی نیتن یاہو کی تمام دھمکیاں ہالی ووڈ کی فلموں کے ڈائیلاک کی طرح ہیں۔ امریکہ کے علاوہ پوری دنیا اس وقت نسل پرست صیہونی کابینہ اور بچوں کی قاتل نااہل مجرم حکومت کے خلاف ہے۔"

عطوان نے لکھا: جلد یا بدیر، جنگ ایک دن ختم ہو جائے گی، لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن کا ریکارڈ صہیونی منصوبے کے خاتمے کے آغاز کے طور پر باقی رہے گا۔ ہم نیتن یاہو سے کہتے ہیں کہ نستوہ کا جنگجو "یحییٰ السنور" ابھی زندہ ہے اور وہ ایک محفوظ سرنگ سے اپنے جرنیلوں کے ساتھ جنگ کی کمان کر رہا ہے، وہ ابھی تک بلکہ کبھی بھی اس تک نہ پہنچ پائیں گے، نہ کبھی تلاش کرسکیں گے اور اگر وہ اس تک پہنچ بھی جائیں تو وہ خدا کی نصرت سے اپنی رائفل کی آخری گولی تک مزاحمت کرے گا۔ مزاحمت اب بھی مضبوط اور ثابت قدم ہے، اس وقت نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ تمام عرب اور اسلامی اقوام نیز دنیا کے باشعور لوگ ان کی حمایت کرتے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین غاصبوں اور جارحین کو کفن دیکر ان کے تابوت ان لوگوں تک پہنچائیں گے، جنہوں نے  اس پاک سرزمین فلسطین پر ان کی حکومت قائم کی ہے۔

تحریر: عبدالباری عطوان

Wednesday, 14 February 2024 07:52

امام حسین کی سبق آموز زندگی

مومن کے دل کی خوشی:

حضرت امام حسین علیہ السلام سے نقل ہوا کہ آپ نے فرمایا:

میرے نزدیک ثابت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: نماز کے بعد بہترین کام کسی مؤمن کے دل کو خوش کرنا ہے، اگر اس کام میں گناہ نہ ہو۔

میں نے ایک روز ایک غلام کو دیکھا جو اپنے کتے کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا، میں نے اس سے سبب دریافت کیا تو اس نے کہا: یابن رسول الله! میں غمگین ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اس کتے کا دل خوش کروں تا کہ میرا دل خوش ہو جائے، میرا آقا یہودی ہے، میں اس سے جدا ہونے کی تمنا رکھتا ہوں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام دو سو دینار اس کے آقا کے پاس لے گئے اور اس غلام کی قیمت ادا کرنی چاہی، اور اس کو خریدنا چاہا، تو اس کے مالک نے کہا: غلام آپ کے قدموں پر نثار اور میں نے یہ باغ بھی اس کو بخش دیا اور یہ دینار بھی آپ کو واپس کرتا ہوں۔

امام حسین علیہ السلام نے کہا: میں نے بھی یہ مال تمھیں بخشا، اس آقا نے کہا: میں نے آپ کی بخشش کو قبول کیا اور اسے غلام کو بخش دیا، امام حسین علیہ السلام نے کہا: میں نے غلام کو آزاد کر دیا اور یہ مال اس کو بخش دیا۔

اس شخص کی زوجہ اس نیکی کو دیکھ رہی تھی، چنانچہ وہ مسلمان ہو گئی اور اس نے کہا: میں نے اپنا مہر شوہر کو بخش دیا ہے، اس کے بعد وہ آقا بھی اسلام لے آیا اور اپنا مکان اپنی زوجہ کو بخش دیا۔

ایک قدم اٹھانے سے ایک غلام آزاد ہو گیا، ایک غریب بے نیاز ہو گیا، ایک کافر مسلمان ہو گیا، میاں بیوی آپس میں با محبت بن گئے، زوجہ صاحب خانہ ہو گئی، اور عورت مالک بن گئی، یہ قدم کیسا قدم تھا۔

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار، 44، ص 190، باب 26، حدیث 2

لوگوں میں سب سے زیادہ کریم:

ایک بادیہ نشین عرب مدینہ میں داخل ہوا اور مدینہ کے سب سے زیادہ کریم شخص کی تلاش کرنے لگا، چنانچہ اس کو حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام بتایا گیا، وہ عرب مسجد میں آیا اور آپ کو نماز کے عالم میں دیکھا، وہ امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اس مضمون کے اشعار پڑھے؟

جو شخص آپ کے دروازے پر دق الباب کرے وہ ناامید نہیں ہو گا، آپ عین جود و سخا اور معتمد ہیں، آپ کے والد گرامی طاغوت اور نافرمان لوگوں کو ہلاک کرنے والے تھے اگر آپ نہ ہوتے تو ہم دوزخ میں ہوتے۔

امام حسین علیہ السلام نے اس اعرابی کو سلام کیا اور جناب قنبر سے فرمایا:

کیا حجاز کے مال سے کچھ باقی بچا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، چار ہزار دینار باقی ہیں، فرمایا: ان کو لے آؤ کہ یہ شخص اس مال کا ہم سے زیادہ سزاوار ہے، اس کے بعد اپنی ردا اتاری اور اس میں دینار رکھے اور اس عرب سے شرم کی وجہ سے اپنا ہاتھ دروازے سے نکالا اور اس مضمون کے اشعار پڑھے:

یہ مال ہم سے لے لو ، میں تجھ سے معذرت چاہتا ہوں، جان لو کہ میں تمھاری نسبت مہربان اور تمہارا دوستدار ہوں، اگر میرے اختیار میں حکومت ہوتی تو ہمارے جود و سخا کی بارش تمہارے اوپر ہوتی، لیکن زمانے کے حادثات نے مسائل ادھر ادھر کر دئیے ہیں، اس وقت صرف یہی کم مقدار میں دے سکتے ہیں۔

چنانچہ اس اعرابی نے وہ مال لیا اور اس نے رونا شروع کر دیا، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: شاید جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے وہ کم ہے؟ اس نے کہا: نہیں، میرا رونا اس وجہ سے ہے کہ اس عطا کرنے والے کو یہ زمین کس طرح اپنے اندر سما لے گی۔!!!

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 190، باب 26، حدیث 2

قرض ادا کرنا:

حضرت امام حسین علیہ السلام، اسامہ بن زید کی بیماری کے وقت اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ، حالانکہ اسامہ ہمیشہ کہے جا رہے تھے: ہائے ، یہ غم و اندوہ

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اے برادر! تمہیں کیا غم ہے؟ انھوں نے کہا: میں 60000 درہم کا مقروض ہوں، امام علیہ السلام نے فرمایا: میں اس کو ادا کروں گا، انھوں نے کہا: مجھے اپنے مرنے کا خوف ہے، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: تمھارے مرنے سے پہلے ادا کر دوں گا اور آپ نے اس کے مرنے سے پہلے اس کا قرض ادا کر دیا۔

مناقب، ج4، ص 65

بحار الانوار 44، ص 189، باب 26، حدیث 2

خدمت کی نشانی:

حادثہ کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے شانے پر زخم کی طرح ایک نشان پایا گیا، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اس کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ نشانی ان بھاری تھیلیوں کی وجہ سے ہے جو ہمیشہ بیواؤں، یتیموں اور غریبوں کی مدد کے لیے اپنے شانوں پر رکھ لے جایا کرتے تھے۔

مناقب، ج 4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 190، باب 26، حدیث 3

استاد کی تعظیم:

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین علیہ السلام کے ایک بیٹے کو سورہ حمد کی تعلیم دی، جب اس بیٹے نے امام حسین علیہ السلام کے سامنے اس سورہ کی قرائت کی، تو (خوش ہو کر) استاد کو ایک ہزار دینار اور ہزار حُلّے عطا کیے اور ان کا منہ نایاب درّ سے بھر دیا، لوگوں نے ایک دن کی تعلیم کی وجہ سے اتنا کچھ عطا کرنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا:

اٴَیْنَ یَقَعُ ھٰذٰا مِنْ عَطٰائِہِ۔

جو کچھ میں نے اس کو عطا کیا ہے اس کی عطا کے مقابلے میں کہاں قرار پائے گا؟!”

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 190، باب 26، حدیث 3

میری خوشی حاصل کرو:

حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے بھائی محمد حنفیہ میں ایک گفتگو ہوئی، محمد نے امام حسین علیہ السلام کو ایک خط لکھا: میرے بھائی، میرے والد اور آپ کے والد علی (علیہ السلام) ہیں، اس سلسلہ میں نہ میں تم پر فضیلت رکھتا ہوں اور نہ تم مجھ پر، اور آپ کی والدہ جناب فاطمہ بنت پیغمبر خدا ہیں، اگر میری والدہ پوری زمین کی مقدار بھر سونا رکھتی ہو تو بھی آپ کی والدہ کے برابر نہیں ہو سکتی، اور جب تمھیں یہ خط مل جائے اور اس کو پڑھو تو میرے پاس آؤ تا کہ میری خوشی حاصل کر سکو، کیونکہ نیکی میں آپ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں، تم پر خدا کا درود و سلام ہو۔

امام حسین علیہ السلام نے جب یہ خط پڑھا تو اپنے بھائی کے پاس گئے اور اس کے بعد سے ان کے درمیان کوئی ایسی گفتگو نہیں ہوئی۔

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 191، باب 26، حدیث 3

حرّیت اور آزادی کی انتہاء:

روز عاشوراء جب امام حسین علیہ السلام سے کہا گیا کہ یزید کی حکومت کو تسلیم کر لو اور اس کی بیعت کر لو اور اس کی مرضی کے سامنے تسلیم ہو جاؤ! تو آپ نے جواب دیا:

نہیں، خدا کی قسم میں اپنے ہاتھ کو ذلیل و پست لوگوں کی طرح تمہارے ہاتھ میں نہیں دوں گا، اور تم سے میدان جنگ میں غلاموں کی طرح نہیں بھاگوں گا اور پھر یہ نعرہ بلند کیا: اے خدا کے بندو! میں ہر اس متکبر سے جو روز حساب پر ایمان نہ لائے اپنے پروردگار اور تمھارے پروردگار کی پناہ چاہتا ہوں۔

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 191، باب 26، حدیث 4

بہترین انعام:

انس کہتے ہیں: میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ کی کنیز آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ریحان کے گل دستہ تہنیت اور مبارک کے عنوان سے تقدیم کیا، امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تو خدا کی راہ میں آزاد ہے!

میں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: (اس کنیز نے) ایک ناچیز گل دستہ آپ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے اس کے مقابلے میں اُسے راہ خدا میں آزاد کر دیا! امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوند نے ہماری اس طرح تربیت کی ہے، جیسا کہ خداوند کا ارشاد ہے کہ:

وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنٍ مِنْہَا اٴَوْ رُدُّوہَ…

اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ(سلام)پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو…۔

سورہٴ نساء آیت 86

اس کی مبارک سے بہتر مبارک ، اس کو غلامی کی قید و بند سے آزاد کرنا۔

کشف الغمة، ج 2، ص 31

بحار الانوار، ج 44، ص 195، باب 26، حدیث 8

انسان کی اہمیت:

ایک اعرابی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: یا بن رسول الله! میں ایک کامل دیت کا ضامن ہوں، لیکن اس کو ادا نہیں کر سکتا، میں نے دل میں سوچا کہ اس کے بارے میں سب سے زیادہ کریم و سخی انسان سے سوال کروں اور میں پیغمبر اکرم (ص) کے اہل بیت (علیھم السلام) سے زیادہ کسی کریم کو نہیں جانتا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: اے عرب بھائی تجھ سے تین سوال کرتا ہوں اگر ان میں ایک کا جواب دیا تو تمھاری درخواست کا ایک تہائی حصہ تجھے عطا کر دوں گا، اگر تو نے دو سوال کا جواب دیا تو دو تہائی مال عطا کر دوں گا اور اگر تینوں کا جواب دیدیا تو سارا مال تجھے عطا کر دوں گا۔

اس عرب نے کہا: کیا آپ جیسی شخصیت جو علم و شرف کے مالک ہیں مجھ جیسے شخص سے مسئلہ معلوم کرتی ہے؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں، میں نے اپنے جد رسول اکرم (ص) سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا: شخص کی اہمیت اس کی معرفت کے مطابق ہوتی ہے، اس عرب نے کہا: تو معلوم کیجئے کہ اگر مجھے معلوم ہو گا تو جواب دوں گا اور اگر معلوم نہیں ہو گا تو آپ سے معلوم کر لوں گا، اور خدا کی مدد کے علاوہ کوئی طاقت و قدرت نہیں ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ اس عرب نے کہا: خدا پر ایمان رکھنا۔
امام علیہ السلام نے اس سے سوال کیا: ہلاکت سے نجات کا راستہ کیا ہے؟ اس عرب نے کہا: خدا پر بھروسہ رکھنا۔

آپ نے فرمایا: مردوں کی زینت کیا ہوتی ہے؟ اس عرب نے کہا: ایسا علم، جس کے ساتھ بُردباری ہو، امام علیہ السلام نے سوال کیا کہ اگر یہ نہ ہو تو؟ اس عرب نے کہا: ایسی دولت جس کے ساتھ ساتھ سخاوت ہو، امام علیہ السلام نے سوال کیا: اگر یہ نہ ہو تو؟ اس نے کہا: تنگدستی اور غربت کہ جس کے ساتھ صبر ہو، امام علیہ السلام نے سوال فرمایا: اگر یہ نہ ہو تو؟ اس عرب نے کہا: آسمان سے ایک بجلی گرے اور ایسے شخص کو جلا ڈالے کیونکہ ایسے شخص کی سزا یہی ہے!

حضرت امام حسین علیہ السلام مسکرائے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی اس کو دی اور اپنی انگوٹھی اس کو عطا کی جس میں دو سو درہم کا قیمتی نگینہ تھا، اور فرمایا: اے عرب! ہزار دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور انگوٹھی کو اپنی زندگی کے خرچ کے لیے فروخت کر دو، چنانچہ عرب نے وہ سب کچھ لیا اور کہا: الله بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے۔

اللهُ اٴَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ،

سورہٴ انعام ، آیت 124

جامع الاخبار، ص137، فصل 96

بحار الانوار، ج44، ص196، باب26، حدیث11

ا

انقلاب اسلامی ایران کی 45 بہاریں، گویا امت مسلمہ کی بیداری نظم، اتحاد، قوت، جہاد، آزادی، استقلال، استقامت، شہامت، قیادت، سیادت کی بہاریں ہیں، یہ پینتالیس برس گویا نشاط ثانیہ کی بہاریں ہیں، احیاء اسلام کی بہاریں ہیں، ظالمین کے خلاف مظلومین کی سربلندی کی بہاریں ہیں، غاصبین کے خلاف حق لینے والوں کی بہاریں ہیں، استعمار کی شکست اور اسلام کی فتح و کامرانی کی بہاریں ہیں، سامراج کی نابودی اور جہد مسلسل کرنے والوں کے روشن مستقبل کی نوید سنانے کی بہاریں ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کا پینتالیس برس پہلے ظہور دنیا بھر کے مظلوموں، ستم رسیدہ اور پسے ہوئے طبقات کی قوت، طاقت، ابھار، امید اور انقلاب کے راستے پہ قائم رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی بہاریں ہیں۔

بالخصوص جہان اسلام میں اسلام کے آفاقی و الہی نظام کو عملی نفاذ کے ذریعے انسانی سماج اور زندگیوں کو گذارنے و سنوارنے کی عملی شکل و مثال بننے کے پینتالیس بہاریں ہیں، ایسے پینتالیس سال جن میں انقلاب کے وقوع ہونے کی جدوجہد سے لیکر اس کی حفاظت، اس کی تعمیر اس کی ترقی و پیش رفت، اس کے خلاف عالمی، داخلی، مقامی، اپنوں اور غیروں کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، جن سے سبق لیتے ہوئے اس راہ کے راہی اپنی جدوجہد کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران نے اپنے آغاز سے لیکر آج تک دنیا کی سیاست پہ جو اثرات مرتب کئے ہیں ان کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات ہیں کہ آج مقاومت زندہ ہے، آج مزاحمت جاری ہے، آج ظالموں کے خلاف بڑی سے بڑی قربانی دے کے بھی حوصلہ و ہمت نہیں ٹوٹتا کہ یہی انقلاب کا سبق ہے، آج تو اہل غزہ، اہل فلسطین نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اس انقلاب کے حقیقی فرزند ہیں جو بڑی بڑی طاقتوں کو سبق سکھا رہے ہیں، سازشوں کو ناکام بنا رہے ہیں، مزاحمت کو اوج بخشا ہے بلکہ ہر ایک مزاحمت پسند کو حوصلہ و ہمت دی ہے، آج اہل یمن کو دیکھیں، انقلاب اسلامی سے ان کی گہری وابستگی نے انہیں وہ شرف بخشا ہے جو کسی اور کے نصیب میں نہیں، اہل یمن کی جرات، استقامت، شجاعت اپنی مثال آپ ہیں، انہوں نے سرحد نہ ہونے کے باوجود اسرائیل اور اس کے حواریوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔

اگر غزہ کی اسرائیل کیساتھ حالیہ جنگ میں یمنیوں کا کردار شامل نہ ہوتا تو ممکن ہے اسرائیل و امریکہ جنگ بندی کی جانب نہیں آتا، آج درون خانہ جنگ بندی کی بھیک مانگی جا رہی ہے، آج یمنیوں نے اسرائیل کے سمندری راستے کو بلاک کرکے فلسطینی مظلوموں کی بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ دراصل یہ انقلاب اسلامی کا مرہون منت ہے، انقلاب کے یہ فرزند، انقلاب و نظام کے یہ عشاق روشن و تابناک کردار کی مانند تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کے چمکتے رہیں گے، لبنان کی مقاومت اسلامی سے کون ناواقف ہوگا، انقلاب، اسلام، ولایت فقیہ کے یہ فرزند جہاد، استقامت، قربانیوں کے ذریعے مقدسات کی توہین کے زمہ داروں کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔

دنیائے سیاست و سماجوں کو تغیرات سے دوچار کرنے والے انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینی رح نے قیادت کا جو معیار دیا تھا، وہ رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی شکل میں انقلاب اسلامی کو اس کی اصل منازل یعنی انقلاب مہدوی کے ظہور کی راہیں ہموار کرنا اور مظلومین کو صاحب اقتدار بنانے کیلئے بڑی کامیابی سے کوشاں ہیں، انقلاب اسلامی کے پہلے عشرہ یعنی 1979ء سے لے کر 1989ء رحلت امام تک اگرچہ بہت مشکلات رہیں، نوزائیدہ انقلاب پہ بے جا پابندیاں، مسلط کردہ جنگ  جو آٹھ برس تک جاری رہی۔

اس جنگ میں 57 ممالک ایک طرف اور نوزائیدہ انقلابی ایران ایک طرف تھا، اس کے باوجود قربانیوں کی لازوال داستانوں سے اپنی زمین کا دفاع کیا، دشمنوں کو حاوی نہیں ہونے دیا، امریکہ سے دشمنی مملکتوں کو اجاڑ دیتی ہے، حکومتوں کو برباد کر دیتی ہے مگر ان برسوں میں امریکی سازشوں کو ناکام بنانا امام خمینی رح کی الہی قیادت و رہبری کا نتیجہ تھا، اور یہ سازشیں آج بھی کھل کے ہو رہی ہیں،اس وقت بھی موجودہ رہبر بطور صدر مملکت مقابلے پہ سامنے موجود تھے اور آج بھی رہبر معظم، ولی فقیہ کی صورت  موجود ہیں، یہ سعادت و خوشبختی ہے کہ ہم نے امام خمینیؒ کا زمانہ بھی پایا اور آج امام خامنہ ای کے دور میں بھی ان کی سیادت و رہبری سے مستفید ہو رہے ہیں۔

آج کا انقلاب 80ء کے عشرے کا انقلاب نہیں ہے، جس پہ سبھی حملہ آور تھے، آج انقلاب اسلامی ایک ایسی قوت و طاقت ہے جس کا سامنا کرنا امریکہ جیسی نام نہاد سپر پاور کیلئے ممکن نہیں اس لئے کہ اسے علم ہے کہ اگر حملہ کرے گا تو جواب کیسا ملے گا، لہذا ہم نے دیکھا ہے کہ ڈائریکٹ ایران پہ حملہ کی گیدڑ بھبھکیاں تو دی جاتی ہیں، دھمکایا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے، ماحول بنایا جاتا ہے مگر جرات نہیں کی جاتی، ہاں عراق و شام میں مقاومتی مراکز کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں ایرانی سپاہ کے کمانڈرز بھی شہید ہوئے ہیں اور ایران سے متعلق دیگر مزاحمتی و مقاومتی گروہ کے اعلی کمانڈرز بھی نشانہ بنے، مگر ایران کیلئے یہ قربانیاں ہیں۔

یہ شہادتیں کسی بھی طور پریشانی کا باعث نہیں، کہ وہ لوگ شہید ہو رہے ہیں جو تا عمر شہادت کی تلاش میں دنیا کے مختلف محاذوں پہ شہادت تلاش کرتے رہے اور شہادت کو دوست رکھتے تھے، البتہ آج کا ایران کھل کے، اعلانیہ ہر حملے کا جواب دیتا ہے، حتیٰ کرمان میں بم دھماکوں کے ذمہ دار گروہ کو بارہ سو کلومیٹر دور سے میزائل کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ آج کا ایران ہے، قوی ایران، مضبوط ایران، خوددار ایران، آزاد ایران، اپنا دفاع کرنے والا ایران، اپنے ساتھ متصل لوگوں کا دفاع کرنے والا ایران، امام خامنہ ای کا ایران، شہداء کا ایران، مجروحین کا ایران، مظلومین کا ایران، مقاومین کا ایران، امام رضا (ع) کا ایران، امام زمانہ (عج) کا ایران۔
 
 
 


آفتابِ انقلابِ اسلامی ایران، اپنی پوری آب و تاب کیساتھ دنیا کے افق پر چمک دمک رہا ہے۔ اس کی روشنی نے نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے مستضعفین کو بھی منور کیا ہے، انہیں بھی حریت کی راہ دکھائی ہے۔ یہ انقلاب اسلامی کی برکت ہے، کہ آج ایران سے دنیا کی سپرپاورز خوفزدہ ہیں۔ امریکہ جیسی موذی قوت بھی ایران کیساتھ براہ راست زور آزمائی سے لرزہ براندام ہے۔ ایران نے اسی انقلاب کی بدولت ہی، اس کی برکت سے ہی، اپنے دفاع کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ اب کوئی بھی دشمن، ایران پر چڑھائی کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ نام نہاد سپرپاور امریکہ کو کب کا گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ ایران نے بہت سے مواقع پر ثابت کیا ہے کہ ایران کا دفاع مضبوط ترین ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ کیلئے سب سے بڑی مشکل انقلاب ہی ثابت ہوا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ سے امریکہ کے پاوں اکھاڑ دیئے ہیں، آج مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی امریکہ کی بزدلی اور کھوکھلی قوت سے آشنا ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب جیسا ملک بھی امریکی حقیقت بے نقاب ہونے پر بیدار ہوگیا ہے۔ ورنہ اس سے قبل سعودی عرب امریکہ کو ہی اپنا ’’محافظِ اعلیٰ‘‘ سمھتا تھا لیکن ایران نے جب سے امریکہ کی حقیقت بے نقاب کی ہے، ریاض سمیت دیگر عرب ممالک بھی اس کے جعلی رعب و دبدبے سے باہر آ گئے ہیں۔ عرب دنیا کی نفسیات یہ ہیں کہ جہاں سعودی عرب ہوتا ہے، دیگر عرب ممالک بھی وہیں ہوتے ہیں۔ جہاں ہاتھی کا پاوں، وہاں سب کا پاوں کے مصداق، عرب بھی سعودی عرب کی تقلید میں چلتے ہیں۔ اب سعودی عرب اس حقیقت کو جان چکا ہے کہ امریکہ جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹس کی بنیاد پر انہیں اپنے ہی بھائی بندوں سے ڈرا کر رکھتا تھا، اب حقیقت کھلنے پر سعودی عرب نے ایران کو گلے لگا لیا ہے۔ یوں مسلمانوں کی دو اہم ترین قوتوں میں ہونیوالا اتفاق اپنی برکت کے ثمرات ضرور دے گا اور اس سے امت کے معاملات میں بہتری آئے گی۔

انقلاب اسلامی ایران نے چین کو بھی ایران کی اہمیت سے آشنا کر دیا ہے، روس جیسا ملک جو کبھی دنیا کی سپرپاور تھا، آج ایران کی دفاعی قوت کا گیت گاتا دکھائی دیتا ہے۔ روس یوکرائن جنگ ایک طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن یوکرائن کو مسلسل ناکامی کا سامنا ہے، روس کی اس کامیابی کا سہرا بھی ایران کے سر ہے۔ ایران کی ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی نے یوکرائن کے پاس موجود امریکی ٹیکنالوجی کو عبرتناک شکست سے دوچار کر رکھا ہے۔ اسی طرح کچھ اطلاعات ہیں کہ چین اور ایران مل کر مزید جدید دفاع ہتھیار تیار کر رہے ہیں جو امریکہ کیلئے بالخصوص تیار کئے جا رہے ہیں۔ ادھر روس نے بھی اپنے دفاع میں ایران کے بھرپور تعاون پر اظہار تشکر کیا ہے۔ ایران نے نہ صرف اپنا دفاع مضبوط کیا ہے بلکہ خطے کے مستضعفین کی بھی مدد کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج حماس جیسی چھوٹی سے تنظیم نے اسرائیل جیسی جدید ہتھیاروں سے لیس، امریکہ و برطانیہ کی بھرپور سرپرستی میں چلنے والی ناجائز ریاست کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔

حماس نے اسرائیل کی نام نہاد دفاعی طاقت کا غور خاک میں ملا دیا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا تھا کہ سات دنوں کے اندر اندر حماس کا مکمل صفایا کرکے فلسطین پر قبضہ کرلیں گے، وہ سات دن آج 130 دن ہو گئے ہیں۔ حماس اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے قابو میں نہیں آ رہی، بلکہ اسرائیل کا آج تک کروڑوں اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے، قیمتی ٹینکس، میزائل اور دیگر ہتھیار ضائع ہو چکے ہیں۔ لیکن حماس کا خاتمہ اسرائیل کا خواب ہی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ انقلاب کی برکات ہی ہیں کہ حزب اللہ لبنان اور یمن کے حوثی مجاہدین انصاراللہ نے بھی عالمی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ اس وقت بحیرہ احمر کے باب المندب پر مکمل طور پر حوثی مجاہدین کا کنٹرول ہے۔ امریکہ ہزار کوشش کے باوجود حوثیوں سے باب المندب کلیئر نہیں کروا سکا، امریکہ و برطانیہ کے حملے بھی ناکام ہوئے اور تیرہ رکنی امریکی اتحاد بھی بحری بیڑوں کو بحیرہ احمر میں تحفظ فراہم نہیں کر پایا۔ انہی حوثیوں نے برسوں سعودی حملوں کا مقابلہ کرکے بھی اپنی استقامت سے مخالفین سمیت امریکہ کو شکست دی ہے۔

اس حوالے سے پوری دنیا میں دیکھیں تو انقلاب کی روشنی سے نئے راستے دریافت ہو رہے ہیں۔ دنیا اعتراف کر رہی ہے کہ انقلاب اسلامی ایران واقعی اسلام ناب محمدی کا حقیقی عکس بن کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس انقلاب نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اُمید اور تحفظ فراہم کیا ہے۔ آج پوری دنیا میں انقلاب کا طوطی بول رہا ہے۔جبکہ انقلاب دشمن، جو یہ کہتے تھے کہ یہ چند دنوں اور مہینوں کی بات ہے، یہ انقلاب اپنی موت خود مر جائے گا، اس انقلاب نے آج دوسروں کو زندگیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ اس انقلاب نے مظلوموں کیساتھ ساتھ خود ایران کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ الہی پلاننگ اللہ کی ہوتی ہے اور شیطان کے وسوسے اس وقت دم توڑ دیتے ہیں جب الہی تدبیر متحرک ہوتی ہے۔ یقیناً انقلاب کی کامیابی نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تعاون انقلاب اور ایران کیساتھ ہے اور جس کیساتھ اللہ ہو، اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

 

 

اسلام ٹائمز۔ یمن کی مزاحمتی تحریک انصار اللہ کے سیاسی دفتر نے جمعرات کی صبح امریکی دہشت گردانہ حملے میں عراق میں کتائب حزب اللہ کے کمانڈر "ابو باقر السعدی" کی شہادت کی شدید مذمت کی ہے۔ انصار اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ الحشد الشعبی کے اس کمانڈر کا قتل ایک بزدلانہ مجرمانہ جارحیت ہے، یہ جارحیت صیہونی حکومت کے لیے امریکہ کی حمایت کا حصہ ہے، شہید مجاہد ابوباقر السعدی کو نشانہ بنانا پورے عراقی عوام پر حملہ ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی جارحیت غزہ میں فلسطینی عوام کی حمایت میں عراقی مزاحمت کے حملوں کے اثرات اور تاثیر کی حد کو ظاہر کرتی ہے، یہ جارحیت امریکہ اور اسرائیل کی عراق میں اسلامی مزاحمت کے حملوں کو روکنے میں ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔

 

انصار اللہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عراق اور مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکی موجودگی صیہونی حکومت کی حفاظت کے مقصد کے ساتھ خطے کی سلامتی کے عدم استحکام کا بنیادی سبب ہے کہا ہے کہ امریکہ کے یہ پے درپے حملے مشرق وسطیٰ کے لوگوں پر ہیں، ان حملوں سے مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت اور ان کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ہم عراق کے عوام اور عراق کی اسلامی مزاحمت کو تعزیت پیش کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے ان کی عظیم قربانیوں پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

 

27 رجب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر اسلامی جمہوری ایران کے اعلی حکام اور اسلامی ممالک کے سفیروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ عید مبعث کے موقع پر ایرانی عوام اور امت مسلمہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ عید مبعث تاریخ کے بزرگترین واقعے کی یاد دلاتی ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ تاریخ انسانیت میں پیش آنے والا سب سے بڑا واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت ہے۔

 

رہبر معظم نے کہا کہ بعثت کے واقعے میں دنیا اور آخرت میں انسان کی سعادت کا کامل اور دائمی دستور سامنے آیا۔