سلیمانی

سلیمانی

علی زمانی شہید سلیمانی کے ساتھی ہیں جو کئی سالوں تک محاذوں پر دلوں کے سردار کے ساتھ رہے ہیں۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر مہر کی ان سے بات چیت ہوئی۔

شہداء کی ماؤں کی تعظیم و تکریم

علی زمانی نے شہید سلیمانی کی تیسری برسی کے لئے "جان فدا” نعرے کے انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میری شہید سلیمانی سے دفاع مقدس کے آغاز میں آشنائی ہوئی اور اس وقت سے ان کی شہادت تک میں نے کرمان میں شہید کا ایک دن بھی ایسا نہیں دیکھا جو انہوں نے عوام کے درمیان حاضر ہونے اور ان کے مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی کے بغیر گزارا ہو۔

انہوں نے کہا جب بھی شہید سلیمانی بیرون ملک مشنوں سے واپسی کے بعد کرمان آتے تو ان کی سب سے اہم مصروفیت شہداء اور مجاہدین کے اہل خانہ سے ملاقات کرنا تھا، شہداء کے ایک ایک خاندان سے رابطہ کرتے اور ایک بیٹے کی طرح ان کی ماؤں سے ملاقات کرتے اور ان کے حال احوال پوچھتے اور ان کے کاموں کو انجام دیتے۔

 

شہید سلیمانی کے اس ساتھی نے مزید کہا کہ اگرچہ شہید سلیمانی کی خواہش شہادت تھی اور وہ اپنی تقریروں اور دوستوں کے درمیان بارہا شہادت کی تمنا کرتے رہتے تھے لیکن جب دشمن سے ان کا سامنا ہوتا تھا تو اپنی تمام تر قوت کے ساتھ دشمن کو شکست دینے کی کوشش کرتے جبکہ ان کا مقصد انقلاب اور اسلامی نظام کی سربلندی اور مظلوموں کا دفاع کرنا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایسا شخص جو بلاشبہ میدان جنگ کے بہادر ترین لوگوں میں سے ایک تھا جب کرمان میں شہداء کی ماؤں کے درمیان ہوتا تو گھٹنوں کے بل بیٹھتا اور سختی سے آداب اور ادب کا خیال رکھتا اور ان کی تعظیم کرتا۔

 

شہید سلیمانی کی زندگی کا سب سے اہم پہلو ان کی سادہ زندگی اور عوام کے مسائل پر توجہ تھی

 

علی زمانی کہتے ہیں کہ شہید سلیمانی کی زندگی کا سب سے اہم نکتہ ان کی سادہ زندگی اور عوام کے مسائل پر توجہ تھی، وہ ہمہ تن عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ جب لوگوں کو حاجی ﴿شہید سلیمانی﴾ کی کرمان میں موجودگی کی خبر ملتی تو وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس چلے آتے اور آپ ان سے ایک کاغذ پر اپنے مسائل بیان کرنے کا کہتے اور وہ ان لیٹرز کو لکھنے میں جتنا بھی وقت لگتا وہیں انتظار کرتے اور بعد میں ایک ایک لیٹر کو نتیجتے تک پہنچانے اور عوام کے مسائل حل کرنے تک پیروی کرتے رہتے تھے۔

زمانی مزید کہتے ہیں کہ بعض اوقات وہ لوگوں کے ساتھ بیت الزہراء یا گلزار شہداء اور حسینہ ثار اللہ میں دیر تک بیٹھے رہتے اور لوگوں کے مسائل سنتے اور اس تمام عرصے میں آپ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب نہیں ہوتی تھی اور وہ اپنے محافظوں کو اپنے اور لوگوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔

 

شہید سلیمانی کے اس دیرینہ ساتھی کا مزید کہنا تھا کہ یہ شخص جو لوگوں کے درمیان مہربان اور عوام دوست تھا تاہم جنگ کے درمیان میں اپنے آپ کو لوگوں پر قربان کردیتا اور اسلام کے دشمنوں کے لیے سخت ترین دشمن بن جاتا تھا۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھی کہ آپ قنات ملک جا کر ان کے آبائی گھر کو دیکھیں، گاؤں کا ایک عام گھر جس میں دوسرے لوگوں کے گھروں سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور اس کے والدین زندگی کے آخر تک گاؤں کے دیگر لوگوں کے شانہ بشانہ کام کیا کرتے تھے۔ کرمان میں خود حاجی ﴿شہید سلیمانی﴾ کا بھی ایک عام سا گھر تھا۔ انہوں نے اس گھر کو اہل بیت (ع) کی عزاداری کے لیے وقف کر دیا۔

حاج قاسم سرباز ولایت تھے

شہید سلیمانی کے اس ساتھی نے کہا کہ انہوں نے تمام پہلوؤں میں اور ہر طرح سے عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کی اور لوگوں سے ان کی سب سے اہم درخواست یہ تھی کہ وہ دین، اہل بیت (ع) اور ولایت کی اطاعت پر توجہ دیں۔انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی اپنے آپ کو سرباز ولایت ﴿ولایت کا سپاہی﴾ سمجھتے تھے اور اپنے لئے کسی دنیاوی مقام و منصب کے قائل نہیں تھے اور اپنا سب کچھ انقلاب اور عوام کے لیے وقف کر رکھا تھا۔

شہید سلیمانی کے اس ساتھی کا کہنا تھا کہ اخلاص، شجاعت، دشمن سے خوف نہ کھانا، خدا پر توکل اور حضرت فاطمہ (س) سے توسل شہید سلیمانی کی زندگی کے اہم پہلو تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ شہید خدا کے سوا کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا اور اس راہ میں مکمل طور پر ولی فقیہ کے مطیع تھے اور ایک عام سپاہی کی طرح دن رات کام کرتے تھے۔

اس بارے میں کہ لوگ شہید سلیمانی سے کیوں بہت زیادہ محبت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب لوگوں نے ان کی پاکیزہ سانسوں، سادہ زندگی، ان کی شب و روز کی محنت اور یقیناً دشمن کے سامنے ان کی ہمت و بہادری کو دیکھا تو انہوں نے اس خلوص کو دل سے محسوس کیا اور شہید کو اپنوں میں ایک سمجھا۔a

Sunday, 31 December 2023 19:05

شہادت کے پیغام

مزاحمت کے میدان اور حرم کے دفاع میں ایک اور عظیم انسان کی شہادت کی خبر سامنے ائی ہے۔ یہ شہید اپنے دور کے طاقتور ترین کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ مزاحمت کے میدان میں ان کی شہادت کے کئی پیغام موجود ہیں۔

صیہونی حکومت اور مزاحمت کا خوف
صیہونی حکومت کا مزاحمتی محاذ کی طاقت اور اثر و رسوخ سے مسلسل خوف شہید اسلام حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد بھی کم نہیں ہوا۔غزہ کی جارحیت میں اس کی واضح ناکامی کے المیے نے اس کے زخموں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ غزہ کے حالیہ زخم کو مندمل کرنے کے لیے اسے کسی مرہم کی تلاش ہے۔ وہ اپنی خام خیالی میں اس طرح کے اقدامات سے خطے کی بڑی طاقت یعنی مزاحمتی محاذ کے علم برداروں کو قتل کرکے اس بلاک کو شدید دھچکا پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے اپنی خام خیالی اور بےہودہ وہم و خیال میں اس کمانڈر کو حاج قاسم کی برسی کے موقع پر شہید کیا۔ جس نے  اس کے اپنے بقول اپنے کالے کپڑے یعنی حاج قاسم کے سوگ کا لباس بھی نہیں اتارہ تھا۔ وہ شہادت کا منتظر تھا، کیونکہ حاج قاسم نے اس سے شہادت کا وعدہ کیا تھا۔ غاصب اور مجرم صیہونی حکومت نے سید رضی موسوی کو ان کی رہائش گاہ پر تین راکٹ فائر کرکے شہید کر دیا، تاکہ یاد دلایا جا سکے کہ  ایک سخت انتقام انتظار کر رہا ہے۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور دیگر صیہونی لیڈروں کو اب اپنے ہی سائے سے ڈرنا چاہیئے۔

سید رضی موسوی کون تھے؟
خبر یہ تھی کہ "ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر مشیر دمشق میں زینبیہ کے علاقے میں صیہونی حکومت کے حملے میں شہید ہوگئے اور دشمن نے سید رضی کو تین میزائلوں سے شہید کر دیا۔" سید رضی موسوی شام میں پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر مشیر تھے، جنہوں نے اس ملک میں جنگ کے تمام مراحل میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔ انہوں نے صحرائی علاقوں سے لیکر دمشق کے نواحی علاقوں کی لڑائیوں میں حصہ لیا۔ وہ حلب میں مغرب کے حملے کو پسپا کرنے والے ثابت قدم لوگوں میں سے ایک تھے۔ شہید موسوی شام کے معاملے میں پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر کمانڈروں میں سے ایک تھے، جنہیں صیہونی حکومت نے گذشتہ برسوں میں متعدد بار نشانہ بنانے کی کوشش کی۔

 اس محترم شہید کا شمار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے بڑے اور ممتاز کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ وہ شام میں پاسداران انقلاب اسلامی کے پرانے مشیروں اور شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی کے اہم ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے مزاحمتی محاذ کو لیس کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور کئی سالوں تک شام میں IRGC قدس فورس کے نمائندے رہے۔

صیہونی حکومت کے جرائم کا تجزیہ
صیہونی حکومت حاج قاسم اور ان کے ساتھیوں نیز مزاحمتی محاذ سے خوفزدہ ہے۔ وہ اس تحریک کے عظیم افراد کی شہادت کی تلاش میں ہے، تاکہ اپنے خوف کی سطح کو کم کرسکے اور غزہ میں اپنی ذلت آمیز شکست پر پردہ ڈال سکے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کو مزاحمتی محاذ سے آئے روز ایک خوفناک دھچکا لگتا ہے۔ اسے غزہ پر حالیہ حملے سے جو شکست ملی، وہ بہت بڑی رسوائی تھی، اس لیے صیہونی حکومت اس شکست سے رائے عامہ اور اپنے حامیوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سید رضی موسوی کو شہید کرنا اسی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ یہ جرم ایسے وقت ہوا، جب ایرانی مشیر کو 1973ء کے عالمی کنونشن کے مطابق استثنیٰ حاصل ہے، لیکن کیا غاصب حکومت کسی بین الاقوامی قوانین اور حقوق کی پاسداری کرتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو غزہ کی جنگ میں 8 ہزار بے سہارا بچے شہید نہ ہوتے۔

مزاحمت جاری ہے
شہید سلیمانی، عراقی مزاحمت کے کمانڈر ابو مہدی المہندس، سید رضی موسوی نیز فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کے بعض دیگر رہنماؤں کا قتل نہ صرف صہیونیت کے بدنام زمانہ پیکر پر مزاحمت کے حملوں کی وسعت کو کم نہیں کرے گا بلکہ صیہونی حکومت اور اس کے امریکی حامیوں کو مزید چیلنجوں اور حملوں کے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے چیلنجز جو اس نے گذشتہ آٹھ دہائیوں میں کہیں نہیں دیکھے ہوں گے۔ بلا شک و شبہ صیہونی حکومت اور مجرم امریکہ کو ایران اور اسلامی مزاحمت کے سخت انتقام کا سامنا کرنا ہوگا اور یہ خوف صیہونی حکومت کی مکمل تباہی تک جاری رہے گا۔

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

شیعہ نیوز: مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت نے جنرل سید رضی موسوی کو شہید کرکے ایک اسٹریٹجک غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔

شام میں اسرائیل کے دہشت گردانہ حملے میں ایران کے فوجی مشیر سید رضی موسوی کی شہادت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال نے غاصب صیہونی حکومت کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں اس کا کوئی بھی دہشت گردانہ اور جنون آمیز اقدام نہ صرف یہ کہ اس کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال نہیں کرسکتا بلکہ مزاحمت کے محور کے ذریعے اس کا محاصرہ مزید تنگ تر کرنے کا سبب بنے گا۔

ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کا یہ اقدام شام کی ارضی سالمیت، اقتدار اعلی اور عالمی قوانین اور ضابطوں کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس اقدام نے ایک بار پھر اسرائیل کی دہشت گردانہ ماہیت کو دنیا کے سامنے آشکارا کردیا ہے۔

 

میجر جنرل محمد باقری کے پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ بریگیڈیئر جنرل موسوی شام کی حکومت کی سرکاری دعوت پر فوجی مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طویل تجربہ رکھتے تھے۔

مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف نے واضح کیا کہ صیہونی حکومت غزہ کے خلاف جنگ میں تمام تر دعووں کے باوجود نسل کشی اور وحشیانہ کارروائیوں کے علاوہ کوئی فوجی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔

انہوں نے غاصب صیہونی حکومت اس غزہ کی دلدل سے نکلنے اور اپنے جنگی جرائم سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کی غرض سے جنگ کا دائرہ پورے خطے میں پھیلانے اور اپنے اتحادیوں کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اسرائیل کو حتمی نابودی سے بچایا جاسکے۔

ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے ایک بار پھر یہ بات زور دے کر کہی کہ صیہونی حکومت نے شام میں ایرانی فوجی مشیر کو دہشت گردانہ حملے میں شہید کرکے اسٹرٹیجیک غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔

 

شیعہ نیوز: شہید جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر شہید سلیمانی میموریل سینٹر کے ترجمان نے اس سال "شہید القدس” کے شعار کے ساتھ برسی کے انعقاد کا اعلان کیا۔

رپورٹ کے مطابق شہید جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر شہید میموریل سینٹر کے ترجمان سید مجتبی ابطحی نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس سال شہید کی برسی کا عنوان "شہید قدس” طے پایا ہے۔ یہ اقدام فلسطین کی بہادر قوم کی استقامت اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے اس عظیم سورما کو "شہید القدس” کا خطاب دینے کو سامنے رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک نئی دنیا وجود میں آرہی ہے جس میں شریف اور باوقار لوگ سربلند ہوں گے جب کہ امریکہ، جبر، سامراج اور اسرائیلی رجیم کا خاتمہ اور نابودی یقینی ہے۔

 

 

شہید قاسم سلیمانی میموریل سینٹر کے ترجمان نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران ہم نے شہید کی برسی میں مختلف شخصیات کی موجودگی کا مشاہدہ کیا اور اس سال یہ برسی عالمی منظرنام

 

اس سال شہید قاسم سلیمانی کی برسی کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ شہید کا یوم شہادت حضرت زہرا (س) کی ولادت کے ساتھ آرہا ہے اور یہ انتہائی اہم مناسبت ہے جو ہمارے لیے بہت سے پیغامات رکھتی ہے۔ دوسری جانب شہید کی برسی حضرت امام خمینی (رح) کی ولادت کے ساتھ آرہی ہے جب کہ شہید سلیمانی بھی امام خمینی (رہ) کے سپاہی تھے۔

ابطحی نے طوفان الاقصی آپریشن کے ساتھ شہید کی برسی کے اتفاق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج اس آپریشن کو تقریباً 73 دن گزر چکے ہیں اور تمام مزاحمتی محاذ استکبار کے ساتھ میدان جنگ میں ہیں۔ یہ آپریشن اسکتباری تسلط کے خلاف ایک اسٹریٹجک جست تھی جو مختلف سطحوں پر عوامی مزاحمت میں بدل گئی اور اس نے فلسطینی عوام کا باوقار اور مزاحمت پسندانہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلی بار امریکہ اور یورپی ممالک کے عوام کو مسلسل 10 ہفتوں سے سڑکوں پر دیکھا ہے اور شہید سلیمانی کی روح اقوام عالم کے جذبے سے گھل مل گئی ہے۔

مجتبی ابطحی نے کہا کہ آج ہم خطے میں ہر جگہ اور خاص طور مزاحمتی محاذ پر شہید سلیمانی کا پرتو دیکھ رہے ہیں اور امریکی اڈوں میں موجود ہمارے بزدل دشمنوں کو ہر روز شہید کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

7 اکتوبر کے دن غزہ پر صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت شروع ہونے کے ساتھ ہی مغربی کنارے پر بھی صیہونیوں کے حملوں میں شدت آ گئی اور اسی دن سے مغربی کنارہ بھی فلسطینی مجاہدین اور صیہونی فورسز کے درمیان محاذ جنگ میں تبدیل ہو گیا اور حتی ایک دن بھی یہ جنگ کم نہیں ہوئی۔
بچوں کا قتل عام، غاصب فورسز کا انسان سوز جرم
اس بارے میں الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں مغربی کنارے میں غاصب صیہونیوں کی طرف سے انجام پانے والے جرائم کی کچھ مثالیں ذکر کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 29 نومبر کی صبح فلسطینی بچہ "بصال سلیمان ابولوفہ" اپنے دوستوں کے ہمراہ کھیلنے کی غرض سے جنین شہر میں اپنے گھر سے باہر نکلا۔ اس کے نکلنے کے چند منٹ بعد ہی اس محلے میں گولی چلنے کی آواز سنائی دی جہاں یہ 15 سالہ فلسطینی بچہ زندگی بسر کرتا تھا۔
 
جب باسل کے اہل خانہ فائرنگ کی آواز سن کر گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو خون میں لت پت پایا اور دیکھا کہ اس کے سینے میں کئی گولیاں لگ چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ باسل کو ہسپتال پہنچاتے وہ جان کی بازی ہار چکا تھا۔ ایک خاتون صیہونی فوجی نے یہ منظر اپنے کیمرے سے ریکارڈ کر لیا۔ اسی دن اسی علاقے، جینین میں ایک اور ایسا ہی واقعہ رونما ہوا۔ صہیونی فوجیوں نے "آدم سامر" نامی 8 سالہ فلسطینی بچے کو سر میں گولی مار کر شہید کر دیا۔ قابل ذکر ہے کہ دو بچوں کے خلاف یہ 2 پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت انجام پانے والے جرائم ایسے وقت پیش آئے جب غزہ کی پٹی میں قیدیوں کے تبادلے کیلئے ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی برقرار تھی۔ باسل اور آدم سامر ان 275 فلسطینیوں میں سے دو ہیں جو غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔
 
مغربی کنارے پر صیہونی قبضے کا آغاز
غزہ کی پٹی کی طرح مغربی کنارہ بھی 1967ء سے صیہونیوں کے قبضے میں ہے لیکن 2005ء سے غزہ کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کے شدید محاصرے کے بعد مغربی کنارے اور غزہ میں دوریاں پیدا ہو گئیں۔ اگرچہ دونوں علاقوں کے درمیان محض 34 کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن آمدورفت ختم ہو جانے کے باعث وہ ایکدوسرے سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود مغربی کنارے نے صیہونی دشمن کے خلاف مسلح مزاحمت ہر گز ترک نہیں کی اور خود صیہونی بارہا اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مغربی کنارہ نئے فلسطینی انتفاضہ کا نقطہ آغاز بنے گا۔ 1993ء میں غاصب صیہونی رژیم اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان طے پانے والے اوسلو معاہدے کی روشنی میں مغربی کنارے اور غزہ میں محدود فلسطینی انتظامیہ قائم کی گئی تھی۔ ساتھ یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ 5 سال بعد صورتحال تبدیل کر دی جائے گی۔
 
لیکن غاصب صیہونی رژیم نے معاہدے کی پابندی نہیں کی جس کے نتیجے میں مغربی کنارہ عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ اگرچہ جنین، طولکرم اور نابلس کے شہر مکمل طور پر فلسطینیوں کے کنٹرول میں ہیں لیکن ان علاقوں پر صیہونی فوج کے حملے کبھی نہیں رکے اور 1967ء میں مغربی کنارے پر قبضے کے بعد سے اب تک صیہونی رژیم اس علاقے میں تقریباً 1 لاکھ 70 ہزار فلسطینیوں کو شہید یا گرفتار کر چکی ہے۔ صرف اس سال صیہونی فورسز نے جنین میں 137 فلسطینی، نابلس میں 88 فلسطینی اور طولکرم میں 55 فلسطینی شہریوں کو شہید کیا ہے۔
مغربی کنارے کا خونریز ترین سال
2023ء کا سال مغربی کنارے میں سب سے زیادہ شہادتوں کا سال ہے۔ غاصب صیہونیوں نے یکم جنوری سے 6 اکتوبر تک 48 بچوں سمیت 208 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
 
مغربی کنارے میں 100 سے زائد بچوں کی شہادت
10 دسمبر تک غاصب صیہونی فوج یا آبادکاروں کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد 106 تک پہنچ چکی تھی جو 2022ء میں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ مغربی کنارے میں شہید ہونے والا سب سے کم عمر فلسطینی بچہ، 3 سالہ "ہیثم التمیمی" تھا جسے اس کے اہلخانہ کے ہمراہ رام اللہ میں سر میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ فلسطین میں بچوں کے دفاع کی بین الاقوامی تحریک کے سربراہ عید ابو قطیش نے اعلان کیا ہے کہ تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی فوجی جان بوجھ کر آبادی والے علاقوں میں گولیاں چلاتے ہیں جبکہ ان کی جان کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر صیہونی آباد کاروں کے پرتشدد اور وحشیانہ حملوں میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
 
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صیہونی آبادکار یہ حملے غاصب صیہونی فوج کی زیر نگرانی اور اس کی حمایت سے انجام دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2009ء سے اب تک صہیونی آباد کاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر کم از کم 6022 حملے انجام دیے ہیں۔
مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھر مسمار کرنے کی پالیسی
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 1967ء میں مغربی کنارے پر غاصبانہ قبضے کے بعد صیہونی رژیم نے فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر ان تمام علاقوں سے بے دخل کر دیا اور ان کے 50 ہزار سے زائد گھر اور دیگر عمارتیں مسمار کر دیں۔ مزید برآں، غاصب صیہونی رژیم نے 2009ء سے 2023ء کے درمیان مغربی کنارے میں 10 ہزار سے زائد عمارتیں تباہ کیں جس کے نتیجے میں کم از کم 15 ہزار فلسطینی جلاوطن ہو گئے۔

تحریر: محمد علی

جو شخص موضوع قیامت پر گفتگو کرنا چاہے ،تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مر حلے میں ”قیامت“ کو غیر تفصیلی طور سے ثابت کرے تاکہ اس کی ضرورت اور اس کے یقینی ہونے پرعقیدہ رکھے ،نیز اس ضرورت اور یقینی ہونے کے اسباب کو تلاش کرے اور اس کی ضرورت پر دینی دلائل قائم کرےاور جب اس ضرورت(معاد) کو انسان دلیل و برہان سے ثابت کر لیتاہے تو ایک دوسری بحث کا آغاز ہوتا ہےکہ اس معاد کی جزئیات کیا کیا ہیں، کیونکہ ضرورت معاد وہ بنیادی مسئلہ ہے کہ جس کے بغیر جزئیات معاد کے بارے میں بحث کرنا فضول ہے۔
کیونکہ انسان کسی ٹھوس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا مگر یہ کہ تدریجی طور پر اس طرح کہ بعد والا مرحلہ پہلے والے مرحلے سے مر تبط ہو اور ان کے درمیان ایک مستحکم رابطہ ہو جس کے ذریعہ حقائق سے پردہ اٹھ جائے اور حقیقت واضح ہوجائے :
۱۔کیا خدا وند عالم امر و نہی کرتا ہے؟
ہمارے لحاظ سے ہر عقل مند انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ خدا وند عالم نے امر و نہی کیا ہے ،کیونکہ انہیں اوامر نواہی کے عظیم مجموعہ کو شریعت اسلام کہا جاتاہے اور اگر ہم قرآن مجید پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو اس بات کی دلیل آسانی سے مل سکتی ہے: جیسا کہ ارشاد خدا وند عالم ہوتا ہے:
اَقِیْمُوْالصَّلوٰةَ وَاٴَتُوا الزَّکٰاةَ
نماز قائم کرو اور زکوةادا کرو۔
البقرہ ،24
کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَام کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ
جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیےگئےہیں ۔
البقرہ ،183
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ
اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لئے خانہ کعبہ کا حج کریں۔
آل عمران،97
وَاعْلَمُوْااَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیءٍ فَاِنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ
اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ کا ہے۔
الانفال،41
جَاھِدُوْا فِی اللهِ حَقَّ جِھَادِہِ
جیسا جہاد کرنے کا حق ہے خدا کی راہ میں جہاد کرو ۔
الحج،78
اَحَلَّ اللهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَوٰا
خرید وفروخت کو خدا نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا۔
البقرہ ،275
اٴنَّ اللهَ یَاٴمُرُ بِا لْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَاٴِیْتَا یٴِ ذِی الْقُربٰی وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ
اس میں شک نہیں کہ خدا انصا ف اور(لوگوں کے ساتھ)نیکی کرنے اور قرابت داروں کو (کچھ)دینے کا حکم کرتا ہے اور بدکاری اور ناشائستہ حرکتوں اور سر کشی کرنے سے منع کرتا ہے۔
النحل،90
اٴجْتَنِبُوْا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ لاَ تَجَسَّسُواولاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً
بہت زیادہ گمان (بدگمانی )سے بچے رہو،ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اورتم میں بعض دوسرے بعض کی غیبت نہ کریں۔
الحجرات،12
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکِذْبَ الَّذِیْنَ لَا یُوٴْ مِنُوْنَ بِاٴَیٰاتِ اللهِ
بہتان تو بس وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے۔
النحل،105
وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ
ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔
المطففین،01
ان کے علاوہ اور دیگر آیات کریمہ ہیں جن میں خدا وندا عالم کی طرف سے امر و نہی بیان ہوئے ہیں۔لہٰذااس وقت ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خدا وند عالم نے امر و نہی کیا ہے ۔
۲۔کیا یہ اوامر و نواہی الزامی ہوتے ہیں یا ارشادی؟
یہ مسئلہ علم اصول فقہ میں تفصیلی طور پر ثابت ہو چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز وجوب پر دلالت کرے اور وجوب میں ظاہر بھی ہو اگر مستحب پر دلالت کرنے والے قرینہ سے خالی ہو، اس کو امر کہا جاتا ہے،اورحکم عقل کے ذریعہ اس کا وجوب ہوتا ہے کیونکہ عبد پر مولا کے حکم کی اطاعت کرنا ضروری ہے اور مولا جس کام کا ارادہ کرلے اس کو انجام دینے کے لئے حرکت کرنا ضروری ہے تاکہ عبودیت و مالکیت کا حق ادا ہو سکے۔
نہی بھی الزام پر دلالت کر نے میں امر کی طرح ہوتی ہے اور حرمت میں ظاہر ہوتی ہے اور جب صیغہ نہی کسی ایسے شخص سے صادر ہو جس کی اطاعت واجب ہے تو اس مولیٰ کی وجوب اطاعت ،و حرمت نا فرمانی عقلی طور پر ثابت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ جس کام سے مولیٰ منع فرمائے اس کو انجام دینا جائز نہیں ہے،اور کیونکر مذکورہ مطلب صحیح نہ ہو ، جبکہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے:
مَا اٴتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَا کُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا
جو تم کو رسول دیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔
الحشر،07
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اٴمْرِہِ اٴنْ تُصِیْبَہم فِتْنَةٌ اٴوْ یُصِیْبَہم عَذَابٌ اَلِیْمٌ
جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ(مبادا) ان پر کوئی مصیبت آپڑے یا ان پر کوئی درد ناک عذاب نازل ہو۔
النور،63
پس ان تما م چیزوں سے ثابت یہ ہوا کہ خدا وند عالم کے اوامر و نواہی مکمل طور پر الزامی (ضروری)ہوتے ہیں ،اور اس میں کسی کو کوئی اختیار و رخصت نہیں ہے۔
۳۔اگر کوئی ان اوامر و نواہی کی مخالفت کرے تو؟
جیسا کہ ثابت ہو چکا ہے کہ خدا وند عالم نے امر ونہی کیا ہے اور ان اوامر و نواہی پر عمل کرنا ضروری ہے نیز ان کی مخالفت جائز نہیں ہے تو کیا اگر کوئی انسان خدا کے امر و نہی کی مخالفت کرے تو کیا اس پر عقوبت و عذاب (مادی معنی میں)ہونا چاہئے یا نہیں ؟یا ان کی مخالفت پر معنوی آثار مرتب ہوں گے؟اس سوال کے جواب میں ہمارے لئے کافی ہے کہ ہم چند قرآنی آیات کا مطالعہ کریں تاکہ خدا وند عالم کی مخالفت کا نتیجہ معلوم ہو سکے۔ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
وَمَنْ یَزِغْ مِنْہم عَنْ اٴمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ
اور ان میں سے جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا اسے ہم (قیامت میں)جہنم کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
سباء،12
قُلْ اِنِّی اٴخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
(اے رسول)تم کہو کہ اگر میں نافرمانی کروں تو بیشک ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
الانعام،15
وَکَاٴَ یِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اٴمْرِ رَبِّھَا وَ رُسُلِہِ فَحَاسَبْنَاھَا حِسَاباً شَدِیْداً وَعَذَّبْنَاہَاعَذَاباً نُکْراً
اور بہت سے بستیوں (والے)نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سر کشی کی تو ہم نے ان کا بڑی سختی سے حساب لیا اور انہیں بُرے عذاب کی سزا دی۔
الطلاق،08
ماَ سَئَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ
آخر تمہیں دوزخ میں کون سی چیز (گھسیٹ )لائی وہ لوگ کہیں گے کہ ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے۔
المدثر،42
فَوَیْلٌ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ َیوْمٍ اَلِیْمٍ
جن لوگوں نے ظلم کیا ان پر درد ناک عذاب سے افسوس ہے۔
الزخرف،65
پس مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خدا وند عالم کے اوامر و نواہی جس کو شریعت اسلام کہا جاتا ہےکی مخالفت پر (ابدی)عذاب ہوتا ہے۔
۴۔کیا خدا وند عالم کے وعدووعید حقیقی ہیں یا صرف لوگوں کو اطاعت پر تحریک کرنے کے لئے ؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا وند کریم کا قرآن مجیدمیں بار با ر اس بات کا ذکر کرنا کہ انسان کو مرنے کے بعد قیامت میں اٹھا یا جائے گا اور اچھے اعمال کرنے والوں کو بہشت میں اور برے اعمال کرنے والوں کو جہنم میں بھیجا جائے گا،یہ وعد و وعید صرف لوگوں کی ترغیب اور تحریک کے لئے ہیں ۔تاکہ لوگ خدا کی اطاعت کریں اور اس کی نا فرمانی نہ کریں جب کہ در حقیقت ان میں کوئی انعام یا عذاب نہیں ہے گویا اس قول کا کہنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ مادی جسم چونکہ موت کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور اس کا دوبارہ اپنی حالت پر پلٹنا محال ہے کیونکہ جو چیز ختم ہو جاتی ہے دوبارہ واپس نہیں پلٹ سکتی ۔لہٰذامادی معنی کے لحاظ سے انعام و جزا اور عذاب کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ گویا یہ وعدہ وعید صرف ایک (دھمکی) ہوتی ہے جس میں حقیقت کچھ نہیں ہوتی۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں(اور خدا وند عالم نے قرآن کریم کو عر بی زبان میں واضح طور پر نازل کیا ہے)اور ہم عربی زبان کو جانتے ہیں اور اس کے مورد استعمال نیز اس کے الفاظ کی دلالت سے بھی با خبر ہیں ۔چنانچہ ہم کوئی ایسا جواز نہیں پاتے جس سے الفاظ کو اس کے ظاہر کے خلاف حمل کریں حالانکہ خلاف ظاہر پر دلالت کرنے والے قرینہ سے خالی ہو۔اور جب قرآن مجید میں استعمال شدہ الفاظ کے ذریعہ کسی کو مخاطب کیا گیا ہو اور اس میں کوئی ایسا قرینہ بھی نہ ہو جس سے اس کی تاویل کی جاسکے تو پھر اس کو اس کے حقیقی معنی میں ہی استعمال کیا جائے گا ،اور ہم یں ذرہ برابر بھی اس کو مجاز ،مبالغہ اور جھوٹے وعدوں پر حمل کرنے کا حق نہیں ہے۔
قارئین کرام ! ہم آپ کے سامنے ایسی آیات قرآنی کو بیان کریں گے جن میں حشر و نشر اور قیامت پر واضح طور پر تائید کی گئی ہے اور ایسی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس میں کسی قسم کی تاویل اور تقیید کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،اور جن میں ذرہ برابر بھی ہیرا پھیری نہیں کی جاسکتی۔چنانچہ ارشاد خدا وندی ہے:
کَمَا بَدَاٴ نَا اٴوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا اٴنَّا کُنّاَ فَاعِلِیْنَ
جس طرح ہم نے (مخلوقات کو)پہلی بار پید ا کیا تھا (اسی طرح)دوبارہ (پیدا )کر چھوڑیں گے(یہ وہ)وعدہ (ہے جس کا کرنا)ہم پر (لازم)ہے اور ہم اسے ضرور کر کے رہیں گے۔
الانبیاء،104
جَعَلَ لَہم اَجْلاً لاَرَیْبَ فِیِہِ
اس نے ان(کے موت)کی ایک میعاد مقرر کر دی ہے جس میں ذرا بھی شک نہیں ۔
الاسراء،99
وَحَشَرْ نَا ہم فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہم اَحْدًا
اور ہم ان سبھوں کو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے۔
الکہف،47
وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَری الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفَقِیْنَ مِمّاَ فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یَا وَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتَابِ لَایُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَلَا کَبِیْرَةً اٴِلَّا اٴحْصَاھَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حاَضِرًا وَ لاَ یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا
اور(لوگوں کے اعمال کی)کتاب (سامنے رکھی جائے گی)تو تم گناہگار وں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا)ہے (دیکھ دیکھ کر)سہم ے ہوئے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ہائے ہماری شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹے ہی گناہ کو بے قلمبند کئے چھوڑتی ہے نہ بڑے گناہ کو اور جو کچھ ان لوگوں نے (دنیامیں) کیا تھا وہ سب (لکھاہوا)موجود پائیں گے اور تیرا پرور دگار کسی پر (ذرہ برابر)ظلم نہیں کرے گا۔
الکہف،49
ثُمَّ اٴِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰ لِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اٴنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تُبْعَثُوْنَ
پھراس کے بعد یقیناً تم سب لوگوں کو( ایک نہ ایک دن) مرنا ہے اس کے بعد قیامت کے دن تم سب کے سب قبروں سے اٹھائے جاوٴگے۔
المومنون،16
اٴَفَحَسِبْتُمْ اٴنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَاٴنَّکُمْ اٴلَیْنَا لاَ تُرْجَعُوْن
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو (یونہی ) بیکار پیدا کیا اور یہ کہ تم ہم ارے حضور لوٹا کر نہیں لائے جاوٴگے۔
المومون،115
رَبَّنَا اٴنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیْہَ اٴنَّ اللهَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ
اے ہمارے پروردگار بیشک تو ایک نہ ایک دن جس کے آنے میں شبہ نہیں لوگوں کو اکٹھا کرے گا(تو ہم پر نظر عنایت رہے)بیشک خدا اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔
آل عمران،09
یَا مَعْشَرَ الْجِنَّ وَالْاٴنْسِ اٴلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ آیَاتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا قَالُوْا شَھِدْنَا عَلٰی اٴنْفُسِنَا وَغَرَّتْہم الْحَیَاةُ الدُّنْیَا
(پھر ہم پوچھیں گے) کہ کیوں اے گروہ جن و انس کیا تمہارے پا س تم ہی میں کے پیغمبر نہیں آئے جو تم سے ہماری آیتیں بیان کریں اور تمہیں تمہارے اس روز (قیامت)کے پیش آنے سے ڈرائیں، وہ سب عرض کریں گے(بیشک آئے تھے)ہم خود اپنے اوپر آپ اپنے (خلاف) گواہی دیتے ہیں (واقعی)ان کو دنیا کی(چند روزہ)زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا۔
الانعام،130
إِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتاً
بیشک فیصلہ کا دن مقرر ہے۔
النباء،17
ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَاِلٰی رَبِّہِ مَآبَا
وہ دن بر حق ہے تو جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی بارگاہ (اپنا) ٹھکانا بنائے۔
النباء،39
وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَھُوَ اٴعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
اور جس شخص نے جیسا کیا ہو اسے اس کا پوراپورا بدلہ مل جائے گا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں وہ اس سے خوب واقف ہے۔
الزمر،70
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالاَ تَاٴ تِیْنَا السَّاعَةُ ،قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتَاٴْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لاَیَعْزَبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوَاتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ وَلاَ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلاَ اٴَکْبَرُ اِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِیْنٍ لَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُوٴلٰئِکَ لَہم مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ
اور کفار کہنے لگے کہ ہم پر تو قیا مت آئے گی ہی نہیں (اے رسول)تم کہہ دو (ہاں)مجھ کو اپنے اس عالم الغیب پروردگار کی قسم ہے جس سے ذرہ برابر(کوئی چیز)نہ آسمان میں چھپی ہوئی ہے اور نہ زمین میں کہ قیامت ضرور آئے گی اور ذرہ سے چھوٹی چیز اور ذرہ سے بڑی (غرض جتنی چیزیں ہیں سب )واضح و روشن کتاب(لوح محفوظ)میں محفوظ ہیں تاکہ جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کو خدا جزاء خیر دے، یھی وہ لوگ ہیں جن کے لئے (گناہوں کی)مغفرت اور (بہت ہی)عزت کی روزی ہے۔
سباء،03
وَاٴَقْسَمُوْا بِاللهِ جَھْدَ اٴیْمَانِہم لاَیَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَمُوْتُ بَلٰی وَعْداً عَلَیْہِ حَقًّا وَلٰکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُوْنَ لِیُبَیِّنَ لَہم الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہَ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااٴَنَّہم کَانُوْاکَاذِبِیْنَ
اور یہ کفار خدا کی جتنی قسمیں ان کے امکان میں تھیں کہا (کر کہتے)ہیں کہ جو شخص مرجاتا ہے پھر اس کو خدا دوبارہ زندہ نہیں کرے گا (اے رسول کہدوکہ)ہاں ضرور ایسا کرے گااس پر اپنے وعدہ کی وفا لازم و ضروری ہے مگر بہتیرے آدمی نہیں جانتے ہیں(دوبارہ زندہ کرنا اس لئے ضروری ہے )کہ جن باتوں پر یہ لوگ جھگڑ ا کرتے ہیں انہیں ان کے سامنے صاف و واضح کر دے گا اور تاکہ کفار یہ سمجھ لیں کہ یہ لوگ (دنیامیں)جھوٹے تھے۔
النحل38،39
وَمَا اٴدْرَاکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَا اٴدْرَاکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لاَ تَمْلِکُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ
اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا ہے پہر تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا چیز ہے، اس دن کوئی شخص کسی کی بھلائی نہ کر سکے گا اور اس دن حکم صرف خدا ہی کا ہوگا۔
الانفطار18،19
پس نتیجہ بحث یہ ہوا :
۱۔خدا وندعالم امر و نہی کرتا ہے۔
۲۔ اس کے امر ونہی الزامی ہوتے ہیں ۔
۳۔ان اوامر و نواہی کی مخالفت موجب عقوبت ہوتی ہے۔
۴۔اسی عقوبت کے حقیقی (مادی)معنی ہیں اور صرف ڈرانے کے لئے نہیں ہیں ۔
لہٰذاہم کہتے ہیں کہ ان تمام مطالب کے پیش نظر قیامت کا ہونا ضروری ہے اور ایک مسلمان پر قیامت کا ایمان رکھنا اس کو ضروری اور قطعی ماننا ضروری ہے۔اور اسی بات پر مذکورہ تما م آیات دلالت کرتی ہیں، کیونکہ انہیں آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ قیامت وہ چیز ہےجس میں کوئی شک نہیں اور یہی(یوم الحق)ہے جس میں ایک ساعت بھی کم و زیادتی نہیں ہو سکتی ،اوراس قیامت کا مقصد حساب و کتاب ہے کیونکہ ہر انسان کو اس کے اعمال کی بنا پر جزا یا سزا دی جائے گی۔انہیں آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ:
لَایُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَلَا کَبِیْرَةً إلّٰا اٴِحْصَاھَا
اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا۔
الکہف،49
انہی آیات میں موجود ہے:
کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضِرًا وَ مَاعَمِلَتْ مِنْ سُوْءٍ
ہر شخص جو کچھ اس نے (دنیامیں ) نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا۔
آل عمران،30
اور انہیں آیات کی بنا پر مجرمین ”مشفقین مما فیہ“دکھائی دیتے ہیں ۔
پس خدا وند عالم کا وعدہٴ قیامت ”حق “ ہے اور خدا سے زیادہ کون صادق الوعد ہو سکتا ہے، اور جولوگ گمان کرتے ہیں:
اٴنْ لَنْ یَبْعَثُوْا
(وہ مبعوث نہیں کئے جائیں گے)اور کہتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی وہ کافر اور جھوٹے ہیں۔
التغابن،07
وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ وَ مَا یُکَذِّبُ بِہِ اِلاَّ کُلَّ مُعْتَدٍاَثِیْمٍ
اس دن کو جھٹلانے والوں کی خرابی ہے جو لوگ روز جزا کو جھٹلاتے ہیں حالانکہ اس کو حد سے نکل جانے والے گنہگار کے سوا کوئی جھٹلاتا۔
المطففین 10تا12
اور جب گفتگو اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے تو ضروری ہے (تاکہ بحث کے تمام پہلوٴں پر گفتگو ہو جائے )کہ ہم غور و فکر اور یقین کے ساتھ یہ بات طے کر یں قیامت کے دن کیا چیزپلٹائی جائے گی؟کیا وہ فقط ”روح“ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ روح کا جسم میں پلٹنا محال ہے؟
یا فقط”جسم“ہے جیسا کہ جناب جبائی اور ان کے پیر و کار افراد کا نظریہ ہے کیونکہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ روح ہی جسم ہے؟یا جسم کے ساتھ روح بھی جیسا کہ اکثر علماء اسلام کا عقیدہ ہے۔
اس موضوع سے متعلق آیاتِ قرآنی کے سیاق سے ذہن میں اس بات کا تبادر ہوتا ہے کہ قیامت میں ایسے زندہ جسم کے ساتھ اٹھا یا جائے گا جو لذتِ نعمت اور دردِ عذا ب درک کر سکے ،یعنی ”جسم کے ساتھ روح“جس میں تمام عضوو تمام صفات و خصوصیات موجود ہوں گے۔قرآن مجید کی مذکورہ آیات اپنی تمام وضاحت کے ساتھ اپنے مقصود و معنی کو بیان کرتی ہیں اور کسی بھی طرح کی تاویل و قید سے منزہ ہے ،اور دلالت کے اعتبار سے بھی اتنی واضح ہیں کہ ان میں کسی طرح کی ہیرا پھیری نہیں کی جا سکتی ۔
ارشاد خدا وندی ہے:
وَیَوْمَ یُحْشَرُ اٴعْدَاءُ اللهِ إِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوزَعُونَ حَتَّی إِذَا مَا جَاءُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاٴبْصَارُہُمْ وَجُلُودُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ وَقَالُوا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوا اٴنطَقَنَا اللهُ الَّذِی اٴنطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَہو خَلَقَکُمْ اٴوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ اٴنْ یَشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلاَاٴبْصَارُکُمْ وَلاَجُلُودُکُمْ وَلَکِنْ ظَنَنْتُمْ اٴنَّ اللهَ لاَیَعْلَمُ کَثِیرًا مِمَّا تَعْمَلُون
”اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف ہکائے جائیں گے تو یہ لوگ ترتیب وار کھڑے کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب سب کے سب جہنم کے پاس جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے( گوشت پوست) ان کے خلاف ان کے مقابلہ میں ان کی کارستانیوں کی گواہی دیں گے اور یہ لوگ اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہم ارے خلاف کیوں گواہی دی؟!! تو وہ جواب دیں گے کہ جس خدا نے ہرچیز کو گویا کیا، اس نے ہم کو بھی (اپنے قدرت سے)گویا کیا، اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور (آخر)اسی کی طرف لوٹ کرجاوٴ گے اور(تمہاری تو یہ حالت تھی کہ)تم لوگ اس خیال سے (اپنے گناہوں کی)پردا داری بھی تو نہیں کرتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے اعضاء تمہارے بر خلاف گواہی دیں گے بلکہ تم اس خیال میں (پھولے ہو)تھے کہ خدا کو تمہارے بہت سے کاموں کی خبر ہی نہیں۔
فصلت 19 تا22
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اَفْوَاھِہم وَ تُکَلِّمُنَا اَیْدِیْہم وَ تَشْھَدُ اَرْجُلُہم بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ
آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور جو(جو)کارستانیاں یہ لوگ (دنیا میں) کر رہے تھے خود ان کے ہاتھ ہم یں بتا دیں گے اور ان کے پاوٴں گواہی دیں گے۔
یٰس،65
إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہم نَاراً کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہم بَدَّلْنٰہم جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوْا الْعَذَابَ
(یاد رہے)کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا انہیں ضرورعنقریب جہنم کی آگ میں جھونک دیں گے (اورجب ان کی کھالیں (جل ) جائیں گی تو ہم ان کے لئے دوسری کہالیں بدل کر پیدا کر دیں گے تاکہ وہ اچھی طرح عذاب کا مزہ چکھیں۔
النساء،56
اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہ بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بِنَانَہ
کیا انسان یہ خیا ل کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو بو سیدہ ہونے کے بعد (جمع نہ کریں گے ہاں ضرور کریں گے) ہم اس پر قادر ہیں کہ ہم اس کی پور پور درست کریں۔
القیامۃ 03،04
قارئین کرام ! مذکورہ آیات کا غور و فکر کے ساتھ تلاوت کرنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ قیامت میں انسان کو ”جسم و روح“کے ساتھ اٹھایا جائے گا کیونکہ آنکھیں، کان، کھال، منہ، ہاتھ، پیر، ہڈی اور درد عذاب کا احسا س سب کچھ دنیاوی طرح سے ہوگا، اوران تما م چیزوں کے پیش نظر شک و تاویلات کی کوئی گنجائش باقی نہیں ر ہ جا تی۔
……….
https://erfan.ir/urdu

 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزه علمیه قائم چیذر تہران کے مؤسس آیت اللہ ہاشمی علیا نے اپنے ہفتہ وار درس اخلاق میں، صحیفہ سجادیہ کی آٹھویں دعا کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ صبر، انسانوں کیلئے ایک الہٰی امتحان ہے اور انسان کی ترقی و پیشرفت کی راہ میں ایک اہم کردار مصیبتوں میں صبر کا ہے۔ انسان عبادات، اطاعت اور ترک گناہ میں صبر کا مظاہرہ کر کے اپنے لئے ایک اہم مقام حاصل کر سکتا ہے۔ صبر مختلف معاملات میں الٰہی امتحان ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسان مذکورہ تین مراحل میں، اس طرح سے عمل کرے کہ وہ بارگاہ خداوندی میں سرخرو ہو اور مکمل نمبر لے، اس صورت میں وہ قیامت کے دن حساب وکتاب کے بغیر بہشت میں داخل ہو جائے گا۔

آیت اللہ ہاشمی علیا نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اگر انسان کی عقل اور درک و تفکر میں کوئی کمزوری نہ ہو تو انسان اپنی سعادت کی راہ خود پیدا کرتا ہے، کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو انسان جہل و جہالت کا شکار ہو گا اور نتیجتاً انسان کا دل سخت ہو جائے گا۔

انہوں روایت کی رو سے انسانی زندگی میں صبر کی اہمیت اور کردار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابی بصیر امام صادق علیہ السّلام سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: «إِنَّ اَلْحُرَّ حُرٌّ عَلَی جَمِیعِ أَحْوَالِهِ إِنْ نَابَتْهُ نَائِبَةٌ صَبَرَ لَهَا وَ إِنْ تَدَاکَّتْ عَلَیْهِ اَلْمَصَائِبُ لَمْ تَکْسِرْهُ وَ إِنْ أُسِرَ وَ قُهِرَ وَ اُسْتُبْدِلَ بِالْیُسْرِ عُسْراً کَمَا کَانَ یُوسُفُ اَلصِّدِّیقُ اَلْأَمِینُ...؛ آزاد انسان، تمام حالات میں آزاد ہے، اگر اس پر کوئی مصیبت آئے تو صبر کا مظاہرہ کرے اور اگر مصیبت اسے چاروں طرف سے گھیر بھی لے تو اسے شکست دے نہ پائے، اگرچہ حضرت یوسف علیہ السّلام کی مانند اسیر اور مغلوب ہو اور سختیاں آسائشوں کی جگہ لیں۔

آیت اللہ ہاشمی علیا نے مزید کہا کہ حضرت یوسف علیہ السّلام نے غلامی کے دوران اپنے اوپر آنے والی تمام سختیوں اور الٰہی امتحانات میں صبر کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اس کی پاداش میں خدا نے ستمگر اور سرکش مالک کو حضرت یوسف علیہ السّلام کا غلام بنا دیا۔ حقیقت میں واقعی حر وہ ہے جو تمام امور میں آزاد ہو یعنی بلاؤں میں آزاد ہو اور شیطان کا اسیر نہ ہو اور گناہ کے مقابلے میں آزاد ہو اور گناہ اور فانی دنیا کا اسیر نہ ہو۔

حوزہ علمیہ تہران کے استادِ اخلاق نے رضائے الٰہی کے حصول کے طریقہء کار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سید الساجدین علیہ السّلام صحیفہ سجادیہ کی آٹھویں نورانی دعا میں، خدا کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی پناہ مانگتے ہیں، لہٰذا انسان کو صبر و استقامت میں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ وعظ و نصیحت سنے، اچھے لوگوں کو دوست بنائے، خدا کی قرب حاصل کرے اور دنیا اور اس کی جلد ختم ہونے والی لذتوں کا بندہ نہ بنے، تاکہ سعادت ابدی کا مستحق قرار پائے۔

شیعہ نیوز: یمن میں حکمفرما انصاراللہ تحریک نے گذشتہ چند ہفتوں سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ اس دوران یمن نیوی دسیوں ایسی تجارتی کشتیوں کو ضبط یا انہیں میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنا چکی ہے جو کسی نہ کسی طرح اسرائیل سے مربوط تھیں۔ اس میدان میں انصاراللہ یمن کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سب سے بڑے حامی امریکہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے عالمی سطح پر فوجی اتحاد تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ انصاراللہ یمن کی جانب سے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں اسرائیلی اور اسرائیل کیلئے تجارتی سامان لے کر جانے والی کشتیوں پر پابندی کے باعث اسرائیل کی ایلات بندرگاہ مکمل طور پر بند ہو چکی ہے اور اسے روزانہ کئی ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکہ اور چند مغربی ممالک کی جانب سے انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کیلئے یکطرفہ، دو طرفہ اور چند طرفہ گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی اہمیت اس وقت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ انصاراللہ یمن کی کاروائیوں کے باعث میرسک اور ہاپاگ لویڈ جیسی بڑی کمپنیاں بھی بحیرہ احمر میں تجارتی سرگرمیاں روک دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اس بارے میں جو چیز قابل توجہ ہے اور اسے بیان کرنا ضروری ہے وہ انصاراللہ یمن کے بارے میں شائع ہونے والی خبریں ہیں۔ بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی سرگرمیوں سے لے کر غاصب صیہونی رژیم کی ایلات بندرگاہ پر اس کے میزائل اور ڈرون حملوں تک اور چالیس ممالک کے ہمراہ امریکہ کا انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کی خبر سے لے کر یمن میں انصاراللہ کی مخالف نگران کونسل کی جانب سے تل ابیب سے خود کو تسلیم کرنے کی درخواست تک۔

 

یمن میں انصاراللہ کے مخالف دھڑے نگران کونسل نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو خود کو تسلیم کرنے کے عوض بحیرہ احمر میں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ان تمام سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور یمن میں انصاراللہ کے علیحدگی پسند مخالفین مستقبل میں اپنے مفادات خطرے میں پڑ جانے کے خوف سے ہاتھ پاوں مارنے میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انصاراللہ یمن نے علاقائی سطح پر بین الاقوامی پانیوں میں موجودگی برقرار رکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ یمن میں انارکی اور بے امنی کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور اب یمن کی مسلح افواج کی نگاہیں ملکی امور سے بالاتر ہو کر علاقائی امور پر لگی ہیں۔

 

گذشتہ کچھ عرصے کے دوران انصاراللہ یمن کی جانب سے مختلف میدانوں میں فعالیت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس کی پوشیدہ توانائیاں اور صلاحیتیں سب کیلئے واضح ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں جارح طاقتوں کے دل خوف اور وحشت سے پر ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے انصاراللہ یمن خود کو علاقائی طاقت کے طور پر منوا کر موجودہ حالات تبدیل کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کا مدمقابل نہ صرف اس حقیقت کو قبول کر چکا ہے بلکہ اپنی پوزیشن اور مفادات کھو دینے کے خوف میں بھی مبتلا ہو چکا ہے۔ اس خوف کی ایک وجہ انصاراللہ یمن کی جانب سے ملک کے اندر اور علاقائی سطح پر نئی جنگی پالیسی اختیار کئے جانے کا امکان بھی ہے۔ لہذا امریکی طاقتوں سمیت مغربی ممالک کی تمام تر کوشش فوجی اقدامات کے ذریعے انصاراللہ یمن کو مطلوبہ اہداف تک پہنچنے سے روکنا ہے۔

 

امریکہ اور اس کی اتحادی مغربی طاقتیں مختلف قسم کے ہتھکنڈے بروئے کار لا کر ایسے اقدامات کرنے کے درپے ہیں جن کے ذریعے مستقبل قریب میں انصاراللہ یمن کے اچانک حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی طرح ان کا ایک اور مقصد یمن کیلئے میدان خالی نہ چھوڑنا ہے اور ممکنہ تلخ نتائج سے بچنا ہے۔ جس چیز نے انصاراللہ یمن کو جارح قوتوں، مغربی طاقتوں، علیحدگی پسند عناصر اور تل ابیب کیلئے ڈراونا خواب بنا دیا ہے اور وہ اس سے مقابلے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، وہ توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں جنہیں اب تک انصاراللہ نے ظاہر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے اندرونی سطح پر کچھ حد تک کشمکش کم ہونے کے نتیجے میں انصاراللہ یمن نے بھرپور انداز میں علاقائی سطح پر سرگرم ہو کر اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔

امریکہ میں حکمفرما عیسائی صیہونی ہر گز اسرائیل پر حکمفرما صیہونیوں سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے 7 اکتوبر کے روز طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد سے ہی اپنی نسل پرستانہ اور انسان مخالف مجرمانہ خصلت کا اظہار کر دیا تھا اور بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس پوری طرح نابود ہو جائے اور تمام اسرائیلی یرغمالی آزاد کروا لئے جائیں گے۔ دوسری طرف گذشتہ 18 برس سے شدید ترین محاصرے کا شکار غزہ کی پٹی کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کی انتقامی کاروائی اور اس میں بروئے کار لائی گئی انتہائی درجہ بربریت اور عام شہریوں کے قتل عام کو مسلسل 77 روز گزر جانے کے باوجود اسرائیل کچھ حاصل نہیں کر پایا۔
 
اب تک غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کو جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ بیگناہ شہریوں کی قتل و غارت اور وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہے۔ غزہ میں ایک ساتھ دو جنگیں چل رہی ہیں۔ اصلی جنگ صیہونیوں کی نگاہ سے غزہ کی عوام کے خلاف جاری ہے جبکہ بظاہر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی جنگ اسلامی مزاحمت کے خلاف ہے۔ غزہ کی عوام کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ حق طلب ہیں، اپنی غصب شدہ سرزمین واپس چاہتے ہیں اور اس راستے میں استقامت اور مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی بے مثال مظلومیت کے باوجود عالمی سطح پر ایک ایسا معجزہ کر دکھایا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف دنیا بھر کی عوام ان پر جاری ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں بلکہ عرب حکومتیں بھی چیلنج کا شکار ہو گئی ہیں۔
 
عالمی سطح پر جاری عوامی احتجاج نے وائٹ ہاوس کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے جو غزہ جنگ کو شعلہ ور کرنے کے علاوہ روز بروز اس کی شدت میں اضافے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکی حکمران ابھی سے ہی خود کو آئندہ الیکشن میں شکست خوردہ دیکھ رہے ہیں اور خود اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ عالمی سطح پر گوشہ گیری اور اجتماعی نفرت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ امریکی حکمران غزہ میں اور دنیا کے دیگر حصوں میں وسیع قتل عام کے منصوبے رکھتے ہیں لیکن وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں غزہ کی مکمل نابودی پر بات ختم نہیں ہو گی اور اس کے بعد اصل مسئلہ مغربی نظریات کا کھوکھلا پن اور جھوٹے نعروں کی حقیقت فاش ہو جانے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ وہ اسے مغربی ایشیا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی اسٹریٹجک شکست سمجھتے ہیں۔
 
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جک سیلیوان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا تاکہ بنجمن نیتن یاہو کے سامنے اپنی جنگ پھیلانے کی پیاس پر تاکید کے ساتھ ساتھ اسے اس بات سے بھی خبردار کر سکے کہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں کارکردگی تقریباً صفر ہے جبکہ غزہ میں جاری نسل کشی امریکہ کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ لہذا اس نے بنجمن نیتن یاہو کو دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے اور وہ اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ نیتن یاہو جو اپنی محدود سیاسی بقا کیلئے جنگ جاری رہنے کو ضروری سمجھتا ہے جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کیا تو حکومتی اتحاد ٹوٹ جائے گا۔
 
بنجمن نیتن یاہو یہ بھی جانتا ہے کہ اگر وہ امریکہ کی جانب سے پیش کردہ نام نہاد دو ریاستی راہ حل قبول کرتا ہے تو اس کا مطلب اسرائیل میں تمام دائیں بازو کی اور شدت پسند جماعتوں کی سیاسی موت ہو گا۔ اگرچہ یہ دو ریاستی راہ حل محض دھوکہ اور فریب ہے اور اس کا واحد مقصد عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور دنیا کے دیگر ممالک کو فریب دینا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت شدت پسندی اور ہر قسم کی فلسطینی ریاست کی نفی اور غزہ میں مکمل نسل کشی پر اصرار جیسی بنیادوں پر استوار ہے۔ لہذا جک سیلیوان کے مطالبات نے اسرائیلی حکمرانوں کو ایک تضاد کا شکار کر دیا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی، امریکی، فرانسیسی اور جرمن کمانڈوز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ صیہونی رژیم کے اعلان کردہ جنگی مقاصد سے کوئی مقصد اب تک حاصل نہیں ہو پایا۔
 
دوسری طرف عالمی رائے عامہ میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی اداروں اور بین الاقوامی قوانین کے سامنے صیہونی رژیم اور مغربی حکمرانوں کی عزت بھی داو پر لگتی جا رہی ہے۔ اگرچہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صیہونی رژیم کی لاجسٹک سپورٹ اپنے ذمے لے رکھی ہے لیکن بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی مزاحمتی کاروائیوں نے صیہونی کابینہ سے طویل جنگ کی امید چھین لی ہے۔ لہذا ان دنوں مغربی حکمرانوں اور صیہونی رژیم کی جانب سے ایک اور جنگ بندی کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس جنگ بندی کا مقصد تازہ دم ہونا اور عالمی سطح پر غم و غصے کی شدت کم کرنا ہے۔ غزہ جنگ امریکہ کو بند گلی اور اسرائیل کو تضاد کا شکار کر چکی ہے۔ چاہے وہ جنگ بند کر دیں یا چند ہفتوں کیلئے مزید جاری رکھیں جس دلدل میں انہوں نے قدم رکھا ہے اس سے نکلنا ممکن نہیں۔
تحریر: ہادی محمدی
 
 
 

ایران کی نیشنل پیٹرولیم ڈسٹری بیوشن کمپنی کے سی ای او جعفر سالاری نسب نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں ملک میں فیول اسٹیشنوں کی تازہ ترین حالت کے بارے میں کہا کہ پہلے مرحلے میں ملک کے تمام پیٹرول اسٹیشنوں کو دستی طور پر فعال کردیا گيا تھا تاکہ ایندھن کی فراہمی میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا مرحلہ فیول کارڈ کو بحال کرنا تھا اور پیر کی رات تک ٪ 40 پیٹرول اسٹیشنوں کا سسٹم بحال کردیا گیا تھا۔

نیشنل پیٹرولیم ڈسٹری بیوشن کمپنی کے سی ای او نے یہ بات زور دے کر کہی کہ آج رات تک تمام فیول اسٹیشن کارڈ سسٹم کے ذریعے دوبارہ کام کرنا شروع کردیں گے۔