سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا: 8 مارچ اور خواتین کا عالمی دن خواتین کے حقوق کی حمایت کے دعویدار بعض جھوٹے لوگوں کے مضحکہ خیز اور توہین آمیز بیانات کا موقع نہیں بننا چاہیے کہ جو خواتین کو ایک ٹول کے طور پر دیکھتے ہیں اور انسانی، ثقافتی اور سماجی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک شرمناک ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کے حقوق کے ان جھوٹے دعویداروں کا منافقانہ طرز عمل پوری دنیا پر واضح ہو چکا ہے کہ جنہوں نے فلسطین میں ہزاروں بے گناہ عورتوں اور بچوں کے وحشیانہ قتل پر آنکھیں بند کر کے خواتین اور بچوں کو بے دردی سے قتل کرنے والی دہشت گرد رجیم کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے، 

کنعانی نے زور دے کر کہا کہ اس سال کا عالمی یوم خواتین فلسطین کی شیرل دل خواتین اور ماوں سے تعلق رکھتا ہے اور اسے ظالم اسرائیلی حکومت کی عالمی مذمت کی فرصت میں بدلنا چاہیے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کو ہیومن رائٹس کمیشن سے نکال باہر کرنا ہزاروں خواتین کے قتل، انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب، شہری آبادی خاص طور پر خواتین اور بچوں کو منظم بھوک کا شکار بنانے اور فلسطینی ماؤں کو ان کے بچوں کی تدریجی موت کے باعث شدید ذہنی اور نفسیاتی تکلیف پہنچانے کے باعث عالمی مطالبہ بن چکا ہے۔ 

تہران (ارنا) مغربی میڈیا نے آج بروز جمعہ (1 مارچ 2024) ایران میں ہونے والے الیکشن میں لوگوں کی پرجوش شرکت اور پولنگ اسٹیشن پر رش کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کی اس موجودگی کو اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی اور عالمی اتھارٹی میں اضافے کا ایک عنصر قرار دیا۔

ارنا کے مطابق، قطر کے الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل نے ایران کے انتخابات کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ایرانیوں نے آج پارلیمنٹ کے اراکین اور گارڈین کونسل کے انتخاب کے لیے الیکشن میں حصہ لیا۔

رائے دہندگان میں سے 34 سالہ ناصر رنجبر نےالجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور کہا کہ ان کے انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد رہبر کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔

 الجزیرہ نے آج کے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں بشمول اصول پسند، ریفارمرز(اصلاح پسند) اور موڈیریٹرز(اعتدال پرست) کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے پیش گوئی کی کہ اصول پسند اگلی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لیں گے۔

گارڈین نامی انگریزی اخبار نے ایران میں الیکشن کی شرائط میں نرمی اور گارڈین کونسل یے انتخابات میں گزشتہ ادوار کے مقابلے زیادہ افراد کی شرکت کو ہائی لائٹ کیا۔

گارڈین نے ایران میں گزشتہ سال کی بدامنی کا حوالہ دیتے ہوئے آج کے الیکشن کو ایرانی عوام کے اسلامی جمہوریہ ایران کی قانونی حیثیت کے لیے ووٹ اور خطے اور دنیا میں اس کی طاقت میں اضافے کا سبب قرار دیا۔

امریکی ٹی وی چینل اے بی سی نیوز نے ووٹ کاسٹنگ کے وقت رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات کی مکمل کوریج کی اور لکھا کہ ایران کی قیادت / رہبر نے انتخابات میں شرکت کو دوستوں کی خوشی اور دشمنوں کے غم کی وجہ قرار دیا۔

اس امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں ایرانی پارلیمنٹ امریکہ مخالف لوگوں کے کنٹرول میں رہی ہے اور ایرانی عوام نے آج انتخابات میں حصہ لیا تاکہ 15ہزار امیدواروں میں سے 290 نمائندوں کو منتخب کیا جا سکے۔

اے بی سی نیوز نے پارلیمنٹ میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ پارلیمنٹ میں 5  نشستیں مذہبی اقلیتوں کی ہیں۔

ایران کی اقتصادیات اور سماجی و سیاسی حالات کو انتخابات سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے روئٹرز نے لکھا کہ ایرانیوں نے جمعے کے روز انتخابات میں حصہ لیا اور یہ انتخابات اسلامی جمہوریہ کی حکومت کی قانونی حیثیت کا امتحان ہے۔

سی این این کے مطابق، ایران کے انتخابات میں حصہ لینا فلسطینی مزاحمت کو ووٹ دینا ہے۔

امریکی ٹیلی ویژن چینل CNN نے ایران میں ہونے والے انتخابات اور غزہ میں ہونے والی پیش رفت پر صیہونی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی مزاحمت کے علامتی اثرات کا ذکر کیا۔

اس امریکی ٹی وی چینل نے لکھا کہ ایران کے اکثر عوام اسرائیل مخالف جذبات رکھتے ہیں اور غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے خلاف ہیں اور انتخابات میں شرکت کو مزاحمت کے لیے ووٹ سمجھتے ہیں۔

آج کے انتخابات میں لوگوں کی بڑی شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے اس میڈیا نے پیش گوئی کی کہ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں شرکت کی شرح دیگر علاقوں کے مقابلے زیادہ ہوگی۔

ایسے حالات میں جب غزہ میں جنگ جاری ہے اور غاصب صیہونی فوج اور اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس میں فوجی جھڑپیں انجام پا رہی ہیں اور ہر لمحہ غزہ کے جنوبی شہر رفح پر ممکنہ فوجی حملے سے اس جنگ میں وسعت کا امکان پایا جاتا ہے، مقبوضہ فلسطین سے موصول ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں انتہاپسند صیہونی کابینہ ماہ مبارک رمضان کی آمد کے قریب مسجد اقصی کیلئے ایک نیا سکیورٹی پلان تیار کرنے میں مصروف ہے۔ اگر یہ خبر حقیقت پر مبنی ہو اور صیہونی حکمران واقعی اس طرح کا منصوبہ لاگو کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ پورے خطے اور حتی پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف وسیع جنگ میں تبدیل ہو جائے گی۔
 
ماہ مبارک رمضان کیلئے غاصب صیہونی کابینہ کے اس نئے سکیورٹی پلان کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکمران اس مبارک مہینے میں فلسطینی مسلمانوں پر مسجد اقصی میں داخل ہو کر عبادت کرنے کے خلاف ایسی پابندیاں عائد کرنے جا رہے ہیں جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ابھی صرف اس منصوبے کی خبر آئی ہے اور اسی نے فلسطینیوں میں شدید غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ البتہ بات صرف اس حد تک نہیں ہے اور مسجد اقصی سے متعلق صیہونی رژیم کے ممکنہ سکیورٹی پلان کے خلاف ظاہر ہونے والے شدید ردعمل نے خود صیہونی حکمرانوں کو بھی شدید ہراساں کر ڈالا ہے اور وہ سکیورٹی صورتحال کے مزید بحرانی ہو جانے سے خوفزدہ ہیں۔ لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ یہ سکیورٹی منصوبہ صرف مغربی کنارے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ 1948ء کی سرزمینوں میں مقیم فلسطینی مسلمانوں کو بھی شدید متاثر کرے گا۔
 
اگر یہ مسئلہ بحرانی صورتحال اختیار کر جاتا ہے تو چونکہ اس سے متاثر ہونے والے فلسطینی مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لہذا ایسے حالات میں ماضی کی نسبت زیادہ بڑا اور خطرناک بحران پیدا ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ مسجد اقصی کے بارے میں غاصب صیہونی رژیم کے اس نئے سکیورٹی پلان کی وجوہات کا جائزہ لینے کیلئے اس کے اصلی محرکات کو جاننا ضروری ہے۔ یہ منصوبہ نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل انتہاپسند اور نسل پرست وزیر اتمار بن گویر نے تیار کیا ہے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے ماہ مبارک رمضان میں فلسطینی مسلمانوں کے مسجد اقصی میں داخل ہونے پر پابندی کا منصوبہ تیار کیا اور اسے نیتن یاہو اور کابینہ کو پیش کیا۔ لیکن اس بحران کی شدت میں اس وقت کئی گنا اضافہ ہو گیا جب نیتن یاہو نے اس منصوبے کی منظوری دے دی اور اسے لاگو کرنے کی بھی اجازت دے دی۔
 
دوسری طرف تازہ ترین رپورٹس کے مطابق مسجد اقصی سے متعلق یہ نیا سکیورٹی پلان صیہونی رژیم کے اعلی سطحی حکومتی اور فوجی حکام کی میٹنگ میں بھی منظور کر لیا گیا ہے اور اسے ماہ مبارک رمضان میں لاگو کرنے کا حتمی فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح اس منصوبے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ ماضی میں ماہ مبارک رمضان میں فلسطینی مسلمانوں پر عائد کی جانے والی ہمیشہ کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ بعض نئی پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس منصوبے کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتمار بن گویر کے اس سکیورٹی پلان کا صیہونی کابینہ کی جانب سے اب تک باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا لیکن کچھ صیہونی میڈیا ذرائع کے مطابق اسرائیل کے حساس ادارے بھی اس منصوبے کے بارے میں وزراء کونسل کو اپنی تجاویز پیش کریں گے۔
 
البتہ صیہونی حکام نے اعلان کیا ہے کہ یہ منصوبہ ماہ مبارک رمضان کے پہلے ہفتے میں تجرباتی بنیادوں پر لاگو کیا جائے گا اور اس کے بعد حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں اس کی مدت بڑھانے کا جائزہ لیا جائے گا اور مثبت نتائج کی صورت میں ماہ مبارک رمضان کے آخر تک لاگو رہے گا۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی کنارے سے آنے والے فلسطینی مسلمانوں کو مسجد اقصی میں نماز ادا کرنے سے روکنا، چالیس سال سے کم عمر کے مردوں کو مسجد اقصی میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا، مسجد اقصی جیسے مقدس مقام کے اندر پولیس تعینات کرنا نیز صرف 70 سال سے زائد عمر رکھنے والے فلسطینوں کو مسجد اقصی میں داخل ہونے کی اجازت دینا، اتمار بن گویر کے پیش کردہ اس نئے سکیورٹی پلان کا حصہ ہیں۔
 
مذکورہ بالا مطالب سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف پابندیوں کی سطح میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور صیہونی حکمران فلسطینی مسلمانوں کے خلاف زیادہ سختی والے اقدامات انجام دینا شروع ہو گئی ہے۔ آخری نکتہ یہ کہ مسجد اقصی سے متعلق غاصب صیہونی رژیم کا نیا سکیورٹی پلان جو بھی ہو اور جیسا بھی ہو اس نے ابھی سے فلسطینی اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس بارے میں ابھی پورے اطمینان سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ماہ مبارک رمضان کے آغاز میں جب یہ سکیورٹی پلان لاگو کیا جائے گا تو مسلمانوں کی جانب سے کس قسم کا ردعمل سامنے آئے گا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مندرجہ بالا اقدامات اسرائیل کی غاصب اور ناجائز رژیم اور حماس کے درمیان جنگ کو خطے اور دنیا کے مسلمانوں کے خلاف ایک وسیع جنگ میں تبدیل کر ڈالیں گے۔

تحریر: علی احمدی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بزرگ عالم دین مرحوم آيت اللہ الحاج شیخ محمد امامی کاشانی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر میں ان کے محترم اہل خانہ، پسماندگان، شاگردوں اور عقیدت مندوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔

یہ متقی و خدمت گزار عالم دین، طویل عرصے تک، چاہیے انقلاب سے پہلے جدوجہد کرنے والے علمائے دین کے ساتھ یا انقلاب کے بعد شوری نگہبان، مجلسِ خبرگان، امام جمعہ تہران کی حیثیت سے خدمات، ادارۂ برائے اسلامی تبلیغات اور حوزہ علمیہ شہید مطہری کے سربراہ جیسے حساس منصبوں پر ملک اور اسلامی جمہوری نظام کی خدمت میں مصروف رہے ہیں اور امید ہے کہ ان کی یہ ساری نیکیاں، بارگاہِ پروردگار میں قبول و منظور قرار پائیں گی۔ خداوند عالم اپنی رحمت و مغفرت، مرحوم و مغفور کے شامل حال فرمائے۔

سید علی خامنہ ای

3 مارچ 2024ء

انسان کو اسمائے الہٰی کا مظہر کہا جاتا ہے۔ خداوند کریم نے انسان کو اپنا نائب بنایا تو اس کو اپنی صفات بھی ودیعت کیں، تاکہ اس منصب کے ساتھ عدل ہو اور ان صفات کو نکھار کر ہی انسان کمال حاصل کرسکتا ہے۔ چونکہ یکتائی صرف خدا کی ذات کو زیبا ہے اور اسی کا حق ہے، اس لیے اس نے کائنات میں موجود ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب مبین میں فرماتا ہے: "وَمِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَيۡنِ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ"، "اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں، تاکہ تم نصیحت پکڑو" (الذاريات:49)

اسی طرح انسان کو بھی اس نے جوڑے کی صورت میں پیدا کیا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو نفس واحدہ سے پیدا کیا اور پھر اس میں سے مذکر اور مؤنث بنائے۔ یعنی ایک کامل مرد اور ایک کامل عورت کے ملاپ سے ہی "انسان کامل" وجود میں آتا ہے۔ کمال انسانی تک تنہاء مرد یا تنہاء عورت کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ معاشرے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ جب مرد اور عورت کو اتنی زیبائی سے خدا نے لازم و ملزوم قرار دیا ہے تو ان کے تعلق میں یہ خوبصورتی نظر کیوں نہیں آتی؟ یہ ایک دوسرے کی ارتقا و کمال کا موجب کیوں نہیں بنتے؟ کیوں ایک دوسرے سے اتنا بےزار ہیں۔؟

ایک جواب جو میری ناقص عقل میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنی حقیقت اور فطرت سے ناآشنا ہیں۔ جیسے اقبالؒ کہتے ہیں:
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے
یہاں ہر ایک دوسرے جیسا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر ایک دوسرے سے برتر ہونے کی کاوش میں مصروف ہے۔ جیسے کوئی دوڑ لگی ہو کہ WHO IS SUPERIOR? دوسرے کو نیچا دکھاتے دکھاتے ہم خود اتنا نیچے گر جاتے ہیں کہ اپنی ضروریات اور انفرادیت فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ آج میں یہاں فقط "انثی" کی بات کروں گی، کیونکہ میرا تعلق بھی اس صنف سے ہے اور میرا موضوعِ سخن بھی فی الحال یہی ہے۔

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے، مگر اس مصرعے کو سن کر میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ یہ عورت جس کی بدولت کائنات رنگین ہے، اس کا اپنا رنگ کیا ہے؟ اس کی شناخت اور اس کا مقام بحیثیت عورت کیا ہے۔؟ یہ سوالات ہر عورت کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے! موجودہ دور میں عمومی طور پر عورت کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ پہلی قسم کو "مشرقی عورت" کا نام دیتے ہیں اور اس کے تمغوں کی لسٹ میں رجعت پسندی، قدامت پسندی، فرسودہ سوچ اور غلامی آتے ہیں۔ یہ عورت ماضی کی روایات کی اندھی مقلد ہے اور یہ وہ گائے ہے، جسے جس مرضی کھونٹی سے باندھ دو، اسکو فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اسکی زندگی کا نہ کوئی مقصد ہے، نہ اسے اپنے مقام کا فہم ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک Dependent مخلوق ہے، جو نہ اپنے لیے کچھ کر سکتی ہے، نہ معاشرے کے لیے، چونکہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں منجمد ہوچکی ہیں۔۔۔

اس کے مقابلے میں دوسری قسم جو چمکیلی، بھڑکیلی "مغربی عورت" کی ہے، جو اس خام خیالی میں ہے کہ اس نے روایاتِ ماضی سے خود کو آزاد کروا لیا ہے اور وہ اپنی مرضی کی مالک ہے۔ اس لئے وہ "میرا جسم، میری مرضی" کے بےبنیاد نعرے لگا کر اپنی بےچارگی کا اظہار کرتی ہے، مگر اس نادان کو یہ نہیں معلوم کہ درحقیقت اس نے فقط چادر و عفت سے خود کو آزاد کیا ہے، وہ بھی کروایا گیا ہے۔ اس کا ذہن، اس کی فکر اور اس کی زندگی ابھی بھی مقید ہیں۔ فرق صرف اتنا آیا کہ قیدخانہ بدل گیا۔ پہلے وہ ماضی کی فرسودہ روایات کی اسیر تھی، اب وہ سرمایہ دار طبقے اور استعمار کے لیے ایک کھلونا ہے، جسے وہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔۔۔ دونوں صورتوں میں عورت کا اصل رنگ کونسا ہے؟ اس کی اپنی شناخت کونسی ہے؟ اور عورت کو کس چیز نے مجبور کیا کہ وہ مشرقی یا مغربی رنگ اپنائے۔؟

تحریر: سیدہ مرضیہ زہرا نقوی
کوآرڈینیٹر رائٹنگ کلب ہوپ سوسائٹی پاکستان

اسلام ٹائمز۔ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف احتجاج کے دوران امریکی فضائیہ کے پائلٹ آرون بشنیل کی خود سوزی کے ردعمل میں فلسطینی گروہوں نے اعلان کیا کہ یہ واقعہ امریکی حکومت کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف غاصبانہ جرائم میں براہ راست شرکت بند کرے۔ اسی تناظر میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے فلسطینی تحریک حماس نے اس امریکی پائلٹ کے اہل خانہ اور لواحقین کے ساتھ تعزیت اور مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو ہارون بشنیل کی خود سوزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ آرون بشنیل نے انسانی اقدار کے محافظ اور مظلوم فلسطینی قوم کے ظلم و جبر کے طور پر اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر دیا، بالکل اسی طرح جیسے 2003 میں رفح میں اسرائیلی بلڈوزر کی زد میں آ کر "ریچل کوری" نامی ایک امریکی کارکن ہلاک ہو گئی تھی۔ رفح وہی شہر ہے جس کے لیے بشنیل نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ مجرم صہیونی فوج کو رفح پر حملہ نہ کرنے دے۔

واضح رہے کہ ریچل کوری ایک 23 سالہ امریکی لڑکی تھی، جسے 16 مارچ 2003 کو فلسطین میں اسرائیلی بلڈوزر نے برے طریقے سے کچل دیا تھا، جب وہ رفح شہر میں فلسطینیوں کے مکانات کی تباہی کے دوران صیہونی حکومت کی کاروائی کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔ یہ اس حقیقت ہے کہ امریکی حکومت کو ریچل کوری کے امریکی کارخانوں کے تیار کردہ بلڈوزر تلے کچلے جانے پر کبھی احساس نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے افسوس کا اظہار کیا۔ حماس نے زور دے کر کہا ہے یہ المناک واقعہ جس کی وجہ سے بشنیل اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، امریکی عوام میں بڑھتے ہوئے غصے کو ظاہر کرتا ہے، جو اپنے ملک امریکہ کی اس پالیسی سے ناراض ہیں کہ ان کی حکومتیں فلسطینی عوام کو قتل اور تباہ کرنے میں مدد دیتی ہیں اور یہ انسانی اقدار کی سنگین خلاف ورزی ہے، اسی طرح امریکی حکومت قابض صیہونی حکومت کے نازی رہنماؤں کو مدد اور سیکورٹی فراہم کرکے ان پر مقدمہ چلائے جانے اور سزا دلوانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین نے ایک بیان میں تاکید کی ہے کہ اس امریکی فوجی کا فلسطین کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سب سے بڑی قربانی ہے اور امریکی حکومت کے لیے ایک موثر پیغام ہے کہ وہ فلسطین میں نہتے عوام کے خلاف قابض صیہونی گورسز کے جرائم میں براہ راست شرکت سے باز رہے، اس امریکی پائلٹ کی خود سوزی سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونیوں کی نسل کشی میں امریکہ کی مداخلت پر امریکی عوام کس قدر غصے میں ہیں اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اب عالمی اور اہم ایشو بن چکا ہے، خاص طور پر امریکی حلقوں میں، یہ واقعہ وحشی سامراج کے ہاتھوں میں استعماری آلہ کار کے طور پر صیہونی حکومت کی اصل نوعیت کو دنیا پر آشکار کرتا ہے۔

قبل ازیں نیویارک ٹائمز نے امریکی فضائیہ کے پائلٹ ایرون بشنیل کی غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود سوزی کی خبر دی تھی، غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے امریکہ میں تل ابیب کے خلاف مظاہرے تقریباً روز کا معمول بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی ویڈیو میں فوجی وردی پہنے ہوئے، بشنیل نے ایک لائیو ویڈیو میں اعلان کیا کہ میں اب اس نسل کشی میں حصہ نہیں لوں گا، اس کے بعد اس نے اپنے اوپر ایک صاف مائع انڈیلا اور خود کو آگ لگاتے ہوئے کہا کہ فلسطین آزاد کرو۔ اس کے علاوہ دسمبر میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور اس علاقے کے بے گناہ لوگوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والی ایک خاتون نے اٹلانٹا میں صیہونی حکومت کے قونصل خانے کے باہر خود کو آگ لگا لی تھی۔

صیہونی حکومت کی غزہ پر جاری جارحیت کو 140 دنوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور جنگ کو روکنے کے لیے غیر نتیجہ خیز بین الاقوامی کوششوں کے درمیان غزہ کے شہری مختلف قسم کے انسانیت سوز جرائم کا شکار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے اطلاع دی ہے کہ انہیں "معتبر اور قابل اعتماد" شواہد ملے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کے ماہرین اس واقعہ کے مزید پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ گارڈین اخبار کے مطابق اقوام متحدہ کی ماہر کمیٹی نے بتایا کہ کم از کم دو کیسز ریپ اور دیگر کیسز میں جنسی تشدد، تذلیل اور ریپ کی دھمکیوں کے باقاعدہ شواہد ملے ہیں۔

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ریم السلم نے کہا کہ جنسی تشدد کی حقیقی شرح اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہوسکتا ہے کہ ہم متاثرین کی صحیح تعداد کو طویل عرصے تک نہ جان سکیں۔" انتقام کے خوف سے جنسی حملوں کے واقعات کی رپورٹنگ میں پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنگ میں فلسطینی خواتین، بچوں اور شہریوں کے ساتھ تشدد اور غیر انسانی سلوک اب ایک معمول بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے گذشتہ پیر کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "ہم خاص طور پر ان رپورٹس سے پریشان ہیں کہ حراست میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو بھی جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، مرد اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے فلسطینی خواتین کو برہنہ کرنا اور تلاشی لینا بھی اس میں شامل ہے۔

غزہ میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 30،000 کے قریب پہنچ رہی ہے۔ دوسری طرف بعض ماہرین ان رپورٹس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن میں خواتین اور لڑکیوں کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ خودسرانہ سزائے موت کے خطرے سے دوچار کیا جاتا ہے، جن میں اکثر بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ "ان میں سیکڑوں انسانی حقوق کے محافظ۔ اور صحافی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی خواتین کو غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک اور شدید مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں ماہواری کے دوران ضروری حفظان صحت کی اشیاء، خوراک اور ادویات کی فراہمی سے  بھی انکار کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے  کہ "ہم فلسطینی خواتین اور بچوں کو ان مقامات پر جہاں انہوں نے پناہ لی ہوتی ہے، دانستہ طور پر نشانہ بنانے اور غیر قانونی طور پر قتل کرنے کی خبروں سے حیران و پریشان ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بعض اوقات ایسے بھی ہوا کہ ان میں سے کچھ  فلسطینیوں نے سفید کپڑے (ہتھیار ڈالنے کی علامت کے طور پر) اٹھائے ہوئے تھے، اس کے باوجود انہیں اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی۔ ان نامہ نگاروں میں سے ایک نے فرانس 24 ٹی وی کو فلسطینی لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے ملنے والی انتہائی چونکا دینے والی شہادتوں کے بارے میں بتایا ہے، ان کا کہنا ہے ’’ہم تک پہنچنے والی رپورٹس کے مطابق غزہ میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو من مانی طور پر انفرادی یا گروہی طور پر قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ خاندان کے افراد کے ساتھ اور کبھی کبھی اپنے بچوں کے ساتھ قتل کی جاتی ہیں۔ اس طرح کے زیادہ واقعات دسمبر 2023ء اور جنوری 2024ء میں پیش آئے۔ اس رپورٹ میں مغربی کنارے اور غزہ میں غیر قانونی اور من مانی حراستوں میں خواتین کی وسیع پیمانے پر موجودگی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ میں گرفتار ہونے والی خواتین کو رات کے لباس  میں گھروں سے سڑکوں پر لے جایا گیا اور بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے انہیں حماس سے وابستہ جنگجو قرار دیا گیا۔

حماس کا موقف
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اقوام متحدہ سے بین الاقوامی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے جواب میں ایک بیان میں کہا کہ یہ جرائم، نسل کشی اور نسلی تطہیر کے علاوہ ہیں، جو قابضین  اور نیتن یاہو کو جنگی مجرم ثابت کرتے ہیں۔ نیتن یاہو کی نازی فوج ہمارے لوگوں کے خلاف اس طرح کے متعدد جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ قابض فوج فلسطینی خواتین کے خلاف جنسی جارحیت کے علاوہ خود سرانہ پھانسیاں، من مانی گرفتاریاں، شدید مار پیٹ اور دوران حراست خوراک اور ادویات سے محروم کرنے جیسے اقدام کو جائز سمجھتی ہے۔ تحقیقات کے دوران عصمت دری اور توہین کی دھمکیوں کے علاوہ کئی غیر انسانی اقدامات سامنے آئے ہیں۔

حماس اس بدمعاش حکومت کے خلاف بین الاقوامی تحقیقات کے آغاز کا مطالبہ کرتی ہے اور اس کے رہنماؤں کو ان کے وحشیانہ جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہراتی ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ رپورٹ واحد اور پہلی رپورٹ نہیں ہے، جس میں حالیہ جنگ کے دوران فلسطینی خواتین کے خلاف منظم جرائم کے امکان کا اعلان کیا گیا ہے، جیسا کہ اس سے قبل دسمبر 2023ء میں فلسطینی العودہ مرکز نے ایک بیان میں غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات سے مطلع کیا تھا۔ اس مرکز نے قابض فوج اور اس کے سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے جنسی حملوں کی طویل تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے اکثر فوجیوں کو سزا نہیں ملتی۔

بہت سی فلسطینی لڑکیاں اور خواتین اس مسئلے کے بارے میں شکایت کرنے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ اس کا تعلق ان کی عزت و آبرو اور ان کے خاندانوں سے ہوتا ہے، وہ ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف شکایت کرنے اور عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، تاہم 2017ء میں ایک فلسطینی خاتون کی شکایت کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی حراستی مراکز میں خواتین کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ حراستی مرکز میں صہیونی فوجیوں کی طرف سے تشدد اور جنسی زیادتی سے متعلق اس خاتون کے چونکا دینے والے اعترافات کے بعد، "Haaretz اخبار" کے معروف اسرائیلی صحافی امر اورین نے 3 اپریل 2016ء کو ایک رپورٹ شائع کی، جس میں فوجی استغاثہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی فوج کی آرکائیو اور دستاویزات میں فلسطینی قیدیوں کے قتل، ان پر حملہ اور عصمت دری سمیت مختلف جنگی جرائم کے شواہد ملے ہیں۔

ان جرائم پر صہیونی حکام نے جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دیئے بغیر ان کیسز پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اس فلسطینی خاتون کو ان بے شمار مقدمات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان دستاویزات سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوئی کہ عصمت دری اور جنسی حملے خاص طور پر خواتین کے خلاف منظم طریقے سے ہوتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی نے فلسطینی خواتین کے خلاف تشدد اور عصمت دری کے جائز ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ان دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی "عیال کریم" نے "اسرائیلی فوجیوں کے لیے جنگ کے دوران فلسطینی خواتین اور لڑکیوں یعنی غیر یہودی خواتین کی عصمت دری کرنا جائز قرار دیا ہے۔"

بین الاقوامی عدالتوں میں فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی پیروی
اقوام متحدہ کے نامہ نگاروں کی حالیہ رپورٹ غزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی طرف سے انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کے بارے میں ایک وسیع اور مفصل بین الاقوامی تحقیقات کے لیے ایک روزن اور ثبوت ثابت ہوسکتی ہے۔جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے بارے میں ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شکایت کے بعد گذشتہ ہفتوں میں اس عدالت کی طرف سے صیہونی حکومت کی مذمت کی گئی ہے۔ اس عدالتی کارروائی نے حالیہ جنگ کے دوران غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے جرائم کے خلاف دوسرے ممالک کی طرف سے مزید شکایات کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کے آئین (آرٹیکل 7 کے پیراگراف 1) میں واضح طور پر جنسی تشدد کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس شق سے مراد عصمت دری، جنسی غلامی، جبری جسم فروشی، جبری حمل، جبری نس بندی یا کسی بھی طرح کا جنسی تشدد ہے۔

اس کے علاوہ، چوتھے جنیوا کنونشن (1949ء) اور اس کے ضمیموں میں، خواتین کے خلاف پرتشدد رویئے کی مذمت پر کئی بار زور دیا گیا ہے، اس بین الاقوامی دستاویز کے پیراگراف 27 میں، خواتین کے وقار کی خلاف ورزی، عصمت دری، جبری جسم فروشی اور کسی بھی خلاف عصمت و عفت اقدام کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جنگوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو بڑھانے کے لیے کئی دیگر کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ ویانا اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو جون 1993ء میں انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی طرح بیجنگ اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو ستمبر 1995ء میں خواتین کے بارے میں اقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان دونوں میں عورت کی تذلیل اور خواتین کے جنسی تشدد کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

صہیونی، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت کی وجہ سے ہیگ کی عدالت کے حالیہ فیصلے سمیت بین الاقوامی فیصلوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔صیہونی تمام دنیا کی مخالفت کے باوجود رفح میں شہریوں پر نئے حملوں کی بڑی ڈھٹائی سے تیاری کر رہے ہیں۔ بہرحال جنگی جرائم کا کمیشن صیہونی حکومت کی حمایت کرنے والے ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کو غلط ثابت کرنے کے لئے صیہونی مظالم کی حمایت کرنے والے ممالک کے سیاسی حکام اور تل ابیب کے رہنماؤں کو جوابدہ بنانے میں اہم کردار ادا کرے، تاکہ انہیں ان کے اعمال کی سزا دی جاسکے۔
 
 ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 

شبہ کا بیان:

ابن تيميہ حرانی ناصبی نے کتاب منہاج السنہ نے حضرت مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشريف کے بارے میں لکھا ہے کہ:

قد ذكر محمد بن جرير الطبري وعبد الباقي بن قانع وغيرهما من أهل العلم بالأنساب والتواريخ أن الحسن بن علي العسكري لم يكن له نسل ولا عقب والإمامية الذين يزعمون أنه كان له ولد يدعون أنه دخل السرداب بسامرا وهو صغير منهم من قال عمرة سنتان ومنهم من قال ثلاث ومنهم من قال خمس سنين... .

محمد ابن جرير طبری ، عبد الباقی ابن قانع اور علم نسب شناسی و علم تاریخ کے علماء نے کہا ہے کہ [امام] حسن ابن علی عسكری [عليہ السلام] کا کوئی بیٹا نہیں تھا، لیکن امامیہ گمان کرتے ہیں کہ انکا ایک بیٹا تھا اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ سرداب میں داخل ہوا ہے، حالانکہ وہ چھوٹا تھا۔ بعض شیعوں نے کہا ہے کہ وہ دو سال کے تھے، بعض نے کہا ہے کہ وہ تین سال اور بعض نے کہا ہے کہ وہ پانچ سال کے تھے۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفي 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج4، ص87، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

احسان الہی ظہير وہابی ناصبی نے بھی اپنی كتاب الشيعة وأهل البيت میں اپنے ناصبی استاد ابن تیمیہ کی بات کو تکرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

من أكاذيب الشيعة علي اهل البيت انهم نسبوا اليهم الأقوال والروايات التي تنبيء بخروج القائم من اولاد الحسن العسكري الذي لم يولد له مطلقا ...

اہل بیت پر شیعوں کے جھوٹوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایسی باتوں اور روایات کی انکی طرف نسبت دیتے ہیں کہ جن میں ذکر ہوا ہے کہ اولاد امام حسن عسکری میں سے قائم خروج کرے گا، حالانکہ ہرگز انکا کوئی بیٹا نہیں تھا۔

الشيعة وأهل البيت، ص244 .

باقی وہابیوں نے بھی انہی بے ہودہ اور فالتو مطالب کو تکرار کیا ہے اور آج تک تکرار کرتے آ رہے ہیں:

جیسے احمد محمود صبحی نے كتاب نظرية الإمامة، ص409

 اور ڈاکٹر قفاری نے کتاب اصول مذہب الشيعه، ج1، ص 451

میں ان مطالب کا ذکر کیا ہے۔

بحث او رتحقیق:

اہل سنت کے بزرگان کا حضرت مہدی (عج) کی ولادت کا اعتراف کرنا:

زمانہ ماضی سے لے کر آج تک اہل سنت کے بہت سے بزرگان اور علماء نے حضرت مہدی (عج) کی ولادت کا اعتراف کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ وہ حضرت 15 شعبان المعظم سن 255 ہجری شہر سامرا میں دنیا میں آئے تھے۔ ان علماء میں سے بعض کے اسماء کو ہم ذکر کریں گے۔

ایک شیعہ عالم جناب فقیہ ایمان نے کتاب الإصالة المهدوية، لکھی ہے اور اس میں اہل سنت کے 112 علماء کا نام ذکر کیا ہے کہ جہنوں نے امام زمان (ع) کی ولادت کا واضح طور پر اعتراف کیا ہے:

1. شمس الدين الذہبی (متوفی748 ہجری)

اہل سنت کے علم رجال کے مشہور و معروف عالم شمس الدين ذہبی نے اپنی چند کتب میں حضرت مہدی (ع) کی ولادت کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے کتاب العبر فی اخبار من غبر، میں لکھا ہے کہ:

وفيها [سنة 256 ه ] محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق العلوي الحسيني أبو القاسم الذي تلقبه الرافضة الخلف الحجة وتلقبه بالمهدي وبالمنتظر وتلقبه بصاحب الزمان وهو خاتمة الاثني عشر... .

سن 255 ہجری میں م ح م د بن الحسن العسكری [عليہما السلام] دنیا میں آئے، رافضیوں نے اسکو خلف ، حجت، مہدی ، منتظر اور صاحب الزمان جیسے القابات دیئے ہیں، وہ بارہ آئمہ میں سے آخری امام ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، العبر في خبر من غبر، ج2، ص37، الطبعة: الثاني، 1984.

اور ذہبی نے کتاب تاريخ الإسلام ان حضرت کی وفات کو سن 256 یا 258  ہجری میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

أبو محمد الهاشمي الحسيني أحد أئمة الشيعة الذين تدعي الشيعة عصمتهم . ويقال له الحسن العسكري لكونه سكن سامراء ، فإنها يقال لها العسكر . وهو والد منتظر الرافضة...

وأما ابنه محمد بن الحسن الذي يدعوه الرافضة القائم الخلف الحجة ، فولد سنة ثمان وخمسين ، وقيل : سنة ست وخمسين . عاش بعد أبيه سنتين ثم عدم ، ولم يعلم كيف مات . وأمه أم ولد .

ابو محمد ہاشمی حسينی شیعوں کے آئمہ میں سے ایک امام ہے کہ شیعہ اس امام کی عصمت کا دعوی کرتے ہیں اور وہ اس امام کو حسن عسکری کہتے ہیں، اسلیے کہ وہ سامرا میں رہتے تھے اور سامرا کو عسکر کہتے ہیں، وہ (امام عسكری) اس امام کے والد ہیں کہ جسکے آنے کا رافضہ انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔

بہرحال اسکا بیٹا م ح م د بن الحسن ہے کہ رافضی اسے قائم، خلف اور حجت کہتے ہیں، وہ سن 258 ہجری میں دنیا میں آئے تھے، بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ سن 256 ہجری میں دنیا میں آئے تھے اور اپنے والد کے دو سال بعد تک زندہ تھے اور پھر وہ دنیا سے چلے گئے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کیسے فوت ہوئے تھے، اسکی ماں ایک کنیز تھی۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج19، ص113، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م.

وہ چیز جو ہمارے لیے مہم ہے، وہ یہ ہے کہ بس یہ ثابت ہو کہ حضرت مہدی (ع) دنیا میں آئے تھے، اور رہی یہ بات کہ وہ دنیا سے گئے ہیں یا نہیں ؟ اس بارے میں بعد میں تفصیل سے تحقیقی مطالب پیش کیے جائیں گے۔

اور ذہبی نے كتاب سير أعلام النبلاء میں کہا ہے کہ:

المنتظر الشريف أبو القاسم محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي ابن محمد الجواد بن علي الرضي بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زين العابدين بن علي بن الحسين الشهيد بن الامام علي بن أبي طالب العلوي الحسيني خاتمة الاثني عشر سيدا الذين تدعي الامامية عصمتهم... .

منتظر شريف، ابو القاسم م ح م د بن الحسن العسكری .... وہ بارہ آئمہ میں سے آخری امام ہے کہ شیعہ اس امام کی عصمت کا دعوی کرتے ہیں۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج13، ص119،  الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

2. فخر الدين الرازی (متوفی604 ہجری)

اہل سنت کے معروف مفسر قرآن فخر الدين رازی نے امام عسكری عليہ السلام اور انکی اولاد کے بارے میں لکھا ہے کہ:

أما الحسن العسكري الإمام (ع) فله إبنان وبنتان ، أما الإبنان فأحدهما صاحب الزمان عجل الله فرجه الشريف ، والثاني موسي درج في حياة أبيه وأم البنتان ففاطمة درجت في حياة أبيها ، وأم موسي درجت أيضاً.

امام حسن عسكری عليہ السلام کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، ان حضرت کے بیٹوں میں سے ایک صاحب الزمان عجل الله تعالی فرجہ الشريف ہیں اور دوسرا بیٹا موسی ہے کہ جو امام عسکری کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ اسی طرح ان امام کی بیٹیاں اور موسی کی والدہ، امام عسکری کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے تھے۔

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفي604هـ)، الشجرة المباركة في أنساب الطالبية، ص78 ـ 79

3. ابن حجر ہيثمی (متوفی973 ہجری)

ابن حجر ہيثمی نے اپنی كتاب الصواعق المحرقہ میں کہ جسکو اس نے شیعوں کے خلاف لکھا ہے، اس نے اعتراف کیا ہے کہ امام عسکری کا ایک بیٹا تھا کہ جسکا نام ابو القاسم الحجة تھا:

ولم يخلف غير ولده أبي القاسم محمد الحجة ، وعمره عند وفاة أبيه خمس سنين ، لكن أتاه الله فيها الحكمة ، ويسمي القائم المنتظر... .

امام عسكری عليہ السلام کا ابو القاسم م ح م د حجت کے علاوہ کوئی بیٹا نہیں تھا، ان حضرت کی وفات کے وقت اس بیٹے کی عمر پانچ سال تھی، لیکن اسکے باوجود بھی خداوند نے اسکو حکمت سیکھائی تھی اور اسکا نام قائم منتظر رکھا گیا تھا۔

الهيثمي، ابو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفي973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج2، ص601، الطبعة: الأولي، 1417هـ - 1997م.

4. ابن اثير الجزری (متوفی630 ہجری)

وفيها توفي الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسي بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب (ع) ، وهو أبو محمد العلوي العسكري ، وهو أحد الأئمة الإثني عشر علي مذهب الإمامية ، وهو والد محمد الذي يعتقدونه المنتظر بسرداب سامرا ، وكان مولده سنة إثنتين وثلاثين ومائتين.

سن 260 ہجری میں حسن بن علی ... عليہم السلام دنيا سے چلے گئے، وہ ابو محمد علوی عسكری اور شیعہ عقیدے کے مطابق بارہ آئمہ میں سے ایک امام کے والد ہیں، م ح م د کے والد ہیں کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ منتظر اور سامرا کے سرداب میں ہے۔ امام عسکری سن 232 ہجری میں دنیا میں آئے تھے۔

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ) الكامل في التاريخ، ج6 ص249 ـ 250، الطبعة الثانية، 1415هـ.

البتہ امام زمان (عج) کی سامرا میں غیبت اور سرداب میں غائب ہونے کے بارے میں انشاء اللہ تفصیل سے ثابت کیا جائے گا کہ یہ بات بنی امیہ اور ابن تیمیہ کی اولاد کی طرف سے شیعوں پر ایک ناجائز تہمت ہے، کیونکہ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ حضرت مہدی (عج)سامرا کے سرداب میں غائب ہوئے ہیں۔

5. شمس الدين ابن خلكان (متوفی681 ہجری)

ابن خلكان نے اگرچہ ولادت حضرت مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشريف کو واضح ذکر کیا ہے، لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ اس نے بھی اہل سنت کے بعض علماء کی طرح آنکھیں بند کر کے بغیر تحقیق کے شیعوں پر تہمت لگاتے ہوئے کہا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام زمان سرداب میں غائب ہوئے ہیں اور وہ سرداب سے ہی اپنے امام کے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں:

562 أبو القاسم المنتظر :

أبو القاسم محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي بن محمد الجواد المذكور قبله ثاني عشر الأئمة الاثني عشر علي اعتقاد الامامية المعروف بالحجة وهو الذي تزعم الشيعة أنه المنتظر والقائم والمهدي وهو صاحب السرداب عندهم وأقاويلهم فيه كثيرة وهم ينتظرون ظهوره في آخر الزمان من السرداب بسر من رأي

كانت ولادته يوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين ولما توفي أبوه وقد سبق ذكره كان عمره خمس سنين واسم امه خمط وقيل نرجس والشيعة يقولون إنه دخل السرداب في دار أبيه وامه تنظر إليه فلم يعد يخرج إليها وذلك في سنة خمس وستين ومائتين وعمره يومئذ تسع سنين.

ابو القاسم م ح م د بن الحسن العسكری ... کہ جو شیعہ اعتقاد کے مطابق بارویں امام ہیں کہ جو حجت کے نام سے مشہور ہیں اور شیعہ گمان کرتے ہیں کہ وہ منتظر، قائم، مہدی اور صاحب سرداب ہے۔ شیعوں نے اپنے اس امام کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ انکا امام آخر الزمان میں سرداب سے ظہور کرے گا۔

انکی ولادت 15 شعبان بروز جمعہ سن 255 ہجری کو واقع ہوئی۔ جب انکے والد دنیا سے گئے تو وہ پانچ سال کے تھے۔ انکی والدہ کا نام خمط تھا، بعض نے کہا ہے کہ نرجس تھا۔ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ وہ اپنے والد کے سرداب میں داخل ہوئے ہیں اور اس حالت میں کہ انکی والدہ انکی طرف دیکھ رہی تھی، وہ غائب ہو گئے ہیں اور ابھی تک سرداب سے نہیں نکلے۔ یہ واقعہ سن 265 ہجری میں رونما ہوا تھا اور اس وقت انکی عمر 9 سال تھی۔

إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج4، ص176، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

6. صلاح الدين الصفدی (متوفی764 ہجری)

اہل سنت کے ایک نامور عالم صلاح الدين صفدی نے حضرت مہدی عليہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ:

الحجة المنتظر محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي ابن محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن محمد الباقر بن زين العابدين علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم الحجة المنتظر ثاني شعر الأئمة الأثني عشر هو الذي تزعم الشيعة انه المنتظر القائم المهدي وهو صاحب السرداب عندهم وأقاويلهم فيه كثيرة ينتظرون ظهوره آخر الزمان من السرداب بسر من رأي ولهم إلي حين تعليق هذا التاريخ أربع مائة وسبعة وسبعين سنة ينتظرونه ولم يخرج ولد نصف شعبان سنة خمس وخمسين.

حجت منتظر م ح م د بن الحسن العسكری .... کہ جو شیعہ اعتقاد کے مطابق بارویں امام ہیں اور شیعہ گمان کرتے ہیں کہ وہ منتظر، قائم، مہدی اور صاحب سرداب ہے۔۔۔۔۔

شیعوں کو اس تاریخ تک 477 سال گزر گئے ہیں کہ وہ انکا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ ان حضرت کی ولادت 15 شعبان بروز جمعہ سن 255 ہجری کو واقع ہوئی۔

الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج2، ص249، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفي، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

7. سبط ابن الجوزی (متوفی654 ہجری)

سبط ابن جوزی کہ جو ابو الفرج ابن الجوزی کا نواسہ ہے، پہلے وہ حنبلی تھا اور پھر اس نے مذہب حنفی اختیار کر لیا۔ اس نے شیعوں کے بارویں امام کے بارے میں کہا ہے کہ:

محمد بن الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسي بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب ، وكنيته أبو عبد الله وأبو القاسم وهو الخلف الحجة صاحب الزمان القائم والمنتظر والتالي وهو آخر الأئمة ، وقال : ويقال له ذو الإسمين محمد وأبو القاسم قالوا : أمه أم ولد يقال لها : صقيل.

م ح م د بن الحسن بن علی ... کہ انکی كنيت ابو عبد الله اور ابو القاسم ہے، وہ جانشين و حجت، صاحب الزمان، قائم، منتظر اور آخری امام ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ان حضرت کے دو نام ہیں: 1- م ح م د، 2- ابو القاسم۔ کہا گیا ہے کہ انکی والدہ ایک کنیز تھی کہ جنکا نام صیقل تھا۔

سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبو المظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي (متوفي654هـ)، تذكرة الخواص، ص204، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.

8. خير الدين زركلی (متوفی1410 ہجری)

معروف وہابی خير الدين زركلی نے حضرت حجت عجل الله تعالی فرجہ الشريف کے بارے میں لکھا ہے کہ:

محمد بن الحسن العسكري الخالص بن علي الهادي أبو القاسم ، آخر الأئمة الإثني عشر عند الإمامية ، وهو المعروف عندهم بالمهدي ، وصاحب الزمان ، والمنتظر ، والحجة وصاحب السرداب ، ولد في سامراء ، ومات أبوه وله من العمر نحو خمس سنين ، ولما بلغ التاسعة أو العاشرة أو التاسعة عشر دخل سرداباً في دار أبيه ولم يخرج منه .

م ح م د بن الحسن العسكری ... کہ جو شیعہ اعتقاد کے مطابق بارہ آئمہ میں سے آخری امام ہیں اور شیعوں کے نزدیک وہ مہدی، صاحب الزمان، منتظر، حجت اور صاحب سرداب مشہور ہیں۔ وہ شہر سامرا میں دنیا میں آئے اور جب انکے والد دنیا سے گئے تو وہ پانچ سال کے تھے، وہ 9 سال یا 10 سال، یا 19 سال کی عمر میں اپنے والد کے گھر موجود سرداب میں داخل ہوئے اور پھر دوبارہ وہاں سے باہر نہیں نکلے۔

پھر وہ (خير الدين زركلی) ابن خلکان کے کلام کو سامرا کے سرداب میں غائب ہونے اور وہاں سے باہر نکلنے کو نقل کرتے اور ردّ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:

قال إبن خلكان : والشيعة ينتظرون خروجه في آخر الزمإن من السرداب بسر من رأي. إن الشيعة لا تنتظر خروج الإمام المصلح من السرداب في سامراء وإنما تنتظر خروجه من بيت الله الحرام ، وقد أشرنا إلي ذلك ودللنا عليه في كثير من بحوث هذا الكتاب.

ابن خلكان نے کہا ہے کہ: شیعہ ان حضرت کے آخر الزمان میں سامرا میں موجود سرداب سے خارج ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، حالانکہ شیعہ اس امام مصلح کا سامرا میں واقع سرداب سے ظاہر ہونے کے منتظر نہیں ہیں، بلکہ وہ اس امام کے بیت اللہ الحرام سے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں کہ ہم نے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کتاب کے بہت سے مطالب بھی  اسی بات پر استدلال کر رہے ہیں۔

خير الدين الزركلي (متوفي1410هـ)، الأعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال والنساء من العرب والمستعربين والمستشرقين ، ج6، ص80، ناشر: دار العلم للملايين ـ بيروت، الطبعة: الخامسة، 1980م

9. عاصمی مكی (متوفی1111 ہجری)

عاصمی مكی عالم شافعی مذہب ہے، اس نے حضرت مہدی (ع) کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

الإمام الحسن العسكري بن علي الهادي ... ولده محمدا أوحده وهو الإمام محمد المهدي بن الحسن العسكري بن علي التقي بن محمد الجواد ابن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالي عنهم أجمعين.

ولد يوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين وقيل سنة ست وهو الصحيح أمه أم ولد اسمها أصقيل وقيل سوسن وقيل نرجس كنيته أبو القاسم ألقابه الحجة والخلف الصالح والقائم والمنتظر وصاحب الزمان والمهدي وهو أشهرها صفته شاب مربوع القامة حسن الوجه والشعر أقني الأنف أجلي الجبهة ولما توفي أبوه كان عمره خمس سنين.

امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے وہی امام م ح م د بن الحسن العسكری ہے کہ جنکی ولادت 15 شعبان بروز جمعہ سن 255 ہجری کو واقع ہوئی ، اور بعض نے کہا ہے کہ ولادت سن 256 ہجری کو ہوئی تھی کہ یہی قول صحیح ہے۔ انکی ماں ایک کنیز تھی کہ جسکا نام اصیقل تھا، بعض نے سوسن اور بعض نے نرجس بھی کہا ہے۔ انکی کنیت حضرت ابو القاسم اور انکے القاب حجت، خلف، صالح، قائم، منتظر، صاحب الزمان، جبکہ انکا مشہور ترين لقب حضرت مہدی ہے۔ انکی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ درمیانے قد ، خوبصورت چہرے و خوبصورت بالوں ، باریک ناک اور چوڑے ماتھے والے ایک جوان ہیں۔

العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج4، ص150، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.

10. ابو محمد يافعی (متوفی768 ہجری)

وفيها وقيل في سنة ستين توفي الشريف العسكري الحسن بن علي بن محمد ابن علي بن موسي الرضي بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين ابن الحسين بن علي بن ابي طالب رضي الله تعالي عنهم أحد الائمة الاثني عشر علي اعتقاد الامامية وهو والد المنتظر صاحب السرداب.

سن 260 ہجری میں امام حسن عسكری عليہ السلام، کہ جو شیعہ کے عقیدے کے مطابق بارہ آئمہ میں سے ایک امام ہیں، دنیا سے چلے گئے، وہ منتظر صاحب سرداب کے والد ہیں۔

اليافعي، ابو محمد عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان (متوفي768هـ)، مرآة الجنان وعبرة اليقظان، ج2، ص107، ناشر: دار الكتاب الإسلامي - القاهرة - 1413هـ - 1993م.

11. ابن الوردی (متوفی749 ہجری)

ولد محمد بن الحسن الخالص سنة خمس وخمسين ومائتين ، ويزعم الشيعة أنه دخل السرداب في دار أبيه ب (سر من رأي) وأمه تنظر إليه فلم يعد إليها ، وكان عمره تسع سنين ، وذلك في سنة مائتين وخمس وستين ، علي خلاف.

م ح م د بن الحسن العسكری سن 255 ہجری میں دنیا میں آئے اور شیعہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے گھر سامرا میں ایک سرداب میں داخل ہوا ہے، اسکی والدہ اسکے آنے کی منتظر تھی، لیکن وہ واپس نہیں آیا، وہ اس وقت 9 سال کا تھا اور یہ سن 265 ہجری کا واقعہ ہے۔

إبن الوردي - تاريخ إبن الوردي - في ذيل تتمة المختصر

12. ابن صباغ المالكی (متوفی855 ہجری)

ولد أبو القاسم محمد الحجه بن الحسن الخالص بسر من رأي ليلة النصف من شعبان سنة 255 للهجره ، وأما نسبه أباً وأماً فهو أبو القاسم محمد الحجه بن الحسن الخالص بن علي الهادي بن محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب (ع) ، وأما أمه فأم ولد يقال لها : نرجس خير أمة ، وقيل : إسمها غير ذلك ، وأما كنيته فأبو القاسم ، وأما لقبه فالحجه والمهدي والخلف الصالح والقائم المنتظر وصاحب الزمان وأشهرها المهدي.

ابو القاسم م ح م د الحجہ بن الحسن ، جو 15 شعبان 255 ہجری میں شہر سامرا میں دنيا میں آئے۔ اسکے والد امام حسن عسكری فرزند علی الہادی ہے اور اسکی والدہ ایک بہت اچھی کنیز تھی کہ جسکا نام نرجس تھا۔ ان حضرت کی کنیت ابو القاسم اور القاب حجت، مہدی، خلف، صالح، قائم، منتظر اور صاحب الزمان تھے، لیکن ان حضرت کا مشہور ترین لقب مہدی ہے۔

ابن صباغ المالكي المكي ، علي بن محمد بن أحمد (متوفي855هـ) الفصول المهمة في معرفة الأئمة، ج2، ص682، تحقيق: سامي الغريري ، ناشر: دار الحديث ـ قم، 1380ش.

البتہ اہل سنت کے بزرگان جیسے قندوزی حنفی، عبد الحليم جندی، سيد ابو الحسن يمانی، شمس الدين ابن طولون، كمال الدين الشامی، علامہ مولوہ ہندی، علامہ عثمان العثمانی، علامہ حمداوی و ... نے بھی ولادت حضرت مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشريف کو نقل کیا ہے، لیکن کسی نے بھی بیان اور قبول نہیں کیا کہ یہ وہی مہدی ہے کہ جسکے بارے میں رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ: وہ ظاہر ہو کر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ بہرحال اہل سنت کے علماء کے ان اقوال کو نقل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ابن تیمیہ ناصبی اور اسکے پیروکاروں کو منہ توڑ جواب دیا جائے کہ جو دعوی کرتے تھے کہ امام عسکری (ع) جب شہید ہوئے تو انکی کوئی اولاد اور کوئی جانشین نہیں تھا۔

نتيجہ:

اولا:

ابن تیمیہ وہابی و ناصبی نے جو دعوی طبری اور عبد الباقی ابن قانع سے نقل کیا ہے کہ امام عسکری (ع) بغیر اولاد اور جانشین کے دنیا سے گئے ہیں، یہ دعوی سراسر جھوٹ ہے، کیونکہ ان دونوں علماء کی کتابوں میں ایسا دعوی بالکل موجود و مذکور نہیں ہے۔ پس معلوم و واضح ہوا کہ ابن تیمیہ جھوٹا اور دشمن اہل بیت (ع) ہے۔

ثانيا:

اگر فرض بھی کریں کہ طبری اور عبد الباقی نے ایسا دعوی بھی کیا ہو تو، یہ بات انکی جہالت اور تعصب کو ثابت کرتی ہے، اس لیے کہ اہل سنت کے بہت سے معتبر علمائے تاریخ نے ولادت حضرت حضرت حجت عليہ السلام کو اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے، حتی واضح طور ولادت کے دن، مہینے اور سال تک کو ذکر کیا ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو طبری اور عبد الباقی کے دعوے کی کیا علمی اہمیت رہ جاتی ہے کہ اسکی طرف توجہ کی جائے ؟

ثالثا:

در حقیقت ابن تیمیہ سے لے کر آج دور حاضر تک کے تمام وہابیوں اور ناصبیوں کا مختلف بہانوں سے امام حسن عسکری (ع) کے جانشین کے انکار کرنے سے اصل ہدف اور مقصد، امام زمان (عج) کے مبارک وجود کا انکار کرنا ہے۔ لیکن باطل پھونکوں سے حق کے اس روشن چراغ کو بجھایا نہیں جا سکتا۔

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُـوْرَ اللّـٰهِ بِاَفْوَاهِهِـمْۖ وَاللّـٰهُ مُتِمُّ نُـوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ ،

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں (پھونکوں) سے بجھا دیں، اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا، اگرچہ کافر برا ہی کیوں نہ مانیں۔

 سور صف آیت 8

ا



 
 
 
Friday, 23 February 2024 18:15

حضرت امام مہدی(ع)

قائم آل محمد، منجی عالم بشریت حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے یوم ولادت باسعادت

اسی مناسبت سے رسول اللہ کے بارہویں جانشین حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حیات طیبہ کے چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں:

 

نام و لقب:

آئمہ اہل بیت میں سےبارہویں اور آخری امام کا نام ’’م ح م د‘‘ ہے کہ جو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے اکلوتے بیٹے ہیں ان کا معروف ترین لقب ’’مہدی‘‘ ہے اسی لقب کی وجہ سے آپ کو ’’امام مہدی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ولادت باسعادت: امام زمانہ(عج) کی ولادت باسعادت عباسی خلیفہ معتمد کی حکومت کے دوران 15شعبان 255ہجری کو سامراء میں ہوئی۔ امام زمانہ(عج) کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام نے دس ہزار رطل روٹی اور دس ہزار رطل گوشت تقسیم کیا اور تین سو دنبے عقیقہ کے طور پر ذبح کیے۔ والدہ ماجدہ: امام زمانہ(عج) کی والدہ کا نام جناب ’’نرجس‘‘ہے۔ اپنے بابا کی شہادت کے وقت امام زمانہ(عج) کی عمر پانچ سال تھی۔ جس طرح اللہ نے حضرت یحیی کو بچپن میں ہی نبوت عطا کی اور حضرت عیسی کو گہوارے میں ہی اپنا رسول بنایا اسی طرح اللہ تعالی نے امام زمانہ کو کم سنی میں ہی امامت کے منصب پہ فائز کیا انھیں دانائی اور حق وباطل میں تمیز کرنے والے فصل الخطاب سے نوازا اور انھیں پوری دنیا کے لیے اپنی حجت اور نشانی قرارا دیا۔ اس کتاب کے’’امام مہدی منتظر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے باب میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلام میں امام مہدی(عج) اور ان سے متعلق تمام امور کے بارے میں عقیدہ رکھنے کا پہلا اور بنیادی سبب اہل سنت اور شیعوں کی معتبر کتابوں میں موجود احادیثِ نبویہ(ص) ہیں، ہر دور میں مسلمانوں کا اس بات پہ اتفاق رہا ہے کہ آخری زمانہ میں اہل بیت میں سے مہدی نام کا ایک فرد ظہور کرے گا جو دین کی مدد و تائید کرے گا اور عدل و انصاف کی بات کرے گا اور پوری دنیا پر حکومت حاصل کرنے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ غیبت: امام مہدی(عج) کی دو غیبتیں ہیں: پہلی غیبت کو غیبت صغری کہتے ہیں اور دوسری غیبت کو غیبت کبری کہا جاتا ہے۔

غیبتِ صغری:

اس پہلی غیبت میں امام مہدی سوائے چند خاص لوگوں کے تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے اور شیعوں سے ان کا رابطہ اپنے نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رہا، شیعہ اپنے سوالات اور خطوط امام مہدی(عج) کے خاص سفیر کو دیتے اور وہ سفیر شیعوں کے خطوط کو امام مہدی تک پہنچا دیتا۔ امام مہدی(عج) کی طرف سے سوالوں اور خطوط کے جوابات کو متعلقہ افراد تک پہنچانا بھی امام کے سفیر کی ہی ذمہ داری تھی امام مہدی(عج) کی طرف سے لکھے گئے خطوط وغیرہ پہ امام کی مہر اور ان کے دستخط ہوا کرتے تھے۔

74سال تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا اس عرصہ کو غیبتِ صغری کا نام دیا جاتا ہے اور اسے غیبت صغری اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس عرصہ میں امام مہدی(عج) کا لوگوں سے مکمل طور پر رابطہ منقطع نہیں تھا۔

  • امام مہدی(عج) کے پہلے سفیر:

امام مہدی(عج) کے پہلے سفیر اور نمائندے عثمان بن عمرو عمری اسدی تھے جناب عثمان بن عمرو پہلے امام علی نقی علیہ السلام اور پھر امام حسن عسکری علیہ السلام کے نمائندے تھے اور آخر میں امام مہدی(عج) کے نمائندے اور سفیر کی حیثیت سے آخری دم تک فرائض سرانجام دیتے رہے۔

  • امام مہدی(عج) کے دوسرے سفیر:

جب امام کے پہلے سفیر عثمان بن عمرو کا انتقال ہوا تو امام زمانہ(عج) کے حکم مطابق سفارت اور نمائندگی کے فرائض پہلے سفیر کے بیٹے محمد کو سونپ دیے گئے اس طرح محمد بن عثمان امام زمانہ(عج) کے دوسرے سفیر اور نمائندے بن گئے۔

  • امام مہدی(عج) کے تیسرے سفیر:

دوسرے سفیر کی وفات کے بعد حسين بن روح نوبختی کو امام زمانہ(عج) کے خاص نمائندے اور سفیر بننے کا شرف حاصل ہوا۔

  • امام مہدی(عج) کے چوتھے سفیر:

اپنے تیسرے سفیرکے اس دنیا سے رخصت ہونے پہ علی بن محمد سمری کو امام زمانہ(عج) نے اپنا سفیر اور نمائندہ مقرر کیا۔

غیبتِ كبرى:

جب چوتھے سفیر بھی انتقال کر گئے تو ان کے انتقال کے ساتھ ہی غيبت صغرى بھی اختتام پذیر ہو گئی اور غیبت کبری کا آغاز ہو گیا۔

غيبت كبرى کا آغاز پندرہ شعبان 328ہجری سے ہوا، اس کے بعد شیعوں کا امام زمانہ(عج) سے خصوصی نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رابطہ منقطع ہو گیا اور اللہ تعالی ہی اس کی اصل وجہ اور اس میں پوشیدہ حکمت سے آگاہ ہے۔

غیبت کبری کا مسئلہ اللہ کے اسرار میں سے ہے اور خدائی اسرار میں شک سرکشی ہے کیونکہ خدا کے اسرار سے آگاہ نہ ہونا ان سے انکار کا عذر نہیں بن سکتا کیونکہ جو کچھ بھی اس کائنات میں موجود ہے اسے تفصیلی طور پر جاننا ضروری نہیں ہے ہم سب مسلمان قرآن کے ایک ایک حرف پہ ایمان رکھتے ہیں حالانکہ ہم میں سے اکثریت کو قرآنی الفاظ کے معانی معلوم نہیں ہیں۔ قرآن کی سورتوں کی ابتدا میں موجود ’’الم‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ کے معانی سے ہم میں سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہے کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ ان کے معانی کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ ان کا علم صرف اللہ اور حضرت محمد(ص) کے پاس ہے جبکہ ہم شیعہ کہتے ہیں قرآن کی سورتوں کی ابتدا میں موجود ’’الم‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ کے معانی کا علم اللہ تعالی، رسول خدا(ص) اور آئمہ طاہرین(ع) کے پاس ہے۔

 
امام حسین(ع) اور امام مہدی(عج) کی شباہتیں + دعائے تعجیل فَرَج

امام زمانہ(عج) امام حسین(ع) کے فرزند ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ امام مہدی(عج) امام حسین(ع) کے حقیقی منتقم اور خون خواہ ہیں۔ ظہور کے بعد امام زمانہ(عج) کا سب سے پہلا کلام امام حسین(ع) کی یاد ہے۔

بقلم: میرصادق سیدنژاد۔ ترجمہ وترتیب: زیدی

امام حسین(ع) اور امام مہدی(عج) کی شباہتیں + دعائے تعجیل فَرَج

امام حسین علیہ السلام اور امام زمانہ علیہ السلام دونوں "ثاراللہ" (1) ہیں؛ دونوں "طرید" (2) اور "شرید" (3) اور "وتر الموتور" (4) ہیں۔ (5)
دونوں اماموں کے اہداف مشترکہ ہیں۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: جب ہمارا قائم قیام کرے تو وہ باطل کو حتمی طور پر نیست و نابود کریں گے۔ (6)
اور امام حسین(ع) کا ہدف بھی زیارت اربعین میں مذکور ہے: امام حسین(ع) اپنا خون تیری (یعنی اللہ کی) راہ میں قربان کیا تاکہ انسانون کو نادانی اور گمراہی سے نجات دلائیں۔ (7)
6۔ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، زیارت اربعین۔
ان دونوں کی عصری صورت حال ایک جیسی ہے اور دونوں کا زمانہ فساد اور گناہ و بے دینی اور بدعتوں کی عالمی ترویج کے لحاظ سے ایک جیسا ہے اور دونوں کے اصحاب خاص ایک جیسی معرفت و محبت و اطاعت کے مدارج پر فائز ہیں۔ (8)
عاشورا اور انتظار
عاشورائی تعلیم و تہذیب تہذیبِ انتظار کا سرچشمہ ہے۔ انتظار عاشورا کا تسلسل ہے اور ایک دنیا جتنی وسیع کربلا میں دوسرے حسین(ع) کا چشم براہ ہونا۔
زیارت عاشورا کے دو حصوں میں حضرت مہدی(عج) کے رکاب میں امام حسین(ع) کی خونخواہی اور انتقام کی خبر دی جارہی ہے۔
چنانچہ انتظار در حقیقت، انتقام عاشورا کا انتظار ہے اور حضرت مہدی(عج) کے اصحاب سب عاشورائی ہیں۔ صرف وہ لوگ امام مہدی(عج) کے رکاب میں لڑ کر امام حق کی مدد کرسکتے ہیں جو مکتب عاشورا میں صیقل ہوئے ہوں اور حق و باطل کے معیار کو صحیح طریقے سے پہچان چکے ہوں اور بصیرت کی چوٹیوں تک پہنچے ہوں کیونکہ حسین(ع) خود حق و باطل کا معیار و میزان ہیں اور تولا اور تبرا اور سلم و حرب کا پیمانہ ہیں۔
قیام مہدی(عج) عاشورا کے اہداف کا حصول
امام حسین(ع) قرآن اور سنت نبوی کے احکام اور سنتوں کے احیاء اور بنوامیہ کی حاکمیت کی وجہ سے پھیلنے والی بدعتوں اور دین میں رائج ہونے والی تحریفات کے خاتمے کے لئے اٹھے اور مکہ معظمہ سے کربلائے معلی کی طرف سفر کے دوران راستے میں اپنے قیام کے محرکات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
میں اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت میں اصلاح کے لئے اٹھا ہوں؛ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور اپنے والد امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کی سیرت پر کاربند رہنا اور عمل کرنا چاہتا ہوں۔ (9)
امام حسین(ع) کے کلام کے مجموعے سے تحریک عاشورا کے اعلی و اہداف و اغراض کا بخوبی اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ(ع) قرآن، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور سیرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع) کے احیاء اور انجرافات اور گمراہیوں اور بدعتوں کے ختم، حق کو حاکم بنانے اور حق پرستوں کو حاکمیت بخشنے، ستمگروں کی حکومت کی استبدادیت و آمریت کو نابود کرنے اور سماجی و معاشی شعبوں میں عدل و قسط کے فروغ کے لئے کربلا تشریف فرما ہوئے تھے اور یہی قیام عاشورا کے اہداف و مقاصد تھے۔
دوسری طرف سے جب ہم عالم بشریت کے نجات دہندہ حضرت امام مہدی(عج) کے قیام اور آپ(عج) کی عالمی حکومت کے مطمع نظر کا جائزہ لیتے ہیں وہاں بھی یہی اہداف و مقاصد نظر آتے ہیں اور حتی کہ عبارات اور الفاظ بھی ایک جیسے ہیں۔
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام حضرت مہدی(عج) کی حکومتی روش کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب دوسرے ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات کو ہدایت پر مقدم رکھیں اور ترجیح دیں، امام مہدی(عج) نفسانی امیال و خواہشات کو ہدایت کی طرف لوٹاتے ہیں اور ایسے حالات میں ـ جب دوسرے اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں ـ امام مہدی(عج) آراء و عقائد کو قرآن کی طرف لوٹائیں گے۔ وہ لوگوں کو بتا دیں گے کہ کس طرح نیک سیرت اور روش کے ساتھ عدل و قسط کے مطابق عمل کیا جاسکتا ہے اور وہ قرآن سیرت نبوی کو زندہ کریں گے۔ (10)
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
قائم آل محمد(ص) لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ولایت علی بن ابی طالب علیہما السلام اور ان کے دشمنوں سے بیزاری و برائت کی طرف دعوت دیں گے۔ (11)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
حضرت مہدی(عج) عالمی سطح پر دین میں رائج ہونے والی بدعتوں کا خاتمہ کریں گے اور ان کے بدلے رسول اللہ(ص) کی تمام سنتوں کو یکے بعد دیگرے رائج و نافذ کریں گے۔ (12)
حضرت مہدی(عج) امام حسین(ع) کے خون کے منتقم:
امام مہدی(عج) کے القاب میں سے ایک "منتقم" ہے۔ امام(عج) کے لئے اس لقب کے انتخاب کے لئے اہل بیت(ع) کی روایات میں متعدد اسباب بیان ہوئے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اللہ کے آخری ولی اور حجت کو قائم کیوں کہا جاتا ہے؟
امام(ع) نے فرمایا:
کیونکہ جب دشمنوں نے میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا تو فرشتے مغموم ہوئے اور روتے اور آہ و نالہ کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عرض کیا: خداوندا! پروردگارا! کیا تو ان لوگوں سے درگذر کرے گا جنہوں نے تیرے برگزیدہ بندے اور تیرے برگزیدہ بندے کے فرزند کو بزدلانہ طریقے سے قتل کیا؟
تو خداوند متعال نے فرشوں کے جواب میں ارشاد فرمایا: اے میرے فرشتو! میری عزت و جلال کی قسم! میں ان سے انتقام لونگا گوکہ اس میں کافی طویل عرصہ لگے گا۔
اس کے بعد خداوند متعال نے امام حسین علیہ السلام کے فرزندوں کا سایہ دکھا دیا اور پھر ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا جو حالت قیام میں تھے اور فرمایا: میں اس قائم کے ذریعے امام حسین(ع) کے دشمنوں سے انتقام لونگا۔ (13)
آیت کریمہ "وَمَنْ قُتِلَ مظلوماً فقد جَعَلْنا لِوَلیّه سلطاناً..."۔ (14) (اور جو مظلومیت کے ساتھ قتل ہو، ہم نے اس کے وارث کو تسلط عطا کیا ہے) کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"اس آیت میں مظلوم سے مراد امام حسین علیہ السلام ہیں جو مظلومیت کے ساتھ قتل کئے گئے اور "جَعَلنا لِوَلیِّه سلطاناً" سے مراد حضرت امام مہدی(عج) ہیں۔ (15)
امام محمد باقر علیہ السلام بھی فرماتے ہیں:
"ہم امام حسین علیہ السلام کے خون کے وارث ہیں۔ جب ہمارے قائم قیام کریں گے، خون امام حسین(ع) کا معاملہ اٹھائیں گے"۔
نتیجہ:
اہداف کے مشترک ہونے کے علاوہ، امام مہدی(عج) کے قیام کے بعد عالمی حکومت کے قیام کے زمانے میں وہ تمام تر اہداف و مقاصد جامہ عمل پہنیں گے جو امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں بیان کئے تھے اور تحریک عاشورا بار آور ہوجائے گی اور تحریک حسینی اور ظہور مہدی(عج) کی برکت سے پوری دنیا میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ اور آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ تک، تمام انبیاء علیہم السلام کے اہداف حاصل ہوجائیں گے اور آدم کے فرزند صلح و امن و سلامتی اور سعادت کا مزہ چکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ "ثار" کی جڑ "ثَأر" اور "ثُؤرة" بمعنی انتقام و خونخواہی نیز بمعنی خون آیا ہے۔ الطريحى، مجمع البحرين، ج 1، ص 237، فرہنگ محمد معين، ج 1، ص 1185، مفردات راغب اصفہانی، ص 81. "ثار اللہ" کے لئے کے لئے مختلف معانی ذکر کئے گئے ہیں اور ہر ایک اپنی جگہ تفسیر طلب ہے۔ مجموعی طور پر اس کے معنی یہ ہیں کہ: خداوند متعال امیر المؤمنین اور امام حسین علیہما السلام ـ جن کو ثار اللہ کہا گیا ہے زیارات میں پڑھتے ہیں "السلام علیک یا ثار اللہ وابن ثارہ" ـ کے خون کا ولی و وارث خود خدا ہے اور خدا خود ہی ان کے خون کا بدلہ ان کے قاتلوں سے لے گا۔ کیونکہ ان دو بزرگواروں کا خون بہا کر دشمنان دین اس مقدمے میں خدا کے سامنے مدعا علیہ کے طور پر فریق بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ حریم الہی کے خلاف جارحیت و تجاوز کے مرتکب ہوئے ہیں۔
2۔ طريد، بمعنی خانہ و کاشانہ چھوڑنے پر مجبور کیا جانے والا اور برکنار کیا جانے والا۔
3۔ شريد طرید کی مانند ہے اور اس کے معنی بےوطن ہونے والا اور وطن کو چھوڑنے پر مجبور کیا جانے والا۔
4۔ وتر الموتور: 1۔ وہ فرد جو خود بھی جرم کا نشانہ بنے اور اس کے اہل خاندان پر بھی ظلم کیا جائے۔ 2۔ وہ انسان جس کو اس کے اہل خاندان کے ساتھ قتل کیا گیا ہو۔ 3۔ وہ اکیلا فرد جس کے خاندان کے افراد کو قتل کیا گیا ہو۔ 4۔ وہ تنہا انسان جس کو اہل خاندان کے ہمراہ قتل کیا گیا ہو اور اس کا انتقام نہ لیا گیا ہو۔ 5۔ یگانۂ دوران یعنی وہ جو انسانی کمالات میں بے مثل و منفرد ہو۔ ان تفسیروں اور تشریحات کی تفصی ل کے لئے کتاب "بر رسی و تحلیلی پیرامون زیارت عاشورا"، ص 82 کے بعد، سے رجوع کیا جائے۔ کتاب کے مؤلف مجید حیدری فر ہیں۔ نیز کتاب ابوالفضل تہرانی کی کتاب "مدرسه عشق" ص 137 سے رجوع کریں۔ نیز کتاب "پاسخ به پرسش های دانشجویی"، "مبحث قیام امام حسین (ع)"، سے نیز کتاب "شفاء الصدور ص 162" سے رجوع کریں۔
5۔ ابن بابویه، کمال الدین،ج1 ص318۔
6۔ کلینی، اصول کافی، ج8، ص278۔
7۔ مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص308و 386۔
8۔ بحارالانوار، ج45، ص6۔
9۔ بحارالانوار، ج51، ص130۔
10۔ الزام الناصب، ص177۔
11۔ ینابیع الموّدة، ج3، ص62۔
12۔ دلائل الامامة، ص239۔
13۔ سورہ اسراء آیت 33۔
14۔ البرهان فى تفسیر القرآن، ج4، ص559۔
15۔ وہی ماخذ ج 4 ص 560۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع :
نشریه : موعود نامه،انتشارات مشهور، ص 478
مقاله : یزدی حائری، شیخ علی، الزام الناصب، ج2، ص282
مقاله : تونه ای، مجتبی، موعود نامه،انتشارات مشهور، ص 478/ پور سعید آقایی، عاشورا و انتظار، ص42
کتاب بحار الانوار ،علامه مجلسی ،مجلدات 1،45،51۔

 


source : www.sibtayn.com