سلیمانی

سلیمانی

 
امریکہ اور برطانیہ نے گذشتہ ہفتے جمعہ کے دن یمن میں 16 مختلف مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جن میں الحدیدہ ایئرپورٹ، کہلان بیس کیمپ، الدیلمی فوجی اڈہ اور زبید کے کچھ علاقے شامل تھے۔ انہوں نے اپنے ان جارحانہ اقدامات کا مقصد یمن کو آبنائے باب المندب اور بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں کو نشانہ بنانے سے روکنا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن کے ایک اعلی سطحی رہنما نے دعوی کیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی جارحیت کے جواب کے طور پر بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں امریکہ کی جنگی کشتیوں پر میزائل حملوں کی صورت میں دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اس جوابی کاروائی کا مقصد دشمن کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کا فیصلہ اپنی جگہ باقی ہے اور ہمارے پختہ عزم میں ذرہ برابر تزلزل پیدا نہیں ہوا۔
 
صنعاء میں باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ یمن فوج ایک ہفتہ پہلے سے امریکہ کے ممکنہ جارحانہ اقدامات کا انتظار کر رہی تھی اور اس کیلئے پوری طرح تیار تھی۔ یہ حملے شاید اس وجہ سے ایک ہفتہ دیر سے انجام پائے کہ امریکہ اس سے پہلے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یمن کے خلاف قرارداد منظور کروانا چاہتا تھا۔ باخبر ذرائع کے بقول یمن فوج کا خیال تھا کہ شاید امریکہ فوجی تنصیبات اور انفرااسٹرکچر کو فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کے علاوہ زمینی کاروائی بھی کرے گا اور یمن میں اپنی پٹھو ملیشیا یا امریکی اور برطانوی کمانڈوز کی مدد سے یہ آپریشن انجام دے گا۔ اسی طرح صنعاء حکومت کی مخالف ملیشیا جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کٹھ پتلی ہے، نے بھی یمن فوج سے ٹکر لینے سے پرہیز کیا ہے کیونکہ وہ یمن میں دوبارہ فوجی جھڑپیں شروع ہو جانے اور اس کے نتیجے میں تناو پیدا ہونے سے پریشان ہے۔
 
یوں محسوس ہوتا ہے کہ صنعاء حکومت نے اس ملیشیا کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور اس انتظار میں ہے کہ جیسے ہی ان کی جانب سے 2022ء میں اسٹاک ہوم جنگ بندی معاہدے کی کوئی خلاف ورزی سامنے آئے تو ان کے خلاف بڑا فوجی آپریشن شروع کر دے۔ ایسے حالات میں امریکی حکمرانوں نے یمن سے مقابلہ کرنے کیلئے اس ملک کو فراہم کی جانے والی اقوام متحدہ کی غذائی امداد بھی رکوا دی ہے۔ حتی بعض ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق یمن کے مختلف فریقین کے درمیان مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو گئے ہیں جن کے بارے میں توقع کی جا رہی تھی کہ سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں انجام پائیں گے۔ یمن کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے لیڈر کنگ نے بھی انصاراللہ سے ہر قسم کے معاہدے کو غزہ جنگ کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کرنے سے مشروط کیا ہے۔
 
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اب تک انصاراللہ یمن کے ساتھ انجام پانے والے معاہدوں کا پابند رہنے کا فیصلہ کیا ہے لہذا انہوں نے بحیرہ احمر میں امریکی فوجی اتحاد میں شمولیت سے بھی گریز کیا ہے۔ حتی یورپی ممالک بھی امریکہ کی سربراہی میں یمن مخالف فوجی اتحاد میں شامل ہونے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اب تک یمن کے خلاف ایک مضبوط محاذ تشکیل دینے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے اور اسے اکیلے ہی یمن کے خلاف فوجی مہم جوئی کا آغاز کرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف یمن پر جارحیت کے تین دنوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حملے امریکہ اور برطانیہ کے مدنظر اہداف پورا نہیں کر پائے ہیں۔ یمن فوج جسے گذشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب کے وسیع فضائی حملوں کا تجربہ ہو چکا ہے، ایسے حملوں سے بچنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
 
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں یمن کے بارے میں امریکہ کی کمزور انٹیلی جنس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک آگاہ ذریعے کے بقول لکھا کہ یمنیوں کی بہت سی فوجی صلاحیتیں 12 جنوری کے فضائی حملوں کے بعد جوں کی توں باقی ہیں۔ البتہ مغربی ذرائع ابلاغ نے یمن پر امریکہ اور برطانیہ کے فضائی حملوں کی ناکامی کے ردعمل میں ایران کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اور یہ تمسخر آمیز دعوی کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکم پر انصاراللہ یمن اسرائیل مخالف اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے۔ یہ دعوی ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یمن اور خطے کے حالات انتہائی درجہ پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی یمن پر حالیہ جارحیت ان کے اس موقف سے مکمل تضاد رکھتی ہے جس میں وہ دعوی کرتے تھے کہ غزہ جنگ کو علاقائی سطح پر پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 
اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کی شدت پسندانہ پالیسیوں کی واحد وجہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ہے۔ امریکہ غزہ میں عام شہریوں کا قتل عام روکنے کیلئے غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالنا نہیں چاہتا۔ امریکہ اگرچہ بظاہر یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ غزہ جنگ روکنے کا حامی ہے لیکن عمل کے میدان میں غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کر کے اسے اب تک 24 ہزار سے زائد بیگناہ فلسطینیوں کے قتل عام کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور اب یمن کے خلاف جارحانہ اقدامات انجام دے کر پورے خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیل رہا ہے۔ امریکی حکمران توقع رکھتے ہیں کہ پورا خطہ خاموش تماشائی بنا رہے گا اور غزہ میں مسلمانوں کی بھرپور نسل کشی کا تماشہ دیکھتا رہے گا جبکہ دوسری طرف وہ صیہونی رژیم کی بھرپور مالی، فوجی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔ یہ متضاد رویہ خطے کی موجودہ صورتحال کا اصل سبب ہے۔

تحریر: علی احمدی

غزہ کے خلاف صیہونی جارحیت چوتھے ماہ میں داخل ہو چکی ہے جبکہ دیگر محاذ بھی گرم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میں سے یمن اور بحیرہ احمر کا محاذ اپنی خاص اسٹریٹجک اہمیت کے باعث عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ گذشتہ ایک ماہ سے امریکہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ ان دنوں امریکی حکومت پر اندر سے یہ دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اقدامات انجام دے تاکہ اس سمندری علاقے کی سکیورٹی بحال ہو سکے۔ لہذا امریکی حکام ان دنوں حوثی مجاہدین کے حملے روکنے کیلئے مناسب راہ حل کی تلاش میں مصروف ہیں۔ بی بی سی کے مطابق جو بائیڈن نے حال ہی میں بحیرہ احمر میں تجارتی کشتیوں کو درپیش خطرات سے مقابلہ کرنے کیلئے مسلح افواج کے پاس موجود آپشنز پر غور کرنے کیلئے اعلی سطحی فوجی کمانڈرز سے ایک میٹنگ منعقد کی ہے۔
 
رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس نے امریکی فوج کی جانب سے انصاراللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اخبار پولیٹیکو نے بھی اعلان کیا ہے کہ جو بائیڈن ایسے منظرناموں کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں جو واشنگٹن کو مشرق وسطی کی جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔ پینٹاگون کے ترجمان جنرل پیٹ رائیڈر نے حوثی مجاہدین کے حملوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کا ملک خطے میں تعینات فورسز کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات انجام دے گا اور اپنے اتحادیوں کی مدد سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں انصاراللہ کے حملوں کی روک تھام کرے گا۔ ایک مغربی سفارتکار کے بقول امریکی حکام نے بدھ کے دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین سے بند کمرے میں میٹنگ کی اور انہیں بتایا کہ وہ بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کے حملوں کی مذمت پر مشتمل قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
 
امریکی حکام انصاراللہ کی فوجی کاروائیوں کا جواب دینے میں تردد کا شکار ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور بحیرہ احمر اور خلیج فارس میں تناو کی شدت میں ممکنہ اضافے سے شدید پریشان ہیں۔ امریکہ مختلف ممالک کو ایک اتحاد کی صورت میں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا تھا تاکہ ان کی مدد سے مشترکہ طور پر انصاراللہ یمن کو بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں پر حملوں سے روک سکے لیکن اکثر ممالک نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس وقت صرف برطانیہ واشنگٹن کا ساتھ دے رہا ہے۔ انتہائی محدود تعداد میں ممالک کا ساتھ دینے کے باعث یمن کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کیلئے امریکہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ لہذا بائیڈن کابینہ کے اجلاس میں یہ طے پایا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سے مدد لئے بغیر اکیلے ہی انصاراللہ کا مقابلہ کرے۔
 
امریکہ کی جانب سے انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی کاروائی کیلئے سرگرمیاں ایسے وقت انجام پا رہی ہیں جب حوثی مجاہدین نام نہاد امریکی اتحاد میں شامل ممالک کو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ ہفتے کے دن ایک یمنی رہنما نے وارننگ دی کہ جو ملک بھی بحیرہ احمر میں امریکی اتحاد کا حصہ بنے گا وہ سمندر میں سکیورٹی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ انصاراللہ یمن کے ترجمان محمد عبدالسلام نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ یمنی عوام دھمکی آمیز لہجہ ہر گز برداشت نہیں کرتے۔ گذشتہ تین ماہ کے دوران یمنی رہنماوں نے ثابت کیا ہے کہ انہیں امریکی اور اسرائیلی حکام کی دھمکیوں کا کوئی خوف نہیں ہے لہذا وہ جب چاہتے ہیں بحیرہ احمر میں امریکی اور اسرائیلی کشتیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ حال ہی میں بحیرہ احمر میں امریکی جنگی کشتی کے قریب یمن کی ایک خودکش کشتی دھماکے سے پھٹ گئی۔ یہ انصاراللہ یمن کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو وارننگ تھی۔
 
حال ہی میں ڈنمارک کی کمپنی میرسک نے اعلان کیا ہے کہ اس نے بحیرہ احمر میں کشتیوں کی آمدورفت عارضی طور پر بند کر دی ہے۔ اگرچہ امریکہ کا دعوی ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں سکیورٹی برقرار کر سکتا ہے لیکن دیگر ممالک اس پر اعتماد نہیں کرتے لہذا انہوں نے بحیرہ احمر میں امریکی اتحاد میں شامل ہونے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ آبنائے باب المندب پوری طرح حوثی مجاہدین کے کنٹرول میں ہے اور امریکہ کی جانب سے کسی بھی فوجی کاروائی کی صورت میں وہ اس آبنائے کو مکمل طور پر بند کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو شدید اقتصادی دھچکہ لگے گا۔ اسرائیلی چینل 12 نے اعلان کیا ہے کہ نیتن یاہو جنگ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اپنی کابینہ کے کچھ دفتر بند کرنا چاہتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر جنگ کا دائرہ بحیرہ احمر تک پھیلتا ہے تو امریکہ اور اسرائیل کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
 
اس وقت بحیرہ احمر پوری طرح انصاراللہ یمن کے کنٹرول میں ہے جبکہ اسے ملک کے اندر یمنی عوام کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے جس کے باعث وہ امریکہ سے ٹکر لینے کیلئے پرعزم ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ممکن ہے امریکہ اسرائیل کی حمایت کیلئے محدود پیمانے پر انصاراللہ کے خلاف فوجی کاروائی کرے۔ ایسی صورت میں بھی اس کے انتہائی نقصان دہ نتائج ظاہر ہوں گے۔ ایسی کاروائیاں نہ صرف انصاراللہ کی جانب سے پسپائی اختیار کرنے کا باعث نہیں بنے گی بلکہ ان کی جانب سے اسرائیلی کشتیوں اور اسرائیل پر حملوں کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ تناو کی شدت میں اضافے کے باعث بحیرہ احمر اور قریبی سمندرے علاقے کی سکیورٹی متزلزل ہو جائے گی اور مغربی تجارت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ بحیرہ احمر اس وقت ایک بارود کی مانند ہے جسے چھوٹی سے چنگاری بڑے دھماکے میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ آیا امریکہ اسرائیلی مفادات کی خاطر بحیرہ احمر میں خودکشی کرنے پر تیار ہو گا یا نہیں؟
 
 
تحریر: علی احمدی

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ جب مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصی کے دفاع کا تذکرہ ہوتا ہے تو شہید قاسم سلیمانی کا نام زبان پر آتا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور گفتار سے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

عراقی مرکز مطالعات کے سربراہ اور تجزیہ کار محمد صادق الہاشمی نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے شہید قاسم سلیمانی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے مہر نیوز کو اپنے انٹرویو میں کہا کہ شہید حاج قاسم سلیمانی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ہدایات کی روشنی میں فلسطین کے دفاع کے لئے قدم بڑھایا اور فلسطین میں سیاسی اور مقاومتی استحکام کے لئے اقدامات کئے۔

انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی نے مقاومت کے اندر شہادت کا جذبہ پیدا کیا اور مقاومتی تنظیموں کے درمیان رابطہ پل کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے لبنان اور خطے کے دیگر ممالک میں امریکہ، اسرائیل اور داعش جیسی تکفیری تنظیموں کے خلاف جنگ لڑی۔

فلسطینی اسلامی مقاومت کی کامیابیوں میں شہید سلیمانی کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فلسطین میں ملنے والی کامیابیوں میں شہید سلیمانی کا کردار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ انہوں نے فلسطینی مقاومت کو سرنگوں اور مختلف انواع کے ہتھیاروں سے لیس کیا۔ فلسطینی مجاہدین کی تربیت کی۔ انہیں ثابت قدم رہنا سکھایا۔

مسئلہ فلسطین کے دفاع میں شہید سلیمانی کی خصوصی صفات کے بارے میں عراقی تجزیہ کار نے کہا کہ سب سے پہلا اور بڑا کام انہوں نے فلسطینیوں کو سیاسی طور پر متحد کیا اس کے بعد مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے مغربی اور عرب ممالک مسئلہ فسلطین کو دو ریاستی حل کے فارمولے کی نذر کرنا چاہتے تھے۔ شہید سلیمانی نے اس کو فراموشی کے سپرد ہونے سے بچاتے ہوئے عالم اسلام میں اہمیت کا اجاگر کیا۔

شہید سلیمانی نے فلسطینی مقاومت کو پتھر کے ذریعے مقابلہ کرنے کے دور سے نکال کر جدید ترین ہتھیاروں کے دور میں پہنچادیا۔ ان کی کوششوں کی مرہون منت سے آج فلسطینی تنظیموں نے طوفان الاقصی جیسی تاریخی کارروائی کرنے کی جرائت کی۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین.

میرے اعتبار سے تو یہ جلسہ یہیں تک کافی ہے۔ واقعی ہم نے بہت استفادہ کیا اشعار سے بھی، مضمون سے بھی، مدح کے کلام سے بھی، انداز، آواز اور ہر چیز سے۔ سب سے پہلے صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کی عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حرمت کا واسطہ دیتا ہوں کہ ہمارے اندر اس عظیم ہستی کی معرفت میں روز افزوں اضافہ کرے۔ اسی طرح آپ کے فرزند ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے فاطمی جہاد بنحو احسن انجام دیا اور کامیابی سے آگے بڑھے۔ ہمارے عزیز الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت کا دن بھی ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم نے جو فضل و کرم خاندان پیغمبر پر کیا ہے، خاندان پیغمبر کے اس حقیقی پیرو کی روح پر بھی نازل فرمائے۔ ہمیں بھی ان سے ملحق کرے اور ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔

میں نے 'تشریح و بیان کے جہاد' کے بارے میں کچھ نکات آمادہ کیے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس نشست میں وہ افراد تشریف فرما ہیں جو تشریح و بیان کے جہاد کے نقیب بن سکتے ہیں۔ اہل بیت کے مداحوں اور مکتب اہل بیت کی مدح سرائی کرنے والوں کی نشست مجاہدانہ تشریح و بیان کی نشست ہے۔ آج میرا موضوع گفتگو یہی ہے۔ دامن وقت میں جتنی گنجائش رہی اسی مقدار میں۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ممتاز اور نمایاں خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت فاطمہ زہرا کا تشریح و بیان کا جہاد ہے۔ آپ نے دو بڑے منفرد اور معروف خطبے ارشاد فرمائے۔ ان دو میں سے ایک تو آپ کا وہی معروف خطبہ ہے: «اَلحَمدُ لِلَّهِ عَلىٰ‌ ما اَنعَمَ وَ لہ الشُّکرُ عَلىٰ ما اَلھم»(۲) اصحاب کے درمیان یہ خطبہ دیا۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ نہج البلاغہ کے اعلی ترین خطبات کے ہم پلہ ہے۔ جو ماہرین بلاغت ہیں، جنہیں اس کا ادراک ہے، انہوں نے یہ رائے قائم کی ہے۔ حقائق و معارف سے مملو ہے۔ آپ کا ایک اور معروف خطبہ وہ ہے جو آپ نے مہاجر و انصار خواتین کو مخاطب کرکے دیا۔اَصبَحتُ وَ اللہِ عائِفۃ لِدُنیاکُم قالِیۃ لِرِجالِکُم»(۳) یا عائِفۃ لِدُنیاکُنَّ قَالِیۃً لِرِجالِکُنَّ» (۴) یہ دونوں خطبے رحلت پیغمبر کے بعد کی مختصر سی مدت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے جہاد تشریح و بیان سے عبارت ہیں۔

آپ نے صحابہ کے درمیان جو خطبہ دیا اس کے بارے میں مرحوم مجلسی رضوان اللہ علیہ نے مختلف سلسلہ رواۃ کا ذکر کیا اور کئی سندیں پیش کی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دیگر علما نے معتبر اور اہم سند بیان کی ہیں۔ ابن ابی الحدید اس خطبے کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں شیعہ کتب اور شیعہ علما سے یہ چیزیں نقل نہیں کر رہا ہوں۔ میں اہل سنت راویوں کے حوالے سے نقل کر رہا ہوں۔ (5) وہ بیان کرتے ہیں کہ کس کے حوالے سے اس خطبے کو نقل کیا ہے اور وہ شخص 'ثقہ' یعنی معتبر راوی ہے۔ ساتھ ہی اس کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں۔ وہ افراد کہ اس خطبے کی روایت جن کے ذریعے نقل ہوئي ہے چند لوگ ہیں۔ ان میں ایک جناب عائشہ ہیں۔ عائشہ حضرت زہرا کے خطبہ فدکیہ کے نقل کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔جناب زید ابن علی سلام اللہ علیہ و علی ابیہ سے منقول ہے کہ میں نے دیکھا کہ آل ابی طالب کے بزرگ افراد اسے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے تھے اور اپنی اولاد کو  اس کے بارے میں بتاتے تھے تاکہ تاریخ میں یہ خطبہ محفوظ رہے۔ آپ کی عبارت اس طرح ہے: رَاَیتُ مَشایِخَ آلِ اَبی طالِبٍ یَروونہ عَن آبائہِم وَ یُعَلِّمونہُ اَبنائہُم۔ (۶) یعنی یہ خطبہ اس قدر معتبر ہے، اس درجے تک ہے۔ اس خطبے میں مضمون کے اعتبار سے فکری نظم اور محکم دلائل کے ساتھ ساتھ الفاظ کا استحکام، مایہ ناز زبان اور خاص ادبی کشش بھی شامل ہو گئی ہے۔ آپ ذرا تصور کیجئے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اٹھارہ سال کی خاتون، بیس سال کی خاتون، آپ کی حد اکثر عمر پچیس سال ذکر کی گئی ہے۔ ان مصائب کو برداشت کرتے ہوئے ایسے خطبے دیتی ہیں کہ بلاغت کی دنیا کی عظیم ہستیاں انگشت بہ دنداں رہ جاتی ہیں اور اسے بڑی حیرت سے دیکھتی ہیں۔

ایسے الفاظ و معانی سے آراستہ خطبے میں آپ وہ حقائق بیان فرماتی اور سامنے لاتی ہیں کہ جو لوگوں کی نظروں سے دور تھے یا لوگ ان کی طرف سے غافل تھے۔ اس خطبے میں بڑے معارف ہیں۔ اس میں توحید ہے، نبوت ہے، مسئلہ امامت و ولایت ہے، عدل و انصاف کا موضوع ہے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے پیغمبر کے بعد یہ سنت قائم کی۔ آپ کے فرزندوں نے اور خاندان پیغمبر نے آپ کی پیروی فرمائی۔ امیر المومنین علیہ السلام کے خطبے، امام حسین علیہ  السلام کا علما کو مخاطب کرکے دیا جانے والا خطبہ جو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا حیرت انگیز خطبہ ہے: اَنتُم اَیَّتہَا العِصابۃُ عِصابۃٌ بِالعِلمِ مَشھورَة ــ(۷) کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ، امام سجاد کا شام میں خطبہ، امام صادق علیہ السلام کا عرفات میں خطبہ جس میں آپ نے امامت کا مفہوم بیان فرمایا ہے۔: اَیّہَا النّاسُ اِنَّ رَسولَ اللہِ کانَ ھو الاِمام ــ(۸) یہ سب اسی سنت کا تسلسل ہیں جس کی داغ بیل صدیقہ طاہرہ نے ڈالی۔ یہ خطبہ دینے کی سنت اور حقائق کی تشریح و بیان کی سنت یہاں سے شروع ہوئی اور آگے بڑھتی رہی۔ جہاں تک ممکن تھا۔ کچھ مواقع ایسے بھی تھے جہاں یہ ممکن نہیں تھا۔

بعد میں اہل بیت کے اتباع میں محبان اہل بیت میں ممتاز اور نمایاں سخنوروں نے بھی اسی روش کو اپنایا اور شعر کی زبان میں حقائق بیان کئے۔ دوسرے اور اوسط درجے کے شعرا نہیں بلکہ صف اول کے شعرا نے۔ یہ معروف شعرا جن کے بارے میں آپ سنتے ہیں کہ انہوں نے اہل بیت کی مدح کی، اپنے زمانے میں دنیائے عرب کے صف اول کے شعرا تھے۔ فرزدق اپنے زمانے میں صف اول کے شاعر ہیں۔ کمیت اسدی صف اول کے شاعر ہیں، سید حمیری صف اول کے ممتاز شاعر ہیں۔ دعبل خزاعی صف اول کے شاعر ہیں۔ ابو الفرج اصفھانی نے ان شعرا کے تذکرے لکھے ہیں۔ بیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل کتاب اغانی میں جب سید حمیری تک پہنچتے ہیں تو چونکہ سید حمیری نے کھلے عام پوری صراحت کے ساتھ مخالفین اہل بیت کی ہجو کی ہے، تو کہتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اس عظیم شاعر کے بارے میں کچھ باتیں کروں۔ کیونکہ واقعی یہ بہت عظیم ہیں، لیکن بعض صحابہ کے بارے میں انہوں نے کچھ ایسی باتیں کی ہیں کہ ان کو مد نظر رکھتے ہوئے میں زیادہ باتیں نہیں کروں گا بس تھوڑی مقدار میں کچھ باتیں بیان کروں گا۔ یہ 'تھوڑی مقدار' 50 صفحات پر مشتمل ہے۔ ان تمام شعرا سے زیادہ جن کا انہوں نے وہاں تذکرہ لکھا ہے۔ یعنی اس شاعر کی یہ عظمت ہے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے علوم اہل بیت کو بیان کیا ہے۔ یہ صرف شاعری نہیں ہے، اہل بیت کی معرفتوں کو بیان کرنا ہے۔ یہ سارے نام جو میں نے ذکر کیے اور اسی طرح دوسرے بھی ہیں۔ دوسرے بھی بڑے عظیم شعرا ہیں، ان میں سب سے نمایاں یہ ہیں۔ وہ اس نہج پر چلے۔ یہ ائمہ علیہم السلام کے زمانے اور ائمہ کے بعد کی کچھ مدت کی تاریخ سے مربوط ہے۔

ہمارے زمانے میں تشریح و بیان کا جہاد کرنے والی سب سے عظیم ہستی امام خمینی تھے۔ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے جو سب سے بڑا کام انجام پایا وہ کام ہمارے عظیم قائد امام خمینی نے کیا۔ تشریح و بیان کے جہاد سے امام خمنیی نے وہ کارنامہ کیا کہ دوسرے افراد سافٹ پاور یا ہارڈ پاور کسی بھی شکل میں نہ تو انجام دے سکتے تھے اور نہ انہیں ایسی کوئی امید تھی۔ امام خمینی نے زبان سے اور منطقی بیان سے یہ کارنامہ انجام دیا۔ تشریح و بیان کا جہاد یہ ہوتا ہے۔ امام خمینی نے تحریک کے پہلے دن سے بیان کا سلسلہ شروع کیا تو اس دن تک جب آپ یہاں بہشت زہرا (تہران کا قبرستان) آئے اور کہا کہ میں اس حکومت کا منہ توڑ دوں گا، میں حکومت تشکیل دوں گا۔ (9) سب کچھ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے ہوا۔ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے آپ نے کیا کام کئے؟ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے انہوں نے دیرینہ بد عنوان شرمناک ڈکٹیٹر اور استبدادی موروثی سلطنتی حکومت کو مٹا دیا اور اسلامی و دینی جمہوری حکومت تشکیل دی۔ تشریح و بیان کا جہاد ایسا ہوتا ہے۔ اس کی اتنی اہمیت ہے۔ یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا سبق ہے جو اس طویل مدت میں جاری رہا اور امام خمینی تک پہنچا۔

علمائے دین کی جدوجہد اور علما کی تحریک کے زمانے میں کچھ دوسرے دھڑے بھی تھے جو کوشش کرتے تھے، کام کرتے تھے، محنت کرتے تھے، اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر پڑتے تھے۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر پائے۔ یا کچل دئے گئے یا اپنے راستے سے بھٹک گئے۔ تشریح و بیان اسلامی جہاد و تحریک کی پہچان تھی۔ تہران میں ہم دوستوں کی نشست میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مشہد کا رہنے والا ایک نوجوان تھا، اسے میں پہچانتا تھا کہ وہ ان مسلح مارکسسٹ گروہوں میں شامل تھا۔ یکبارگی کسی کام سے وہاں آیا۔ اس سے ہماری بات شروع ہوئی۔ تھوڑی دیر بات ہوئی۔ یہ لوگ اس زمانے میں 'گروہ جنگل' کے نام سے معروف تھے۔ میں 1968 یا 1969 کی بات بتا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ جب یہ سارے کام کر رہے ہیں تو عوام سے بات کیجئے۔ عوام کو معلوم ہی نہیں کہ آپ کون لوگ ہیں۔ اس نے کہا بھائی! یہ سب چیزیں اسلام اور مسلمانوں کی ہیں! یعنی انہیں تشریح و بیان کے جہاد پر کوئی یقین نہیں تھا۔ اس کی بات صحیح تھی۔ یہ ہماری روش تھی، اسلام کی روش تھی۔ ان کے پاس عوام کو قائل اور مطمئن کرنے والی باتیں نہیں تھیں، اس لئے وہ کامیاب نہیں ہوئے، مغلوب ہو گئے، کچل دئے گئے، ان میں بہت سارے تو منحرف ہو گئے۔ مگر امام خمینی نے تشریح و بیان کا راستہ اختیار کیا اور یہاں تک پہنچایا۔ یہ راستہ آج بھی جاری ہے۔

میں کیا عرض کرنا چاہ رہا ہوں؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج تشریح و بیان کے جہاد کی ذمہ داری آپ مداحان اہل بیت کے دوش پر ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ کے ذریعے شروع کیے جانے والے اس مشن کو آج آپ آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمیشہ ذہن میں رکھئے کہ اہل بیت کی مداحی سے کیا مراد ہے۔ مداحی سے مراد ان ہستیوں کے مشن کو انجام دینا ہے جنہوں نے تاریخ میں، اہل بیت کے دور میں مذہب کی حفاظت کی، تشیع اور شیعہ فکر کی حفاظت کی، یا ہمارے اس دور میں دنیا کو بدل دیا۔ ملک کے نظام کو طاغوتیت سے اسلامیت میں تبدیل کر دیا۔ یہ شعبہ اسی نورانی شعبے کا تسلسل ہے جس کا آغاز ان ہستیوں نے کیا۔ مداحی کو آپ اس نظر سے دیکھئے۔

مداحی کا ہنر اور 'ہیئت' نام کی یونٹ (ماتمی انجمن سے مشابہ) جس کا محور و مرکز مداح ہوتا ہے اور مداح کے ساتھ واعظ ہوتا ہے، یہ اسلامی معاشرے کی سافٹ پاور کا بہت اہم حصہ ہے۔ سافٹ پاور کا اثر و رسوخ ہارڈ پاور سے زیادہ ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں جیسے امریکا جس کے پاس ایٹم بم ہے، گوناگوں پیشرفتہ اسلحے ہیں، بہت اہم سرمایہ کاری آرٹ، سنیما، ہالی وڈ اور تشہیرات وغیرہ پر کرتا ہے؟ کیوں؟ کیونکہ سنیما سافٹ پاور ہے، داستان نویسی اور فلم سافٹ پاور کا حصہ ہے۔ یہ چیز ہے جو اثر رکھتی ہے۔ ہارڈ پاور کا اثر عارضی ہوتا ہے اور بعد میں زائل ہو جاتا ہے۔  ہارڈ پاور کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ آتا ہے افغانستان میں بیس سال ٹھہرتا ہے، اربوں خرچ کرتا ہے اور آخر میں عوام کی شدید نفرت کے ماحول میں افغانستان سے فرار ہو جاتا ہے۔ یہ ہارڈ پاور ہے۔ ہارڈ پاور یعنی یہ کہ امریکہ تمام تر وسائل کے ساتھ آتا ہے اور پورے عراق پر قبضہ کر لیتا ہے، عراق کی حکومت گرا دیتا ہے اور اقتدار کی کرسی پر خود بیٹھ جاتا ہے اور تقریبا بیس سال بعد آج عراق میں سب سے زیادہ نفرت انگیز حکومت امریکی حکومت ہے۔ یہ ہارڈ پاور ہے۔ سافٹ پاور یعنی ایک گروہ جو بظاہر اقلیت میں ہے لیکن اس کا روحانی و معنوی اثر بہت ہے، وہ ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔ آج آپ دیکھئے کہ مظلوم فلسطینی جن کے پاس دفاع نفس کے لئے اسلحہ نہیں ہے، اپنی مظلومیت سے، اپنے صبر سے اور اپنی استقامت سے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لینے میں کامیاب ہوئے۔ یعنی ہارڈ پاور اور سافٹ پاور کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے، دونوں کی تاثیر میں اس قدر فرق ہے۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مدحیہ کلام اور مرثیے سے مربوط صنف یعنی یہی مداح حضرات کی صنف جو اسلامی معاشرے کی سافٹ پاور کا ایک مجموعہ اور ایک حصہ ہے، اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا کیا کام ہے، اسے کیا کرنا ہے اور اس کا فرض کیا ہے۔ اسلامی معارف و علوم آپ کے شعبے کے اصلی مضامین ہیں۔ تاریخ اہل بیت، آپ کے کام کے اصلی مضامین ہیں، مصائب اہل بیت بھی آپ کے کام کے اصلی مضامین ہیں۔ یہ سارے مضامین بہترین زبان اور بہترین اسلوب میں انہیں خصوصیات کے ساتھ کہ جس کا آپ شیعہ تاریخ میں تشریح و بیان کے جہاد کے اندر مشاہدہ کرتے ہیں، آج بھی بیان کئے جائیں۔ توقع یہ ہے۔ اگر قرآن کی پرکشش تلاوت ہو، اچھے اشعار بہترین آواز اور انداز میں پیش کئے جائیں، اس اچھی آواز اور دلکش آہنگ میں صحیح اور اعلی مضامین پیش کئے جائیں تو دنیا کے بہت سارے ہارڈ پاور سے اس کا رسوخ زیادہ ہوگا، اس کی تاثیر زیادہ ہوگی۔ اس چالیس پینتالیس سال میں اسلامی جمہوریہ اسی انداز سے آگے بڑھی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا تکیہ اور اعتماد ہارڈ پاور سے زیادہ سافٹ پاور پر ہے۔ آپ یقینا جانتے ہیں کہ میں ضرورتوں کے مطابق اور دشمن کی توانائیوں کے مطابق پیشرفتہ اسلحہ جات پر یقین رکھتا ہوں اور اس کی کوشش میں رہتا ہوں لیکن میرا نظریہ یہی ہے کہ ہارڈ پاور اور اسلحہ جات کے ساتھ فکری ہتھیار، زبانی قوت اور محکم و مدلل منطق کا ہتھیار ہمارے بیچ پھیلنا چاہئے۔ یہ ہماری توقع ہے۔ ہمیں اپنے شعرا سے توقع ہے، اپنے مداح حضرات سے توقع ہے، خوش الحان گلوکاروں سے توقع ہے۔

اس سافٹ پاور کے دو اہم انڈیکیٹر ہیں جن پر پوری توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی آپ اپنی کارکردگی کو ان دو پیمانوں کے ذریعے تولیے۔ جذبات برانگیختہ کر دینے اور حرکت پیدا کر دینے کی صلاحیت اور دوسری چیز صحیح سمت اور دقت نظر۔ یعنی ہدف بالکل درستگی کے ساتھ معین کیا جائے۔ دیکھئے ایک چیز جس پر ہم نے اپنے میزائلوں میں بھی بڑی توجہ دی ہے اور اس میں کامیاب بھی رہے ہیں، وہاں پہنچ چکے ہیں، صحیح نشانہ لگانا ہے۔ یعنی دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نشانہ لگاتا ہے اور عین اسی پوائنٹ پر جاکر گرتا ہے۔ یعنی اس پوائنٹ سے دس میٹر ادھر یا دس میٹر دوسری طرف نہیں! جو کام آپ انجام دے رہے ہیں اس میں بھی آپ اپنا نشانہ اس طرح لگائیے۔ یہ دونوں پیمانے مد نظر رکھئے۔ ایک تو یہ دیکھئے کہ جو باتیں آپ پیش کر رہے ہیں وہ کس حد تک جذبات و احساسات کو حرکت میں لا سکتی ہیں، دلوں کو کس قدر متاثر کر سکتی ہیں، کتنی حرکت پیدا کر سکتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس میں دقت نظر کتنی ہے۔ اقدام میں دقت نظر بہت اہم ہوتی ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ ہم اچھا کام کرنا چاہتے ہیں، مگر جب بات کرتے ہیں تو اس بات کی نزاکتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ نتیجتا ایسے وقت میں جب دنیائے اسلام کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے اختلاف پیدا کر دیتے ہیں، خلیج پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ دقت نظر نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ میری تاکید ہے کہ دینی معارف کو سمجھنے اور انہیں بیان کرنے میں دقت نظر سے کام لیا جائے۔ خوش قسمتی سے آج ہمارے ذاکرین اور مداح حضرات کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ، پڑھی لکھی اور علمی مدارج طے کرنے والی، عربی داں، عربی فہم ہے، ان میں بہت سے ہیں جو قرآن سے بہت مانوس ہیں، روایتوں سے مانوس ہیں۔ آج یہی تو صورت حال ہے۔ آج مداح حضرات کی صنف ہماری نوجوانی کے ایام کے مداح حضرات جیسی نہیں ہے۔ مداحوں کی صنف عالی مرتبت اور پائے کی صنف ہے۔ ہماری توقع یہ ہے کہ معارف کو دقت نظر کے ساتھ، درستگی کے ساتھ مدح سرائی اور مرثیہ خوانی کے اسی ممتاز انداز میں سامعین تک منتقل کیا جائے۔ ہماری توقع یہ ہے۔

احادیث کی کتب سے آشنائی حاصل کیجئے، انسیت حاصل کیجئے، نہج البلاغہ سے خود کو مانوس کیجئے۔ نہج البلاغہ معارف و علوم کا سمندر ہے۔ نہج البلاغہ کے خطبوں کو جب آپ دیکھتے ہیں، خاص طور پر نہج البلاغہ کے بعض خطبے علم و معرفت میں اس طرح ڈوبے ہوئے ہیں کہ اس کے ایک لفظ کو انسان پھیلا سکتا ہے اور پوری ایک قوم کو متحرک کر سکتا ہے۔ صحیفہ سجادیہ سے خود کو مانوس کیجئے۔ صحیفہ سجادیہ کا قالب تو دعا کا قالب ہے، اس کے مندرجات میں تضرع ہے، دعا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں دینی معارف کا دریا موجزن ہے۔ صحیفہ سجادیہ مکتب اہل بیت میں بڑی حیرت انگیز شئے ہے۔ آپ غور کیجئے امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں سرحدوں کے محافظوں کے لئے دعا فرماتے ہیں۔ ایک دعا ہے جو سرحدوں کے محافظوں کے لئے ہے۔ اس وقت یہ کون لوگ تھے؟ ظاہر ہے کہ بنی امیہ کے سپاہی تھے۔ ان کے لئے دعا فرماتے ہیں۔ سرحدوں کا محافظ پھر سرحدوں کا محافظ ہے، اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کر رہا ہے، وہ کوئی بھی ہو۔ سرحدوں کے محافظ کے لئے دعا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے سبق ہے۔

دنیائے اسلام کی سرحد آج غزہ میں ہے۔ دنیائے اسلام کی نبض آج غزہ میں دھڑک رہی ہے۔ وہ دنیائے کفر، دنیائے طاغوت، دنیائے استکبار کے مقابلے میں اور امریکا کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا مد مقابل فریق صرف صیہونی حکومت نہیں ہے۔ امریکی صدر (10) صریحی طور پر کہتا ہے کہ میں ایک صیہونی ہوں۔ (11) وہ صحیح کہہ رہا ہے۔ وہی خباثت جو صیہونیوں میں پائی جاتی ہے ان کے اندر بھی موجود ہے۔ وہی مذموم اہداف جو ان کے ہیں اس شخص کے ذہن میں بھی ہیں۔ غزہ کے عوام ان لوگوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ تشریح و بیان کے مجاہد کو معلوم ہوتا ہے کہ آج اسے کیا چیز بیان کرنا ہے۔ اسے در پیش مسئلے کا علم ہونا چاہئے۔ آج آپ غزہ کو بیان کیجئے۔ آج آپ کو چاہئے کہ اسلامی نظام سے ہونے والی دشمنیوں کو بیان کریں۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف کئی طرح کی دشمنیاں برتی جا ہی ہیں، دشمنانہ اقدامات کئے جاتے ہیں۔ فوجی و اسلحہ جاتی اقدامات وغیرہ کی جو بات ہے تو دشمن اسے اپنے لئے مناسب نہیں سمجھ رہا ہے۔ لیکن سافٹ پاور کے لحاظ سے، صرف امریکہ نہیں بلکہ امریکہ کے پچھلگو اور اسلام کے مخالفین بھی فلم بناتے ہیں، جھوٹا پرچار کرتے ہیں اسلام کے خلاف اسلامی نظام کے خلاف۔ سینہ سپر ہوکر کھڑا ہو جانا چاہئے۔

 انتخابات ہمارے سامنے ہیں۔ (12) کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ انتخابات اس انداز سے ہیں جو اس ملت کے شایان شان ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام میں مایوسی پھیلائیں، بے اعتمادی پیدا کریں، یہ تاثر دیں کہ انتخابات کا کوئی فائدہ ہی نہیں، کوئی اثر ہی نہیں ہے۔ ایسے افراد کے مقابلے میں تشریح و بیان کا جہاد ڈھال بن کر کھڑا ہو جائے۔ ان کے مقابلے میں حقائق کو بیان کیا جائے۔ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ملکی نظم و نسق چلانے میں عوام کا کردار جو در اصل ملک میں دینی جمہوریت کے نفاذ کو ثابت کرنے کا ذریعہ ہے، کمزور پڑ جائے، تاکہ بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی بات غلط ثابت ہو جائے۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ وعدہ خداوندی کو جھوٹا ثابت کر دیں۔ یہ مخاصمانہ روش ہے۔ اس معاندانہ روش کا مقابلہ کرنے کے لئے محنت کرنا چاہئے۔ جو بھی انتخابات کی مخالفت کرے گویا اس نے اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کی ہے، اسلام کی مخالفت کی ہے۔ انتخابات ایک فریضہ ہے۔ یہ ایک اہم کام ہے، آج انتخابات کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کا ادراک تشریح و بیان کے جہاد کے میدان کی مجاہد صنف کا ایک ہنگامی کام ہے۔

جب کچھ لوگ عوام میں اسلامی نظام کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتے ہیں، عوام کو مستقبل کے تعلق سے مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں، تو اسلامی نظام کے اندر جو ایک مضبوط پہلو ہوتا ہے وہ کمزوری میں بدل جاتا ہے۔ اسلامی نظام کا ایک اہم پہلو بد عنوانی سے لڑنا ہے۔ جیسے ہی کہیں کسی بد عنوانی کا پتہ چلتا ہے اور حکومت اور عہدیداران، عدلیہ کے عہیدیدار اور دوسرے افراد اس کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، کہ جو ایک مضبوط پہلو ہے، یہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی ہے، تو اسی اثنا میں کچھ لوگ نمودار ہوتے ہیں جو یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ جناب! دیکھئے یہاں تو بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے! ہاں صحیح بات ہے، بد عنوانی موجود ہے، مگر جو چیز کمزوری اور خامی شمار ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بد عنوانی کو خاموشی سے برداشت کیا جانے لگے، بد عنوانی کا ساتھ دیا جائے۔ اگر بدعنوانی کے خلاف سختی سے کارروائی کی گئی تو یہ تعمیری پہلو ہے۔ اسی مضبوطی اور تعمیری پہلو کو کمزوری میں بدل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے عناصرکے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو جانا چاہئے۔ بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ہرگز رعایت نہیں برتتے تھے، ہم کبھی کبھی رعایت برتتے تھے، لیکن امام خمینی کوئی رعایت نہیں دیتے تھے۔ بالکل صراحت کے ساتھ واضح لفظوں میں بات بیان کر دیتے تھے، جو بیان کرنا ضروری ہوتا تھا اسے بیان کر دیتے تھے۔ لوگوں کا نام بھی ذکر کر دیتے تھے، دھڑوں اور پارٹیوں کا نام ذکر کر دیتے تھے، تاکہ عوام کو پورا علم ہو جائے۔ اسی طرح سے امام خمینی اسلامی نظام کے ستونوں کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چالیس سال سے زیادہ وقت ہو چکا ہے لیکن آج بھی بحمد اللہ یہ عمارت رفعت حاصل کرتی چلی گئی ہے اور آئندہ بھی اس کی بلندی میں اضافہ ہوگا۔

ملت ایران کو اسلام سے محبت ہے۔ ملت ایران کو خود مختاری پسند ہے، قومی وقار پسند ہے۔ ملت ایران بڑی طاقتوں کی فرماں بردار بننے سے بیزار ہے۔ اسے یہ کلنک محسوس ہوتا ہے کہ طاغوتی شاہی دور کی طرح امریکی اور دوسری طاقتیں آکر اس ملت کے سامنے اترائیں اور اس پر حکم چلائیں۔ ملت ایران یہ چیزیں برداشت کرنے والی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی پشت پناہ بن کر کھڑی ہے۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ کا نعرہ قومی وقار کا نعرہ ہے، قومی خود مختاری کا نعرہ ہے، قومی پیشرفت کا نعرہ ہے۔ یہی اسلامی جمہوریہ کے نعرے ہیں۔ ملت ایران کو ان سے لگاؤ ہے اور یہ راستہ اللہ کا راستہ ہے۔ جو راہ خدا ہے اور اللہ کے بندے جس پر چلتے ہیں اس سے کوئی بھی طاقت انہیں پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔

تشریح و بیان کے قیمتی جہاد کو پوری توانائی اور قوت کے ساتھ ان شاء اللہ جاری رکھئے۔ اس گراں قدر میراث کو اپنے بعد والی نسل کو منتقل کیجئے۔ اگر نوجوانوں کو احساس ہو جائے کہ ان کے پیشرؤوں کے تعلق سے ان کا فریضہ کئی گنا زیادہ ہے تو ان شاء اللہ ہم روز بروز زیادہ پیشرفت کا مشاہدہ کریں گے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۱ اس ملاقات کے آغاز میں کچھ شعرا اور مداحوں نے اہل بیت علیہم السلام کی مدح میں کلام پیش کیا۔

۲ بحارالانوار، جلد ۲۹، صفحہ ۲۲۰

۳ معانی ‌الاخبار، صفحہ ۳۵۴

۴ امالی طوسی، صفحہ ۳۷۴، مجلس نمبر 13

۵ شرح نهج‌ البلاغه، جلد ۱۶، صفحہ ۲۱۰

۶ ابن‌ ابی‌ الحدید. شرح نهج‌ البلاغه، جلد ۱۶، صفحہ ۲۵۲

۷ تحف‌ العقول، صفحہ ۲۳۷

۸ اقبال‌الاعمال، جلد ۱، صفحہ ۳۳۰

۹ صحیفه‌ امام، جلد ۶، صفحہ ۱۶؛ تہران کے قبرستان بہشت زہرا میں 1 فروری 1979 کا خطاب

۱۰ جو بائیڈن

۱۱  منجملہ جو بائیڈن کا دسمبر 2023 میں 'حانوکا' نام کی یہودیوں کی عید کے دن کا خطاب۔

۱۲ بارہویں پارلیمنٹ کے انتخابات اور ماہرین اسمبلی کے چھٹے دور کے انتخابات جو 1 مارچ 2024 کو منعقد ہونے والے ہیں۔  

 مذہب اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کاوشوں سے، انسانی وقار، انصاف اور آزادی کو حقیقی معنویت حاصل ہوئی۔ خدا کے پیغمبر نے دو اصولوں کے مطابق دین اور اس کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ اور تحفظ کو متعارف کرایا۔ ایک قرآن اور دوسرا اہل بیت (ع) جو اس آسمانی کتاب کے حقیقی ترجمان اور حقیقی عمل کرنے والے تھے۔ فاطمہ زہرا (س) جو پیغمبر اکرم (ص) کے خاندان کا حصہ بنیں اور نبوت اور امامت کے درمیان ربط پیدا کرنے والی تھیں، ایک حدیث پاک میں اس طرح بیان کی گئی ہیں: «یـا أَحْمَدُ! لَوْلاکَ لَما خَلَقْتُ الْأَفْلاکَ، وَ لَوْلا عَلِىٌّ لَما خَلَقْتُکَ، وَ لَوْلا فاطِمَةُ لَما خَلَقْتُکُما»؛ اے احمد اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا نہ بناتا اور اگر علی نہ ہوتا تو تمہیں پیدا نہ کرتا اور اگر فاطمہ نہ ہوتی تو میں تم دونوں کو نہ بناتا۔"

کوثر قرآن حضرت فاطمہ زہرا (س) کا یوم ولادت ان کے خصوصی مقام سے خطاب کا بابرکت موقع ہے اور اس موقع کو علمائے دین اور عالمان با عمل کے کلام کے سائے میں فرصت ملتی ہے کہ بات کی جائے۔ اسی بنا پر بین الاقوامی قرآنی خبر رساں ایجنسی (IQNA) نے آیت اللہ شبری زنجانی کو اپنی خصوصی پیغام کی درخواست پیش کی ہے اور اس عالم دین نے ایک خط میں ان مبارک ایام کی مبارکباد دیتے ہوئے حضرت زہرا کی سیرت کے بارے میں چند نکات بیان کیے ہیں۔

 

 

خدا کے با برکت نام سے:

الْحَمْدُ لِلَّهِ إِجْلَالًا لِقُدْرَتِهِ، وَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خُضُوعاً لِعِزَّتِهِ، وَصَلَّی اللَّهُ عَلَی مُحَمَّدٍوَآلِه‌

ورد بأسناد عديدة عن رسول الله صلي الله عليه و آله: إِنَّمَا سُمِّيَتْ اِبْنَتِي فَاطِمَةَ لِأَنَّ اَللَّهَ عَزَّوَجَلَّ فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مَنْ أَحَبَّهَا مِنَ اَلنَّارِ.

20 جمادی الآخرہ، یوم ولادت خاتونِ جنت کے موقع پر، میں امکانات کی دنیا کے قطب حضرت بقیۃ اللہ کی بارگاہ میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس خدائی ذخیرے کو جلد از جلد حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہوں۔

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر حضرت صدیقہ طاہرہ (س)  کے بارے میں بات کرنا بہت مشکل ہے، ہم ایک ایسے کردار کے بارے میں کیسے بات کریں جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت جبرائیل امین علیہ السلام  پچھتر دن تک آپ کے پاس آتے رہے اور تسلی دیتے، آپ نے ان کے لیے حضرت خاتمی مربت کے مقام و مرتبہ کے بارے میں بات کی اور انہیں بتایا کہ ’’ہم ایک ہیں‘‘؟! حضرت وصی، جو پیغمبر اکرم (ص) کے بعد پیغمبر کے محسن ہیں، امیر المومنین علی (ع)، امین وحی نے ان الفاظ کو "مصحف فاطمہ" نامی کتاب میں تحریر کیا ہے، جو دشمنان دین کے مکروہ بیانات کے برعکس ہے۔ اس میں، قرآن سے، یہ کچھ نہیں ہے۔ بیس سے زائد روایات میں اس کتاب اور اس کے خدوخال پر بحث کی گئی ہے، جن میں سے اکثر کے پاس مستند دستاویزات ہیں۔

مشہور کتابوں میں اس خاتون کے فضائل کو کئی بار بیان کیا گیا ہے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی ایک روایت میں بھی ذکر ہے (جس میں سے اکثر نے اس روایت کی سند کی تصدیق کی ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایک فرشتہ جو ابھی زمین پر نہیں اترا تھا اس نے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ مجھے سلام کرے اور مجھے یہ بشارت دے کہ جنت کی عورتوں کی خاتون فاطمہ اور حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

نیشابوری کے گورنر ان کے بارے میں کہتے ہیں: ایک صحیح روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ جب بھی آپ  رسول گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ چومتے، اور یہ سلوک۔ اپنی والدہ خدیجہ کی عزت سے بڑھ کر تھا۔

اس کے بعد اس نے ایک دستاویز کے ساتھ عائشہ کا حوالہ دیا جس کے سچ ہونے کی تصدیق میں نقل کی جاتی ہے کہ

"میں نے فاطمہ (س) سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کلام کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سلام کرتے اور کھڑے ہو کر ان کے پاس جاتے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کا بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو کر آتے اور کھڑے ہو کر حضرت کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالم نزع کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا داخل ہوئیں۔ حضرت نے سلام کیا اور بوسہ دیا اور چپکے سے بات کی۔ وہ رو پڑا۔ اس نے پھر چپکے سے اس سے بات کی۔ وہ ہنسا، میں نے (اپنے آپ سے) کہا کہ میں نے اس عورت کو نیکی سمجھا، اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ دوسری عورتوں کی طرح ہے۔ وہ روتے ہوئے ہنستا ہے! میں نے اس سے اس بارے میں پوچھا۔ اس کے جواب میں اس نے اشارہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر نہیں کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خفیہ طور پر بتایا کہ میں مر رہا ہوں اور میں رو پڑی۔ پھر اس نے چپکے سے کہا کہ میں اس کے رشتہ داروں میں پہلا شخص ہوں جو اس کے ساتھ ملونگا۔

رب کے اس محبوب کے پیارے نام، ہر ایک، اس کی بے شمار خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتا ہے، اور ہر نام کی وضاحت اور تشریح میں تفیسر کہنے کی ضرورت ہے۔

اس مبارک موقع پر میں اپنے آپ کو اس حدیث مبارکہ کے ترجمے تک محدود رکھوں گا جس نے اس خط کے آغاز کو مزین کیا ہے، اور میں اس خاتون کی شفاعت کے لیے تقدس مآب کے مداحوں کے لیے دعا گو ہوں:

بہت ساری دستاویزات کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوا ہے کہ "میری بیٹی کا نام فاطمہ رکھا گیا کیونکہ خدا نے اسے اور اس کے چاہنے والوں کو جہنم کی آگ سے نکال دیا ہے۔"

اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ نے اسرائیلی ڈرون حملے میں پانچ ساتھیوں سمیت حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ  کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو صالح العاروری کی شہادت کی بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ حزب اللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ حماس کے سینیئر رہنماء صالح العاروری کی شہادت سے یمن، شام اور عراق کے سپورٹنگ محاذوں پر مزاحمت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ بیروت کے مرکز میں حماس رہنماء پر حملے کو لبنان کے عوام، سکیورٹی اور خود مختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے حزب اللہ کا کہنا تھا کہ اس حملے کا اسرائیل کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ حزب اللہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اسرائیل کے اس جرم کو ایسے ہی نظرانداز نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا بھرپور بدلہ لیا جائے گا، ہمارے مزاحمت کار اپنے اصولوں، اپنے وعدوں اور اپنی کمٹمنٹ کو نبھانے کیلئے بندوقوں کے ٹرگر پر اپنی انگلیاں جما کر  مکمل طور پر تیار ہیں۔

بیروت میں حماس رہنماء پر اسرائیلی ڈرون حملے اور غزہ جنگ کا دائرہ لبنان تک پھیلانے کی صیہونی سازش کے بعد حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ بھی آج اہم خطاب کریں گے۔ دوسری جانب حماس کے رہنماء اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ فتح اور آزادی تک جہاد جاری رہے گا۔ لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں ناکامی کے بعد لبنان کو محاذ آرائی کے نئے مرحلے میں لے جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان اسرائیلی حملوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت کرے گا۔ ایران نے بھی اسرائیل کو خبردار کر دیا ہے کہ حماس رہنماء کا قتل اسرائیل کے خلاف مزاحمت مزید بڑھائے گا۔ اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ حماس رہنماء کے قتل کے بعد صورتِ حال انتہائی پریشان کُن ہوگئی ہے

Wednesday, 03 January 2024 20:37

سلیمانی، مکتب لافانی



سردار شہید قاسم سلیمانی (رح) کی خود تعمیر کردہ معنوی و روحانی شخصیت ایک ایسا مکتب ہے، جس کی فنا ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ و حالیہ صدی میں متعدد مکاتب تشکیل پاتے رہے لیکن ہر مکتب پائندہ رہا ہو، یہ کم ہی نظر آیا، لیکن مکتب سلیمانی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ لافانی ہے۔ ایسے میں اس کی علت پر متعدد نکات کو یہاں ثبت کیا گیا ہے، لیکن مہم ترین نکتہ یہ کہ قرآن کریم زندہ حقیقت ہے اور جو انسان قرآن کریم کے ساتھ زندگی کرتا ہے، وہ بھی اس جاوداں حقیقت کے ساتھ زندہ رہتا ہے، کیونکہ قرآن منبع حیات ہے، جو خود بھی زندہ ہے اور دیگر موجودات کو بھی زندگی بخشتا ہے۔ بلاشبہ شہید سلیمانی کی زندگی میں قرآن کریم ایک آفتابِ روشن تھا، جس کی روشنی کے حصول کے لیے آپ نے عرصہ دراز زندگی کے ہر لمحہ کو وقف کیا۔

قرآن کریم میں سورہ رحمن کی 26ویں آیت میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے کہ "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ"، "جو مخلوق زمین پر ہے، سب کو فنا ہونا ہے" اور آگے مزید فرماتا ہے کہ "وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ"، "اور تمھارے پروردگار ہی کی ذات جو صاحب جلال و عظمت ہے، باقی رہے گی۔" ان آیات پر اگر غوروفکر کیا جائے تو اس میں واضح طور پر بیان کیا جا رہا ہے کہ ہر چیز، ہر شے کو فنا ہے۔ ایسے میں کس شے کو فنا نہیں ہے؟ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ سوائے خدا کی ذات کے، یعنی واحد شے جو زندہ و جاوید رہنے کا باعث ہے، وہ خدا سے ارتباط ہے۔ وہ یہ ہے کہ کس قدر انسان کی زندگی میں خدا شامل ہے اور کس قدر انسان اپنی زندگی میں خدا کے مطابق حرکت کر رہا ہے۔

ایسا کرنا انسان کو خدا کا مظہر بنا دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان خدا کی صفات اور اس کے اسماء کی تجلی بن جاتا ہے۔ بلاشبہ ایسا انسان خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پس ایسے میں جب انسان کاملاً خدا کی صفات کا مظہر بن چکا ہے تو ان پیغامات کا مصداق ہے۔ چنانچہ رہتی دنیا تک اس کو بھی فنا نہیں ہے۔ خدا لافانی ہے، لہٰذا وہ انسان جو خود کو خدا کے حوالے کرکے اپنی زندگی کو اس کی راہ میں وقف کر دے تو وہ بھی لافانی ہوگا، اس کی حرکت بھی ہمیشہ جاری رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہداء کی حیات بھی انہی قرآنی افکار کا مظہر ہے، لیکن جب شہید قاسم سلیمانی کی بات کی جائے تو یہ حرکت ایک مکتب کی صورت اختیار کر لیتی ہے، جس کا پس منظر مکتب خمینی ہے۔

حرکت خمینی نے مکتب خمینی کو اور مکتب خمینی کے شاگرد قاسم سلیمانی کی بے مثال و الہیٰ حرکت نے مکتب سلیمانی کو جاری کیا اور یہ رہبر معظم سید  علی خامنہ ای کی قیادت میں تا ابد جاری رہے گی۔ مکتب سلیمانی اسی طرح لافانی ہے، جس طرح مکتب خمینی، چونکہ اس کی اساس خدا کی ذات، قرآنی تعلیمات ہیں اور سایہ عترت علیہم السلام ہے۔ امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ: "شہداء آسمان پر دمکتے وہ ستارے ہیں، جن کی راہ پہ چل کر ہر کوئی اپنی منزل پا سکتا ہے۔" اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ شہداء ہر انسان کو منزل و مقصود تک پہنچا سکتے ہیں۔؟ یا اس نقطے پہ غور و فکر کیا جائے تو زیادہ جامع ہوگا کہ کس طرح شہید سلیمانی کئی انسانوں کی زندگی کو اس کے ہدف سے ملا سکتے ہیں۔؟

ایسے میں فزکس کے شعبہ فلکیات (Astronomy) میں ماہرین کے مطابق ستارے درست راستے کا تعین کرتے ہیں۔ وہ مقامات جہاں حدود کا تعین نہیں ہوتا اور کوئی بھی راستہ مشخص نہیں ہوتا، وہاں ستارے وہ ذریعہ(source) ہیں، جو درست سمت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح انہی ستاروں کا جھرمٹ، ان کا مجموعہ نہ صرف کسی ایک انسان بلکہ سینکڑوں انسانوں کے لیے درست راہ کو مشخص کرتا ہے۔ لہٰذا یاد رکھیں! مکتب کی مثال بھی انہی ستاروں کی مثال کی مانند ہے، جس کی طرف امام خمینی (رح) نے اشارہ کیا ہے۔ پس یہ کہ مکتب سلیمانی ایسے علمی و فکری نیز عملی نظام کا مجموعہ ہے، جو کئی بھٹکے ہوئے لوگوں کی درست سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔کئی ہزاروں داستانیں، واقعات ایسے ملتے ہیں، جو اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہی اس مکتب کی وہ تصویر ہے، جو اس کو لافانی بناتی ہے۔

جب ہم ایک مکتب کے عنوان سے مزید غوروفکر کرتے ہیں تو اس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ یہ کسی خاص زمانے یا خاص عمر کے افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنے اندر انقلاب و حرکت پیدا کرنے کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ ہر شخص کو آمادہ کرتی ہے کہ ظلمات سے نور کی طرف حرکت کرے۔ قرآن کریم میں آیت الکرسی ( 256 تا 257) میں فکر کو جمع کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ رشد اور غی و فساد کی راہیں جدا ہوچکی ہیں، اسی طرح جیسے طاغوت اور خدا کے مابین فاصلہ واضح و آشکار ہے۔ پس رشد کے لیے طاغوت سے انکار اور خدا پر ایمان ہی واحد صورت ہے۔ جس کے ذریعے انسان ظلمات سے نور تک کا سفر طے کرسکتا ہے۔

شہید سلیمانی کے اس مکتب کی بنیادی ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس نے امریکہ و اسرائیل جیسے دشمن کے دل و دماغ کے منصوبوں کو فلسطین، لبنان، عراق و شام میں خس و خاشاک ثابت کیا اور ان کو ان کے ارادوں میں ناکام کر دکھایا۔ آپ کے اس عظیم کارنامے نے دنیا میں طاقت کے توازن اور معیار کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ قدس کے لیے، اس کی آزادی کے لیے آپ کی خدمت نے دنیائے اسلام کو متحرک کر دیا اور ہر ایک شخص کو اس مسئلے کی سنگینیت کے لیے غوروفکر کرنے اور سوچنے پر مجبور کر دیا۔ پس یہ کہ یہ تشخص دو سیاسی نظریئے کی مخالفت اور آزادی کا پیش خیمہ ہے۔ یہ نور سلیمانی کی چالیس سالہ کاوشوں اور حرکت کا نتیجہ ہے، جس کو بطور وصیت آپ نے ایک نئے معاشرے میں جاری کر دیا۔ جو مثل آفتاب ہر زمانے کے آسمان پہ جگمگا کر اس زمانے کے ہر شخص کے علمی، فکری، سماجی، اقتصادی، سیاسی، معاشی و معاشرتی باب کو روشن کر رہا ہے۔

لیکن کیا اس آفتاب سلیمانی سے مستفیض ہونے کی شرائط بھی ہیں؟ قرآن کریم میں سورہ الشمس میں خدا نے سورج کی قسم کھائی اور پھر اس کی روشنی کی بھی قسم کھائی، جس کا مقصد اس کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کرکے اس کی معرفت کو انسانیت پر عیاں کرنا تھا، ورنہ خداوند متعال کو ضرورت نہ تھی کہ قسم اٹھا کر اس بات کی حقانیت کو واضح کرتا، چونکہ وہ خود صاحب عظمت ہے۔ ایسے میں معرفت و شناسائی کا پہلو بہت اہم ہے، جس کے لیے سورج اور اس کی روشنی کی عظمت کو واضح کرنے کے لیے قسم کھائی گئی۔ اسی طرح اگر آفتابِ سلیمانی کی عظمت کو اپنی زندگی میں منطبق کرنا چاہتے ہیں تو بہت ضروری ہے کہ اس کی معرفت بھی حاصل کریں۔ مثلاً ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ آیا میرے گھر کہ کھڑکی کھلی ہے یا بند ہے! آیا میرے گھر کی چھت سورج کی روشنی اور میرے مابین مانع تو نہیں ہے۔؟

نتیجتاً یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سورج ہر جگہ اپنی روشنی پہنچاتا ہے، ہر جگہ اپنی عظمت کی کرنوں کو ظاہر کرتا ہے، لیکن یہ ہم پر ہے کہ ہم نے اپنی در و دیوار کو روشنی اور اپنے درمیان مانع تو قرار نہیں دیا؟ آیا یہ موانع تو باعث نہیں کہ ہم اس سورج کی روشنی سے محروم رہ گئے۔؟ پس یہ کہ اہم ترین شرط معرفت و آگاہی اور عملی حرکت کو جاری کرنا ہے۔ چونکہ متحرک موجود کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دوسروں میں بھی تحرک پیدا کرتی ہے۔ مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے، جس نے مکتب سلیمانی کو مکتب لافانی میں بدل دیا۔؟ سورہ عصر کے آئینے میں آپ کو دیکھا جائے تو آپ وہ انسان ہیں، جس نے خود کو خسران سے نکال لیا اور ایمان و عمل صالح کے ساتھ حقائق کو معاشرے کے قرطاس پر ثبت کر دیا۔ اہم ترین نکتہ حق و صبر کی وصیت ہے۔

وصیت یعنی کیا؟
وصیت یعنی انسان اپنی حرکت کو دوسروں کی آگاہی اور ان میں حرکت کے اجرا کے لیے منتقل کرے۔ جب وقت رخصت وصیت کا کلمہ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی کا نچوڑ دوسروں کی آگاہی کے لئے بیان کرے، تاکہ اس کے مطابق وہ حرکت کو جاری رکھ سکیں۔ شہید سلیمانی کا وصیت نامہ ان کی سالہا سال کی حرکت کا نچوڑ تھا اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی زندگی کن ابواب کا مجموعہ تھی۔ چنانچہ احیاءِ حرکتِ الہیٰ میں آپ نے فقط انفرادیت تک محدودیت اختیار نہیں کی بلکہ ان حقائق کو اجتماعی کیا، تاکہ ان تک رسائی میں ہر انسان اس مکتب لافانی سے مستفیض ہوسکے۔

نور سلیمانی کہ جس کی لامحدود نورانی وسعتیں مادیت کی تاریکیوں میں گھری انسانیت کو نہ صرف منور کرتا ہے بلکہ ان کو عشق خدا کے لازوال جذبے سے آشنا کراتا ہے۔ آج اس حرکت قرآنی کو جو جاری کیے ہوئے ہیں، انہی کی حرکت کا تسلسل ہے اور اسی مکتب لافانی کو ایک نئے آئینے میں دیکھنا باعث بنتا ہے کہ ہر شخص شہید کیخوشبو سے خود کو پاکیزہ کرسکے۔ شہید سلیمانی کی شخصیت ایک خود تعمیر کردہ شخصیت تھی۔ جب ہم اس عنوان سے اس مکتب لافانی کو دیکھتے ہیں تو سورہ انشراح کے پیغامات کو آپ کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ایسا نہ تھا کہ آپ نے بنا کسی زحمت کے ایک ایسے مکتب کو تشکیل دیا، جس سے کئی مکاتب فکر احیاء ہوئے ہیں۔ بلکہ آپ نے شرح صدر کے حصول میں زندگی کے مصائب و مشکلات کو خود انتخاب کیا اور اس کی جہت کو راہ خدا کی طرف موڑ دیا۔ یہ ایسی راہ بنی، جس پر چلنے والا کبھی گمراہ نہ ہوا اور جس پر چلنے والے کے نشان پہ کئی قدم پیش قدمی کرتے ہیں۔

شہید سلیمانی میں تمام شہداء کا عکس دکھائی دیتا ہے، چاہے وہ کئی شہداء کی گمنامی ہو، پاکیزہ جوانی ہو، شہید قائد الحسینی کی قیادت ہو یا خمینی فکر و خامنہ ای جانبازی و جانثاری ہو، آپ ایسا آئینہ ہیں کہ جس میں ہر شہید کی تصویر واضح ہے۔ آپ کی مثال اس آئینے کی سی ہے، جس میں دیکھ کر انسان میں محاسبے و تزکیے کی شکوفانی ہوتی ہے۔ جو انسان کے قلب سے حُب دنیا کو نکال کر حُب اللہ کو بھر دیتا ہے۔ یوں نگاہ سلیمانی عالم سیاہ کی غلاظتوں میں غرق انسان کے لیے مثل آفتاب ہوتی ہے، جس کے ذریعے ایک خود تعمیر کردہ شخصیت وجود میں آتی ہے۔

اگر ہم یہ سمجھیں کہ 11 مارچ 1957ء کو کرمان میں اُگنے والے اس شجر کی تمام شاخوں پر اگنے والے ہر پھل کے ثمرات و نتائج کو چند تحاریر میں ثبت کیا جاسکتا ہے تو یہ خام خیالی ہے تو ایسے میں اس شجر پہ اُگنے والے پتوں تک رسائی تو خود ایک فکری، عملی صلاحیت و حرکت کا تقاضا کرتی ہے۔ آپ کی زندگی کی ایک لمحے کی نورانی وسعتیں اس قدر لامحدود ہیں کہ ان کو ثبت اور رقم کرنے کے لیے دانشوروں اور ادیبوں کی ایک کتاب بھی کم ہے، لیکن اگر آپ کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا جائے تو وہ چیز جو اس مکتب لافانی کے احیاء کا بنیادی موجب بنی، وہ اُن کی  شہادت طلبی تھی۔ جیسا کہ ایک مرتبہ انھیں بتایا گیا کہ ایک افواہ لوگوں کی زبانوں پر گردش کر رہی ہے کہ آپ شہید ہوگئے ہیں تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے: یہ وہی چیز ہے، جس کی تلاش میں میں نے بیابانوں اور پہاڑوں کی خاک چھانی ہے۔

شہادت طلبی یعنی شہادت آپ کا انتخاب تھا۔ اس انتخاب کا بھی معیار ہے اور وہ معیار زندہ شہید ہونا ہے جو کہ آپ کی خود تعمیر کردہ شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔ چونکہ ابدی شہادت کا تقاضا ہے کہ انسان پہلے زندہ شہید بنے۔ اسی طرح جب آپ اپنے آخری سفر بغداد کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو ایک کمانڈر کہنے لگے کہ آپ عراق نہ جائیں، وہاں کے حالات بہتر نہیں ہیں۔ قاسم سلیمانی نے جواب دیا کہ آپ لوگوں کو ڈر ہے کہ کہیں میں شہید نہ ہو جائوں؟ اس کے بعد قاسم سلیمانی نے ٹھہرائو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پھل جس وقت پک جائے تو باغبان کو اسے اتار لینا چاہیئے، پکا ہوا پھل اگر درخت کے اوپر ہی رہے تو ہ خراب ہو جاتا ہے اور خود ہی نیچے گر جاتا ہے۔ پھر چند کمانڈروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی پک چکا ہے، یہ بھی پک چکا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ اخلاص روحانیت کی معراج آپ میں موجود تھی تو بے جا نہ ہوگا۔ اسی باعث آخری وقت میں آپ کا یہ سکون و اطمینان ہر شے پر غالب تھا۔ آپ کا قلب، قلب مطمئنہ کا مصداق تھا، جس کو کتاب الہیٰ میں خداوند متعال نے اپنی رضا و خوشنودی کا حق دار قرار دیا گیا اور اس سے راضی ہوگیا۔ "يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ، ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً‌" (سورہ فجر) ایسی زیبا ترین شہادت، زندگی کے ہر لمحے میں دی جانے والی شہادت کی جانب متوجہ کرتی ہے، جس نے حاج قاسم کو سردارِ شہداء بنا دیا۔ شہید سلیمانی نے اسی عشق کو خود میں ایسا بویا کہ اپنی زندگی میں "خدا اور خدا کے لیے" کے جذبے کے ساتھ مخلوق خدا سے بے لوث محبت کی۔ آپ کا شہداء سے محبت کرنا، ان کے اہل خانہ کے لیے والہانہ اخلاص بے نظیر ہے۔

حاج قاسم نے اپنے پورے وجود سے شہادت دی اور ظہور مہدی (عج) کے لیے اخلاص و عشق کے ساتھ انتظار کو فروغ دیا۔ اس عاشقانہ انتظار نے آپ کو اس قدر متحرک کر دیا کہ آپ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے اور بارگاہ عشق میں مشغول رہتے۔ غیبت حسین عصر (عج) میں آپ یزید صفت طاغوت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور دشمن کو نیست و نابود کر دیا۔ وہ داعش جو حرم زینب (سلام اللہ علیہا) کو مسمار کرکے ایک بار پھر اہل حسین (عج) پر وار کرنا چاہتا تھا، اس کو اس کے ارادوں میں ناکام کر دیا اور جذبہ عشق سے سرشار ہو کر اہلیبیت اطہار (علیھم السلام) کے دفاع کے لیے عاشقان خدا کے ہمراہ یکجا ہوگئے۔ لیکن آج کا یزید آپ کو مٹانے کے درپے ہوگیا۔ اس غیر انسانی گماں کے ساتھ کہ وہ اس شمع عشق و وفا کو بجھا دے گا، سو اس نے 3 جنوری 2020ء کو شب کی سیاہی میں اپنی گھناؤنی سازشوں کو عملی صورت میں ڈھال دیا۔

مولانا روم کا فارسی میں بہت خوبصورت شعر ہے کہ
فرو شدن چو بدیدی برآمدن بنگر
غروب شمس و قمر را چرا زیان باشد
یعنی "جب چاند اور سورج غروب ہوتے ہیں تو دوبارہ طلوع ہوتے ہیں، ہم ان کے غروب ہونے کو ان کا ختم ہونا نہ سمجھیں۔" اسی طرح یہ درست ہے کہ قاسم سلیمانی کا بدن خاک میں دفن ہوا، لیکن ان کی شخصیت کی ایک نئی ولادت ہوئی، جس نے تمام دنیا کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ وہ نور سلیمانی جو جسم سلیمانی میں محدود تھا، یوں وہ پوری کائنات میں پھیل گیا اور ہر دل کو عشق الہیٰ سے منور کر دیا۔ ہر دل جذبہ عشقِ سلیمانی سے سرشار ہو کر آج یزیدیت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے اور ایک سلیمانی سینکڑوں کی تعداد میں ناصرین کو نصرتِ امام عصر (عج) کے لیے میدان عمل میں لے آیا۔ جیسا کہ از نگاہ دختر شہید زینب سلیمانی: "میرے بابا جان کی مثال خوشبو کی شیشی کی مانند ہے۔ شیشی تو ٹوٹ گئی لیکن خوشبو کل جہاں میں پھیل چکی ہے۔"

شہید قاسم سلیمانی نے اپنے نام کا حق ادا کیا اور خود کو ٹکڑوں میں بکھیر کر امام عصر (عج) کو سنبھال لیا۔ بلاشبہ آج ہر دل میں موجود سردار سلیمانی کی محبت جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی ہی دعا ہے۔ شہید کی زندگی کا ہر پہلو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ حقیقی عاشق خدا و رسول تھے۔ ہر انسان کو شہید کا لہو دعوت دیتا ہے کہ آؤ اور جبر کی تیز دھار سے مت گھبراؤ اور اٹھ کھڑے ہو، اس کی خاطر جو پردہ غیب میں تمہارا منتظر ہے!! آؤ اور مدد کرو، اس کی جو تمہارا مددگار ہے! حقیقی منتظر بنو اس کے جو تمہارا منتظر ہے!! یہ لہو اور اس کی ہر اک صدا ہر عاشق پر قرض ہے، جو واجب ادا ہے۔ جس کی ادائیگی یاد شہداء کی بدولت ہی ممکن ہے، چونکہ شہداء کی یاد شہادت سے کم نہیں۔

آج ہر عاشق خدا پر شہید سلیمانی کے لہو کا قرض واجب ادا ہے۔ جس کو ادا کرنے کے لیے ہمیں ان کی راہ پر چل کر "یا مہدی عج" کے نعروں سے طاغوت کی فضا کو مقفل کرنا ہوگا اور یوں یہی فضائے سلیمانی ظہور مہدی عج کی راہ کو ہموار کرے گی۔
وہ اس جہاں سے رشتہ اگرچہ توڑ گئے ہیں
وہ اپنے خوں کا مگر قرض چھوڑ گئے ہیں
لہو سے ان کے اجالے کا کام لینا ہے
شب سیاہ سے یوں انتقام لینا ہے

تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس نقوی
(صدر نشین البصیرہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملت ایران کے جرائم پیشہ اور شرپسند دشمنوں نے پھر المیہ رقم کیا اور کرمان میں شہیدوں کے مزار کی عطر انگیز فضا میں عزیز عوام کی ایک بڑی تعداد کو شہید کردیا۔  ملت ایران سوگ میں ڈوب گئی اور بہت سے خاندان اپنے عزیزوں اور جگر گوشوں کے غم میں مبتلا ہوگئے۔ سنگ دل مجرم، عوام کا اپنے عظیم کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کے مزار کی زیارت کا عشق و شوق برداشت نہ کر پائے، وہ یاد رکھیں کہ سلیمانی کی روشن راہ کے سپاہی بھی ان کی پستی اور جرائم کو برداشت نہیں کریں گے۔ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہاتھ ہوں یا وہ فاسد اور شرانگیز دماغ ہوں جنہوں نے ان عناصر کی اس گمراہی کی جانب دھکیلا، وہ اسی وقت سے منصفانہ سرکوبی اور سزا کی یقینی آماجگاہ بنیں گے، وہ یاد رکھیں کہ اس طرح کے المیہ انجام دینے پر انہیں انشاء اللہ بڑے سخت جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں سوگوار خاندانوں کے غم میں شامل اور ان کے ہمراہ ہوں اور اللہ تعالی سے ان کے لئے صبر و تسلی کی دعا کرتا ہوں۔ شہیدوں کی پاکیزہ روح ان شاء اللہ خاتون دو عالم اور شہیدوں کی ماں حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی مہمان قرار پائے۔ اس سانحے کے زخمیوں سے اظہار ہمدردی کرتا ہوں اور درگاہ خداوندی میں ان کی شفایابی کا طالب ہوں۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

محترم خواتین، بہنو! اور بیٹیو! خوش آمدید! آپ سب ہماری بچیاں ہیں، ایران کے مستقبل کی  معمار ہیں، مستقبل کی دنیا آپ ہیں۔

یہ جلسہ یہاں تک، بہت اچھا اور مفید تھا۔ میں اس  پروگرام کا اہتمام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان عزیز بچیوں کا جنہوں نے ترانہ پیش کیا، شکریہ ادا کرتا ہوں، اشعار کے مضامین بھی بہت خوب ہیں اور انہیں پیش کرنے کا انداز بھی بہت اچھا تھا۔ اس کا آہنگ اور اجرا بہت اچھا تھا۔

قاری محترم کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دینے والی  خوش زبان و خوش بیان  ہستی  کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

شہیدوں کی شریک حیات، مادران شہدا اور دختران شہدا کا بھی جو اس جلسے میں تشریف لائیں، تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے آپ سب سے عقیدت ہے۔

 آیت اللہ زکزکی کی اہلیہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یہاں تقریر کی۔ یہ چھے شہیدوں کی ماں ہیں۔ ان کے تین بیٹے ایک واقعے میں  اور تین بیٹے دوسرے واقعے میں شہید ہو گئے اور انھوں نے پہاڑ کی طرح صبر کیا، مدتوں جیل میں رہیں اور بے انتہا سختیاں برداشت کیں۔ میں ان فلسطینی خاتون (2) کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے ویڈیو کا ہم نے مشاہدہ کیا اور منتظمین سے میری درخواست ہے کہ میرا شکریہ ان تک پہنچا دیں اور ان سے کہیں کہ  میں ہمیشہ، ہر رات مستقل طور پر ان کے لئے دعا کرتا ہوں، خدا ان کی نصرت کرے۔

جو باتیں اس جلسے میں کہی گئيں، بہت اچھی تھیں۔ یعنی واقعی اگر میں کچھ بھی نہ بولوں اور  انہیں باتوں پر اکتفا کیا جائے جو ان خواتین نے یہاں کہی ہیں، تو بھی یہ جلسہ بہت مفید ہے۔ ورزش کے بارے میں بھی، خواتین کے حقوق کے تعلق سے بھی، دینی فن و ہنر کے سلسلے میں بھی، سوشل میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے خطرات کے حوالے سے بھی اور اسی طرح استثنائی ذہانت کی مالک نابغہ شخصیات کے مسئلے میں، ان کی منصوبہ بندیوں اور پروگراموں کے بارے میں، گھریلو خواتین اور مادران عزیز کی قدردانی میں اور سوشل میڈیا کی بری حالت کے بارے میں، خاتون ڈاکٹروں اور اسپتالوں میں خاتون مریضوں کا خیال رکھنے کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ سب صحیح ہے۔

ان کے گلے شکوے اور تجاویز مجھے دی جائيں۔ یہ میرا کام نہیں ہے۔ حکومتی عہدیداروں کا کا م ہے، لیکن حکام کو تاکید کروں گا کہ انہیں دیکھیں اور ان پر غور کریں۔ امید ہے کہ یہ کام ہوگا۔

یہ جلسہ صدیقہ کبری حضرت  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت باسعات کے نزدیک آنے کی مناسبت سے تشکیل پایا ہے۔ میں چند جملے  آپ کے بارے میں عرض کروں گا، پھر کچھ نکات خواتین کے تعلق سے میں لکھ کے لایا ہوں، وقت کا  لحاظ رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ  انہیں بھی بیان کروں گا۔

حضرت سیدہ نساء العالمین، سیدہ نساء اہل الجنۃ – جو حضرت فاطمہ زہرا( سلام اللہ علیہا) کو کہا گیا ہے– جو باتیں حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے یا امیر المومنین (علیہ الصلاۃ والسلام) نے یا دیگر آئمہ کرام نے آپ کے بارے میں فرمائی ہیں، وہ سب واقعی حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی اس عظمت کو بیان کرتی ہیں جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ واقعی سوائے آل رسول اور  خود حضرت پیغمبر (صلوات اللہ و سلامہ علیہم)  کے  کسی سے  بھی آپ  کی عظمت کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کا مرتبہ اور منزلت بہت عظیم ہے۔

میں صرف ایک حدیث عرض کروں گا جو آپ نے بارہا سنی ہے۔ یہ  ایسی حدیث ہے جس کو شیعہ اور سنی سبھی نے نقل  کیا ہے۔ حدیث یہ ہے کہ "انّ اللہ لیغضب لغضب  فاطمۃ و یرضی لرضاھا"(3)  حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے غضبناک ہونے پر خدا غضبناک ہوتا ہے، آپ کی  رضا اور خوشی پر خدا بھی راضی ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ  جو انسان بھی  اور جو  مسلمان بھی خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو ایسا کام کرنا چاہئے جس سے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خوش ہوں۔ آپ کی سفارشات، آپ کے موقف اور آپ کے احساسات کو اگر ملحوظ رکھا گیا، ان کا خیال رکھا گیا اور ان کی پابندی کی گئی تو خدا خوش ہوگا۔ واقعی کسی بھی انسان کے لئے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس سے بڑی فضیلت اور کیا سوچی جا سکتی ہے۔

 میری نظر میں، ایک مسلمان خاتون، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے بہتر نمونہ عمل اپنے لئے تلاش نہیں کر سکتی بلکہ دنیا کی کسی بھی عورت کو آپ سے بہتر آئیڈیل نہیں مل سکتا۔

چاہے بچپن کا زمانہ ہو، یا نوجوانی کا زمانہ ہو یا اپنی گھریلو زندگی کا دور ہو، اپنے والد کے ساتھ طرز سلوک ہو، شوہر کے ساتھ برتاؤ ہو، بچوں کے ساتھ رابطہ ہو یا گھر میں کام کرنے والی کنیز کے ساتھ سلوک ہو یا سماجی میدان میں، سیاست میں یا خلافت کے مسئلے میں، ان تمام مسائل میں آپ آئيڈیل ہیں۔

 سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سبھی عظمتیں، سرگرمیاں اور مثالی طرزعمل ایک مختصر سی زندگی میں تھا۔ آپ کی حداکثر عمر پچیس سال بتائی گئی ہے۔ روایات میں آپ کی عمر 18 سے 25 برس تک بتائی گئی ہے۔ یہ نمونہ عمل ہے۔

 ہماری بچیاں، ہماری عورتیں، ہمارے اسلامی معاشرے کی محترم  خواتین کوشش کریں کہ اسی جذبے اور فکر کے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پیروی کریں۔ امور خانہ داری میں بھی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی اور علم و دانش کے میدان میں بھی۔ البتہ آپ کے لئے الہام الہی تھا اور  ہمارے اور آپ کے لئے اکتساب ہے۔ آپ کوشش کریں، البتہ الہام الہی بھی مدد کرے گا۔ سبھی میدانوں میں حضرت فاطمہ زہرا کو نمونہ عمل قرار دیجئے  اور آپ کی پیروی کیجئے۔ یہ چند جملے اس عظیم ہستی کے لئے۔

خود خواتین کے موضوع کا جہاں تک سوال ہے تو الحمد للہ آپ سب تعلیم یافتہ ہیں، گوناگوں مسائل سے واقف ہیں کہ اسلام میں خواتین کے مسئلے کو اہمیت دی گئی ہے۔ میرے بیان کی حاجت نہیں ہے لیکن پھر بھی میں چند جملے عرض کروں گا۔

عورت کے مسئلے میں، ایک خاتون کی حیثیت سے اس کا تشخص، خواتین کی اقدار، خواتین کے حقوق، خواتین کے فرائض، خواتین کی آزادی اور اس کی محدودیتیں، یہ سبھی مسائل بہت اہم اور بنیادی ہیں۔  آج دنیا پر مجموعی نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ دو نقطہ نگاہ اور دو نظریات ان تمام مسائل میں موجود ہیں۔ ایک مغرب کا نظریہ ہے جو غیر مغربی ملکوں میں بھی رائج ہو گيا ہے۔

ان تمام مسائل میں جن کا میں نے ذکر کیا، ایک  اسلامی نظریہ بھی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ ان تمام مسائل میں دونوں کا الگ الگ نقطہ نگاہ ہے۔ لہذا ان تمام مسائل میں بحث کرکے جواب حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں ایک نکتہ ہے جو میری نظر میں قابل توجہ ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ مغرب کا تہذیبی اور ثقافتی نظام ان موجودہ مسائل میں بحث کے لئے تیار نہیں ہے۔ ان مسائل میں تحقیق اور بحث سے بھاگتا ہے۔  مغربی تہذیب، مغربی نظام، مغربی تمدن اور مغرب کا ثقافتی نظام ان میدانوں میں، بہت سے سوالات کا جواب دینے اور بحث کرنے کے لئے آگے نہیں آتا بلکہ اپنی بات کو شور و غل، ہلڑ ہنگامے، آرٹ اور فلم کے ذریعے، سوشل میڈیا  کے ذریعے اور زور زبردستی سے کام لے کر آگے بڑھاتا ہے۔ اس کے پاس اپنے نظریے اور اپنے طرز عمل کے لئے منطق اور استدلال نہیں ہے بلکہ مختلف ذرائع سے جو اس کے اختیار میں ہیں، اس کو آگے بڑھاتا ہے۔  بحث کے لئے تیار نہیں ہے۔ سوالوں کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کے پاس کوئی منطق نہیں ہے۔ یہ طرزعمل روز بروز پست تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج خواتین کے مسئلے میں جو روش مغرب میں اور اس کی پیروی میں بہت سے دوسرے ملکوں میں رائج ہے، وہ کسی منطق پر استوار نہیں ہے، لہذا وہ بحث نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی منطق پیش کرتے ہیں۔   

مغربی ماحول میں عورت اپنے نسوانی تشخص اور حرمت کے تحفظ میں زیادہ بے  پروا اور غیر محتاط کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ عورت کی بے حرمتی کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ امریکا اور یورپ کی سرکاری تقریبات میں مرد کے لئے مکمل لباس حتی ٹائی یا 'بو' باندھنا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن عورت نیم عریاں لباس میں شرکت کر سکتی ہے؟ کیوں؟ کیوں ایسا ہے کہ عورت اس طرح آ سکتی ہے لیکن اگر مرد فرض کریں کسی سرکاری تقریب میں نیکر میں آ جائے تو یہ آداب کے منافی اور بد تہذیبی کیوں ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ عورت اگر منی اسکرٹ میں آ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر مرد کا لباس تھوڑا ہلکا ہو تو حرج ہے۔ کیوں؟ مغربی ماحول میں فحاشی اور جسم فروشی روز بروز کیوں بڑھ رہی ہے؟ یہ ہو رہا ہے۔ ہم جنس پرستی کو ترقی پسندی  قرار دیا جاتا ہے اور اس کے منکر کو پسماندہ کہا جاتا ہے۔ کیوں؟  سیاسی ماحول میں بھی اس کی ترویج کی جا رہی ہے اور سماجی ماحول میں بھی۔ ملکوں کے صدور اور سربراہان مملکت اس کی ترویج کر رہے ہیں اور بعض اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اس طرح ہیں! کیوں؟

 یہ کون سی منطق ہے؟ مغرب کے لا ابالی ماحول میں سہ جانبہ اور چہار جانبہ جنسی مسائل – خود انھوں نے جو اعداد و شمار دیے ہیں اور جو اطلاعات خود انھوں نے ہمیں دی ہیں، اور ہم جانتے ہیں، یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے، یہ اطلاعات آشکارا ہیں، ( یہ سہ فریقی اور چہار فریقی جنسی مسائل) کیوں روز بروز بڑھ رہے ہیں؟ وہ تمام چیزیں جو خاندان کو تباہ کرتی ہیں، مغرب میں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ یہ تمام باتیں خاندان کی بنیادیں ختم کر رہی ہیں۔ جنسی آزادی اور جنسی جارحیت کا پھیلاؤ خاندان  کو ختم کر رہا ہے۔

 میں نے چند سال قبل (4) ایک امریکی صدر (5) کی کتاب سے نقل کیا۔ اعداد و شمار واقعی وحشتناک  ہیں۔ جنسی زیادتی کے اعداد و شمار،  بے راہروی کے اعداد و شمار۔ جنسی جارحیت پر سزا نہیں ملتی لیکن حجاب پر سزا ہے!

یہ پستی، یہ ذلالت کہ کوئی کسی باحجاب عورت کے ساتھ تشدد کرے اور اس کی شکایت عدالت میں کی جائے تو عدالت کے اندر اس عورت کو چاقو مارکر قتل کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (6) اب اس شخص کو کچھ مدت کے لئے جیل بھیج دیتے ہیں لیکن حجاب کے خلاف یہ مہم اور یہ اقدام برا کام نہیں سمجھا جاتا۔ کیوں؟ یہ سوالات بے جواب کے ہیں۔ ان کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ امریکا اور یورپ کے کسی بڑے اجتماع میں ایک ایرانی عہدیدار سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ ہم جنس پرستی کے موافق ہیں؟ اگر وہ کہہ دے نہیں! تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں! اس کی وجہ کیا ہے؟ا س کی منطق کیا ہے؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یعنی مغربی دنیا  میں عورت کے مسئلے میں، عورت سے متعلق مسائل میں، معاشرے میں عورت کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، ان کاموں کی کوئی منطق نہیں ہے۔ اس لئے اس سلسلے میں بحث کرنے سے بھاگتے ہیں۔

میں نے عرض کیا کہ وہ اپنے طرزعمل کی ترویج میں وسائل سے کام لیتے ہیں۔ اس میں اچھی مہارت رکھتے ہیں۔  فلم بناتے ہيں، کتاب لکھتے ہیں، مضامین لکھتے ہیں، پیسے دیتے ہیں، فن اور آرٹ سے تعلق رکھنے والوں، ادبی اور سیاسی  شخصیات کو (اپنی حمایت میں) بولنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مراکز قائم کرتے ہیں-عورتوں سے متعلق مراکز – اور یہ نام نہاد بین الاقوامی تنظیمیں ہر اس ملک کو جو ان کے طرزعمل کا مخالف ہو نمبر دیتے ہیں، اس کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے چارٹ میں سب سے نیچے اس کا نام رکھتے ہیں۔   

اس مسئلے پر بولنے کے لئے بہت کچھ ہے اور میں ان پر بہت بول چکا ہوں۔ گزشتہ روز میرے لئے ایک کتاب لائے جن میں وہ باتیں چھپی تھیں جو میں نے کہی تھیں۔  میں نے یہ کتاب نہیں دیکھی تھی۔ پڑھا تو معلوم ہوا کہ وہ بہت سی باتیں جو میں نے آج یہاں بولنے کے لئے تیار کی تھیں، اس کتاب میں موجود ہیں اور اس سے پہلے بارہا کہی جا چکی ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں بہت کچھ کہا ہے۔ میں ایک جملے میں عرض کروں گا کہ بہت  ہی حیاتی اور اہم مسئلے، خواتین کے بارے میں مغربی تہذیب کی پالیسی اور طرز عمل  
 کے  دو عوامل ہیں، مالی فائدہ اور لذت کا حصول اور ان دونوں کی تفصیل اور تشریح ہے۔ مالی فائدہ حاصل کرنے کے بارے میں، میں اس سے پہلے بات کر چکا ہوں اور فی الحال اس بارے میں بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ بہرحال مغرب میں خواتین کے مسئلے میں مغرب کا طرزعمل یہ ہے۔ 

اسلام کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام کا طرز عمل منطقی ہے، دلیل کے ساتھ ہے اور اس سلسلے میں اس کا بیان واضح  اور شفاف ہے۔ عورت کے بارے میں اسلام کا نقطہ نگاہ اس کا ایک قوی پہلو ہے۔ میں یہ بات عرض کر دوں کہ بعض لوگ یہ نہ سمجھیں کہ خواتین سے متعلق مسائل میں ہمیں بیٹھ کر جواب دینا چاہئے۔ جی نہیں،خواتین سے متعلق ہر مسئلے میں اسلام کے پاس  محکم منطق اور مضبوط عاقلانہ استدلال ہے۔ چاہے وہ جگہ ہو جہاں اسلام جنسیت کی نفی کرتا ہے اور چاہے وہ جگہ جہاں جنسیت کو نمایاں کرتا ہے۔ سب کے لئے اس کے پاس منطقی استدلال ہے۔

اسلام بعض کلی معاملات میں جنسیت کو نظر انداز کرتا ہے۔ بحث عورت اور مرد کی نہیں ہے بلکہ انسانی کرامت کا مسئلہ ہے: لقد کرمّنا بنی آدم ۔(7) یہاں جنسیت کا مسئلہ نہیں ہے۔ انسانی قدریں، عورت اور مرد دونوں میں مساوی اور یکساں ہیں اور مرد کے ساتھ اس کی اقدار کی نسبت میں، جنسیت کا عمل دخل نہیں ہے: "والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر"(8) الی آخر۔ "انّ المسلمین و المسلمات والمومنین و المومنات والقانتین و القانتات" (9) الی آخر۔ سورہ احزاب کی آیت ہے۔ سب خدا کے نزدیک معنوی درجات کی بلندی میں یکساں ہیں۔ یعنی نہ اس کو اس پر ترجیح حاصل ہے اور نہ اس کو اس پر۔ دونوں کو ہی مشابہ استعداد کے ساتھ اس راہ میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی محنت پر منحصر ہے۔ ایسی عورتیں بھی ہیں کہ کوئی بھی مرد ان کے پائے کا نہیں ہے۔ بنابریں جنسیت مد نظر نہیں  ہے۔  

البتہ اسی معنوی مراتب میں بعض جگہوں پر خاص وجوہات سے، خداوند عالم  نے جنس زن کو ترجیح دی ہے۔ جیسے وہی آیہ کریمہ جس کی تلاوت کی گئی "و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرائۃ فرعون(10) حضرت موسی  کے معاملے میں بعض  انسان ایسے ہیں جن کا حضرت موسی کے تعلق سے خاص طور پر نام لیا گیا ہے اور خاص طور پر ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ جناب ہارون ہیں، حضرت خضر ہیں، حضرت موسی کے ساتھی اور رفیق ہیں۔ چند لوگ ہیں جن کا قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے لیکن کسی کے لئے بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ نمونہ عمل ہے۔ "مثل" یعنی نمونہ اور آئیڈیل۔ خداوند عالم نے تمام مومن انسانوں کے لئے دو خواتین کو اسوہ اور نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ ایک فرعون کی بیوی اور ایک حضرت مریم۔ ومریم ابنۃ عمران الّتی احصنت فرجھا (11) یہاں خداوند عالم نے خود حضرت موسی کو "مثل" اور نمونہ نہیں کہا ہے، فرعون کی بیوی کو نمونہ کہا ہے جس نے حضرت موسی کو پالا ہے۔ خود حضرت عیسی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ان کی ماں کا ذکر کیا ہے۔  یہ ایک طرح سے مرد پر عورت کی برتری ہے،  اس کی وجوہات ہیں اور میری نظر میں یہ وجوہات واضح ہیں۔ چونکہ مرد کی جنس میں اور اس کے اندر جو خصوصیات پائی جاتی ہیں، ان کی وجہ سے، اس کے اندر برتری کی طلب ہے، خاص طور اس دور میں جب قرآن نازل ہوا ہے، ایسا ہی تھا۔ خداوند عالم اس (برتری) کی نفی کرنا چاہتا ہے: یہ باتیں کیا ہیں؟ چونکہ مثال کے طور پر اس کی آواز بھاری ہے، چونکہ اس کا قد لمبا ہے، چونکہ اس کا سینہ چوڑا ہے، اس لئے اس کی اہمیت زیادہ ہے؟ نہیں! اس کو اسی عورت اور اسی خاتون کی پیروی کرنی ہے اور اس کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دینا ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک  شخص پیغمبرکے پاس آیا اور عرض کیا کہ من ابرّ۔ زیادہ نیکی کس کے ساتھ کروں؟ پیغمبر فرماتے ہیں "امّک" (12) اپنی ماں کے ساتھ۔ اس کے بعد وہ پوچھتا ہے اس کے بعد کس کے ساتھ؟ پیغمبر نے فرمایا اس کے بعد بھی اپنی ماں کے ساتھ، اس نے تیسری بار پوچھا پھر کس کے ساتھ؟ پیغمبر نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ۔ یعنی پیغمبر تین بار فرماتے ہیں کہ ماں کے ساتھ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں کو باپ پر تین گنا برتری حاصل ہے۔  اس سے خاندان میں عورت کی منزلت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تاکید کے لئے ہے۔ یعنی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ معنوی راہ میں، معنوی بلندی میں، حقیقی انسانی قدروں میں جنسیت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ایک معاملے میں ایک کو دوسرے پر ترجیح حاصل ہے تو وہ ترجیح عورت کو مردوں پر حاصل ہے۔ میں نے ترجیح کی کوئی اور جگہ نہیں دیکھی۔ اس کے بعد تمام جگہوں پر جنسیت مد نظر نہیں ہے۔

در اصل سماجی ذمہ داریاں بھی اسی طرح ہیں۔ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ سیاست اور ملک کے بنیادی معاملات میں مشارکت خواتین کے فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ یہ عورتوں کا حق بھی ہے اور فریضہ بھی۔ یعنی آپ نے واجب کر دیا ہے کہ خواتین ملک کے مستقبل کے فیصلوں اور بنیادی ذمہ داریوں میں شریک ہوں۔ یہ خود ایک طویل معاملہ ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان معاملات میں عورت اور مرد میں کوئی فر‍ق نہیں ہے۔

امور معاشرہ کی انجام دہی: من اصبح و لم یھتمّ بامور المسلمین فلیس بمسلم۔(14) یہ جو فرمایا ہے کہ "لیس بمسلم" یعنی چاہے وہ عورت ہو یا مرد، آپ صبح جب اٹھتی ہیں تو چاہے گھریلو عورت ہوں، ملازمت پیشہ ہوں، صنعت کار ہوں، جو کام بھی کرتی ہوں، معاشرے کی فکر میں رہیں۔ یعنی یہ دیکھیں کہ معاشرہ کس حال میں ہے۔ اب کتنی مدد کر سکتی ہیں اور  کیا کردار ادا کر سکتی ہیں یہ دوسری بات ہے۔ سبھی افراد کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن یہ اہتمام  اور فکر ہمہ گیر ہے۔ یہ اہتمام کرنا، فکر کرنا اور سوچنا، سب کا فریضہ ہے۔ اس میں بھی جنسیت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یا یہی "من سمع رجلا ینادی یا للمسلمین"(15) یہ خاتون جو ابھی تقریر  کر رہی تھیں کہ انھوں نے کہا کہ ہم نے فلسطین کے قضیے میں اور غزہ کے معاملے میں اپنا راستہ بند کر دیا ہے، ورنہ آ سکتے تھے۔ اب فرض کریں یہ خاتون ڈاکٹر ہیں، یہ وہاں رہ کر مریضوں، زخمیوں، بچوں اور عورتوں کی مدد کر سکتی ہیں۔ ہر ایک کا ایک کردار ہے لیکن بنیادی چیز یہ فکر ہے، یہ فریضے اور ذمہ داری کا احساس ہے، یہ عام ہے اس میں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے۔ اسلام نمایاں طور پر ان باتوں کو بیان کرتا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو اسلام میں واضح ہیں اور ان کو بیان کیا گیا ہے۔

لیکن خاندانی امور میں، یقینا ایسا نہیں ہے۔ خاندان سے متعلق فرائض یکساں نہیں ہیں۔ ہر ایک کا فریضہ اپنی نوعیت میں الگ ہے۔ امکانات، فطری صلاحیتيں، ہر ایک کے لئے الگ فریضے کی متقاضی ہیں۔ یہاں جنسیت کا کردار ہے۔  یہ جو مطلق جنسی مساوات کا سلوگن دیتے ہیں، یہ غلط ہے۔ ہر جگہ جنسی مساوات (صحیح) نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر کیوں نہیں، برابری ہے، لیکن بعض جگہوں پر نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔ صحیح بات، جنسی انصاف ہے۔ جنسی انصاف ہر جگہ معتبر ہے۔ عدل یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا۔ عورت کی روحانی اور فطری ساخت، عورت کی جسمانی ساخت، عورت کے  جذبات کی ساخت بعض مسائل کی متقاضی ہے۔ بچے پیدا کرنا، بچوں کی دیکھ بھال، بچوں کی پرورش، عورت کا کام ہے۔ مرد سے یہ کام نہیں ہو سکتا، خداوند عالم نے اس کو اس کام کے لئے پیدا نہیں کیا ہے۔ وہ دوسرے کام کے لئے ہے۔ گھر سے باہر کا کام، گھر کی مشکلات کو حل کرنا۔ لیکن خاندانی حقوق میں دونوں مساوی ہیں: ولھنّ مثل الذی علیھن بالمعروف۔ (16) یعنی کنبے میں جتنا حق مرد کا ہے اتنا ہی حق  عورت کا بھی ہے۔ یہ قرآن کی آیت ہے۔ لہذا خاندانی حقوق میں دونوں برابر ہیں۔ لیکن خاندانی فرائض میں نہیں۔ البتہ بعض چيزیں ایسی ہیں کہ عورتوں کے تعلق سے ان کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ ان خواتین کی تقاریر میں بھی ان میں سے بعض کا ذکر تھا، میں نے بھی نوٹ کیا ہے۔

(مثال کے طورپر) خواتین کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ خاندان کے اندر سلامتی۔ عورت کو مرد کے ساتھ سکون اور سلامتی کا احساس ملنا چاہئے۔ گھر کی چار دیواری، آسایش اور سلامتی کی جگہ ہے۔ اگر مردوں کا طرزعمل ایسا ہو کہ عورت اس احساس سلامتی سے محروم ہو جائے، عورت خود کو غیر محفوظ سمجھے، شوہر بد زبانی کرے، یا اس سے بہت بدتر اور زیادہ وحشیانہ، ہاتھ اٹھائے تو یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ اس کا راستہ کیا ہے؟ راستہ یہ ہے کہ سخت قوانین وضع  کئے جائيں۔ میں نے یہ بات بارہا کہی ہے۔(17)  ( کہ سخت قوانین بنائے جائيں۔) اشارہ کیا گیا ہے اس قانون کی طرف جو پارلیمنٹ میں ہے۔ اس پر ضرور کام ہونا چاہئے۔ میں بھی سفارش کرتا ہوں، آپ بھی اپنے طور پر اس کی پیروی کریں۔ ان مردوں کے لئے سخت قانون ہونا چاہئے جو گھر کے اندر ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ  عورت خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ گھر کے باہر بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ ایک بات۔

ایک اور بات سماجی امور اور مینجمنٹ کا مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں بعض خواتین نے مجھ سے سوال کیا ہے۔ یہاں بھی جنسیت کا مسئلہ  نہیں ہے۔ مختلف مینجمنٹ، مختلف سماجی اور سرکاری کاموں میں عورتوں کی موجودگی کی کوئی محدودیت نہیں ہے۔ اب فرض کریں کہ جیسے امریکیوں نے ہمارے ایک پڑوسی ملک میں یہ ضروری قرار دے دیا تھا کہ دفاتر میں پچیس فیصد عورتیں ہوں۔ یہ لازمی قرار دینا غلط ہے۔ 25 فیصد کیوں؟ 35 فیصد 20 فیصد۔ یہ عدد  معین کرنا، تناسب معین کرنا، بے معنی ہے۔ یہاں معیار صلاحیت ہے۔ مختلف مینجمنٹ  میں مختلف سماجی اور سرکاری کاموں میں، کسی جگہ ایک تعلیم یافتہ اور تجربہ کار، کارآمد خاتون، مثال کے طور پر وزارت کے لئے اس مرد سے  بہتر ہے، اس کو وزارت کے لئے نامزد ہونا چاہئے۔ اس عورت کو وزیر ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے بھی ایسا ہی ہے۔ فرض کریں کسی شہر سے ایک یا دو افراد پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہونے ہیں۔ ایک یا  دو خواتین  اور ایک یا دو مرد امید وار ہوتے ہیں، تو یہ دیکھنا چاہئے کہ کون زیادہ باصلاحیت ہے۔ صلاحیت کو نظر میں رکھنا چاہئے۔ یہاں کوئی ترجیح نہیں ہے۔ کوئی محدودیت نہیں ہے۔ یعنی اسلام کا نظریہ یہ ہے۔  یہاں بات صلاحیت کی ہے۔

 البتہ خواتین ان عہدوں پر کام کر سکتی ہیں لیکن اس طرح ہونا چاہئے کہ ایک عورت کی حیثیت سے ان کا جو اہم اور بنیادی کام ہے، یعنی امور خانہ داری اور بچوں کی پیدائش اس سے محروم نہ ہوں۔ بعض شعبوں میں عورتوں کی موجودگی واجب کفائی ہے، جیسے میڈیکل کا شعبہ ہے۔ میڈیکل کے شعبے میں عورتوں کی موجودگی واجب ہے۔ اتنی خاتون ڈاکٹروں کا ہونا ضروری ہے کہ عورتوں کی ضرورت پوری ہو جائے۔ عورتوں کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا چاہئے۔

 اسی طرح ٹیچنگ بھی خواتین کے لئے واجب کفائی ہے۔

 اب ممکن ہے کہ بعض اوقات اس واجب کفائی اور امور خانہ داری، یا بچوں کی پیدائش یا اس آرام و آسائش اور چھٹی میں جو عورتوں کے لئے ضروری ہے، تضاد پیدا ہو جائے یا کام کے اوقات کا مسئلہ ہو مثال کے طور پر اس کے کام کا وقت ایسا ہو کہ وہ کام بھی کر سکے اور امور خانہ داری بھی دیکھ سکے۔ اب اگر دونوں میں تضاد ہو تو ملک کے حکام کو اس کی فکر کرنا چاہئے۔ یعنی تعداد اتنی بڑھا دیں  کہ  مثلا ایک (خاتون)  ٹیـچرکے لئے اگر ضروری ہو کہ  پانچ دن کالج میں رہے اور مثال کے طور پر وہ چار دن رہ سکتی ہے تو اس خلا کو پر کرنے کے لئے ایک اور ٹیچر رکھی جائے۔ اسی طرح میڈیکل کا شعبہ ہے۔ بنابریں میڈیکل کے شعبے میں، سرکاری اور غیرسرکاری ملازمتوں میں، مینجمنٹ میں، بنیادی سروسز میں، ان  امور میں جو واجب کفائی ہیں، کوئی محدودیت نہیں ہے اور اگر خواتین سے متعلق امور خانہ داری سے تضاد پیدا ہو تو ایسا حل نکالنا چاہئے کہ دونوں ہی  امور انجام پا سکیں۔

البتہ میری نظر میں کوئی منافات نہیں ہے۔ میں ایسی خواتین کو جانتا ہوں کہ جو بہت ہی سنگین سماجی امور انجام دیتی تھیں، علمی کام اور یونیورسٹی میں تعلیم بھی اور غیر علمی امور بھی اور اسی کے ساتھ انھوں نے کئی بچوں کو پالا اور ان کی پرورش اور تربیت کی اور بہت اچھی طرح ان امور کو انجام دیںے میں کامیاب رہیں۔ بنابریں ان میں کوئی منافات نہیں ہے۔

اسلام کی نگاہ میں دو باتیں اہم ہیں۔ یعنی میں نے یہ جو عرض کیا کہ خواتین کے لئے سبھی میدانوں میں، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا راستہ کھلا ہوا ہے، یہ دو اہم نکات کے ساتھ ہے اور اسلام نے ان دونوں نکات کو بہت اہمیت دی ہے: ایک نکتہ  خاندان کا مسئلہ ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا اور دوسرا نکتہ، جنسی کشش کے خطرے کا مسئلہ ہے۔ جنسی کشش کا خطرہ! اسلام کی نگاہ میں یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔  جنسی کشش سے بہک جانے کا خطرہ انتہائی سنگین ہے اور ایسا ماحول عورت یا مرد کو مشکل میں ڈال سکتا ہے، اسلام ہمیں ایسے ماحول اور فضا سے پرہیز کا حکم دیتا ہے۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ حجاب اس سلسلے میں ہے۔ حجاب ان چیزوں میں سے ہے جو جنسی کشش کے خطرے  میں رکاوٹ ڈالتی ہیں اور اس کو روکتی ہیں۔ اس لئے اسلام میں حجاب کی تاکید کی گئی ہے۔ سورہ احزاب میں دو جگہ حجاب کا مسئلہ (بیان کیا گیا ہے): واذا سالتموھنّ متاعا فاسئلوھنّ من وراء حجاب۔(18) جو لوگ پیغمبر کے گھر جاتے ہیں، مثلا فرض کریں کہ مہمان ہیں، کھانا لینا چاہتے ہیں تو پیغمبر کی ناموس کے سامنے نہ جائيں، پردے کے پیچھے سے کھانا لیں: اتنی دقت نظر سے کام لیا گیا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک دوسری آیت میں بھی یہی مضمون پایا جاتا ہے۔  

 بنابریں ان دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ حجاب کی بھی حقیقی معنی میں پابندی ہونی چاہئے اور خاندان کے مسئلے کا، ماں کے کردار کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے جو اہم ترین کردار ہے۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلقت بشری میں ماں کا کردار سارے کرداروں سے برتر ہے۔ اس لئے کہ اگر ماں نہ ہو، بچے کی پیدائش نہ ہو، حمل نہ ہو، بچے کو دودھ پلانا نہ ہو تو نسل بشر ختم ہو جائے گی۔ بنابریں عالم خلقت اور انسان کے مادی عالم وجود میں اہم ترین کردار ماں کا ہے۔ اسلام اس کو اہمیت دیتا ہے آپ بھی اس کو اہمیت دیں، اس پر عمل کریں اور جنسی کشش کے مسئلے کا بھی خیال رکھیں۔

بہت سے کام ہیں جو باہمی تفاہم سے انجام پاتے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ گھر کے اندر کام کرنا خواتین کا فریضہ ہے۔ نہیں عورت کا مطلقا، فریضہ یہ نہیں ہے کہ گھر کے اندر کام کرے۔ کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور صاف  ستھرا رکھنا عورت کا فریضہ نہیں ہے۔ عورت اور مرد دونوں کو باہمی تفاہم سے کام کرنا چاہئے۔ اب بعض مرد خوش قسمتی سے یہ کام کرتے ہیں، گھر کے اندر کام کرتے ہیں، عورت کی مدد کرتے ہیں اور بعض امور اپنے ذمے  لیتے ہیں۔ بہرحال یہ عورت کے فرائض میں نہیں ہے۔ اس کو سب جان لیں۔

 شادی کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ اسلامی کتب میں تاکید کی گئی ہے کہ شادی میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ نوجوانوں کو جلدی شادی کرنا چاہئے۔ یہ اسی جنسی کشش کے خطرے کے روک تھام کے لئے ہے۔ البتہ اس کا مطلب بچوں کی شادی نہیں ہے جس کی کچھ لوگ بات کرتے ہیں۔ بلکہ نوجوان عورت اور مرد، نوجوان  لڑکے اور  لڑکیا ں جہاں تک ممکن ہو، وقت پر شادی کریں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات اچھی ہے اور خود ان کے لئے بھی بہتر ہے۔ معاشرے کے لئے بھی بہت بہتر ہے۔ بنابریں، اگر مسئلہ حجاب کو دیکھیں تو اس کو عورت کو محروم کرنے کا وسیلہ نہ سمجھیں۔ یہ عورت کی محرومیت نہیں ہے، یہ دراصل حصول ہے، حجاب عورت کو سلامتی اور سیکورٹی فراہم کرتا ہے۔ تحفظ اور سلامتی کا موجب بنتا ہے۔   

 اس وقت اسلامی جمہوریہ کے اندر اگرچہ ہم حقیقی معنی میں ابھی اسلامی نہیں ہو سکے ہیں، میں نے بارہا یہ کہا ہے کہ ابھی ہمارا کام ادھورا ہے، لیکن آپ ملاحظہ فرمائیں کہ اسی اسلامی جمہوریہ میں خواتین کی پیشرفت ایسی ہے کہ ماضی کا اس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ علم میں، تحقیق میں، سماجی سرگرمیوں میں، آرٹ اور ہنر میں، کھیل کود میں، سبھی کاموں میں کتنی دانشور خواتین ہیں، کتنی خواتین یونیورسٹیوں میں پڑھاتی ہیں، کتنی اعلی تعلیم یافتہ خواتین ہیں، کتنی قلمکار خواتین ہیں۔ انواع و اقسام کی ان کی تحریریں، علمی تحریریں، لکھنے کے آرٹ اور ہنر کی ماہر کتنی خواتین ہیں، افسانہ نویسی اور شاعری وغیرہ میں (کتنی خواتین ہیں)  انقلاب سے پہلے ان کا دسواں حصہ بھی نہیں تھا۔ میں سماجی میدان میں پوری طرح موجود تھا (اور جانتا ہوں)  آج الحمد للہ ان میدانوں میں ملک غنی ہے اور یہ اسلام کی برکت ہے۔ اگرچہ ہم نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ابھی ادھورا اسلامی ملک ہے اور ہم اب تک پوری طرح اسلام نافذ نہیں کر سکے ہیں۔ اگر اسلام پوری طرح نافذ ہو جائے تو آج جو توانائی ہے اس کی کئی گنا ہو جائے گی۔ بہت بہتر ہوگی۔

 میں اپنی گفتگو کے آخر میں انتخابات کے مسئلے کا بھی اشارتا ذکر کروں گا۔ انتخابات کے مسئلے میں، میں نے چند روز قبل بھی اس کی اہمیت بیان کی ہے۔ (19) آپ خواتین اس میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اپنے شوہر اور اولادوں کو انتخابات کے حوالے سے فعال کر سکتی ہیں اور امیدواروں کی صحیح تحقیق میں مدد کر سکتی ہیں۔ خواتین بعض مسائل میں، افراد کی شناخت، تحریکوں اور اسٹریٹجی کی شناخت میں مردوں سے زیادہ ظرافت اور دقت سے کام لیتی ہیں لہذا انتخابات میں امیدواروں کی شناخت پولنگ اسٹشنوں پر لوگوں کے  جانے  کے حوالے سے اپنے گھر کے اندر بھی اور گھر سے باہر بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

 آپ لوگوں سے مل کے مجھے بہت خوشی ہوئی، یہ جلسہ تھوڑا طولانی ہو گیا اور ظہر کا وقت گزر گیا۔ ان شاء اللہ آپ سب کامیاب و کامران رہیں۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

 1۔ اس جلسے کے شروع میں جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت باسعادت اور یوم خواتین کے قریب آنے کی مناسبت سے انجام پایا، دس خواتین اور لڑکیوں نے مختلف مسائل میں اپنے نظریات اور تجاویز پیش کیں۔ 

2۔ فلسطینی خاتون صحافی محترمہ اسراء البحیصی نے غزہ سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اس جلسے سے خطاب کیا

3۔ امالی شیخ مفید، ص 95

4۔ ملک کی ممتاز خواتین  کے اجتماع سے خطاب 19-4-2014،

5۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی کتاب

6۔ 2009 کے اواسط میں مروہ شربینی کے قتل کی طرف اشارہ۔ یہ مصری خاتون جرمنی میں مقیم تھی، الیکس وینز نامی  ایک روسی نژاد جرمن باشندے نے اس خاتون کو عدالت کے اندر چاقو سے  18 وار کرکے قتل کر دیا۔ اس مصری خاتون نے عدالت میں اس کی شکایت کی تھی۔   

7۔ سورہ اسراء کی آیت نمبر 70 "اور یقینا ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی۔"

8۔ سورہ توبہ، آیت 71  " اور مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے دوست ہیں جو اچھے کاموں کی تلقین کرتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔ 

 9۔ سورہ احزاب آیت نمبر 35  "مسلمان مرد اور عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، اور عابد مرد اور عبادت کرنے والی عورتیں"

  10۔ سورہ تحریم، آیت نمبر 11، " اور جولوگ ایمان لائے ہیں ان کے لئے خدا نے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کی ہے۔"

11۔ سورہ تحریم، آیت نمبر 12، "اور مریم بنت عمران کو وہی جس نے اپنے آپ کو پاکدامن باقی رکھا"

12۔ کافی جلد 2، صفحہ 159 

13۔ صحیفہ امام، جلد 6 صفحہ 301، 3-3-1979 کو قم میں خواتین کے اجتماع سے خطاب

14۔ کافی، جلد 2، صفحہ 163 (تھوڑے سے فرق کے ساتھ)

 15۔ کافی، جلد 2 صفحہ 164

  16۔ سورہ بقرہ  آیت نمبر 228

17۔ خواتین کے اجتماع سے خطاب 4-12-2022

18۔ سورہ احزاب، آیت نمبر 53

19 صوبہ کرمان اور خوزستان کے لوگوں کے اجتماع سے خطاب

 23-12-2023

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کی شام شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اہل خانہ سے ملاقات میں، اس شہید کے نام، یاد اور خصوصیات کے پہلے سے زیادہ فروغ کو شہید قاسم سلیمانی کے اخلاص کا نتیجہ بتایا اور زور دے کر کہا کہ اس شہید والا مقام کا سب سے اہم رول اور خدمت، علاقے میں استقامتی محاذ کو حیات نو عطا کرنا ہے۔

انھوں نے جنرل شہید سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر ہونے والی اس ملاقات میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تین مہینے سے جاری غزہ کی استقامت، مزاحتمی محاذ کے وجود کی وجہ سے ہے، کہا کہ شہید سلیمانی نے مزاحتمی محاذ کے احیاء کے لیے بہت جدوجہد کی اور اس کام کو پورے اخلاص و تدبیر، لگن، عقل اور اخلاق سے آگے بڑھایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آئي آر جی سی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاآنی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ استقامتی محاذ کو مضبوط بنانے کا کام بدستور جاری رہنا چاہیے۔

اس ملاقات میں، جس میں آئي آر جی سی کے کمانڈر اور آئي آر جی سی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر بھی موجود تھے، شہید قاسم سلیمانی کی بیٹی محترمہ زینب سلیمانی نے شہید سلیمانی کے جذبات، عادات و خصوصیات کو نوجوان نسل تک پہنچانے کے لیے ثقافت اور فن و ہنر کے شعبوں میں انجام پانے والے اور اسی طرح سے جاری اقدامات کے بارے میں ایک مختصر رپورٹ پیش کی۔