سلیمانی

سلیمانی

 غزہ اس وقت ایسا میدان جنگ ہے، جس میں مظلوم فلسطینی اور ظالم صیہونی ناجائز ریاست اسرائیل برسر پیکار ہیں۔ فلسطینیوں پر ہر وقت موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ آبادیاں کھنڈرات بن چکی ہیں۔ ہسپتالوں پر بھی حملے جاری ہیں۔ مسلم عرب ریاستیں قریب ہی موجود تو ہیں مگر مدد کی جرات نہیں رکھتیں۔ مزاحمتی تحریک حماس کے مجاہدین اپنی طاقت کے مطابق اسرائیلی مظالم کا جواب دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر حکمران بے حسی اور بے شرمی کی چادر لئے سو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی قراردادیں بھی ظالم اسرائیل نے ہوا میں اڑا دی ہیں۔ گویا عالمی طاقتیں بھی اسرائیل کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل میں آپریشن شروع کرنیوالی حماس کے مجاہدین بڑی تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کی قربانیوں کا لفظوں میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ بہادری اور صبر کی تصویر یہ فلسطینی عوام کہ جنہیں پتہ ہے کہ اگلے ہی مرحلے میں اسرائیلی بمباری میں مارے جائیں گے لیکن وہ اپنی سرزمین کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔

ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی اپنے اختتام کو بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ 44 سال سے جمعة الوداع بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی اپیل پر یوم القدس کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں سے عالمی سطح پر اظہار یکجہتی کا آغاز انقلاب اسلامی کے ابتدائی دنوں میں ہی 1979ء میں شروع ہوگیا تھا۔ رہبر امت کی دوراندیشی کے باعث عالمی سطح پر مسلمانوں کو ہم آواز کرنے کا آغاز بھی انقلاب اسلامی کیساتھ ہی کر دیا گیا تھا۔ اس کے فکری اثرات دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مرتب ہوئے۔ سرور کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت عید میلادالنبیﷺ کے عنوان سے پاکستان میں جس جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، اس کی مثال شاید کہیں اور نہیں ملتی۔ برادران اہلسنت کے مطابق 12 ربیع الاول اور شیعہ نقطہ نظر سے 17 ربیع الاول کو یوم ولادت سید المرسلین پر اختلاف ہے، لیکن رہبر انقلاب امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کو اختلافی نقطے پر متحد کرنے کی ابتدا 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک "ہفتہ وحدت" کا نام دے کر دی۔ دنیا بھر میں اعلان کیا کہ عید میلادالنبیﷺ کو پورے ہفتہ منائیں گے۔

میں تحریک جعفریہ کے کارکن کے طور پر اہلسنت برادران کی طرف سے منعقد کئے گئے عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ اس حوالے سے ریلوے اسٹیشن پر جناب آفتاب ربانی کی قیادت میں عید میلاد النبیﷺ کے پروگرام کا انعقاد اور بعد ازاں درود و سلام کا ورد کرتے ہوئے جلوس کا داتا دربار پر اختتام، شرکاء جلوس کی دستار بندی رسول اللہﷺ سے عقیدت کا ایک انداز تھا۔ امام خمینیؒ کی وفات کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ ایران نے بانی انقلاب اسلامی کے مشن کو جاری رکھا۔ اتحاد امت کی فضا کے قیام کیلئے "ہفتہ وحدت" کی مناسبت سے ماہ ربیع الاول میں تہران میں کانفرنس کا انعقاد اور اس میں دنیا بھر سے سنی شیعہ علماء کی شرکت اتحاد کے عملی اظہار کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اسی طرح ماہ رمضان المبارک میں حسن قرات کے مقابلے کی میزبانی ایران کا اچھا اقدام ہے۔ حال ہی میں مانسہرہ کے ایک نوجوان قاری ابوبکر بن ثاقب ظہیر یہ مقابلہ جیت کر آئے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ امام خمینیؒ کے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے پیغام کی روشنی میں پاکستان میں قائد ملت اسلامیہ نمائندہ ولی فقیہ علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی اپیل پر پاکستان میں یوم القدس کے جلوس نکالنے کی ابتدا کی گئی۔ تحریک جعفریہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے لاہور میں ناصر باغ سے پنجاب اسمبلی ہال چوک تک پہلا جلوس نکالا تو پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر دیا۔ اسی جلوس میں ہمارے دوست سید غضنفر علی بخاری بھی شامل تھے۔ جب پولیس سے ہمارا آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے پولیس سے ڈنڈے چھین کر انہیں پر برسائے اور پھر پولیس نے بھی ہم پرتشدد کیا۔ کارواں چلتا رہا، قیادت تبدیل ہوئی۔ ایران میں امام خمینیؒ کی جگہ آیت للہ سید علی خامنہ ای اور پاکستان میں علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی جگہ علامہ ساجد علی نقوی قائد منتخب ہوئے تو انہوں نے بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ جو آج تک جاری ہے۔ یوم القدس کے جلوسوں کو منظم کرنے میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور آئی ایس او کے نوجوانوں کا قابل فخر کردار ہمیشہ ناقابل فراموش رہا ہے۔

مجھے یہاں حماس کی جراتمندانہ جدوجہد کو سلام ضرور پیش کرنا ہے کہ جس نے فلسطینیوں کی آواز بن کر اسرائیل کی سینے پر چڑھ کر اسے باور کروایا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پھر اس نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو بھی جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان امت مسلمہ کا جرات مند بازو ثابت ہوا ہے، جس نے حماس کے شانہ بشانہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے اسرائیل کیخلاف اپنا عسکری کردار ادا کیا ہے۔ یمن کے بہادر حوثیوں کی تنظیم انصاراللہ نے سمندر میں امریکی بحری بیڑوں پر حملے کرکے اسرائیل کی مدد کرنیوالوں کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کیلئے آنیوالے مجاہدین کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ البتہ عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ افغانستان اور عراق میں خود کو مجاہدین کہنے والے عسکری گروہ داعش، طالبان، القاعدہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کیخلاف لڑتے کہیں نظر کیوں نہیں آرہے۔؟

افسوس ہے ان عرب ریاستوں اور مسلمان ممالک پر، جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے فلسطین کے کیس کو عالمی سطح پر کمزور کیا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ مزید مسلم ریاستوں پر دباو بڑھا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ حماس کو جب محسوس ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے بعد مزید کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں تو فلسطینی مزاحمتی تحریک نے ”اب نہیں تو کبھی نہیں“ نعرے کے تحت طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع کرکے ان ریاستوں کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عزائم کو بے نقاب کرکے شرمندہ تعبیر ہونے کا عمل روک دیا۔ 1967ء میں عرب ممالک نے اسرائیل سے اپنے علاقے واپس لینے کے لیے جنگ کی، مگر اسے سات دن سے زیادہ جاری نہ رکھ سکے تھے، مگر 7 اکتوبر سے تادم تحریر اسرائیل کی اکیلے حماس سے جنگ جاری ہے۔ اس میں ابھی تک اسرائیل کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، حالانکہ پورا عالم کفر صیہونی ریاست کی پشت پناہی کر رہا ہے، مگر وہ حماس کو شکست نہیں دے سکا۔ ہاں شہادتیں ہوئی ہیں، مزید بھی ہوں گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی آزادی شہادتوں کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مظلوم فلسطینیوں کا خون اور سسکیاں ضرور رنگ لائیں گی۔

بحیثیت پاکستانی مسلمان، مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ یورپ کا کوئی ایک ملک بھی نہیں کہ جس میں فلسطین کی حمایت میں اسرائیلی مظالم پر عوام نے احتجاج نہ کیا ہو، مگر مسلم ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے۔ پاکستان میں توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ حماس کے لیے مالی امداد ادویات اور خوراک بھیجی جائے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ حکومت کی سطح پر حماس کے نوجوانوں کی حمایت میں کوئی اعلان کیا گیا اور نہ ہی فلسطین کے لاکھوں زخمیوں کے علاج کیلئے کوئی میڈیکل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جو کہ ان مظلوم انسانوں کے علاج کیلئے مددگار ثابت ہوتیں۔ ہاں جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن کی خدمات غزہ میں قابل تعریف ہیں، جبکہ اس سال یوم القدس کے موقع پر جماعت اسلامی کا جلوس بھی فلسطینیوں کی حمایت میں اضافے کا باعث ہوگا۔ آج میں پاکستان کے عوام سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یوم القدس کے جلوسوں میں بلا تفریق مذہب و مسلک تمام بنی نوع انسان جو انسانیت میں رواداری کو ترجیح دیتے اور مظلوموں کے ساتھی ہیں، وہ فلسطین پر ہونیوالے ظلم وستم، ریاستی دہشت گردی، خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے قتل کیخلاف سڑکوں پر نکلیں اور مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔

تحریر: سید منیر حسین گیلانی

غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے یکم اپریل کو دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ کیا ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق ایران کی القدس فورس کے اعلیٰ سطحی کمانڈر جنرل زاہدی سمیت سات افراد کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اس قدر جنون کا شکار ہے کہ سفارتخانہ پر بھی حملہ سے گریز نہیں کیا۔ سرزمین فلسطین پر قائم کی جانے والی صیہونیوں کی اس جعلی ریاست نے ہمیشہ خطے میں دوسرے ممالک اور اقوام کے خلاف دہشت گردانہ عزائم جاری رکھے ہیں۔ آج بھی غزہ میں اپنی شکست کا بدلہ نہ لینے کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار صیہونی غاصب حکومت کبھی لبنان میں حماس رہنماؤں کو قتل کرتی ہے تو کبھی شام میں ایران کے عہدیداروں کو نشانہ بنایا جا تا ہے۔

حقیقت میں غاصب صیہونی حکومت غزہ میں چند سو حماس اور جہاد اسلامی کے نوجوانوں کے سامنے شکست خوردہ ہوچکی ہے۔ غزہ میں ایک سو اسی دن سے جاری جنگ میں اسرائیل کی ناجائز حکومت کو ایک بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تل ابیب میں صیہونی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔ دسیوں ہزار صیہونی آباد کار نیتن یاہو کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت یعنی اسرائیل نابودی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ غاصب صیہونی حکومت سنہ1948ء سے اب تک ہمیشہ خطے میں کئی جنگوں کا آغاز کرنے کا ماہر رہا ہے۔ ہمیشہ جنگوں کو مقبوضہ فلسطین سے باہر لڑائی کی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہمیشہ عرب افواج کو نقصان ہوا ہے۔ عرب علاقوں میں اسرائیل کی توسیع پسندی کو تقویت ملی ہے۔

لیکن اس مرتبہ غزہ کا معرکہ مختلف ہوچکا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اس جنگ میں خود اندر لڑائی میں مشغول ہے۔ اسرائیل کی امریکہ کے ساتھ مل کر پہلے دن سے کوشش ہے کہ جنگ کو فوری طور پر غزہ سے باہر نکال کر خطے میں پھیلا دیا جائے، تاکہ اسرائیل کو سکون میسر ہو، لیکن اس مرتبہ کی جنگ بھی منفرد ہے۔ غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے اندر جاری رہنے کے ساتھ ساتھ جنوبی لبنان کے محاذ سے بھی صیہونیوں کے لئے زمین تنگ کی جا چکی ہے۔ یمن کے انصاراللہ اور عراق کے حشد الشعبی اور کتائب حزب اللہ نے بحیرہ روم اور بحیرہ احمر میں غاصب صیہونی حکومت کی معاشی ناکہ بندی کر دی ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل کی رہی سہی طاقت بھی دھڑام ہوچکی ہے۔

یہ تمام حالات غاصب صیہونی حکومت کی شکست خوردہ عکس بندی کر رہے ہیں۔ایسے حالات میں اسرائیل شدید ترین دباؤ اور تناؤ کا شکار ہو کر شام اور لبنان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور مسلسل شام میں ایران کے فوجی عہدیداروں کو کہ جو شام کی حکومت کی درخواست پر شام کے ساتھ مختلف سکیورٹی منصوبوں میں کام میں مصروف ہیں، ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یکم اپریل کو ایران کے سفارتخانہ کو اسرائیلی دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو تمام تر عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کیا اب کوئی سلامتی کونسل جاگے گی؟ کیا افغانستان اور عراق کی طرح غاصب اسرائیل کے خلاف بھی نیٹو کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟ اگر ایسا نہیں کیا جا رہا ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام ہو یا پھر نیٹو جیسے الائنس، یہ سب کے سب اس لئے بنائے گئے ہیں کہ ایشیائی اور افریقی ممالک کے قدرتی ذخائر کو ہڑپ کرکے امریکہ اور مغربی حکومتوں کے قدموں میں پیش کریں۔

دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ اور عہدیداروں کی شہادت کے واقعہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کو اس طرح کی بدمعاشی اور دہشتگردانہ کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ کیونکہ اسرائیل صرف طاقت اور مزاحمت کی زبان ہی سمجھتا ہے۔ مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ اسرائیل کی شام اور لبنان میں اس طرح کی کارروائیاں جس میں حماس اور ایران کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جانا واضح طور پر اسرائیل کی شکست اور کمزوری کو ظاہر کر رہا ہے، تاہم عالمی نظام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو لگام دے۔

اسرائیل کی جانب سے دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ کے بعد دنیا بھر میں دیگر ممالک کے سفارتخانوں کے سکیورٹی تحفظات بھی بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں اب اقوام متحدہ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ویانا کنونشن کی قراردادوں پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ نے اس غاصب اور ناجائز ریاست کو وجود بخشا ہے تو دوسری جانب اب تمام تر غیر قانونی اقدامات پر خاموش تماشائی ہے۔ ایران کے سفارتخانہ پر اسرائیلی حملہ کے بعد سے اب

ایران کا جائز حق ہے کہ وہ بھی دنیا بھر میں اسرائیل کے سفارتخانوں کو نشانہ بنائے اور اپنے شہریوں کی قیمتی جانوں کا انتقام لے اور اس معاملہ میں اب دوہرا معیار رکھنے والی اقوام متحدہ کو بھی خاموش تماشائی ہی رہنا چاہیئے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

زندگی کی چکا چوند اور بھاگ دوڑ میں مشغول حضرت انسان کے خالق نے انسانوں کیلئے ان کی فطرت تخلیق کو پیش نظر رکھا اور انہیں کسی مقام، کسی ساعت، کسی گھڑی میں رک جانے، ٹھہر جانے، اپنا جائزہ لینے، اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے، اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اگلے سفر کو مزید بہترین بنانے کا موقعہ دیا۔ لیجیے ایک بار پھر ماہ مبارک آن پہنچا، اللہ کریم و رحیم کی پاک کتاب میں آیت کریمہ سنائی دی: "یا أیّھا الّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون۔"، "اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں، جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے، شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ۔" ماہ مبارک رمضان وہ مبارک اور باعظمت مہینہ ہے، جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے۔ اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا۔ ہمیں ایک بار پھر اس ماہ مبارک کی سعادت مل رہی ہے تو یہ باعث خوش بختی و خوش نصیبی ہے۔ یقیناً یہ توفیق پروردگار کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

پروردگار نے یہ توفیق عطا کی کہ ہم اس ماہ مبارک و بابرکت میں اپنے گناہوں کیلئے استغفار کرسکیں، نیکیوں کی بہار سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنی آخرت کا ساماں کرسکیں، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیں، جو پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے، لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہوچکے ہیں، اللہ کریم ان پر اپنا فضل و رحمت نازل کرے۔ اس عنوان سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ ہم سب کو اس ماہ مبارک و پربرکت کی باسعادت گھڑیوں کی قدر کرنا چاہیئے اور زیادہ سے زیادہ  فائدہ اٹھانا چاہیئے، ممکن ہے کہ یہ مبارک گھڑیاں ہماری آخری گھڑیاں ہوں، آئندہ برس یہ مبارک و باسعادت گھڑیاں ملیں یا نا ملیں۔

کسی شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا: یارسول اللہ! "ثواب رجب أبلغ أم ثواب شھر رمضان؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لیس علی ثواب رمضان قیاس"، "یارسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا؟ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔" گویا خداوند متعال بہانہ طلب کر رہا ہے کہ کسی طرح میرا بندہ میرے سامنے آکر جھکے تو سہی۔ کسی طرح آکر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی، تاکہ میں اس کو بخشش دوں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک کی فضیلت بیان فرماتے ہیں: "انّ شھر رمضان، شھر عظیم یضاعف اللہ فیہ الحسنات و یمحو فیہ السیئات و یرفع فیہ الدرجات۔"، "ماہ مبارک عظیم مہینہ ہے، جس میں خداوند متعال نیکیوں کو دو برابر کر دیتا ہے۔ گناہوں کو مٹا دیتا اور درجات کو بلند کرتا ہے۔"

رئیس مکتب جعفری امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "قال اللہ تبارک و تعالٰی: یا عبادی الصّدیقین تنعموا بعبادتی فی الدّنیا فانّکم تتنعّمون بھا فی الآخرة۔"، "خداوند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ، تاکہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو۔" یعنی اگر آخرت کی بےبہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو بجا لاؤں، اس لئے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کر دوں گا اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لئے اپنی نعمتوں کی بارش کردوں گا۔ انہیں دنیا کی نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک اور اس کے روزے ہیں کہ اگر حکم پرور دگار پر لبیک کہتے ہوئے روزہ رکھا، بھوک و پیاس کو برداشت کیا تو جب جنّت میں داخل ہونگے تو آواز قدرت آئے گی: "کلوا و اشربوا ھنیئا بما أسلفتم فی الأیّام الخالیة"، "اب آرام سے کھاؤ پیو کہ تم نے گذشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے۔"

علمائے اخلاق فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک خود سازی کا مہینہ ہے، تہذیب نفس کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کرسکتا ہے اور اگر وہ پورے مہنیہ کے روزے صحیح آداب کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اسے اپنے نفس پر قابو پانے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا اور پھر شیطان آسانی سے اسے گمراہ نہیں کر پائے گا۔ احادیث و روایات سے ثابت ہے کہ اللہ کریم کو اس کا شکر ادا کرنا بہت زیادہ پسند ہے۔ اس مبارک مہینہ کے روز و شب انسان کے لئے نعمت پروردگار ہیں، جن کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہیئے۔ ہاں تو حضرت انسان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بابرکت اوقات اور اس زندگی کی نعمت کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "من قال أربع مرّات اذا أصبح، ألحمد للہ ربّ العالمین فقد أدّٰی شکر یومہ و من قالھا اذا أمسٰی فقد أدّٰی شکر لیلتہ"، "جس شخص نے صبح اٹھتے وقت چار بار کہا: "الحمد للہ ربّ العالمین" اس نے اس دن کا شکر ادا کر دیا اور جس نے شام کو کہا، اس نے اس رات کا شکر ادا کر دیا۔"

کتنا آسان طریقہ بتا دیا امام علیہ السلام نے اور پھر اس مہینہ میں تو ہر عمل دس برابر فضیلت رکھتا ہے۔ ایک آیت کا ثواب دس کے برابر، ایک نیکی کا ثواب دس برابر۔۔ کیا ہم ان مبارک ساعتوں میں اس طرح شکر ادا کرکے اپنے رب، جو کریم ہے، اسے راضی نہیں کرسکتے، ہاں یہ کام بھی توفیق الہیٰ سے ہی ممکن ہے۔ لہذا ہمیں ادائے شکر کی توفیق بھی طلب کرنا چاہیئے، جو لوگ اس جانب متوجہ ہی نہیں کہ کسی عمل کی توفیق کا چھن جانا بھی بہت بڑا نقصان ہے، انہیں متوجہ کرنا چاہیئے اور ہر دم توفیق طلب کرتے رہنا چاہیئے۔ یہ ماہ یقیناً پروردگار کی عنایات کا مہینہ ہے، اس میں جو مانگو مل سکتا ہے۔

دوستان عزیز و محترم! نیکیوں کی اس باہرکت اور پربرکت گھڑیوں میں اللہ کریم و رحیم اور آئمہ طاہرین و معصومین ؑنے مخلوق خدا کیساتھ بھلائی اور اچھے برتائو کے بارے بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ اس مبارک مہینہ میں دنیا بھر کی طرح اہل پاکستان بھی جی بھر کر راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور صدقات و خیرات کے ذریعے مخلوق خدا کی خدمت کا جذبہ زوروں پہ ہوتا ہے، بہت سے گروہ، جماعتیں، شخصیات اور انجمنیں اس ماہ مبارک میں مستحقین تک راشن، نقد رقوم اور دیگر ضروریات زندگی پہنچانے کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں، جو ایک قابل تعریف و قابل تقلید عمل ہے، جس کو ہر ایک شخص کو اپنے تئیں اپنانا چاہیئے، ممکن ہے کہ کسی کی توفیق کسی ایک گھر کو راشن لے کر دینے کی ہو، کسی کی توفیق کسی ایک گھر کو ایک افطاری یا سحری کروانے کی ہو، اسے یہ عمل سرانجام دیتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرنا چاہیئے، بلکہ پروردگار سے توفیق مزید طلب کرتے ہوئے اپنے اخلاص سے یہ عمل سرانجام دینا چاہیئے۔

ہاں جن کو مالک و خالق نے بے بہا دیا ہے، انہیں اگر توفیق حاصل ہو تو انہیں ہاتھ کھلا رکھنا چاہیئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انہیں کسی قسم کی تنگی نہیں ہوگی، نہ کمی ہوگی بلکہ جس پروردگار نے انہیں پہلے دیا ہے، وہی اس میں برکت ڈال دیگا اور ان کے رزق میں فراوانی و کشادگی ہوگی۔ ہاں اہل خیر کو مستحقین تک ضروریات پہنچانے میں سستی نہیں کرنا چاہیئے۔ یہاں مجھے مولا کا فرمان یاد آگیا، مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں اے انسان تیرے پاس تین ہی تو دن ہیں، ایک کل کا دن، جو گزر چکا اور اس پر تیرا قابو نہیں چلتا، اس لئے کہ جو اس میں تو نے انجام دینا تھا، دے دیا۔ اس کے دوبارہ آنے کی امید نہیں اور ایک آنے والے کل کا دن ہے، جس کے آنے کی تیرے پاس ضمانت نہیں، ممکن ہے کہ زندہ رہے، ممکن ہے کہ اس دنیا سے جانا پڑ جائے، تو بس ایک ہی دن تیرے پاس رہ جاتا ہے اور وہ آج کا دن ہے، جو کچھ بجا لانا چاہتا ہے، اس دن میں بجا لا۔

اگر کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اس دن میں کر لے، اگر کسی یتیم کو کھانا کھلانا ہے تو آج کے دن میں کھلا لے، اگر کسی کو صدقہ دینا ہے تو آج کے دن میں دے، آج اس مبارک مہینہ میں اپنے ربّ کی بارگاہ میں سرجھکا لے، خدا رحیم ہے، تیری توبہ قبول کر لے گا۔ یقیناً یہ ماہ مبارک عبادت، بندگی، دعا و مناجات، تزکیہ نفس، خدمت خلق، احساس، درد، بخشش، توبہ کا مہینہ ہے۔ یہ واحد مہینہ ہے، جس میں سانس لینا اور سونا بھی عبادت شمار ہوتا ہے، پروردگار سے توفیق طلب کرتے ہیں کہ ہمیں اس ماہ مبارک و سعادت میں اس کی مرضی و قرب کے حصول کی منزلیں پانے کی مزید توفیقات عطا ہوں، تاکہ جب امام ؑکا ظہور ہو اور ہم ان کی بارگاہ میں پیش ہوں تو ان کے طرفداروں میں، ان کے یاوروں اور ان کے ساتھیوں میں شمار ہوں۔ وما توقفی الا باللہ۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

اسلامی تاریخٰی آثار کا میوزیم سال ۱۹۲۲ ،میں قایم ہوا ہے جو مسجدالاقصی کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے جہاں فلسطین اور اسلامی دنیا کے قدیم آثار موجود ہیں۔
 

 
 

ایکنا نیوز کے مطابق مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے نمائندوں کے حالیہ اجلاس میں سورہ بقرہ کی 279 آیات، 76 سورہ نساء اور 8 سورہ "ممتحنہ" کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے بیانات کے کچھ حصے کی وضاحت میں بیانات فرمائے۔

 

اس مضمون میں ہم سورہ نساء کی آیت نمبر 76 سے متعلق نکات اور تشریحات بیان کرنے جارہے ہیں۔

 

اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دین اور اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کے کام کی بنیاد «لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون»۔ ; ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑیں گے۔" ظلم اور ظالم سے لڑیں گے۔

 

آیت کا متن: الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا»

آیت کا ترجمہ: ’’جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہے وہ ظلم کی راہ میں لڑتے ہیں۔ لہٰذا شیطان کے دوستوں سے لڑو، کیونکہ شیطان کی چال [بالآخر] کمزور ہے۔"

 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ مجاہدین کی حوصلہ افزائی اور انہیں دشمن کے خلاف لڑنے کی ترغیب دینے اور مجاہدین کی صفوں اور اہداف کو بتانے کے لیے فرماتا ہے: ایمان والے لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کچھ خدا کے بندوں کے فائدے کے لیے ہے، لیکن بے ایمان لوگ ظالموں یعنی تباہ کن طاقتوں کی راہ میں لڑتے ہیں۔

 اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کسی بھی صورت میں جدوجہد سے پاک نہیں ہے، لیکن کچھ لوگ حق کی راہ میں لڑتے ہیں اور کچھ لوگ برائی اور شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں۔

رہبرانقلاب اسلامی نے بھی اپنی تقریر میں اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے تاریخ میں حق کے لیے جدوجہد کی اہمیت کے بارے میں فرمایا: تمام انبیاء نے دولت اور طاقت کے مالکوں، دنیا کے غاصبوں، دنیا کے ظالموں، فرعونوں کا مقابلہ کیا۔  انہوں نے سامنا کیا اور وہ ان کے ساتھ لڑے۔ حق کی جدوجہد کے بغیر باطل پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت کہ انسانی تاریخ کے آغاز سے لے کر آج تک انسانیت روز بروز علم الہی کے قریب تر ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ جدوجہد ہے۔ کیونکہ حق کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور جو کافر ہیں وہ اللہ کی راہ والوں سے لڑیں گے۔ ظالموں، جابروں، بدخواہوں، ظالموں اور جابروں کے خلاف لڑے بغیر حق آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جدوجہد ضروری ہے، اور انبیاء نے یہی کیا، اور توحید میں اس جدوجہد کے اصول، اور بنیادی خطوط شامل ہیں۔" (حکومتی حکام اور اسلامی ممالک کے سفیروں کے درمیان ملاقات میں بیانات سے اقباس)

حوزہ نیوز ایجنسی | الحمد اللہ ہم سب کی زندگی میں ایک بار پھر رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کا مہینہ یعنی ماہ رمضان المبارک آگیا، اس مبارک ماہ کا آغاز در حقیقت تمام مسلمانوں کے لئے پیغامِ بہاراں و مسرت ہے۔ لہذا اس مبارک ماہ کی مبارک باد تمام قارئین کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتے ہیں- اور اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی ضرورت ہے۔

صرف روزہ رکھ لینا کمال نہیں ہے بلکہ وہ روحانی تبدیلی ہمارے اندر آنی چاہیئے کہ جو اللہ اس مہینے کی برکت سے چاہتا ہے، کمال اور امتیاز اس بات پر ہے کہ ماہِ رمضان گزر جانے کے بعد ہم تبدیل ہوے یا نہیں، اگر تبدیلی آئی تو ہم نے اس ماہ سے حقیقی استفادہ حاصل کیا اور اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو ہمیں اپنے نفس جا جائزہ لینا چاہیے.

یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے، یہ اپنے گناہوں کو بخشوانے کا مہینہ ہے، یہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کا مہینہ ہے، اس مہینے میں مومنین اور وہی افراد ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھنے کا شرف حاصل کر پاتے ہیں جو اس مہمانی کے قابل ہیں۔ یہ اللہ تعالی کے دسترخوان کرم سے مختلف دسترخوان ہے۔ اللہ تعالی کا عمومی دسترخوان لطف و کرم تمام انسانوں ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لئے بچھا ہوا ہے اور سب کے سب اس سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ یہ (ماہ مبارک رمضان میں بچھنے والا) ضیافت الہی کا دسترخوان خاصان خدا سے مخصوص ہے۔ ماہ رمضان کے سلسلے میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان ایسے بے شمار علل و اسباب میں گھرا ہوا ہے جو اسے ذکر الہی سے غافل اور راہ پروردگار سے منحرف کر دیتے ہیں۔ گوناگوں خواہشیں اور جذبات اسے پستی و تنزلی کی جانب دھکیلتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان کی آمد پر اس انسان کو ایک موقع ملتا ہے کہ اپنی روح اور پاکیزہ باطن کوجو فطری اور قدرتی طور پر کمال و تکامل کی جانب مائل ہوتا ہے، بلندیوں کی سمت لے جائے، قرب الہی حاصل کرے اور اخلاق حسنہ سے خود کو آراستہ کر لے۔ تو ماہ مبارک رمضان انسان کے لئے خود سازی اور نفس کی تعمیر نو کا مہینہ اور پروردگار سے مانوس اور قریب ہونے کے لئے سازگار موسم بہار ہے۔

ماہ مبارک رمضان کی برکتیں ان افراد سے شروع ہوتی ہیں جو اس مبارک مہینے میں اللہ تعالی کا مہمان ہونا چاہتے ہیں۔ یہ برکتیں ان مومنین کے قلوب سے شروع ہوتی ہیں۔ اس مہینے کی برکتوں کی برسات سب سے پہلے مومنین، روزہ داروں اور اس مہینے کی مقدس فضا میں قدم رکھنے والوں پر ہوتی ہے۔ ایک طرف اس مہینے کے روزے، دوسری طرف اس با برکت مہینے میں تلاوتِ قرآن اور اس کے علاوہ اس مہینے کی مخصوص دعائيں انسان کے نفس کو پاکیزہ اور اس کے باطن کو طاہر بنا دیتی ہیں۔ ہر سال کا ماہ رمضان بہشت کے ایک ٹکڑے کی حیثیت سے ہماری مادی دنیا کے تپتے صحرا میں اتار دیا جاتا ہے اور ہم اس مبارک مہینے میں ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھ کر جنت کے موسم بہاراں سے آشنا اور لطف اندوز ہونے کا موقع پا جاتے ہیں۔ بعض افراد اس مہینے کے تیس دنوں میں جنت کی سیر کرتے ہیں اور بعض خوش نصیب تو اس ایک مہینے کی برکت سے پورے سال وادی جنت میں گھومنے پھرنے کا بندو بست کر لیتے ہیں جبکہ بعض، اس کی برکتوں سے پوری عمر جنت کا لطف اٹھاتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اس کے بر عکس بعض افراد ایسے بھی ہیں جو آنکھیں بند کئے اور کانوں میں تیل ڈالے اس مہینے کے نزدیک سے گزر جاتے ہیں اور اس کی برکتوں کو ایک نظر دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام اور ان کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔ جو شخص ماہ مبارک رمضان کی برکت سے ھوی و ہوس اور نفسانی خواہشات کو قابو میں کرنے میں کامیاب ہو گیا اس نے در حقیقت بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اسے چاہئے کہ اس کی دل و جان سے حفاظت کرے۔ جو شخص نفسانی خواہشات اور ہوسرانی سے پریشان ہے اس مبارک مہینے میں اپنی ان خواہشات پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔ انسان کی تمام بد بختیوں کی جڑ، نفسانی خواہشات کی پیروی اور ان کا اسیر ہو جانا ہے۔ جو بھی ظلم اور نا انصافی ہوتی ہے، جتنے فریب اور دھوکے دئے جاتے ہیں، تمام ظالمانہ جنگیں، بد عنوان حکومتیں یہ ساری کی ساری برائیاں نفسانی خواہشات کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ اگر انسان اپنے نفس پر غالب آ جائے تو اسے نجات حاصل ہو جائے گی اور اس کے لئے بہترین موقع ماہ مبارک رمضان ہے۔ بنابریں سب سے اہم مسئلہ گناہوں سے پرہیز کا ہے، ہمیں چاہئے کہ اس مہینے میں تہذیب نفس کریں اور گناہوں سے دور رہنے کی کوشش اور مشق کریں۔ اگر ہم نے خود کو گناہوں سے دور کر لیا تو عالم ملکوت میں ہماری معنوی پرواز کے لئے فضا ہموار ہو جائے گی اور انسان معنوی سفر کرتے ہوئے وہ راستہ طے کرے گا جو اس کے لئے معین کیا گیا ہے لیکن اگر اس کی پشت پر گناہوں کی سنگینی باقی رہی تو یہ چیز ممکن نہ ہوگی۔ ماہ مبارک رمضان گناہوں سے دور ہونے کا بہترین موقع ہے۔روزہ جسے الہی فریضہ کہا جاتا ہے در حقیقت ایک الہی نعمت اور تحفہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے ایک سنہری موقع ہے جو روزہ رکھنے کی توفیق حاصل کرتے ہیں۔ البتہ اس کی اپنی سختیاں اور صعوبتیں بھی ہیں۔ جتنے بھی با برکت، مفید اور اہم اعمال ہیں ان میں دشواریاں ہوتی ہیں۔ انسان دشواریوں کا سامنا کئے بغیر کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ روزہ رکھنے میں جو سختی برداشت کرنا ہوتی ہے وہ اس جزا اور ثمرے کے مقابلے میں ہیچ ہے جو روزہ رکھنے کے نتیجے میں انسان کو ملتا ہے۔

روزے کے تین (٣) مراحل ذکر کئے گئے ہیں اور یہ تینوں مراحل اپنے مخصوصی فوائد اور ثمرات کے حامل ہیں۔ سب سے پہلا مرحلہ، روزہ کا یہی عمومی مرحلہ ہے، یعنی کھانے پینے اور دیگر مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا۔ اگر ہمارے روزے کا لب لباب انہی مبطلات روزہ سے پرہیز ہے تب بھی اس کی بڑی اہمیت و قیمت اور بڑے فوائد ہیں۔ اس سے ہمارا امتحان بھی ہو جاتا ہے اور ہمیں کچھ سبق بھی ملتا ہے۔ تو یہ روزہ درس بھی اور زندگی کے لئے امتحان بھی۔ ساتھ ہی یہ مشق اور ورزش بھی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ “لیستوی بہ الغنی و الفقیر” اللہ تعالی نے روزہ اس لئے واجب کیا کہ ان مخصوص ایام میں مخصوص اوقات کے دوران غنی و فقیر برابر ہو جائیں۔ جو افراد تہی دست اور غریب ہیں وہ ہر وہ چیز نہیں حاصل کر سکتے ہیں جو ان کی خواہش ہوتی ہے لیکن غنی و دولتمند انسان کا جب جو کھانے اور پہننے کا دل کرتا ہے اس کے لئے وہ چیز فراہم رہتی ہے۔ چونکہ امیر انسان کی ہر خواہش فوراً پوری ہو جاتی ہے اس لئے اسے تہی دست اور غریب کا حال نہیں معلوم ہو پاتا لیکن روزہ رکھنے کی صورت میں سب یکساں اور مساوی ہو جاتے ہیں اور سب کو اپنی خواہشیں دبانا پڑتی ہیں۔ جو شخص بھوک اور پیاس تحمل کر چکا ہوتا ہے اسے ان سختیوں کا بخوبی اندازہ رہتا ہے اور وہ ان صعوبتوں کو برداشت کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان انسان کو سختیوں اور دشواریوں سے نمٹنے کی طاقت و توانائی عطا کرتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لینے کی مشق کرواتا ہے۔ تو اس عمومی مرحلے میں بھی اتنے سارے فوائد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انسان کا شکم جب خالی رہتا ہے اور وہ ایسے بہت سے کاموں سے روزے کی وجہ سے پرہیز کرتا ہے جو عام حالات میں اس کے لئے جائز ہیں تو اس کے وجود میں ایک نورانیت اور لطافت پیدا ہوتی ہے جو واقعی بہت قابل قدر ہے۔

روزے کا دوسرا مرحلہ گناہوں سے دوری اور اجتناب کا ہے۔ روزے کی وجہ سے انسان، آنکھ، کان، زبان اور دل حتی جلد جیسے جسمانی اعضاء و اجزاء کو گناہوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا درجہ پہلے مرحلے کی بنسبت زیادہ بلند ہوتا ہے۔ رمضان کا مہینہ انسان کے لئے گناہوں سے اجتناب کی مشق کا بہت مناسب موقع ہوتا ہے۔ لہذا دوسرے مرحلے کا روزہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان خود کو گناہوں سے پاک و منزہ بنا لیتا ہے، تمام نوجوانوں کا فریضہ ہے کہ خود کو گناہوں سے محفوظ رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ نوجوانی میں انسان کے پاس طاقت و توانائی بھی زیادہ ہوتی اور اس کا دل بھی پاک و پاکیزہ ہوتا ہے۔ ماہ رمضان میں نوجوانوں کو ان خصوصیات سے کما حقہ استفادہ کرنا چاہئے۔ اس مہینے میں آپ گناہوں سے دوری و اجتناب کی مشق کیجئے جو روزے کا دوسرا مرحلہ ہے۔ روزے کا تیسرا مرحلہ ایسی ہر چیز سے پرہیز ہے جو انسان کے دل و دماغ کو ذکر الہی سے غافل کر دے۔ یہ روزے کا وہ مرحلہ ہے جس کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں روزہ، روزہ دار کے دل میں ذکر الہی کی شمع روشن کر دیتا ہے اور اس کا دل معرفت پروردگار سے منور ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان کے لئے ہر وہ چیز مضر ہے جو اسے ذکر پروردگار سے غافل کر سکتی ہو۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو روزہ داری کی اس منزل پر فائز ہیں۔

ماہ رمضان، دعا و مناجات اور تقویٰ و پرہیزگاری کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم عبادات اور اذکار کے ذریعے روحانی و معنوی قوت حاصل کرکے سنگلاخ وادیوں اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ماہ رمضان، قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کو چاہئے کہ خود کو معنوی خزانوں تک پہنچائيں اور پھر حتی المقدور اس خزانے سے سرمایہ حاصل کریں اور آگے بڑھنے کے لئے آمادہ ہوں۔ ماہ رمضان میں روزہ، نماز، دعا و مناجات،بندگی و عبادات کا ایک خوبصورت گلدستہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اگر ہم اس پر توجہ دیں اور تلاوت کلام پاک کی خوشبو کا بھی اس میں اضافہ کر لیں، کیونکہ ماہ رمضان کو قرآن کے موسم بہار سے تعبیر کیا گيا ہے، تو خود سازی اور تہذیب نفس، سعادت و خوشبختی کی بڑی حسین منزل پر ہمارا ورود ہوگا۔ ماہ مبارک رمضان کے شب و روز میں آپ اپنے دلوں کو ذکر الہی سے منور رکھئے تاکہ شب قدر کے استقبال کے لئے آپ تیار ہو سکیں۔

“لیلۃ القدر خیر من الف شھر تنزل الملائکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر” یہ وہ شب ہے جس میں فرشتے زمین کو آسمان سے متصل کر دیتے ہیں۔ قلوب پر نور کی بارش ہوتی ہے اور پورا ماحول لطف الہی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ یہ رات معنوی سلامتی اور دل و جان کی جلا، اخلاقی، معنوی، مادی، سماجی اور دیگر بیماریوں سے شفا کی شب ہے۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو بد قسمتی سے بہت سی قوموں حتی مسلم اقوام میں سرایت کر گئی ہیں۔ ان سب سے نجات اور شفا شب قدر میں ممکن ہے بس شرط یہ ہے کہ پوری تیاری کے ساتھ اس رات میں داخل ہوا جائے۔ ہر سال کو اللہ تعلی کی جانب سے ایک پیش قیمتی موقع عطا کیا جاتا ہے اور وہ موقع و وقت ماہ مبارک رمضان ہے۔ اس مہینے میں قلوب میں لطافت، روح میں درخشندگی پیدا ہو جاتی ہے اور انسان رحمتِ پروردگار کی خاص وادی میں قدم رکھنے کے لائق بن جاتا ہے۔ اس مہینے میں ہر شخص اپنی بصاعت کے مطابق ضیافتِ پروردگار سے استفادہ کرتا ہے۔ جب یہ مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے تو ایک نیا دن شروع ہوتا ہے جو عید کا دن ہوتا ہے۔ یعنی وہ دن جب انسان ماہ رمضان میں حاصل ہونے والے ثمرات اور توفیقات کے ذریعے پورے سال کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کرکے کجروی سے خود کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ عید فطر کاوشوں اور زحمتوں کا ثمرہ حاصل کرنے اور رحمت الہی کے دیدار کا دن ہے۔ عید فطر کے تعلق سے بھی ایک اہم بات اس دن پورے سال کے لئے آمادگی کا سنجیدہ فیصلہ ہے۔ یہیں سے آئندہ سال کے ماہ مبارک رمضان کے خیر مقدم کی تیاری شروع ہوتی ہے، اگر کوئی چاہتا ہے کہ ماہ رمضان میں اللہ تعالی کا مہمان بنے اور شب قدر کی برکتوں سے بہرہ مند ہو تو اسے پورے گیارہ مہینے بہت محتاط رہنا ہوگا۔ عید کے دن اسے یہ عہد کرنا ہوگا کہ پورا سال اسے اس انداز سے بسر کرنا ہے کہ ماہ رمضان خود اس کا استقبال کرے اور وہ ضیافت الہی کے دسترخوان پر بیٹھنے کے قابل ہو۔ یہ ایک انسان کو ملنے والا سب سے بڑا فیض ہو سکتا ہے۔ یہ ایک انسان اور اس کے تمام متعلقین نیز اسلامی معاشرے سے وابستہ تمام امور میں کامیابی و کامرانی کا بہترین وسیلہ ہے۔ اگر ہم پوری بیداری اور شعور کے ساتھ ماہ رمضان میں داخل ہوئے تو ضیافت الہی سے حقیقی استفادہ کر سکیں گے ہم ایک زینہ اوپر پہنچ جائیں گے اور ہمارا درجہ بلند ہوگا۔ پھر ہم اپنے دل و جان کی گہرائيوں میں بھی اور اپنے گرد و پیش کے حالات میں بھی وہ مناظر مشاہدہ کریں گے جن سے ہمیں حقیقی لطف اور مسرت حاصل ہوگی۔

آخرِ تحریر میں اللہ کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ پروردگار اس مبارک ماہ کی برکت سے تمام مخلوق کی حفاظت فرماں۔

تحریر : مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری

اسلامی انقلاب کے بعد کے پہلے مہینوں سے ہی ایران پر ہتھیاروں کی پابندیوں عائد کر دی گئی اور گذشتہ چار دہائیوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران پر یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ایران پر صدام کے حملے کے عروج کے دور میں بھی یہ پابندیاں جاری رہیں۔ انقلاب کے بعد شروع میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ انقلاب کی فتح سے پہلے ایران کا بیرونی ممالک پر تقریباً سو فیصد انحصار تھا اور ملک میں ہزاروں مغربی مشیروں کی فوج مہیا تھی، تاہم مسلط کردہ جنگ کے درمیان یہ مشیر ملک چھوڑ کر چلے گئے اور ایران ایسے ہتھیاروں کے ساتھ رہ گیا کہ جسے اسے ٹھیک کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ اس وقت مشکل سے چند معمولی ہتھیار ملک میں بنتے تھے۔ انقلاب کے بعد اس صنعت میں غیر معمولی ترقی ہوئی اور اس وقت تقریباً 800 نسل کے مختلف ہتھیار ایران میں بنائے جا رہے ہیں۔ اس پیشرفت کو  اس لئے بھی غیر معمولی قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ یہ سب کچھ سو فیصد پابندیوں اور حتیٰ شھید فخری زادہ جیسے سائنسدانوں کے قتل کے باوجود ہوئی۔

آج ایران میزائل، فضائی دفاعی نظام، جدید آبدووزوں، ڈرونز اور دیگر دفاعی پیداوار میں خطے کی بڑی طاقت بن چکا ہے۔ ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان کی تیاری اور استعمال میں اس قابلیت نے اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک طرف اپنی حفاظتی پیداوار میں مکمل طور پر خود کفیل بنا دیا ہے تو دوسری طرف اس نے ایسی اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس حاصل کر لی ہے، جس کی وجہ سے دشمن ایران پر حملے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسلامی انقلاب کی 44ویں سالگرہ کے موقع پر ہم اسلامی انقلاب کی دفاعی کامیابیوں پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔ درج ذیل رپورٹ ان کامیابیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جس کا خلاصہ اس آرٹیکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

خرمشہر، مہلک ترین بیلسٹک میزائل
 ایران کے ہتھیاروں کی ترقی کا سب سے اہم اور اسٹریٹجک میدان، جو اس ملک کو اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس دینے میں کامیاب رہا ہے، وہ میزائل کا میدان ہے۔ انقلاب سے پہلے مغرب والوں نے ایران کو سو کلومیٹر سے زیادہ کی رینج والے میزائل رکھنے کی اجازت نہیں دی تھی، مسلط کردہ جنگ نے ثابت کر دیا کہ عراقی بعث حکومت کی فوج کے برعکس ایران کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اس تلخ تجربے نے ایران کو میزائل بنانے پر مجبور کیا۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران نے بیلسٹک اور درست نشانے پر پہنچنے والے میزائلوں کی وسیع اقسام تیار کر لی ہیں، جیسا کہ برطانوی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز نے ایران کی میزائل صلاحیتوں کے بارے میں ایک رپورٹ میں لکھا ہے "میزائل طاقت کی ترقی نے ایران کو دفاع کی صلاحیت فراہم کی ہے اور اس ملک کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ اپنے درست  نشانہ پر لگنے والے میزائلوں پر انحصار کرتے ہوئے سینکڑوں کلومیٹر دور اپنے دشمنوں کو نشانہ بنا سکے۔"

ان سالوں میں ایرانی ماہرین 2000 کلومیٹر تک ٹھوس اور مائع ایندھن کے ساتھ ایرانی میزائلوں اور راکٹوں کو بنانے اور ان کا تجربہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، جس نے دشمن کے دلوں میں دہشت پیدا کر دی ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ایران نے بیرونی مدد کے بغیر  16 سے زیادہ بیلسٹک میزائلوں کو ڈیزائن اور بنا کر، اسلامی جمہوریہ ایران کے مقامی ڈیٹرنٹ طاقت کے حصول میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ خرمشہر نامی جدید ترین ایرانی میزائل کی رینج 2000 کلومیٹر ہے اور اس کا وزن تقریباً 20 ٹن ہے۔ یہ گائیڈڈ میزائل ایران کے ارد گرد دشمن کے تمام اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

اس مہلک ترین ایرانی بیلسٹک میزائل کو امریکی میگزین نیوز ویک کی جانب سے  ٹرمپ اور نیتن یاہو کے لئے ایک طمانچہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایران کے میزائل اثاثے صرف بیلسٹک میزائلوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ دفاعی صنعت میں ایران   اسٹریٹجک اصول کی بنیاد پر متنوع رینج کے راکٹ اور کروز میزائل بھی تیار کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ایران میں بنائے گئے ایک کروز میزائل کو "ھویزہ" کہا جاتا ہے۔ صیاد 4 بی میزائل کی بھی اس سال رونمائی کی گئی۔ 300 کلومیٹر تک مار کرنے والا میزائل، جو پہلے 152 کلومیٹر تھا، اب اس کی رینج 300 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔

ہائپرسونک بیلسٹک میزائل
دو ماہ پہلے آئی آر جی سی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر سردار امیر علی حاجی زادہ نے ایران کی طرف سے ہائپر سونک بیلسٹک میزائل بنانے کا اعلان کیا۔ آئی آر جی سی ایرو اسپیس کمانڈر کے مطابق، یہ نظام بہت تیز رفتاری کا حامل ہے اور یہ فضا کے اندر اور باہر جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سردار حاجی زادہ نے میزائل لانچ کرنے کے اعلان کے ایک دن بعد مستقبل میں اس فورس کے ہائپر سونک بیلسٹک میزائل کی نقاب کشائی کا بھی اعلان کیا۔ ہائپرسونک میزائل میزائلوں کی ایک ایسی نسل ہے، جس کی رفتار آواز کی رفتار سے پانج گنا زیادہ ہے اور اس تیز رفتاری کی وجہ سے روایتی دفاعی نظام کے ذریعے انہیں روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ روس، چین اور امریکہ کے علاوہ جو اپنے ہائپر سونک میزائلوں کی تیاری کے اعلیٰ مراحل میں ہیں، شمالی کوریا، آسٹریلیا اور بھارت نے بھی ہائپر سونک میزائل بنانے یا خریدنے کا کہا ہے۔ اب ایران بھی ان چند ممالک میں شامل ہوگیا ہے، جن کے پاس ہائپر سونک بیلسٹک میزائل تیار کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔

ڈرون دشمن پر سایہ کی طرح ہے
راکٹوں کے علاوہ، UAV (ریموٹ کنٹرولڈ ہوائی جہاز) ڈرون انقلاب اسلامی کے بعد کے سالوں میں ایران کی دفاعی صنعت کی دوسری پرکشش اور بہت اہم مصنوعات میں سے ایک ہے۔ ڈرون ایک اہم اور تزویراتی سازوسامان ہے، جو آج ہر جدید فوج میں ضروری ہے۔ دفاعی ماہرین کی کوششوں سے ایران اس میں خود کفیل ہے۔ دعویٰ سے کہا جاسکتا ہے کہ ایران ان تین ممالک میں شامل ہے، جو دنیا میں جنگی اور جاسوسی ڈرون تیار کرتے ہیں۔ اس سال مئی میں مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے خفیہ اور زیر زمین ڈرون اڈوں میں سے ایک کا دورہ کیا، جسے 313 اسٹریٹجک ڈرون بیس کہا جاتا ہے۔

زمین میں سینکڑوں میٹر گہرائی میں ڈیزائن اور تعمیر کیے گئے اس خفیہ اڈے کے آپریشنل ہونے کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں UAV کی سب سے بڑی طاقت بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اس دورے میں، پہلی بار دو نئی کامیابیاں دکھائی گئیں۔ پہلی کامیابی حیدر-1 کروز میزائل ہے۔ اس میزائل کی رینج 200 کلومیٹر ہے اور ہدف کو نشانہ بنانے کے وقت اس کی رفتار 1000 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ حیدر-1 پہلا کروز میزائل ہے، جسے ڈرون سے داغا جا سکتا ہے۔ دوسری کامیابی Haydar-2 کروز ڈرون ہے، جو کہ ہیلی کاپٹر سے چلنے والا ڈرون ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی یو اے وی کی تیاری اور خاص طور پر دفاعی اور فوجی میدان میں شاندار پیش رفت نے دنیا کی توجہ بالخصوص حالیہ برسوں میں اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ 13 دسمبر 2010ء کو ایران نے ایک امریکی لاک ہیڈ مارٹن RQ 170 الٹرا ایڈوانسڈ اور ریڈار سے بچنے والے جاسوس ڈرون کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا، جو ملک کے مشرق میں جاسوسی کر رہا تھا، ایران نے  اسے گرایا اور اس کی ریورس انجینئرنگ کرکے اس شعبے میں معرکہ انجام دیا۔

ہمیشہ بیدار دفاع کے ساتھ ایک محفوظ آسمان
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بڑا اور اہم ملک جو ایک اہم مقام اور حساس علاقے میں موجود ہو اور اس کے پاس مضبوط، فضائی دفاعی نظام موجود نہ ہو۔؟ مسلط کردہ جنگ کے دوران شاید ایران کی سب سے بڑی کمزوری فضائی دفاعی نظام کا نہ ہونا تھا۔ آج ایران دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے ملکی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے جدید ترین میزائل شکن دفاعی نظام تیار کیا ہے۔ ایسا نظام جو ملک کی دفاعی ڈھال کے طور دشمنوں کو کسی بھی ممکنہ جارحیت پر پچھتانے پر مجبور کر دے۔ ان سسٹمز کا شاہکار Bavar 373 کہلاتا ہے، جو کہ روسی S-300 ماڈل سے بنایا گیا ہے، لیکن یہ بہت زیادہ جدید ہے اور ملک کے اہم ترین حصوں بشمول بعض جوہری مقامات کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ ایک جدید روسی دفاعی نظام ایس تین سو، جو ایران کو 2008ء میں دیا جانا تھا، لیکن سلامتی کونسل کی پابندیوں اور روسیوں کی بداعتمادی نے اس معاملے کو التوا میں ڈال دیا۔ اس بات نے ایران کو مجبور کیا کہ وہ مقامی دفاعی نظام خود بنانے کے بارے میں سوچے۔

ایران نے ان حالات میں باور 373 کے ڈیزائن اور تعمیر کا آغاز کیا اور یہاں تک کہ جب روس کی طرف سے 1996ء میں S-300 سسٹم دینے کا اعلان کیا تو تب بھی اس نے باور 373 کی تعمیر کو نہیں روکا۔ اس نظام کی نقاب کشائی اس وقت کے صدر نے کی تھی۔ "باور 373" ملکی سطح پر بنایا گیا سب سے پیچیدہ اور اہم میزائل ڈیفنس سسٹم ہے اور اسے ایران کی تاریخ کا سب سے پیچیدہ دفاعی منصوبہ سمجھا جانا چاہیئے، جسے ملک کے اندر ایرانی ماہرین نے ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں ڈیزائن، تعمیر، تجربہ اور آپریشنل کیا تھا۔ ملکی دفاعی صنعت کے اس شاہکار کی کیا خصوصیات ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معروف آہنی گنبد کی طرح ایران کی سرزمین کا دفاع کرسکتا ہے۔

وزارت دفاع اور آرمڈ فورسز سپورٹ کے انفارمیشن بیس کے مطابق، Bavar 373 ہتھیاروں کے نظام میں دو سرچ اینڈ انٹرسیپشن ریڈار ہیں اور سرچ اینڈ ڈیٹیکشن ریڈار کی زیادہ سے زیادہ رینج 320 کلومیٹر اور انٹرسیپشن کی زیادہ سے زیادہ رینج 260 ہوگی۔ باور 373 سرچ اینڈ ڈسکوری ریڈار بیک وقت 300 اہداف کی نشاندہی کرنے کے قابل ہے۔ دوسری جانب اس سسٹم کا انٹرسیپٹر ریڈار بیک وقت 60 اہداف کو روکنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ باور 373 انٹرسیپٹر ریڈار کی نمایاں خصوصیات میں بہت کم ریڈار کراس سیکشن کے ساتھ چھپے ہوئے اہداف کا پتہ لگانے کی صلاحیت ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس سسٹم کے لیے کوئی پوشیدہ ہدف نہیں ہوگا۔ ایران کے فضائی دفاع کے دیگر اہم نظاموں میں، مقامی ساختہ سوم خورداد نامی نظام کا نام لیا جاسکتا ہے، جو 2018ء میں جدید امریکی گلوبل ہاک ڈرون کی تباہی کا باعث بنا اور اس نے عالمی شھرت پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

Tuesday, 12 March 2024 08:58

ماہِ رمضان ماہِ فلسطین

ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اپنے آپ کو اس مقدس مہینہ میں وارد کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے طور پر اس مہینہ کا استقبال کر رہا ہے۔ ہر طرف ایک نیا ولولہ اور جوش ہے۔ یعنی رمضان المبارک کو خوش آمدید کرنے کے لئے ہر سطح پر تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ مسلمان اس ماہ میں اپنے آپ کو اللہ کے قریب تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے، جو رحمت، برکت اور مغفرت کے مواقع سے بھرا ہوا ہے۔ سال 2024ء کا ماہ رمضان المبارک ایسے موقع پر آرہا ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کے علاقہ غزہ کی پٹی میں گذشتہ چھ ماہ سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل فلسطینیوں کی منظم نسل کشی میں مصروف ہے۔ یہ نسل کشی امریکہ، برطانیہ اور مغربی حکومتوں کی باقاعدہ ایماء پر کی جا رہی ہے۔

دنیا میں کوئی ایسی مغربی اور عرب حکومت سمیت مسلمان ممالک کی حکومت موجود ہی نہیں ہے، جو غاصب صیہونی حکومت کے ناپاک ہاتھوں کو کاٹ کر پھینک دے۔ فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی ہیں، جو غزہ کے مظلوموں کا دفاع کر رہے ہیں۔ لبنان میں جنوبی لبنان اور شمالی فلسطین کی ایک سو بیس کلو میٹر کی سرحد پر حزب اللہ ہے، جو غزہ کا دفاع کرتے ہوئے غاصب صیہونی فوج سے مسلسل جنگ میں ہے۔ یمن میں انصار اللہ اور مسلح افواج ہیں، جو غزہ کے ساتھ اپنی یکجہتی کے لئے بحیرہ احمر میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی جہازوں سمیت ہر اس جہاز کا راستہ روک رہے ہیں، جو غاصب اسرائیل کی طرف جا رہا ہو یا پھر وہاں سے آرہا ہو۔ اسی طرح عراق میں بھی غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لئے مزاحمت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے۔

بدقسمتی سے مسلمان اور عرب حکومتیں مکمل بے حس ہوچکی ہیں۔ بے حسی سے زیادہ بے شرمی ہے کہ غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والی غاصب صیہونی حکومت کو ترکی جیسا ملک تیل اور گیس کی سپلائی دے رہا ہے۔ سعودی عرب، بحرین اور اردن سمیت دیگر اپنے اپنے تعلقات اسرائیل کے ساتھ ستوار کرنے میں مصروف ہیں۔ بہرحال ایسے ہی سنگین حالات میں ماہ رمضان المبارک کی آمد ہے۔ اس تحریر سے قارئین کے لئے یہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ماہ رمضان جہاں عبادت کا مہینہ ہے، جہاں رحمت اور مغفرت سمیت برکتوں کا مہینہ ہے، وہاں یہ رمضان کا مہینہ بلا شک و تردید ”فلسطین کا مہینہ“ بھی ہے۔

موجودہ صورتحال میں فلسطین کے مظلوموں کی مدد کرنا ہمارا دینی، سیاسی، اخلاقی اور سب سے بڑھ کر انسانی فریضہ ہے۔ ماہ رمضان المبارک میں عبادات اور تقویٰ کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ فلسطین کے مظلوموں کا غم بھی یاد رکھا جائے۔ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والی صیہونی مصیبت کو بھی یاد رکھا جائے۔ اس مصیبت کے خلاف آواز احتجاج بلند کی جائے۔ حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ فلسطینیوں کی مدد کریں۔ ماہ رمضان المبارک کا اصل فلسفہ یہی ہے کہ انسانیت کی بقاء اور حفاظت کی جائے۔ اسی لئے ماہ رمضان المبارک فلسطین کا مہینہ بھی ہے۔

آئیں اس ماہ رمضان المبارک میں فلسطین کے مہینہ کے عنوان سے معصوم اور بے یار و مدد گار فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ اپنی عبادات اور محافل میں فلسطین کے مظلوموں کا تذکرہ کریں، فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی کامیابیوں کو اجاگر کریں۔ غاصب صیہونی دشمن کے انسانیت مخالف ایجنڈا کو بے نقاب کریں۔ عالمی دہشت گرد امریکہ کی دوہری پالیسیوں اور فلسطینیوں کی منظم نسل کشی میں اسرائیل کے ساتھ دینے پر دنیا بھر میں سخت احتجاج کیا جائے۔ یہی رمضان فلسطین کا مہینہ ہے۔ ویسے بھی ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھر میں عالمی یوم القدس منایا جاتا ہے، لیکن اس سال ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ماہ رمضان المبارک کو فلسطین کا مہینہ منایا جائے۔

عوامی شعور کو بیدار کیا جائے۔ حکومتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ غزہ کے مظلوموں کی عملی مدد کریں۔ اگر ہم نے اس ماہ رمضان المبارک کو فلسطین کا مہینہ تصور کیا اور اس راستے میں اقدامات کئے تو یقینی طور پر یہ اقدامات امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی حکومتوں اور تمام دشمن قوتوں کے لئے بڑی شکست سے تعبیر ہوگا۔ رمضان المبارک کا مہینہ انسانیت کا درس دیتا ہے۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی پایمالی ہے۔ آئین فلسطین کا مہینہ ہے، اس میں فلسطین کے انسانوں ک حقوق کا دفاع کریں۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لہذا یہ فلسطین کا مہینہ ہے۔

آئیں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کریں۔ ان کے لئے آواز اٹھائیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے۔ لہذا یہ فلسطین کا مہینہ ہے، آئیں اس مہینہ میں ہم اپنی قیمتی ترین چیزوں کو فلسطین کی مظلومیت کے لئے قربان کریں۔ اپنے وقت کے ذریعے، اپنی صلاحیتوں کے ذریعے، فلسطین کی مدد کریں، فلسطینی مظلوموں کی حمایت کریں۔ یہی رمضان المبارک کا تقاضہ ہے، یہی فلسطین کا مہینہ ہے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندہ دفتر نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر اسرائيلی حکومت کے ہاتھوں 9 ہزار سے زائد خواتین کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ صیہونی حکومت کو کمیشن برائے خواتین کی حیثیت  سے نکال باہر کیا جائے۔

عالمی یوم خواتین کے موقع پر خواتین کو مضبوط بنانے اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے نا انصافیوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے : " 9 ہزار سے زائد فلسطینی خواتین، سلامتی کونسل کی بے عملی کے درمیان صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سیٹوں پرغاصب صیہونی حکومت کے قبضے کا راستہ روکنا ہوگا۔

فلسطین کی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ کی پٹی پر صیہونی فوج کے حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد 30,800 اور زخمیوں کی تعداد 72,298 ہوچکی ہے۔

ارنا کے مطابق غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے حملوں کے آغاز کو 153 دن گزر جانے کے باوجود جب کہ اس بحران کے حل کے لیے ثالثی کی کوششیں جاری ہیں، قابض افواج اپنے جرائم جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہر لمحہ ایک نئے سانحہ اور تباہی کو جنم دے رہی ہیں۔

صیہونی حکومت نے اپنی مسلسل جارحیت کے علاوہ انسانی امداد اور خوراک کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈال کر صورتحال کو مزید تباہ کن بنا دیا ہے اور ہر روز غذائی قلت کی وجہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

واضح رہے 7 اکتوبر سے غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت میں اب تک  30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہيں جن میں سے بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے ۔

45 دنوں تک جنگ جاری رہنے کے بعد 24 نومبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہوئي جس کے دوران قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔

7 دنوں تک جاری رہنے کے بعد عبوری جنگ بندی ہو گئي اور پہلی دسمبر سے صیہونی حکومت نے غزہ پر پھر سے حملے شروع کر دیئے
https://taghribnews.
اسلام میں عورتوں کی بیعت،خواتین کی ملکیت، ان بنیادی سیاسی اور سماجی میدانوں میں خواتین کی موجودگی کا حق واضح بیان کیا گیا ہے۔

آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور مسائل پر بات کی جاتی ہے۔

ذیل میں رہبر معظم انقلاب کے "اسلام کے نقطہ نظر سے خواتین کے مقام و منزلت اور اسلامی انقلاب کی خواتین کے لئے خدمات" کے عنوان سے دئے خطبات کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

اسلام عورت کے وقار اور عورت ہونے کو اہمیت دیتا ہے

خواتین کے معاملے پر ہمیں ایک جامع نظرئے کا حامل ہونا چاہیے، اور یہ جامع نظریہ صرف اسلام کے پاس ہے۔ عورت کی اصالت کے احترام کا مسئلہ عورت ہونے کے ناطے خود عورت کے لیے بہت بڑی قدر ہے۔ یہ ایک اصول ہے۔

عورت کے لیے مردوں سے مشابہت اختیار کرنا کسی بھی طرح قابل قدر نہیں ہے۔

اسی طرح مردوں کو عورتوں کے مشابہ نہیں سمجھا جاتا۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک کردار، مقام اور فطرت ہے، اور خدا کی حکیمانہ تخلیق میں ان کا ایک خاص مقصد ہے، اور اس مقصد کا پورا ہونا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ نہایت اہم ہے۔

 سیاسی سماجی نقطہ نظر سے

اسلامی حکومت میں عورتوں کے لیے بیعت کا حق ثابت ہے۔

اسلام میں خواتین، مردوں کی طرح، تمام سیاسی اور سماجی شعبوں میں ذمہ دار ہیں، اور بیعت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

اسلام میں عورتوں کی بیعت، خواتین کی ملکیت، ان بنیادی سیاسی اور سماجی میدانوں میں خواتین کی موجودگی کا حق واضح بیان کیا گیا ہے۔

 پیغمبر اکرم ص نے یہ نہیں کہا کہ مرد بیعت کے لیے آئیں اور انہوں نے جس کو ووٹ دیا، جسے انہوں نے قبول کیا، عورتوں کو بھی انہیں قبول کرنا چاہیے۔ نہیں. ایسا باالکل بھی نہیں فرمایا۔ بلکہ انوں نے فرمایا کہ عورتوں کو بھی بیعت کا حق حاصل ہے۔ وہ اس حکومت کو قبول کرنے، اس سماجی اور سیاسی نظام کو قبول کرنے میں بھی برابر کی شریک ہیں۔ 

مغرب والے اس میدان میں اسلام سے 1,300 سال پیچھے ہیں۔ اور وہ کھوکھلے دعوے کرتے ہیں! اسی طرح ملکیت اور دیگر سماجی و سیاسی مسائل سے متعلق شعبوں میں بھی وہ اسلام سے پیچھے ہیں۔

تمام سیاسی اور سماجی شعبوں میں مساوات

"اسلام جب کہتا ہے کہ اور مومنین اور مومنات اولیاء ہیں اور ایکدوسرے کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں۔

یعنی مومن مرد اور عورتیں معاشرتی نظام کو برقرار رکھنے اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں شریک ہیں۔ اسلام نے خواتین کو خارج نہیں کیا۔ ہم بھی خواتین کو خارج نہیں کر سکتے۔ اسلامی معاشرے کو سنبھالنے اور اسلامی معاشرے کی ترقی کی ذمہ داری سب کے کندھوں پر ہے۔ عورت کے کندھے پر، مرد کے کندھے پر؛ ہر ایک اپنی صلاحیتوں کے مطابق یہ ذمہ داری ادا کرے۔

اسلام میں خواتین کی جائیداد کے حقوق اور معاشی آزادی

خواتین کی جائیداد اور آزادی کا حق اسلام میں ایک رسمی طور پر مسلمہ اور ثابت شدہ حق ہے۔اسلام میں عورت اپنے مال کی خود مالک ہے۔ اس کا شوہر راضی ہے یا نہیں؛ اس کا باپ راضی ہو یا نہ ہو- اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا- وہ اپنا مال و دولت خرچ کر سکتی ہے اور اس کا کسی اور سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اسلام کی رائے ہے۔

خواتین کی معاشی آزادی کی حمایت میں دنیا تیرہ سو سال اسلام سے پیچھے ہے۔ اسلام نے یہ بات تیرہ سو سال پہلے کہی۔ لیکن یورپ میں تو صرف 40 سال، 50 سال اور کچھ ممالک میں اس مدت سے بھی کم عرصہ گزرا ہے کہ انہوں نے صرف عورتوں کو اپنی جائیداد میں تصرف کی اجازت دینا شروع کر دی ہے۔ اسلام اس معاملے میں بھی آگے ہے۔

خاندان میں کردار

شریک حیات کے انتخاب کے حق کے علاوہ، خاندان کی مدیریت اور بچوں کی پرورش میں عورت کا بنیادی اور مرکزی کردار ہوتا ہے۔ وہ زندگی میں خصوصی حقوق سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے شوہر کی ساتھی ہے اس کے ماتحت نہیں۔

شریک حیات کے انتخاب کے لیے عورت کے حق کو تسلیم کرنا

عورت ایک بیوی کے طور پر اسلام میں مختلف مراحل میں خصوصی توجہ حاصل کرتی ہے.

 اسلام کی رو سے عورت کو شریک حیات کے انتخاب میں آزادی ہے اور شریک حیات کے انتخاب کے حوالے سے کوئی بھی عورت پر اپنی رائے مسلط نہیں کر سکتا۔ یعنی عورت کے بھائی بھی، عورت کے والد - دور دراز کے رشتہ دار کی تو بات ہی نہیں ہے۔ اگر وہ اس پر اپنی رائے مسلط کرنا چاہیں کہ تم اس شخص سے شادی کرو، تو وہ ایسا نہیں کرسکتے اور انہیں ایسا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ اسلام کی رائے ہے۔

ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ملک کے اندر اور باہر رائے عامہ کی توجہ کا ایک اہم موضوع، خواتین سے متعلقہ مسائل تھے۔ اسلامی انقلاب نے ایک ایسے ماحول میں کامیابی حاصل کی جہاں مختلف مکاتب فکر اور سیکولر حلقوں نے خواتین کے بارے میں ایک خاص نظرئے کو فروغ دیا اور دوسری تہذیبوں اور دینی نظریات کے سفارش کردہ طرز زندگی کو اپنے پرفریب نعروں سے رد کرنے کی کوشش کی۔

مشرقی تعریف میں عورت معاشرے کے حاشیے پر موجود ایک عضو معطل ہے جو تاریخ سازی میں کوئی فعال کردار نہیں رکھتا۔ جب کہ غالب

مغربی تعریف میں اسے ایک ایسے موجود کے طور پر متعارف کرایا گیا کہ جس کی جنسیت اس کی انسانیت پر غالب ہے اور وہ مردوں اور نئے سرمایہ دارانہ نظام کی خدمت کا ایک جنسی آلہ ہے۔

لیکن اسلامی انقلاب نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے عورت کی ایک تیسری اور جداگانہ تعریف پیش کی جس کی بنیاد پر عورت کا ایک منفرد نمونہ سامنے آتا ہے۔ جو اپنی ذات میں نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی بلکہ مسلمان عورت ہے۔

ایران کی مسلم خواتین نے دنیا کی خواتین کی آنکھوں کے سامنے ایک نئی تاریخ رقم کر کے ثابت کر دیا کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ اپنی نسوانی اور انسانی عظمت کی حفاظت کرتے ہوئے معاشرے کے ہر میدان میں اپنی فعال موجودگی کے ساتھ ساتھ خاندان کی تشکیل و تربیت، اور سیاسی و سماجی میدان میں فعال کردار ادا کرسکتی ہے۔

اسلامی نقطہ نظر یا اسلامی انقلاب کی رو سے عورت ایک "کھلونا یا غیر اہم موجود" نہیں کہ جو مردوں کے لئے ہوس کے اسباب فراہم کرے یا پھر پبلسٹی مٹیریل بنے۔ نہیں، باالکل بھی نہیں۔

بلکہ وہ اپنی نسوانی قوتوں کو ایمان اور عفت کے ساتھ جوڑ کر ایک منفرد اور صاحب عظمت وجود تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی رو سے خواتین، معاشرے میں ایک فعال عنصر کے طور پر، خاندان اور بچوں کی پرورش میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں، اور بچے کی پرورش کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ ماں کی آغوش میں پروان چڑھے اور اس کی محبت سے لطف اندوز ہو تا کہ ایک صحت مند معاشرے کا فرد بن سکے۔

 مائیں اپنے بچوں کی پرورش کرکے معاشرے کے ہر فرد کی تعمیر کرتی ہیں اور ملک کی شناخت کے عناصر کے تحفظ اور اسے برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ "کسی قوم کی شناخت، قوم کی شخصیت بنیادی طور پر ماؤں کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ زبان، عادات، آداب، روایات، اچھے اخلاق، اچھی عادات، یہ سب بنیادی طور پر ماں کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔ 

اسلامی انقلاب کی چار دہائیوں کے بعد، سماجی مسائل میں خواتین کے کردار اور سائنس، ثقافت، سیاست اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں حیرت انگیز پیشرفت نے دنیا کو ایرانی (مسلمان) خواتین کی اجتماعی ترقی کی طرف توجہ دلائی ہے۔

 آج خواتین کی حقیقی شناخت اور ثقافتی آزادی کا پرچم مسلمان خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ آج حجاب رکھ کر ایرانی خواتین دنیا کے سامنے اپنی شناخت اور ثقافتی آزادی کا برملا اعلان کر رہی ہیں۔

ایرانی (مسلمان) خواتین نے دنیا میں رائج مشرقی اور مغربی تعریف کے طلسم کو توڑتے ہوئے عورت کا اسلامی نمونہ پیش کیا جو خالصتا انسانی عظمت اور نسوانی تشخص پر قائم ہے۔

اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کی ترقی کا جائزہ

 خواتین کے بارے میں پہلوی دور کے مغرب زدہ تصور نسوانیت (جہاں عورت کو مرد کی تسکین کا آلہ سمجھا جاتا ہے) کے برخلاف آج اسلامی جمہوریہ ایران اپنی الہی بنیادوں پر بھروسہ کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں باصلاحیت خواتین کی تربیت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ان خواتین کی تعلیم و ترقی خواتین کے مسئلے میں اسلامی انقلاب کے صحیح نقطہ نظر کو آگے بڑھانے اور باطل مغربی ثقافت پر قابو پانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس کی مثالیں ایرانی خواتین کی اعلی ترقی پسند تحریک کو واضح کر سکتی ہیں:

صاحب فکر اور اچھے فہم و فراست کی حامل خواتین کی پرورش:

ایران بھر میں اعلی صلاحیتوں کی حامل خواتین اسلامی نظام کی کامیابی اور خواتین کے بارے میں اسلام کے ترقی پسند نقطہ نظر کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہمارے ہاں پہلوی رجیم کے دور میں اتنی اعلیٰ پائے کی خواتین نہیں تھیں۔ آج ملک بھر میں خواتین محققین، پروفیسرز، سائنسدانوں، مصنفین، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، مصوروں کی قابل ذکر تعداد خواتین کی سائنسی اور فکری ترقی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

طب کے میدان خواتین کی ترقی

"آج ایران کی طبی پیشرفت نے تقریباً ایک بین الاقوامی حیثیت حاصل کر لی ہے۔

 یہ پیش رفت ایسی ہے کہ آج ملک میں خواتین کو مرد ڈاکٹر سے علاج کرانے کی ضرورت نہیں پیش نہیں آتی جبکہ انقلاب سے پہلے یہ مسئلہ ایرانی معاشرے کے بڑے مسائل میں سے ایک تھا۔

اسلامی انسانی علوم کے شعبے میں خواتین کی زبردست موجودگی

آج حوزوی علوم، فقہ، فلسفہ، انسانی علوم میں اسی طرح نیچرل سائنسز اور ملک کے تمام سائنسی شعبوں میں خواتین کی موجودگی واضح اور شاندار ہے۔ یونیورسٹیاں ہماری طالبات سے بھری پڑی ہیں۔ سائنسی شعبہ جات میں خواتین کی فعال موجودگی ان کی ترقی کی نشاندہی کرتی ہے۔

کھیلوں کے میدان میں خواتین کی شاندار کارکردگی

اسلامی جمہوریہ ایران خواتین کے کھیلوں کی ترقی کے لیے ایک زبردست پلیٹ فارم فراہم کرنے میں کامیاب ہوا۔ تاکہ ایرانی خواتین اپنی عفت اور حجاب کو برقرار رکھتے ہوئے عالمی مقابلوں میں شرکت کر سکیں۔ 

ہماری کھلاڑی خواتین کا حجاب پہننے کا معاملہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

 یہ واقعا حیرت انگیز بات ہے کہ ایک باپردہ خاتون چیمپیئن کے طور پر میدان میں کھڑی ہے اور سب کو احترام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

 سماجی ترقی میں خواتین کا کردار

 ایران کی مسلمان خواتین کا معاشرے کی ترقی میں نمایاں کردار ہے۔ وہ اسلامی قدروں پر پوری طرح کاربند رہتے ہوئے ملک کے سیاسی، سماجی شعبوں میں زیادہ فعال نظر آتی ہیں اور یہ ایران کی مسلمان خواتین کے لیے اسلامی انقلاب کے ثمرات اور خدمات میں سے ایک ہے۔

مغرب کے شیطانی منصوبوں کا مقابلہ کرتی مسلم خواتین

اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی آئین کے بنیادی ستونوں میں سے ایک خواتین کی ثقافتی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی حیثیت کا فروغ رہا ہے۔

 جس کے نتیجے میں ایرانی خواتین کو مکمل حقوق اور ترقی کے مواقع میسر آئے ہیں۔ 

اسلامی جمہوریہ نے ایرانی خواتین کو سائنس، کھیل، آرٹ وغیرہ سمیت تمام شعبوں میں بین الاقوامی سطح پر اپنے دینی اور قومی عقائد کی ترجمانی کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ اس اسلامی نقطہ نظر اور پالیسی نے خواتین کے بارے میں مغربی تصورات کو چیلینج کر دیا۔

 درحقیقت، مغربی پالیسیوں نے خواتین کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا، لیکن آج مغرب والے پوری بے حیائی کے ساتھ حقوق نسواں کے علمبردار ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں"! 

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے نام پر استحصال کر رہے ہیں۔

 انقلاب کے بعد کے سالوں کے دوران دشمن نے خواتین کے حجاب اور اسلامی سرگرمیوں کے خلاف کام کیا۔ ان کی آخری کوششیں گزشتہ چند مہینوں اور حالیہ فسادات کے دوران ہوئیں، لیکن وہ خواتین کی عفت کو نقصان نہ پہنچا سکیں اور "خواتین ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں.

مغربیوں ​​کو امید تھی کہ جو خواتین آدھا حجاب پہنتی ہیں وہ حجاب اتار پھینکیں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یعنی انہوں کے مغرب پر طمانچہ رسید کیا اور انہیں منہ کی کھانی پڑی۔

لہٰذا یہ کہنا ضروری ہے کہ اگرچہ مغرب کئی سالوں سے ایرانی (مسلمان) عورت کی اسلامی ثقافت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ایران کی تعلیم یافتہ خواتین اور مائیں ہمیشہ سماجی اور سیاسی میدانوں میں موجود رہ کر ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہیں اور مغربیوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔

 آج ایرانی مسلمان خاتون، عزت و وقار کا استعارہ ہے۔ اگرچہ مغرب والے اس حقیقت کو برعکس دکھانے کے لیے میڈیا کے ذریعے جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں،لیکن حقیقت یہی ہے۔

 آج ہماری سب سے زیادہ تعلیم یافتہ خواتین، دینی اور انقلابی خواتین ہیں۔ آج ہماری نوجوان خواتین سائنسی تجربہ گاہوں اور مراکز میں موجود اور سرگرم ہیں۔ اسی طرح سیاسی، سائنسی، سماجی میدان میں سب سے زیادہ سرگرم خواتین ہماری مذہبی اور انقلابی خواتین ہیں۔

ایرانی (مسلمان) خواتین نے دنیا میں رائج مشرقی اور مغربی تعریف کے طلسم کو توڑتے ہوئے عورت کا اسلامی نمونہ پیش کیا جو خالصتا انسانی عظمت اور نسوانی تشخص پر قائم ہے۔