سلیمانی

سلیمانی

انقلاب اسلامی ایران کی 45 بہاریں، گویا امت مسلمہ کی بیداری نظم، اتحاد، قوت، جہاد، آزادی، استقلال، استقامت، شہامت، قیادت، سیادت کی بہاریں ہیں، یہ پینتالیس برس گویا نشاط ثانیہ کی بہاریں ہیں، احیاء اسلام کی بہاریں ہیں، ظالمین کے خلاف مظلومین کی سربلندی کی بہاریں ہیں، غاصبین کے خلاف حق لینے والوں کی بہاریں ہیں، استعمار کی شکست اور اسلام کی فتح و کامرانی کی بہاریں ہیں، سامراج کی نابودی اور جہد مسلسل کرنے والوں کے روشن مستقبل کی نوید سنانے کی بہاریں ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کا پینتالیس برس پہلے ظہور دنیا بھر کے مظلوموں، ستم رسیدہ اور پسے ہوئے طبقات کی قوت، طاقت، ابھار، امید اور انقلاب کے راستے پہ قائم رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی بہاریں ہیں۔

بالخصوص جہان اسلام میں اسلام کے آفاقی و الہی نظام کو عملی نفاذ کے ذریعے انسانی سماج اور زندگیوں کو گذارنے و سنوارنے کی عملی شکل و مثال بننے کے پینتالیس بہاریں ہیں، ایسے پینتالیس سال جن میں انقلاب کے وقوع ہونے کی جدوجہد سے لیکر اس کی حفاظت، اس کی تعمیر اس کی ترقی و پیش رفت، اس کے خلاف عالمی، داخلی، مقامی، اپنوں اور غیروں کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، جن سے سبق لیتے ہوئے اس راہ کے راہی اپنی جدوجہد کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران نے اپنے آغاز سے لیکر آج تک دنیا کی سیاست پہ جو اثرات مرتب کئے ہیں ان کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات ہیں کہ آج مقاومت زندہ ہے، آج مزاحمت جاری ہے، آج ظالموں کے خلاف بڑی سے بڑی قربانی دے کے بھی حوصلہ و ہمت نہیں ٹوٹتا کہ یہی انقلاب کا سبق ہے، آج تو اہل غزہ، اہل فلسطین نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اس انقلاب کے حقیقی فرزند ہیں جو بڑی بڑی طاقتوں کو سبق سکھا رہے ہیں، سازشوں کو ناکام بنا رہے ہیں، مزاحمت کو اوج بخشا ہے بلکہ ہر ایک مزاحمت پسند کو حوصلہ و ہمت دی ہے، آج اہل یمن کو دیکھیں، انقلاب اسلامی سے ان کی گہری وابستگی نے انہیں وہ شرف بخشا ہے جو کسی اور کے نصیب میں نہیں، اہل یمن کی جرات، استقامت، شجاعت اپنی مثال آپ ہیں، انہوں نے سرحد نہ ہونے کے باوجود اسرائیل اور اس کے حواریوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔

اگر غزہ کی اسرائیل کیساتھ حالیہ جنگ میں یمنیوں کا کردار شامل نہ ہوتا تو ممکن ہے اسرائیل و امریکہ جنگ بندی کی جانب نہیں آتا، آج درون خانہ جنگ بندی کی بھیک مانگی جا رہی ہے، آج یمنیوں نے اسرائیل کے سمندری راستے کو بلاک کرکے فلسطینی مظلوموں کی بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ دراصل یہ انقلاب اسلامی کا مرہون منت ہے، انقلاب کے یہ فرزند، انقلاب و نظام کے یہ عشاق روشن و تابناک کردار کی مانند تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کے چمکتے رہیں گے، لبنان کی مقاومت اسلامی سے کون ناواقف ہوگا، انقلاب، اسلام، ولایت فقیہ کے یہ فرزند جہاد، استقامت، قربانیوں کے ذریعے مقدسات کی توہین کے زمہ داروں کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔

دنیائے سیاست و سماجوں کو تغیرات سے دوچار کرنے والے انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینی رح نے قیادت کا جو معیار دیا تھا، وہ رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی شکل میں انقلاب اسلامی کو اس کی اصل منازل یعنی انقلاب مہدوی کے ظہور کی راہیں ہموار کرنا اور مظلومین کو صاحب اقتدار بنانے کیلئے بڑی کامیابی سے کوشاں ہیں، انقلاب اسلامی کے پہلے عشرہ یعنی 1979ء سے لے کر 1989ء رحلت امام تک اگرچہ بہت مشکلات رہیں، نوزائیدہ انقلاب پہ بے جا پابندیاں، مسلط کردہ جنگ  جو آٹھ برس تک جاری رہی۔

اس جنگ میں 57 ممالک ایک طرف اور نوزائیدہ انقلابی ایران ایک طرف تھا، اس کے باوجود قربانیوں کی لازوال داستانوں سے اپنی زمین کا دفاع کیا، دشمنوں کو حاوی نہیں ہونے دیا، امریکہ سے دشمنی مملکتوں کو اجاڑ دیتی ہے، حکومتوں کو برباد کر دیتی ہے مگر ان برسوں میں امریکی سازشوں کو ناکام بنانا امام خمینی رح کی الہی قیادت و رہبری کا نتیجہ تھا، اور یہ سازشیں آج بھی کھل کے ہو رہی ہیں،اس وقت بھی موجودہ رہبر بطور صدر مملکت مقابلے پہ سامنے موجود تھے اور آج بھی رہبر معظم، ولی فقیہ کی صورت  موجود ہیں، یہ سعادت و خوشبختی ہے کہ ہم نے امام خمینیؒ کا زمانہ بھی پایا اور آج امام خامنہ ای کے دور میں بھی ان کی سیادت و رہبری سے مستفید ہو رہے ہیں۔

آج کا انقلاب 80ء کے عشرے کا انقلاب نہیں ہے، جس پہ سبھی حملہ آور تھے، آج انقلاب اسلامی ایک ایسی قوت و طاقت ہے جس کا سامنا کرنا امریکہ جیسی نام نہاد سپر پاور کیلئے ممکن نہیں اس لئے کہ اسے علم ہے کہ اگر حملہ کرے گا تو جواب کیسا ملے گا، لہذا ہم نے دیکھا ہے کہ ڈائریکٹ ایران پہ حملہ کی گیدڑ بھبھکیاں تو دی جاتی ہیں، دھمکایا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے، ماحول بنایا جاتا ہے مگر جرات نہیں کی جاتی، ہاں عراق و شام میں مقاومتی مراکز کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں ایرانی سپاہ کے کمانڈرز بھی شہید ہوئے ہیں اور ایران سے متعلق دیگر مزاحمتی و مقاومتی گروہ کے اعلی کمانڈرز بھی نشانہ بنے، مگر ایران کیلئے یہ قربانیاں ہیں۔

یہ شہادتیں کسی بھی طور پریشانی کا باعث نہیں، کہ وہ لوگ شہید ہو رہے ہیں جو تا عمر شہادت کی تلاش میں دنیا کے مختلف محاذوں پہ شہادت تلاش کرتے رہے اور شہادت کو دوست رکھتے تھے، البتہ آج کا ایران کھل کے، اعلانیہ ہر حملے کا جواب دیتا ہے، حتیٰ کرمان میں بم دھماکوں کے ذمہ دار گروہ کو بارہ سو کلومیٹر دور سے میزائل کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ آج کا ایران ہے، قوی ایران، مضبوط ایران، خوددار ایران، آزاد ایران، اپنا دفاع کرنے والا ایران، اپنے ساتھ متصل لوگوں کا دفاع کرنے والا ایران، امام خامنہ ای کا ایران، شہداء کا ایران، مجروحین کا ایران، مظلومین کا ایران، مقاومین کا ایران، امام رضا (ع) کا ایران، امام زمانہ (عج) کا ایران۔
 
 
 


آفتابِ انقلابِ اسلامی ایران، اپنی پوری آب و تاب کیساتھ دنیا کے افق پر چمک دمک رہا ہے۔ اس کی روشنی نے نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے مستضعفین کو بھی منور کیا ہے، انہیں بھی حریت کی راہ دکھائی ہے۔ یہ انقلاب اسلامی کی برکت ہے، کہ آج ایران سے دنیا کی سپرپاورز خوفزدہ ہیں۔ امریکہ جیسی موذی قوت بھی ایران کیساتھ براہ راست زور آزمائی سے لرزہ براندام ہے۔ ایران نے اسی انقلاب کی بدولت ہی، اس کی برکت سے ہی، اپنے دفاع کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ اب کوئی بھی دشمن، ایران پر چڑھائی کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ نام نہاد سپرپاور امریکہ کو کب کا گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ ایران نے بہت سے مواقع پر ثابت کیا ہے کہ ایران کا دفاع مضبوط ترین ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ کیلئے سب سے بڑی مشکل انقلاب ہی ثابت ہوا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ سے امریکہ کے پاوں اکھاڑ دیئے ہیں، آج مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی امریکہ کی بزدلی اور کھوکھلی قوت سے آشنا ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب جیسا ملک بھی امریکی حقیقت بے نقاب ہونے پر بیدار ہوگیا ہے۔ ورنہ اس سے قبل سعودی عرب امریکہ کو ہی اپنا ’’محافظِ اعلیٰ‘‘ سمھتا تھا لیکن ایران نے جب سے امریکہ کی حقیقت بے نقاب کی ہے، ریاض سمیت دیگر عرب ممالک بھی اس کے جعلی رعب و دبدبے سے باہر آ گئے ہیں۔ عرب دنیا کی نفسیات یہ ہیں کہ جہاں سعودی عرب ہوتا ہے، دیگر عرب ممالک بھی وہیں ہوتے ہیں۔ جہاں ہاتھی کا پاوں، وہاں سب کا پاوں کے مصداق، عرب بھی سعودی عرب کی تقلید میں چلتے ہیں۔ اب سعودی عرب اس حقیقت کو جان چکا ہے کہ امریکہ جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹس کی بنیاد پر انہیں اپنے ہی بھائی بندوں سے ڈرا کر رکھتا تھا، اب حقیقت کھلنے پر سعودی عرب نے ایران کو گلے لگا لیا ہے۔ یوں مسلمانوں کی دو اہم ترین قوتوں میں ہونیوالا اتفاق اپنی برکت کے ثمرات ضرور دے گا اور اس سے امت کے معاملات میں بہتری آئے گی۔

انقلاب اسلامی ایران نے چین کو بھی ایران کی اہمیت سے آشنا کر دیا ہے، روس جیسا ملک جو کبھی دنیا کی سپرپاور تھا، آج ایران کی دفاعی قوت کا گیت گاتا دکھائی دیتا ہے۔ روس یوکرائن جنگ ایک طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن یوکرائن کو مسلسل ناکامی کا سامنا ہے، روس کی اس کامیابی کا سہرا بھی ایران کے سر ہے۔ ایران کی ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی نے یوکرائن کے پاس موجود امریکی ٹیکنالوجی کو عبرتناک شکست سے دوچار کر رکھا ہے۔ اسی طرح کچھ اطلاعات ہیں کہ چین اور ایران مل کر مزید جدید دفاع ہتھیار تیار کر رہے ہیں جو امریکہ کیلئے بالخصوص تیار کئے جا رہے ہیں۔ ادھر روس نے بھی اپنے دفاع میں ایران کے بھرپور تعاون پر اظہار تشکر کیا ہے۔ ایران نے نہ صرف اپنا دفاع مضبوط کیا ہے بلکہ خطے کے مستضعفین کی بھی مدد کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج حماس جیسی چھوٹی سے تنظیم نے اسرائیل جیسی جدید ہتھیاروں سے لیس، امریکہ و برطانیہ کی بھرپور سرپرستی میں چلنے والی ناجائز ریاست کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔

حماس نے اسرائیل کی نام نہاد دفاعی طاقت کا غور خاک میں ملا دیا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا تھا کہ سات دنوں کے اندر اندر حماس کا مکمل صفایا کرکے فلسطین پر قبضہ کرلیں گے، وہ سات دن آج 130 دن ہو گئے ہیں۔ حماس اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے قابو میں نہیں آ رہی، بلکہ اسرائیل کا آج تک کروڑوں اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے، قیمتی ٹینکس، میزائل اور دیگر ہتھیار ضائع ہو چکے ہیں۔ لیکن حماس کا خاتمہ اسرائیل کا خواب ہی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ انقلاب کی برکات ہی ہیں کہ حزب اللہ لبنان اور یمن کے حوثی مجاہدین انصاراللہ نے بھی عالمی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ اس وقت بحیرہ احمر کے باب المندب پر مکمل طور پر حوثی مجاہدین کا کنٹرول ہے۔ امریکہ ہزار کوشش کے باوجود حوثیوں سے باب المندب کلیئر نہیں کروا سکا، امریکہ و برطانیہ کے حملے بھی ناکام ہوئے اور تیرہ رکنی امریکی اتحاد بھی بحری بیڑوں کو بحیرہ احمر میں تحفظ فراہم نہیں کر پایا۔ انہی حوثیوں نے برسوں سعودی حملوں کا مقابلہ کرکے بھی اپنی استقامت سے مخالفین سمیت امریکہ کو شکست دی ہے۔

اس حوالے سے پوری دنیا میں دیکھیں تو انقلاب کی روشنی سے نئے راستے دریافت ہو رہے ہیں۔ دنیا اعتراف کر رہی ہے کہ انقلاب اسلامی ایران واقعی اسلام ناب محمدی کا حقیقی عکس بن کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس انقلاب نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اُمید اور تحفظ فراہم کیا ہے۔ آج پوری دنیا میں انقلاب کا طوطی بول رہا ہے۔جبکہ انقلاب دشمن، جو یہ کہتے تھے کہ یہ چند دنوں اور مہینوں کی بات ہے، یہ انقلاب اپنی موت خود مر جائے گا، اس انقلاب نے آج دوسروں کو زندگیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ اس انقلاب نے مظلوموں کیساتھ ساتھ خود ایران کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ الہی پلاننگ اللہ کی ہوتی ہے اور شیطان کے وسوسے اس وقت دم توڑ دیتے ہیں جب الہی تدبیر متحرک ہوتی ہے۔ یقیناً انقلاب کی کامیابی نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تعاون انقلاب اور ایران کیساتھ ہے اور جس کیساتھ اللہ ہو، اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

 

 

اسلام ٹائمز۔ یمن کی مزاحمتی تحریک انصار اللہ کے سیاسی دفتر نے جمعرات کی صبح امریکی دہشت گردانہ حملے میں عراق میں کتائب حزب اللہ کے کمانڈر "ابو باقر السعدی" کی شہادت کی شدید مذمت کی ہے۔ انصار اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ الحشد الشعبی کے اس کمانڈر کا قتل ایک بزدلانہ مجرمانہ جارحیت ہے، یہ جارحیت صیہونی حکومت کے لیے امریکہ کی حمایت کا حصہ ہے، شہید مجاہد ابوباقر السعدی کو نشانہ بنانا پورے عراقی عوام پر حملہ ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی جارحیت غزہ میں فلسطینی عوام کی حمایت میں عراقی مزاحمت کے حملوں کے اثرات اور تاثیر کی حد کو ظاہر کرتی ہے، یہ جارحیت امریکہ اور اسرائیل کی عراق میں اسلامی مزاحمت کے حملوں کو روکنے میں ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔

 

انصار اللہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عراق اور مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکی موجودگی صیہونی حکومت کی حفاظت کے مقصد کے ساتھ خطے کی سلامتی کے عدم استحکام کا بنیادی سبب ہے کہا ہے کہ امریکہ کے یہ پے درپے حملے مشرق وسطیٰ کے لوگوں پر ہیں، ان حملوں سے مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت اور ان کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ہم عراق کے عوام اور عراق کی اسلامی مزاحمت کو تعزیت پیش کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے ان کی عظیم قربانیوں پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

 

27 رجب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر اسلامی جمہوری ایران کے اعلی حکام اور اسلامی ممالک کے سفیروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ عید مبعث کے موقع پر ایرانی عوام اور امت مسلمہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ عید مبعث تاریخ کے بزرگترین واقعے کی یاد دلاتی ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ تاریخ انسانیت میں پیش آنے والا سب سے بڑا واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت ہے۔

 

رہبر معظم نے کہا کہ بعثت کے واقعے میں دنیا اور آخرت میں انسان کی سعادت کا کامل اور دائمی دستور سامنے آیا۔

 

 

 

 

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ 45 سالوں کے دوران صحت کے میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ذیل میں حفظان صحت کے میدان کی چند اہم کامیابیوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

 

1: اوسط عمر کی شرح

 

ایران میں اوسط عمر کی شرح انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں اب 22 سال کی بڑھوتری رکھتی ہے جو کہ عمر کے عالمی اوسط سے بھی زیادہ ہے۔ انقلاب سے پہلے اوسط عمر کا تناسب 55 سال تھا جو کہ عالمی اوسط درجے میں سب سے کم تھا۔ لیکن آج ایران میں اوسط عمر 77 سال تک پہنچ گئی ہے۔ عالمی بینک نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی اس اہم کامیابی کی طرف اشارہ کیا ہے۔

 

2: شیر خوار بچوں اور حاملہ ماؤں کی شرح اموات

 

صحت کے شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک اور اہم کامیابی شیر خوار بچوں اور حاملہ ماؤں کی شرح اموات میں 10 گنا کمی ہے۔

 

انقلاب سے پہلے زچگی کی شرح اموات 274 فی 100,000 افراد پر تھی لیکن اب یہ 16 فی 100,000 افراد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی شرح اموات 82 فی 1000 افراد سے کم ہو کر 11 فی 1000 افراد پر آ گئی ہے جو کہ ایک اہم کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ صحت عامہ میں ترقی کی بدولت پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں بڑی کمی آئی ہے، جو کہ انقلاب سے پہلے کے دور کے مقابلے میں نمایاں طور پر قابل ستائش اضافہ ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پہلوی (شاہی رجیم) دور حکومت میں ہر سال 140,000 سے زائد بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے جو کہ حالیہ برسوں میں کم ہو کر 20,000 سے نیچے رہ گئے ہیں۔

 

3: علاج معالجے تک عام رسائی

 

علاج معالجے تک رسائی کے اشارئے میں ڈاکٹروں، ہسپتالوں اور علاج کے مراکز اور ادویات تک رسائی شامل ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ملک کے زیادہ سے زیادہ 37 فیصد شہروں کو ہسپتالوں اور طبی مراکز تک رسائی حاصل تھی لیکن اب یہ تعداد 97 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ملک میں ہسپتالوں کے بستروں کی تعداد 50 ہزار سے بڑھ کر 150 ہزار ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ انقلاب سے پہلے ملک میں فی 10 ہزار افراد پر 3 ڈاکٹر ہوتے تھے لیکن اب یہ تعداد 16 ڈاکٹروں تک پہنچ گئی ہے۔ اس لیے پچھلے 45 سالوں میں فی کس ڈاکٹروں کی تعداد میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ ملک کی آبادی میں 2.5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اہم اور قابل توجہ پیش رفت ڈاکٹروں کی تعداد میں تقریباً 12 گنا اضافے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ انقلاب سے پہلے ملک میں تقریباً 14000 ڈاکٹرز تھے جن میں جنرل پریکٹیشنرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین شامل تھے اور اس تعداد کا نمایاں حصہ غیر ملکی ڈاکٹروں پر مشتمل تھا لیکن اب ملک میں 160,912 ڈاکٹرز ہیں جو کہ 11 گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ . اس وقت تقریباً 60,000 ڈاکٹر جنرل ڈاکٹریٹ اور طبی معاونین تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگر ہم انہیں بھی شامل کریں تو ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد تقریباً دولاکھ ہوجائے گی اورغیر ملکی ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں رہتی۔

 

4: خواتین ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ

 

دشمنوں نے گزشتہ سال خاص طور پر ایران میں خواتین پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ خواتین اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈھانچے میں ترقی نہیں کر رہی ہیں اور انہیں صنفی امتیاز یا تشدد کا سامنا ہے۔ لیکن درج ذیل اعدادوشمار ان دعووں کی مکمل تردید کرتے ہیں کہ صرف خواتین کی صحت سے متعلق شعبے میں 60% ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والی خواتین ہیں۔ ڈاکٹریٹ کی سطح پر، 52% خواتین ہیں۔ اس وقت ایران میں خواتین ڈاکٹروں کی تعداد 71,000 تک پہنچ گئی ہے جو کہ انقلاب کے آغاز کے مقابلے میں 35 گنا زیادہ ہے۔ 1984 میں اسپیشلسٹ خواتین ڈاکٹروں کی تعداد تین تھی لیکن اب 1600 کے لگ بھگ ہے۔

 

5: صحت عامہ کے شعبے میں شاندار کامیابیاں

 

صحت عامہ کے میدان میں وبائی امراض کی روک تھام اور ان پر قابو پانا اسلامی جمہوریہ ایران کی گزشتہ 45 برسوں میں نمایاں کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ صحت عامہ کے شعبے میں کالی کھانسی، تپ دق، چیچک، پولیو، بچوں کی تشنج، جذام، خسرہ، روبیلا اور خناق جیسی بیماریوں کا خاتمہ کیا گیا ہے اور اسہال کی بیماریوں پر قابو پایا گیا ہے اور دیگر متعدی امراض جیسے ہیپاٹائٹس اور شدید سانس کے انفیکشن وغیرہ کی روک تھام میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ 

 

6: فارماسیوٹیکل یا طبی ادویات کے شعبے میں ترقی

 

پہلوی دور حکومت میں ملک میں طبی آلات کے شعبے میں 50 کے قریب مینوفیکچرنگ کمپنیاں تھیں، جن میں سے تمام خام مال بیرون ملک سے درآمد کر کے ایران کے اندر اسمبل کرتی تھیں۔ یہ کمپنیاں ملک کی ضروریات کا صرف 3 فیصد فراہم کر پاتی تھیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد، 500 سے زائد طبی سازوسامان بنانے والی کمپنیاں فعال ہیں اور ملک کی 80% سے زیادہ ضروریات فراہم کرتی ہیں۔ اس وقت ملک میں طبی آلات تیار کرنے والے یونٹ 8 ہزار سے زائد اقسام کے طبی آلات مختلف شعبوں میں تیار کرتے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی مارکیٹوں کو فراہم کرتے ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں دواسازی کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے اور ملک کو درکار ادویات کا 97 فیصد مقامی طور پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اب ایران ایشیا میں ادویات کی ریکومبیننٹ میں چوتھے نمبر پر ہے اور اب تک اس قسم کی 14 ادویات ملک میں تیار کی جا چکی ہیں۔ ریکومبیننٹ دوائی بنیادی طور پر لاعلاج بیماریوں جیسے کینسر، کچھ وائرل بیماریوں، ایم ایس اور ہیموفیلیا کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔

 

نتیجہ

 

طب اور صحت کے شعبوں میں حاصل ہونے والی پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 45 سالوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی اہم ترین ترجیحات میں سے ایک عوام کی زندگیوں پر توجہ دینا اور صحت کے اشاریوں کو بہتر بنانا ہے۔ 

 

لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن ان واضح اور ٹھوس کامیابیوں کا انکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قاب ذکر بات یہ ہے کہ ان شعبوں میں پیش رفت ایسی حالت میں ہوئی ہے جب ایران پر 8 سالہ جنگ مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب بالخصوص امریکہ کی طرف سے ظالمانہ پابندیاں بھی لگائی گئیں اور یہ ناجائز اور ظالمانہ پابندیاں کورونا وائرس کے عروج کے دوران بھی رہیں لیکن رہبر معظم انقلاب کی جانب سے مختلف سائنسی شعبوں بالخصوص طبی میدان میں شاندارترقی پر تاکید کے سبب اسلامی جمہوریہ ایران نے ملک کی صحت عامہ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی۔ بلاشبہ یہ پیش رفت انقلاب اسلامی کے دوسرے مرحلے میں بھی جاری رہے گی۔

 

 

 

 

 

اسلام ٹائمز: آج آزادی اور آزادی کے سائے میں ایران علم و سائنس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور مختلف سائنسی میدانوں میں دنیا کے 10 بہترین ممالک میں شامل ہے۔ اس تیز رفتار سائنسی ترقی نے دشمن کو ایرانی سائنسدانوں کو قتل کرنے اور اپنی غداری و خیانت کی گہرائی کو اور زیادہ ظاہر کر دیا ہے۔ دفاعی میدانوں میں سائنسی ترقی اس حد تک آگے بڑھی ہے کہ ایران کے دشمنوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں ایک مضبوط فوج اور منظم جنگی سسٹم کا سامنا ہے، جو "ڈیٹرنس" کی سرحدیں عبور کرچکی ہے اور پیشگی حملے کی استعداد رکھتی ہے۔ ایران کی اس فوجی ترقی نے نیٹو جیسے اداروں کو نئے چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔

تحریر: محمد کاظم انبارلوی

 

1۔ اسلامی انقلاب کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ایران میں دینی حکومت کا قیام ہے۔ ایرانی عوام کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ مذہبی لوگوں میں ہوتا ہے۔ شاہ ایران کے وقت لوگوں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ مٹھی بھر شرابی، کرپٹ اور ظالم لوگ ہم پر حکومت کیوں کریں؟ وہ لوگ جو محرم اور صفر کے دوران امام حسین علیہ السلام کے مقام و منزلت کی حفاظت اور عاشورا کے عبادات میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کرتے تھے، وہ اپنے آپ سے سوال کرتے تھے کہ ایک بے لگام شخص ہم پر حکومت کیوں کرے؟ ایک مذہبی شخص اور دینی نظام ہم پر حکمران کیوں نہیں ہونا چاہیئے؟ امام خمینی (رح) نے اس مطالبے کو نظریہ ولایت فقیہ کی شکل میں پیش کیا اور لوگوں نے اپنا سب کچھ اس پر فدا کر دیا اور یوں اسلامی جمہوریہ قائم ہوا۔ اسلامی جمہوریہ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو مسلمان ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا ان پر حکومت کرے اور اسلامی انقلاب کی فتح کا مطلب ہے کہ ایران میں اور ان شاء اللہ دنیا میں خدا کی حکومت کا آغاز! تب سے لے کر اب تک امریکہ کھلم کھلا اسلام اور ہماری قوم کے خلاف کھڑا ہے اور وہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اپنی دشمنانہ روش سے باز نہیں آیا ہے۔

 

2۔ پچھلی دو صدیوں میں ملک کی آزادی، ارضی سالمیت اور علاقائی سالمیت ایرانی قوم کے اہم مطالبات میں سے ایک رہا ہے۔ قاجار اور پہلوی ادوار میں عالمی طاقتوں نے ایران پر حملہ کیا۔ آج کا ایران قاجار کے ابتدائی دور کے ایران کا ایک تہائی ہے۔اسلامی انقلاب ملک کے معاملات اور تقدیر میں غیر ملکیوں کے تسلط اور مداخلت کو قبول نہیں کرتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب علاقائی سالمیت کے تحفظ اور خطے اور دنیا میں ایران کے اثر و رسوخ اور حکمت عملی کی گہرائی کو وسعت دینے کا آغاز تھا۔ آج عالمی استکبار دنیا بھر بالخصوص مغربی ایشیا میں اسلامی ایران کے حامیوں کی سیاسی اور قانونی یلغار کے دباؤ میں ہے۔ انقلاب اسلامی کے قائدین دنیا میں ایرانیوں کی عزت اور ملک کی آزادی اور ارضی سالمیت کے علمبردار ہیں اور یہ ایران کی عصری تاریخ میں واضح طور پر درج ہے۔ تمام عالمی مبصرین تسلیم کرتے ہیں کہ آج کا سیاسی، ثقافتی اور عسکری ایران اس سرزمین کے قدرتی جغرافیہ سے کہیں بڑا ہے۔

 

3۔ آج ایران میں سب سے زیادہ مقبول و عوامی حکومت ہے اور ایران دنیا کا سب سے آزاد ملک ہے۔ آزادی گویا پہلوی اور قاجار کے دور کا کھویا ہوا خزانہ ہے۔ انسانی وقار کو ظلم کے بوٹ تلے روند دیا گیا تھا۔ آج آزادی کے مخالفین اور ظلم کے حامی اپنے اصلی وطنوں یعنی امریکہ، انگلستان اور فرانس کی طرف ہجرت کرچکے ہیں اور سی آئی اے، موساد اور ایم آئی 6 کی سرمایہ کاری سے 250 ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ چینلز سے ایران کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ انقلاب کے بعد ایران میں 40 سے زائد انتخابات کے انعقاد نے مذہبی جمہوریت کو تقویت دی ہے اور ایران سے ظلم کو نکال باہر کیا ہے۔

 

4۔ آج آزادی اور آزادی کے سائے میں ایران علم و سائنس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور مختلف سائنسی میدانوں میں دنیا کے 10 بہترین ممالک میں شامل ہے۔ اس تیز رفتار سائنسی ترقی نے دشمن کو ایرانی سائنسدانوں کو قتل کرنے اور اپنی غداری و خیانت کی گہرائی کو اور زیادہ ظاہر کر دیا ہے۔ دفاعی میدانوں میں سائنسی ترقی اس حد تک آگے بڑھی ہے کہ ایران کے دشمنوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں ایک مضبوط فوج اور منظم جنگی سسٹم کا سامنا ہے، جو "ڈیٹرنس" کی سرحدیں عبور کرچکی ہے اور پیشگی حملے کی استعداد رکھتی ہے۔ ایران کی اس فوجی ترقی نے نیٹو جیسے اداروں کو نئے چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔

 

5۔ پورے ملک میں مدارس کی توسیع اور مساجد اور حسینیہ کی ترقی کی ایران کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اب صوبوں کے مراکز حتیٰ کہ چھوٹے شہروں میں بھی دینی مدارس ہیں۔ نوجوان اور انقلابی طلبہ کی تربیت دینی نظام تعلیم کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ قم، مشہد اور دیگر بڑے شہروں میں سو سے زائد ممالک کے طلباء زیر تعلیم ہیں۔ اس سال ملک بھر کی 70 ہزار مساجد میں 10 لاکھ سے زائد افراد نے اعتکاف کی روحانی عبادت میں شرکت کی۔ تین دن کے اعتکاف کے بعد انہوں نے اپنی عبادت کی خوشبو سے ملک کی روحانی فضا کو معطر کیا۔

 

6۔ دشمن نے ایرانی قوم کو تباہ کرنے اور مفلوج کرنے والی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ انہوں نے عالمی ایٹمی معاہدے کے تمام وعدے پس پشت ڈال دیئے۔ آج ایران میں ایک ایسی حکومت ہے، جس نے عوام کی مرضی سے پابندیوں کو عبور کیا ہے۔ ایران ایف اے ٹی ایف کے بغیر، اپنا تیل بیچتا ہے اور اس کا پیسہ ملک کو لوٹاتا ہے۔ دشمن کے کارٹل اور ٹرسٹ اس نظام کے خلاف کمربستہ ہیں۔ آج حکومت نے بند اور نیم بند فیکٹریوں اور اقتصادی اداروں کو شروع کرکے پیداوار کا پہیہ متحرک کر دیا ہے اور خالی دھمکیوں کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کا عزم بالجزم کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابیاں بے شمار ہیں۔ مذکورہ چھ نکات انتہائی ٹھوس، واضح اور عملی کامیابیاں ہیں، جن کا اختصار سے ذکر کیا گیاہے 

 

 

 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیر 5 فروری کی صبح ملک کی فضائيہ اور فوج کے ائير ڈیفنس شعبے کے بعض کمانڈروں سے ملاقات میں امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی پشت پناہی سے غزہ میں سامنے آنے والے انسانیت سوز مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت پر کاری ضرب لگائے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

8 فروری سن 1979 کو فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر ہونے والی اس ملاقات میں انھوں نے اس واقعے کو، انقلاب کو رفتار عطا کرنے والا عنصر بتایا اور اس میں اہم افراد اور خواص کے کردادر کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری رفتار پیدا کرنے میں خواص کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے خواص کو معاشرے کے بڑے اور بامقصد کاموں کو رفتار عطا کرنے والے حقیقی افراد بتایا اور کہا کہ خواص سے مراد وہ لوگ ہیں جو قوم کے ہر طبقے میں غور و فکر، شناخت اور امور کے تعین کی قوت کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اپنے آس پاس کے ماحول کی اندھی تقلید کیے بغیر پوری شجاعت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بر وقت پورا کرتے ہیں۔

 

انھوں نے ظلم اور ظالم سے مقابلے، دنیا بھر کے منہ زوروں کے مقابلے میں ڈٹ جانے، عوام کی دنیا اور ملک کے مستقبل پر توجہ اور ساتھ ہی روحانیت پر مکمل توجہ جیسے اسلامی انقلاب کے اندرونی پرکشش عناصر کو، نئی نئی پیشرفتوں کا سبب بتایا اور کہا کہ ان ذاتی پرکشش امور کے باوجود انقلاب اور ملک کو رفتار عطا کرنے والے عناصر کی ضرورت ہے تاکہ بڑے بڑے کاموں میں ہماری رفتار دھیمی نہ پڑنے پائے۔

 

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ جو بھی یونیورسٹی والوں، اسٹوڈنٹس، سیاستدانوں، علمائے دین، تاجروں، میڈیا والوں، سپاہیوں اور کسی بھی دوسرے طبقے کے درمیان مسائل کے ادراک اور دوست اور دشمن کی محاذ آرائی کی شناخت کے ساتھ کام کرتا ہے، وہ خواص میں شامل ہے۔

 

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دشمن محاذ نے خواص کے لیے ایک خاص پروگرام تیار کر رکھا ہے، کہا کہ دشمن کا ہدف یہ ہے کہ خواص شک وشبہے میں پھنس کر اور دنیوی لذتوں میں گرفتار ہو کر ضروری اور حساس مواقع پر، ضروری کام نہ کریں اور رفتار عطا کرنے کا اپنا کردار ادا نہ کر سکیں۔

 

انھوں نے اس سازش کے مقابلے میں تشریح و بیان کے جہاد اور بدخواہوں کی جانب سے شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کو ناکام بنائے جانے کو خواص کی ذمہ داری بتایا۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خواص کی ذمہ داری حقائق کو صاف صاف بیان کرنا اور ذو معنی باتوں سے پرہیز کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج علماء، دانشوروں، سیاستدانوں اور میڈیا والوں سمیت عالم اسلام کے خواص کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا ایک سنجیدہ میدان، غزہ کا موضوع ہے۔

 

انھوں نے امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی پشت پناہی سے غزہ میں سامنے آنے والے انسانیت سوز مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت پر کاری ضرب لگانے کے لیے مسلم اقوام کے اندر اپنی حکومتوں سے ایک عمومی مطالبہ پیدا کرنے کو اہم شخصیات اور خواص کی اہم ذمہ داری بتایا اور کہا کہ کاری ضرب کا مطلب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں شامل ہو جانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب صیہونی حکومت سے معاشی اور اقتصادی تعلقات منقطع کر لینا ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اقوام میں، حکومتوں کو صحیح ڈگر پر لانے اور انھیں صیہونی حکومت کی حمایت اور پشت پناہی ختم کرنے پر مجبور کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، کہا کہ اگرچہ یہ ظالم اور بھیڑیا صفت حکومت عورتوں، بچوں اور بیماروں پر حملے کر رہی ہے اور اس نے ہزاروں لوگوں کو قتل کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود بعض اسلامی ممالک نہ صرف اس کی معاشی مدد کر رہے ہیں بلکہ یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کو ہتھیار بھی دے رہے ہیں۔

 

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں فضائيہ کے بعض اہلکاروں کی جانب سے 8 فروری 1979 کو امام خمینی کی بیعت کے حیرت انگیز واقعے کو کبھی نہ ختم ہونے والے سبق اور عبرت کا حامل بتایا اور کہا کہ فضائیہ کے اہلکار اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اس مخلصانہ اور شجاعانہ کام کے ساتھ، انقلاب سے جڑنے میں سب سے آگے ہو گئے اور 22 بہمن مطابق 11 فروری کو اسلامی انقلاب کی کامیابی میں انھوں نے رفتار بڑھانے والے انتہائی اہم عنصر کا کردار ادا کیا۔

 

انھوں نے طاغوت اور آمریت کے دور کی فضائيہ کو کمان، پالیسی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے پوری طرح امریکیوں کے کنٹرول میں اور ان کا تابع فرمان ادارہ بتایا اور کہا کہ مومن اور انقلابی اہلکاروں نے خود کفالت کے جہاد کے ذریعے فضائیہ کو امریکا کی ملکیت سے باہر نکالا اور اسے پوری طرح ایک ایرانی فورس میں تبدیل کر دیا۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے 22 بہمن (11 فروری) اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے قریب آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 45 برس عوام بغیر کسی ناغے کے ملک کے تمام شہروں اور دیہی علاقوں میں سڑکوں پر آئے ہیں اور نعرے لگا کر انھوں نے اپنے انقلاب کا دفاع کیا ہے اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پیروی اور ان سے بیعت کا اعلان کیا ہے، اسی طرح اس سال بھی عزیز عوام 22 بہمن کی ریلیوں میں، جو قومی اقتدار کی ایک نشانی ہے، بھرپور طریقے سے شرکت کریں گے۔

 

 

 

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے رہبر و رہنماء معصومین ہیں، یعنی ایسی ہستیاں اور شخصیات جن کا کردار و عمل، جن کا سونا جاگنا، جن کا کھانا پینا، جن کا چلنا پھرنا، جن کا بولنا اور چپ رہنا، جن کا ہر ہر عمل رہتی دنیا تک اسوہ کی حیثیت سے موجود رہیگا اور کسی کو جراءت نہ ہوگی کہ وہ ان کے کسی بھی عمل پہ انگلی اٹھائے۔ پروردگار عالم نے یہ کائنات خلق کی، اس میں انسانوں کی رہنمائی کیلئے اپنے پسندیدہ بندوں کو بھیجا، انبیاء، اوصیاء، آئمہ، اولیاء کا ایک سلسلہ قائم کیا۔ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم نے اس دامن کو پکڑا، جو کامل و اکمل اسوہ کی صورت ہمارے رہبر و رہنماء اور منتخب ہیں۔ رسول خدا ؐکی ذات اقدس اور ان کے بعد امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کی ہستی، جن کے فضائل و مناقب اور عظمت و بلندی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔

ان کی ذات گرامی کیساتھ ہم خود کو مربوط و منسلک کرتے ہیں، ان سے محبت کے دعوےدار ہیں، ان سے حب اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، بالخصوص جب ان کے ایام ہائے ولادت و شہادت ہوتے ہیں تو ہم اپنے اپنے انداز سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمیں معصومین ؑ کی سیرت و کرادر کو نمایاں کرنا چاہیئے۔ نئی نسل تک ان کی زندگیوں کے روشن پہلوئوں کو عملی شکل میں دکھانا چاہیئے کہ عمل ہی اصل تبلیغ و ترویج ہوتا ہے، زبانی کلامی باتوں کا اثر وقت ہوتا ہے۔ رسول اللہ ؐکے فرامین کی روشنی میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن اور اہل بیت ؑایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور دونوں مل کر انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے مینارہ نور ہیں۔

ان کے دامن سے تمسک ہی ابدی سعادت و کامیابی کی ضمانت ہے، کیونکہ آنحضرتؐ نے اپنی مشہور حدیث ثقلین میں ارشاد فرما دیا: "انی اوشک ان ادعی فاجیب، وانی تارک فیکم الثقلین: کتاب اللہ، وعترتی، کتاب اللہ حبل ممدود من السماالی الارض، وعترتی اھل بیتی، وان اللطیف الخبیر اخبرنی انہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظرونی بما تخلفونی فِیھِما" یعنی: "مجھے جلدی دعوت دی جانے والی ہے اور میں اس پر لبیک کہنے والا ہوں، میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت، کتاب الہیٰ آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے۔ میری عترت، میرے اہل بیت ہیں اور لطیف و خبیر اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) تک پہنچ جائیں۔ پس تم دیکھنا میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرو گے۔"

علی علیہ السلام اہل بیتؑ کی اہم شخصیت ہیں، اس حدیث میں انہیں اور قرآن کو لازم و ملزوم اور علی ؑکو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔ اِسی مطلب کو پیغمبر اسلامؐ نے اپنی ایک اور حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے: "علی مع القرآن، والقرآن مع علی، لا یفترقان حتی یردا علی الحوض" یعنی: "علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہیں، یہ دونوں آپس میں جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر پہنچ جائیں۔" وصی رسول، امیر کائنات امام علی علیہ السلام کا جتنا بھی مقام و منزلت ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں، پہچانتے ہیں۔ ان کی طرف رجوع کریں تو آپ ؑ اپنی ساری عزت اور شرف کو اس طرح سے بیان کر رہے ہیں آپ فرماتے ہیں: "إِلَهِی کَفَی بِی عِزّاً أَنْ أَکُونَ لَکَ عَبْداً وَ کَفَی بِی فَخْراً أَنْ تَکُونَ لِی رَبّاً أَنْتَ کَمَا أُحِبُّ فَاجْعَلْنِی کَمَا تُحِبُّ"، "اللہ میری عزت کے لئے کہ بس یہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے فخر کے لئے یہی بہت ہے کہ تو میرا رب ہے تو ویسا ہی ہے، جیسا میں چاہتا ہوں اور مجھے بھی ویسا قرار دے جیسا تو چاہتا ہے۔"

امام نے ہمیں یہ بتا دیا کہ ساری عزت خدا کا بندہ ہونے میں ہے، اس سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ہے اور ہمارا سب سے بڑا فخر یہی ہے کہ خدا ہمارا رب ہے، مولائے کائنات کے فضائل کو آپ کی شجاعت و سخاوت وغیرہ کے بارے میں ہم بہت پڑھتے اور سنتے ہیں، لیکن اگر ہمیں موقع اور فرصت ملے تو آپ کی عبادت کے بارے میں بھی غور کریں تو سمجھ میں آئے گا کہ آپ سے بڑا کوئی عابد نہیں ہے، زین العابدین اور سید الساجدین اگرچہ چوتھے امام کا لقب ہے، لیکن جب آپ عبادت کرتے کرتے تھک جاتے تھے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا، آپ سے کہا جاتا تھا کہ آخر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں تو آپ فرماتے تھے: "من یقوی علی عبادة علی (ع)"، "علی علیہ السلام کی طرح کون عبادت کرسکتا ہے۔" اگرچہ آپ ہر لحظہ بارگاہ خداوندی میں خود کو حاضر پاتے تھے، مگر نماز کے وقت بارگاہ خداوندی میں جاتے ہوئے ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔

ایک روایت کہیں پڑھی ہے کہ اصبغ ابن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ ضرار بن ضمرہ معاویہ کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ علی کی تعریف کرو، ضرار تعریف کرنا شروع کرتے ہیں اور تعریف کرتے کرتے کہتے ہیں: "رَحِمَ اَللَّهُ عَلِيّاً كَانَ وَ اَللَّهِ طَوِيلَ اَلسَّهَادِ قَلِيلَ اَلرُّقَادِ يَتْلُو كِتَابَ اَللَّهِ آنَاءَ اَللَّيْلِ وَ أَطْرٰافَ اَلنَّهٰارِ وَ لَوْ رَأَيْتَهُ إِذْ مُثِّلَ فِي مِحْرَابِهِ وَ قَدْ أَرْخَى اَللَّيْلُ سُدُولَهُ وَ غَارَتْ نُجُومَهُ وَ هُوَ قَابِضٌ عَلَى لِحْيَتِهِ يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ اَلسَّلِيمِ وَ يَبْكِي بُكَاءَ الحزین قَالَ فَبَكَى مُعَاوِيَةُ وَ قَالَ حَسْبُكَ يَا ضِرَارُ كَذَلِكَ كَانَ وَاَللَّه عَلِيٌّ رَحِمَ اَللَّهُ أَبَا اَلْحَسَنِ" (امالی صدوق ص 625 ناشر- کتابچی تہران): "خدا علی پہ رحمت نازل کرے، وہ رات کو زیادہ جاگتے تھے اور کم سوتے تھے۔ پوری رات اور دن میں بھی قرآن کی تلاوت کرتے تھے، اگر علی کے اوپر نظر ڈالتے تو وہ محراب میں نظر آتے اور جب رات ہو جاتی تھی تو اپنی ریش مبارک کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ایسے تڑپتے تھے، جس طرح سانپ کا کاٹا ہوا تڑپتا ہے اور کوئی غم رسیدہ گریہ کرتا ہے، ضرار تعریف کرتے جا رہے تھے کہ ایک مرتبہ معاویہ رونے لگا اور کہتا ہے کہ ضرار بس کرو، خدا کی قسم علی ایسے ہی تھے۔ خدا ابوالحسن کے اوپر رحمت نازل کرے۔"

مولائے متقیان امام علی ابن ابی طالب ؑ کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر دوڑائیں ہم حیرت کدہ میں داخل ہو جائیں گے۔ آپ کی ہستی ہی ایسی ہے، جس پر لوگوں نے خدا ہونے کا گمان کیا، جبکہ بندگی و اطاعت ایسی کہ خود آئمہ طاہرین بیان کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ کوئی ان کی عبادت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگرچہ آپ نے فرمایا کہ: "میں نے تیری عبادت نہ ہی جنت کے لالچ میں کی ہے اور نہ ہی جہنم کے خوف سے بلکہ تجھے لائق عبادت پایا، اس لئے تیری عبادت کی۔" افسوس کہ ایسی ہستی سے خود کو منسوب کرنے والے، امیر المومنین ؑسے نسبت کی بنا خود کو مومنین میں شمار کرنے کے دعویدار اس قدر گمراہی کے راستے پر چلتے دکھائی دیتے ہیں کہ دشمنان تشیع، دشمنان اہلبیت کو انگلیاں اٹھانے کا موقعہ ملتا ہے۔

دشمنان مکتب و مذہب جعفریہ کو طعن دیں، مذہب پر سوال اٹھائیں، جشن کے نام پر رجب و شعبان میں اب بہت زیادہ بے ہودگی، غیر اسلامی، غیر قرآنی امور سرانجام پاتے ہیں، ایسے امور جن کا کسی امام، کسی معصوم، کسی ہستی کے اسوہ زندگی میں سوچنا بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ آخر ایسا مکتب جعفری کے نام پر کیوں کیا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی خیالات، ذاتی انداز، ذاتی عقیدت کے انداز کو مکتب سے منسوب کرکے کیوں پیش کیا جاتا ہے۔ کیا اس کی اجازت ہونا چاہیئے، میں تو کہوں گا کہ ہرگز نہیں۔ ایسے لوگوں کو ملت سے کھل کر جدا کرنا چاہیئے، ان سے لاتعلقی سامنے لائی جائے، تاکہ دشمن کو زبان درازی کا موقعہ نہ ملے اور جہاں کہیں بھی جشن برپا کیا جائے، اس میں اسلامی، امامی، جعفری ثقافت کو نمایاں کیا جائے، بالخصوص آئمہ کی سیرت و کردار کو اجاگر کیا جائے۔

اہل علم، اہل محراب و منبر کو چاہیئے کہ وہ میدان میں نکلیں، ایسے معاملات میں جتنی تاخیر کریں گے، معاشرے میں خرابیاں جڑ پکڑیں گی اور بدعات، خرافات قوی ہو جائیں گی۔ جن کو وقت گزرنے کیساتھ دین کا حصہ بنا لیا جائے گا، تب جو نسل ہوگی، وہ کسی کی بھی نہیں سنے گی۔ لہذا آج کردار ادا کرنا ہوگا، میدان میں نکلنا ہوگا، معاشرہ کو آلودہ ہونے سے بچانے کیلئے وقت، مال، توانائی، خرچ کرنا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیئے۔ یہی اسوہ امیر المومنین و آؑئمہ طاہرین ؑہے۔

ایکنا نیوز- رہبری ویب سائٹ کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے انقلابی تحریک اور مسلط کردہ جنگ کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے تہران کے شہدا کی یاد میں کانفرنس منعقد کرنے والی کمیٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے غزہ جیسے انتہائی اہم مسئلے پر اسلامی ملکوں کے رویہ اور کارکردگی پر تنقید کی۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی ممالک کے حکام نامناسب رویہ اور غزہ کے باشندوں کے سامنے تمام تر مشکلات اور مصائب و آلام کے باوجود، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے، اللہ صاحبان ایمان کے ساتھ ہے اور جہاں بھی ہوں گے وہ فاتح اور کامیاب رہیں گے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ غزہ کے عوام کی فتح اور کامیابی یقینی ہے اور خداوند عالم عنقریب یہ فتح و کامرانی امت مسلمہ کو دکھائے گا اور پوری دنیا کے مسلمان اور خاص طور پر فلسطین اور غزہ کے عوام کے دل خوش ہوجائیں گے۔

 

سحرنیوز/ ایران: ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق تہران چیمبر آف کامرس اینڈ انڈٹسٹریز اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا ہے کہ وہ ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔

اس مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تاریخی پرامن بقائے باہمی کے ساتھ ساتھ دونوں ہمسایہ ممالک کی باہمی اور مسلسل حمایت خطے کی مشترکہ خوشحالی اور ترقی کی راہ ہموار کرے گی۔