سلیمانی

سلیمانی


 

 

 

حوزہ نیوز ایجنسی | امیر المؤمنین علیہ السلام اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی صاحبزادی حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا پانچویں ہجری میں پیدا ہوئیں ۔ آپ نے عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب سے شادی کی اور آپ کے دو بیٹے محمد اور عون تھے۔ آپ میں فصاحت و بلاغت ، شجاعت اور بہادری جیسی بے شمار خوبیاں تھیں اور آپ نےواقعۂ کربلا میں خصوصی کردار ادا کیا اور آخر کار سنہ 63 ؍ہجری یا 65 ؍ہجری میں سرزمین شام پر داعئ اجل کو لبیک کہا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت اور لقب
امیر المومنین علیہ السلام اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سب سے بڑی بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت امام حسین علیہ السلام کے بعد ہجرت کے پانچویں سال یعنی جمادی الاولیٰ کی پانچویں تاریخ کو مدینہ میں ہوئی۔ آپ کی کنیت امّ کلثوم اور آپ کے القابِ گرامی عقیلہ بنی‌ہاشم، عقیلہ طالبیین، عالمہ، موثقہ، عارفہ، محدثہ، فاضلہ، کاملہ، زاہدہ، و عابدہ آل علی، معصومہ صغری، صدیقہ صغری، امینۃ‌اللہ، بلیغہ، فصیحہ، نائبہ الزہراء، نائبۃ الحسین، شریکۃ الشہداء ہیں۔آپ نےاپنی والدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور اسماء بنت عمیس سے روایتیں نقل کیں ہیں ۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے چچا زاد عبداللہ بن جعفر سے شادی کی اور پانچ بچے یادگارچھوڑے جن کے نام علی بن عبدالله بن جعفر، عون بن عبدالله بن جعفر، عباس بن عبدالله بن جعفر، محمد بن عبدالله بن جعفر و امّ کلثوم تھے ۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب
شیعہ اور سنی مؤرخین و مصنفین نے اس عظیم خاتون کی بہت سی نمایاں خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ مامقانی اس سلسلے میں لکھتے ہیں: "زَیْنَبُ و ما زَیْنَبُ؟ وَ ما اَدریکَ ما زَیْنَبُ؟ هِیَ عَقیلَهُ بَنی هاشِمٍ وَ قَدْ حازَتْ مِنَ الصِّفاتِ الْحَمیدَهِ ما لَمْ یُحزْها بَعْدَ اُمِّها أحَدٌ حَتی حَقَّ اَنْ یُقالَ هِیَ الصِدّیقَهُ الصُغْری، هِیَ فِی الْحِجابِ والْلِفّافِ مَزیدَهٌ لَمْ یَر شَخْصَها أحَدٌ مِنَ الرِّجالِ فی زَمانِ اَبیها وَ اَخَویها الاّ یَومَ طَّفِّ وَ هِیَ فِی الصَّبْرِ وَ الثَّباتِ وَ قُوَّهِ الایمانِ وَالتَّقوی وَحیدَهٌ وَ هِیَ فِی الْفَصاحَهِ وَ الْبَلاغَهِ کَاَنَّها تَفْرَغُ عَنْ لِسانِ أمیرِالمؤمنین علیه السلام ..."؛ زینب! زینب کون ہے؟! آپ کو کیا پتہ کہ زینب کیا ہے؟ آپ عقیلۂ بنی ہاشم ہیں جو تمام صفاتِ حمیدہ میں سب سے افضل ہیں اور ان پر ان کی والدہ کے علاوہ کسی کو فضیلت حاصل نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر ہم کہیں کہ آپ "صدیقہ صغریٰ" ہیں تو ہم درست ہیں۔ عفّت و حجاب کا یہ حال تھا کہ ان کے والد اور بھائیوں کے دور میں سوائے واقعہ کربلا کے کسی مرد نے انھیں نہیں دیکھا۔ آپ صبر و استقامت اور ایمان و تقویٰ میں بے مثال تھیں اور فصاحت و بلاغت میں آپ امیر المؤمنین کی زبان بولتی نظر آتی ہیں۔یہ دعویٰ کسی سے پوشیدہ نہیں جو آپ کے خطبات پر تھوڑی سی توجہ اور غور و فکر کرے۔ اگر ہم آپ کی عصمت کی بات کریں تو اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، خاص کر وہ شخص جسے کربلا اور اس کے بعد کے حالات کا علم ہو ۔ اگر جناب زینبسلام اللہ علیہا میں یہ خوبی نہ ہوتی تو امام حسین علیہ السلام امام سجاد علیہ السلام کی بیماری کے دوران امامت کا بوجھ آپ کے کندھوں پر نہ ڈالتے اور انہیں اپنا وصی مقرر نہ کرتے اور امام سجاد بھی انہیں بیانِ احکام میں نیابتِ خاصّہ نہ دیتے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی بار انھیں گلے سے لگایا اور بوسہ دیا تو فرمایا: میں اپنی امت کے حاضر و غائب کو حکم دیتا ہوں کہ اس لڑکی کی حرمت کا خیال رکھیں؛ درحقیقت یہ خدیجۂ کبریٰ کی طرح ہے ۔
اس تمثیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ زینب کبریٰ اخلاقی اور عملی خصوصیات میں اپنی جدہ ماجدہ خدیجۂ کبرٰ کی طرح نمایاں ہوں گی۔ جس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوست اور حامی تھیں اور اسلام کی ترقی میں ان کا نمایاں کردار تھا، حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی امام حسین علیہ السلام اور آپ کی تحریک کے حوالے سے ایسا ہی کردار ادا کریں گی۔
متعدد مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنی بہن زینب کے لیے خاص احترام کا خیال رکھتے تھے ، یہاں تک کہ انھوں نے لکھا ہے: جب آپ تشریف لاتیں تو امامؑ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ یہ بھی روایت ہے کہ ایک دن جناب زینب امام کے پاس آئیں جب کہ امام قرآن کی تلاوت کررہےتھے۔ امام نے قرآن مجید کو زمین پر رکھا اور زینب کی تعظیم کے لیے اٹھے ۔ امام حسین علیہ السلام کا اپنی بہن کے بارے میں اس طرح کا احترام آپ کی نظر میں اس خاتون کے بلندئ مرتبہ کی دلیل ہے۔
عقیلہ بنی ہاشم کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ان کا کربلا کا تاریخی سفر اور اس کے بعد آپ کی اسیری ہے، جو تحریک حسینی میں آپ کے کردار کی وضاحت کرتا ہے ۔
زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے عصرِ عاشورا امام حسین اور امام سجاد علیہ السلام کی طرف سے اہل بیت کی قیادت سنبھالی اور کوفہ ، شام اور مدینہ میں شہداء کے خون کا پیغام پہنچایا اور اس عظیم قیادت کو بخوبی انجام دیا ۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا اور قیدیوں کے قافلے کی نگرانی
حسینی تحریک میں زینب کا کردار مختلف جہتوں کا حامل ہے، جن میں قیدیوں کے قافلے کی سربراہی اور امام زین العابدین کی دیکھ ریکھ شامل ہے۔ بہت سے مورخین نے بیان کیا ہے کہ زینب نے شبِ عاشورہ اور اس کے بعد زین العابدین کا پورا پورا خیال رکھا ۔
امامؑ کی شہادت اور دشمن کے ہاتھوں خیموں کو جلانے کے بعد آپ نے خواتین اور بچوں کو آدھے جلے ہوئے خیمے میں جمع کیا اور ان کی حفاظت اور نگہداشت کی ذمہ داری سنبھالی ۔ آپ نے قید کے دوران دیگر ہاشمی خواتین کے تعاون سے یہ کام بھی بخوبی انجام دیا ۔
اسیروں کے قافلے کے گزرنے اور امام زین العابدین علیہ السلام کی خاص صورت حال کے دوران زینب کبریٰ امام زین العابدین علیہ السلام کی مدد کے لیے دوڑتی رہیں اور اسی دوران امام کومخاطب کر کے کہتی ہیں: اے میرے دادا، والد اور بھائیوں کی یادگار! یہ کیا کیفیت ہے جو میں تم میں دیکھ رہی ہوں؟ گویا آپ زندگی سے ہار مان رہے ہیں ؟
امام سجاد علیہ السلام نے جواب دیا: جب میں اپنے سید و مولا، اپنے بھائیوں ، چچا اور چچا زاد بھائیوں کو خون میں لت پت اس صحرا میں پڑا ہوا پاؤں تو میں کیسے بے صبری نہ کروں؟ ؛
اپنے بھتیجےکو تسلی دینے کے لیے، زینب نے ام ایمن کی حدیث آپ سے بیان کی ۔
امام حسین علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کہتی ہیں: جب دشمن کے سپاہیوں کے نیزے کی ضرب نے مجھے بے ہوش کر دیا اور جب میں ہوش میں آئی تو میں نے اپنا سر اپنی پھوپھی زینب کی گود میں دیکھا ، جو میرے اوپر رو رہی تھیں اور میری دیکھ بھال میں لگی تھیں۔

جناب زینب سلام اللہ علیہا اور امامت
امامت کے سلسلے میں زینب سلام اللہ علیہا کا کردار مختلف زاویوں سے قابل بحث ہے: امامت کے مقام کے بارے میں ان کا علم اور فہم ، امام کی غیر مشروط پیروی ، امام حسین علیہ السلام اور امام سجاد علیہ السلام کو متعارف کرانے کی کوششیں ، ناروا تہمتوں سے بچاؤ اور امام معصوم کی زندگی کی حفاظت اس سلسلے میں آپ کے کردار کا ایک حصہ ہے ۔ بطور نمونہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام کے تعارف میں اپنے معرکۃ الآراء خطبہ میں فرماتی ہیں: تم اس ذلت کے داغ کو کیسے دھووؤ گے جب کہ تم نے فرزند رسول اور جوانان جنت کے سردار کو قتل کردیا ہے ؟ جو جنگ تمہارا مضبوط قلعہ اور پناہ گاہ تھا اور صلح میں یہ تمہاری تسکین اور آرام کا ذریعہ تھا ؛
یا جب یزید امام کے ہونٹوں اور دانتوں پر چھڑی مارتا ہے تو آپ پکار اٹھتی ہیں: اے یزید تیرے ہاتھ کٹ جائیں ! کیا تو جانتا بھی ہے کہ تو کیا کر رہا ہے؟ کیا تو جانتا ہے کہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ کے حیبیب ، مکہ و مِنیٰ اور فاطمہ زہرا کے بیٹے کے ہونٹوں اور دانتوں پر چھڑی مارتا ہے؟
ایک اور جگہ جب جناب زینب سلام اللہ علیہا اور یزید کا آمنا سامنا ہوااور اس ملعون نے آپ سے کچھ پوچھنا چاہا تو آپ نے امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "اپنا سوال ان سے پوچھ" ۔ ایسا کرکے جناب زینب سلام اللہ علیہا نے امام اور رہبر کا تعارف کرانا چاہا۔
کوفہ و شام میں اور ابن زیاد اور یزید کی مجلس میں آپ کے خطبات اور تقاریر کا ایک حصہ امام کے تعارف میں اور تحریف کو روکنے میں تھا جس نے کوفہ اور خاص طور پر شام میں بنیادی تبدیلی لائی اور لوگوں کو متاثر کیا۔ جو انہیں خارجی سمجھتے تھے۔

امام معصوم کی جان کی حفاظت
عاشورہ کے واقعہ میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کی ایک اور کوشش امامت اور امام کا دفاع کرنا ہے ۔ کئی واقعات میں زینب نے اپنے مولا و امام امام سجاد علیہ السلام کی جان کو خطرے سے نکالا اور موت سے بچایا :
1. جب دشمن نے خیموں پر حملہ کر کے انہیں آگ لگا دی تو شمر نے امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا۔ اس وقت حضرت زینب نے اپنے آپ کو امام کے سامنے لاکھڑا کیا اور کہا: ہمارا اتنا خون تمھارے لیے کافی ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں اس سے جدا نہیں ہوں گی! اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو مجھے اس کے ساتھ مار ڈالو ۔
2. زینب نے کوفہ میں اسی بے لوث عمل کو دہرایا اور امام کو قتل ہونے سے روکا۔ شیخ مفیدؒ لکھتے ہیں: جب علی بن الحسین علیہ السلام ابن زیاد کے پاس پہنچے تو اس نے کہا: تم کون ہو؟ امامؑ نے کہا: میں علی بن حسین ہوں ۔ اس نے کہا: کیا اللہ نے اسے قتل نہیں کیا؟ امام نے جواب دیا: میرا ایک بھائی تھا جس کا نام علی تھا جسے لوگوں نے قتل کر دیا ۔ ابن زیاد نے کہا: نہیں، اللہ نے اسے قتل کر دیا۔ امام ؑنے فرمایا: موت کے وقت خدا ہی جانوں کو لیتا ہے:(اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ) ابن زیاد نے غصے میں آکر کہا: تم نے مجھے جواب دینے کی ہمت کی اور جو کچھ تم مزید کہنا چاہتے تھے وہ ابھی نہیں کہا، اسے لے جاؤ اور اس کا سر قلم کردو۔ اس وقت زینب نے امام کو گلے لگا لیا اور کہا: خدا کی قسم میں ان سے جدا نہیں ہوں گی! اگر تم اسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو مجھے اس کے ساتھ قتل کر ڈالو ۔
ابن زیاد نے کچھ دیر ان کی طرف دیکھا اور کہا: خدا کی قسم ! میں اس عورت کو ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے وہ چاہتی ہوکہ اسے بھی اس نوجوان کے ساتھ ماردیا جائے ۔ اسے چھوڑ دو، اس کی بیماری ہی اس کے لیےکافی ہے۔ کچھ دوسرے بیانات میں آیا ہے کہ اس نے کہا اسے چھوڑ دو تا کہ میں اس کے بارے میں بعد میں فیصلہ کروں ۔
3. واقعہ کربلا کے ایک راوی نے یزید کے سامنے یوں بیان کرنا شروع کیا: حسین اپنے چند اصحاب اور اہل و عیال کے ساتھ ہم سے لڑنے کے لیے آئے، لیکن ہم نے ان پر اس قدر حملہ کیا کہ ان میں سے بعض نے دوسروں کے پاس پناہ لینا شروع کردیا ۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ہم نے ان سب کو مار ڈالا۔ اس اموی رپورٹر کے جواب میں زینب نے کہا : تجھ پر رونے والے روئیں ! اے جھوٹے سچ تو یہ ہے کہ میرے بھائی حسین علیہ السلام کی تلوار کی وجہ سے کوفہ میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں اس گھر میں عورتوں اور مردوں کے رونے کی آواز یں نہ اٹھی ہوں ۔

ایثار و عرفان کی بلندی
علی علیہ السلام کی بیٹی زینب سلام اللہ علیہا ،اخلاق و عرفان اور فضیلت کے میدانوں میں بھی اپنے ہم عصروں کی رہنما تھیں ۔ اپنے والد علی علیہ السلام اور والدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرح آپ بھی علم ، شائستگی اور معرفت کے اعلیٰ درجات پر فائز تھیں۔ آپ کےا قول و افعال اس حقیقت کا ثبوت ہیں ۔ بہت سے مورخین کے مطابق ، آپ کو ابن زیاد کے غضبناک اور ملامت آمیز الفاظ کا سامنا کرنا پڑا جس نے کہا: تم نے اپنے خاندان کے ساتھ خدا کے کام کو کیسے دیکھا؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے خیر کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ میرا خاندان وہ تھا جن کے لیے شہادت کی نعمت لکھی گئی جواپنی ابدی آرامگاہ کی جانب چل پڑے۔
زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے اس مقام پر آفاقی جملہ ارشاد فرمایا: "مَا رَأَيْتُ إِلَّا جَمِيلًا"؛ "یعنی میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا " یہ نہیں کہا کہ میں نے "کربلا" میں خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور مطلق خوبصورتی پر زور دیا ، یعنی میں نے ساری زندگی خوبصورتی کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں؛ خواہ کربلا میں ہو یا اس سے پہلے یا اس کے بعد۔ یہ الفاظ و بیان خدا پر مکمل اطمینان اور عرفان و شناخت اور خدا کی رضا پر راضی رہنے کا واضح اور اس کی ہر حال میں شکر گزاری کی بلندی کا اظہار کرتے ہیں، اور یہ صرف تبھی ممکن ہے جب خدا کے ساتھ الفت و رغبت انتہا درجے پر ہو۔
شہید محمد تقی برغانی علیہ الرحمہ کہتے ہیں: دنیائے عرفان میں زینب کو جو خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ امامت کے مقام کے قریب تھا ۔
زینب ایثار و قربانی کے معاملے میں بھی سرفہرست ہیں ، اس حد تک کہ آپ دین اور اپنے وقت کے امام کی خاطر اپنی اور اپنے بچوں کی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ پہلے مرحلے میں، آپ نے تمام دنیوی خواہشات کو ایک کنارے کردیا ، اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہ کرزندگی گزارنے کو خدا کی خاطر ترک کر دیا اور اپنے شوہر کی رضامندی سے اپنے بھائی کے ساتھ ظلم کی تباہی اور دین کی بلندی کے لیے دشمنوں سے لڑنے کے لیے سفر کیا۔ اور دین کی ترویج کی خاطراپنے دو نوجوانوں کے ہاتھ بھی پکڑے کربلا لے آئیں اور انہیں قربان گاہ اور امام کی مدد کے لیے بھیجا ۔ لیکن صرف اس خاطر کہ امام کو شرمندہ و خجل نہ دیکھیں اپنے بچوں کی لاشوں کے استقبال کے لیے بھی نہیں گئیں، جب کہ علی اکبر کی شہادت پر آپ امام حسین علیہ السلام کے بعد وہ پہلی شخصیت تھیں جو جنازے پر پہنچیں اور فریاد کی: اے میری جان! یادگارِ برادربیٹا! آپ نے خود کو علی اکبر کے جنازے پر گرالیا۔ امام حسین علیہ السلام انھیں اپنی بغل میں سنبھالا اور خیموں میں واپس لے آئے ۔ زینب دوسروں کی جان بچانے خاص طور پر اپنے وقت کے امام کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالتی رہیں، ، اور تمام مراحل میں دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتی رہیں۔ مورخین کے مطابق ، امام حسین علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے، زینب نے اپنا پانی کا حصہ استعمال نہیں کیا اور بچوں کو دے دیا کرتی تھیں ۔
کوفہ و شام کے راستوں کے درمیان ، اگرچہ آپ خود بھوکی اور پیاسی تھیں ، آپ نے اپنے کھانے کا حصہ بچوں کو دے دیا ۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ: زینب نے ایثار و قربانی کو شرمندہ کردیا۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چونکہ خواتین اور لڑکیوں کے درمیان عرفانی مباحث بہت زیادہ کشش رکھتےہیں اور اس کےبہت سے مداح ہیں اور دوسری طرف عرفان و کشف و شہود کے دعویداروں میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان خواتین اور پیروکار اور وہ لوگ جو عرفان اور حقیقی عارفوں میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ زینب کبریٰ کو اچھی طرح سے پہچان لیں اور آپ کی تأسّی و پیروی کریں تاکہ وہ جھوٹے صوفیاء کے پھندے میں نہ پھنسیں ۔

مختلف سیاسی اور سماجی معاملات میں شرکت
اپنے الفاظ اور طرز عمل سے ،جناب زینب سلام اللہ علیہا نے مسلم خواتین کو دکھایا کہ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے ، خصوصاً سیاسی و سماجی صورتحال اور عوامی حقوق کے حوالے سے لاتعلقی برتنا ، اسلامی کردار اور طریقۂ کار سے بہت دور ہے ۔ اس معظمہ نے ہم سب کو سماجی وابستگی اور اہلکاروں کی کارکردگی کی نگرانی اور امر بہ معروف و نهی از منکر کرنا سکھایا۔
جنگ جمل کے وقت علی علیہ السلام کے مخالفین سے زینب کبریٰ کے آمنے سامنے ہونے کے دو واقعات نقل ہوئے ہیں جو آپ کی حق کی طرف وابستگی اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی جانب رجحان کو واضح کرتے ہیں۔ بطور نمونہ ،شیخ مفید علیہ الرحمہ کے مطابق جب علی علیہ السلام منزلِ ذی قار پہنچے اور طرفِ مخالف محترمہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی سہیلی کو ایک خط لکھا جس میں امام علی علیہ السلام کے بارے میں بہت بری بری باتیں لکھیں، بشمول یہ کہ وہ علی علیہ السلام کو ایک پاگل جانور سمجھتی ہیں کہ اگر تم اس کے قریب آئےتو تمھیں کاٹ کھائے اور پیچھے ہٹے تو جھپٹ پڑے گا۔
جب یہ خط محترمہ کی سہیلی کے پاس پہنچا تو وہ خوش ہوگئیں اور کچھ بچوں اور عورتوں کو جمع کیااور انھیں تبلے تھمادیئے اور تالیاں بجاتے ہوئے محترمہ کے خط کا مضمون پڑھنے کو کہا جس کے جملے تھے: ما الخبر ما الخبر ؟‍! علی فی ذقر، إنّ عليّاً كالأشقر، إن تَقَدّم عُقِر، وإن تأخّر نُحِر.جناب زینب عورتوں کے ایک گروپ کے ساتھ گمنام طور پر اس جگہ پہنچیں اور اپنے چہرے سے نقاب ہٹا کر فرمایا: إِنْ تَظَاهَرْتِ أَنْتِ وَ أُخْتُكِ عَلَى أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ فَقَدْ تَظَاهَرْتُمَا عَلَى أَخِيهِ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مِنْ قَبْلُ فَأَنْزَلَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِيكُمَا مَا أَنْزَلَ وَ اَللَّهُ مِنْ وَرَاءِ حَرْبِكُمَا ".جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو دیوانہ وار خط کو پھاڑ ڈالا اور شرمندہ ہو کر تبلہ تالی چھوڑ بھاگ کھڑی ہوئیں۔ ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ زوجۂ رسول ام سلمہ کے ساتھ آپ ان عورتوں کے پاس پہنچیں اور وہ بھاگ کھڑی ہوئیں۔ یا لکھا ہے: جب امام حسین علیہ السلام عراق جا رہے تھے اور ابن عباس نے اس سفر کو چھوڑنے کا مشورہ دیا جس پر امام نے انکار کیا تو پھر ابن عباس نے کہا: اگر آپ اس سفر پر جانے کے لیے مجبور ہی ہیں تو ایسا کریں کہ اپنے گھر والوں اور عورتوں کو ساتھ نہ لے جائیں۔ . اس وقت ایک گوشے سے ابن عباس کے کانوں تک ایک رندھی ہوئی آواز پہنچی جو کہہ رہی تھی: اے ابن عباس! کیا آپ کا مشورہ یہ ہے کہ ہمارے سید و سردار اور ہمارے آقا اس سفر پر جائیں اور ہمیں یہیں چھوڑ دیں؟ کیا زمانے نےاس کے علاوہ ہمارے لیے کوئی اورچھوڑا ہے؟ نہیں، کبھی نہیں، ہم اس کے ساتھ ہی جیئے گے اور اسی کے ساتھ مریں گے۔ یہ سن کر ابن عباس بہت روئے۔
بعض منابع میں آیا ہے کہ یہ الفاظ جناب زینب سلام اللہ علیہا کے ہی تھے ۔ اس بنیاد پر، اگرچہ آپ مدینہ میں اپنے شوہر عبداللہ بن جعفر کے ساتھ ایک باوقار زندگی گزار رہی تھیں اور اپنے خاندان کے ساتھ آرام سے زندگی گزار سکتی تھیں ، لیکن آپ نے ذمہ داری محسوس کی اور تحریک حسینی میں شمولیت اختیار کی ۔ مدینہ سے کربلا اور بالخصوص کربلا کے تمام مناظر میں آپ کی مؤثر اور فعال موجودگی تھی۔ ان سب کے علاوہ وہ اپنے دو بچوں کو بھی اپنے ساتھ قربان گاہ پر لے آئیں جو عاشورہ کے دن شہید ہوئے تھے ۔ عصرِ عاشورا کے بعد بھی امام کی صداقت کو ثابت کرنے اور اسلام کی قیادت میں انحراف کے خلاف جدوجہد کرنے میں آپ نے اپنا فرض بخوبی نبھایا۔ ابن زیاد اور یزید کے ساتھ جناب زینب سلام اللہ علیہا کا مقابلہ اور کوفہ اور شام میں آپ کے خطبات سب کچھ روشن اور واضح کررہے تھےاور امام حسین کی حقّانیّت کا بیّن ثبوت تھے۔ عقیلہ بنی ہاشم نے مدینہ واپس آنے پر اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں مان لیا بلکہ اس شہر کو لوگوں سے گفتگو کرنے اور انہیں امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کی دعوت دینے کا مرکز بھی بنایا ، یہاں تک کہ اموی نظام نے آپ کی موجودگی کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے رکاوٹ تسلیم کرلیا اور آپ کو جلاوطن کر دیا ۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ: جب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا عورتوں اور بچوں کے ساتھ جب شام سے مدینہ آئیں تو آپ کے اور مدینے کے گورنرعمرو بن سعید اشدق کے درمیان اختلاف واقع ہوا ۔ اس نے یزید کو خط لکھا اور اس سے کہا کہ زینب کو مدینہ سے جلاوطن کرنے کی اجازت دے۔ یزید نے بھی اسے قبول کیا۔ اس کے بعد مدینہ کے گورنر نے حضرت زینب اور آپ کے ساتھیوں کے مصر جانے کا منصوبہ ترتیب دیا ۔ 61 ہجری میں جب کہ رجب کے مہینے میں چند دن باقی تھے آپ مصر میں داخل ہوئیں۔ امام صادق نے حسن مثنیٰ سے نقل کیا ہے: جب میری پھوپھی زینب مدینہ سے نکلیں کچھ خواتینِ بنی ہاشم بشمول میرے چچا زاد بھائی امام حسین کی بیٹی فاطمہ اور ان کی بہن سکینہ ان کے ساتھ تھیں۔

علم اور بصیرت
ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو جناب زینب سلام اللہ علیہا کے علم و بصیرت پر روشنی ڈالتی ہیں ،یہاں ہم صرف کچھ کی جانب اشارہ کرنے تک محدود رہیں گے۔ سب سے اہم شاہد آپ کے بارے میں امام سجاد علیہ السلام کا فرمان ہے ، جنہوں نے فرمایا: "أَنْتِ بِحَمْدِ اللَّهِ عَالِمَةٌ غَيْرُ مُعَلَّمَةٍ فَهِمَةٌ غَيْرُ مُفَهَّمَةٍ"؛ (اے میری پھوپھی زينب!) آپ بحمد اللہ ایسی عالمہ ہیں جنھیں کبھی کسی معلم کی ضرورت نہیں پڑی اور ایسی صاحبِ حکمت ہیں کہ جنھیں کبھی کسی نے نہیں سکھایا۔ ۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنابِ زینب سلام اللہ علیہا کا علم عام لوگوں کے علم جیسا نہیں تھا یا آپ کا علم کَسْبی علم نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں جو قابلیت اور استعداد دیکھی تھی اس کی وجہ سے اس نے انھیں اپنے بہت سے علوم الہام کے ذریعے عطا کیے تھے ۔
بچپن ہی سے جناب زینب سلام اللہ علیہا حافظِ قرآن پاک تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی بہت سی احادیث آپ کو حفظ تھیں ۔ آپ کو فدک کے دفاع میں اپنی والدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا تاریخی خطبہ بھی حفظ تھا ۔ بچپن ہی سے آپ اس انداز میں بولتی تھیں کہ اپنے والد سمیت سب کو حیران کر دیتی تھیں۔
ایک دن حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے والد کے زانو پر بیٹھی تھیں کہ آپ نے اپنے بابا سے پوچھا: کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: میں تم سے محبت کیسے نہ کروں تم میری میوۂ دل ہو ۔ آپ نے کہا: میرے پیارے بابا ! محبت تو خدا کے لیے ہے اور ہمدردی اور مہربانی ہمارے لیے ہے ۔
ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو بچپن ہی سے علم و کمال حاصل تھا اور آپ کو مکتبِ رسالت و امامت ، عصمت و طہارت میں علم کے سرچشمے سے سیراب کیا گیا تھا ۔ آپ نے علمِ مَنَیَا و بَلَایَا اپنے والد سے سیکھا تھا اور رُشید ہجری اور میثم تمّار جیسے بہت سے اصحاب کی طرح آپ کے پاس بھی ایسے راز تھے جو آپ کے والدین اور بھائیوں نے آپ کو سکھائے تھے ۔ آپ کے فضل اور علم پر دلالت کرنے والی دوسری چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ بیان ہوا ہے: قرآن کریم کی تفسیر کے لیے عقیلۂ بنی ہاشم ایک مخصوص مجلس منعقد فرماتی تھیں جو خاص طور پر خواتین کے لیے تھی ، اس طرح کہ اسے خواتین کے لیے مذہبی احکام بیان کرنے کا مرکزی مقام بھی سمجھا جاتا تھا ۔ ابن عباس جو کہ علی علیہ السلام کے ایک ممتاز اور ہونہار طالب علم اور قرآن کے عظیم مفسر ہیں ، جنہیں حبر الامہ کہا جاتا ہے، کچھ مشکل مسائل میں زینب کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے حل طلب کیا کرتے تھے۔ . انہوں نے جناب زینب سلام اللہ علیہا سے کچھ احادیث نقل کیں ہیں اور فخر سے کہا: "ہماری عقلمند خاتون زینب نے ہمیں حدیث سنائی ۔" ؛
یہی کافی ہے کہ آپ بنی ہاشم میں عقیلہ (عقلمند خاتون) کے نام سے مشہور تھیں۔
ابن عباس نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا سے جو روایتیں نقل کی ہیں ان میں آپ کی والدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا فدک کے بارے میں خطبہ بھی ہے ۔ یہ خطبہ بہت سے سنی علماء نے آپ سے نقل کیا ہے۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا کے خطبات اور ابن زیاد اور یزید کو آپ کے جوابات بھی آپ کی علمی حیثیت اور قرآن کریم کی تفسیر میں اعلیٰ صلاحیت کا واضح ثبوت ہیں۔
حضرت زینب امام حسین علیہ السلام اور امام سجاد علیہ السلام کی طرف سے شرعی مسائل کا جواب دیتی تھیں اور یہ ان کے علم اور اسلامی تعلیمات سے واقفیت کا ایک اور ثبوت ہے ۔
شیخ صدوق علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں: "كَانَتْ زَيْنَبُ لَهَا نِيَابَةٌ خَاصَّةٌ عَنِ الحُسَيْنِ وَ كَانَ النَّاسُ يَرجِعُونَ إلَيْهَا فِي الحَلالِ وَ الحَرامِ حَتي بَرِِيءَ زَيْنُ الْعَابِدِين مِنْ مَرَضِه" جناب زینب امام حسین علیہ السلام کی جانب سے نیابتِ خاصّہ کے درجے پر فائز تھیں، اور لوگ حلال و حرام کے معاملات میں آپ کی طرف رجوع کیاکرتے تھے، یہاں تک کہ حضرت زین العابدین کے صحت یاب ہوجانے کے بعد بھی۔ ایسا ہی بیان علامہ مامقانی کا بھی ہے۔

فصاحت و بلاغت
بہت سے شیعہ اور سنی مصنفین نے جناب زینب سلام اللہ علیہا کی فصاحت کے بارے میں بات کی ہے۔ ابو نصر لبنانی اس سلسلے میں لکھتے ہیں: "لیکن فاطمہ کی بیٹی زینب نے یہ واضح کردیا کہ وہ تمام اہل بیت میں سب سے زیادہ بہادر، فصیح و بلیغ تھیں، اس حد تک کہ آپ فصاحت و بلاغت میں ضرب المثل بن گئی۔ "
کوفہ میں اس عظیم خاتون کا خطبہ اور ابن زیاد اور یزید کی مجلس میں آپ کی تقریر آپ کی فصاحت و بلاغت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ راوی کہتا ہے: جب علی کی بیٹی نے کوفہ میں بولنا شروع کیا تو گویا علیؑ کی زبان اس کے منہ میں تھی۔ تمام سخن شناسوں نے کہا ہے کہ علوی فصاحت اور مرتضوی بلاغت ان کی بیٹی زینب تک پہنچی ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ آپ علی علیہ السلام کے بعد سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھیں ۔
ابن زیاد کی مجلس میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے الفاظ اتنے فصیح و بلیغ تھے کہ ابن زیاد نے کہا: یہ عورت سجع میں بولتی ہے۔خدا کی قسم ! اس کا باپ مسجّع و مرسّع کلام بولتا تھااور شاعر تھا۔ اس کے جواب میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا: مجھے سجع گوئی سے کیا سروکار؟ یہ الفاظ فرض ادا کرنے کے لیے دل سے نکلے اور زبان پر آگئےہیں۔

بصیرت اور آئندہ نِگری
بصیرت اور آئندہ نِگری عقیلہ بنی ہاشم سلام اللہ علیہا کی ایک اور نمایاں خصوصیت تھی ۔ دین کا صحیح فہم ، امام اور حجتِ خدا کی شناخت ، دوست اور دشمن کی پہچان، صحیح اور غلط کا ادراک، آپ کی بصیرت اور آئندہ نِگری کا ثبوت ہے ۔ آپ کی باتیں ، خاموشی اور موقف سب اسی خصوصیت پر مبنی تھے۔ علی علیہ السلام نے حقیقی جنگجوؤں کا تذکرہ یوں کیا ہے: انہوں نے اپنی بصیرت کو اپنی تلواروں پر سوار کر لیا ؛
یعنی اگر وہ میدان میں تلواریں چلارہے ہیں تو یہ ان کی بصیرت کی وجہ سے ہے۔ عاشورا کے عظیم جہاد میں شریک مجاہدین مذکورہ قول کی حقیقی مثال تھے؛ کیونکہ وہ بغیر کسی مقصد کے کربلا نہیں آئے تھے وہ اپنے راستے اور رہبر کی حقانیت پر یقین رکھتے تھے ۔ انہوں نے پوری بصیرت کے ساتھ اس راستے پر قدم رکھا تھا۔ اس لیے مشکلات اور پریشانیوں نے انہیں اپنا سفر جاری رکھنے سے نہیں روکا۔ مثال کے طور پر جب حسینی قافلہ مکہ سے کربلا جاتے ہوئے خضیمیہ نامی مکان پر پہنچا اور وہاں ایک دن رات رکا تو اس صبح زینب اپنے بھائی کے پاس آئیں اور کہا: کل رات میں نے ہاتف کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا:
أَلَا يَا عَيْنُ فَاحْتَفِلِي بِجَهْدٍ وَمَنْ يَبْكِي عَلَى الشُّهَدَاءِ بَعْدِي
عَلَى قَوْمٍ تَسُوقُهُمُ الْمَنَايَا بِمِقْدَارٍ إِلَى إِنْجَازِ وَعْدٍ
اے آنکھیں کوشش کر اور آنسوؤں سے بھر جا! میرے بعد ان شہیدوں پر کون روئے گا ؟ وہ گروہ جنھیں موت کھینچے لیے جارہی ہےجیسا کہ خدا نے مقدر کررکھا ہے، تاکہ اس کا وعدہ پورا ہو۔
امام نے فرمایا: اے بہن ! جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا۔ جب زینب نے اپنے بھائی سے یہ سنا تو انھیں یقین ہو گیا کہ کوئی آفت آ گئی ہے۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے لیکن آپ نے خود پر قابو رکھا کہ کہیں اہل بیت کو پتہ نہ چل جائے۔
زینب کا انتخاب ہوشمندانہ ہے۔ یہ بھائی اور بہن کا معاملہ نہیں بلکہ فرض کی پکار اوراسلام کے دوست اور دشمن کی پہچان کا معاملہ ہے، جس نے انھیں امام علیہ السلام کے ساتھ کردیا اور کربلا لا پہنچایا ہے۔
اگر کوئی عام آدمی عاشورہ کی شام مقتل گاہ میں کھڑا ہوتا تو اسے لگتا کہ بس کہانی ختم ہےاور یہ واقعہ ہوا اور ختم ہوگیا لیکن جناب زینب سلام اللہ علیہا کی تیز نظر اور بصیرت، زمان و مکان کے پردے کو توڑ دیتی ہے اور اس شکست و ریخت میں فتح دیکھتی ہے اور اس موت میں حیات کو دیکھتی ہےکیونکہ اس کا ماننا ہے کہ اصل ناکامی منطق اور عقیدے کی ناکامی ہے اور اصل فتح نظریات اور عقیدے کی فتح ہےچاہے بظاہریہ ناکامی ہی نظر آتی ہو۔ کم نظر و کم ظرف دشمن نے اپنا تمام تر گھٹیا پن کھل کر دکھایااور پستی و رذالت کی ساریں حدیں پار کردی جو آپس میں فخریہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ گواہ رہو کہ ہم نے کیا کارنامہ کیا ہے۔ ان کا حساب کتاب یہ تھا کہ ہم نے اپنے سب سے بڑے مخالف کو مار ڈالا اور اس کے بچوں اور خاندان کو کشاں کشاں بے مقنعہ و چادر کر کے گھمایا اب لوگ کبھی حکومت کے خلاف قیام کرنے کا نہیں سوچیں گے اور ہماری حکومت ہمیشہ کے لیے بیمہ شدہ ہے لیکن جناب زینب سلام اللہ علیہا نے کئی مقامات پر اُسی بصیرت اور الٰہی بصیرت کی بنیاد پر خود پیش گوئی کی کہ اموی حکومت تباہ ہو جائے گی اور حسینؑ کا نام، مقصد اور راستہ زندہ رہے گا۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا ہمیں زندگی کے تمام راستوں، پیروی اور حمایت، دوستی اور دشمنی کے ساتھ ساتھ کوئی بھی موقف اختیار کرنے میں بصیرت کی بنیاد پر عمل کرنا سکھاتی ہیں۔

جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی قبر
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تدفین کے بارے میں تین آراء ہیں :
کچھ لوگوں نے مصر میں آپ کی قبر بیان کی ہے، کچھ نے دمشق کے علاقے کے مضافات میں،اور کچھ نے مدینہ و بقیع کو آپ کا مدفن قرار دیا ہے۔
قدیم ترین موجودہ دستاویز کے مطابق، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، واقعۂ کربلا کے بعد، جناب زینب سلام اللہ علیہا کو مصر جلاوطن کر دیا گیا اور وہیں آپ کا انتقال ہوا، اور الحمراء القصوی نامی جگہ پر دفن کیا گیا ۔
پرانے مؤرخین میں سے صرف عبیدلی کا خیال ہے کہ زینب 61 ہجری میں متعدد بنی ہاشم کے ساتھ مصر میں داخل ہوئیں اور وہاں گیارہ مہینے اور پندرہ دن مقیم رہیں اور 15 رجب 62 بروز ہفتہ کی صبح وفات پائی ۔
بعض نے اس قول کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ: مصر میں صحابہ کے مقبروں اور وہاں دفن ہونے والی زینب نامی شخصیات اور مصر میں داخل ہونے والوں کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ، لیکن ان میں سے کسی میں بھی علی کی بیٹی زینب سلام اللہ علیہا کا ذکر نہیں ہے ۔
علامہ سید محسن امین جیسے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زینب کبریٰ مدینہ اور بقیع میں دفن ہیں اور دمشق کے علاقے میں جن کی زیارت زینب کے طور پر ہوتی ہے وہ زینب صغریٰ ہیں جنھیں ام کلثوم کہا جاتا تھا ۔

اس نقطۂ نظر کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ: بقیع اور مدینہ میں اس عظیم بی بی کے مزار کا کسی کتاب میں ذکر نہیں ہے۔ اگر ان کی قبر بقیع میں ہوتی تو وہ بلا جھجک اس کا ذکر کرتے؛ کیونکہ ایسے ایسےلوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا درجہ آپ سے بہت کم تھا ۔ چنانچہ مشہور قول کے مطابق آپ کو شام میں دفن کیا گیا ۔([1])


([1])۔ کتاب "حیاتِ زینبی کا تحلیلی مطالعہ" سے اقتباس تصنیف:سید لیاقت علی کاظمی الموسوی

 

قٰالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّم:" ثَلَاثَۃ مِنَ الذُّنُوب تَعَجَّلُ عُقُوبَتُھٰا وَ لٰاتوَخِّرُ اِلی الٰآخِرَۃِ عُقُوقُ الوَالِدَین وَ البَغیِ عَلیٰ النَّاسِ وَ کُفرُ الِاحسٰان"(۱)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ھیں:تین گناہ ایسے ہیں جن کی سزا دنیا ھی میں فوراَ مل جاتی ھے خدا اس کوقیامت پر نھیں چھوڑتا :

۱۔والدین کی نا فرمانی اور ان کو اذیت دینا ۔

۲۔ لوگوں پر ظلم وستم کرنا ۔

۳۔ لوگوں کے احسان اور نیکیوں کو بھلا دینا۔

قٰالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّم:" فِی رِضیَ اللّٰہِ فِی رِضیَ الوٰالِدَینِ وَ سَخَطُہُ فِی سَخَطِھِمٰا "(۲)

ماں باپ کی خوشنودی میں خداوند عالم کی خشنودی ہے اور ماں باپ کی ناراضگی میں خدا کی ناراضگی ہے۔

قٰالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّم:" نَظَرُ الوَلَدُ اِلیٰ وٰالِدَیہِ حُبّاً لَھُمٰا عِبٰادَۃ"(۳)

پیغمبر اکرم (ص) فرمارتے ھیں:فرزند کا محبت آمیز نگاھوں سے ماں باپ کو دیکھنا عبادت ہے۔

عَنِ البٰاقِرِ عَلَیہِ السَّلاٰم قٰالَ:" سُئِلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ مَن اَعظَمُ حَقّاً عَلَی الرَّجُلِ؟ قٰالَ: وٰالِدٰاہُ"(۴)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: کہ رسول خدا(ص) سے پوچھا گیا: کس کا حق انسان کی گردن پر سب سے زیادہ ہے؟ فرمایا: ماں ، باپ کا ۔

قٰالَ الصّٰادِقُ عَلَیہِ السَّلاٰم: "بَرُّوا آبٰائَکُم تَبَرَّکُم اَبنٰائُکُم"(۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو تاکہ تمھارے فرزند بھی اس اچھی سنت پر عمل کرتے ھووئے تمھارے ساتھ نیکی کریں۔

قٰالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّم:" ثَلاٰثَۃ  لَیسَ لِاَحَدٍ فِیھِنَّ رُخصَۃ : الوَفٰائُ لَمُسلِمٍ کٰانَ اَو کٰافِرٍ، وَ بِرُّ الوٰالِدَینِ مُسلِمَینِ کٰانٰا اَو کٰافِرَینِ وَ اَدٰائُ الاَمٰانَۃِ لِمُسلِمٍ کٰانَ اَو کٰافِرٍ"(۶)

رسول خدا (ص)نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی بھی صورت میں انحراف جائز نھیں ہے:

۱۔ عھد و پیمان پورا کرنا چاھئے کافر کے ساتھ ھو یا مسلمان کے ساتھ۔

۲۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا چاھئے مسلمان ھوں یا کافر۔

۳۔ امانت ادا کرنا چاھئے مسلمان کی ھو یا کافر کی۔

قال الامام صادق علیہ السلام :"عُقُوقُ الوٰالِدَینِ مِنَ الکَبٰائِرِ"

حضرت امام صادق علیہ السلام فرما تے ھیں: ماں باپ کو اذیت پھچاناگناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتاھے۔

قال الامام علی علیہ السلام :"بِرُّ الوٰالِدَینِ اَکبَرُ فَرِیضَۃٍ"

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا سب سے بڑا فریضہ ہے۔

قال الامام علی علیہ السلام :"اَلجَنَّۃُ تَحتَ اَقدٰامِ الاُمَّھٰات"

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جنت تمھاری ماؤں کے پیروں کے نیچے ہے۔

حوالہ:

۱۔امالی شیخ ظوسی /ج ۲/ص۱۳۔

۲۔ مستدرک ،ج۲،ص۷۲۶۔

۳۔تحف العقول،ص۴۶۔

۴۔مشکوٰۃ الانوار،ص۸۱۵۔

۵۔بحار،ج۱۷،ص۴۸۱۔

۶۔مجموعہ والرام،ج۲،ص۱۲۱۔

جمیلہ علم الہدی نے ایک امریکی میڈیا سے انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر  تشدد پھیلانے کی مغربی روش ایران میں کارگر نہیں ہوگی۔   

صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  نیوز ویک سے انٹرویو میں کہا کہ ایران میں خواتین کو خاندان، والد اورخاندان کے سبھی افراد کی حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کے سائے میں وہ معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔  

 انھوں نے کہا کہ خواتین ایران میں اور دنیا میں ہرجگہ، خاندان کے مرکز کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں بنابریں معاشرے میں ان کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔  

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے مزید کہا کہ ایران میں خواتین کو  اپنے حقوق کے لئے مجاہدت نہیں کرنی پڑی  ہے کیونکہ انہیں حقوق حاصل ہیں اور  ایرانی معاشرے میں مردوں نے خواتین کے احترام کا تحفظ کیا ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ اخلاقی پہلو سے خواتین جن اقدار کی مستحق ہیں، ایران میں انہیں قوانین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔    

  ایران کی خاتون اول نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی دنیاوی تحریکیں ایران میں داخل نہیں ہوسکی ہیں، اس کی سب سے پہلی وجہ ان تحریکوں میں پایا جانے والا تشدد کا رجحان ہے ۔

  انھوں نے کہا کہ ایران میں اس کے برعکس خواتین امن و سکون کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ ان دونوں کا   نمایاں فرق ہے  

  صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  مغرب کے ان  الزامات کے بارے میں کہ ایران میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انہیں زیادہ حقوق کی ضرورت ہے کہا کہ مغرب کو ایران کے بارے میں ضروری معلومات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ غلط فہمی ہے ۔ انھوں نے ایران میں عوام اور خواتین کے روابط  کی گہرائی و گیرائي کو نہیں سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی خواتین کو بھی مغربی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ  خواتین کے بارے میں مغربی بیانیہ سیاسی محرکات کا حامل ہے ۔  

ایران کی خاتون اول  نے بہت سے  مغربی ملکوں بالخصوص نیویارک میں خواتین کی حالت کے بارے میں کہا کہ مغرب میں اکثرخواتین تنہائي کا احساس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں خواتین کی خاندان اور شریک حیات کی جانب سے بہت کم حمایت ہوتی ہے ۔

 انھوں نے کہا کہ خواتین چونکہ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں، اس لئے ان کا زیادہ احترام ہونا چاہئے۔  لیکن مغرب میں انہیں زیادہ  کام کرنا ہوتا ہے وہ مردوں کے  مساوی کام کرتی ہیں تاکہ کمترین معیار کی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مغربی اور ایرانی خواتین میں نمایاں فرق ہے۔ ایران میں خواتین بہت ہی قریبی خاندانی  روابط کی مالک ہیں  

 ڈاکٹر جمیلہ علم الہدی نے ایران کے خلاف امریکا کی دشمنانہ پالیسیوں اور پابندیوں کے بارے میں کہا کہ ہم حال ہی میں ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہیں، ہم پرمغرب کے ثقافتی حملے ہوئے ہیں  ۔ جبکہ آپ ایرانی ثقافت کو دیکھیں تو ایران ثقافتی لحاظ سے مغرب سے بالکل مختلف ہے۔

 انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ایران یک  طرفہ اور خودسرانہ پابندیوں کا نشانہ بنا ہے جس کی وجہ سے عوام کی زندگی سخت ہوگئی ہے لیکن رہبر معظم کی رہنمائیوں کی بدولت ہم نے ان پابندیوں کو عبور کرنے میں کامیابی حاصل کی

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے ایرانی عوام پر پابندیوں کے منفی اثرات کے بارے میں کہا کہ پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ مریضوں اور بچوں پر پڑے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ اس کا نمونہ Epidermolysis bullosa  کی بیماری ہے ۔ اس میں مریض کی جلد اکھڑ جاتی ہے اور یہ بہت ہی دردناک اور ناقابل تصوہے۔  اس بیماری میں مبتلا افراد کا درد ناقابل بیان ہے۔

   ایران کی خاتون اول کا کہنا تھا کہ امریکا دعوی کرتا ہے کہ پابندیاں ایرانی عوام کے مفاد کے تحفظ میں لگائي گئی ہیں لیکن یہ  پابندیاں خوراک اور دواؤں پر نافذ کی جارہی ہیں ۔

 صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے آخر میں کہا کہ امریکی حکومتوں کی پالیسیاں دنیا کے آزاد اور خودمختار ملکوں کے استعمار اور استحصال پر مبنی ہیں ، وہ دنیا کے ہر آزادی پسند ملک پر دباؤ ڈالتی ہیں تاکہ انہیں امریکی مطالبات ماننے پر مجبور کرسکیں۔

جمیلہ علم الہدی نے ایک امریکی میڈیا سے انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر  تشدد پھیلانے کی مغربی روش ایران میں کارگر نہیں ہوگی۔   

صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  نیوز ویک سے انٹرویو میں کہا کہ ایران میں خواتین کو خاندان، والد اورخاندان کے سبھی افراد کی حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کے سائے میں وہ معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔  

 انھوں نے کہا کہ خواتین ایران میں اور دنیا میں ہرجگہ، خاندان کے مرکز کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں بنابریں معاشرے میں ان کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔  

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے مزید کہا کہ ایران میں خواتین کو  اپنے حقوق کے لئے مجاہدت نہیں کرنی پڑی  ہے کیونکہ انہیں حقوق حاصل ہیں اور  ایرانی معاشرے میں مردوں نے خواتین کے احترام کا تحفظ کیا ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ اخلاقی پہلو سے خواتین جن اقدار کی مستحق ہیں، ایران میں انہیں قوانین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔    

  ایران کی خاتون اول نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی دنیاوی تحریکیں ایران میں داخل نہیں ہوسکی ہیں، اس کی سب سے پہلی وجہ ان تحریکوں میں پایا جانے والا تشدد کا رجحان ہے ۔

  انھوں نے کہا کہ ایران میں اس کے برعکس خواتین امن و سکون کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ ان دونوں کا   نمایاں فرق ہے  

  صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  مغرب کے ان  الزامات کے بارے میں کہ ایران میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انہیں زیادہ حقوق کی ضرورت ہے کہا کہ مغرب کو ایران کے بارے میں ضروری معلومات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ غلط فہمی ہے ۔ انھوں نے ایران میں عوام اور خواتین کے روابط  کی گہرائی و گیرائي کو نہیں سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی خواتین کو بھی مغربی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ  خواتین کے بارے میں مغربی بیانیہ سیاسی محرکات کا حامل ہے ۔  

ایران کی خاتون اول  نے بہت سے  مغربی ملکوں بالخصوص نیویارک میں خواتین کی حالت کے بارے میں کہا کہ مغرب میں اکثرخواتین تنہائي کا احساس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں خواتین کی خاندان اور شریک حیات کی جانب سے بہت کم حمایت ہوتی ہے ۔

 انھوں نے کہا کہ خواتین چونکہ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں، اس لئے ان کا زیادہ احترام ہونا چاہئے۔  لیکن مغرب میں انہیں زیادہ  کام کرنا ہوتا ہے وہ مردوں کے  مساوی کام کرتی ہیں تاکہ کمترین معیار کی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مغربی اور ایرانی خواتین میں نمایاں فرق ہے۔ ایران میں خواتین بہت ہی قریبی خاندانی  روابط کی مالک ہیں  

 ڈاکٹر جمیلہ علم الہدی نے ایران کے خلاف امریکا کی دشمنانہ پالیسیوں اور پابندیوں کے بارے میں کہا کہ ہم حال ہی میں ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہیں، ہم پرمغرب کے ثقافتی حملے ہوئے ہیں  ۔ جبکہ آپ ایرانی ثقافت کو دیکھیں تو ایران ثقافتی لحاظ سے مغرب سے بالکل مختلف ہے۔

 انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ایران یک  طرفہ اور خودسرانہ پابندیوں کا نشانہ بنا ہے جس کی وجہ سے عوام کی زندگی سخت ہوگئی ہے لیکن رہبر معظم کی رہنمائیوں کی بدولت ہم نے ان پابندیوں کو عبور کرنے میں کامیابی حاصل کی

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے ایرانی عوام پر پابندیوں کے منفی اثرات کے بارے میں کہا کہ پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ مریضوں اور بچوں پر پڑے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ اس کا نمونہ Epidermolysis bullosa  کی بیماری ہے ۔ اس میں مریض کی جلد اکھڑ جاتی ہے اور یہ بہت ہی دردناک اور ناقابل تصوہے۔  اس بیماری میں مبتلا افراد کا درد ناقابل بیان ہے۔

   ایران کی خاتون اول کا کہنا تھا کہ امریکا دعوی کرتا ہے کہ پابندیاں ایرانی عوام کے مفاد کے تحفظ میں لگائي گئی ہیں لیکن یہ  پابندیاں خوراک اور دواؤں پر نافذ کی جارہی ہیں ۔

 صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے آخر میں کہا کہ امریکی حکومتوں کی پالیسیاں دنیا کے آزاد اور خودمختار ملکوں کے استعمار اور استحصال پر مبنی ہیں ، وہ دنیا کے ہر آزادی پسند ملک پر دباؤ ڈالتی ہیں تاکہ انہیں امریکی مطالبات ماننے پر مجبور کرسکیں۔

 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی کابینہ لگ بھگ تیرہ مرتبہ جنگ بندی کی پیشکش مسترد کرنے کے بعد آخرکار اسے قبول کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے خلاف جاری جنگ عارض طور پر روک دینے کی کئی وجوہات پائی جاتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1)۔ غاصب صیہونی رژیم اب تک جنگ بندی کا معاہدہ قبول کرنے سے کتراتی آ رہی تھی کیونکہ نیتن یاہو اور صیہونی فوج کے سربراہان کی نظر میں کسی بھی قسم کی جنگ بندی درحقیقت حماس کیلئے فتح شمار کی جائے گی۔ غاصب صیہونی رژیم نے جن اہداف و مقاصد کیلئے غزہ پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا تھا اب تک ان میں سے کوئی ہدف بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اس کا پہلا ہدف حماس کے ہاتھوں اسیر صیہونی فوجیوں اور آبادکاروں کو آزاد کروانا تھا۔
 
دوسری طرف حماس ابتدا سے ہی اعلان کر چکی تھی کہ طوفان الاقصی فوجی آپریشن کا بنیادی مقصد اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی اسیروں کو آزاد کروانا ہے۔ لہذا جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے انجام پانے والے معاہدے کو اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا باعث بنے گی کہ اسلامی مزاحمت مستقبل میں بھی ایسی حکمت عملی بروئے کار لاتی رہے۔ مزید برآں، حماس کی قید میں موجود خواتین اور بچوں سمیت سویلین افراد ایک طرح سے ان پر اخلاقی، میڈیا اور سیاسی ذمہ داریاں عائد ہونے کا باعث بن رہے تھے۔ اسی وجہ سے حماس انہیں کسی نہ کسی بہانے آزاد کرنے کی خواہاں تھی۔ اب جبکہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ انجام پا چکا ہے تو حماس ان کے بدلے اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینی بچوں اور خواتین کو بھی آزادی دلا دے گی۔
 
2)۔ قیدیوں کا تبادلہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی انجام پانے کا محتاج تھا لہذا نیتن یاہو اور صیہونی فوج جنگ بندی کے خواہاں نہیں تھے۔ دوسری طرف صیہونی فوج اب تک نہ تو حماس کے اعلی سطحی رہنماوں کو قتل کرنے میں کامیاب رہی تھی اور نہ ہی حماس کے سیاسی اور فوجی ڈھانچے کو کوئی قابل ذکر نقصان پہنچا پائی تھی۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر سے حکومت پر اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروانے کیلئے دباو بڑھتا جا رہا تھا۔ لہذا نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
3)۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے اسرائیلی قیدیوں کے کارڈ کو مغربی اور یورپی حکومتوں پر دباو ڈالنے کیلئے استعمال کیا اور اس طرح عالمی ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی غزہ پر صیہونی جارحیت کو جائز قرار دینے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
 
4)۔ بنجمن نیتن یاہو اور اس کی کابینہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں کا میڈیا پر آ کر اظہار خیال کرنے سے ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھل جائے گا جو اس مدت میں انہوں نے حماس اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف انجام دیا ہے۔ اس کا نتیجہ نیتن یاہو حکومت کی سرنگونی کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ ان قیدیوں کی آزادی نہیں چاہتے تھے لیکن آخرکار عالمی دباو کے تحت انہیں ایسا کرنا پڑ گیا۔
5)۔ نیتن یاہو اور اس کی دائیں بازو کی شدت پسند کابینہ کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس میں حتی اسرائیلی اور غیر اسرائیلی ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیتن یاہو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کیلئے تلمود کی تعلیمات کو بنیاد بنا کر پیش کرتا ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے غزہ کے خلاف جارحیت وہاں مقیم فلسطینیوں کی نسل کشی اور انہیں غزہ چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کرنے کیلئے شروع کی تھی۔
 
یوں غاصب صیہونی رژیم غزہ کی پٹی پر بھی ناجائز قبضہ برقرار کرنے کے درپے تھی۔ لیکن غزہ میں فلسطینیوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کر کے اسرائیلی ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ صیہونی رژیم کی جانب سے اب تک جنگ بندی قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہی تھی کہ وہ فلسطینی شہریوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتے تھے۔ لیکن جب صیہونی حکام کو اس مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو آخرکار جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
6)۔ نیتن یاہو ہر قیمت پر غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے درپے تھا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ناکامی کی صورت میں اس کی سیاسی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو پہلے سے عدالت میں اپنے خلاف کئی کیسز کا سامنا کر رہا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر شدید دباو پایا جاتا ہے۔
 
غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے حصول کی شدید ضرورت اور خواہش نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں آڑے آ رہی تھی۔ لیکن جب پورا زور لگانے کے باوجود میدان جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی تو اس نے مایوس ہو کر آخرکار جنگ بندی قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں پایا۔
7)۔ نیتن یاہو کی شدید خواہش تھی کہ قطر کی بجائے مصر جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کرے۔ وہ اس طرح ایک طرف تو غزہ کے محاصرے میں شریک کے طور پر مصر کی پوزیشن مضبوط کرنے کے درپے تھا جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی گروہوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تیرہ مرتبہ جنگ بندی کو مسترد کر دیا لیکن آخر میں جب دیکھا کہ ایسا ممکن نہیں تو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔
 
 
 
 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی کابینہ لگ بھگ تیرہ مرتبہ جنگ بندی کی پیشکش مسترد کرنے کے بعد آخرکار اسے قبول کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے خلاف جاری جنگ عارض طور پر روک دینے کی کئی وجوہات پائی جاتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1)۔ غاصب صیہونی رژیم اب تک جنگ بندی کا معاہدہ قبول کرنے سے کتراتی آ رہی تھی کیونکہ نیتن یاہو اور صیہونی فوج کے سربراہان کی نظر میں کسی بھی قسم کی جنگ بندی درحقیقت حماس کیلئے فتح شمار کی جائے گی۔ غاصب صیہونی رژیم نے جن اہداف و مقاصد کیلئے غزہ پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا تھا اب تک ان میں سے کوئی ہدف بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اس کا پہلا ہدف حماس کے ہاتھوں اسیر صیہونی فوجیوں اور آبادکاروں کو آزاد کروانا تھا۔
 
دوسری طرف حماس ابتدا سے ہی اعلان کر چکی تھی کہ طوفان الاقصی فوجی آپریشن کا بنیادی مقصد اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی اسیروں کو آزاد کروانا ہے۔ لہذا جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے انجام پانے والے معاہدے کو اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا باعث بنے گی کہ اسلامی مزاحمت مستقبل میں بھی ایسی حکمت عملی بروئے کار لاتی رہے۔ مزید برآں، حماس کی قید میں موجود خواتین اور بچوں سمیت سویلین افراد ایک طرح سے ان پر اخلاقی، میڈیا اور سیاسی ذمہ داریاں عائد ہونے کا باعث بن رہے تھے۔ اسی وجہ سے حماس انہیں کسی نہ کسی بہانے آزاد کرنے کی خواہاں تھی۔ اب جبکہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ انجام پا چکا ہے تو حماس ان کے بدلے اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینی بچوں اور خواتین کو بھی آزادی دلا دے گی۔
 
2)۔ قیدیوں کا تبادلہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی انجام پانے کا محتاج تھا لہذا نیتن یاہو اور صیہونی فوج جنگ بندی کے خواہاں نہیں تھے۔ دوسری طرف صیہونی فوج اب تک نہ تو حماس کے اعلی سطحی رہنماوں کو قتل کرنے میں کامیاب رہی تھی اور نہ ہی حماس کے سیاسی اور فوجی ڈھانچے کو کوئی قابل ذکر نقصان پہنچا پائی تھی۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر سے حکومت پر اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروانے کیلئے دباو بڑھتا جا رہا تھا۔ لہذا نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
3)۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے اسرائیلی قیدیوں کے کارڈ کو مغربی اور یورپی حکومتوں پر دباو ڈالنے کیلئے استعمال کیا اور اس طرح عالمی ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی غزہ پر صیہونی جارحیت کو جائز قرار دینے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
 
4)۔ بنجمن نیتن یاہو اور اس کی کابینہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں کا میڈیا پر آ کر اظہار خیال کرنے سے ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھل جائے گا جو اس مدت میں انہوں نے حماس اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف انجام دیا ہے۔ اس کا نتیجہ نیتن یاہو حکومت کی سرنگونی کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ ان قیدیوں کی آزادی نہیں چاہتے تھے لیکن آخرکار عالمی دباو کے تحت انہیں ایسا کرنا پڑ گیا۔
5)۔ نیتن یاہو اور اس کی دائیں بازو کی شدت پسند کابینہ کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس میں حتی اسرائیلی اور غیر اسرائیلی ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیتن یاہو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کیلئے تلمود کی تعلیمات کو بنیاد بنا کر پیش کرتا ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے غزہ کے خلاف جارحیت وہاں مقیم فلسطینیوں کی نسل کشی اور انہیں غزہ چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کرنے کیلئے شروع کی تھی۔
 
یوں غاصب صیہونی رژیم غزہ کی پٹی پر بھی ناجائز قبضہ برقرار کرنے کے درپے تھی۔ لیکن غزہ میں فلسطینیوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کر کے اسرائیلی ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ صیہونی رژیم کی جانب سے اب تک جنگ بندی قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہی تھی کہ وہ فلسطینی شہریوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتے تھے۔ لیکن جب صیہونی حکام کو اس مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو آخرکار جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
6)۔ نیتن یاہو ہر قیمت پر غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے درپے تھا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ناکامی کی صورت میں اس کی سیاسی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو پہلے سے عدالت میں اپنے خلاف کئی کیسز کا سامنا کر رہا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر شدید دباو پایا جاتا ہے۔
 
غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے حصول کی شدید ضرورت اور خواہش نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں آڑے آ رہی تھی۔ لیکن جب پورا زور لگانے کے باوجود میدان جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی تو اس نے مایوس ہو کر آخرکار جنگ بندی قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں پایا۔
7)۔ نیتن یاہو کی شدید خواہش تھی کہ قطر کی بجائے مصر جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کرے۔ وہ اس طرح ایک طرف تو غزہ کے محاصرے میں شریک کے طور پر مصر کی پوزیشن مضبوط کرنے کے درپے تھا جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی گروہوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تیرہ مرتبہ جنگ بندی کو مسترد کر دیا لیکن آخر میں جب دیکھا کہ ایسا ممکن نہیں تو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔
 
 
 

کامیابی کے دو الفاظ!

دنیا کے نظاموں میں،یعنی انقلابی نظاموں میں جو پچھلی ایک یا دو صدیوں میں تشکیل پائے ہیں،میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کے علاوہ کسی بھی ایسے نظام کو نہیں جانتا کہ جسکے زوال، نابودی اور بربادی کے بارے میں اتنی زیادہ پیشن گوئیاں ہوئی ہوں۔آخر کیوں اسلامی جمہوریہ ایران کو ان تمام دشمنیوں کے باوجود دوسرے نظاموں اور انقلابوں کی جیسی بد نصیبی کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟ کیا وجہ ہے اور اسکا کیا راز ہے؟اس نظام کی بقاء دو الفاظ ہیں:”جمہوری” اور “اسلامی۔

اسلامی جمہوریہ،جمہوری بھی ہے،یعنی لوگوں کی رای کا پابند ہے اور اسلامی بھی ہے یعنی شریعت الہی کا پابند ہے۔ایک نیا ماڈل ہے۔

 

امام خمینی رح، کوہ گراں!

امام خمینی کی ایجاد اور انکا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلامی نظریے کی بنیاد ڈالی اور اسے سیاسی نظریات کے میدان کا حصہ بنایا۔صرف ایک نظریہ ایجاد نہیں کیا بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا اور وجود بخشا،کچھہ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ انقلاب آگیا،اب لوگ اپنے گھروں واپس لوٹ جائیں یہاں امام خمینی نے کوہ گراں کی مانند تمام امور عوام کے سپرد کردیے۔

 

 

 

عوام پر یقین!

امام خمینی کو عوام پر پختہ عقیدہ تھا،عوام کی صلاحیتوں،انکے ارادوں،انکی وفاداری پہ پختہ عقیدہ رکھتے تھے۔یہ اسلام ناب(خالص) کی فکر،امام راحل کی ہمیشگی فکر تھی،صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے زمانے کے لئے مخصوص نہیں تھی،بہر حال اسلام ناب محمدی کا تحقق،اسلام کی حاکمیت اور تشکیل کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

 

 

اسلام اور جمہوریت،مسائل کا حل!

دو الفاظ،”اسلامی” اور “جمہوری” کو امام راحل ملک کے مسائل کا حل مانتے تھے۔انہوں نے شروع سے اعلان کیا “جمہوری اسلامی” نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ،اسلامی و جمہوری،قرآن سے اخذ شدہ ہے۔جمہوریت اسلام کے بغیر،اور اسلام جمہوریت کے بغیر،دونوں بے معنی ہیں۔اسلام کی حاکمیت یعنی یہ کہ اصول،اقدار اور راستے کا تعین اسلام کرے گا۔عوامی حکومت یعنی یہ کہ حکومتی کو ایک منظم شکل دینا عوام کا کام ہے۔جب بھی لوگوں کو میدان میں لائے اور اسلام کو معیار و محور بنایا،ہم نے پیشرفت کی۔

 

 

عہد بصیرت ، رھبر معظم

یکنا نیوز- سوره جن میں ایسی آیات ہیں کہ جن جب قرآن سنتے ہیں اور کہتے  ہیں: « قُلْ أُوحِىَ إِلىَ‏ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الجْنّ‏ فَقَالُواْ إِنَّا سمَعْنَا قُرْءَانًا عجَبًا يهَدِى إِلىَ الرُّشْدِ فَامَنَّا بِهِ  وَ لَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا؛ ای پیغمبر کہو: مجھ پر وحی اتری ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتیں سن لی ہیں اور پھر کہا کہ ہم نے عجبیب قرآن سنے جو راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور کسی کو خدا کا شریک نہیں دیکھتے ہیں‏».(جن:1-2)

پيغمبر (ص) جب مكه سے بازار" عكاظ" جو" طائف" میں ہے کی طرف آتے ہیں تاکہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں، مگر کوئی انکی بات نہیں سنتے اور وہ واپس آتے ہیں  اور وادی جن میں پہنچتے ہیں، رات وہی ٹھرتے ہیں اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، جنوں کے ایک گروپ نے انکی تلاوت سنی اور ایمان لائے اور اپنی قوم کی طرف تبلیغ کے لیے چلے گیے۔

 

جن کا تعارف

جن یا جنات خلقت کے لحاظ سے انسان سے قریب ترین مخلوق ہے جو انسانوں کی طرح اختیار اور فھم، ذمہ داری اور عقل کے مالک ہے، وہ انسانوں کی طرح مومن اور کافر ہے اور رسول گرامی جنوں پر بھی رسول ہے، جن میں مرد و خواتین ہیں اور وہ بچے پیدا کرتے ہیں، انکی عمریں انسانوں سے زیادہ ہیں تاہم وہ بھی پیدایش اور موت و محدود زندگی کے مالک ہیں۔ وہ انسانوں سے قبل پیدا ہوا ہے اور آگ سے بنا ہے وہ دکھائی نہ دینے والی مخلوق ہے۔

 

قرآن کا عجیب ہونا: اس وجہ سے عجیب ہے کہ انداز اور اسٹائل منفرد ہے اور بہت متاثر کرنے والی کتاب ہے اور لانے والی ذات بھی کسی سے پڑھے نہیں۔

کلام ظاہر ہے اور باطن عجیب اور لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن ایک معجزہ ہے۔

تمام تعجب کرانے والی چیزیں عادی ہوجاتی ہیں تاہم قرآن عجیب کتاب ہے  جو ابدی  ہے، مثال کے طور پر مشرکین سے کہا جاتا ہے «اگر ملاسکتے ہو تو ایک ہی سورہ قرآن کی طرح لے آ...... اگر سچ کہتے ہوں»(یونس:38).

وہ لوگ نہ کرسکے اور 1400 سال ہوچکا ہے اب تک کوئی اس چیلنج کو پورا نہ کرسکے ہیں اور اسی لیے حضرت على عليه السلام نهج‏البلاغه مین فرماتے ہیں:

«لا تفنى عجائبه ؛ عجایب قرآن فن ہونے والے نہیں »

هدایت کرنے والا قرآن:  قرآن  میں ہدایت کرنے والی آیات ہیں اور سورہ جن کی آیت 2 میں "رش"  کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی کوئی ایکسپائری نہیں اور یہ دائمی ہے اور اسکی ہدایت صرف انسانوں کے واسطی نہیں بلکہ جنوں کے لیے بھی ہے جیسے مذکور آیت میں ہم پڑھتے ہیں ۔/

 
 
جامع مسجد قم 6000 مربع میڑ پر واقع تیسری صدی ہجری کی یادگار مسجد ہے۔ اس مسجد کے گنبد اور دیواروں کی ساخت میں لوہے کا استعمال نہیں ہوا ہے تاہم صدیوں بعد بھی اس مسجد کو مضبوط تصور کیا جاتا ہے۔
 

 
 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس موقع پر اپنے خطاب میں فلسطین کے حالات اور غزہ میں صیہونی حکومت کے جاری جرائم کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ غزہ کے واقعات نے بہت سے پوشیدہ حقائق، دنیا کے لوگوں پر عیاں کر دیے، جن میں سے ایک حقیقت، مغربی ملکوں کے حکام کی جانب سے نسلی امتیاز کی طرفداری ہے۔

انھوں نے صیہونی حکومت کو نسلی پرستی کا مظہر بتایا اور کہا کہ صیہونی اپنے آپ کو برتر نسل سمجھتے ہیں اور دوسرے تمام انسانوں کو کمتر نسل مانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کئی ہزار بچوں کو قتل کر ڈالا اور ان کا ضمیر مطمئن ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دے کر کہا کہ جب امریکا کے صدر، جرمنی کے چانسلر، فرانس کے صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم اپنے بلند بانگ دعووں کے باوجود، اس طرح کی نسل پرست حکومت کی حمایت اور مدد کرتے ہیں تو یہ ان کی طرف سے نسل پرستی کی طرفداری کی قابل مذمت سچائی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یورپ اور امریکا کے عوام بھی اس صورتحال میں اپنی ذمہ داری طے کر لیں اور بتا دیں کہ وہ نسل پرستی کے طرفدار نہیں ہیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے غزہ کے حالات کے بارے میں جو دوسری اہم بات بیان کی وہ صیہونی حکومت کی فوجی اور آپریشنل ناکامی کے بارے میں تھی۔ انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت، غزہ میں بے تحاشا بمباری کے باوجود اب تک اپنے مشن میں ناکام رہی ہے کیونکہ اس نے شروع سے ہی کہا تھا کہ ہمارا ٹارگٹ حماس اور مزاحمتی فورس کو ختم کرنا ہے لیکن چالیس دن سے زیادہ گزر جانے اور اپنی تمام تر فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجود وہ اب تک ایسا نہیں کر پائي ہے۔

انھوں نے غزہ میں اسپتالوں، عورتوں اور بچوں پر وحشیانہ بمباری کو اپنی شکست پر صیہونی حکام کی شدید تلملاہٹ کی نشانی بتایا اور کہا کہ غزہ میں صیہونی حکومت کی شکست ایک حقیقت ہے اور اسپتالوں یا عام لوگوں کے گھروں میں گھس جانا فتح نہیں ہے کیونکہ فتح کا مطلب فریق مقابل کو شکست دینا ہے جو صیہونی حکومت اب تک نہیں کر پائي ہے اور مستقبل میں بھی ایسا نہیں کر پائے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس ناکامی کا دائرہ صیہونی حکومت سے کہیں وسیع تر ہے اور اس نے امریکا اور مغربی ملکوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب دنیا نے یہ حقیقت دیکھ لی کہ بے انتہا اور پیشرفتہ فوجی وسائل رکھنے والی حکومت، اپنے فریق مقابل پر غلبہ حاصل نہیں کر سکی ہے جس کے پاس ان میں سے کوئی بھی وسائل نہیں ہیں۔

انھوں نے اسی طرح مسلم حکومتوں کی کارکردگی اور ذمہ داریوں کے بارے میں کہا کہ بعض مسلمان حکومتوں نے بظاہر عالمی پلیٹ فارمز پر صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کی اور بعض نے تو اب تک مذمت بھی نہیں کی، یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اصلی کام یہ ہے کہ صیہونی حکومت کی شریان اور اس کی رگ حیات کاٹ دی جائے اور اسلامی حکومتیں اس حکومت تک انرجی اور سامان کی ترسیل کا راستہ روک دیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ اسلامی حکومتوں کو چاہیے کہ کم از کم ایک محدود مدت کے لیے صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات منقطع کر لیں۔ انھوں نے کہا کہ عوام اپنے مظاہرے اور ریلیاں جاری رکھیں اور فلسطینی قوم کی مظلومیت کو فراموش نہ ہونے دیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اللہ کے وعدے پر یقین رکھتے ہیں اور مستقبل کی جانب سے بھی پرامید ہیں اور اپنی ذمہ داری پر عمل کرتے رہیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے سپاہ پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کی جس نمائش گاہ کا معائنہ کیا اس میں میزائل، ڈرون، دفاعی آلات حرب اور ایرواسپیس جیسے شعبوں کی مصنوعات پر مشتمل تھی، آئي آر جی سی کے جوان سائنسدانوں اور ماہرین کی جدید اور ماڈرن ایجادات کو نمائش کے لیے پیش گيا تھا۔ نمائش گاہ "سوچ سے لے کر پروڈکٹ تک مکمل ایرانی" کے عنوان سے منعقد کی گئي تھی۔

اس نمائش گاہ میں رہبر انقلاب اسلامی کی موجودگي میں، ہائپرسونک کروز میزائل "فتاح-2"، موبائل ڈیفنس سسٹم "مہران" اپگریڈیڈ سسٹم "9 دی" اور اسی طرح "شاہد-147" ڈرون کی رونمائی گئی۔ سیٹلائٹ کیریئر میزائل کی تیاری اور فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کے میدان میں کیے جانے والے اقدامات اور جدید کامیابیاں، اس نمائش گاہ کا ایک اور حصہ تھیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس طرح کی سائنسی پیشرفت کے حصول کو عزم و ایمان پر مبنی جذبے کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ ہمارے نوجوان جہاں بھی عزم و ایمان کے ساتھ پہنچے، وہیں انھوں نے عظیم کارنامے انجام دیے اور اس نمائش گاہ میں بھی عزم و ایمان کی نشانیاں بہت واضح تھیں۔

ایران کی مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر نے جدت طرازی کو آئی آر جی سی کی ائيرواسپیس کی نمائش گاہ کی ایک اور خصوصیت بتایا اور کہا کہ کامیابیوں کی موجودہ سطح پر ہرگز مطمئن نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دنیا میں مختلف فوجی اور غیر فوجی شعبے لگاتار پیشرفت کر رہے ہیں اور ہمیں بھی کوشش کرنا چاہیے کہ پیچھے نہ رہ جائيں۔

اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف حسین سلامی نے کہا ہے کہ اسرائیل کا خاتمہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہوگا۔ ایران کے دارالحکومت تہران میں فلسطین کی حمایت میں ریلی نکالی گئی، جس سے ایرانی کمانڈر حسین سلامی نے خطاب کیا۔ اس دوران ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل حماس سے طویل اور خونی جنگ کی طرف جا رہا ہے۔ اسرائیل کو یقینی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حسین سلامی نے کہا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، اسلامی دنیا جو کر سکی کرے گی۔ اسلامی دنیا کی اب بھی بہت سی صلاحیتیں باقی ہیں۔ ایرانی کمانڈر کا کہنا تھا کہ صہیونی حکومت مزید امن و سکون نہیں دیکھ سکے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مسلمان غزہ کے مظلوم عوام کی طرف سے بدلہ لیں گے۔ مسلمانوں کے انتقام کی کوئی میعاد بھی نہیں ہوگی۔