سلیمانی

سلیمانی

فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں 7 اکتوبر 2023ء کے روز غاصب صیہونی رژیم کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ اس بیانیے کا عنوان ہے "یہ ہے ہماری کہانی، طوفان الاقصی کیوں؟" اس بیانیے میں آیا ہے: قابض اور استعماری طاقتوں کے خلاف ہماری جدوجہد کا آغاز 7 اکتوبر کے دن نہیں ہوا بلکہ 105 برس پہلے ہوا ہے۔ ہماری ملت تیس برس تک برطانوی سامراج کے پنجوں میں جکڑی رہی اور اس کے بعد گذشتہ 75 برس سے غاصب صیہونی رژیم کے ناجائز قبضے کا شکار ہے۔ ہماری قوم نے گذشتہ کئی عشروں کے دوران مختلف قسم کے دھونس، ظلم و ستم، بنیاد حقوق سے محرومیت اور نسل پرستانہ متعصبانہ پالیسیوں کا سامنا کیا ہے۔ غزہ کی پٹی گذشتہ 17 برس سے شدید ترین گھیراو اور محاصرے کا شکار ہے جس کے نتیجے میں وہ دنیا کا سب سے بڑا کھلا زندان بنا ہوا ہے۔
 
غزہ کی پٹی اب تک پانچ تباہ کن جنگوں سے روبرو ہو شکی ہے اور ہر بار ان جنگوں کا آغاز اسرائیل کی صیہونی رژیم نے کیا ہے۔ 2000ء سے لے کر ستمبر 2023ء تک 11 ہزار 299 فلسطینیوں کو شہید جبکہ 1 لاکھ 56 ہزار 767 فلسطینیوں کو زخمی کیا جا چکا ہے جن میں اکثریت عام شہری ہیں۔ اقوام متحدہ میں غاصب صیہونی رژیم کا نمائندہ دنیا کے مختلف ممالک کے نمائندوں کے سامنے ہیومن رائٹس کونسل کی رپورٹ پھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستیاں تعمیر کر کے اور اس خطے کو یہودیانے کے ذریعے عملی طور پر ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان ہی ختم کر ڈالا ہے۔ کیا ایسے حالات میں ہماری قوم سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ دیگر ناچار عالمی تنظیموں سے امید لگا کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے؟
 
طوفان الاقصی آپریشن، مسئلہ فلسطین اور فلسطین کاز کے خاتمے کیلئے انجام پانے والی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک فطری ردعمل اور ضروری اقدام تھا۔ طوفان الاقصی فلسطینی سرزمین پر تل ابیب کے قبضے اور مسجد اقصی پر صیہونیوں کی حاکمیت قائم کرنے کیلئے جاری منصوبوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انجام پایا۔ طوفان الاقصی غزہ کے ظالمانہ محاصرے کو ختم کرنے کیلئے ضروری عمل تھا اور غاصب صیہونی رژیم کے تسلط سے رہائی پانے کیلئے ایک فطری اقدام تھا۔ یہ آپریشن دیگر اقوام کی طرح ہماری قوم کی آزادی اور خودمختاری کے حصول کیلئے نیز اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کیلئے قدرتی عمل تھا۔ طوفان الاقصی قدس شریف کی مرکزیت میں خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے فطری اقدام تھا۔ سات اکتوبر کے دن انجام پانے اس آپریشن نے صیہونی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اپنے قیدیوں کی آزادی کیلئے انہیں اسیر بنایا گیا۔
 
طوفان الاقصی آپریشن کی توجہ کا مرکز صیہونی فوج کی کور "غزہ" اور غزہ کی پٹی کے قریب واقع دیگر صیہونی فوجی ٹھکانے تھے۔ سویلین افراد خاص طور پر خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو نشانہ نہ بنانا ہماری مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری تھی جس کی روشنی میں حماس کے فرزندان کی تربیت ہوئی ہے۔ ہماری مزاحمت دین مبین اسلام کے قوانین اور احکامات کی پابند ہے اور ہمارے مجاہدین صرف قابض صیہونی فوجیوں اور اپنے خلاف اسلحہ اٹھانے والے افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے پاس جدید ٹارگٹڈ فوجی ہتھیار موجود نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ہم سویلین افراد اور ایسے افراد جو ہمارے خلاف اسلحہ نہیں اٹھاتے، کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے جنگی اسیروں سے غزہ میں بہت اچھا سلوک روا رکھا ہے اور پہلے دن سے انہیں جلد از جلد آزاد کرنے کی کوشش کی ہے۔
 
صیہونی رژیم کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کہ قسام کے مجاہدین نے 7 اکتوبر کے دن اسرائیلی سویلینز کو نشانہ بنایا ہے سو فیصد جھوٹ اور بہتان پر مشتمل ہے۔ ہمارے مجاہدین نے ہر گز سویلین افراد کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ ان کی بڑی تعداد صیہونی فوج اور پولیس کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے۔ صیہونی دشمن نے ہم پر چالیس شیر خوار بچوں کو قتل کرنے کا جھوٹا الزام لگایا جسے ہم نے سختی سے مسترد کر دیا۔ اسی طرح اسرائیلی خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا شرمناک الزام بھی عائد کیا گیا جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ غزہ پر صیہونی جارحیت کے نتیجے میں اسرائیلی یرغمالیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو چکی ہے۔ طوفان الاقصی کے روز بعض مسلح یہودی آبادکاروں نے مزاحمت کی اور مجاہدین کے ہاتھوں ہلاک ہوئے جنہیں صیہونی رژیم نے عام شہری کے طور پر پیش کیا تھا۔ اگر اس بارے میں درست اور غیرجانبدار تحقیق انجام پائے تو ہمارا دعوی ثابت ہو جائے گا۔
 
ہم دنیا کے بڑے ممالک خاص طور پر امریکہ، جرمنی، کینیڈا اور برطانیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین میں انجام پانے والے جرائم کی تحقیق کریں۔ ہم انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین میں انجام پانے والے تمام مجرمانہ اقدامات اور قانون کی خلاف ورزیوں کی تحقیق کیلئے فوری طور پر یہاں تشریف لائیں۔ یہ ممالک اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے کہ مشکلات اور بحرانوں کی اصل وجہ ناجائز قبضہ اور ہماری قوم کو آزادانہ زندگی کے حق سے محروم کرنا ہے۔ اپنی سرزمین پر غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت ہمارا شرعی اور قانونی حق ہے۔ غاصب صیہونی حکمرانوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ صیہونی رژیم کی حامی عالمی طاقتوں کے دوغلے اور منافقانہ معیاروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جائے۔ ملت فلسطین اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی ہے اور کسی کو اس کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
 
 
 
Monday, 22 January 2024 15:48

مسلمان عورت کي عزّت

اسلام نے عورت کو  بہت اعلي مقام عطا کيا ہے اور آج کے جديد دور ميں مغربي خواتين کي حالت زرا ديکھ کر بخوبي اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ اسلام نے عورت کو کس قدر تحفظ فراہم کيا ہے - مسلمان عورتوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہمارے مذہب اسلام نے جو عزت دي ہے غير مسلم معاشرے اسکا تصور بھي نہيں کرسکتے يہاں ہر حيثيت ميں عورتوں کي عزت کي جاتي ہے چاہے ماں ہو يا بيوي،بيٹي يا بہن- جب ہم مغرب ميں عورت کي بے بسي ديکھتي ہيں تو اسلام ميں اسکي حيثيت پر رشک کرتي ہيں-اسي طرح مسلم عورت کو عزت و آبرو کي حفاظت کا حق، نکاح سے گلو خلاصي کا حق اور علم حاصل کرنے کا حق ہے جس کے تحت عورت مذہبي اور عصري تعليم اسي طرح حاصل کرسکتي ہے، جس طرح مرد حاصل کرتے ہيں ، اسلام جہيز دينے کي حوصلہ افزائي نہيں کرتا پھر بھي جو لوگ ديتے ہيں وہ لڑکي کے لئے ہوتا ہے جبکہ دوسرے سماجوں ميں جہيز مردوں کا حق ہو جاتا ہے، اسلام نے عورتوں کي جسماني (فزيکلي) کمزوري کا اندازہ لگا کر انہيں خاوند اور اولاد کے علاوہ، خاندان کے دوسرے افراد کي خدمت سے مبرا رکھا ہے، يہاں تک کہ عورت پر گھر کے کام و کاج کي ذمہ داري بھي عائد نہيں ہوتي، ايسے مثالي حقوق و اختيارات کے باوجود مسلم عورتيں اگر آج پسماندگي کا شکار ہيں اور ان سے ہمدردي کے جاوبے جا اظہار کي ضرورت پيش  آ رہي ہے تو اس کي ايک وجہ تو وہي ہے جو پہلے بيان کي گئي يعني مسلم قوم کي عام غريبي، مسلم عورتوں کو با اختيار و طاقتور بنانے کے ساتھ ساتھ عام مسلم مردوں کي بدحالي کي فکر بھي ہونا چاہئے، ان کے بھوکے پيٹ، کمزور جسم اور تعليم سے محروم بچوں کا خيال بھي ضروري ہے کيونکہ اس سچائي سے انکار نہيں کيا جا سکتا کہ جب تک عام مسلمانوں کا حال درست نہيں ہو گا، ان کا معيار زندگي بہتر نہ بنے گا، نہ ان کي عورتوں کي حالت سدھرے گي ، نہ وہ اپنے بال بچوں کو پڑھا لکھا سکيں گي-

’ مسلمان عورتوں کو ايک بنيادي فيصلہ کرنا ہے کہ کيا ہم مغربي معاشرت اور اسکے زير اثر پروان چڑھنے والے حقوقِ نسواں کي عالمي تحريکوں کا حصہ بننا چاہتي ہيں يا اسلام کے عطا کردہ حقوق کے حصول کيلئے تحريک بپا کرنا ہے؟‘‘اس کيلئے ضروري ہوگا کہ ہم ان نظريات ،تخيلات سے اپنے دماغوں کو خالي کرليں جو ہم نے مغرب سے مستعار لے رکھے ہيں- ہميں اسلامي تصورات کو غير اسلامي تصورات ميں خلط ملط ہونے سے بچانا ہوگا- اور اپنے معاشروں اور آئندہ نسلوں کو بگاڑ سے بچانے کيلئے عورتوں اور مردوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا-

 


 

Thursday, 18 January 2024 06:18

جنگ کب ختم ہوگی؟

غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو سو سے زیادہ دن گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک اس جنگ کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ کینیڈا کے مفکر مائیکل بریچر اپنی کتاب "کرائسز ان ورلڈ پولیٹکس" میں بحران کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ایک ایسی صورت حال جس میں ممالک کی اہم اقدار اور مفادات کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی بحران آتا ہے تو حکومتوں کو غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مائیکل بریچر بحران کی شدت اور حد کا تعین کرنے کے لیے درج ذیل چھ عوامل کو بیان کرتے ہیں۔
1۔ جغرافیائی اہمیت
2۔ بحران کا موضوع
3۔ فریقین کے درمیان تشدد کی سطح
4۔ فریقین کی تعداد،
5۔ طاقت کا موازنہ
6۔ بڑی طاقتوں کی مداخلت کی سطح

آیئے غزہ جنگ کے بارے میں مائیکل بریچر کے مندرجہ بالا نظریئے کی روشنی میں یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ جنگ کیوں جاری ہے اور اس کے خاتمے کا کتنا امکان ہے۔ پہلا عامل غزہ کی جغرافیائی اہمیت ہے۔ غزہ ایک چھوٹی سی پٹی ہے، لیکن یہ مقبوضہ فلسطین کے قرب و جوار میں واقع ہے اور اسے مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کے اہم مراکز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے غزہ میں صیہونی حکومت کی شکست اس حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے۔

دوسرا عامل بحران کا موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی حالیہ جنگ کا اصل مسئلہ و موضوع صیہونی حکومت کی کھوئی ہوئی ساکھ ہے۔ اس حکومت کے پاس فوجی اور انٹیلی جنس کے حوالے سے مجموعی طور پر اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس ساکھ تھی، لیکن طوفان الاقصیٰ نے ان سب کو تباہ کر دیا۔ صیہونی حکومت کی کمزوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ گذشتہ 100 دنوں میں حماس سے اپنے قیدیوں کو بھی رہا کروانے میں ناکام رہی، جس نے تل ابیب کی انٹیلی جنس کی ساکھ پر مزید سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

تیسرا عامل اداکاروں کے درمیان تشدد کی سطح ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن میں 1500 سے زائد صہیونی مارے گئے۔ یہ مسئلہ صیہونی حکومت کے لیے اس لئے بھی قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اسے آبادی کے مسائل کا سامنا ہے اور اس نے مقبوضہ علاقوں میں آبادی کی حمایت کو اپنے فوجی نظریئے کے ستونوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت نے غزہ کے خلاف جس قدر تشدد کا استعمال کیا ہے، وہ غیر معمولی سطح ہے، جس کی وجہ سے وہ عملی طور پر تشدد اور نسل کشی کے جاری رہنے سے خوفزدہ نہیں ہے۔

چوتھی وجہ یا عامل فریقین کی کثرت ہے۔ اگرچہ اس جنگ کے دو اہم فریق صیہونی حکومت اور تحریک حماس ہیں، لیکن صرف ان کو اس جنگ کے فریقین نہیں سمجھا جاسکتا۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے سرکاری طور پر صیہونی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ دوسری طرف یمن اور لبنان کی حزب اللہ نے بھی اس جنگ میں غزہ اور حماس کی حمایت کی ہے۔ جب کسی بحران میں فریقین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، تو بحران کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ تاہم غزہ جنگ کے طویل ہونے کی اصل وجہ فریقین کی تعداد نہیں ہے بلکہ صیہونی حکومت اور امریکہ کی اپنے فوجی اہداف کو حاصل کرنے میں ناکامی ایک اہم عنصر ہے۔

پانچویں وجہ عدم مطابقت یا غیر مساوی ہونا ہے۔ صیہونی حکومت اور حماس کی فوجی طاقت نہ صرف برابر نہیں بلکہ اس کا موازنہ تک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صیہونی حکومت کو امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی مکمل فوجی و سیاسی حمایت حاصل ہے، جبکہ حماس کے پاس فوجی لحاظ سے کچھ بھی نہیں ہے۔ جنگ کو طول دینے کے لیے فریقین کی فوجی طاقت کی عدم مطابقت ایک اہم عنصر ہے۔

آخر میں چھٹا عنصر بڑی طاقتوں کی مداخلت کی سطح ہے۔ غزہ کی جنگ میں بڑی طاقتوں کی مداخلت صرف اعلانیہ اور سیاسی حمایت تک محدود نہیں ہے بلکہ امریکہ، انگلستان، جرمنی اور فرانس نے غزہ کے خلاف جنگ میں ایک فریق بن کر غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کو جائز دفاع کا ایک نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔ مغرب کا یہ طرز عمل غزہ کی جنگ کو طول دینے کا ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی، جب تک یہ طاقتیں جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ عزم کا مظاہرہ نہیں کریں گی۔

تحریر: سید رضی عمادی

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے  ملک بھر کے ائمہ جمعہ کے ساتھ ملاقات میں "لوگوں کی موجودگی، خواہش اور عمل" کو اسلام کا بنیادی اصول قرار دیا اور ان کی وفاداری، صبر، دلچسپی، ذہانت اور لگن کو سراہا۔حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے مزید کہا کہ اس مہینے میں انسان جو سب سے زیادہ شائستہ عمل انجام دیتا ہے وہ استغفار ہے۔ ہم سب کو واقعی استغفار اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پناہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے غزہ کے مظلوم عوام کی استقامت اور توکل کو بھی دنیا کی طرف سے قابل تعریف قرار دیا، اسلام کی ترویج اور قوموں کی قرآن کی طرف توجہ دلائی اور یمنی قوم اور انصار اللہ کی حکومت کی سرگرمی کو بھی قابل تعریف قرار دیا۔ غزہ کے لوگوں کا دفاع جہاد فی سبیل کی واضح مثال ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ماہ رجب کو سال کے افضل ترین دنوں میں سے ایک قرار دیا اور عوام اور مومنین کو اس عظیم الہی نعمت اور اس کی خیر خواہی اور دعاؤں اور استغفار سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی تلقین کی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے جمعہ کی امامت کو مشکل ترین کاموں میں سے ایک قرار دیا۔ کیونکہ نمازِ جمعہ کے الٰہی فریضے سے اما جمعہ کو  آگاہ ہونا چاہیے اور اس کے اطمینان کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مفادات اور ان کے اطمینان کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ میں لوگوں کی توجہ کو اسلام میں لوگوں کے بنیادی مقام اور اسلامی زندگی اور تحریک میں ان کے نمایاں کردار کی نشانی قرار دیا اور مزید کہا: اسلامی نظام میں لوگوں کا کردار اور حق ایسا ہے کہ امیر المومنین (ع) کے پاس اگر لوگ نہ چاہیں اور اگر وہ نہ آئیں تو ان جیسا حق رکھنے والے کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر لوگ چاہیں تو اس پر ذمہ داری قبول کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے پیغمبر اکرم(ص) کی مدد کے بارے میں قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے مزید فرمایا: خدا پیغمبر کی مدد و نصرت کے سلسلہ میں مومنین کی مدد کا اظہار کرتا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر کوئی کسی بھی درجہ میں ہے۔ ۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے لوگوں کو متوجہ کرنے اور اسٹیج پر لانے کے لیے معاشرے میں حکام اور بااثر افراد کے مختلف فرائض کا ذکر کرتے ہوئے کہا: نماز جمعہ کی الہی حکمت لوگوں کی موجودگی کے اصول کو یقینی بنانا اور اس موجودگی کو فروغ دینا اور وسعت دینا ہے۔ اسی وجہ سے امام جمعہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے خطبوں میں نمازیوں سے گفتگو کرے اور انہیں خیالات، طریقے اور منصوبے پیش کرے۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے وسیع تر معنوں میں تبلیغ کو نماز کے خطبوں کا بنیادی محور قرار دیا اور مزید فرمایا: تبلیغ صرف روحانی اور اخلاقی مسائل سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی اور سماجی حوالے بھی شامل ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے خطبات کے مواد کے تقاضوں میں سے "ملکی اور عالمی مسائل، دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں اور معاشرے کی ضروریات اور حقائق" کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا درج کیا اور سماجی خطبات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا: اس میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آبادی کو بڑھانا اور ملک کی افرادی قوت کو مضبوط کرنا، کم عمری میں شادی کے مسئلے کی مناسبیت اور بہت سے معاملات میں واقعی نقصان دہ اسراف سے بچنے کی ضرورت کی وضاحت کرنا ان شعبوں میں سے ایک ہے جس میں سماجی تبلیغ کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے بہت سے اخلاقی خطبوں کو ضروری اور روحانی نرمی کا باعث قرار دیا اور اپنی تقریر کے اس حصے کو خلاصہ کرتے ہوئے فرمایا: سیاسی، سماجی اور اخلاقی خطبات و تقریتوں کا مقصد سامعین کے ذہنوں کو منور کرنا ہے۔ کہ انفرادی اور معاشرتی زندگی کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں ان کے ذہن مضبوط ہوتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے "ضروریات کی تشخیص اور سامعین کی آگاہی" کے موضوع پر زور دیا اور فرمایا: نماز جمعہ کے سامعین مردوں اور عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے درمیان خواندگی کے مختلف درجات ہیں اور آگہی، اور جمعہ کے امام کا فن اس مواد کا اظہار کرنا ہے جس سے ہر ایک سامعین اس سے مستفید ہو سکے۔

اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ آج کے نوجوانوں کے ذہن مختلف قسم کے خیالات اور الفاظ کی کثرت سے آشنا ہیں، حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ان کے ذہنی مسائل کے علم کو ان کی ضروریات کا صحیح جواب دینے کے لیے ضروری سمجھا اور مزید کہا: ضرورتوں کا اندازہ لگانے اور صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے سامعین کے ذہن کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہیں اور ایک عوامی شخص بنیں۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے قرآن، حدیث اور تعلیمی کتب کے مطالعہ اور اس سے واقفیت کو نماز جمعہ کے خطبوں کو تقویت دینے اور حاضرین کی ضروریات کا صحیح جواب دینے کے لیے ایک اہم ضرورت قرار دیا اور فرمایا: امام جمعہ کے اہم مشن کی تکمیل کے لیے ایک اور ضرورت ہے۔ 

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کی گہری محبت کرنے والے لوگوں کی منفرد خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے کہا: ہمارے لوگ بہت اچھے اور دیانت دار لوگ ہیں اور وہ لوگ بھی جو کچھ عملی ظہور کے پابند نہیں ہیں ان کے دل خدا اور روحانی معانی اور تصورات کے ساتھ ہیں۔ اس کے علاوہ، عملی طور پر عدم عزم ہم سب کے کچھ طرز عمل میں کسی نہ کسی طرح موجود ہے۔

رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے شرپسندوں کے ہر قسم کے پروپیگنڈے، عملی، سیاسی اور اقتصادی حملوں کے مقابلے میں ایران اور اسلامی نظام کے دفاع کے مختلف میدانوں میں شرکت کی وفاداری اور تیاری کو عوام کی ایک اور ممتاز خصوصیت قرار دیا اور فرمایا: عوام جس بھی حالات میں ملک اور انقلاب کی ضرورت ہو انہوں نے سڑکوں پر آکر، صبر و تحمل، نعرے اور حمایت سے اپنا دفاع کیا اور میدان جنگ میں جا کر بھی اپنی وفاداری کا ثبوت دیا۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے مزید کہا: حقیقی معنوں میں ہمیں ایران کے وفادار، دلچسپی رکھنے والے، وفادار اور ذہین لوگوں کی قدر کرنی چاہیے اور ان سے گہری محبت کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ لوگوں سے محبت ایک امرت کی مانند ہے جو آپ کی باتوں کو لوگوں کے دلوں میں موثر بنا دے گی۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں میں تقویٰ کی دعوت کو انفرادی مسائل تک محدود نہیں سمجھا اور فرمایا: قرآن میں نیک کاموں میں تعاون و تعاون اور تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے۔ 

اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلام ایک سیاسی مذہب ہے اور تمام مسلمانوں کو سیاسی منظر نامے میں موجود ہونا چاہیے، حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے مزید کہا: بلاشبہ سیاست کا میدان ایک پھسلن والا میدان ہے اور پھسلنے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ "سیاسی تقویٰ، خود غرضی" سے لیس ہونا ضروری ہے۔ تحمل اور کھلی آنکھیں" اس صورت میں دشمن کی نفسیاتی جنگ بے اثر ہو جاتی ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں میں مختلف سیاسی اور سماجی میدانوں میں لوگوں کی شرکت کی ترغیب دینا ضروری قرار دیا اور فرمایا: لوگوں کو سماجی نیک کاموں کی ترغیب دینا جیسے کہ اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر میں حصہ لینا اور ضرورت مند قیدیوں کی رہائی میں مدد کرنا یا ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔ میدان سیاست میں حصہ لینا الیکشن کی طرح ایک ضروری چیز ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے انتخابات میں شرکت کو عوام کا فرض اور حق دونوں میں شمار کیا اور کہا: انتخابات میں عوام کی شرکت حقیقی معنوں میں ضروری ہے۔ بلاشبہ انتخابات صرف ایک فرض نہیں بلکہ عوام کا حق ہے کہ وہ قانون ساز، قانون نافذ کرنے والے اداروں یا ماہرین کی اسمبلی کے ارکان کا انتخاب کرسکیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ فصاحت کا جہاد لوگوں کو اسٹیج پر آنے کی ترغیب دینے میں کارگر ہے، انہوں نے محض تقریر کی دعوت کو کافی نہیں سمجھا اور فرمایا: عمل، اچھا چہرہ، جوابدہ زبان اور لوگوں کے مختلف اجتماعات میں موجودگی بالخصوص نوجوانوں کے اجتماعات ضروری ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں اس بات پر تاکید کی کہ آج غزہ کے بین الاقوامی مسئلے میں خدا کا ہاتھ نمایاں اور نظر آرہا ہے اور فرمایا: غزہ کے مظلوم اور طاقتور لوگ اپنی جدوجہد سے دنیا پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوئے اور آج غزہ کے عالمی مسائل میں خدا کا ہاتھ نمایاں ہے۔ دنیا ان لوگوں اور جنگجوؤں کی مرہون منت ہے اور ان کا مزاحمتی گروپ ہیرو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ظلم و ستم کی برتری اور اس کے ساتھ ہی اہل غزہ کی فتح کو دنیا کی نظروں میں ان کے صبر اور توکل کا کارنامہ اور برکات قرار دیا اور مزید کہا: دوسری طرف آج دنیا میں کوئی بھی اس پر یقین نہیں رکھتا۔ غاصب صیہونی حکومت کی جنگ میں فتح اور دنیا اور سیاست دانوں کی نظر میں یہ حکومت ایک ظالم، بے رحم، خونخوار بھیڑیا، شکست خوردہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ غزہ کے عوام نے اپنے موقف سے اسلام کو پھیلایا اور قرآن کو دنیا کے متلاشی لوگوں کی نظروں میں مقبول بنایا، رہبر انقلاب نے خدا سے مزاحمتی محاذ کے جنگجوؤں بالخصوص عوام کے بڑھتے ہوئے فخر کے لیے دعا کی۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے غزہ کے عوام کی حمایت میں یمنی قوم اور انصار اللہ حکومت کے عظیم کام کی بھی تعریف و توصیف کی اور کہا کہ یمنی عوام نے صیہونی حکومت کے اہم چینلز کو نشانہ بنایا اور وہ امریکہ کی دھمکیوں سے نہیں ڈرے کیونکہ ایک خدا ترس ہے۔ انسان خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور یہ ان کا کام ہے، سچی بات یہ ہے کہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک مثال ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس امید کا اظہار کیا: خدا کے حکم سے یہ جدوجہد، مزاحمت اور سرگرمیاں فتح تک جاری رہیں گی اور خدا ان تمام لوگوں کی مدد اور مدد فرمائے جو اس کی رضا کے راستے پر چلتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے بیانات سے قبل جمعہ کے اماموں کی پالیسی کونسل کے سربراہ حجۃ الاسلام حاج علی اکبری نے ملک بھر کے اماموں کے چھبیسویں اجلاس میں تقریباً 900 جمعہ کے اماموں کی حاضری کی رپورٹ پیش کی۔

حال ہی میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے کرمان میں دہشت گردانہ اقدامات کی انتقامی کاروائی کے طور پر عراق کے علاقے کردستان میں موساد کے جاسوسی مرکز اور شام کے شہر ادلب میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے ہیڈکوارٹر کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے۔ اربیل میں اسرائیل کی جاسوسی ایجنسی موساد کے اس مرکز اور ادلب میں داعش کے ہیڈکوارٹر پر یہ میزائل حملے کئی لحاظ سے منفرد اور بے مثال ہیں۔ ایک طرف ان حملوں کی شدت بہت زیادہ تھی اور مطلوبہ اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا گیا جبکہ دوسری طرف ان حملوں میں استعمال ہونے والے بیلسٹک میزائلوں کی نوعیت بھی جدید طرز کی تھی۔ یہ جدید ترین ٹیکنالوجی والے ٹھوس ایندھن سے چلنے والے میزائل تھے۔ ان میزائل حملوں میں کچھ اہم پیغامات پوشیدہ ہیں اور چند اہم نکات پائے جاتے ہیں۔
 
1) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے پہلی بار ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے لانگ رینج میزائل استعمال کئے ہیں جنہوں نے ادلب میں داعش کے ٹھکانوں کو تقریباً 1230 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح عراق کے کردنشین علاقے اربیل میں موساد کے جاسوسی مرکز کو بھی گائیڈڈ میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
2) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے بقول یہ میزائل حملے ایران کے اندر اور باہر ایرانی شہریوں کے خلاف انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کے انتقام کے طور پر انجام پائے ہیں۔ کچھ ہفتے پہلے ایران کے شہر کرمان میں شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر دہشت گردانہ خودکش بم دھماکے ہوئے جن میں تقریباً 84 ایرانی شہری شہید ہو گئے تھے۔ ان حملوں کے انتقام میں اربیل میں موساد کے جاسوسی اڈے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
 
اسی طرح شام کے شہر ادلب میں داعش کے علاوہ ھیئت تحریر الشام نامی دہشت گرد گروہ کے ٹھکانوں کو بھی میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ حملے شام میں ایران کے فوجی مشیروں کی ٹارگٹ کلنگ کے انتقام کے طور پر انجام پائے ہیں۔ یاد رہے کچھ ہفتے پہلے شام کے دارالحکومت دمشق میں شہید قاسم سلیمانی کے دیرینہ ساتھ جنرل سید رضی الموسوی کو شہید کر دیا گیا تھا۔
3) اس بار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے اعلانیہ طور پر ان میزائل حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جو ایک اہم نکتہ ہے۔ اس سے پہلے اکثر مواقع پر سپاہ پاسداران یا تو خاموشی اختیار کرتی تھی یا مختصر بیانیہ جاری کر دیتی تھی۔
4) یہ میزائل حملے معمول سے ہٹ کر دہشت گردانہ اقدامات کے بعد مختصر مدت میں ہی انجام پائے ہیں جبکہ اس سے پہلے اعلان کیا جاتا تھا کہ مناسب وقت اور جگہ پر جوابی کاروائی کی جائے گی۔
 
5) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے اعلان کیا ہے کہ یہ انتقامی کاروائی صرف ایرانی شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات کیلئے انجام نہیں پائی بلکہ یہ شام، لبنان، فلسطین اور عراق کے اسلامی مزاحمتی کمانڈرز کی شہادت کے انتقام میں بھی انجام پائی ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف اسلامی مزاحمتی محاذوں کے درمیان ایک اتحاد تشکیل پا چکا ہے اور یہ ایک نئی تبدیلی ہے۔ لبنان میں فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس کے اعلی سطحی رہنما صالح العاروری کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی تھی۔ اسی طرح جنوبی لبنان میں حزب اللہ لبنان کے اعلی سطحی کمانڈر وسام الطویل اسرائیل کے ڈرون حملے میں شہید ہوئے تھے جبکہ عراق میں امریکہ کے دہشت گردانہ اقدام کے نتیجے میں اسلامی مزاحمتی گروہ النجباء کے اعلی سطحی کمانڈر ابوتقوی العراقی شہید ہو گئے تھے۔
 
مذکورہ بالا پانچ نکات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران براہ راست طور پر امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادیوں کے خلاف میدان میں اتر آیا ہے اور شام اور عراق کے محاذوں کو بھی کھول دیا گیا ہے۔ لہذا ایران کا واضح اور براہ راست پیغام یہ ہے کہ وہ "مناسب جگہ اور وقت پر جواب دینے" کے مرحلے سے عبور کر چکا ہے اور دوسرے الفاظ میں یہ کہ اس کے بعد ایران کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آئے گا اور موجودہ حالات ہی اسرائیل یا امریکہ کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے مناسب وقت اور جگہ ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ اور اسرائیل کے خلاف براہ راست میدان جنگ میں آنے اور غزہ جنگ کو وسعت دینے کا فیصلہ کر چکا ہے۔
 
ہم اس وقت مشرق وسطی میں مختلف طاقتوں کے درمیان ٹکراو کے نئے مرحلے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اسلامی مزاحمتی محاذ ان مراحل کو آگے لے جا رہا ہے اور اسٹریٹجک صبر اپنے اختتام کے قریب پہنچتا جا رہا ہے۔ اس نئے مرحلے کی علامات امریکہ اور اسرائیل کے ٹھکانوں پر میزائل اور ڈرون حملوں اور بحیرہ احمر میں مزید کشتیوں کو روکے جانے کی صورت میں یمن، جنوبی لبنان، شام اور عراق کے محاذوں پر جھڑپوں میں شدت کے طور پر قابل مشاہدہ ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کا واشنگٹن اور تل ابیب کیلئے ایک طاقتور پیغام ہے۔ آیا وہ اس پر توجہ دیں گے اور اس سے اچھی طرح عبرت حاصل کریں گے یا اپنی حماقت جاری رکھیں گے اور آخرکار اس کا بہت بھاری تاوان ادا کریں گے؟

اسلام ٹائمز۔ ایران اور پاکستانی وزرائے خارجہ نے گفتگو کے دوران باہمی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور مختلف امور میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی اہمیت پر تاکید کی خود مختاری اور سلامتی ایران کے لئے قابل احترام ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ جیش العدل ایک ایرانی دہشت گرد تنظیم ہے جو دونوں ممالک کی سیکیورٹی سیکیورٹی کے لئے خطرے کا باعث ہے۔ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اس دہشت گرد ایرانی تنظیم نے پاکستانی سرحد کے اندر سے کئی مرتبہ ایران کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات کیے اور دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ انہوں نے دوبارہ تاکید کی کہ ایرانی حملوں کے دوران پاکستان کا کوئی شہری نشانہ نہیں بنا بلکہ ان حملوں کا ہدف ایرانی دہشت کر تنظیم گروہ کے ارکان تھے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطے اور مذاکرات ہوتے رہتے ہیں جس میں سلامتی اور سیکیورٹی سمیت باہمی تعلقات اور تعاون پر زور دیا جاتا ہے۔

اس موقع پر پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کا مشترکہ مسئلہ ہے، ایران کی سلامتی پاکستان کی سلامتی ہے، اگر پاکستان کے اندر سے ایران کے لئے کوئی خطرہ محسوس ہوا تو حکومت پاکستان نے اس کے خلاف کاروائی کی ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف کاروائی کے حوالے سے کہا کہ ایران دہشت گرد تنظیموں کے خلاف معلومات حکومت پاکستان کے حوالے کرے تاکہ حکومت پاکستان ان کے خلاف کاروائی کرسکے، اسلام اباد کو امید ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف کاروائی کے لئے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

امام دہم حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی علیہ السلام 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (1)
آپ (ع) کا نام "علی" رکھا گیا اور کنیت ابوالحسن، (2)
اور آپ (ع) کے مشہور ترین القاب "النقی اور الہادی" ہیں۔ (3)
اور آپ (ع) کو ابوالحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کہا جاتا ہے۔ (4) جبکہ امیرالمؤمنین (ع) اور امام رضا (ع) ابوالحسن الاول اور ابوالحسن الثانی کہلاتے ہیں۔
آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام "سیدہ سمانہ المغربیہ" ہے۔ (5) امام ہادی علیہ السلام عباسی بادشاہ معتز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ (٭٭)
آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا (6) اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ (7)
امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں ـ کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔ (8) گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرةالخواص میں لکھا ہے کہ امام علیہ السلام 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ (9)
آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کئے گئے۔ (10)
امام ہادی علیہ السلام اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے۔ جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوکل عباسی، منتصر عباسی، مستعین عباسی اور معتز عباسی۔ (11)

 

معاشرے کے ہادی و راہنما

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری ائمہ طاہرین علیہم السلام پر عائد کی گئی ہے چنانچہ ائمہ علیہم السلام نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبھا دی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ائمہ علیہم السلام کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی علیہ السلام کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کئے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہیں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خدا سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سرزد ہوجائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جاسکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذاللہ خدا کے ہاتھ باندھ لئے۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادی علیہ السلام کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام علیہ السلام نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔

 

جبر و تفویض

علم عقائد میں افراط و تفریط کے دو سروں پر دو عقائد "جبر و تفویض" کے نام سے مشہور ہیں جو حقیقت میں باطل عقائد ہیں۔
شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (جلد 1 صفحہ 114) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں "مرو" میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی کہ آپ (ع) نے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ "خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کیا ہے وہ درحقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کئے ہیں اور ہم مجبور ہیں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق گردانے گا"، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے؛ جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔
راوی کہتا ہے میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درمیان کوئی تیسرا راستہ ہے؟
فرمایا: یابن رسول اللہ (ص(! "امرٌ بین الامرین" سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: یہی کہ ایک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے جن سے اس کو روکا گیا ہے۔ [یعنی انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے یہی وہ تیسرا اور درمیانی راستہ ہے]۔
میں نے عرض کیا: یہ جو بندہ اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور اس کی منہیات سے پرہیز کرتا ہے، اس میں خدا کی مشیت اور اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل ہے؟
فرمایا: وہ جو طاعات اور عبادات ہیں ان کا ارادہ اللہ تعالی نے کیا ہے اور اس کی مشیت ان میں کچھ یوں ہے کہ خدا ہی ان کا حکم دیاتا ہے اور ان سے راضی اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کی انجام دہی میں بندوں کی مدد کرتا ہے اور نافرمانیوں میں اللہ کا ارادہ اور اس کی مشیت کچھ یوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہی فرماتا ہے اور ان کی انجام دہی پر ناراض و ناخوشنود ہوجاتا ہے اور ان کی انجام دہی میں انسان کو تنہا چھوڑتا ہے اور اس کی مدد نہیں فرماتا۔

 

جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی علیہ السلام

شہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادی علیہ السلام کے نام ایک خط میں اپنے لئے درپیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔
امام ہادی علیہ السلام نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔
امام (ع) نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کئے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت (ع)) سے تمسک ہے جس کو امام علیہ السلام نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اوراس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کرکے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔ (12)
شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ "اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے؟"؛ چنانچہ امام علیہ السلام وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کئے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔ (13)
شاید امام ہادی علیہ السلام نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔
امام ہادی علیہ السلام اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے قول شریف "لا جَبْرَ وَلا تَفْویضَ ولكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن"؛ (14) کا حوالہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هلْ اَجْبَرَ اللّه الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی؟ فَقالَ الصّادِقُ علیه‏السلام هوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقیلَ لَهُ: فَهلْ فَوَّضَ اِلَيْهمْ؟ فَقالَ علیہ‏السلام : هوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهمْ مِنْ ذلِكَ"؛ (15)
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا: خداوند اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔ (16)
پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پہ چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟
فرمایا: خداوند اس سے کہیں زیادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔
امام ہادی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"النّاسُ فِی القَدَرِ عَلی ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاَْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهنَ اللّه‏َ فی سُلْطانِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وَكَلَّفَهمْ ما لا يُطیقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّه‏َ فی حُكْمِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه‏َ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطیقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطیقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّه‏َ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّه؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ"؛ (17)
لوگ "قَدَر" پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں:
٭ کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کئے گئے ہیں؛ ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچار ہوگیا ہے۔
٭ کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسانوں کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔ اور
٭ تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پاچکے ہیں۔
اس کے بعد امام ہادی علیہ السلام مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہیں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں:
"َاَمّا الْجَبْرُ الَّذی يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏َ جَلَّ وَعَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وعاقَبَهُمْ عَلَيْها وَمَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّه فی حُكْمِهِ وَكَذَّبَهُ وَرَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ «وَلا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدا» (18) وَقَوْلَهُ «ذلكَ بِما قَدَّمَتْ يَداكَ وَاَنَّ اللّه لَيْسَ بِظَلاّمٍ لِلْعَبید"۔ (19) ۔۔۔؛ (20)
ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطی پر ہے ـ پس یہ اس شخص کا قول و عقیدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصیت پر مجبور کیا ہے لیکن اسی حال میں ان کو ان ہی گناہوں اور معصیتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقیدہ یہ ہوگا اس نے اللہ تعالی کو اس کے حکم و حکومت میں ظلم کی نسبت دی ہے اور اس کو جھٹلایا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کردیا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے "تیرا پرورد‏گار کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا"، نیز فرماتا ہے: "یہ ( عذاب آخرت ) اُسکی بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہا تھوں نے آگے بھیجا ، اور بے شک اللہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے"۔
امام علیہ السلام تفویض کے بارے میں فرماتے ہیں:
"وَاَمَّا التَّفْویضُ الَّذی اَبْطَلَهُ الصّادِقُ علیه‏السلام وَاَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَتَقَلَّدَه فَهوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّه جَلَّ ذِكْرُه فَوَّضَ إِلَی الْعِبادِ اخْتِیارَ أَمْرِه وَنَهْيِهِ وَأَهمَلَهمْ"؛ (21)
ترجمہ: اور جہاں تک تفویض کا تعلق ہے ـ کس کو امام صادق علیہ السلام نے باطل کردیا ہے اور اس کا معتقد غلطی پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہی [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کیا ہے اور اس عقیدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
فرماتے ہیں:
"فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّه‏َ تَعالی فَوَّضَ اَمْرَه وَنَهيَهُ إلی عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَأَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَشَرٍّ وَأَبْطَلَ أَمْرَ اللّه‏ِ وَنَهْيَهُ وَوَعْدَه وَوَعیدَه، لِعِلَّةِ مازَعَمَ اَنَّ اللّه‏َ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاَِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشیئَتِه، فَاِنْ شاءَ الْکفْرَ أَوِ الاْیمانَ کانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَلاَ مَحْظُورٍ۔۔۔"؛ (22)
ترجمہ: پس جس نے گمان کیا کہ خدا نے امر و نہی [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے اور ان لوگوں نے گویا خدا کو عاجز اور بے بس قرار دیا ہے اور انھوں نے [اپنے تئیں اتنا اختیار دیا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبولیت کو اللہ پر واجب قرار دیا ہے! اور اللہ کے امر و نہی اور وعدہ و وعید کو جھٹلاکر باطل قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کہ وہم یہ ہے کہ خداوند متعال نے یہ تمام امور ان ہی کے سپرد کئے گئے ہیں اور جس کو تمام امور سپرد کئے جاتے ہیں وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پس خواہ وہ کفر کو اختیار کرے خواہ ایمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئی رد ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی رکاوٹ ہے۔
امام ہادی علیہ السلام یہ دونوں افراطی اور تفریطی نظریات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحیح نظریہ پیش کرتے ہیں جو "امرٌ بین الأمرین" سے عبارت ہے؛ فرماتے ہیں:
"لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّه‏َ جَلَّ وَعَزَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِه وَمَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهمْ بِها، فَاَمَرَهمْ وَنَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِه وَرَضِىَ بِذلِكَ لَهمْ، وَنَهاهمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَذَمّ مَنْ عَصاه وَعاقَبَهُ عَلَيْها"؛ (23)
ترجمہ: لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپنی قوت سے خلق فرمایا اور ان کو اپنی پرستش اور بندگی کی اہلیت عطا فرمائی اور جن امور کے بارے میں چاہا انہیں حکم دیا یا روک دیا۔ پس اس نے اپنے اوامر کی پیروی کو اپنے بندوں سے قبول فرمایا اور اس [بندوں کی طاعت و عبادت اور فرمانبرداری] پر راضی اور خوشنود ہوا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روک لیا اور جو بھی اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اس کی ملامت کی اور نافرمانی کے بموجب سزا دی۔

 

امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور غلات (نصیریوں) کا مسئلہ

ہر دین و مذہب اور ہر فرقے اور قوم میں ایسے افراد پائے جاسکتے ہیں جو بعض دینی تعلیمات یا اصولوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیں یا بعض دینی شخصیات کے سلسلے میں غلو کا شکار ہوتے ہیں اور حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ برادر مکاتب میں میں صحابیوں کی عمومی تنزیہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فوقیت دینا یا صحابہ کی شخصیت اور افعال کا دفاع کرنے کے لئے قرآن و سنت تک کی مرضی سے تأویل و تفسیر کرتے ہیں اور اگر صحاح سے رجوع کیا جائے تو ایسی حدیثوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو ان ہی مقاصد کے لئے وضع کی گئی ہیں۔
لیکن یہ بیماری دوسرے ادیان و مکاتب تک محدود نہیں ہے بلکہ پیروان اہل بیت (ع) یا شیعہ کہلانے والوں میں بہت سے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے زمانے سے جاری رہا اور ہمیشہ ایک گروہ یا چند افراد ایسے ضرور تھے جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی نسبت غلو کا شکار تھے اور غالیانہ انحراف میں مبتلا تھے۔
غالیوں کے یہ گروہ حضرات معصومین علیہم السلام کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرکے ان کے سلسلے میں غلو آمیز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو ائمہ معصومین علیہم السلام کو معاذاللہ الوہیت تک کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ غلو کی بیماری امام ہادی علیہ السلام کے زمانے میں نئی نہیں تھی بلکہ غلو بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند ایک تاریخی پس منظر کا حامل تھا۔
غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ہر دور میں نظر آرہے ہیں۔ حتی کہ امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ لوگ حاضر تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے اعتقادی مسائل پیدا کررہے تھے۔
نہ غالی ہم سے ہیں اور نہ ہمارا غالیوں سے کوئی تعلق ہے
امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام غالیوں سے یوں برائت ظاہر کرتے ہیں:
"إنَّ قَوْما مِنْ شیعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّی يَقُولُوا فینا ما قالَتِ الْيَهودُ فی عُزَيْرٍ وَقالَتِ النَّصاری فی عیسَی ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا همْ مِنّا وَلا نَحْنُ مِنْهمْ"۔ (24)
ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسی طرح محبت اور دوستی کا اظہار کریں گے جس طرح کہ یہودی عزیز (ع) کے بارے میں اور نصرانی عیسی (ع) کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہیں نہ تو یہ لوگ (غالی) ہم سے ہیں اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام اپنے عصری تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فیصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہیں تشیع کو بدنام نہیں کرنے دیتے تھے۔
امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
"أَحِبُّونا حُبَّ الاِْسْلامِ فَوَاللّه‏ِ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّی بَغَّضْتُمُونا إلَی النّاسِ"۔ (25)
ترجمہ: ہم سے اسی طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہیں حکم دیا ہے؛ پس خدا کی قسم! جو کچھ تم [غالی اور نصیری] ہمارے بارے میں کہتے ہو اس کے ذریعے لوگوں کو ہماری دشمنی پر آمادہ کرتے ہو۔
یہاں اس بات کی یادآوری کرانا ضروری ہے کہ غلو آمیز تفکر مختلف صورتوں میں نمودار ہوسکتا ہے۔ مرحوم علامہ محمد باقر مجلسی بحارالانوار میں لکھتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں غلو کا معیار یہ ہے کہ کوئی شخص
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کی الوہیت [اور ربوبیت] کا قائل ہوجائے؛
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کو اللہ کا شریک قرار دے؛ کہ مثلاً ان کی عبادت کی جائے یا روزی رسانی میں انہیں اللہ کا شریک قرا دے یا کہا جائے کہ خداوند متعال ائمہ رسول اللہ (ص) یا ائمہ کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ یا وہ شخص
٭ اس بات کا قائل ہوجائے کہ رسول اللہ (ص) خدا کی وحی یا الہام کے بغیر ہی علم غیب کے حامل ہیں؛
٭ یا یہ کہ دعوی کیا جائے کہ ائمہ انبیاء ہی ہیں؟
٭ یا کہا جائے کہ بعض ائمہ کی روح بعض دوسرے ائمہ میں حلول کرچکی ہے۔
٭ یا کہا جائے کہ رسول اللہ (ص) اور ائمہ علیہم السلام کی معرفت و پہچان انسان کو ہر قسم کی عبادت اور بندگی سے بے نیاز کردیتی ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو ان پر کوئی عمل واجب نہ ہوگا اور نہ ہی محرمات اور گناہوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (26)
جیسا کہ آپ نے دیکھا ان امور میں سے کسی ایک کا قائل ہونا غلو کے زمرے میں آتا ہے اور جو ان امور کا قائل ہوجائے اس کو غالی بھی کہتے ہیں اور بعض لوگ انہیں نصیری بھی کہتے ہیں۔
علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ جو غلو کی ان قسموں میں کسی ایک کا قائل ہوگا وہ کافر اور ملحد ہے اور دین سے خارج ہوچکا ہے۔ جیسا کہ عقلی دلائل، آیات امو مذکورہ روایات وغیرہ بھی اس بات کا ثبوت ہیں۔ (27)
امام علی النقی الہادی علیہ السلام کے زمانے میں غالی سرگرم تھے اور اس زمانے میں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کی قیادت کررہے تھے چنانچہ امام علیہ السلام نے اس کے سامنے خاموشی روا نہ رکھی اور مضبوط اور واضح و فیصلہ کن انداز سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس منحرف غالی گروہ کے سرغنے: علی بن حسکہ قمی، قاسم یقطینی، حسن بن محمد بن بابای قمی، محمد بن نُصیر فہری اور فارِس بن حاکم تھے۔ (28)
احمد بن محمد بن عیسی اور ابراہیم بن شیبہ، امام ہادی علیہ السلام کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں غلات کے عقائد اور رویوں و تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور اپنے زمانے کے دو بدنام غالیوں علی بن حسکہ اور قاسم یقطینی کی شکایت کرتے ہیں اور امام علیہ السلام واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ:
"لَيْسَ هذا دینُنا فَاعْتَزِلْهُ"؛ (29)
ترجمہ: یہ ہمارا دین نہیں ہے چنانچہ اس سے دوری اختیار کرو۔
اور ایک مقام پر امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کی مانند غالیوں پر لعنت بھیجی:
محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ امام ہادی علیہ السلام نے ایک مراسلے کے ضمن میں میرے لئے لکھا:
"لَعَنَ اللّه الْقاسِمَ الْيَقْطینی وَلَعَنَ اللّه‏ عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائی لِلْقاسِمِ فَيُوحی اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا"؛ (30)
ترجمہ: اللہ تعالی قاسم یقطینی اور علی بن حسکمہ قمی پر لعنت کرے۔ ایک شیطان قاسم الیقطینی کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال اقوال کو خوبصورت ظاہری صورت میں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو دھوکا دیتا ہے۔
نصر بن صبّاح کہتے ہیں: حسن بن محمد المعروف ابن بابائے قمی، محمد بن نصیر نمیری اور فارس بن حاتم قزوینی پر امام حسن عسکری علیہ السلام نے لعنت بھیجی۔ (31)
ہم تک پہنچنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے غلو اور دوسرے انحرافات کے خلاف کہ امام ہادی علیہ السلام کی جدوجہد اظہار برائت اور لعن و طعن سے کہیں بڑھ کر تھی اور آپ (ع) نے بعض غالیوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا ہے۔
محمد بن عیسی کہتے ہیں:
"إنَّ اَبَا الحَسَنِ العَسْكَرِی علیهالسلام أمَر بِقَتلِ فارِسِ بْنِ حاتم القَزْوینىّ وَضَمِنَ لِمَنْ قَتَلَهُ الجَنَّةَ فَقَتَلَهُ جُنَيْدٌ"؛ (32)
ترجمہ: امام ہادی علیہ السلام نے فارس بن حاتم قزوینی کے قتل کا حکم دیا اور اس شخص کے لئے جنت کی ضمانت دی جو اس کے قتل کرے گا چنانچہ جنید نامی شخص نے اس کو ہلاک کردیا۔

 

تجسیم اور تشبیہ

بعض فرقے آج بھی خدا کے لئے جسم اور شبیہ کے قائل تھے اور بعض آج بھی ایسے ہی ہیں۔ بندہ اسی کے عشرے میں حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا تو کافی چیزیں بلاد الحرمین میں نظر آئیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ سنی مکاتب کے ہاں ان کی مثال ملتی اور نہ ہی شیعہ دنیا میں لیکن سب سے اہم بات ہمارے اس موضوع سے متعلق تھی۔
وہاں بادشاہی نظام ہے جس پر آل سعود مسلط ہے اور مذہبی ونگ وہابیت کو دیا گیا ہے اور یہ درحقیقت وہابیت اور آل سعود کے درمیان بہت پرانے معاہدے کا نتیجہ ہے اور اگر ایک طرف سے حکومت بعض خدمات حجاج کرام کو پیش کرتی ہے تو دوسری طرف سے وہابیت کے نمائندے حجاج کی بے حرمتیاں کرکے لوگوں کے دلوں کو نفرت سے بھر کر بلادالحرمین سے رخصت کردیتی۔ وہابیت اتنی سختگیریوں اور لوگوں کو متنفر کرنے کے باوجود ان کو وہابیت کی دعوت بھی دیتی ہے جو وہابیت کے عجائب میں سے ہے۔ کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب حتی کہ غیر اسلام مکاتب میں تبلیغ کے لئے محبت کے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں لیکن یہاں نفرت کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور پھر تبلیغ کی جرأت بھی کی جاتی ہے، جو باعث حیرت ہے۔
بہر حال ہم میدان عرفات میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں جنوب ایشیا کے بعض باشندے ـ جو بظاہر کسی وہابی مدرسے یا پھر کسی تبلیغی مرکز سے وابستہ تھے ـ کتابوں کے بڑے بڑے بستے لے کر عرفات میں پہنچے جہاں انسان احرام کی حالت میں شرعی لحاظ سے مختلف پابندیوں کا سامنا کررہا ہوتا ہے۔ انھوں نے ہر حاجی کو کئی کئی کتابیں دیں جن میں وہابی اسلام کی تعلیمات ہمیں سکھانے کی کوشش کی گئی تھی جبکہ ان ہی دنوں مکہ معظمہ میں ال سعود کے سپاہیوں نے فائرنگ کرکے چھ سو کے قریب نہتے حاجیوں کا قتل عام کیا ہوا تھا۔ بہرحال ان میں سے ایک کتاب میں نے کھولی تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہاں عرفات اور اے حاجیو! خوشخبری ہو تمہیں کہ آج کے دن خدا عرفات کے اوپرپہلے آسمان پر آکر بیٹھا ہوا ہے اور وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تمہارے اعمال کی نگرانی کررہا ہے۔ میں نے کئی بار یہ جملہ پڑھا حتی کہ میری غلط فہمی دور ہوگئی اور معلوم ہوا کہ وہابی اسلام کے پیروکار تجسیم کی بظاہر مخالفت کرتے ہیں لیکن باطن میں وہ تجسیم کے قائل ہیں اور ان کا خدا دنیا کے آسمانوں میں اتر کر بیٹھتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اگر وہ دنیا کے آسمان پن اترا کر آیا ہے تو دوسرے آسمانوں کا کیا بنے گا اور زمینوں کا کیا بنے گا کیونکہ اس وقت تو دوسری جگھوں میں خدا نہیں ہے نا۔ معاذاللہ
بہرحال تجسیم کا یہ عقیدہ ابتدائے اسلام سے تھا۔ یہ عقیدہ بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند موجود تھا حتی کسی وقت یہ عقیدہ شیعیان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کرگیا تھا۔ اہل تشیع میں یہ عقیدہ نمودار ہوا تھا کہ خداوند متعال جسمانیت کا حامل ہے یا یہ کہ خدا کو دیکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔
ظاہر ہے کہ شیعہ عقائد مدینۃالعلم (رسول اللہ (ص)) اور باب مدینۃالعلم (امیرالمؤمنین) اور ان کے فرزندوں کے شفاف علی سرچشمے سے منسلک ہونے کے باعث ہمیشہ انحرافات سے دور رہتے تھے اور ہمیشہ اسلام اور پیروان اہل بیت (ع) کے لئے باعث فخر و اعتزاز تھے لیکن کبھی بعض عوامل کی بنا پر ـ جن کا جائزہ لینے کے لئے ای مستقل اور مفصل تحقیق کی ضرورت ہے ـ بعض عقائد نے پیروان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کیا ہے جو تشیع کے اوپر تہمت و بہتان کی بنیاد بن گئے ہیں حالانکہ ان کا تشیع سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ دوسرے مکاتب سے تشیع میں نہیں بلکہ تشیع کے بعض پیروکاروں میں درآمد ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام اور ائمہ (ع) کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے ان انحرفات کے خلاف قیام کیا ہے اور تشیع کے مبارک چہرے سے ہر قسم کی دھول دھوتے چلے آئے ہیں۔
یہ سطحی اور درآمد شدہ انحرافات ہی اس بات کا سبب بنے ہیں کہ ہمارے علماۂء بیٹھ کر اس سلسلے میں عظیم علمی کااوشیں خلق کریں۔ مرحوم شیخ صدوق اپنی کتاب "التوحید" کو اس لئے لکھا شروع کیا کہ بعض مخالفین تشیع پر نہایت ناروا اور بہت شدید قسم کے الزمات لگا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شیعہ تشبیہ اور جبر کے قائل ہیں چنانچہ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تشیع جبر و تشبیہ کا قائل ہو! اور میں نے اللہ کا نام لیا اور قربت الہی کی نیت سے اس کتاب کو تالیف کردی جس کا نام ہے " جو تشبیہ اور جبر و تفویض کی نفی میں لکھی گئی ہے۔ (33)
چنانچہ یہ مسئلہ اتنا غیر اہم نہ تھا کہ آئمہ علیہم السلام اس کو نظرانداز کرتے کیونکہ اس طرح کے عقائد درحقیقت توحید کے بنیادی اصول سے متصادم ہیں۔
صقر بن ابی دلف امام ہادی علیہ السلام سے توحید کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور امام ہادی علیہ السلام کا جواب دیتے ہیں:
"إنَّهُ لَیسَ مِنّا مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏َ عَزَّوَجَلَّ جِسْمٌ وَنَحْنُ مِنْهُ بَراءٌ فِی الدُّنْیا وَالاْخِرَةِ، يَابْنَ [أبی] دُلَفِ إنَّ الْجِسْمَ مُحْدَثٌ واللّه مُحدِثُهُ وَمُجَسِّمُهُ" (34)
ترجمہ: جو شخص گمان کرے کہ خداوند متعال جسم ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم دنیا اور آخرت میں ان سے بیزار ہیں۔ اے ابی دلف کے فرزند! جسم مخلوق ہے اور وجود میں لایا گیا ہے اور اللہ تعالی خالق ہے اور جسم کو معرض وجود میں لانے والا۔
نیز سہل بن ابراہیم بن محمد ہمدانی سے نقل کرتے ہیں: میں نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے لکھا کہ آپ کے محبین توحید میں اختلاف سے دوچار ہوگئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ خداوند متعال جسم ہے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ خداوند متعال صورت ہے۔
امام علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے لکھا:
"سُبْحانَ مَنْ لاَ يُحَدُّ وَلا يُوصَفُ، لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی‏ءٌ وَهوَ السَّمیعُ الْعَلیم"؛ (35)
ترجمہ: پاک و منزہ ہے وہ جس کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور [اشیاء کی مانند] اس کی حدیں معین نہیں کی جاسکتیں، کوئی شیئے بھی اس کی مانند نہیں وہ بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ دیکھنے والا ہے۔
کیا خدا کو دیکھا جاسکتا ہے؟
بعض لوگوں کے کلام سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ گویا ان کہ عقیدہ تھا کہ خداوند متعال کو دیکھا جاسکتا ہے اور انسان اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ سکتا ہے۔
ائمہ طاہرین علیہم السلام نے اس قسم کی سوچ کا بھی مقابلہ کیا۔
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
"جاءَ حِبْرٌ إلی أمیرِ الْمُؤْمِنینَ علیہ‏السلام فَقالَ: یا أَمیرَ الُؤْمِنینَ هلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حینَ عَبَدْتَهُ؟ فَقالَ وَيْلَكَ ما كُنْتُ اَعْبُدُ رَبّا لَمْ اَرَه۔ قالَ: وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ؟ قالَ وَيْلَكَ لاَ تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فی مُشاهِدَةِ الاَْبْصارِ وَلكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقائِقِ الاْیمانِ"۔ (36)
ترجمہ: ایک حبر (یہودی عالم) امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: کیا آپ نے عبادت کے وقت خدا کو دیکھا ہے؟
امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر! میں نے ایسے خدا کی عبادت نہیں کی ہے جس کو میں نے دیکھا نہ ہو۔
حبر: آپ نے خدا کو کس طرح دیکھا؛ (خدا کو دیکھنے کی کیفیت کیا تھی)۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر آنکھیں دیکھتے وقت اور نظر ڈالتے وقت اس کا ادراک نہیں کرسکتیں لیکن دل (قلوب) حقیقت ایمان کی مدد سے اس کا ادراک کرتے ہیں۔
احمد بن اسحق نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے خط لکھا اور آپ (ع) سے اللہ کی رؤیت کے بارے میں پوچھا اور اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی طرف اشارہ کیا تو حضرت امام ہادی علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا:
"لا یجوز الرؤیة ما لم یکن بین والمرئی هواء ینفذه البصر، فإذا انقطع الهواء وعدم الضیاء بین الرائی والمرئی لم تصح الرؤیة وکان فی ذلک الاشتباه لان الرائی متی ساوی المرئی فی السبب الموجب بینهما فی الرؤیة وجب الاشتباه وکان فی ذلک التشبیه، لان الاسباب لابد من اتصالها بالمسببات"۔ (37)
ترجمہ: رؤیت (دیکھنا) ممکن نہیں ہے جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان ہوا اور فضا نہ ہو ایسی ہوا جس میں انسان کی نظریں نفوذ کریں اور جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان روشنی نہ ہو تو دیکھنے کا عمل انجام نہیں پاتا [اور پھر دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کو ایک ایسے مقام پر متعین ہونا چاہئے جہاں وہ جگہ گھریں تا کہ دیکھنے کا عمل انجام پاسکے اور اگر دونوں ایک مقام پر جگہ گھریں تو دونوں ایک دوسرے کی مانند اور دونوں محدود ہونگے اور] اور اس عمل میں اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا کیونکہ جب دیکھنے والا سبب یعنی وسیلۂ رؤیت کے حوالے سے برابر ہونگے تو اس بھی اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا اور اسی میں تشیبہ ہے کیونکہ اسباب کے لئے مسببات کے ساتھ متصل ہونا ضروری ہے۔
یہاں امام ہادی علیہ السلام کے کلام شریف کا ماحصل ـ حق تعالی کی رؤیت کے امتناع کو ثابت کرنے کے لئے ـ قیاس استنثنائی (Exceptive Syllogism) ہے اور یوں کہ "اگر حق تعالی قابل رؤیت ہوں تو خدا اور رائی (دیکھنے والے) کے درمیان ہوا اور روشنی ہوگی کیونکہ ہوا اور روشنی رؤیت کے وسائل و شرائط ہیں پس رؤیت ان وسائل اور شرائط کے بغیر ممکن نہیں ہے جس طرح کہ یہ دوسرے وسا‏ئل اور شرائط کے بغیر بھی ناممکن ہے اور اس کے سوا رؤیت باطل ہے چنانچہ اللہ تعالی کی رؤیت کا نظریہ ناممکن ہے کیونکہ اس میں تشابہ لازم آتا ہے دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان یعنی یہ کہ وہ دونوں مرئی (اور قابل رؤیت) ہیں اور دونوں رؤیت کا اسباب و وسائل میں ایک دوسرے کے برابر ہیں کہ وہ دونوں جگہ گھریں اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے والی سمتوں میں ہوں اور ان کے درمیان ہوا اور روشنی ہو چنانچہ اس لحاظ سے ایک جسم رکھنے والے رائی اور اللہ تعالی کے درمیان تشابہ لازم آئے گا اور اللہ تعالی کے لئے جگہ گھرنے کا تصور لازم لائے گآ اور اللہ تعالی پاک و منزہ اور برتر و بالاتر ہے ان اوصاف سے۔ اور ہاں یہ کہنا بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کو اس سبب کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے۔
اللہ کی عظمت و معرفت
"إلهی تاهتْ اَوْهامُ الْمُتَوَهمینَ وَقَصُرَ طُرَفُ الطّارِفینَ وَتَلاشَتْ اَوْصافُ الْواصِفینَ وَاضْمَحَلَّتْ اَقاویلُ الْمُبْطِلینَ عَنِ الدَّرَكِ لِعَجیبِ شَأْنِكَ أَوِ الْوُقُوعِ بِالْبُلُوغِ اِلی عُلُوِّكَ، فَاَنْتَ فىِ الْمَکانِ الَّذی لا يَتَناهی وَلَمْ تَقَعْ عَلَيْكَ عُيُونٌ بِاِشارَةٍ وَلا عِبارَةٍ هيْهاتَ ثُمَّ هَيْهاتَ یا اَوَّلىُّ، یا وَحدانىُّ، یا فَرْدانِىُّ، شَمَخْتَ فِی الْعُلُوِّ بِعِزِّ الْكِبْرِ، وَارْتَفَعْتَ مِنْ وَراءِ كُلِّ غَوْرَةٍ وَنَهايَةٍ بِجَبَرُوتِ الْفَخْرِ"؛ (38)
ترجمہ: بار پروردگارا! توہم کا شکار لوگوں کے گماں بھٹک گئے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظروں کا عروج [تیرے اوصاف] تک نہیں پہنچ سکا ہے، اور توصیف کرنے والوں کی زبان عاجز ہوچکی ہے اور مبطلین [حق کو باطل کرنے کے لئے کوشاں لوگوں] کے دغوے نیست و نابود ہوگئے ہیں کیونکہ تیرا جاہ و جلال اور تیری شان و شوکت اس سے کہیں بالاتر ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور کرسکے۔
تو جہاں ہے اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور کوئی آنکھ تیری طرف اشارہ نہیں کرسکتی اور تجھ کو نہیں پاسکتی اور کسی عبارت میں تیری توصیف کی اہلیت و توانائی نہیں ہے؛ کس قدر بعید ہے کس قدر بعید ہے [حواس انسانی کے ذریعے تیرا ادراک] اے پورے عالم وجود کا سرچشمہ! ای واحد و یکتا! تو اپنی عزت اور کبریائی کے لباس میں ہر قوت سے بالا تر اور ماوراء تر ہے اور ہر متفکر و مفکر کی زد سے برتر و بالاتر ہے۔ (39)

 

حوالہ جات:

٭۔ اس مجموعۂ موضوعات میں بعض اضافات کئے گئے اور اس کے بیشتر موضوعات کے بارے میں تحقیق کی گئی اور انہیں Authentic اور قابل استناد بنایا گیا۔ / مترجم
1. ارشاد، مفید، بیروت، دارالمفید، 211 من سلسلہ مؤلفات الشیخ المفید، ص297.
2. مناقب آل ابی‏طالب، ابن شہر آشوب، انتشارات ذوی‏القربی، ج1، 1379، ج4، ص432.
3. جلاء العیون، ملامحمدباقر مجلسی، انتشارات علمیہ اسلامیہ، ص568.
4. مناقب، ص432.
5. ارشاد شیخ مفید، ص432.
٭٭۔ شیخ مفید، ارشاد، ص327.
6. مناقب، ص433.
7. مناقب، ص433.
8. مناقب، ص433؛ ارشاد، ص297.
9. ارشاد، ص297.
10. اعلام الوری، طبرسی، دارالمعرفہ، ص339.
11. مناقب، ص433.
12. تحف العقول، ابن شعبہ حرّانی، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، صص339 ـ 338.
13. تحف العقول ، ص340.
14. تحف العقول. انسان نہ مجبور ہے نہ ہی اللہ نے اپنے اختیارات اس کو سونپ دیئے ہیں بلکہ امر ان دو کے درمیان ہے یا درمیانی رائے درست ہے۔
15. تحف العقول.
16. معنی این کلام، این است کہ اگر قائل بہ جبر شویم، باید بگوییم کہ ـ العیاذ باللّہ‏ ـ خداوند، ظالم است، در حالی کہ خود قرآن می‏فرماید: «وَلا يَظْلِمْ رَبُّكَ اَحَدا» (کہف/49).
17. تحف العقول صفحہ 371.
18. کہف/49.
19. حج/10.
20. تحف العقول صفحہ 461. اما الجبر الذی
21. تحف العقول صفحہ 463.
22. تحف العقول صفحہ 464.
23. تحف العقول صفحہ 465۔
24. اختیار معرفة الرجال، طوسی، تصحیح و تعلیق حسن مصطفوی، ص102.
25. الطبقات الکبری، ابن سعد، دار صادر، ج5، ص214. امام سجاد علیہ السلام سے تاریخ دمشق میں بھی ایک روایت نقل ہوئی ہے جو کچھ یوں ہے: أحبونا حب الإسلام ولا تحبونا حب الأصنام ! فما زال بنا حبکم حتی صار علینا شیناً )! (تاریخ دمشق:41/392) ترجمہ: ہم سے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی بنیاد پر محبت کرو اور ہم سے بت پرستوں کی مانند محبت نہ کرو کیونکہ تمہاری اس حد تک بڑھ گئی کہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہوگئی۔ [یہاں بھی غلو اور محبت میں حد سے تجاوز کرنے کی مذمت مقصود ہے]۔
26. بحار الانوار، ج25، ص346.
27. بحار الانوار، ج25، ص346.
28. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، ص603.
29. اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، صص518 ـ 516.
30. رجال کشی ، ص518.
31. رجال کشی ، ص520.
32. رجال کشی ، ص524.
33. رجال کشی ، صص18 ـ 17.
34. بحارالانوار جلد 3 صفحہ 291.
35۔ اصول کافی جلد 1 صفحہ: 136 روایة: 5
36. توحید، شیخ صدوق ص109، ح6.
37. التوحید ص109، ح7. اصول کافی جلد 1 ص 30 ؛حدیث 5)
38. التوحید ، ص66، ح19.
39. ترجمہ از کتاب زندگانی امام علی الہادی علیہ‏السلام ، باقر شریف قرشی، دفتر انتشارات اسلامی، ص112۔

 

امام ہادی (علیہ السلام) کا کتاب نامہ

1۔ آمال الواعظین(ج2) بقلم ابراہیم حسینی لیلابی
2۔ آینہ کمال بقلم اکبر دہقان
3۔ ائمتنا بقلم علی محمد علی دخیل
4. الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد(ج2) بقلم شیخ مفید
5. اسرار دلبران بقلم سیداحمد سجادی
6. اعلام الہدایہ (الامام علی بن محمد الہادی) باہتمام مجمع الجہانی اہل بیت
7. الامام العاشر الامام علی بن محمد الہادی باہتمام لجنہ التحریر فی طریق الحق
8. الامام الہادی أضواء من سیرتہ بقلم محمود السیف
9. الامام الہادی القیادة العاشرة للحرکة الرسالیة بقلم ضیاء الفاتح
10. الامام الہادی قدوة الثائرین بقلم محمد وصفی
11. الامام علی الہادی بقلم عبداللہ الیوسف
12. الامام علی الہادی مع مروق القصر و قضاہ العصر بقلم کامل سلیمان
13. امام ہادی از نگاہ اہل سنت بقلم محمدحسن طبسی
14. امام ہادی در مصاف با انحراف عقیدتی بقلم حسین مطہری محب
15. امام ہادی را بہتر بشناسیم بقلم محمود مہدی پور
16. امام ہادی مشعلدار ہدایت بقلم جعفر انواری
17. امام ہادی و اتحاد پیروان اہل بیت (ع) بقلم عبدالکریم پاک نیا
18. امام ہادی و جلوہ ہای غدیر بقلم عباس کوثری
19. امام ہادی و حوزہ حدیثی قم بقلم غلامعلی عباسی
20. امام ہادی و دفاع از مرزہای توحید بقلم سیدعباس رضوی
21. امام ہادی و نہضت علویان بقلم محمدرسول دریایی
22. امامان اہل بیت در گفتار اہل سنت بقلم داوود الہامی
23. امامان عسکریین (امام علی النقی) بقلم فضل اللہ کمپانی
24. امنیت اخلاقی از نگاہ امام ہادی بقلم مہدی احمدی
25. الانوار البہیة فی تواریخ الحجج الالہیة بقلم شیخ عباس قمی
26. بحارالانوار (ج 50) بقلم محمد باقر المجلسی
27. بدر ذی الحجہ بقلم ابراہیم اخوی
28. برگزیدگان (ج2) بقلم مہدی رحیمی
29. پرچمداران ہدایت بقلم سیداحمد سجادی
30. تاج الموالید: خلاصہ زندگانی چہاردہ معصوم بقلم علامہ طبرسی
31. تاریخ انبیاء و چہاردہ معصوم بقلم فرخ رصدی
32. تاریخ چہاردہ معصوم بقلم محمد جواد مولوی نیا
33. تاریخ زندگی ائمہ معصومین حضرت امام علی النقی بقلم آموزش عقیدتی جہاد سازندگی
34. تحلیلی از زندگانی امام ہادی بقلم باقر شریف قرشی
35. تراتیل فی زمن الذئاب بقلم کمال السید
36. تعریف احوال سادہ الانام النبی والاثنی عشر امام بقلم راشد بن ابراہیم البحرانی
37. تفسیر قرآن در کلام امام ہادی بقلم مہدی سلطانی وفایی
38. تلاش ہا و مبارزات امام ہادی بقلم ابوالفضل ہادی منش
39. جرعہ نوشان اقیانوس بی کران امام ہادی (1-2) بقلم عسکری اسلامپور کریمی
40. جزاء الاعداء الامام الہادی فی دار الدنیا بقلم السید ہاشم الناجی الموسوی
41. جلاء العیون بقلم علامہ مجلسی
42 جلوات ربانی در شناخت دوازدہ امام بہ مقام نورانیت(ج2) بقلم محمد رضا ربانی
43. جنات ثمانیة بقلم محمدباقر بن مرتضی حسینی خلخالی
44. چگونگی مواجہہ امام ہادی با خلفای عباسی بقلم عباس جمشیدی
45. چہاردہ آیینہ بقلم محمدخرم فر
46. چہاردہ اختر تابناک بقلم احمد احمدی بیرجندی
47. چہرہ ہای درخشان سامراء (امام ہادی) بقلم علی ربانی خلخالی
48. چہل داستان و چہل حدیث از امام علی ہادی بقلم عبداللہ صالحی
49. حجت محوری در نگاہ امام ہادی بقلم جواد محدثی
50. حدیث اہل بیت بقلم یداللہ بہتاش
51. حدیقة الذاکرین بقلم یداللہ بہتاش
52. حیات پاکان (امام ہادی) بقلم مہدی محدثی
53. حیاة الامام الہادی دراسہ و تحلیل بقلم محمد جواد الطبسی
54. حیاة الامام علی الہادی دراسہ و تحلیل بقلم باقر شریف القرشی
55. حیاة اولی النہی حیاة الامام علی الہادی بقلم محمد رضا الحکیمی الحائری
56. خانہ ہای ماذون در شرح حال چہاردہ معصوم (ع) بقلم محمدباقر مدرس
57. خورشید ہدایت بقلم سمیہ سوری
58. الدر النظیم فی مناقب الائمہ اللہامیم بقلم جمال الدین یوسف بن حاتم الشامی
59. دل نوشتہ ہایی در میلاد امام ہادی بقلم روح اللہ حبیبیان
60. دلائل الامامة بقلم محمد بن جریر بن رستم الطبری
61. راہ راستان باہتمام دایرة المعارف تشیع
62. رنج ہای امام ہادی (1-2) بقلم ابوالفضل ہادی منش
63. روشہای تربیتی از دیدگاہ امام ہادی (1-2) بقلم غلامرضا صالحی
64. زندگانی امام علی الہادی بقلم باقر شریف القرشی
65. بقلم زندگانی امام ہادی بقلم علی رفیعی
66. زندگانی تحلیلی پیشوایان ما بقلم عادل ادیب
67. زندگانی چہاردہ معصوم بقلم حسین مظاہری
68. زندگانی عسکریین (امام علی النقی) بقلم عباس حاجیانی دشتی
69. زندگی دوازدہ امام(ج2) بقلم ہاشم معروف الحسنی
70. زندگینامہ چہاردہ معصوم بقلم محسن خرازی
71. ستارگان درخشان (سرگذشت حضرت امام علی النقی) بقلم محمد جواد نجفی
72. سفرہا و ارتباطات امام ہادی (1-2) بقلم غلامرضا گلی زوارہ
73. سوار سبزپوش آرزوہا بقلم کمال السید
74. سوگنامہ آل محمد در ذکر مصائب جانسوز چہاردہ معصوم بقلم محمد محمدی اشتہاردی
75. سیرہ الائمہ الاثنی عشر(ج2) بقلم ہاشم معروف الحسنی
76. سیرة الائمة علی الہادی بقلم محمد رضا عباس محمد الدباغ
77. سیرہ معصومان بقلم سیدمحسن امین
78. سیرہ و زندگانی حضرت امام ہادی (ع) بقلم لطیف راشدی
79. سیرہ و سخن پیشوایان بقلم محمد علی کوشا
80. شادنامہ چہاردہ معصوم (ع) محمد صحتی سردرودی
81. شناخت مختصری از زندگانی امام ہادی (1-3) بقلم مہدی پیشوایی
82. صحیفہ امام ہادی بقلم جواد قیومی اصفہانی
83. عجایب و معجزات شگفت انگیزی از چہاردہ معصوم باہتمام واحد تحقیقاتی گل نرگس
84۔ عوامل تبعید امام ہادی بقلم عباس کوثری
85۔ فروغی از دانش امام ہادی بقلم عباس کوثری
86۔ فرہنگ جامع سخنان امام ہادی باہتمام گروہ پژوہشکدہ باقر العلوم (مترجم: علی مؤیدی)
87۔ الفصول المہمة فی معرفة الائمة علی بن محمد بن احمد المالکی المکی
88. فی رحاب ائمة ہل البیت (ج3-5) بقلم السیدمحسن الامین
89. قصة الحوار الہادی السید محمد الحسینی القزوینی
90. قطرہ ای از دریای فضائل اہل بیت (ج2) بقلم سید احمد مستنبط
91. کتابشناسی اہل بیت بقلم ناصرالدین انصاری قمی
92. کرامات و مقامات عرفانی امام ہادی سید علی حسینی
93. کشف الغمة فی معرفة الائمة (ج2) بقلم ابوالحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح الاربلی
94. گزیدہ سیمای سامرا: سینای سہ موسی بقلم محمد صحتی سردرودی
95. گزیدہ ناسخ التواریخ (ج6) بقلم محمد تقی خان سپہر-عباسقلی خان سپہر
96. گلچین حکمت بقلم محمد باقر مجلسی
97. گوشہ ای از کرامات امام ہادی بقلم حسین تربتی
98. لمحات من حیاة الامام الہادی بقلم محمدرضا سیبویہ
99. مبارزات سیاسی امام ہادی بقلم ابوالفضل ہادی منش
100. المجالس السنیة (ج2) بقلم السید محسن الامین
101. مجموعہ زندگانی چہاردہ معصوم(ج1-2) بقلم حسین عمادزادہ
102. مسند الامام الہادی بقلم عزیز اللہ عطاردی
103. معارج الوصول الی معرفة فضل آل الرسول و البتول بقلم محمد بن عزالدین یوسف بن الحسن الزرندی
104. معصوم دوازدہم (علی بن محمد) بقلم جواد فاضل
105. مناقب اہل بیت از دیدگاہ اہل سنت بقلم سیدمحمدطاہر ہاشمی شافعی
106. منتخب التواریخ در زندگانی چہاردہ معصوم بقلم محمدہاشم بن محمدعلی خراسانی
107. منتہی الامال(ج2) عباس قمی
108. منہاج التحرک عند الامام الہادی بقلم ع- نجف
109. موسوعة الادعیة (الصحیفة النقویة) (ج 5) بقلم جواد القیومی الاصفہانی
110. موسوعہ الامام الہادی (ج 1 و 2 و 3 و 4) باہتمام لجنة العلمیة فی موسسة ولی العصر
111. موسوعة المصطفی و العترة (الہادی علی) بقلم حسین الشاکری
112. نام ہای امام ہادی بقلم ناصر بہرامی
113. نامہ ہای امام ہادی بقلم سیدجعفر ربانی
114. نقش امام ہادی در اندیشہ مہدویت (1-2) بقلم خلیل منصوری
115. نقش امام ہادی در ہدایت امت بقلم محمد جواد مروجی طبسی
116. نکتہ ہای ناب از زندگانی چہاردہ معصوم بقلم محمد گلستانی
117. نگاہی بر زندگی امام ہادی (ع) بقلم محمدی اشتہاردی
118. نگاہی بہ زندگی دوازدہ امام بقلم علامہ حلی
119. نگاہی بہ شیوہ ہای رہبری امام ہادی بقلم عبدالکریم پاک نیا
120. نگرش علم الحدیثی امام ہادی بقلم نوروز امینی
121. نوادر المعجزات فی مناقب الائمہ الہداة بقلم محمد بن جریر بن رستم الطبری
122. النور الہادی الی اصحاب الامام الہادی بقلم عبدالحسین الشبستری
123. نورالابصار فی احوال الائمة التسعة الابرار بقلم محمدمہدی الحائری المازندرانی
124. وسیلہ الخادم در شرح صلوات چہاردہ معصوم بقلم فضل اللہ روزبہان خنجی اصفہانی
125. وصایای چہاردہ معصوم بقلم فرشاد مومنی
126. ویژگی ہای اخلاقی امام ہادی بقلم ابوالفضل ہادی منش
127. ہدایتگران راہ نور (زندگانی حضرت امام علی ہادی) بقلم محمد تقی مدرسی
128. ہفت گفتار از امام ہادی بقلم عبدالکریم تبریزی
129. ہمسر و فرزندان امام ہادی بقلم علی احمدی

مؤلف: حسین مطہری محب

ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال
واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ جیساکہ حضرت محمد کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میںکافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ رجب میںایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔ امام موسٰی کاظم -فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میںایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب بہشت میںایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔
امام جعفر صادق -سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میںمیری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میں بہ کثرت کہا کرو:
اَسْتَغْفِرُ ﷲ وَ اَسْءَلُهُ التَّوْبَةَ
ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں اوخر رجب میں امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میںروزہ رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! وﷲ نہیں! تب فرمایا کہ تم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام مہینوں سے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اس میں روزہ رکھنے والے کا احترام اپنے اوپرلازم کیا ہے۔ میںنے عرض کیا اے فرزند رسول ! اگرمیں اسکے باقی ماندہ دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟
آپ نے فرمایا: اے سالم!
جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔
واضح ہوکہ ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے جیساکہ روایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکتاہو وہ ہرروز سو مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تو اس کو روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوجائے گا۔
سُبْحانَ الْاِلهِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إلاَّ لَهُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَهُوَ لَهُ أَهْلٌ
پاک ہے جو معبود بڑی شان والا ہے پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے
پاک ہے وہ جولباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔

ماہ رجب کے مشترکہ اعمال
۱-
محمد بن ذکو ان،آپ اس لئے سجاد کے نام سے معروف ہیں کہ انہوں نے اتنے سجدے کیے اور خوف خدا میں اس قدر روئے کہ نابینا ہوگئے تھے، سید بن طاؤس نے محمد بن ذکوان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں یہ ماہ رجب ہے، مجھے کوئی دعا تعلیم کیجئے کہ حق تعالیٰ اس کے ذریعے مجھے فائدہ عطا فرمائے ۔ آپ نے فرمایا کہ لکھوبسم اللہ الرحمن الرحیم اور رجب کے مہینے میں ہر روزصبح وشام کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرو:
۲-
رسول ﷲ سے مروی ہے کہ جو شخص ماہ رجب میں سو مرتبہ کہے :
اَسْتَغْفِرُ ﷲ الَّذِیْ لَااِلٰهَ اِلَّاهُوَ وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ واَتُوْبُ اِلَیْهَ
 اور جو اسے چار سو مرتبہ پڑھے گا تو خدا اسے سو شہیدوں کا اجر دے گا ۔
۳-
رسول ﷲ سے روایت ہوئی کہ ماہ رجب میں جو شخص ہزار مرتبہ
" لَااِلٰهَ اِلَّاﷲ "
کہے تو حق تعالیٰ اس کیلئے ہزار نیکیاں لکھے گا اور جنت میں اس کیلئے سو شہر بنائیگا۔
۴-
روایت ہوئی ہے کہ جو شخص رجب کے مہینے میں صبح شام ستر، ستر مرتبہ
"اَسْتَغْفِرُ ﷲ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہَ "
پڑھے اور پھر اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے
" اَلَّلهُمَّ اغْفَرْلِیْ وَ تُبْ عَلَیَّ "
کہے تو اگر وہ اس مہینے میں مر جائے تو حق تعالیٰ اس ماہ کی برکت سے اس پر راضی ہوگا اور آتش جہنم اسے نہ چھوئے گی۔
۵-
رجب کے پورے مہینے میں ہزار مرتبہ پڑھے تاکہ حق تعالیٰ اس کو بخش دے۔
"اَسْتَغْفِرُ ﷲ ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ مِنْ جَمِیْعِ الذَّنُوْبِ وَ الْآثَامِ"
بخشش چاہتا ہوں خدا سے جو صاحب جلالت و بزرگی ہے اپنے تمام گناہوں اور خطاؤں پر طالب عفو ہوں۔
۶-
سید نے اقبال میں رسول ﷲ سے نقل کیا ہے کہ ماہ رجب میں سورہ اخلاص کے دس ہزار مرتبہ یا ایک ہزار مرتبہ یا ایک سو مرتبہ پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے ۔ نیز یہ روایت بھی ہے کہ ماہ رجب میں جمعہ کے روز جو شخص سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے تو قیامت میں اس کیلئے ایک خاص نور ہوگا جو اسے جنت کی طرف لے جائے گا ۔
۷-
سید نے روایت نقل کی ہے کہ جو شخص ماہ رجب میں ایک دن روزہ رکھے اور چار رکعت نماز ادا کرے کہ جس کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد سو مرتبہ آیۃ الکرسی اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد دو سو مرتبہ قُلْ ھُوَ ﷲ پڑھے تو وہ شخص مرنے سے پہلے جنت میں اپنا مقام خود دیکھ لے گا۔ یا اسے جنت میںاس کا مقام دکھایا جائے گا۔
۸-
سید نے رسول ﷲ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ جو شخص رجب میں جمعہ کے روز نماز ظہر و عصر کے درمیان چار رکعت نماز پڑھے جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سات مرتبہ آیت الکرسی اور پانچ مرتبہ سورہ توحید پڑھے اور نماز کے بعد دس مرتبہ کہے:
"اَسْتَغْفِرُ ﷲ الَّذِیْ لَا اِلَهَ اِلَّا هُوَ وَ اَسْءَلُهُ التَّوْبَةَ"
پس حق تعالیٰ اس نماز کے ادا کرنے کے دن سے اس کی موت تک ہر روز اس کیلئے ہزار نیکیاں لکھے گا ، ہر آیت جو اس نے نماز میں پڑھی ہے اس کے بدلے میں اسے جنت میں یاقوت سرخ کا شہر عنائت کرے گا ۔ ہر ہر حرف کے عوض سفید موتیوں کا محل عطا کرے گا ، حورالعین سے اس کی تزویج کرے گا ، خدا ئے تعالیٰ اس سے راضی و خوشنود ہوگا، اس کا نام عبادت گزاروں میںلکھا جائے گا اور خدا اس کا خاتمہ بخشش اور نیک بختی پر کرے گا ۔
۹-
رجب کے مہینے میں تین دن یعنی جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کو روزہ رکھے کیونکہ روایت ہوئی ہے کہ جو محترم مہینوں کے ان دنوں میں روزہ رکھے تو حق تعالیٰ اس کو نو سوبرس کی عبادت کا ثواب عطا فرمائے گا ۔
۱۰-
پورے ماہ رجب میں ساٹھ رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر شب میں دو رکعت بجالائے جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد ایک مرتبہ، سورہ کافرون تین مرتبہ اور سورہ قل ھو ﷲ ایک مرتبہ پڑھے اور جب سلام دے چکے تو اپنے ہاتھ بلند کر کے یہ پڑھے :
"لاَ إلهَ إلاَّ ﷲ وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ، یُحْیِی وَیُمِیتُ وَهُوَحَیٌّ  لاَ یَمُوتُ بِیَدِهِ الْخَیْرُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ وَ إلَیْهِ الْمَصِیرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ بِالله الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الاَُْمِّیِّ وَآلِهِ،
یہ دعا پڑھنے کے بعد دونوں ہاتھ اپنے منہ پر پھیرے۔
حضرت رسول ﷲ سے روایت ہوئی ہے کہ جو شخص یہ عمل انجام دے حق تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے گا اور اسے ساٹھ حج اور ساٹھ عمرہ کا ثواب عطا فرمائے گا۔
۱۱-
حضرت رسول ﷲ سے روایت کی گئی ہے کہ جو شخص رجب کے مہینے کی ایک رات میں دو رکعت نماز ادا کرے کہ اس میں سو مرتبہ سورہ قُلْ ھُو ﷲ پڑھے تو وہ ایسے ہے کہ جیسے اس نے حق تعالیٰ کیلئے سو سال کے روزہ رکھے ہوں۔ پس ﷲ تعالیٰ اس کو بہشت میں ایسے سو محلات عنایت کرے گا کہ جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی نبی کی ہمسائیگی میں واقع ہوگا۔
۱۲-
حضرت رسول ﷲ سے مروی ہے کہ جو شخص ماہ رجب کی ایک رات میں دس رکعت نماز پڑھے کہ جس کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ و سورہ کافرون ایک ایک مرتبہ اور سورہ قل ھو ﷲ تین مرتبہ پڑھے تو ﷲ تعالیٰ اس کا ہر وہ گناہ بخش دے گا جو اس نے کیا ہو گا۔
۱۳-
علامہ مجلسی رحمه‌الله نے زاد المعاد میں ذکر فرمایا کہ مولا امیر-سے نقل کیا گیا ہے کہ رسولخدا نے فرمایا ہے کہ جو شخص رجب، شعبان اور رمضان کی ہر رات اور دن میں سورہ حمد، آیۃ الکرسی، سورہ کافرون، سورہ فلق اور سورہ ناس میں سے ہر ایک تین تین مرتبہ پڑھے اور پھر تین مرتبہ کہے :
سُبْحَانَ ﷲ، وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلاَ إلهَ إلاَّ ﷲ، وَﷲ أَکْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَقوّ َةَ إلاَّ بﷲ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِتین مرتبه کهے : اَللَّهُمَّ صَلَّی ﷲ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اَلَّلهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤمِنَاتِ
اور چارسو مرتبه کهے :
" اَسْتَغْفر ﷲ وَ اَتُوْبُ اِلَیْهِ"
اور مومن عورتوں کو بخش دے میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں اور اسی کی طرف پلٹتا ہوں
پس خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا چاہے وہ بارش کے قطروں، درختوں کے پتوں اور دریاؤں کی جھاگ جتنے ہی کیوںنہ ہوں۔ نیز علامہ مجلسی رحمه‌الله فرماتے ہیں کہ اس مہینے کی ہر رات میں ہزار مرتبہ لاَ إلهَ إلاَّ ﷲ کہنا بھی نقل ہوا ہے ۔
واضح ہو کہ ماہ رجب کی پہلی شبِ جمعہ کو لیلۃ الرغائب (رغبتوں والی رات) کہا جاتا ہے اس شب کیلئے رسولخدا سے ایک نماز نقل ہوئی ہے کہ جس کے فضائل بہت زیادہ ہیں جنہیں سیدنے اقبال اور علامہ مجلسی نے اجازہ بنی زہرہ میںذکر کئے ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نماز کی برکت سے کثیر گناہ معاف ہو جائیں گے اور قبر کی پہلی رات یہ نماز بحکم خدا خوبصورت بدن، خندہ چہرہ اور صاف و شیرین زبان کے ساتھ آکر کہے گی اے میرے حبیب خوشخبری ہو تجھے کہ تو نے ہر تنگی و سختی سے نجات پالی ہے وہ شخص پوچھے گا تو کون ہے؟خدا کی قسم میں نے تجھ سے خوبصورت اور شیرین کلام اور خوشبو والا کوئی نہیں دیکھا؟ وہ جواب دے گی میں تیری وہ نماز اور اس کا ثواب ہوں جو تونے فلاں رات فلاں ماہ اور فلاں سال میں پڑھی تھی آج میں تیرے حق کی ادائیگی کیلئے حاضر اور اس وحشت و تنہائی میں تیری ہمدم و غمخوار ہوں کل روز قیامت جب صور پھونکا جائے گا ۔
تو اس وقت میں تیرے سر پر سایہ کروں گی پس خوش و خرم رہ کہ خیر و نیکی کبھی تجھ سے دور نہیں ہوگی اس با برکت نماز کی ترکیب یہ ہے کہ ماہ رجب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھے اور شب جمعہ میں مغرب و عشاءکے درمیان بارہ رکعت دو دو رکعت کر کے نماز پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد تین مرتبہ انا انزلناہ اور بارہ مرتبہ قُلْ ھُو ﷲ پڑھے ، فارغ ہو کر ستر مرتبہ کہے:
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النبیِ الاُمِّیِ وَ عَلیٰ آلِهٰ
پھر سجدے میں جا کر ستر مرتبہ کہے:سُبُّوْحُ،
اے معبود! محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امی پر اور ان کی آلعليه‌السلام پررحمت نازل فرما فرشتوں اور
قُدُّوْسُ، رَبُ الْمَلائِکَةِ وَ الرُّوْح سجدے سے سر اٹھا کر ستر مرتبہ کہے:رَبِّ اغْفَرْ وَارْحَمْ وَ
روح کا رب بے عیب پاک تر ہے پالنے والے بخش دے رحم فرما اور
تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ أَنَّکَ اَنْتَ العَلِیُّ الْاَعْظَمُ
پھر سجدے میں جائے اور ستر مرتبہ کہے:سُبُّوْحُ ، قُدُّوْسُ، رَبُ الْمَلائِکَةِ وَ الرُّوْحِ
اس کے بعد اپنی حاجت بھی طلب کرے گا ان شاء ﷲ تعالیٰ وہ پوری ہوگی۔
یاد رہے کہ ماہ رجب میں امام علی رضا -کی زیارت کو جانا مستحب ہے ، جیساکہ اس ماہ میں عمرہ ادا کرنے کی بھی زیادہ فضیلت ہے اور عمرہ کی فضیلت حج کے قریب قریب ہے روایت ہوئی ہے کہ امام زین العابدین -ماہ رجب میں عمرہ ادا فرماتے، خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھتے شب و روز سجدے میں رہتے اور سجدے میں یہ کلمات ادا فرماتے۔
عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِکَ فُلْیَحْسُنِ الْعَفْوُ مَنْ عِنْدِکَ

یہ ماہ رجب کے اعمال میں پہلی قسم ہے یہ وہ اعمال ہیں جومشترکہ ہیں اورکسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اور یہ چند اعمال ہیں۔

 ماہ رجب  کے  روزانہ کی نماز کے بعد پڑھی جانے والی دعاء
محمد بن ذکو ان،آپ اس لئے سجاد کے نام سے معروف ہیں کہ انہوں نے اتنے سجدے کیے اور خوف خدا میں اس قدر روئے کہ نابینا ہوگئے تھے، سید بن طاؤس نے محمد بن ذکوان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق -کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں یہ ماہ رجب ہے، مجھے کوئی دعا تعلیم کیجیئے کہ حق تعالیٰ اس کے ذریعے مجھے فائدہ عطا فرمائے ۔ آپ نے فرمایا کہ لکھوبسم اللہ الرحمن الرحیم اور رجب کے مہینے میں ہر روزصبح وشام کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرو
" يَا مَنْ أَرْجُوهُ لِكُلِّ خَيْرٍ ، وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ كُلِّ شَرٍّ ، يَا مَنْ يُعْطِي الْكَثِيرَ بِالْقَلِيلِ ، يَا مَنْ يُعْطِي مَنْ سَأَلَهُ ، يَا مَنْ يُعْطِي مَنْ لَمْ يَسْأَلْهُ وَ مَنْ لَمْ يَعْرِفْهُ تُحَنُّناً مِنْهُ وَ رَحْمَةً ، أَعْطِنِي بِمَسْأَلَتِي إِيَّاكَ جَمِيعَ خَيْرِ الدُّنْيَا ، وَ جَمِيعَ خَيْرِ الْآخِرَةِ ، وَ اصْرِفْ عَنِّي بِمَسْأَلَتِي إِيَّاكَ جَمِيعَ شَرِّ الدُّنْيَا وَ شَرِّ الْآخِرَةِ ، فَإِنَّهُ غَيْرُ مَنْقُوصٍ مَا أَعْطَيْتَ ، وَ زِدْنِي مِنْ فَضْلِكَ يَا كَرِيمُ "
راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد امام  أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السَّلام )نے اپنی ریش مبارک کو داہنی مٹھی میں لیا اور اپنی انگشت شہادت کو ہلاتے ہوئے نہایت گریہ و زاری کی حالت میں یہ دعا پڑھی:
" يَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِكْرَامِ ، يَا ذَا النَّعْمَاءِ وَ الْجُودِ ، يَا ذَا الْمَنِّ وَ الطَّوْلِ ، حَرِّمْ شَيْبَتِي عَلَى النَّارِ "

:۱-
رجب کے پورے مہینے میں یہ دعا پڑھتا رہے اور روایت ہے کہ یہ دعا امام زین العابدین -نے ماہ رجب میں حجر کے مقام پر پڑھی:

يَا مَنْ يَمْلِكُ حَوائِجَ السَّائِلِينَ، وَيَعْلَمُ ضَمِيرَ الصَّامِتِينَ، لِكُلِّ مَسْأَلَةٍ مِنْكَ سَمْعٌ حَاضِرٌ، وَجَوَابٌ عَتِيدٌ . اللّهُمَّ وَمَواعِيدُكَ الصَّادِقَةُ، وَأَيادِيكَ الْفَاضِلَةُ، وَرَحْمَتُكَ الْوَاسِعَةُ، فَأَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّىَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تَقْضِىَ حَوائِجِى لِلدُّنْيا وَالْآخِرَةِ، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ.
۲-
یہ دعا پڑھے کہ جسے امام جعفر صادق -رجب میں ہر روز پڑھا کرتے تھے۔
" خَابَ الْوَافِدُونَ عَلَى غَيْرِكَ ، وَ خَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إِلَّا لَكَ ، وَ ضَاعَ الْمُلِمُّونَ إِلَّا بِكَ ، وَ أَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إِلَّا مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَكَ ، بَابُكَ مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِينَ ، وَ خَيْرُكَ مَبْذُولٌ لِلطَّالِبِينَ ، وَ فَضْلُكَ مُبَاحٌ لِلسَّائِلِينَ ، وَ نَيْلُكَ مُتَاحٌ لِلْآمِلِينَ ، وَ رِزْقُكَ مَبْسُوطٌ لِمَنْ عَصَاكَ ، وَ حِلْمُكَ مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاكَ ، عَادَتُكَ الْإِحْسَانُ إِلَى الْمُسِيئِينَ ، وَ سَبِيلُكَ الْإِبْقَاءُ عَلَى الْمُعْتَدِينَ ،
اللَّهُمَّ فَاهْدِنِي هُدَى الْمُهْتَدِينَ ، وَ ارْزُقْنِي اجْتِهَادَ الْمُجْتَهِدِينَ ، وَ لَا تَجْعَلْنِي مِنَ الْغَافِلِينَ الْمُبْعَدِينَ ، وَ اغْفِرْ لِي يَوْمَ الدِّينِ "

۳-
شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ معلٰی بن خنیس نے امام جعفرصادق -سے روایت کی ہے۔ آپعليه‌السلام نے فرمایا کہ ماہ رجب میں یہ دعا پڑھا کرو:
اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ صَبْرَ الشَّاكِرِينَ لَكَ وَعَمَلَ الخائِفِينَ مِنْكَ وَيَقِينَ العابِدِينَ لَكَ ، اللّهُمَّ أَنْتَ العَلِيُّ العَظِيمُ وَأَنا عَبْدُكَ البائِسُ الفَقِيرُ أَنْتَ الغَنِيُّ الحَمِيدُ وَأَنا العَبْدُ الذَّلِيلُ ، اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَامْنُنْ بِغِناكَ عَلى فَقْرِي وَبِحِلْمِكَ عَلى جَهْلِي وَبِقُوَّتِكَ عَلى ضَعْفِي يا قَوِيُّ يا عَزِيزُ ، اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الأَوْصِياء المَرْضِيِّينَ وَاكْفِنِي ما أَهَمَّنِي مِنْ أَمْرِ الدُّنْيا وَالآخرةِ يا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ
۴-

شیخ  طوسي" مصباح المتهجد" میں فرماتے ہیں کہ اس دعا کو ہر روز پڑھنا مستحب ہے۔
"اللَّهُمَّ يَا ذَا الْمِنَنِ‏ السَّابِغَةِ، وَ الْآلَاءِ الْوَازِعَةِ، وَ الرَّحْمَةِ الْوَاسِعَةِ، وَ الْقُدْرَةِ الْجَامِعَةِ، وَ النِّعَمِ الْجَسِيمَةِ، وَ الْمَوَاهِبِ الْعَظِيمَةِ، وَ الْأَيَادِي الْجَمِيلَةِ، وَ الْعَطَايَا الْجَزِيلَةِ.
يَا مَنْ لَا يُنْعَتُ بِتَمْثِيلٍ، وَ لَا يُمَثَّلُ بِنَظِيرٍ، وَ لَا يُغْلَبُ بِظَهِيرٍ.
يَا مَنْ خَلَقَ فَرَزَقَ، وَ أَلْهَمَ فَأَنْطَقَ، وَ ابْتَدَعَ فَشَرَعَ، وَ عَلَا فَارْتَفَعَ، وَ قَدَّرَ فَأَحْسَنَ، وَ صَوَّرَ فَأَتْقَنَ، وَ احْتَجَّ فَأَبْلَغَ، وَ أَنْعَمَ فَأَسْبَغَ، وَ أَعْطَى فَأَجْزَلَ، وَ مَنَحَ فَأَفْضَلَ.
يَا مَنْ سَمَا فِي الْعِزِّ فَفَاتَ خَوَاطِرَ الْأَبْصَارِ، وَ دَنَا فِي اللُّطْفِ فَجَازَ هَوَاجِسَ الْأَفْكَارِ.
يَا مَنْ تَوَحَّدَ بِالْمُلْكِ فَلَا نِدَّ لَهُ فِي مَلَكُوتِ سُلْطَانِهِ، وَ تَفَرَّدَ بِالْآلَاءِ وَ الْكِبْرِيَاءِ فَلَا ضِدَّ لَهُ فِي جَبَرُوتِ شَأْنِهِ.
يَا مَنْ حَارَتْ فِي كِبْرِيَاءِ هَيْبَتِهِ دَقَائِقُ لَطَائِفِ الْأَوْهَامِ، وَ انْحَسَرَتْ دُونَ إِدْرَاكِ عَظَمَتِهِ خَطَائِفُ أَبْصَارِ الْأَنَامِ.
يَا مَنْ عَنَتِ الْوُجُوهُ لِهَيْبَتِهِ، وَ خَضَعَتِ الرِّقَابُ لِعَظَمَتِهِ، وَ وَجِلَتِ الْقُلُوبُ مِنْ‏ خِيفَتِهِ، أَسْأَلُكَ بِهَذِهِ الْمِدْحَةِ الَّتِي لَا تَنْبَغِي إِلَّا لَكَ، وَ بِمَا وَأَيْتَ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ لِدَاعِيك مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، وَ بِمَا ضَمِنْتَ الْإِجَابَةَ فِيهِ عَلَى نَفْسِكَ لِلدَّاعِينَ، يَا أَسْمَعَ السَّامِعِينَ، وَ أَبْصَرَ النَّاظِرِينَ، وَ أَسْرَعَ الْحَاسِبِينَ.
يَا ذَا الْقُوَّةِ الْمَتِينَ، صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَ اقْسِمْ لِي فِي شَهْرِنَا هَذَا خَيْرَ مَا قَسَمْتَ، وَ احْتِمْ لِي فِي قَضَائِكَ خَيْرَ مَا حَتَمْتَ، وَ اخْتِمْ لِي بِالسَّعَادَةِ فِيمَنْ خَتَمْتَ، وَ أَحْيِنِي مَا أَحْيَيْتَنِي مَوْفُوراً، وَ أَمِتْنِي مَسْرُوراً وَ مَغْفُوراً، وَ تَوَلَّ أَنْتَ نَجَاتِي مِنْ مُسَاءَلَةِ الْبَرْزَخِ، وَ ادْرَأْ عَنِّي مُنْكَراً وَ نَكِيراً، وَ أَرِ عَيْنِي‏ مُبَشِّراً وَ بَشِيراً، وَ اجْعَلْ لِي إِلَى رِضْوَانِكَ وَ جِنَانِكَ مَصِيراً، وَ عَيْشاً قَرِيراً، وَ مُلْكاً كَبِيراً، وَ صَلِ‏ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ كَثِيراً (مصباح المتهجد: 2 / 802)
مولف کہتے ہیں کہ یہ دعا مسجد صعصعہ میں بھی پڑھی جاتی ہے جو مسجدکوفہ کے قریب ہے۔
۵-

شیخ طوسی نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ (اما م زمان(عج) کی جانب) سے امام العصرعليه‌السلام کے وکیل شیخ کبیر ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید(قدس الله روحه) کے ذریعے سے یہ توقیع یعنی مکتوب آیا ہے۔
رجب کے مہینے میں یہ دعا ہرروزپڑھاکرو:
بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعانِي جَمِيعِ مايَدْعُوكَ بِهِ وُلاةَ أَمْرِكَ المَأْمُونُونَ عَلى سِرِّكَ المُسْتَبْشِرُونَ بِأَمْرِكَ الواصِفُونَ لِقُدْرَتِكَ المُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِكَ ، أَسْأَلُكَ بِما نَطَقَ فِيهِمْ مِنْ مَشِيَّتِكَ فَجَعَلْتَهُمْ مَعادِنَ لِكَلِماتِكَ وَأَرْكانا لِتَوْحِيدِكَ وَآياتِكَ وَمَقاماتِكَ الَّتِي لاتَعْطِيلَ لَها فِي كُلِّ مَكانٍ يَعْرِفُكَ بِها مَنْ عَرَفَكَ ، لافَرْقَ بَيْنَكَ وَبَيْنَها إِلاّ أَنَّهُمْ عِبادُكَ وَخَلْقُكَ فَتْقُها وَرَتْقُها بِيَدِكَ بَدْؤُها مِنْكَ وَعَوْدُها إِلَيْكَ ، أَعْضادٌ وَأَشْهادٌ وَمُناةٌ وَأَذْوادٌ وَحَفَظَةٌ وَرُوَّادٌ فَبِهِمْ مَلأتَ سَمائَكَ وَأَرْضَكَ حَتّى ظَهَرَ أَنْ لا إِلهَ إِلاّ أَنْتَ ؛ فَبِذلِكَ أَسْأَلُكَ وَبِمَواقِعِ العِزِّ مِنْ رَحْمَتِكَ وَبِمَقاماتِكَ وَعَلاماتِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَأَنْ تَزِيدَنِي إِيْماناً وَتَثْبِيتاً ، يا باطِناً فِي ظُهُورِهِ وَظاهِراً فِي بُطُونِهِ وَمَكْنُونِهِ يا مُفَرِّقاً بَيْنَ النُّورِ وَالدَّيْجُورِ يا مَوْصُوفاً بِغَيْرِ كُنْهٍ وَمَعْرُوفاً بِغَيْرِ شِبْهٍ ، حادَّ كُلِّ مَحْدُودٍ وَشاهِدَ كُلِّ مَشْهُودٍ وَمُوجِدَ كُلِّ مَوْجُودٍ وَمُحْصِيَ كُلِّ مَعْدُودٍ وَفاقِدَ كُلِّ مَفْقُودٍ لَيْسَ دُونَكَ مِنْ مَعْبُودٍ أَهْلَ الكِبْرِياءِ وَالجُودِ ، يا مَنْ لايُكَيَّفُ بِكَيْفٍ وَلايُؤَيَّنُ بِأَيْنٍ يا مُحْتَجِباً عَنْ كُلِّ عَيْنٍ يا دَيْمُومُ يا قَيُّومُ وَعالِمَ كُلِّ مَعْلُومٍ ، صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَ 2 عَلى عِبادِكَ المُنْتَجَبِينَ وَبَشَرِكَ المُحْتَجِبِينَ وَمَلائِكَتِكَ المُقَرَّبِينَ وَالبُهْمِ الصَّافِّينَ الحافِّينَ ، وَبارِكْ لَنا فِي شَهْرِنا هذا المُرَجَّبِ المُكَرَّمِ وَما بَعْدَهُ مِنَ الاَشْهُرِ الحُرُمِ وَأَسْبِغْ عَلَيْنا فِيهِ النِّعَمَ وَأَجْزِلْ لَنا فِيهِ القِسَمَ ، وَأَبْرِزْ لَنا فِيهِ القَسَمَ بِإسْمِكَ الأعْظَمِ الأعْظَمِ الأَجَلِّ الأَكْرَمِ الَّذِي وَضَعْتَهُ عَلى النَّهارِ فَأَضاءَ وَعَلى اللَّيْلِ فَأَظْلَمَ ، وَاغْفِرْ لَنا ماتَعْلَمُ مِنَّا وَما 3 لا نَعْلَمُ وَاعْصِمْنا مِنَ الذُّنُوِب خَيْرَ العِصَمِ واكْفِنا كَوافِيَ قَدَرِكَ وَامْنُنْ عَلَيْنا بِحُسْنِ نَظَرِكَ وَلا تَكِلْنا إِلى غَيْرِكَ وَلا تَمْنَعْنا مِنْ خَيْرِكَ وَبارِكْ لَنا فِيما كَتَبْتَهُ لَنا مِنْ أَعْمارِنا وَأَصْلِحْ لَنا خَبِيئَةَ أَسْرارِنا وَأَعْطِنا مِنْكَ الاَمانَ وَاسْتَعْمِلْنا بِحُسْنِ الاِيمانِ وَبَلِّغْنا شَهْرَ الصِّيامِ وَما بَعْدَهُ مِنَ الاَيَّامِ وَالاَعْوامِ يا ذا الجَلالِ وَالاِكْرامِ(مصباح المتهجّد : 803.)
۶-
شیخ  طوسی (قدس الله روحه)نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ سے شیخ ابوالقاسم(قدس الله روحه) کے ذریعے سے رجب کی دنوں میں پڑھنے کے لیے یہ دعا صادر ہوئی۔
اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِالمَولُودِينَ فِي رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الثَّانِي وَابْنِهِ عَلِيٍّ بْنِ مُحَمَّدٍ المُنْتَجَبِ ، وَأّتَقَرَّبُ بِهما إِلَيْكَ خَيْرَ القُرَبِ يا مَنْ إِلَيْهِ المَعْرُوفُ طُلِبَ وَفِيما لَدَيْهِ رُغِبَ ، أَسْأَلُكَ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ مُذْنِبٍ قَدْ أَوْبَقَتْهُ ذُنُوبُهُ وَأَوْثَقَتْهُ عُيُوبُهُ فَطَالَ عَلى الخَطايا دُؤُوبُهُ وَمِنَ الرَّزَايا خُطُوبُهُ ؛ يَسْأَلُكَ التَّوْبَةَ وَحُسْنَ الاَوْبَةِ وَالنُّزُوعَ عَنْ الحَوْبَةِ وَمِنَ النَّارِ فَكاكَ رَقَبَتِهِ وَالعَفْوَ عَمَّا فِي رِبْقَتِهِ ، فَأَنْتَ مَوْلايَ أَعْظَمُ أَمَلِهِ وَثِقَتِهِ. اللّهُمَّ وَأَسْأَلُكَ بِمَسائِلِكَ الشَّرِيفَةِ وَوَسائِلكَ المُنِيفَةِ أَنْ تَتَغَمَّدَنِي فِي هذا الشَّهْرِ بِرَحْمَةٍ مِنْكَ وَاسِعَةٍ وَنِعْمَةٍ وَازِعَهٍ وَنَفْسٍ بِما رَزَقْتَها قانِعَةٍ إِلى نُزُولِ الحافِرَةِ وَمَحَلِّ الآخرةِ وَما هِيَ إِلَيْهِ صائِرَةٌ( مصباح المتهجّد : 805)
زیارت رجبیہ
۷-
شیخ  طوسی (قدس الله روحه)نے حضرت امام العصر (عج)کے نائب خاص ابو القاسم حسین بن روح سے روایت کی ہے کہ رجب کے مہینے میں آئمہ میں سے جس امام عليه‌السلام کی ضریح مبارکہ پر جائے تو اس میں داخل ہوتے وقت یہ زیارت ماہ رجب پڑھے:

الحَمْدُ للهِ الَّذِي أَشْهَدَنا مَشْهَدَ أَوْلِيائِهِ فِي رَجَبٍ وَأَوْجَبَ عَلَيْنا مِنْ حَقِّهِمْ ما قَدْ وَجَبَ ، وَصَلَّى اللهُ عَلى مُحَمَّدٍ المُنْتَجَبِ وَعَلى أَوْصِيائِهِ الحُجُبِ ، اللّهُمَّ فَكَما أَشْهَدْتَنا مَشْهَدَهُمْ  فَانْجِزْ لَنا مَوْعِدَهُمْ وَأَوْرِدْنا مَوْرِدَهُمْ غَيْرَ مُحَلَّئِينَ عَنْ وِردٍ فِي دارِ المُقامَةِ وَالخُلْدِ وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ ؛ إِنِّي قد  قَصْدُتُكْم وَاعْتَمَدْتُكُمْ بَمَسْأَلَتِي وَحاجَتِي وَهِيَ فَكاكُ رَقَبَتِي مِنَ النَّار وَالمَقَرُّ مَعَكُمْ فِي دارِ القَرارِ مَعَ شِيعَتِكُمْ الاَبْرارِ ، وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ فنِعْمَ عُقْبى الدَّارِ أَنا سائِلُكُمْ وَآمِلُكُمْ فِيما إِلَيْكُمْ التَّفْوِيضُ وَعَلَيْكُمْ التَّعْوِيضُ ، فَبِكُمْ يُجْبَرُ المَهيضُ وَيُشْفى المَرِيضُ وَماتَزْدادُ الأَرْحامُ وَماتَغِيضُ. إِنِّي بِسِرِّكُمْ مُؤْمِنٌ 3، وَلِقَوْلِكُمْ مُسَلِّمٌ وَعَلى الله بِكُمْ مُقْسِمٌ فِي رَجْعِي بِحَوائِجِي وَقَضائِها وَإِمْضائِها وَإِنْجاحِها وَإِبْراحِها 4 وَبِشُؤُونِي لَدَيْكُمْ وَصَلاحِها، وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ سَلامَ مُوَدِّعٍ وَلَكُمْ حَوَائِجَهُ مُودِعٌ يَسْأَلُ الله إِلَيْكُمْ المَرْجِعَ وَسَعْيَهُ إِلَيْكُمْ غَيْرَ مُنْقَطِعٍ وَأَنْ يَرْجِعَنِي مِنْ حَضْرَتِكُمْ خَيْرَ مَرْجِعٍ إِلى جَنابٍ مُمْرِعٍ وَخَفْضِ مُوَسِّعٍ وَدَعَةٍ وَمَهَلٍ إِلى حِينِ الاَجَلِ وَخَيْرِ مَصِيرٍ وَمَحَلٍّ فِي النَّعِيمِ الاَزَلِ وَالعَيْشِ المُقْتَبَلِ وَدَوامِ الاُكُلِ وَشُرْبِ الرَّحِيقِ وَالسَّلْسَلِ  وَعَلٍّ وَنَهلٍ لاسَأَمَ مِنْهُ وَلا مَلَلَ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكاتُهُ ، وَتَحِيَّاتُهُ عَلَيْكُمْ حَتَّى العَوْدِ إِلى حَضْرَتِكُمْ وَالفَوْزِ فِي كَرَّتِكُمْ وَالحَشْرِ فِي زُمْرَتِكُمْ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكاتُهُ عَلَيْكُمْ وَصَلَواتُهُ وَتَحِيَّاتُهُ وَهُوَ حَسْبُنا وَنِعْمَ الوَكِيلُ

(مصباح المتهجّد : 821 - بحار الأنوار ( الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ( عليهم السلام ) ) : 95 / 390 ، للعلامة الشيخ محمد باقر المجلسي- ضائل الأشهر الثلاثة: 24، للشيخ أبي جعفر محمد بن علي بن حسين بن بابويه القمي المعروف بالشيخ الصدوق،- ابن طاووس في الاقبال 3 / 211 ، فصل 23.-  المصدر: مفاتيح الجنان للشيخ عباس القمي قدس سره.)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرض مترجم
ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شادمانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں ہر انسان چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک  کے لیئے قابلِ قدر ہے۔ مگر خاص طور پر ہماری مشرقی ماں تو ہوتی ہی وفا کی پُتلی ہے۔ جو جیتی ہی اپنے بچوں کیلئے ہے ۔ ویسے تو دنیا نے ماں کیلئے ایک خاص دن کا تعین کر دیا ہے( 1)  چونکہ ہم حضورِ اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی ہیں اور اسلام ہی ہمارا مکمل مذہب ہے اس لئے یہاں یہ ذکر ضرور کروں گا کہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیا کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں تو ایک ایسا پھول ہے جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو مہکاتی رہے گی۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ ماں کا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ آرام و راحت، چین و سکون، مہر و محبت، صبر و رضا اور خلوص و وفا کی روشن دلیل ہے۔(2 )
مقالہ حاضر ایک فارسی مقالہ کا ترجمہ ہے جسے آیت اللہ اسماعیلی نے تحریر کیا تھا۔ استاد محترم قبلہ حجۃ الاسلام شیخ غلام قاسم تسنیمی کے زیر نظر میں نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اصل مقالہ کی نسبت ترجمہ میں چند باتوں کا خیال رکھا:- 1- کسی بھی آیت، حدیث یا عربی عبارت کو متن میں ذکر نہیں کیا بلکہ انہیں پاورقی میں درج کیا تاکہ اہل تحقیق حضرات کے لئے آسان ہو جائے۔ 2-  حوالہ دیتے وقت  قدیمی کتابوں کو زیادہ ترجیح دیا۔ 3- بہت سی احادیث جو اصل مقالہ میں واضح نہیں کیا تھا انہیں واضح کر کے  بمعہ حوالہ ذکر کیا۔ 4- آیتوں کا ترجمہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی بلاغ القرآن سے لیا ہے۔5۔ آخر میں کتابنامہ کو اضافہ کیا تاکہ اہل تحقیق کے لئے ہر مشکل کا سد باب ہو جائے۔
قم حرم اہل بیت علیہم السلام، ربیع الثانی  1437 ہ ق۔
مقدمہ مولف
ماں باپ اپنی اولاد کے لئے خدا کے فضل و کرم کا ذریعہ ہیں، اور خدا کی رضایت ان کی رضایت میں ہے؛ اسی لئے خدا نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا وہاں والدین  کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا پس ہمیں بھی چاہیئے کہ  ان کے حقوق کو پہچان لیں اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ ان کے حقوق کو ادا کرنا اس بات پر  منحصر ہے کہ پہلے ہم ان کے حقوق کو جان لیں۔
حقوق کی تعریف
حقوق حق کی جمع ہے اور حق "حقق" کے مادہ سے نکلا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ہر کام یا بات حقیقت میں جس انداز میں ہو  جسطرح واجب ہو  جس وقت واجب ہو اسے اسی طرح انجام دینا  ہے۔ کتاب مختار الصحاح میں آیا ہے کہ حق الشئ ای وجب کسی چیز کا حق اس کا واجب ہونا ہے۔
حقوق والدین کی اہمیت
قرآن کریم کی متعدد آیات میں توحید کے فورا بعد والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم آِیا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں حقوق والدین کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ والدین کا احترام کرنا،  انبیاء علیہم السلام کی صفت ہے۔جیسے قرآن کریم میں خدا حضرت یحیٰ علیہ السلام کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتاہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش و نافرمان نہیں تھے( 3) ۔اور  حضرت عیسی علیہ السلام کی زبانی نقل ہوا ہے  کہ انہوں نے فرمایا کہ خدا نے مجھے اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے(4 )۔  اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی نے پوچھا کہ آدمی پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا والدین کا (5 )۔
ماں کون ہے؟
ماں کا لفظ اپنے عمومی اور بنیادی مفہوم میں اردو میں ایک ایسی ہستی کے لیے ادا کیا جاتا ہے کہ جس سے کسی بچے کی ولادت ہوئی ہو یعنی بچے کے والدین میں سے مونث رکن کو ماں کہا جاتا ہے۔ انسانی نسل کو آگے بڑھانے کے لئے عورت اور مرد کا جنسی اختلاط لازمی ہے۔ معاشرے میں اس قسم کے اختلاط کی قانونی شکل کو شادی کا نام دیا جاتا ہے، جس کی تفصیل تقریباًً تمام مذاہب میں موجود ہے۔ اس جنسی ملاپ کے دوران ماں ایک بیضۂ مخصبہ کا حمل اٹھاتی ہے جس کو ابتدا میں جنین اور پھر نو ہفتے کے بعد سے حمیل کہا جاتا ہے۔ حمل اٹھانے کا مقام جہاں حمیل اپنی پیدائش یا ولادت تک رہتا ہے اسے رحم  کہتے ہیں ، پیدائش کے بعد ماں کے پستان میں دودھ تخلیق پاتا ہے  جسے وہ اپنے بچے کو غذا فراہم کرنے کے لیے پلاتی ہے اس عمل کو رضاع کہا جاتا ہے۔ وہ عورت اور شریک مرد بچے کے حیاتیاتی اور معاشرتی باپ اور ماں کہلائے  جاتے ہیں۔ ماں باپ کے جوڑے کو والدین بھی کہا جاتا ہے۔
وجہ تسمیہ
ماں کے لیے دیگر الفاظ ؛ اماں ، امی ، ممی ، ماما اور مادر وغیرہ کے آتے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا لفظ دنیا کی متعدد زبانوں میں خاصا یکسانیت رکھنے والا کلمہ ہے، اور اس کی منطقی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ماں کے لیے اختیار کیۓ جانے والے الفاظ کی اصل الکلمہ ایک کائناتی حیثیت کی حامل ہے اور اسے دنیا کی متعدد زبانوں میں ، اس دنیا میں آنے کے بعد انسان کے منہ سے ادا ہونے والی چند ابتدائی آوازوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب بچہ رونے اور چلانے کی آوازوں کی حدود توڑ کر کسی مخصوص قسم کی آواز نکالنے کے قابل ہوتا ہے اور بولنا سکھتا  ہے تو عام طور پر وہ اُم اُم / ما ما / مم مم / مما مما (پا پا) وغیرہ جیسی سادہ آوازیں نکالتا ہے اور محبت اور پیار کے جذبے سے سرشار والدین نے ان ابتدائی آوازوں کو اپنی جانب رجوع کر لیا جس سے ماں کے لیے ایسی آوازوں کا انتخاب ہوا کہ جو نسبتاً نرم سی ہوتی ہیں یعنی میم سے ابتدا کرنے والی اور باپ کے لیے عموماً پے سے شروع ہونے  والی آوازیں دنیا کی متعدد زبانوں میں پائی جاتی ہیں۔
ماں کو عربی زبان میں اُم کہتے ہیں‌، اُم قرآن مجید میں 84 مرتبہ آیا ہے ، اس کی جمع اُمھات ہے ، یہ لفظ قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ آیا ہے ، صاحب محیط نے کہا ہے کہ لفظ اُم جامد ہے اور بچہ کی اس آواز سے مشتق ہے جب وہ بولنا سیکھتا ہے تو آغاز میں اُم اُم وغیرہ کہتا ہے اس سے اس کے اولین معنی ماں کے ہوگئے ، ویسے اُم کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کی اصل ، اُم حقیقت میں یہ تین حرف ہیں‌(ا+م+م ) یہ لفظ حقیقی ماں‌پر بولا جاتا ہے اور بعید ماں پہ بھی ۔ بعید ماں سے مراد نانی، دادی وغیرہ یہی وجہ ہے کہ حضرت حوا  رضی اللہ عنہا کو امنا ( ہماری ماں‌) کہا جاتا ہے ۔
خلیل نحوی کا قول ہے ۔ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات سما جائیں‌وہ ان کی اُم کہلاتی ہے ۔ جیسے لوح محفوظ کو اُم الکتاب کہا گیا کیونکہ وہ تمام علوم کا منبع ہے ، مکہ مکرمہ کو اُم القری کہتے ہیں کیونکہ وہ خطہ عرب کا مرکز ہے ، کہکشاں کو اُم النجوم کہتے ہیں کیونکہ اس میں بہت سے ستارے سمائے ہوتے ہیں ، جو بہت مہمانوں کو جمع کرے اُسے اُم الضیاف کہتے ہیں ، سالار لشکر کو اُم الجیش کہتے ہیں ۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ اُم کے چار معنی ہیں :- (بنیاد و  اصل) (2) مرجع (6) جماعت (7) دین( 8)
ماں کا حق مقدم ہے
والدین میں سے ماں کا حق  مقدم ہے یہاں چند احادیث کی طرف اشارہ ہوگا  جن سے والدہ کے حق کا والد کے حق پر مقدم ہونا معلوم ہو جائے گا:
1-    ایک آدمی رسول خدا کےپاس آیا اور عرض کیا  کہ کون زیادہ حقدار ہے جس کے ساتھ میں نیک سلوک کروں؟ تو آپ نے فرمایا : تیری ماں۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ ماں کے بعد؟ تو آپ ص نے جواب دیا تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا اس کےبعد؟  پھر بھی آپ ص نے جواب دیا کہ تیری ماں۔ اس نے وہی سوال پھر تکرار کیا تو آپ ص نے فرمایا تیرا والد(9)۔
2-    اسی طرح ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور والدین سے نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو  آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو ۔ اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو،  اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، رسول اللہ نے باپ سے پہلے ماں کا ذکر کیا( 10)۔
ان احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ماں کے ساتھ نیکی کرنا باپ سے پہلے ہےاور رسول اللہ کا ان دو نیکیوں کو تکرار کرنا ان کی اہمیت کی خاطر ہے۔
3-    ایک اور حدیث میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:  کہ حضرت موسی بن عمران علیہ السلام نے   خدا سے التجاء کی کہ پالنے والے ! مجھے  وصیت (نصیحت) کیجیئے تو خدا نے فرمایا میں تجھے میرے بارے میں وصیت کرتا ہوں ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے وہی سوال پھر دہرایا خدا نے دوبارہ وہی وصیت کی، حضرت موسی علیہ السلام نے پھر  سوال دہرایا تو خدا نے جواب میں فرمایا میں تجھے تیری ماں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، حضرت موسی نے پھر التجاء کی تو خدا نے فرمایا: میں تجھے تیری ماں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں،   میں تجھے باپ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں(11 )۔
خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کو دومرتبہ  اپنی ذات کے بارے میں سفارش کی  ، دو مرتبہ والدہ کے بارے میں اور ایک مرتبہ والد کے بارے میں ۔ اس حدیث سے کئی نکتے ہماری سمجھ میں آتے ہیں:
•    خدا وند عالم باپ سے پہلے ماں کی سفارش کرتاہے۔
•    خدا نے اپنے برابر ماں کی سفارش کی ہے۔
•    خدا وند عالم حضرت موسی علیہ السلام کو جو نبی اور معصوم ہیں، ماں کے بارے میں سفارش کر رہا ہے۔ اور اسے دو بار دہراتا ہے یہ حق ممتا کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
4-    پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: ماں کا حق باپ کے دوگنا ہے(12 )۔
5-    علی ابن الحسین علیہما السلام فرماتے ہیں: حقوق میں سے جس ہستی کا حق تم پر سب سے زیادہ ہے وہ تیری ماں ہے اور اس کے بعد تیرا باپ۔(13 )
6-    اسی طرح روایت میں آیا ہے کہ ایک آدمی رسول خدا صلی اللہ علیہ  و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! والدین میں سے کس کا حق بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسی کا جس نے تجھے اپنے دونوں پہلوؤں( 14) کے درمیان اٹھائے رکھا ہے( 15)۔
7-    اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: خدا تم لوگوں کو تمہاری ماؤں کے بارے میں سفارش کرتا ہے اور اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا کہ اس کے بعد رشتہ داری میں جو نزدیک سے نزدیک تر ہے اس کی سفارش کرتا ہے۔( 16)
8-    فقہ الرضا علیہ السلام میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: جان لو کہ ماں کا حق باپ سے زیادہ واجب اور لازم حقوق میں سے ہے( 17)۔ یہ بھی اہمیت ممتا کو اجاگر کرنے کے لئے ہے۔
9-    خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرمایا : آگاہ ہوجاؤ کہ ماں کی خوشنودی میری خوشنودی اور ماں کی ناراضگی میری ناراضگی ہے۔( 18)
حق مادر کی ادائیگی سے ناتوانی
امام  سجاد علیہ السلام رسالہ حقوق میں ارشاد فرماتے ہیں: ماں کا حق یہ ہے کہ تم اسے پہچانو کہ وہ کون ہے اور یہ جان لوکہ وہی اپنے شکم میں تمہارا بوجھ اٹھائے رہی اور اپنے تمام احساسات اور قوتوں کے ساتھ تمہاری حفاظت کرتی رہی۔ تمہیں بھوک و پیاس سے بچانے کے لئے خود بھوک و پیاس برداشت کرتی رہی۔ خود برہنہ تک رہی مگر تم کو لباس پہنایا۔ خود دھوپ میں رہی مگر تم کو سایے میں رکھا۔ تمہارے آرام کے ٖلئے وہ جاگتی رہی مگر تمہیں سلاتی رہی۔ تمہارے لئے اس نے گرمی ، سردی، بھوک، پیاس اور طرح طرح کی تکلیفیں جھیلیں تاکہ تم اس کےفرزند سعید بنو۔ اس کے احسانات اتنے ہیں کہ ممکن نہیں کہ تم بغیر اللہ کی مدد کے اس کے احسانات کا بدلہ دے سکو یا اس کا شکریہ ادا کر سکو( 19)۔
روایات میں آیا ہے کہ ایک دن کسی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ  ماں کا حق کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا  تم کھبی بھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتے ہو۔ اگر فرزند صحرا کی ریت کے ذرات، بارش کے قطرات کے برابر بھی والدہ کے حق کو ادا کرنے کی کوشش کرے تو بھی اس ایک دن کے برابر نہیں ہو جائے  گا جس دن ماں نے اس کو اپنی شکم میں اٹھائے رکھا ہے۔( 20 )
اسی طرح ایک اور روایت میں مروی ہے کہ  کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا کہ میری ماں بوڑھی ہو چکی ہے اور وہ اس وقت میرے پاس ہے میں اسے اپنے کاندھوں پہ اٹھاتا ہوں ، اپنےکسب و  مزدوری سے اسے کھلاتا ہوں اپنے ہاتھوں سے اس کے منہ ہاتھ صاف کرتا ہوں، ان تمام کے باوجود بھی شرمندگی سے میں اس سے منہ چھپاتا ہوں۔ کیا میں نے  اس کا حق ادا کیا ہے؟  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں ( تم نے پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا ہے،   اور تم اس کا حق ادا کرو تو بھی کیسے کرو گےاس نے تمہیں اپنے شکم میں اٹھائے رکھا ہے) اس لئے کہ اس کا پیٹ تمہاری جگہ تھا اس کے پستان تمہاری  پیاس بجھانے کا سبب تھ  ۔۔۔۔۔۔ وہ یہ سب کرتی تھی اور ساتھ یہ بھی تمنا کرتی تھی کہ تم زندہ رہو اور تم اس کے ساتھ یہ سب  کر رہے ہو اور تیری خواہش ہے کہ وہ مر جائے۔( 21)
حقوق والدین
قرآن و حدیث میں ماں اور باپ کے حقوق ایک ساتھ ذکر ہوئے ہیں  ہم بھی یہاں پر اجمالا بعض مشترک حقوق اور بعض ماں کے ساتھ مخصوص حقوق کو بیان کریں گے:
1- نیک رفتاری
والدین اور مخصوصا ماں کو  اپنی دنیوی امور  کے سلسلے میں رنج و مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہیئے۔اگر چہ والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں۔جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ ان دونوں کے ساتھ دنیا میں اچھا برتاؤ کریں(22 )۔
2- دعا اور استغفار
اولاد پر ماں باپ کے حقوق میں سے ایک اور حق ان کے لئے دعا کرنا ہے؛ جیسا   کہ مستحب ہے کہ ان کے لئے یہ دعا پڑھی جائے قرآن کریم  سورہ مبارکہ اسراء  آئی ہے کہ وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً (23 ) اور دعا کرو: پروردگارا! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔
آیت اللہ جوادی آملی اس آیت کی شرح میں فرماتے ہیں کہ: اس آیت میں لفظ "ربیانی" آیا ہےیعنی مجھے بچپنے میں پالا(24 ) اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین پر ضروری ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دیں اس لئے کہ وہ جتنا اولاد کی پرورش کریں گے اور ان کی تربیت کریں گے اسی حساب سے اپنے اولاد پر حق رکھیں گے۔
3- والدین کا شکریہ ادا کرنا
خدا وند عالم قرآن کریم  میں ارشاد فرماتا ہے کہ: میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو) ( 25)۔
اس آیت کی وضاحت میں ایک بات کی طرف اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کی ذات وہ ہستی ہے جس نے ہمیں نعمتیں دی ہیں اور عقل یہ کہتی ہے کہ نعمت دینے والے منعم کا شکر بجالانا واجب ہے اور خدا نے جو نعمتیں انسان کو دی ہیں ان میں سے ایک نعمت والدین ہیں۔ والدین کے ذریعے خدا  ہم پر احسان کرتا ہے، انسان کا وجود میں آنا ہے ان دونوں پر منحصر ہے۔پس والدین نعمت خدا ہیں اور منعم بھی ؛ اسی لئے پہلے ضروری ہے کہ خدا کا شکر ادا  کریں کہ اس نے  والدین کی نعمت سے ہمیں نوازا   اور پھر والدین کا شکر ادا کریں کہ وہ  سبب نزول نعمت ہیں ہماری خاطر یہ قسم قسم کی مشکلات جھیلتے ہیں۔ اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ ان مشکلات کے بدلے میں ان کے ساتھ نیکی کریں۔ ان نعمتوں کاخراج تحسین پیش کرنے کے لئے والدین کا شکریہ ادا کریں۔ خدا نے ان کے شکریہ ادا کرنے کو اپنے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ قراردیا۔ ہاں شکریہ ادا کرنا صرف لقلقہ زبان  سے نہیں ہے بلکہ دل میں احترام،  عمل  سے نیکی اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی خاطر قدم اٹھانا ہے۔ ایک شاعر  نے  اپنی ماں سے خطاب کر کے  کیا خوب کہا ہے:
جہاں جہاں ہے میری  دشمنی سبب میں ہوں *** جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے( 26)۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اولاد پر والدین کے لئے تین چیزیں واجب ہیں:1- ہر حال میں ان کا شکر ادا کرنا۔ 2- والدین کی اطاعت کرنا معصیت کے علاوہ باقی تمام کاموں میں چاہے وہ کسی چیز کے کرنے کا حکم دیں یا کسی چیز  سے بچنے کا حکم دیں۔ 3- ان کے سامنے اور پیٹھ پیچھے ان کی بھلائی چاہنا۔( 27)
3- ادب کی رعایت اور  گلہ شکوہ سے پرہیز
قرآن کریم میں خدا ارشاد فرماتا ہے: انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا، اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو۔
اس آیت میں لفظ "اخفض"  کے ساتھ لفظ "ذل" آیا ہے دونوں کا معنی والدین کے ساتھ نرمی اور تواضع  سے پیش آنے کے ہیں، دو ہم معنی لفظ کا تکرار  اس کام کی تاکید پر دلالت کرتا ہے۔
والدین کے ساتھ نرمی اور تواضع محبت قلبی اور رحمت کی رو سے ہونہ کہ جبر و اکراہ سے۔
والدین کو "اف" تک کہنے سے پرہیز کے سلسلے میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: کم سے کم عاق اف کہنا ہے اگر خدا  کے  علم میں اس سے بھی کم تر اور آسان لفظ ہوتا تو اس سے بھی نہی فرماتے۔  پس چھوٹا سا کام یا رفتار بھی اگر ان کی اذیت کا باعث بنے تو اس سے بچنا چاہیئے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے: اگر والدین تمہیں دکھ پہنچائیں تو بھی انہیں اف نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا ، اگر وہ تمہیں ماریں تو کہنا  کہ "خدا تمہیں بخش دے" یہی سب سے اچھی بات ہے کہ خدا قرآن میں اس کا حکم دے رہا ہے،  اور والدین کی طرف مہربانی اور رحمت کے سوا نظر نہ کریں اپنی آواز کو ان کی آواز سے  اونچا نہ کریں اپنے ہاتھوں کو ان کے ہاتھوں سے اونچا نہ کریں اپنے پاؤں(قدموں) کو ان کے پاؤں سے آگے نہ کریں ( 28 )۔ہاتھوں کو اونچا کرنا ایک کنایہ ہے کہ عرب جب بات کرتے تھے ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے تھے۔ جیسے اس دور میں بھی بعض لوگوں کی عادت ہے ہے بات کرتے وقت مسلسل اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہیں۔
4- والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا
قرآن کریم میں کئی مقامات پر والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید ہوئی ہے۔  سورہ بقرہ میں ارشاد رب العزت ہے: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور  والدین پر احسان کرو (29 )۔ اس آیت مبارکہ میں تین باتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے:
1-    والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا خدا کی عبادت اور بندگی کے ساتھ ہم  ردیف ہے۔
2-    والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم صرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ  و آلہ و سلم کے دین یعنی دین اسلام میں نہیں ہے بلکہ  باقی ادیان میں بھی تھا۔
3-    والدین کے ساتھ احسان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے خدا نے بنی اسرائیل سے اس چیز کا عہد لیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم باربار کیوں آیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو والدین کے حقوق کی  اہمیت کے لئے ہے، اور دوسری بات  یہ ہے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کی دیکھ بھال کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ہے اسی لئے قرآن کریم نے بار بار "اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کریں"کا جملہ دہرایا ہے۔
ایک دن ابو ولاد حناط نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے  "و بالوالدین احسانا" کے بارے میں پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا  احسان یہ ہے کہ ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ، اور ان کو دوست رکھو اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رہن سہن کرنے سے دریغ نہ کرو اور انہیں مجبور نہ کرو کہ جس چیز کی ضرورت ہو اسے تم سے مانگیں اگر چہ وہ دونوں بے نیاز ہی کیوں نہ ہوں۔( 30)
خواجہ نصیر الدین طوسی والدین اور اولاد کا ایک دوسرے پر احسان کرنے سے متعلق فرماتے ہیں:
والدین کا اولاد سے محبت کرنا طبیعی  اور فطری ہے اور  اولاد کا والدین  سے محبت کرنا ارادہ اور اختیار سے ہے اسی لئے تمام ادیان میں اولاد کے لئے حکم ہے کہ وہ والدین کے ساتھ احسان کریں۔ والدین کے حقوق میں ماں اور باپ میں فرق ہے   والد کے حقوق روحانی اور معنوی ہیں اس لئے رشد فکری کے بعد  اس کا مرحلہ آتا ہے لیکن ماں کے حقوق جسمانی اور عاطفی ہے اس لئے اولاد بچپن میں ہی اس کو احساس کرتا ہے اور ماں کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے۔اس لئے باپ کے حقوق اطاعت کرنے، اس کے لئے دعا کرنے اور اس کی امر و نہی  کو قبول کرنےسے ادا ہو جاتے ہیں لیکن ماں کے حقوق ادا کرنے کے لئے مال کی قربانی دینی پڑتی  ہے اور ان کاموں کو انجام دینا پڑتا ہے جن سے اس کے جسم کو آرامش پہنچے(31 )۔
5- والدین کے ساتھ نیکی  زندگی میں اور مرنے کے بعد
نیکی یا بر َ یہ ہے کہ جس چیز کو ہم چاہتے ہیں وہی  دے دیں اس لئے کہ ابرار کا مقام یہی ہے یعنی وہ اپنی محبوب شئ کو دے دیتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:  کون سی چیز ایسی ہے جو تمہارے  اور والدین کے ساتھ  ان کی زندگی اور مرنے کے بعد احسان کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہو؛ والدین کے لئے نماز پڑھیں، صدقہ دیں، حج بجا لائیں اور روزہ رکھیں اور اسی طرح کی نیکیاں بجا لائیں اس لئے کہ اس کام سے خدا تمہیں نیک اجر دے گا  اسی طرح روایت میں آیا ہے کہ کوئی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھے نصیحت کیجیئے تو آپ نے فرمایا: والدین کی اطاعت کرو  ان کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ دونوں زندہ ہوں یا مر چکے ہوں۔ اگر وہ  دونوں تجھے حکم دیں کہ اپنے مال اور گھر سے ہاتھ اٹھاو  تو اسے بھی انجام دے دوچونکہ یہ کام بھی ایمان کا حصہ ہے( 32)۔
علامہ مجلسی ان والدین کے ساتھ احسان کرنے کے بارے میں جو زندہ نہیں ہیں ۔کہتے ہیں کہ: والدین کے لئے استغفار کرنے، ان کے قرضوں کو ادا کرنے، ان کی عبادتوں کی قضا بجالانے، ان کے لئے نیک کام کرنے، صدقہ دینے اور ہر ثواب والے کام کرنے کے ذریعے ان کے ساتھ احسان کریں( 33)۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: والدین کے ساتھ نیکی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ نے اپنے معبود کی معرفت حاصل کی ہے؛ اس لئے کہ کوئی بھی عبادت والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے  زیادہ خدا کو جلدی راضی نہیں کر سکتی ہے؛ چونکہ والدین کے حقوق،  اللہ کے حقوق سے مشتق ہوئے ہیں۔(34 )
والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے اثرات
والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بہت زیادہ اثرات ہیں:
1-    والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے انسان کی اپنی اولاد اس سے نیکی کرے گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو کہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیکی کرے ۔( 35)
2-    عمر میں برکت: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: جو کوئی اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے گا اللہ اس کی عمر میں برکت دے گا( 36 )۔
3-    احتضار کے وقت سکرات موت میں آسانی: امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو یہ چاہے کہ خدا اس کی سکرات الموت کو آسان کرے تو اس کو چاہیئے کہ صلہ ارحام کریں اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے، اسی طرح خدا اس پر سکرات الموت کو آسان کرے گا۔( 37)
شہید اول اپنی کتاب "قواعد" ( 38) میں حقوق والدین میں سےبعض کو یوں بیان کرتے ہیں:1- مباح سفر یہاں تک کہ مستحب سفر والدین کی اذن کے بغیر حرام ہے۔ 2- ان کی اطاعت کرنا ہر کام میں واجب ہے اگر چہ وہ کام مشکوک ہی کیوں نہ ہو، جب تک گناہ کا کام نہ ہو۔ 3- اگر نماز کا وقت  آ پہنچا ہو اور والدین کسی کام کا حکم دیں تو پہلے وہ کام انجام دیں اور بعد میں نماز پڑھیں( 39)۔ 4- والدین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد کو جہاد کفائی (یعنی وہ جہاد جسے اگر بعض لوگ انجام دیں تو دوسروں سے ساقط ہو جاتی ہے) سے روکیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: مرد کے لئے سزاوار نہیں کہ وہ جہاد  کے  لئے نکلے جب کہ اس کے لئے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک ہو مگر  پہلے ان سے اذن لے( 40) ۔ علامہ حلی فرماتے ہیں : اگر کسی کے مسلمان والدین ہوں  تو ان کی اذن کے بغیر اس پر جہاد نہیں ہے( 41)۔
والدین پر انفاق
اسی طرح اگر والدین استطاعت نہ رکھتے ہوں تو ان  کا نفقہ  اولاد پر واجب ہے اور خدا کی راہ میں انفاق کئے جانے والے نفقوں میں سے یہ سب سے زیادہ با فضیلت نفقہ ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: کیا تم لوگ جانتے ہیں کہ راہ خدا میں سب سے افضل نفقہ کون سا ہے؟ سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ اس وقت آپ ص نے فرمایا کہ سب سے افضل نفقہ اولاد کا اپنے والدین پرکیا  جانے والا نفقہ ہے( 42)۔
عاق والدین
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:  حقوق والدین کا پامال کرنا ، عاق ہونے والے اسباب میں سے ایک ہے(43 ) ۔  محقق خوانساری اس حدیث کی وضاحت میں رقمطراز ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین سے عاق ہونا صرف یہ نہیں کہ  ان کے ساتھ برا سلوک کیا جائے اور انہیں اذیت پہنچائی جائے بلکہ ان کے حقوق ادا نہ کرنے، ان کی اطاعت نہ کرنے جیسی حرکتیں بھی عاق ہونے کا باعث بن سکتی ہیں اور اس کا انجام بہت برا ہے( 44)۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ماں سے عاق ہونا حرام ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ماں سے عاق ہونے سے نہی فرمایا ہے( 45 )۔ آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں : والدین کا عاق ہونا گناہ کبیرہ ہے۔ بیوی بچوں کا عاق ہونا حرام نہیں ہے بلکہ والدین کا عاق ہونا حرام ہے۔ پس ہمیں چاہیئے کہ ان کاموں سے بچیں جن کی وجہ سے عاق ہو جاتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: عاق والدین سے بچیں اس لئے کہ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال راستے کے فاصلے سے آتی ہے لیکن کبھی بھی والدین کاعاق شدہ اسے نہیں سونگھ سکتا ہے۔(46 )
عاق ہونے والے عوامل
والدین کی طرف ٹیڑی آنکھوں سے دیکھنا  عاق ہونے والے اسباب میں سے ایک ہے۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں  انسان کا اپنے والدین کی طرف ٹیڑی آنکھوں سے دیکھنا  عاق ہونے کا باعث بنتا ہے( 47)۔ اگر چہ ماں باپ اپنی اولاد پر ظلم کرتے ہوں پھربھی اولاد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے ۔  اور والدین کے عاق ہونے کا نتیجہ، نماز کا قبول نہ ہونا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:   جو کوئی اپنے والدین  کی طرف نفرت سے دیکھے جب کہ والدین نے اس پر ظلم کیا ہو تو بھی  اس کی نماز قبول نہیں ہو گی(48 )۔
اسی طرح ہمیں معلوم ہونا چاہے کہ  ہوسکتا ہے کوئی والدین کی زندگی میں  ان کو راضی کرنے میں کامیاب رہے لیکن مرنے کے بعد  ان کے حقوق کو ادانہ کرنے کی باعث  عاق ہو جائے۔ اور اس کے برعکس کوئی ان کی زندگی میں تو عاق ہوجائے لیکن مرنے کے بعد  ان کے قرضوں کو ادا کرنےاور  ان کے لئے نیک کام کرنے  کی وجہ سے ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
ان باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ والدین خاص کر ماں کے حقوق واجب حقوق میں سے ہیں اور آیات وروایات میں اس کی بہت زیادہ اہمیت وارد ہوئی ہے اور اس  کی  بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔

 

(1 ) ایران میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کے دن کو ماں سے مخصوص کیا گیا ہے  اور اسے یوم مادر کہا جاتا ہے، اس دن وہ اولاد بھی جو سال بھر اپنی ماں کی ملاقات کو نہ  گئی ہو اس سے ملنے جاتے ہیں بیٹے بیٹیاں اپنی ماں کے لئے خصوصی تحفہ تحائف کا بندوبست کرتے ہیں۔ (مترجم)
(2 ) محمد جاوید اقبال صدیقی کی تحریر سے اقتباس۔ http://www.geourdu.com/columns-and-
( 3) سورہ مریم : 14۔
(4 ) سورہ مریم : 32
( 5) عن ابی جعفر ع قال" جاءت امراة الی النبی ص ... فقالت: یا رسول اللّہ من اعظم حقا علی الرجل قال: والداہ، (کاشانی، فیض، محمد محسن ابن شاہ مرتضی، الوافی الوافی؛ ج‌22، ص: 773)۔
(6 ) اردو ویکیپیڈیا، لفظ "ماں"۔
( 7) وَ جَاءَ فِی الْحَدِیثِ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صِحَابَتِی قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أَبُوكَ (احسایی، ابن ابی جمہور، محمد بن علی، عوالی اللئالی العزیزیة، ج‌1، ص: 444 باب اول مسلک الثالث، حدیث نمبر 165۔)
(8 ) عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَ سَأَلَ النَّبِيَّ ص عَنْ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ فَقَالَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أَبَاكَ ابْرَرْ أَبَاكَ ابْرَرْ أَبَاكَ وَ بَدَأَ بِالْأُمِّ قَبْلَ الْأَبِ. (کلینی، ابو جعفر، محمد بن یعقوب، الکافی، ج‌2، ص: 162)۔
( 9) عَنِ الْبَاقِرِ ع أَنَّهُ قَالَ: قَالَ مُوسَی بْنُ عِمْرَانَ ع يَا رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِی قَالَ فَقَالَ رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُصِیكَ بِی ثَلَاثاً قَالَ يَا رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِأُمِّكَ قَالَ رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِأُمِّک قَالَ رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِأَبِیكَ قَالَ فَكَانَ يُقَالُ لِأَجْلِ ذَلِكَ أَنَّ لِلْأُمِّ ثُلُثَيِ الْبِرِّ وَ لِلْأَبِ الثُّلُثَ (نوری، محدث، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج15، ص 181)۔
(10 ) خوانساری، جمال‏الدین محمد. شرح غررالحکم و دررالکلم. تہران: دانشگاہ تہران،  1373ج۔
( 11) وَ أَوْجَبُهَا عَلَيْكَ‏ حَقُ‏ أُمِّكَ‏ ثُمَ‏ حَقُّ أَبِیكَ (ابن بابویه، محمد بن علی، الخصال، ج2، ص565)۔
( 12) یعنی ماں کا جس نے تجهے نو مهینه اپنے پیٹ میں رکها اور تمام مشکلات کے باوجود تیری حفاظت کی۔
( 13) رُوِيَ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ص يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْوَالِدَيْنِ‏ أَعْظَمُ‏  قَالَ الَّتِی حَمَلَتْهُ بَيْنَ الْجَنْبَيْن‏ (نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج‏15 ؛ ص182)۔
( 14) انّ اللَّه تعالی یوصیکم بامّہاتکم‏ ثلاثا، انّ اللَّه تعالی یوصیکم بآبائکم مرّتین انّ اللَّہ تعالی یوصیکم بالاقرب فالاقرب (پاینده، ابو القاسم، نہج الفصاحة (مجموعه کلمات قصار حضرت رسول صلی الله علیه و آله)، ص 312، حدیث نمبر 778)۔
(15 ) و اعلم ان حق الام الزم الحقوق و اوجبها (منسوب به امام رضا، علی بن موسی علیهما السلام، الفقه - فقه الرضا، ص 334)۔
(16 ) یا موسی الا انّ‏ رضاہا رضای و سخطہا سخطی (کبیر مدنی، سید علیخان بن احمد، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، ج 7، ص51)۔
( 17)  حریری، محمد یوسف، صدائے سجاد؛ ترجمہ سید حسن امداد، ص 115۔
(18 ) قِیلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ الْوَالِدِ قَالَ أَنْ تُطِیعَهُ مَا عَاشَ قِیلَ وَ مَا حَقُّ الْوَالِدَةِ فَقَالَ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لَوْ أَنَّهُ عَدَدَ رَمْلِ‏ عَالِجٍ‏ وَ قَطْرِ الْمَطَرِ أَيَّامَ الدُّنْيَا قَامَ بَيْنَ يَدَيْهَا مَا عَدَلَ ذَلِكَ يَوْمَ حَمَلَتْهُ فِی بَطْنِهَا (ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة، ج1 ص 269)۔
(19 ) أَبُو الْقَاسِمِ الْكُوفِيُّ فِی كِتَابِ الْأَخْلَاقِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ ص إِنَّ وَالِدَتِی بَلَغَهَا الْكِبَرُ وَ هِيَ عِنْدِی الْآنَ أَحْمِلُهَا عَلَی ظَهْرِی وَ أُطْعِمُهَا مِنْ كَسْبِی وَ أُمِیطُ عَنْهَا الْأَذَىَ بِيَدِی وَ أَصْرِفُ عَنْهَا مَعَ ذَلِكَ وَجْهِيَ اسْتِحْيَاءً مِنْهَا وَ إِعْظَاماً لَهَا فَهَلْ كَافَأْتُهَا قَالَ لَا لِأَنَّ بَطْنَهَا كَانَ لَكَ وِعَاءً وَ ثَدْيَهَا كَانَ لَكَ سِقَاءً وَ قَدَمَهَا لَكَ حِذَاءً وَ يَدَهَا لَكَ وِقَاءً وَ حِجْرَهَا لَكَ حِوَاءً وَ كَانَتْ‏ تَصْنَعُ‏ ذَلِكَ‏ لَكَ‏ وَ هِيَ تَمَنَّی حَيَاتَكَ وَ أَنْتَ تَصْنَعُ هَذَا بِهَا وَ تُحِبُّ مَمَاتَهَا (نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ج‏15 ؛ ص180)۔
( 20)وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْيَا مَعْرُوفاً سورہ لقمان : 15۔
(21 ) سورہ اسراء: 24۔
  یہ نہیں فرمایا "والدانی" مجھے پیدا کیا۔
(22 ) انِ اشْكُرْ لِی وَ لِوَالِدَيْكَ سورہ لقمان : 14۔
(23 ) وصی شاہ۔
( 24) وَ يَجِبُ لِلْوَالِدَيْنِ عَلَی الْوَلَدِ ثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ شُكْرُهُمَا عَلَی كُلِّ حَالٍ وَ طَاعَتُهُمَا فِیمَا يَأْمُرَانِهِ وَ يَنْهَيَانِهِ عَنْهُ فِی غَيْرِ مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَ نَصِیحَتُهُمَا فِی السِّرِّ وَ الْعَلَانِيَةِ (ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ، ص 322)۔
( 25) عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع أَنَّهُ قَالَ: أَدْنَی الْعُقُوقِ أُفٍّ وَ لَوْ عَلِمَ‏ اللَّهُ‏ شَيْئاً أَهْوَنَ مِنَ الْأُفِّ لَنَهَی عَنْهُ. (ابن بابویه، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیه السلام، ج2؛ ص44)۔
(26 ) ان اضجراک فلا تقل لہما اف، وَ لا تَنْهَرْهُما ان ضرباک‏ قال: «وَ قُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِیماً» قال: یقول لهما: غفر الله لکما. فذلک منک قول کریم، و قال «وَ اخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ» قال لا تملا عینیک من النظر الیهما- الا برحمة و رقة- و لا ترفع صوتک فوق اصواتهما- و لا یدیک فوق ایدیهما و لا تتقدم قدامهما (عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، ج2؛ ص285)۔
( 27) سورہ اسرا : 17، سورہ عنکبوت : 29، سورہ احقاف : 46، سورہ بقرہ : 83۔
(28 ) وَ إِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً (سورہ بقرہ : 83)۔
(29 ) عن ابی ولاد الحناط قال: سالت ابا عبد اللہ علیہ السلام عن قول الله عز و جل‏ «وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً» ما هذا الاحسان؟ فقال: الاحسان ان تحسن صحبتهما و ان لا یکلفهما ان یسالاک شیئا مما یحتاجان‏ الیه، و ان کانا مستغنیین‏ (العروسی الحویزی، عبد علی بن جمعة، تفسیر نور الثقلین، ج1، ص363)۔
(30 ) محمد سپهری. ترجمه و شرح رساله الحقوق امام سجاد، ص 134 و 135۔
(31 ) مَا يَمْنَعُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ أَنْ يَبَرَّ وَالِدَيْهِ حَيَّيْنِ وَ مَيِّتَيْنِ؟ يُصَلِّی عَنْهُمَا، وَ يَتَصَدَّقُ عَنْهُمَا، وَ يَحُجُّ عَنْهُمَا، وَ يَصُومُ عَنْهُمَا فَيَكُونُ الَّذِی صَنَعَ لَهُمَا وَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ فَيَزِیدُهُ اللَّهُ بِبِرِّهِ وَ صَلَاتِهِ‏ خَيْراً كَثِیراً. (شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، هدایة الامة الی احکام الائمة علیهم السلام، ج7)۔
( 32) مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْصِنِی فَقَالَ‏ ۔۔۔ وَ وَالِدَيْكَ فَأَطِعْهُمَا  وَ بَرَّهُمَا حَيَّيْنِ كَانَا أَوْ مَيِّتَيْنِ وَ إِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَ مَالِكَ فَافْعَلْ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْإِیمَانِ.( الکافی، ج‏2 ؛ ص158)۔
( 33) مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، ج8، ص416۔
(34 ) بِرُّ الْوَالِدَيْنِ‏ مِنْ‏ حُسْنِ‏ مَعْرِفَةِ الْعَبْدِ بِاللَّهِ تَعَالَی إِذْ لَا عِبَادَةَ أَسْرَعُ بُلُوغاً لِصَاحِبِهَا إِلَی رِضَاءِ اللَّهِ مِنْ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ الْمُؤْمِنَيْنِ لِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَی لِأَنَّ حَقَّ الْوَالِدَيْنِ مُشْتَقٌّ مِنْ حَقِّ اللَّہ‏ (منسوب به جعفربن محمد علیه السلام، امام ششم علیه السلام، مصباح الشریعة، ص70)۔
( 35) بَرُّوا آبَائَكُمْ‏ يَبَرَّكُمْ أَبْنَاءُكُمْ. (لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، ص 195 حدیث نمبر 3985)۔
( 36) مَنْ‏ بَرَّ بِوَالِدَيْهِ‏ زَادَ اللَّهُ فِی عُمُرِہ (طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، ص 162)۔
( 37) وَ قَالَ الصَّادِقُ ع‏ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُخَفِّفَ‏ اللَّهُ‏ عَنْهُ‏ سَكَرَاتِ‏ الْمَوْتِ فَلْيَكُنْ بِقَرَابَتِهِ وَصُولًا وَ بِوَالِدَيْهِ بَارّاً فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ هَوَّنَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ (مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوارالجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار، ج79، ص65)۔
(38 ) قاعدة- 162 تتعلق بحقوق الوالدین (عاملی، شهید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، ج‌2، ص: 46)۔
(39 ) (مترجم)یہاں وقت نماز سے مراد فضیلت کا وقت ہے وگرنہ اگر نماز کا وقت تنگ ہو اور ان کی اطاعت کرنے سے نماز چھوٹ جانے کا خطرہ ہو تو نماز ہی واجب ہے۔
(40 )(مترجم) لا ینبغی للرجل ان یخرج الی الجہاد و لہ اب او ام الا باذنہما۔ آیت اللہ اسماعیلی نے تو اسی عبارت کا حوالہ شرح رسالۃ الحقوق سے دیا ہے لیکن مذکورہ کتاب یا دوسری کتب حدیثی میں یہ جملہ مجھے نہیں ملا ، ہاں اسی مضمون میں کافی روایتیں موجود ہیں۔
( 41) فمن کان له ابوان مسلمان او احدهما لیس له الجهاد الّا باذنهما (حلّی، علامه، حسن بن یوسف بن مطهر اسدی، تذکرة الفقهاء، ج9 ، ص29)۔
( 42) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ: هَلْ تَعْلَمُونَ أَيُّ نَفَقَةٍ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَفْضَلُ قَالُوا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ نَفَقَةُ الْوَلَدِ عَلَی‏ الْوَالِدَيْن‏(مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ؛ ج‏15 ؛ ص204)۔
(43 ) من العقوق اضاعة الحقوق‏ (آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال الدین خوانساری بر غرر الحکم و درر الکلم، ج‏6 ؛ ص9)۔
( 44) شرح آقا جمال خوانساری بر غرر الحکم و درر الکلم ؛ ج‏6 ؛ ص9۔
(45 ) وَ نَهَی ص عَنْ عُقُوقِ الْأُمَّهَاتِ (قمّی، صدوق، محمّد بن علی بن بابویه، معانی الاخبار، ص 279)۔
( 46) عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص فِی كَلَامٍ لَهُ‏ إِيَّاكُمْ وَ عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّ رِیحَ الْجَنَّةِ تُوجَدُ مِنْ مَسِیرَةِ أَلْفِ عَامٍ وَ لَا يَجِدُهَا عَاق‏ (الکافی، ج‏2 ؛ ص349)۔
( 47) و من العقوق ان‏ ینظر الرجل‏ الی والدیه فیحد النظر الیهما. (تفسیر نور الثقلین ؛ ج‏3 ؛ ص149)۔
(48 ) مَنْ نَظَرَ إِلَی وَالِدَيْهِ نَظَرَ مَاقِتٍ وَ هُمَا ظَالِمَانِ لَهُ لَمْ‏ تُقْبَلْ‏ لَهُ‏ صَلَاة (مشکاة الانوار فی غرر الاخبار ؛ النص ؛ ص164)۔

 

: کتابنامہ
1.    ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة، 4جلد، دار سید الشہداء للنشر - قم، چاپ: اول، 1405 ق۔
2.    ابن بابویہ، محمد بن علی، الخصال، 2جلد، جامعہ مدرسین - قم، چاپ: اول، 1362ش۔
3.    ابن بابویہ، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، 2جلد، نشر جہان - تہران، چاپ: اول، 1378ق۔
4.    ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ، 1جلد، جامعہ مدرسین - قم، چاپ: دوم، 1404 / 1363ق.
5.    احسایی، ابن ابی جمہور، محمد بن علی، عوالی اللئالی العزیزیة، 4 جلد، دار سید الشہداء للنشر، قم - ایران، اول، 1405 ہ ق۔
6.    امام جعفربن محمد علیہ السلام سے منسوب، مصباح الشریعة، 1جلد، اعلمی - بیروت، چاپ: اول، 1400ق.
7.    آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال الدین خوانساری بر غرر الحکم و درر الکلم، 7جلد، دانشگاہ تہران - تہران، چاپ: چہارم، 1366ش.
8.    پایندہ، ابو القاسم، نہج الفصاحة (مجموعہ کلمات قصار حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ)، 1جلد، دنیای دانش - تہران، چاپ: چہارم، 1382ش۔
9.    حر عاملی، محمد بن حسن، ہدایة الامة الی احکام الائمة علیہم السلام، 8جلد، آستانة الرضویة المقدسة، مجمع البحوث الاسلامیة - مشہد، چاپ: اول، 1414ق۔
10.    حریری، محمد یوسف، صدائے سجاد؛ ترجمہ سید حسن امداد، مطبوعہ ، دار الثقافہ لاسلامیہ، کراچی ، 1405 ہ ق۔
11.    حلّی، علامہ، حسن بن یوسف بن مطہر اسدی، تذکرة الفقہاء (ط - الحدیثة)، 14 جلد، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، قم - ایران، اول، 1414 ہ‍ ق
12.    طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، 1جلد، المکتبة الحیدریة - نجف، چاپ: دوم، 1385ق / 1965م / 1344ش.
13.    عاملی، شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، 2 جلد، کتابفروشی مفید، قم - ایران، اول، ہ ق۔
14.    العروسی الحویزی، عبد علی بن جمعة، تفسیر نور الثقلین، 5جلد، اسماعیلیان - قم، چاپ: چہارم، 1415 ق۔
15.    عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، 2جلد، المطبعة العلمیة - تہران، چاپ: اول، 1380 ق۔
16.    قمّی، صدوق، محمّد بن علی بن بابویہ، معانی الاخبار، در یک جلد، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم - ایران، 1403 ہ ‍ق
17.    کاشانی، فیض، محمد محسن ابن شاہ مرتضی، الوافی، 26 جلد، کتابخانہ امام امیر المؤمنین علی علیہ السلام، اصفہان - ایران، اول، 1406 ہ ، ق۔
18.    کبیر مدنی، سید علیخان بن احمد، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، 7جلد، دفتر انتشارات اسلامی - ایران ؛ قم، چاپ: اول، 1409ق۔
19.    کلینی، ابو جعفر، محمد بن یعقوب، الکافی (ط - الاسلامیة)، 8 جلد، دار الکتب الاسلامیة، تہران - ایران، چہارم، 1407 ہ‍ ق۔
20.    لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ،1جلد، دار الحدیث - قم، چاپ: اول، 1376 ش۔
21.    مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوارالجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار (ط - بیروت)، 111جلد، دار احیاء التراث العربی - بیروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
22.    مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، 26جلد، دار الکتب الاسلامیة - تہران، چاپ: دوم، 1404 ق۔
23.    محمد سپہری. ترجمہ و شرح رسالہ الحقوق امام سجاد. قم: دارالعلم، 1375۔
24.    منسوب بہ امام رضا، علی بن موسی علیہما السلام، الفقہ - فقہ الرضا، در یک جلد، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، مشہد - ایران، اول، 1406 ، ہ ق۔
25.    نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، 28جلد، مؤسسة آل البیت علیہم السلام - قم، چاپ: اول، 1408ق۔

 

 

مقالہ نگار: آیت اللہ اسماعیلی
مترجم:محمد عیسی روح اللہ    
پیشکش:امام حسین فاؤنڈیشن  

بچوں میں موبائل استعمال کا رجحان۔ والدین کیا کریں؟

اس وقت بچوں میں موبائل اور دیگر اسکرینوں کا استعمال مثلا کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹی وی اور ٹیبلٹ وغیرہ کارجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔  خاص کر” کوڈ19 لاک ڈاون” کے بعد تو صورتحال یہ ہوگئی ہے۔ کہ بچے  اسکرین اور موبائل   کے بغیر رہناہی نہیں چاہتے۔   کسی زمانے میں ٹین ایجر کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ اب تو بچے اسکرین ایجر ہوچکے ہیں۔

بچوں کے اس طرح اسکرین ایڈ کٹد ہونے یا اسکرین کی لت میں مبتلا کی وجہ سے والدین اور سرپرست حضرات بہت زیادہ پریشان نظرآتے ہیں۔ اسکرین کے اس طرح بے جااستعمال سے بچوں کی عمومی زندگی بھی عدم توازن کا شکار ہوکررہ گئی ہے۔

بچوں میں موبائل استعمال کا رجحان۔ والدین کیا کریں؟

یہاں ایک بات بتانا بہت اہم ہے، کہ موبائل بذات خود کوئی بری چیز ہے نہ اچھی چیز۔ بلکہ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برابناتا ہے۔ اس کی مثال ہم چھری اور اس کے استعمال سے دے سکتے ہیں۔  کہ چھری سے ہم سبزی کاٹ کر اپنے فائدے کاکام کرسکتے ہیں۔ اور دوسری طرف اسی چھری سے کسی کا کان یا ناک کاٹ کر خدانخواستہ  کسی کا نقصان بھی کیا جاسکتا ہے ۔ بلکل اسی طرح  اسمارٹ موبائل فون بھی ہے۔ کہ اس کا اچھا اور برادونوں طرح سے استعمال کیا جاسکتاہے۔

اس مضمون میں پہلے ہم اسکرین، خاص کر موبائل اسکرین کے بے جااور غیر ضروری استعمال کے نقصانات بتائیں گے ۔اس کے بعد والدین اور سرپرست حضرات کی آسانی کے لئے چند ٹپس دیں گے۔ جن کو استعمال کرکے وہ اپنے بچوں کو موبائل استعمال کے حوالے سے ڈسپلن کرسکتے ہیں۔ موبائل کے بے جا استعمال کےچند نقصانات مندرجہ ذیل ہیں۔

بچوں میں منشیات استعمال کا رجحان۔ والدین کیا کریں؟
:بچوں کے رویوں میں عدم توازن پیداہوجاتا ہے
انسان اپنی عادات اور رویوں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ اگر عادات اوررویے اچھے خوبصورت ہوں، تو زندگی میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اوروہ اچھا انسا ن کہلانے کا حق دار ہوتا ہے ورنہ نہیں۔ ایک کامیاب انسان اپنی عادات اور رویوں کو بہتر بنانے پر بہت زیاد ہ کام کرتاہے۔ بچے اگر بہت زیادہ اسکرین استعمال کریں تو ان کے رویوں میں عدم توازن پیدا ہوناشروع ہوجاتاہے۔ لہذا بچوں کے رویوں میں توازن پیداکرنے کے لئے موبائل اسکرین کے بے جااستعمال پر روک لگانانہایت ضروری ہے۔  


:معاشرتی زندگی میں عدم توازن
موبائل کے بے جا استعمال کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ بچہ معاشرتی تعلقات کے حوالے سے عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے۔ زندگی میں جن لوگوں سےتعلقات مضبوط ہونا ضروری ہےوہ کمزوری کا شکارہوجاتے ہیں ، بسااوقات بچہ معاشرے سے کٹ کررہ جاتاہے اور تنہاتنہا رہنے لگتاہے۔ جو اسکی عملی زندگی کے لئے  انتہائی نقصان دہ  ہوسکتاہے۔

:غصے اور چڑچڑاپن کا شکار ہونا
اسکرین کے بے تحاشا استعمال سے انسان کادماغ بالکل ایک ہی جگہ بہت دیر تک مرتکز رہتا ہے۔ جس سے دما غ انتہائی بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ اور انسان غصے اور چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتاہے۔ خاص کر بعض لڑائی بھڑائی پر مشتمل ایسی  ویڈیو گیمز ہوتی ہیں۔ جنہیں کھیل کریا دیکھ کر بچہ ان سے برااثر لیتاہے۔ اور وہ بھی لڑاکو مزاج کا بن جاتاہے۔

"<yoastmark

:نیند کی کمی اور پڑھائی سے بھاگنا
اسکرین ایڈکشن کا ایک  بڑا نقصان یہ بھی ہے۔ کہ  اسکرین کی لت میں مبتلا انسان کی نیند کم ہوجاتی ہے۔ اس کے دماغ میں ہروقت کوئی نہ کوئی ویڈیو یا کوئی گیم چل رہی ہوتی ہے۔ حتی کہ نیند سے پہلے اور نیند کی حالت میں بھی اس کیفیت میں ہونے کی وجہ سے اس کی نیند اڑجاتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ نیند پوری نہ ہونے سے وہ دنیا کے ہر کام سے جی چراتا ہے۔ بچہ ہوتو پڑھائی سے دور بھاگتاہے۔ بھوک ختم ہوجاتی ہے اور سستی وتکا ن بڑھ جاتی ہے۔ نیز اسکرین میں مست ہوکر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہنے سے اس کی کمر بھی ٹیڑھی ہونے لگتی ہے۔

:جسمانی ورزش ختم ہوجاتی ہے
انسان کی  جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لئے  ورزش بہت  ضروری چیز ہے۔ جس سے خوب پسینہ نکلے اور ڈپریشن ریلیز ہوجائے۔ لیکن موبائل اسکرین کی لت میں مبتلا بچے کی  جسمانی ورزش بھی ختم ہوجاتی  ہے۔ جس کی وجہ سے بچہ جسمانی اور نفسیاتی طورپر عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے۔

 

:تعلیم سے بے رغبتی اور تعلیمی نتائج پر برے اثرات پڑتے ہیں
یہ عام مشاہد ہ ہے اور سائنٹفک ریسرچ بھی کہ ایک وقت میں انسانی دماغ کسی ایک چیز پر ہی فوکس کرسکتا ہے۔ جب بچہ اپنی مصروفیت کے لئے اسمارٹ فون کو منتخب کرلیتاہے۔ اور اسی میں گم سم رہتاہے،تو تعلیم سے بے رغبتی اور نتائج پر برے اثرات پڑنا لازمی امرہے۔


  :انٹرنیٹ سے فحش مواد تک رسائی ہوتی ہے
بچے کے پاس اسمارٹ فون ہواور وہ بھی انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہو، تو فحش مواد تک رسائی ہونا لازمی امر ہے۔ والدین اپنے بچوں کو معصوم سمجھ کر یہ انتہائی حساس معاملہ نظرانداز کردیتے ہیںَ۔  جونہایت خطرناک ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے  کہ ابتدا شاید بچہ گیم اور ویڈیوز کے چکر میں ان چیزوں کی طرف رجحان نہیں دیتا۔ لیکن باربار ایسی فحش چیزوں کے سامنے آنے پر بچے کا تجسس بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ اس پر ایک کلک کرلیتا ہے۔ اب انٹرنیٹ الگوریتھم اپنے اصول کے مطابق اس بچے کے سامنے اور بھی فحش مواد کھول کررکھنا شروع کر دیتاہے۔

یہ فحش مواد اس بچے کی معصومیت  کے لئے زہر قاتل بن جاتاہے۔  وقت گزرنے کے ساتھ بچہ ان غلط چیزوں میں پوری طرح دلچسپی لینے لگتا ہے۔ وہ ایسی چیزوں میں پڑجاتا ہے جو فحش اوراخلاق باختہ ہونے کے ساتھ طبعی عمر سے پہلے ہی اس میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والی ہوتی ہیں۔ یوں بچہ پختگی سے پہلے بالغ ہوجاتا ہے۔ اور زندگی میں مقصدیت کی تلاش چھوڑ کر تسکین نفس کے غلط راستے ڈھونڈنا شروع کردیتا ہے۔   

 :اسمارٹ فون سے دین بیزاری کا رجحان
بچے ہمارا نسلی تسلسل ہیں۔ مسلمان والدین کا فرض ہے، کہ وہ اپنے بچوں کوایمان سکھائیں اور دین سکھائیں۔ اللہ ، رسول ، قرآن  ودیگر دینی شعائر  کے ساتھ ساتھ  اسلامی اقدارکی محبت ان کے دلوں میں پیوست کردیں۔ ان کی زندگی میں دینی ویلیوز کو پروان چڑھائیں۔ یہی وہ چیز ہے جو مسلمان والدین کرناچاہتے  ہیں۔

  لیکن بدقسمتی سےان تمام چیزوں کے سامنے بدترین رکاوٹ اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ پر موجود دین بیزار مواد اوروہ ویڈیوگیمز ہیں جن میں دینی شعائر کی  توہین کی جاتی ہے۔ اور ان کی محبت واہمیت کو غیر محسوس طریقے سے بچوں اور نئی نسل  کے دلوں سے اتارنے کی  باضابطہ کوشش بھی کی جاتی ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک مثال میں یہاں پیش کرناچاہوں گا۔ مثلا ویڈیوگیمز میں کسی برے کردار کو یا دشمن کو تلاش  کرنا ہوتا ہے۔ اس تلاش کے دوران ایسا سین پیش کیا جاتا ہے کہ اس  دشمن کو یا شیطان کونعوذباللہ مسجد نبوی یا خانہ کعبہ کے دروازسے نکلنے ہوئے دکھایا جاتاہے۔ یا دوسری مثال میں تلاش کے دوران واش روم میں نعوذباللہ قرآن کریم کے نسخے دکھائے جاتے ہیں۔

اب بچوں میں اچھی بری چیز میں تمیز کے فلٹرنشوونما نہیں پاچکے ہوتے۔ توایسی سین دیکھنے سے بچوں کے دلوں سے غیر محسوس طریقے سےان مقدسات کی اہمیت ختم ہوتی جاتی ہے۔ ان مقدسات کے ساتھ نئی نسل کا جذباتی تعلق کم ہوتا جاتاہے۔ جس کا نتیجہ تو بعد میں ہی ظاہر ہوگا۔


لیکن یہ سم قاتل موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہماری نسل کے ذہنوں میں اتارا جاتا ہے ۔ جب کہ والدین یہ کہہ کرمطمئن ہوجاتے ہیں کہ بچہ موبائل پر گیم کھیل رہا ہے کوئی بات نہیں۔ اس حوالے سے والدین کو بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔   

والدین اپنے بچوں کو موبائل اسکرین کی لت سے کیسے بچائیں؟

والدین ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اس وقت ہم بچوں سے موبائل فون مکمل طور پر چھین نہیں سکتے۔ ورنہ بچے آپ کو اپنا دشمن تصور کریں گے۔ اور خدانخواستہ ا س کے حصول کے لئے کوئی غلط راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کورونا کی صورتحال کے بعد اسکولوں اوردیگرتعلیمی اداروں کی تعلیمی سرگرمیاں کافی حد تک آن لائن ہوگئی ہیں۔ جس کی وجہ سے بچوں کے ہاتھوں میں وقت سے بہت پہلےاسمارٹ موبائل فون آچکا ہے۔

"<yoastmark

اس وقت والدین کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ بچوں کے ہاتھ میں موبائل دینے کے حوالے سے محتاط ہوجائیں۔ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس حوالے سے ڈسپلن کریں، حتی الامکان اس کا استعمال کم کردیں۔ اور جب استعمال کرنا ضروری ہو تو اس کے لئے باقاعدہ وقت مقرر ہو۔ اور جس وقت استعمال ہو اس وقت والدین بچوں کے موبائل پر چیک اور کنٹرول ضرور رکھیں۔

اب یہ سب کچھ کیسے ممکن  ہوسکتا ہے اس کے لئے ہم ذیل میں چند ٹپس والدین سے شئیر کرتے ہیں۔ ان پر عمل کرتے  ہوئے والدین اپنے اور اپنے بچوں کا یہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔


 :والدین اچھی رول موڈلنگ پیش کریں

والدین کی اچھی پیرنٹنگ یا اچھی تربیت کا راز اس میں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے اچھی رول ماڈلنگ پیش کریں۔  بچوں کےحقیقی استاد اور مربی  والدین ہوتے ہیں۔ بچے اپنے  والدین کو جو کچھ کرتے ہوے دیکھتے ہیں۔  اس کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا موبائل کے حوالے سے بچوں کو ڈسپلن کرنا ہو تو بھی والدین اس کا آغاز خود اپنے آپ سے کریں گے۔

ان کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے اوپر چیک اینڈبیلنس رکھیں۔ ضرورت کے علاوہ خود بھی استعمال نہ کریں اور موبائل کے غیر ضروری استعمال کے جو نقصانات وخدشات اوپر بتائے گیے ہیں۔  ان کے بارے میں گھر میں بچوں سے گفتگو کریں۔ اچھی رول ماڈلنگ سے ان شااللہ پچاس فیصد مسئلہ ویسے ہی درست ہوجائے گا۔

:بچوں سے موبائل کے فوائد ونقصانات پر مکالمہ کریں
والدین خودپرکنٹرول کے بعد دوسراکام یہ کریں۔ کہ بچوں کواس کے نفع ونقصان سے آگاہ کریں۔ اچھے استعمال کے فوائد پر ان سے کوئی مضمون لکھوائیں۔ غلط استعمال کے نقصانات کے بارے میں بھی کوئی مضمون لکھوائیں۔  جس سے بچوں کو اس موضوع پر سوچنے کا موقع ملے گا۔ بچوں سے اس موضوع پر کچھ لکھواتے ہوئے ان کی مدد کریں۔ کہ اوپر بتائیے گئے نقصانات کے علاوہ اور بھی جو اس کے نقصانات ہیں وہ اپنے ذہن سے تلاش کریں۔

جب بچے اس موضوع پر لکھ چکیں تو اس کا خلاصہ تیار کروائیں۔ اور  خلاصے یاسمری کو سامنے رکھ کر اس پر گفتگو کریں۔ اور مکالمہ کروائیں۔ مکالمے  میں والدین خود بتانے سے زیادہ  بچوں سے زیادہ سننے کی کوشش کریں۔ اس طرح سے اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے فوائد ونقصانات بچوں کو ریلائزکروائیں۔ اور ان کے دل ودماغ میں یہ باتیں بٹھاکر ان سے بھی محتاط رہنے کا تقاضہ کرسکتے ہیں۔   

 :گھریلوتمام مصروفیات اور روٹین کاموں کے لئے رولز ریگولیش بنائیں
جب تک گھرکی چوبیس گھنٹے کی  تمام مصروفیات کے لئے اصول اور رولز نہ بنائے جائیں، اس وقت تک گھر کے لئے پریشانی بہرحال رہے گی۔ والدین ہر گھر میں اپنی چوبیس گھنٹے کی تمام مصروفیات کو ایک ٹائم ٹیبل کی شکل دے سکتے ہیں۔ مثلاسونے جانگنے کے اوقات کیا ہونگے؟ کھانے پینے ، نمازوں اور تلاوت کے اوقات کیاہونگے؟


اس کے علاوہ کھاناپکانے ، گھرکی صفائی نیز دیگر کاموں کے علاوہ موبائل فون یا دیگر اسکرین کے استعمال کو ریگولرائز کرنے کے لئے گھر کے سب افراد مل کر رولز بنائیں۔ اور پھر ان رولز کو فالو کرنا شروع کریں۔ ان شااللہ یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہوجائے گا۔  

 :بچوں کے لئے بہتر مشغولیت اور ہوبی  سیٹ کریں
اسمارٹ فون اور دیگر اسکرینوں کی لت سے بچوں کو نکالنے کا ایک بہترین حل یہ بھی ہے۔ کہ والدین بچوں کے لئے موبائل استعمال کے علاوہ کوئی اورمصروفیت یا مشغولیت تلاش کریں۔ جس میں مشغول رہنے سے موبائل کا رجحان  بچے کے  دل سے نکل جائے یا کم ہوجائے۔  مثلا گھر میں پودے اگانے اور ان کا خیال رکھنے کی ذمہ داری بچوں کو دے سکتے ہیں۔

یا گھر میں کوئی پالتو جانور رکھ کربچے کے لئے مشغولیت کا راستہ دے سکتے ہیں۔ یا  جسمانی ورزش اور فزیکل گیم  کی کوئی   ترتیب بنائی جاسکتی ہے۔  جس میں مشغول رہ کر بچہ اپنے آپ کو مصروف رکھ سکتا ہے۔ اس طرح وہ بہت حد تک موبائل اسکرین اور انٹرنیٹ کی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچاسکتا ہے۔

:چندمددگار موبائل ایپس
یہ ٹیکنالوجی کادور ہے۔ جس کے فوائد اور نقصانات کاہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔  موبائل فون کے فوائد یہاں بیان کرنا مقصودنہیں وہ سبھی لوگ جانتے ہیں۔ لیکن اس کے بے شمار سائدافیکٹس یا نقصانات ہیں۔ جن سے بچنے کے راستے تلاش کرنا  اس آرٹیکل کا موضوع ہے۔ اسکرین ایڈکشن بچوں اور بڑوں دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔

لیکن اگربچے اس لت میں مبتلا ہوں تو ان کے والدین اور سرپرست حضرات نہ صرف اس کے ذمہ دار ہیں۔ بلکہ اس کی روک تھام کے لئے کوشش کرنا بھی ان کا فرض ہے۔

موبائل کے غلط استعمال کی روک تھام کے لئے بے شمار ایپس بھی دستیاب ہیں۔ جن کی مدد سے والدین اور سرپرست حضرات اپنے بچوں کو موبائل کے غلط استعمال سے بچاسکتے ہیں۔ یہ ایپس موبائل کے پلے اسٹور سے اپنے موبائل میں ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں۔  اورپھر ان کی مدد سے اپنے بچے کی کسی بھی موبائل سرگرمی سے باخبر رہتے ہوئے اس کی روک کی کوشش کرسکتے ہیں ۔


ان میں سے چند موبائل ایپس ذیل میں دئیےجاتے ہیں ، یہ اپنے موبائل فون میں ڈاون لوڈ کیجئے۔ اور اپنے بچوں کی ہر سرگرمی سے چوبیس گھنٹے باخبررہیے۔

اسپائزی ایپ (Spyzie app)

ٹریک اِٹ ایپ (Trackit app)

ایم اسپائے ایپ ( mSpy app)

اور آخر میں سب سے اہم بات اللہ کی طرف رجوع کا مشورہ ہے۔ اپنے بچوں کے لئے والدین اللہ سے خوب دعامانگیں۔ فتنوں کے اس زمانے میں دعاہی ایک مسلمان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی چیز گمراہ نہیں کرسکتی۔ اور جسے اللہ ہدایت نہ دے تو ابوجہل خانہ کعبہ میں  پیداہو کربھی بدنصیب رہا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس  کام کو ہم سے کے لئے آسان بنادے اور ہماری نسل کو ہدایت کے نور سے نوازے ۔ آمین