سلیمانی

سلیمانی

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، جامعۃ الزہرا (س) کی استاد محترمہ ریحان حقانی نے حجاب سے متعلق سوالات و شبہات کے سلسلہ میں "صدرِ اسلام کی تاریخ میں خواتین کا پردہ" کے عنوان پر منعقدہ ایک خصوصی ریڈیو پروگرام میں کہا: اگر ہم حجاب کے مسئلہ کو پوری طرح اور واضح طور پر بیان کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں معاشرے میں ثقافتی اور لباس پہننے کی کیا صورتحال تھی۔ پھر یہ دیکھیں گے کہ آیا ہمارا حجاب اس دور کے حجاب جیسا ہونا چاہیے یا نہیں۔

انہوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ آزادی کا مطلب مختلف انداز سے رہنا سمجھتے ہیں اور فکر کرتے ہیں کہ آزادی کا مطلب پابندیوں اور برہنگی سے آزادی کا نام ہے، حالانکہ آزادی کا یہ مفہوم انسانی عقل و شعور کے بھی خلاف ہے۔

محترمہ ریحان حقانی نے مزید کہا: میں نے حجاب کے سلسلہ میں ان تمام الفاظ اور عنوانات کا استخراج کیا ہے جو دورِ جاہلیت اور صدر اسلام کے متون میں ہر قسم کے حجاب اور پردے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا: زمانۂ جاہلیت میں جب اسلام سرزمین حجاز اور عرب میں داخل ہوا تو اس وقت کے لوگوں میں بھی بے حجابی اور برہنگی کا کلچر عام نہیں تھا اور تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت حجاز میں عورتیں امیر سے غریب تک مختلف سطح پر معاشرہ میں موجود تھیں اور اس وقت بھی معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے حجاب انتہائی اہمیت رکھتا تھا اور ان کی ثقافت ایسی نہیں تھی کہ وہ بے پردہ اور برہنہ ہوں یا وہ کوئی مناسب لباس نہ پہنتی ہوں۔

حوزہ علمیہ کی اس استاد نے مزید کہا: پس تاریخی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاب اور پردہ زمانۂ جاہلیت میں بھی موجود تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں اسلام سے صدیوں قبل تاریخ کے حامل ملنے والے پتھروں کے نوشتہ جات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی پردے کا وجود تھا۔ اس کے علاوہ جب ہم عربوں کے دورۂ جاہلیت کے متون و نصوص اور ادب کا مشہدہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کا ادب اور لٹریچر ایسے مواد سے بھرا ہوا ہے کہ اگر اس وقت کوئی پردہ کو اہمیت نہی دیتا تو وہ اسے برا جانتے تھے اور اس پر تنقید کیا کرتے تھے۔

جامعۃ الزہرا (س) کی استاد نے آخر میں کہا: پردہ کرنے والا شخص اپنی عقل اور فطرت کے مطابق برتاؤ کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں کہ اسلام بھی حجاب کا حکم دیتے وقت یہی کہتا ہے کہ خواتین کے حجاب اور پردے کا معاشرے میں احترام کیا جانا چاہیے۔ ہمارے اسلامی معاشرہ میں حکومت اسلامی ہے اور ہمارے قوانین بھی مذہبی تعلیمات سے ماخوذ ہیں لہٰذا ان قوانین کی پابندی ایک سالم اور متشرع یا قانون پسند شخص کے اس کے مذہبی اور اسلامی اصولوں پر کاربند رہنے کو ظاہر کرتی ہے۔

شیعہ نیوز: رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ ہے اور عالم اسلام صیہونیت کے سرطانی ٹیومر کی تباہی کا مشاہدہ کرے گا۔

رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے آج جمعرات 22 فروری کو اسلامی جمہوریہ ایران میں منعقدہ 40 ویں بین الاقوامی قرآنی مقابلے کے شرکاء سے ملاقات کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کتاب انذار ہے ہمیں اس انذار (انتباہ) کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں ان خطرات سے آگاہ کیا جائے جو اس دنیا اور آنے والی دنیا میں جو حقیقی زندگی ہے، انسانیت کے لیے خطرہ ہیں۔

 
 

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قرآن کریم انسانی غموں کا علاج کرنے والی کتاب ہے، خواہ وہ انسانوں کے روحانی، اور فکری غم ہوں یا جنگوں، مظالم، ناانصافیوں جیسے انسانی معاشروں کے غم ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی ایران کے عوام اور پوری امت اسلامیہ میں قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے کی خواہش روز بروز بڑھنا چاہیے کیونکہ یہ قرآن کتاب ہدایت ہے اور ہم سب کو اس کی ضرورت ہے۔ قرآن ذکر کی کتاب ہے اور عموماً ہم غافل ہیں اور انسان اپنی معلومات کو بھول جاتے ہیں اور قرآن ہمیں یاد دھانی کراتا ہے۔

 

اس ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیانات کے چند اہم محور حسب ذیل ہیں:

 

*۔ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ ہے
*۔ اسلامی ممالک کے سربراہان صیہونیت کی حمایت بند کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے ؟
*۔ یقیناً عالم اسلام غزہ کے لیے سوگوار ہے
*۔ دنیا بھر غیر مسلم آزاد منش لوگ بھی غزہ کے لیے سوگوار ہیں
*۔ اسلامی دنیا صیہونیت کے سرطانی ٹیومر کی تباہی کا مشاہدہ کرے گی

Monday, 19 February 2024 13:29

غزہ میں قحط

غزہ میں رہنے والے صحافیوں میں سے ایک "ابراہیم مسلم" نے "اسلام ٹائمز" کے ساتھ گفتگو میں ان دنوں شمالی غزہ کی تازہ ترین صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی غزہ کی صورت حال اب بھی انتہائی نازک ہے۔ صیہونی حکومت نے اس علاقے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور آئے روز مزاحمتی قوتوں اور صیہونی فوج کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ان دنوں غزہ میں جو انسانی حالات انتہائی ابتر ہیں اور غزہ کے شمال میں ان علاقوں کے مکینوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے انسانی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پینے تک کا پانی بہت کم ہے۔

غزہ میں رہنے والے اس رپورٹر نے تاکید کی ہے کہ شمالی غزہ میں نقصانات اور تباہی کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ میونسپلٹی ابھی تک سڑکوں کو کھول نہیں سکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان گھروں تک پانی نہیں پہنچایا جاسکتا، جہاں مالکان اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں، شمالی غزہ کی اس نازک صورت حال پر کسی کو شک و شبہ کی ضرورت نہیں ہے اور آنے والے دنوں میں حالات مزید نازک ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا ہے کہ خوراک کا ذخیرہ ختم ہو رہا ہے، مثال کے طور پر، غزہ جنگ کے آغاز سے ابھی تک شمالی غزہ میں آٹے کی تھوڑی سی مقدار بھی داخل نہیں ہوئی ہے، اسی طرح غزہ میں چینی اور چاول کا ذخیرہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال شمال غزہ میں انسانی حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ صیہونی حکومت غزہ کے عوام کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے جان بوجھ کر شمالی غزہ کو قحط کی طرف دھکیل رہی ہے۔

"ابراہیم مسلم" نے مزید کہا: ادویات کے لحاظ سے صحت عامہ اور طبی سامان کی سہولیات بہت کم ہیں۔ فلسطینی رپورٹر نے مزید کہا ہے کہ شمالی غزہ میں بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی واپسی ہو رہی ہے اور پناہ گزینوں کے لیے اسکولوں وغیرہ کی جگہوں کا انتظام کیا گیا ہے، لیکن ان اسکولوں اور رہائشی علاقوں میں پناہ گزینوں کی بستیوں میں پانی یا صفائی کی سہولیات بالکل نہیں ہیں۔
انٹرویو: معصومہ فروزان
 
 
 

وفاق ٹائمز، ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کی کامیابیوں کا ذکرکریں تو ہمیںاس شعبے میں بہت ساری کامیابیاں نظر آرہی ہیں جس کے بارے میں عالمی خاص طورپر مغربی میڈیا غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور حق اور سچائی کو پوری طرح مسخ کر کے بیان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسلامی انقلاب کے بعد عورت کو صنفی امتیاز اور ایک شے کے طور پر دیکھنے کے بجائے عورت کو جہاں تکریم و عزت دی گئی وہاں انہیں ان کا جائز مقام دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جس کے باعث ایران میں آج خواتین تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں بلکہ کئی شعبوں میں مردوں سے بھی آگے ہیں جس کا عالمی غیرجانبدادارے اعتراف بھی کرتے ہیں ،زیرنظر رپورٹ کو پڑھ کرآپ مغربی خاص پر امریکہ اوراسرائیلی سے وابستہ میڈیا کی غلط بیانی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ جو عالمی اور مغربی میڈیا میں کہا اور بتایا جارہا ہے وہ ایران دشمنی اور ایران کے خلاف میڈیا وار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
خواتین اور صحت
ایران میں فی 100,000 خواتین کے تناسب سے60 دائیاں اور 2.8 زچگی کے ماہرین ڈاکٹرز کی موجود ہیں۔ 100 فیصد شہری رہائشیوں اور 99فیصد دیہاتیوں اور خانہ بدوشوں کے لیے قومی ہیلتھ کوریج نیٹ ورک کا نفاذ ہے۔خواتین کی اوسط عمرمیں20سال اضافہ کے ساتھ 78 سال ہوگئی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات میں فی 100000 پیدائش میں 8.2 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں فی ایک لاکھ میں14.2فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ ملک میں 98 فیصد گائناکالوجسٹ اور اسی شعبے سے وابستہ سرجن خواتین ہیں۔ 40% ماہر ڈاکٹرز اور 30% اعلیٰ مہارت کی حامل ڈاکٹر زخواتین ہیں۔ سروائیکل کینسر سے موت کی سب سے کم شرح کے لحاظ سے دنیا میں 10ویں نمبر پر ہے۔
خواتین اور تعلیم
خواتین یونیورسٹی فیکلٹی ممبران کے تناسب کو 3.33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی میڈیکل سائنسز یونیورسٹیوں کے فیکلٹی ممبران میں خواتین کی تعداد 34% ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی ناخواندگی میں99.30% فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک میںسرکاری یونیورسٹیوںمیں زیرتعلیم سٹوڈنٹس کی56 فیصد خواتین ہیں۔ ملک میں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم میں صنفی تفریق کا خاتمہ ہوا ہے۔ خواتین مصنفین کی تعداد9500 سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ 840 خواتین پبلشرز کی اس وقت نشرو اشاعت کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ پرائمری اسکول میں طالبات کے اندراج کی شرح میں 115 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ہائی اسکول میں طالبات کے اندراج کے فیصد میں 84% تک اضافہ ہوا ہے۔ طالب علموں کے مقابلے خواتین طلبہ کی تعداد میں48 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔
ورزش کے میدان میں خواتین کی کامیابیاں
عالمی مقابلوں میں خواتین کھلاڑیوں نے 3302 تمغے جیتے ہیں۔ خواتین اور پیشہ ور کھلاڑیوں کی طرف سے اولمپک اور پیرا اولمپک کوٹے کا بیک وقت حصول دیکھنے میں آیا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں 88,366 خواتین ریفریز کی سرگرمی اور عالمی کھیلوں کی فیڈریشنوں میں 97 بین الاقوامی نشستوں پرایرانی خواتین کی موجودگی نیز خواتین کے لیے 16,111 سپورٹس کلبوں کا قیام ساتھ ہی سپورٹس فیڈریشنز میں51 خواتین صدور اور نائب صدورخدمات سرانجام دے رہی ہیں مزید صوبائی سطح پر کھیلوں کی 70ٹیموں کی سربراہ خواتین ہیں۔
حکمرانی اور فیصلہ سازی کے میدان میں خواتین
25.2 فیصدخواتین سرکاری اداروں میںاہم عہدوں پر فائز ہیں، بشمول اعلیٰ، درمیانی اور بنیادی ایگزیکٹو عہدوں پرخدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ نیز نائب صدر برائے خواتین اور خاندانی امور کا عہدہ خواتین کے لئے مختص ہے مزید ملک میں 1121 خواتین ججز کی مختلف عدالتوں میں عوام کو انصاف کی فراہمی کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور اسلامی کونسل میں خواتین کی شرکت کی شرح میں 5.59% تک اضافہ ساتھ ہی خواتین نے حکومت کے گیارہویں دورمیں اسلامی کونسل میں 111 نشستیں حاصل کیں۔ 11ویں دور میں پارلیمنٹ کی نمائندگی کے لیے رضاکارانہ طور اپنی خدمات پیش کرنے والی خواتین کی تعداد میں 227 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ماحو لیات اور آب و ہوا کے شعبے میں خواتین کا کردار
انوائرنمنٹ آرگنائزیشن میں 40 اعلی عہدوں کی انچارج خواتین ہیں، ملک کی ماحولیاتی انتظامی پوسٹوں کا ایک چوتھائی حصہ خواتین کیلئے مختص ہیں، انوائرنمنٹ آرگنائزیشن میں 40 اعلی عہدوں کی انچارج خواتین ہیں، دیہی اور خانہ بدوش خواتین کے لیے صحت مند، معیاری اور مصدقہ مصنوعات تیار کرنے اور استعمال کرنے کے بارے میں ثقافتی بیداری کو فروغ دینے اور بڑھانے کے قومی منصوبے پر عمل درآمد ہے۔ 2021ء میں سیلاب زدہ علاقوں میں 117072 خواتین کے لیے بنیادی ضروریات (پانی، خوراک، کپڑے، کمبل)کی فراہمی۔ نیز 4مدتوں تک ماحولیات کی تنظیم کی صدرات خواتین کے پاس رہی ۔مزید 2021 میں موسمیاتی بحران سے متاثرہ 299120 خواتین کو ماہانہ گزارہ الاونس کی ادائیگی اور 2021 میں زلزلہ زدہ علاقوں میں خواتین کے عارضی قیام کے لیے 20166 محفوظ پناہ گاہوں کا قیام ساتھ ہی آبادی کے تناسب سے ایک چوتھائی حصہ سے زیادہ خواتین ماحولیاتی انتظامی عہدوں پر فائز ہیں، 2012 میں سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کیلئے 21014 محفوظ بستیوں کا قیام۔
کاروبار اور روزگار کے میدان میں خواتین کا کردار
خواتین کی بے روزگاری کی شرح میں 13.7 فیصد تک کمی ہوئی ہے علم پر مبنی کمپنیوں کی منیجنگ ڈائریکٹرز کے عہدوں پر735 خواتین کی اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ خواتین کی طرف سے 250 علم پر مبنی کمپنیوں کا قیام ہوا ہے مزید علم سے وابستہ کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر کے طور پر 2390 خواتین کی ملک کی خدمات میں سرگرم ہیں۔ ملازمت کے متلاشی خواتین کو ملازمت کے مواقع کے حصول اور مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ”پائیدار خاندان پر مبنی کاروباری نیٹ ورک” کے قومی منصوبے کا نفاذ ساتھ ہی دیہی اور قبائلی خواتین کیلئے روزگار میں اضافہ کے غرض سے قومی منصوبے کا اجراء اور خواتین کوآپریٹیو اور ان کی یونینوں کے لئے زمین کی فراہمی اور قدرتی وسائل تک رسائی میں اضافہ ممکن بنانے کے لئے اقدامات اور LNSIE ماڈل کی بنیاد پر دیہی اور قبائلی خواتین کے چھوٹے کاروبار کے لیے ایک منظم حکمت عملی پروگرام کا اجراء و دیہی خواتین اور لڑکیوں کے لیے سوشل سیکیورٹی انشورنس کا اجراء اور گھریلو خواتین کے لیے سوشل سیکیورٹی انشورنس کی فراہمی و گھر کی خواتین سربراہوں کے لیے سوشل سیکیورٹی انشورنس کا اجراء۔
خواتین اور میڈیا
انفارمیشن ٹیکنالوجی میں خواتین کی شرکت میں 31.5 فیصد اضافہ ہوا ہے خواتین کے لیے معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی تک رسائی میں اضافہ نیز فلم انڈسٹری میں 903 خواتین فلم سازوں کی فعال شمولیت اور سینماانڈسٹری میں پس پردہ2000 ماہرخواتین ماہرکی فعال موجودگی و 45بین الاقوامی فلمی میلوں میں جیوری کے طور پرایرانی خواتین ہدایت کاروں اور اداکاراں کی شرکت نیز خواتین فلم ساز وں نے مشہور فلم فیسٹیولز میں 114 قومی اور 128 قومی اوربین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کئے۔
معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی تک خواتین کی رسائی میں اضافہ
موبائل فون تک رسائی۔26 ملین لوگ (کل موبائل صارفین کا 45 فیصد)، کمپیوٹر تک رسائی:14.5 ملین لوگ (کل صارفین کا 48 فیصد)، انٹرنیٹ تک رسائی:لوگوں کو 18.7 ملین(صارفین کی کل تعداد کا 48 فیصد)،انٹرنیٹ تک رسائی:18.7 ملین لوگوں کو (صارفین کی کل تعداد کا 48 فیصد)۔

عورت کی ایک اہم ترین ذمہ داری گھر کی خانہ داری ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ میرا یہ ماننا نہیں ہے کہ عورتوں کو سیاسی اور سماجی کاموں سے دور رہنا چاہئے، نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس کے معنی یہ لیے جائيں کہ ہم "خانہ داری" کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تو یہ گناہ ہوگا۔ خانہ داری، ایک کام ہے، بڑا کام ہے، اہم ترین و حساس ترین کام ہے، مستقبل ساز کام ہے۔ افزائش نسل ایک عظیم مجاہدت ہے۔

امام خامنہ ای

1 مئی 2013

اہل تبریز کے 18 فروری 1978 کے تاریخی قیام کی سالگرہ پر صوبۂ مشرقی آذربائيجان کے ہزاروں لوگوں نے اتوار کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
     

اس موقع پر اپنے خطاب میں آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پہلی مارچ 2024 کو ہونے والے پارلیمنٹ اور ماہرین اسمبلی کے انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے سامراجی محاذ کو ایران کے انتخابات کا مخالف قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن، نظام کی جمہوریت کا مظہر ہے اور اسی لیے سامراجی طاقتیں اور امریکا، جو جمہوریت کے بھی مخالف ہیں اور اسلام کے بھی خلاف ہیں، انتخابات اور الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کے مخالف ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام سے ماضی کے ایک الیکشن میں شرکت نہ کرنے کی امریکا کے ایک سابق صدر کی اپیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس امریکی صدر نے نادانستگی میں ایران کی مدد کی کیونکہ لوگوں نے اس کی ضد میں اور اس کی مخالفت میں ہمیشہ سے زیادہ اور بھرپور طریقے سے ووٹنگ کی اور اسی وجہ سے اب امریکی اس طرح کی بات نہیں کرتے ہیں لیکن مختلف طریقوں سے لوگوں کو الیکشن سے دور رکھنے اور الیکشن کے سلسلے میں انھیں مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پچھلے عشروں کے درمیان الیکشن میں کبھی بھی ویسی گڑبڑی کا مشاہدہ نہیں کیا گيا جس طرح کی گڑبڑی کا دشمن دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی یہ بات بے بنیاد ہے۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ بعض مواقع پر کچھ دعوے کیے گئے اور تحقیق و تفتیش کے بعد بعض خلاف ورزیاں ثابت ہوئيں لیکن کبھی بھی وہ خلاف ورزیاں، الیکشن کے مجموعی نتیجے میں تبدیلی پر منتج نہیں ہوئيں اور ملک میں انتخابات ہمیشہ صحیح، سالم اور شفاف طریقے سے منعقد ہوئے ہیں۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حادثات اور سازشوں کے طوفان کے درمیان اپنی اب تک کی 45 سال کی عمر میں اسلامی انقلاب کی پیشرفت اور مزید مضبوط ہونے کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قوم اور نظام کے معنی میں یہ انقلاب، سخت اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر زیادہ مضبوط، زیادہ طاقتور، زیادہ با اثر رائے اور زیادہ اثر و رسوخ والا بن چکا ہے اور آج ہمیں اصل ذمہ داریوں کو بروقت سمجھ کر، ان پر بروقت عمل کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب کے مطابق خود پر اور دشمن پر نظر رکھنا سبھی کے دو بنیادی فرائض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا اور دشمن دونوں کا صحیح اندازہ ہونا چاہیے اور اس فریضے سے غفلت ایک بڑی مصیبت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی شناخت کا ہدف، قدردانی، مضبوط نکات کی حفاظت و تقویت اور کمزوریوں کو دور کرنا بتایا اور انقلاب اور قوم کے مضبوط پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ پوری طرح سے بدعنوان، بے ایمان، حق پامال کرنے والے، ظالم، آمر اور سلطنتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ وہ ایسا نظام تھا جو عوام کو کسی طرح کا حق اور احترام دیے جانے کا قائل نہیں تھا اور بہت سے معاملوں میں وہ عملی طور پر امریکیوں اور برطانوی سفارتخانے کے حکم پر کام کرتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت اس زوال پذیر نظام کے بالکل برخلاف، عوام ملک اور نظام کے مالک ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ انتخابات کے ذریعے، ملک چلانے کے لیے ملک کے اہم حکام کا تعین کرتے ہیں۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ انقلاب کے افکار و اقدار کا فروغ خاص طور خطے میں ان کا پھیلاؤ، مغربی تمدن کے پھیلاؤ کو روکنے کی راہ میں حاصل ہونے والی کسی حد تک کامیابی، اپنے آپ عوامی گروہوں کی تشکیل، ملک کے تمام علاقوں میں سہولتوں اور سروسز کا پھیلاؤ اور مختلف میدانوں میں سائنسدانوں اور دانشوروں کی تربیت، ایسی کامیابیان ہیں جو انقلاب نے اپنے اب تک کے سفر میں حاصل کی ہیں۔

انھوں نے قومی اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کو عوام کا فریضہ بتایا اور کہا کہ سبھی کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ ان ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائيگی، دشمن کے مقابلے میں ایک جہادی کام ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ یہ ذمہ داریاں ادا کی جائيں اور اسی وجہ سے وہ اسلامی جمہوریہ میں انجام پانے والے ہر کام کے مخالف ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دوسرے اہم فریضے یعنی دشمن پر نظر رکھنے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دشمن اور اس کے حربوں، عیاریوں اور ہتکنڈوں سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور اسے کمزور اور ناتواں نہ سمجھنے کے ساتھ ہی اس کے خطرات، دباؤ اور رجز خوانی سے مرعوب بھی نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے ایران کا برا چاہنے والوں کی سازشوں اور نفسیاتی دباؤ کی وجہ، اسلامی انقلاب کے مضبوط نکات اور پیشرفتوں کو بتایا اور کہا کہ دشمنوں کے مقابل میں کبھی پسپا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کی پالیسی فریق مقابل کو رسوا اور پسپا کرنا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر 11 فروری کو زبردست جلوس نکالنے پر پورے ملک کے عوام کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قوم نے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں اپنے انقلابی حوصلے، جوش اور گرمی حیات کا مظاہرہ کیا اور ان لوگوں کو متحیر کر دیا جو ایرانی عوام کے دل کو پژمردہ بنانے اور 22 بہمن (11 فروری انقلاب کی سالگرہ) کو بھلا دینے کے خواہاں تھے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں اسی طرح آذربائیجان کے عوام کو تاریخ، موجودہ دور اور حالیہ عشروں میں حمیت، عشق، جوش اور ایمان کا مظہر بتایا۔

انھوں نے اہل تبریز کے 18 فروری 1978 کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے تاریخ رقم کرنے والا واقعہ بتایا اور کہا کہ اس واقعے نے اہل قم کے 9 جنوری 1978 کے قیام کو بے ثمر نہیں ہونے دیا اور پورے ملک میں قیام کا جذبہ اور انقلابی جوش پھیلا کر اسلامی انقلاب کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی۔

 
 

امام زین العابدین علیہ السلام کے حالات اور طرز زندگی سے متعلق مسائل کی تشریح کرتے ہوئے ہم اپنی بحث کے اس موڑ پر آپہنچے ہیں جہاں زمین ایک ایسی عظیم اسلامی تحریک مہمیزکرنے کے لئے ہموار ہوچکی ہے ۔جس کا حکومت علوی اور حکومت اسلامی پرمنتہی ہوناممکن نظر آنے لگا ہے اس صورت حال کو بطور مختصر ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ امام علیہ السلام کے طریقہ و روش میں کچھ لوگوں کے لئے ( معارف اسلامی کا) بیان و وضاحت کچھ لوگوں کے لئے خود کو منظم و مرتب کرنے کی تلقین اور کچھ افراد وہ بھی تھے جن کے لئے عمل کی راہیں معین و مشخص ہو جاتی تھیں یعنی اب تک کے معروضات کی روشنی میں امام سجاد علیہ السلام کی تصویر کاجو خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے اس کے تحت حضرت (ع) اپنے تیس ،پینتیس سال اس کوشش میں صرف کردیتے ہیں کہ عالم اسلام کے شدت کے ساتھ برگشتہ ماحول کو ایک ایسی سمت کی طرف لے جائیں کہ خود آپ (ع)کے لئے یا آپ (ع)کے جانشینوں کے لئے اس بنیادی ترین جد و جہد اور فعالیت کے لئے موقع فراہم ہو سکے جس کے تحت ایک اسلامی معاشرہ اور الٰہی حکومت قائم ہو سکے ۔چنانچہ اگر امام سجاد علیہ السلام کی ۲۵ سالہ سعی و کوشش ،ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے جد اکر لی جائے تو ہرگز وہ صورت حال تصور نہیں کی جاسکتی جس کے نتیجہ میں امام صادق علیہ السلام کو اولا حکومت بنی امیہ اور پھر حکومت بنی عباس کے خلاف اتنی کھلی ہوئی واضح پالیسی اپنانے کا موقع ہاتھ آیا ۔

ایک اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لئے فکری و ذہنی طور پر زمین ہموار کرنا تمام چیزوں سے زیادہ لازم و ضروری ہے ۔اور یہ ذہنی و فکری آمدگی ،اس وقت کے ماحول اور حالات میں جس سے عالم اسلام دو چار تھا ،وہ کام تھا جو یقینا ایک طویل مدت کا طالب ہے اور یہی وہ کام ہے جو امام زین العابدین علیہ السلام نے تمام تر زحمت اور صعوبت و مصیبت کے باوجود اپنے ذمہ لیا تھا ۔

اس عظیم ذمہ داری کے دوش بدوش امام سجاد علیہ السلام کی زندگی میں ایک اور تلاش و جستجو جلوہ گر نظر آتی ہے جو در اصل سابق کی تیار کردہ زمین کو مزید ہموار کرنے کی طرف امام (ع) کے ایک اور اقدام کی مظہر ہے اس طرح کی کوششوں کا ایک بڑا حصہ سیاسی نوعیت کا حامل ہے اور بعض اوقات بے حد سخت شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اس کا ایک نمونہ امام علیہ السلام کا حکومت و قت سے وابستہ اور ان کے کار گزار محدثوں پر کڑی تنقید ہے ۔ موجو دہ بحث میں اسی نکتہ پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔

آئمہ علیہم السلام کی زندگی سے متعلق ولولہ انگیز ترین بحثوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشرہ کی فکر و ثقافت کو رنگ عطا کرنے والے افراد یعنی علماء( ۱ ) و شعراء کے ساتھ ان بزرگواروں کا برتاؤ کیسا رہا ہے ؟ اصل میں عوام کی فکری و ذہنی تربیت و رہبری ان ہی لوگوں کے ہاتھ میں تھی ،خلفاء بنی امیہ و بنی عباس معاشرہ کو جس رخ پر لے جانا پسند کرتے تھے یہ لوگ عوام کو اسی راہ پر لگا دیتے تھے گویا خلفاء کی اطاعت اور تسلیم کا ماحول پیدا کرنا ان ہی حضرات کا کام تھا چنانچہ ایسے افراد کے ساتھ کیا روش اور طرز اپنایا جائے دیگر ائمہ علیہم السلام کی طرح امام سجادعلیہ السلام کی زندگی کا بھی ایک بڑا ہی اہم اور قابل توجہ پہلو ہے۔

 

امام زین العابدین (ع)کی زندگی ( ایک تحقیقی مطالعہ )

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي حَفَظَہُ اللّٰہُ

 

انقلاب اسلامی ایران کی پینتالیسویں سالگری پر 22کو عوام کا سمندر شریک تھا جہاں اجتماع میں ایرانی صدر حجت الإسلام ابراہیم رئیسی شریک تھے۔

 
 

عبدالباری عطوان نے "رائے ال یوم" اخبار میں صہیونی حکام کی طرف سے اپنے دو اسیروں کو رہا کرنے پر بے پناہ خوشی کے اظہار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حکومت کے قائدین کی خوشی ان دو لوگوں کی وجہ سے ہے، جن کو چھڑانے کے لئے انہوں نے سینکڑوں طیاروں کو استعمال کیا۔ ان کو آزاد کرانے کے لیے رفح کے جنوب میں شدید فضائی حملے کیے گئے، جو اسرائیل کی شکست کا ایک اور ثبوت ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "صیہونی حکومت اپنی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے ایک چھوٹی سی فتح کی تلاش میں ہے۔" نیتن یاہو نے اس آپریشن کو اس حکومت کی تاریخ کا سب سے کامیاب آپریشن قرار دیا اور ان کے جنگی وزیر یوو گیلانٹ نے بھی اسے جنگی عمل میں ایک اہم موڑ قرار دیا۔

یہ شرمناک ہے کہ نیتن یاہو اور ان کے سینیئر جرنیل اس معمولی آپریشن کو لمحہ بہ لمحہ فالو کر رہے ہیں اور اسے اہم کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ اس تجزیہ نگار نے مزید کہا: "اگر یہ حکومت مضبوط ہے اور فتح کا دعویٰ کرتی ہے تو کیا وہ کینسر سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ان دو بوڑھے قیدیوں کی رہائی کے لیے خصوصی اجلاس منعقد کرتی؟ حماس ان دو بیمار اسیروں کو رہا کرنا چاہتی تھی اور اسی وجہ سے انہیں رفح کے جنوب میں دو گھروں میں رکھا اور گویا کہہ دیا کہ انہیں لے جاو۔ صیہونیوں نے اس علاقے میں F15 اور F16 سے شدید بمباری کی لیکن نتیجہ صفر رہا۔

انہوں نے مزید کہا: اگر حماس اور اسلامی جہاد کے زیر قیادت دیگر مزاحمتی گروپ کمزور ہوتے، جیسا کہ نیتن یاہو نے پریس کانفرنس کے دوران فخریہ دعویٰ کیا تو کیا وہ 130 دن سے زیادہ مزاحمت کرسکتے۔؟ نیتن یاہو اپنے استاد امریکی صدر جو بائیڈن کی طرح جھوٹا ہے، جس نے جنگ روکنے کے بارے میں ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ رفح پر حملہ کرنے اور رہائشیوں کے لیے شہر سے بھاگنے کے لیے محفوظ راستہ بنانے کی نیتن یاہو کی تمام دھمکیاں ہالی ووڈ کی فلموں کے ڈائیلاک کی طرح ہیں۔ امریکہ کے علاوہ پوری دنیا اس وقت نسل پرست صیہونی کابینہ اور بچوں کی قاتل نااہل مجرم حکومت کے خلاف ہے۔"

عطوان نے لکھا: جلد یا بدیر، جنگ ایک دن ختم ہو جائے گی، لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن کا ریکارڈ صہیونی منصوبے کے خاتمے کے آغاز کے طور پر باقی رہے گا۔ ہم نیتن یاہو سے کہتے ہیں کہ نستوہ کا جنگجو "یحییٰ السنور" ابھی زندہ ہے اور وہ ایک محفوظ سرنگ سے اپنے جرنیلوں کے ساتھ جنگ کی کمان کر رہا ہے، وہ ابھی تک بلکہ کبھی بھی اس تک نہ پہنچ پائیں گے، نہ کبھی تلاش کرسکیں گے اور اگر وہ اس تک پہنچ بھی جائیں تو وہ خدا کی نصرت سے اپنی رائفل کی آخری گولی تک مزاحمت کرے گا۔ مزاحمت اب بھی مضبوط اور ثابت قدم ہے، اس وقت نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ تمام عرب اور اسلامی اقوام نیز دنیا کے باشعور لوگ ان کی حمایت کرتے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین غاصبوں اور جارحین کو کفن دیکر ان کے تابوت ان لوگوں تک پہنچائیں گے، جنہوں نے  اس پاک سرزمین فلسطین پر ان کی حکومت قائم کی ہے۔

تحریر: عبدالباری عطوان

Wednesday, 14 February 2024 07:52

امام حسین کی سبق آموز زندگی

مومن کے دل کی خوشی:

حضرت امام حسین علیہ السلام سے نقل ہوا کہ آپ نے فرمایا:

میرے نزدیک ثابت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: نماز کے بعد بہترین کام کسی مؤمن کے دل کو خوش کرنا ہے، اگر اس کام میں گناہ نہ ہو۔

میں نے ایک روز ایک غلام کو دیکھا جو اپنے کتے کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا، میں نے اس سے سبب دریافت کیا تو اس نے کہا: یابن رسول الله! میں غمگین ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اس کتے کا دل خوش کروں تا کہ میرا دل خوش ہو جائے، میرا آقا یہودی ہے، میں اس سے جدا ہونے کی تمنا رکھتا ہوں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام دو سو دینار اس کے آقا کے پاس لے گئے اور اس غلام کی قیمت ادا کرنی چاہی، اور اس کو خریدنا چاہا، تو اس کے مالک نے کہا: غلام آپ کے قدموں پر نثار اور میں نے یہ باغ بھی اس کو بخش دیا اور یہ دینار بھی آپ کو واپس کرتا ہوں۔

امام حسین علیہ السلام نے کہا: میں نے بھی یہ مال تمھیں بخشا، اس آقا نے کہا: میں نے آپ کی بخشش کو قبول کیا اور اسے غلام کو بخش دیا، امام حسین علیہ السلام نے کہا: میں نے غلام کو آزاد کر دیا اور یہ مال اس کو بخش دیا۔

اس شخص کی زوجہ اس نیکی کو دیکھ رہی تھی، چنانچہ وہ مسلمان ہو گئی اور اس نے کہا: میں نے اپنا مہر شوہر کو بخش دیا ہے، اس کے بعد وہ آقا بھی اسلام لے آیا اور اپنا مکان اپنی زوجہ کو بخش دیا۔

ایک قدم اٹھانے سے ایک غلام آزاد ہو گیا، ایک غریب بے نیاز ہو گیا، ایک کافر مسلمان ہو گیا، میاں بیوی آپس میں با محبت بن گئے، زوجہ صاحب خانہ ہو گئی، اور عورت مالک بن گئی، یہ قدم کیسا قدم تھا۔

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار، 44، ص 190، باب 26، حدیث 2

لوگوں میں سب سے زیادہ کریم:

ایک بادیہ نشین عرب مدینہ میں داخل ہوا اور مدینہ کے سب سے زیادہ کریم شخص کی تلاش کرنے لگا، چنانچہ اس کو حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام بتایا گیا، وہ عرب مسجد میں آیا اور آپ کو نماز کے عالم میں دیکھا، وہ امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اس مضمون کے اشعار پڑھے؟

جو شخص آپ کے دروازے پر دق الباب کرے وہ ناامید نہیں ہو گا، آپ عین جود و سخا اور معتمد ہیں، آپ کے والد گرامی طاغوت اور نافرمان لوگوں کو ہلاک کرنے والے تھے اگر آپ نہ ہوتے تو ہم دوزخ میں ہوتے۔

امام حسین علیہ السلام نے اس اعرابی کو سلام کیا اور جناب قنبر سے فرمایا:

کیا حجاز کے مال سے کچھ باقی بچا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، چار ہزار دینار باقی ہیں، فرمایا: ان کو لے آؤ کہ یہ شخص اس مال کا ہم سے زیادہ سزاوار ہے، اس کے بعد اپنی ردا اتاری اور اس میں دینار رکھے اور اس عرب سے شرم کی وجہ سے اپنا ہاتھ دروازے سے نکالا اور اس مضمون کے اشعار پڑھے:

یہ مال ہم سے لے لو ، میں تجھ سے معذرت چاہتا ہوں، جان لو کہ میں تمھاری نسبت مہربان اور تمہارا دوستدار ہوں، اگر میرے اختیار میں حکومت ہوتی تو ہمارے جود و سخا کی بارش تمہارے اوپر ہوتی، لیکن زمانے کے حادثات نے مسائل ادھر ادھر کر دئیے ہیں، اس وقت صرف یہی کم مقدار میں دے سکتے ہیں۔

چنانچہ اس اعرابی نے وہ مال لیا اور اس نے رونا شروع کر دیا، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: شاید جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے وہ کم ہے؟ اس نے کہا: نہیں، میرا رونا اس وجہ سے ہے کہ اس عطا کرنے والے کو یہ زمین کس طرح اپنے اندر سما لے گی۔!!!

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 190، باب 26، حدیث 2

قرض ادا کرنا:

حضرت امام حسین علیہ السلام، اسامہ بن زید کی بیماری کے وقت اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ، حالانکہ اسامہ ہمیشہ کہے جا رہے تھے: ہائے ، یہ غم و اندوہ

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اے برادر! تمہیں کیا غم ہے؟ انھوں نے کہا: میں 60000 درہم کا مقروض ہوں، امام علیہ السلام نے فرمایا: میں اس کو ادا کروں گا، انھوں نے کہا: مجھے اپنے مرنے کا خوف ہے، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: تمھارے مرنے سے پہلے ادا کر دوں گا اور آپ نے اس کے مرنے سے پہلے اس کا قرض ادا کر دیا۔

مناقب، ج4، ص 65

بحار الانوار 44، ص 189، باب 26، حدیث 2

خدمت کی نشانی:

حادثہ کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے شانے پر زخم کی طرح ایک نشان پایا گیا، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اس کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ نشانی ان بھاری تھیلیوں کی وجہ سے ہے جو ہمیشہ بیواؤں، یتیموں اور غریبوں کی مدد کے لیے اپنے شانوں پر رکھ لے جایا کرتے تھے۔

مناقب، ج 4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 190، باب 26، حدیث 3

استاد کی تعظیم:

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین علیہ السلام کے ایک بیٹے کو سورہ حمد کی تعلیم دی، جب اس بیٹے نے امام حسین علیہ السلام کے سامنے اس سورہ کی قرائت کی، تو (خوش ہو کر) استاد کو ایک ہزار دینار اور ہزار حُلّے عطا کیے اور ان کا منہ نایاب درّ سے بھر دیا، لوگوں نے ایک دن کی تعلیم کی وجہ سے اتنا کچھ عطا کرنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا:

اٴَیْنَ یَقَعُ ھٰذٰا مِنْ عَطٰائِہِ۔

جو کچھ میں نے اس کو عطا کیا ہے اس کی عطا کے مقابلے میں کہاں قرار پائے گا؟!”

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 190، باب 26، حدیث 3

میری خوشی حاصل کرو:

حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے بھائی محمد حنفیہ میں ایک گفتگو ہوئی، محمد نے امام حسین علیہ السلام کو ایک خط لکھا: میرے بھائی، میرے والد اور آپ کے والد علی (علیہ السلام) ہیں، اس سلسلہ میں نہ میں تم پر فضیلت رکھتا ہوں اور نہ تم مجھ پر، اور آپ کی والدہ جناب فاطمہ بنت پیغمبر خدا ہیں، اگر میری والدہ پوری زمین کی مقدار بھر سونا رکھتی ہو تو بھی آپ کی والدہ کے برابر نہیں ہو سکتی، اور جب تمھیں یہ خط مل جائے اور اس کو پڑھو تو میرے پاس آؤ تا کہ میری خوشی حاصل کر سکو، کیونکہ نیکی میں آپ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں، تم پر خدا کا درود و سلام ہو۔

امام حسین علیہ السلام نے جب یہ خط پڑھا تو اپنے بھائی کے پاس گئے اور اس کے بعد سے ان کے درمیان کوئی ایسی گفتگو نہیں ہوئی۔

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 191، باب 26، حدیث 3

حرّیت اور آزادی کی انتہاء:

روز عاشوراء جب امام حسین علیہ السلام سے کہا گیا کہ یزید کی حکومت کو تسلیم کر لو اور اس کی بیعت کر لو اور اس کی مرضی کے سامنے تسلیم ہو جاؤ! تو آپ نے جواب دیا:

نہیں، خدا کی قسم میں اپنے ہاتھ کو ذلیل و پست لوگوں کی طرح تمہارے ہاتھ میں نہیں دوں گا، اور تم سے میدان جنگ میں غلاموں کی طرح نہیں بھاگوں گا اور پھر یہ نعرہ بلند کیا: اے خدا کے بندو! میں ہر اس متکبر سے جو روز حساب پر ایمان نہ لائے اپنے پروردگار اور تمھارے پروردگار کی پناہ چاہتا ہوں۔

مناقب، ج4، ص 66

بحار الانوار 44، ص 191، باب 26، حدیث 4

بہترین انعام:

انس کہتے ہیں: میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ کی کنیز آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ریحان کے گل دستہ تہنیت اور مبارک کے عنوان سے تقدیم کیا، امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تو خدا کی راہ میں آزاد ہے!

میں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: (اس کنیز نے) ایک ناچیز گل دستہ آپ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے اس کے مقابلے میں اُسے راہ خدا میں آزاد کر دیا! امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوند نے ہماری اس طرح تربیت کی ہے، جیسا کہ خداوند کا ارشاد ہے کہ:

وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنٍ مِنْہَا اٴَوْ رُدُّوہَ…

اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ(سلام)پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو…۔

سورہٴ نساء آیت 86

اس کی مبارک سے بہتر مبارک ، اس کو غلامی کی قید و بند سے آزاد کرنا۔

کشف الغمة، ج 2، ص 31

بحار الانوار، ج 44، ص 195، باب 26، حدیث 8

انسان کی اہمیت:

ایک اعرابی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: یا بن رسول الله! میں ایک کامل دیت کا ضامن ہوں، لیکن اس کو ادا نہیں کر سکتا، میں نے دل میں سوچا کہ اس کے بارے میں سب سے زیادہ کریم و سخی انسان سے سوال کروں اور میں پیغمبر اکرم (ص) کے اہل بیت (علیھم السلام) سے زیادہ کسی کریم کو نہیں جانتا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: اے عرب بھائی تجھ سے تین سوال کرتا ہوں اگر ان میں ایک کا جواب دیا تو تمھاری درخواست کا ایک تہائی حصہ تجھے عطا کر دوں گا، اگر تو نے دو سوال کا جواب دیا تو دو تہائی مال عطا کر دوں گا اور اگر تینوں کا جواب دیدیا تو سارا مال تجھے عطا کر دوں گا۔

اس عرب نے کہا: کیا آپ جیسی شخصیت جو علم و شرف کے مالک ہیں مجھ جیسے شخص سے مسئلہ معلوم کرتی ہے؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں، میں نے اپنے جد رسول اکرم (ص) سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا: شخص کی اہمیت اس کی معرفت کے مطابق ہوتی ہے، اس عرب نے کہا: تو معلوم کیجئے کہ اگر مجھے معلوم ہو گا تو جواب دوں گا اور اگر معلوم نہیں ہو گا تو آپ سے معلوم کر لوں گا، اور خدا کی مدد کے علاوہ کوئی طاقت و قدرت نہیں ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ اس عرب نے کہا: خدا پر ایمان رکھنا۔
امام علیہ السلام نے اس سے سوال کیا: ہلاکت سے نجات کا راستہ کیا ہے؟ اس عرب نے کہا: خدا پر بھروسہ رکھنا۔

آپ نے فرمایا: مردوں کی زینت کیا ہوتی ہے؟ اس عرب نے کہا: ایسا علم، جس کے ساتھ بُردباری ہو، امام علیہ السلام نے سوال کیا کہ اگر یہ نہ ہو تو؟ اس عرب نے کہا: ایسی دولت جس کے ساتھ ساتھ سخاوت ہو، امام علیہ السلام نے سوال کیا: اگر یہ نہ ہو تو؟ اس نے کہا: تنگدستی اور غربت کہ جس کے ساتھ صبر ہو، امام علیہ السلام نے سوال فرمایا: اگر یہ نہ ہو تو؟ اس عرب نے کہا: آسمان سے ایک بجلی گرے اور ایسے شخص کو جلا ڈالے کیونکہ ایسے شخص کی سزا یہی ہے!

حضرت امام حسین علیہ السلام مسکرائے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی اس کو دی اور اپنی انگوٹھی اس کو عطا کی جس میں دو سو درہم کا قیمتی نگینہ تھا، اور فرمایا: اے عرب! ہزار دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور انگوٹھی کو اپنی زندگی کے خرچ کے لیے فروخت کر دو، چنانچہ عرب نے وہ سب کچھ لیا اور کہا: الله بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے۔

اللهُ اٴَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ،

سورہٴ انعام ، آیت 124

جامع الاخبار، ص137، فصل 96

بحار الانوار، ج44، ص196، باب26، حدیث11

ا