سلیمانی

سلیمانی

Thursday, 07 December 2023 04:55

ڈراؤنا خواب

فلسطین سے متعلق تازہ ترین خبروں میں جبالیہ کیمپ پر فاسفورس بموں سے بمباری اور غزہ پٹی کے جنوب میں مزاحمتی قوتوں اور جارحین کے درمیان شدید جھڑپیں شامل ہیں۔ غزہ پٹی کے مختلف علاقوں بشمول النصیرات کیمپ، خان یونس اور دیر البلح میں فلسطینی شہریوں کے گھروں پر آج (بدھ) صبح اسرائیلی بمباروں نے بمباری کی۔ فلسطینی ذرائع نے "کمال عدوان" اسپتال، جبالیہ کیمپ اور خان یونس شہر پر صیہونی حکومت کے حملوں کے تسلسل کی بھی اطلاع دی۔ ان ذرائع نے اعلان کیا کہ صیہونی قابض فوج کی جانب سے گذشتہ رات کو کمال عدوان اسپتال کی جانب 70 توپوں کے گولے داغے گئے۔

فلسطینی ذرائع نے اسرائیلی بمبار طیاروں کی طرف سے جبالیہ کیمپ پر بمباری کی بھی اطلاع دی، جس میں سو سے زائد خاندان آباد ہیں۔ غزہ پٹی میں رہائشی مکانات پر صیہونی حکومت کے فضائی حملوں میں دس سے زائد دیگر شہری شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ تازہ ترین شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کو الاقصیٰ طوفانی آپریشن کے آغاز سے لے کر منگل 5 دسمبر تک صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کی وجہ سے غزہ کے 16 ہزار 248 افراد شہید ہوچکے ہیں۔ غزہ کے اسپتال کے ذرائع نے بھی اعلان کیا ہے کہ بین الاقوامی تنظیمیں قابض افواج کے خطرے کے پیش نظر غزہ کے شمال کو تنہا چھوڑ کر جنوب کی طرف چلی گئی ہیں۔

صیہونی حکومت کا غزہ کے خلاف جنگ میں اپنے منصوبے کو تبدیل کرنے اور اس پٹی کے جنوب میں جنونی حملے شروع کرنے کا ایک اہم ترین مقصد خان یونس شہر پر تسلط حاصل کرنا ہے۔ ایک شہر جس کا نام حماس اور قسام سے جڑا ہوا ہے۔ میدان جنگ کو شمال سے جنوب کی طرف تبدیل کرکے صیہونی حکومت کئی اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے: سب سے پہلے، شمال میں پیشرفت کے تعطل پر قابو پانا اور میڈیا کی توجہ جنوب میں پیشرفت پر مرکوز کرنا ہے۔ دوسرا ہدف حماس اور قسام کے اہم شہروں میں سے ایک کے طور پر خان یونس تک پہنچنا اور آخری اور تیسرا ہدف یہ ہے کہ صہیونی غزہ مین حماس کے خلاف عوام کے سماجی دباؤ کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ صیہونی حکومت انسانی آفات اور نقصانات میں اضافہ کرکے نیز بم دھماکوں اور حملوں سے اسلامی مزاحمت کے خلاف عوام کو حماس وغیرہ کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں۔

تاہم جیسا کہ قیدیوں کے تبادلے کے دوران دیکھا گیا، ہمہ گیر حملوں اور وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری کے باوجود نہ صرف حماس اور مزاحمت کی مقبولیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس کے برعکس اسے استحکام حاصل ہوا ہے۔ ان حالات میں  فلسطینیوں کی قومی یکجہتی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ میدانی منظر نامے میں موصول ہونے والی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی فورسز نے غزہ کے جنوب میں قابضین کی پیش قدمی کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ کھڑی کر دی ہے، جس نے خان یونس کی طرف صیہونی افواج کی پیش قدمی کو بری طرح سست کر دیا ہے۔

فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کا عسکری ونگ سرایا القدس گذشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی فوج کی گاڑیوں اور ساز و سامان کو تباہ کرنے کے علاوہ 9 دیگر اسرائیلی افسروں اور فوجیوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس طرح طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے اب تک ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 408 افسروں اور سپاہیوں تک پہنچ گئی ہے۔ صیہونی تجزیہ نگاروں نے غزہ میں اسرائیلی فوج کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غزہ کے علاقے شجاعیہ میں متوقع سخت لڑائی کی خبر دی ہے۔ صیہونی حکومت کے چینل 12 کے تجزیہ کار "ایہود بن ہیمو" نے تاکید کی ہے کہ جو کوئی بھی "السنوار" اور اس کے ساتھی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کا سوچ رہا ہے، وہ کسی دوسری دنیا میں رہ رہا ہے اور اس کی یہ خواہش وہم و خیال کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

دوسری جانب فلسطین سے باہر بھی صیہونی حکومت کے خلاف آئے روز نئے محاذ کھولے جا رہے ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق شام کے صوبہ درعا کے مغربی مضافاتی علاقوں سے مزاحمتی گروہوں نے مقبوضہ علاقے کی سرحدوں کے قریب حملہ کیا ہے۔ مزاحمتی گروہوں نے صیہونی حکومت کے ٹھکانوں پر میزائلوں سے حملہ کیا اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کو نشانہ بنایا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میزائل حملے کی شدت حالیہ برسوں میں بے مثال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی گروہوں کے اتحاد کا ڈراؤنا خواب وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے، جس کا نتیجہ صیہونیوں کی شکست کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا

تحریر: احمد کاظم زادہ

Thursday, 30 November 2023 11:14

تربیت میں تسلسل پر اصرار

ایکنا نیوز- تمام انسانوں میں کامیابی کے لیے مسلسل جدوجہد ایک مشترکہ امر ہے اور واضح ہے کہ کسی کام کو مسلسل کیا جائے تو کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے اور تربیتی حوالے سے اس روش کا اہمیت حاصل ہے۔

تسلسل تربیتی امور سے ہٹ کر بھی اہم ہے اور تربیتی امور میں اس وجہ سے اہم ہے کہ انبیاء کے بھیجنے کا مقصد ہدایت اور تربیت ہے لہذا مسلسل خبردار اور خوشخبری کافی اہم ہیں، اگر دعوت کبھی کبھی ہو تو اس پر توجہ نہیں جاتی اور یہ کام ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔

حضرت نؤح کی دعوت بھی خدا کی جانب سے تھی جو انسانوں کا کمال و سعادت کی جانب دعوت دیتے تھے اور اس پر حضرت نوح کافی تسلسل سے کام کررہے تھے تاکہ اپنی ذمہ داری ادا کرسکے۔

 

حضرت نوح (ع) جو عظیم الشان پیغمبروں میں شمار ہوتا ہے اور لمبی عمر کے حامل رسول تھے ان کے بارے میں کافی آیات سے انکے عزم ظاہر ہوتا ہے۔

نوح (ع) ایک سورے کی آیات میں جو انکے نام سے منسوب ہے فرماتے ہیں: « قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا  ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا  ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا ؛ کہا: پروردگارا! جسطرح سے میں اپنی قوم کو شب وروز [توحید]  کی دعوت دی لیکن انہوں نے انہوں نے صرف فرار کا راستہ اختیار کیا اور میں نے جب بھی دعوت دی تاکہ آپ انہیں بخش دے انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس دی اور سر پر کپڑوں کو ڈال دیا اور انکار پر إصرار کیا اور تکبر کا مظاہرہ کیا، انہیں آشکارا بلایا اور دعوت دی اور مخفی اور ظاہری تبلیغ کی.»(نوح: آیات 5 الی9).

 

جیسے دیکھا جاسکتا ہے مذکورہ آیات حضرت نوح (ع) کے عزم پیہم اور استقامت کو بیان کرتی ہیں جو انہوں نے مسلسل اختیار کیا اور لوگوں کی دعوت دی اور پھر مخفی اور ظاہری دعوت دی لیکن انہوں نے ایمان لانے سے انکار کیا۔/

 
 

 رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے الاقصی طوفان آپریشن کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ غزہ کے عوام کے خلاف جرائم اور صیہونی حکومت کے وحشیانہ اور بے رحمانہ اقدام نے مغربی تہذیب و تمدن کی ساکھ برباد کردی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حسینہ امام خمینی (رہ) میں ملک بھر سے آئے ہوئے عوامی رضاکار فورس بسیج کے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ملاقات میں فرمایا کہ بسیج امام کی ایک قیمتی یادگار ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن اگرچہ صیہونی حکومت کے خلاف ہے، لیکن یہ ڈی امریکنائزیشن ہے۔

انہوں نے فرمایا کہ آپریشن طوفان الاقصی نے خطے میں امریکی پالیسیوں کا شیڈول درھم برھم کردیا ہے اور انشاء اللہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ شیڈول ہیمشہ کے لیے نابود ہوجائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ غزہ کے عوام کے خلاف جرائم اور صیہونی حکومت کے وحشیانہ اور بے رحمانہ اقدام کے نتیجے میں نہ صرف خود صیہونی حکومت کی ساکھ بلکہ امریکہ کی ساکھ بھی برباد ہوگئی ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اس (صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات ) نے نہ صرف مشہور یورپی ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ مغربی تہذیب و تمدن کی ساکھ بھی برباد کردی ہے۔

آپ نے فرمایا کہ مغرب کی تہذیب و تمدن ایسی ہے کہ جب وہ (اسرائيل) فاسفورس بموں سے 5 ہزار بچوں کو شہید کرتا ہے تو ایک مخصوص مغربی ملک کی حکومت کہتی ہے کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے۔ کیا یہ اپنا دفاع ہے؟ مغربی ثقافت یہ ہے؛ اس معاملے میں مغربی ثقافت کی آبرو برباد ہوگئی ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں بعض لوگ خطے کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کے نظریات کی بات کرتے ہوئے یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ایران کہتا ہے کہ یہودیوں اور صیہونیوں کو سمندر میں پھینک دیا جائے، آپ نے فرمایا کہ کسی زمانے میں یہ بات بعض عرب کہا کرتے تھے لیکن ہم نے یہ بات کبھی نہیں کہی، ہم کسی کو سمندر میں پھیکنے کے قائل نہیں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے واضح کیا کہ ہم کہتے ہیں کہ اصل رائے فلسطینی عوام کی رائے ہے اور فلسطینی عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومت وہاں (آکر آباد ہونے والے) لوگوں کے بارے میں فیصلے کرے گی۔ اب ممکن ہے کہ یہ (فلسطینی عوام کی منتخب) حکومت دنیا کے دیگر ملکوں سے آنے والے تمام لوگوں کو یہاں رہنے کی اجازت دے دے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ لبنان کے معاملے میں امریکیوں نے کہا تھا کہ وہ ایک "نئے مشرق وسطیٰ" کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔ مشرق وسطیٰ جو مغربی ایشیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس خطے کو، جسے انہوں نے مشرق وسطیٰ کا نام دیا، اسے امریکہ کے ناجائز اہداف اور مفادات کی بنیاد پر، نئے جغرافیاسی سیاسی سیٹ میں تبدیل کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ کہ یقیناً وہ جو چاہتے تھے وہ نہیں ہوا، وہ اپنے نئے منصوبے کے تحت حزب اللہ کو تباہ کرنا چاہتے تھے، لیکن حزب اللہ 10 گنا مضبوط ہو گئی۔ بعد ازاں انہوں نے عراق کو نگلنے کی کوشش کی لیکن نگل نہ سکے، پھر وہ شام پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنی پراکسیوں یعنی داعش اور جبہۃ النصرہ کو شامی حکومت کے گلے ڈال دیا ، 10 سال تک ان کی (پراکسیوں) مسلسل مدد کرتے رہے اور پیسہ اور وسائل فراہم کرتے رہے لیکن وہ ناکام رہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ نیا مشرق وسطی جو وہ بنانا چاہتے تھے وہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ اس مشرق وسطیٰ کے اجزاء میں سے ایک یہ تھا کہ مسئلہ فلسطین کو غاصب حکومت کے حق میں ختم کیا جائے اور فلسطین نام کی کوئی چیز بھی باقی نہ رہے  اور دو ریاستی حل جسے خود انہوں نے پاس کیا تھا کہ اس پر عملدآمد نہیں کیا۔

مغربی ممالک کی اسلام مخالف پالیسی کے تسلسل میں یورپی یونین کے قوانین سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ ترین اتھارٹی یورپین کورٹ آف جسٹس نے اس یونین کے رکن ممالک میں ملازمین کے لیے حجاب پر پابندی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ یورپی یونین کے قانون سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ ترین اتھارٹی یورپین کورٹ آف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ یورپی یونین کے ممبر ممالک اپنے ملازمین کو ایسے لباس پہننے سے منع کرسکتے ہیں، جو مذہبی عقائد کی عکاسی کرتے ہوں۔ یہ حکم بیلجیئم کی ایک خاتون کے دعویٰ کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے آجر نے اسے یہ کہہ کر اس کی مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کی ہے کہ وہ کام پر حجاب نہیں پہن سکتی۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں یورپی ممالک میں اسلام دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور فرانس سمیت بہت سے یورپی ممالک میں بہت سے مسلمانوں خصوصاً خواتین پر نہ صرف دباؤ ڈالا گیا بلکہ ہراساں کرکے ان کے مقدسات کی توہین کی گئی۔ البتہ حالیہ مہینوں میں اس عمل میں  زیادہ تیزی آئی ہے۔

درحقیقت حالیہ مہینوں میں مغربی ممالک نے مختلف قوانین منظور کرکے اپنی اسلام مخالف پالیسیوں کو باضابطہ طور پر قانونی شکل دی ہے۔ اس تناظر میں ہم فرانس کے سرکاری سکولوں میں مسلم لڑکیوں کے عبایا پہننے پر پابندی کے قانون کی منظوری اور سویڈن میں قرآن پاک کو جلانے کی اجازت کے اجراء کا ذکر کرسکتے ہیں۔ دریں اثناء، یورپی ممالک نے اسلام مخالف پالیسیوں کو اپناتے ہوئے اس میں شدت پیدا کی ہے، جالانکہ یہ ممالک کئی دہائیوں سے آزادی اور مختلف عقائد اور مذاہب کے احترام کے دعوے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان ممالک نے بہت سے معاملات میں دوسرے ممالک کو آزادی کی خلاف ورزی کرنے اور انسانوں کا احترام نہ کرنے کی مذمت بھی کی ہے اور ان ممالک کے خلاف اقدامات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

مغربی ممالک میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ حجاب کا مسئلہ ہے۔ مغربی ممالک کے حکمران سرکاری طور پر حجاب اور مسلم مذہبی علامات کو مختلف وجوہات کی بنا پر ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ وہ حجاب پہننے کو سیکولر قوانین کی خلاف قرار دیتے ہیں۔ شائع شدہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ فرانس مسلمانوں، خاص طور پر حجاب پہننے والی مسلم خواتین کے خلاف انتہائی نسل پرستانہ سلوک کر رہا ہے۔ دیگر یورپی ممالک میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے، جیسا کہ جرمنی کی وفاقی پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت سرکاری ملازمین کے "مذہبی علامات" پہننے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ہنگری میں، مسلم خواتین پر کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم خواتین کے خلاف زبانی بدسلوکی کا سلسلہ جاری ہے اور ان لوگوں سے شدید نفرت کی ایک وجہ ان کا غیر ملکی ہونا بھی ہے۔ یہ حالات ایسے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے حال ہی میں اس حوالے سے کہا: "مسلمانوں کے خلاف نفرت اور صنفی عدم مساوات ناقابل برداشت ہے۔ مسلم خواتین کے خلاف تین حوالوں سے مثلاً رنگ، نسل اور عقیدہ، کے حوالے سے متعصبانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔" اب یورپی عدالت انصاف نے اسلام دشمنی اور مسلمانوں پر دباؤ بڑھانے کی سمت میں ایک اور قدم اٹھایا ہے، حالانکہ انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل 9 میں کہا گیا ہے: "ہر کسی کو سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے اور اس میں اظہار رائے سمیت مذہب، عبادت، تعلیم اور کوئی بھی عقیدہ رکھنے کی آزادی شامل ہے۔"

عدالتِ انصاف نے عملی طور پر یورپی ممالک کو اجازت دی ہے کہ وہ خواتین کو حجاب کے انتخاب کی آزادی سے محروم کر دیں اور ان کی ملازمت اور جاب کرنے کی پوزیشن کو خطرے میں ڈالیں۔ مغربی ممالک کے قانونی ادارے مختلف جواز اور تاویلات کے ساتھ مسلم خواتین بالخصوص ان کے لباس پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، حالانکہ حجاب صرف ایک مذہبی علامت نہیں ہے بلکہ مسلم خواتین کی شناخت کا بنیادی حصہ بھی ہے۔ درحقیقت مغربی حکام یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان خواتین کو ان کی جاب اور سماجی حیثیت کو نقصان پہنچائیں۔ جرمنی کی اسلامی کونسل کے سربراہ برہان کاسیجی نے کہا ہے کہ ہم حکام سے مسلمانوں کی حفاظت کی توقع رکھتے ہی

تحریر: اتوسا دیناریان

اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیؐ کراچی کے تحت "وحدت امت و یکجہتی فلسطین کانفرنس" کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت علامہ سید جواد نقوی نے کی۔ کانفرنس میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام، مذہبی جماعتوں کے سربراہان، مشائخ عظام و اکابرین شریک ہوئے۔ شرکاء کانفرنس میں مولانا شکیل اختر جدون جمیعت علماء اسلام ایبٹ آباد، پروفیسر عبدالغفور راشد (نائب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)، شیخ الحدیث مفتی مولانا محمد زبیر فہیم (صدر اتحاد المدارس العربیہ پاکستان)، قاری محمد یعقوب شیخ (مرکزی رہنما تحریک حرمت رسول)، مفتی علامہ سید قوی اللہ شاہ ترمذی، ڈاکٹر سید مہدی رضا شاہ سبزواری (سجادہ نشین آستانہ عالیہ شہباز قلندر سہیون شریف)، کراچی میں متعین ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان، پیر سید عثمان شاہ راشدی (فرزند صبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا)، پیر سید محمد فرحان، علامہ ناظرعباس تقوی (ایڈیشنل سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان)، پروفیسر شمس الدین شگری، مفتی محمود الحسینی(رہنما جمعیت علماء اسلام پاکستان)، پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی، مفتی محمود مکرم (ناظم سندھ منہاج القرآن انٹرنیشنل)، مسلم پرویز، ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی، اسد اللہ بھٹو (مرکزی رہنما جماعت اسلامی)، مولانا منظر الحق تھانوی، مولانا ازہر شاہ ہمدانی، علامہ نثار قلندری (صدر مجلس ذاکرین امامیہ)، ایڈوکیٹ عامر علی، مفتی محمد داؤد (بین المذاہب ہم آہنگی فورم)، علامہ بدر الحسنین (عابدیہ مشن)، علامہ ضیغم عباس، مفتی رحمن و دیگر شامل تھے۔

علامہ سید جواد نقوی کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ قرآن مجید کے نصائح اور فرامین، کفار اور دشمنوں کی صفوں کی حد بندی کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن مجید مسلمانوں کو آپس میں محبت، رحم دلی اور شفقت سے پیش آنے کی وصیت کرتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ مسلمان حبل اللہ کے سائے میں اتحاد کے مرکز پر قائم رہیں، پیغمبر اسلام (ص)، اہلبیت اطہار علیہم السلام اور آپکے اصحابؓ کی سیرت بھی اسی راہ و روش پر دلیل ہے، چنانچہ آغاز تاریخ سے ہی یہ بات واضح ہے کہ سیاست الٰہی توحید کے ستون پر استوار ہے اور طاغوتی سیاست کی عمارت شرک، تفرقہ جدائی و اختلاف کے بل بوتے پر ٹکی ہوئی ہے، ہماری بقاء کی بنیاد توحید اور قرآن کے محور پر اتحاد ہے۔ علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے فیصلہ کن وار سے زمیں بوس ہوجانیوالی قابض و غاصب صیہونی حکومت، مجاہدین سے پڑنے والی کاری ضرب کا انتقام غزہ کے عوام، عورتوں اور معصوم بچوں سے لے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غاصب صیہونیوں کو انکے جرائم میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر شرپسندوں کی بھرپور حمایت اور تعاون حاصل ہے، سامراجی طاقتیں، مادی و عسکری وسائل اور ذرائع ابلاغ کی وسیع تبلیغات کے باوجود حماس کی اس عظیم مزاحمت کے مقابلے میں مغلوب ہوکر رہ گئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکیوں کے ہاتھ کہنیوں تک غزہ کے بچوں، عورتوں اور دیگر شہداء کے خون میں رنگے ہوئے ہیں، ان جرائم پر تمام اسلامی سرزمینوں اور حتی امریکہ، یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں میں عوام کے دل کانپ اٹھے ہیں، یورپ میں آزادی اور انسانی حقوق کے دعوے کرنیوالوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں کیے جانے والے اقدامات پر قدغن لگا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنایت کو روکنے کا راستہ بھی یہی ہے کہ مسلمان ممالک کے عوام، بے حس، مصلحت پسند اور خیانت کار حکمرانوں کی منتظر نہ رہیں اور فلسطین، کشمیر اور تمام اسلامی سرزمینوں کی آزادی کیلئے ان حکمرانوں سے اپنے راستے الگ کرلیں جو غاصب حکومت کیساتھ سفارتی، عسکری، معاشی روابط رکھتے ہوئے ان جرائم پر فقط مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں لیکن مسلمان سرزمینوں کے تمام وسائل اس استکباری سیاست کیلئے وقف کر رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عالم اسلام کے پاس اپنے تحفظ کیلئے واحد راستہ اسلام کے محور پر اتحاد قائم کرنا ہے اور غاصب ریاست اسرائیل جو کسی کی سوچ اور تخیل سے بعید جرائم کا ارتکاب کرتی ہے کے مقابلے کا واحد ذریعہ پرعزم اور مسلح مقابلہ ہے۔ علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ امت کے پاس دفاع کا واحد راستہ اسلام کے محور پر اتحاد اور امریکی اہداف کا انکار ہے۔
 
 
 

شیعہ نیوز: لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب‌ الله” کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ "سید هاشم صفی الدین” نے کہا کہ حزب‌ الله وہ عنصر ہے جو لبنان کو دشمن کی جارحیت سے بچاتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار حزب‌ الله کے شہید "عباس محمد رعد” کی رسم قل سے خطاب میں کیا۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ غزہ میں امریکی و صیہونی منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو پھر اس پٹی سے لوگوں کی جبری نقل مکانی حتمی تھی۔ امریکہ و اسرائیل اب بھی غزہ کا اسٹرکچر تبدیل کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ انہوں نے حزب‌ الله کی طاقت اور اسلحے کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک مقاومتی اسلحہ اسرائیل کو درست طریقے سے نشانہ بنا سکتا ہے تب تک لبنان صیہونی جارحیت سے محفوظ ہے۔ غزہ کی تباہی اور قتل و غارت گری نے لبنان میں مقاومت کے مسلح ہونے کی اہمیت کو ناقدین پر واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ 50 روز میں صیہونی ٹھکانوں پر حزب‌ الله کے حملوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی سرحد پر مقاومت کے نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں اور اب فلسطین میں 20,000 شہداء و غزہ کی تباہی کے بعد مقاومت لبنان پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

حزب‌ الله کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ نے کہا کہ غزہ میں ہونے والا جانی و مالی نقصان مقاومت کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج کا منظر نامہ کسی چیز کی بشارت دے رہا ہے، قربانی اور جانی نقصان بہت زیادہ ہے لیکن ثابت ہو گیا ہے کہ اس خطے کی عوام کے پاس مقاومت کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ شہیداء کی اس تقریب میں حزب‌ الله کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل "شیخ نعیم قاسم” بھی موجود تھے۔ اس موقع پر شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی کے لئے مجبور ہو گیا تھا۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ اگر مقاومت ثابت قدم نہ رہتی تو ہرگز قیدیوں کو تبادلہ ممکن نہ ہوتا اور نہ حماس کی شرائط پر یہ معاہدہ لکھا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ محاذ کے منظر نامے پر نگاہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مقاومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی اس کی طاقت میں کوئی کمی آئی ہے۔ عراق و یمن کے علاوہ ہمیں لبنان میں بھی دشمن کا سامنا ہے اور ہماری یہی بنیادی کوششیں رنگ لے کر آئیں گی۔

شیعہ نیوز:مقبوضہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کی جانب سے رہا کی گئی اسرائیلی خاتون دنیال اور ان کی ننھی بیٹی ایمیلیا کا خط سامنے آگیا۔ مغربی طاقتوں کی ایما پر اسرائیل نے محصور غزہ پر بمباری کی اور یہ فضائی، بری اور بحری حملے 44 روز سے زائد جاری رہے۔ اسرائیلی حملوں میں 14 ہزار 500 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کئی روز کی بمباری کے بعد 3 روز قبل اسرائیل نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور آج اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا آخری روز تھا، لیکن عارضی جنگ بندی میں مزید 2 دن کی توسیع کردی گئی ہے۔

اس دوران حماس نے اب تک 39 اسرائیلی شہریوں سمیت 58 قیدیوں کو رہا کیا ہے، جبکہ اسرائیل کی جانب سے 117 قیدی فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا گیا۔ حماس کی جانب سے رہا کی گئی اسرائیلی ماں بیٹی کا شکریہ کا خط سامنے آیا ہے، جس میں اسرائیلی قیدی خاتون دنیال نے دوران قید القسام بریگیڈز کے جنگجوؤں کے حسن سلوک کی تعریف کی ہے۔ عبرانی زبان میں تحریر خط میں خاتون نے لکھا کہ "مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے، لیکن میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میری بیٹی کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کا مظاہرہ کیا۔”

اسرائیلی قیدی خاتون نے مجاہدین کیلئے لکھا کہ آپ نے اسے والدین کی طرح سلوک کیا، اسے اپنے کمروں میں بلاتے اور اسے یہ احساس دلایا کہ آپ سب اس کے صرف دوست نہیں بلکہ محبت کرنے والے ہیں، آپ کی شکر گزار ہوں، اس سب کیلئے جب آپ گھنٹوں دیکھ بھال کرتے۔ خط کے متن کے مطابق صبر کرنے اور ساتھ ساتھ مٹھائیوں، پھلوں اور جو کچھ بھی میسر تھا، اس سے ہمیں نوازنے کیلئے شکریہ، بھل وہ دستیاب نہ بھی ہوں، بچے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے، لیکن آپ اور دوسرے ملنے والے اچھے لوگوں کا شکریہ۔

قیدی خان نے مزید لکھا کہ "میری بیٹی خود کو غزہ میں ملکہ سمجھتی تھی اور سب کی توجہ کا مرکز تھی، اس دوران مختلف عہدوں پر موجود لوگوں سے واسطہ رہا اور ان سب نے ہم سے محبت، شفقت اور نرمی کا برتاؤ کیا، میں ہمیشہ ان کی مشکور رہوں گی، کیونکہ ہم یہاں سے کوئی دکھ لیکر نہیں جا رہے۔ اسرائیلی خاتون کے خط کے متن کے مطابق میں سب کو آپ کے حسن سلوک کا بتاؤں گی، جو غزہ میں مشکل حالات اور نقصان کے باوجود ہم سے کیا۔ اسرائیلی خاتون نے خط کے آخر میں مجاہدین اور ان کے اہلخانہ کی صحت اور تندرستی کیلئے دعا کی۔

علامہ طبرسی بحوالہ حضرات معصومین علیہم السلام تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام میں بہت سے انبیاء کے حالات و کیفیات نظر آتی ہیں اور جن واقعات سے مختلف انبیاء کو دوچار ہونا پڑا، وہ تمام واقعات آپ کی ذات ستودہ صفات میں دکھائی دیتے ہیں مثال کے طور پر حضرت نوح ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ،حضرت عیسیٰ، حضرت ایوب ،حضرت یونس ، حضرت محمد مصطفی علیہم السلام کے حالات پر غور کیجیے، آپ کو حضرت نوح علیہ السلام کی طرح طویل زندگی نصیب ہوئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح آپ کی ولادت چھپائی گئی اور لوگوں سے کنارہ کش ہوکر روپوش ہونا پڑا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح حجت کے زمین سے اٹھ جانے کا خوف لاحق ہوا اور ان کی ولادت کی طرح آپ کی ولادت بھی پوشیدہ رکھی گئی اور انھیں کے ماننے والوں کی طرح آپ کے ماننے والوں کو آپ کی غیبت کے بعد ستایا گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح آپ کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح تمام امتحانات کے بعد آپ کو فرج و کشائش نصیب ہوگی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح عوام اور خواص سے آپ کی غیبت ہو گئی۔ حضرت یونس علیہ السلام کی طرح غیبت کے بعد آپ کا ظہور ہوگا یعنی جس طرح وہ اپنی قوم سے غائب ہو کر بڑھاپے کے باوجود نوجوان تھے اسی طرح جب آپ کا ظہور ہوگا تو آپ چالیس سالہ جوان ہوں گے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح آپ صاحب السیف ہوں گے۔ (اعلام الوری ص ۲۶۴ طبع بمبئی ۱۳۱۲ہجری)
https://danishkadah.com

خبروں کے مطابق فلسطینیوں کی بڑی تعداد رہا ہونے والی فلسطینی خواتین اور بچوں کے استقبال کے لئے سڑکوں پر جمع ہوئے تھے۔ یہ لوگ صیہونی جیلوں سے رہا ہوکر اپنے اہل خانہ کے پاس پہنچ گئے ہیں۔

فلسطین میں واقع بیوتنیا کالونی بھی ان علاقوں میں سے ہے جہاں بہت سے فلسطینی جمع ہوئے تاکہ رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کا استقبال کریں ۔

یاد رہے فلسطین میں قیدیوں کے امور کے ذمہ دار ادارے نے جمعہ کی رات تصدیق کی ہے کہ صیہونی فوج نے 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔

رپورٹوں کے مطابق فلسطین میں قیدیوں کے امور کے ذمہ دار ادارے نے ایک بیان جاری کرکے بتایا ہے کہ یہ فلسطینی قیدیوں کا  پہلا  گروپ ہے جنہیں جنگ بندی کے بعد رہا کیا گيا ہے۔

ذرائع کے مطابق ان قیدیوں میں 24 خواتین اور 15 بچے ہیں۔

الجزیرہ نے بھی بتایا ہے کہ اسرائیلی جیل کے حکام نے ان قیدیوں کی رہائي کے مقدمات فراہم کئے۔

اس سے پہلے ان 39 لوگوں کے ناموں کا اعلان کیا گيا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں عوفر جیل پہنچا دیا گیا ہے جہاں سے انہیں رہا کر دیا جائے گا۔

ان قیدیوں کو ریڈ کراس سوسائٹی کے حوالے کیا گیا تھا ۔

ارنا نے الجزیرہ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ فلسطینی کی عظیم قوم نے اپنی استقامت سے رزمیہ داستان رقم کردی اور ہمارے مجاہدین نے دشمن  پر کاری وار لگائے۔  

انھوں نے کہا کہ ہم نے عزت اور وقار کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اس کا ارادہ توڑ دیا اور اس کے منصوبوں کو ناکام بنادیا۔

 اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ شہدا آزادی اور خود مختاری کی قیمت ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ دشمن نے شرط لگائی تھی کہ جنگی قیدیوں کو اسلحے سے ، قتل و غارتگری اور نسل کشی کے ذریعے واپس لے گا لیکن استقامت کی شرائط ماننے پر مجبور ہوگیا اور ہماری بہادر قوم کا عزم محکم  جنگ بندی پر منتج ہوا۔    

 حماس کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے اپنے قطری اور مصری بھائیوں کی نگرانی میں سخت مذاکرات شروع کئے اور ذمہ داری  اور توازن کے ساتھ انہیں آگے بڑھایا۔

انھوں نے کہا کہ ہم واضح  کررہے ہیں کہ جب تک دشمن سمجھوتے کا پابند رہے گا ہم بھی اس معاہدے کی پابندی کریں گے۔

اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ " ہم قطر اور مصر کی قدردانی کرتے ہیں، ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور فلسطینی قوم کے برحق حقوق کے حصول کے لئے بین الاقوامی کوششیں جاری رکھنے پر زور دیتے ہیں۔

انھوں نے فلسطینی قوم کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام  غزہ، مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطین کے سبھی علاقوں میں جنگ آزادی میں سرگرم ہیں۔

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے  لبنان  ، یمن اور عراق کے استقامتی گروہوں کا بھی شکریہ ادا  کیا اور ان کی قدردانی کی ۔