سلیمانی

سلیمانی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مشرقی آذربائيجان صوبے کے دس ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کانفرنس کا اہتمام کرنے والے منتظمین نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات 6 دسمبر 2023 کو ہوئی جس میں خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ ہدایات دیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کی یہ تقریر 14 دسمبر 2023 کو کانفرنس ہال میں دکھائی گئی۔(۱)

خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللّہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہنا معاشرے اور ہمارے آج اور کل کے لیے ضروری اور مفید

میں اس ضروری اور بہت مفید کام کا بہت شکر گزار ہوں جسے آپ عزیز بھائيوں اور بہنوں نے انجام دیا اور آذربائيجان اور تبریز کے شہیدوں کے نام اور ان کی یاد کو، جو یقینی طور پر ناقابل فراموش ہے، آپ نے زیادہ اعلی سطح پر اور زیادہ واضح انداز میں پیش کیا، یہ بہت ہی اچھا اور مناسب اقدام ہے۔ البتہ خراج عقیدت پیش کرنے کی پچھلی کانفرنس، جو کئي سال پہلے منعقد ہوئي تھی اور اس کانفرنس کے درمیان فاصلہ کچھ زیادہ ہو گيا، مناسب ہوگا کہ اس طرح کے اقدامات اور خراج عقیدت پیش کرنے کی کانفرنسیں، یاد منانے کے پروگرام جلدی جلدی دوہرائے جائیں، جس طرح سے کہ ہم ہر سال محرم میں شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں، اس وقت مثال کے طور پر تیرہ سو سال ہو گئے ہیں اور یہ کام ہر سال دوہرایا جاتا ہے لیکن یہ دوہرایا جانا، تھکانے والے کاموں کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ معاشرے اور ہمارے آج اور کل کے لیے ضروری اور مفید کاموں میں سے ہے۔

خود پر نگرانی رکھنا، ہر شخص، قوم اور گروہ کے لیے ضروری

تبریز اور آذربائیجان کے بارے میں تعریفی باتیں کم نہیں ہیں، ہم نے بھی ہر سال آپ کے ساتھ اپنی سالانہ ملاقات میں، مسلسل اس سلسلے میں بات کی ہے۔ شہیدوں کے بارے میں آج کی اس نشست میں محترم امام جمعہ اور سپاہ کے محترم کمانڈر نے جو باتیں بھی کہی ہیں وہ بہت اچھی اور مکمل تھیں، وہ ساری سفارشیں جو ہم عرض کرنا چاہتے ہیں اور عام طور پر عرض کرتے ہیں، ان پر بحمد اللہ آپ حضرات کی توجہ تھی اور ان میں سے بہت سی باتوں پر آپ نے عمل بھی کیا ہے۔ میں بس اتنا عرض کروں کہ ہماری ایک ذمہ داری یہ ہے کہ خود پر، اپنے آپ پر نظر رکھیں۔ قوم اپنے تشخص کو فراموش نہ کرے، اگر اس نے اپنے تشخص کو بھلا دیا تو وہ نقصان اٹھائے گي، اسے چوٹ پہنچے گي، وہ پچھڑ جائے گي۔ خداوند عالم ان لوگوں کے بارے میں جو اس کی یاد کو بھلا چکے ہیں، فرماتا ہے: "نَسُوا اللَّہَ فَاَنساھُم اَنفُسَھُم"(2) انھوں نے خدا کو بھلا دیا، خدا نے انھیں خود ان ہی کی طرف سے غافل کر دیا اور انھیں ان کی طرف سے فراموشی میں مبتلا کر دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خود پر توجہ، اپنے تشخص پر توجہ، اپنی خصوصیات پر توجہ، ہر شخص، ہر قوم اور ہر گروہ کے لیے ایک ضروری کام ہے۔

صوبۂ آذربائيجان، ایرانی قوم کے درمیان ایک ممتاز تشخص کا حامل، بہادروں اور شہیدوں کا گہوارہ

آذربائیجان کو اس تشخص پر، جس نے اسے ممتاز بنا رکھا ہے، پوری توجہ رکھنی چاہیے۔ حقیقی معنی میں، جس علاقے کو ہم "آذربائيجان" کہتے ہیں، وہ ایرانی قوم کے درمیان ایک ممتاز تشخص کا حامل ہے۔ آذربائيجان بہادروں اور شہیدوں کا گہوارہ ہے۔یہ چیز مقدس دفاع سے مختص نہیں ہے، پہلے سے ہی ایسا رہا ہے، اب بھی ایسا ہی ہے۔ جہاں تک اسلامی انقلاب کی بات ہے، اگر ہم حساب کرنا چاہیں، انقلاب سے پہلے، یعنی امام خمینی اور ایرانی قوم کی تحریک کے آغاز سے، آذربائیجان میں شہادت کا کردار اور شہادت کا آہنگ شروع ہو چکا تھا جو اب تک ہے۔ دفاع حرم میں آذربائيجان کے خطے کے لوگ شہید ہوئے ہیں۔ البتہ ان قربانیوں کا نقطۂ عروج اور آذربائيجان کی اس اعلی قدر کے مظاہرے کا نقطۂ عروج، مقدس دفاع تھا اور یہی شخصیات جن کا جناب نے نام لیا: شہید آقا مہدی باکری، شہید حمید باکری، شہید تجلائي، شہید یاغچیان یہی نمایاں افراد تھے جو شہید ہوئے، ان میں سے بہت سے عزیز اور نمایاں افراد بحمد اللہ آج بھی حیات ہیں، یعنی شہادت پسندی اور ایثار و فداکاری کی یہ خصوصیت مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے سے لے کر آج تک جاری رہی ہے۔ اس شہر کے دو امام جمعہ شہید ہوئے ہیں(3) یعنی پورے ملک میں شہید ہونے والے پانچ ائمہ جمعہ میں سے، جو علمائے دین کے افتخارات کا حصہ ہیں،(4) دو ائمہ جمعہ تبریز شہر کے ہیں۔ یہ باتیں اہم ہیں، یہ بڑی نمایاں خصوصیات ہیں۔

معاشرے میں شہیدوں کی اخلاقی خصوصیات کو نمونۂ عمل بنا کر ان کی یاد کو زندہ رکھنے پر تاکید

جو بات میں نصیحت اور سفارش کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلے تو شہیدوں کے خون کی گرمی کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجیے، یعنی شہیدوں کی یاد صرف ان کے واقعات کو بیان کرنا نہیں ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تقوی، وہ ایثار، وہ شجاعت اور وہ وجود کا درخشاں گوہر جو شہید باکری جیسے افراد کو میدان میں کھینچ لاتا ہے، اسے بیان کیا جائے، پہنچایا جائے تاکہ وہ نئی نسل کو آئيڈیل دے۔ ہمارے جوان کو آئيڈیل کی ضرورت ہے اور سب سے اچھے آئيڈیل یہ ہیں۔ بعض قومیں، جن کے ہاتھ اس لحاظ سے بالکل خالی ہیں یا بڑی حد تک خالی ہیں، وہ آئيڈیل بناتی ہیں، بغیر وجود کے آئيڈیل گڑھتی ہیں۔ ہمارے سامنے تو یہ آئيڈیل موجود ہیں۔ شہید باکری کو صرف میدان جنگ میں نہیں دیکھنا چاہیے، محاذ کے پیچھے بھی دیکھنا چاہیے، تبریز یونیورسٹی میں بھی دیکھنا چاہیے، ان کی انقلاب سے پہلے کی سرگرمیوں کو بھی دیکھنا چاہیے، اس جذبے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ میں انقلاب سے پہلے مشہد میں شہید آقا مہدی باکری سے ملا تھا، جوشیلے، سمجھدار، دلچسپی لینے والے، واقعات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے۔ یہی باتیں سبب بنیں کہ بعد میں وہ جنگ میں، مقدس دفاع کے میدان میں اس طرح سے نکھرے، ابھر کر سامنے آئے اور دلوں کو اپنی طرف مائل کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ یہ جذبہ لوگوں تک پہنچایا جانا چاہیے۔ ہم اگر کوئي فلم بناتے ہیں، کوئي نظم لکھتے ہیں، کوئي کتاب تحریر کرتے ہیں، یادگار واقعات کو اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں نشر کرتے ہیں، شائع کرتے ہیں تو ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ جذبہ دوسروں تک پہنچے، یہ تعمیری جذبہ ہے۔ یہ پہلی بات ہوئي کہ شہیدوں کے خون کی گرمی کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجیے، جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا، سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری کی طرح، یعنی جس طرح ہر سال محرم میں ہوتا ہے، جب عاشورا کا دن آتا ہے تو گويا آپ سنہ اکسٹھ ہجری کے عاشورا کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں، واقعات آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں، سننے والے کی نظروں کے سامنے شخصیتیں مجسم ہو جاتی ہیں، یہی چیز دفاع مقدس کے شہیدوں اور ان دس ہزاروں شہیدوں کے بارے میں بھی ہونی چاہیے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا۔

شہیدوں کے حالات و واقعات کو رقم اور محفوظ کرنے کے لیے ان کے اہل خانہ، رفقائے کار اور دوستوں سے استفادہ

دوسری بات یہ ہے کہ شہیدوں کے اہل خانہ کو نہ بھولیے۔ افسوس کہ بہت سے والدین دنیا سے گزر چکے ہیں، اپنے شہیدوں سے ملحق ہو چکے ہیں، اب جو لوگ ہیں، چاہے وہ شہیدوں کی بیویاں ہوں یا ان کے والدین ہوں، ان کی یادوں سے، ان کی باتوں سے استفادہ کیجیے۔ اسی طرح شہیدوں کے رفقائے کار اور دوستوں سے بھی، مثال کے طور پر جنگ کے دوران شہید باکری کے کافی رفقائے کار تھے جن میں سے بعض بحمد اللہ اس وقت حیات ہیں، صحت مند ہیں، آمادہ ہیں، انھوں نے میدان جنگ میں ان کی زندگي کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی دیکھی ہے۔ شجاعت صرف جنگ کرنے میں نہیں ہوتی، شجاعت اپنے نفس پر کنٹرول میں، شجاعت بات کرنے میں، شجاعت بات نہ کرنے میں، شجاعت اقدام کرنے میں اور اقدام نہ کرنے میں بھی ہوتی ہے، یہ ساری چیزیں اہم ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے، پہچانا ہے، ایسے لوگوں سے استفادہ کیا جائے، ان سے انٹرویو لیا جائے، بات کی جائے، شہیدوں کے حالات حقیقی دستاویز کے طور پر ریکارڈ ہوں اور پہچانے جائيں۔ یہ دوسری بات ہوئي۔

شہیدوں کے عروج کی راہوں کی شناخت کی ضرورت

ایک اور بات یہ ہے کہ جب شہیدوں کی بات کی جائے تو ان چیزوں کو بھی متعارف کرایا جائے جنھوں نے ان کے عروج کی راہ ہموار کی۔ مثال کے طور پر لوگ یا وہ افراد جنھوں نے ابتدائي چنگاریوں کو وجود عطا کیا، جیسے شہید قاضی طباطبائي نے انقلاب کے معاملات میں، مثال کے طور پر 18 فروری 1978 کو وہ تھے جنھوں نے پہلی چنگاری پیدا کی، سب سے پہلے اقدام کیا، لوگوں کو اپنے مکان اور اپنی مسجد میں آنے کی دعوت دی اور اس دن کی باقی باتیں؛ مطلب یہ کہ وہ چیزیں واضح ہوں جنھوں نے راہ ہموار کی۔ قم کے واقعے کے بعد سب سے پہلا اقدام فلاں شہر اور فلاں شہر میں نہیں بلکہ تبریز میں کیا گيا، اس کی وجہ کیا ہے؟ یہاں کے لوگوں میں کیا خصوصیت ہے کہ وہ اس طرح کے جوانوں کو معرض وجود میں لاتے ہیں، اس طرح پرورش کرتے ہیں، اس طرح شہیدوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں؟ یہ چیزیں بہت اہم ہیں، یعنی قومی تشخص، ملی تشخص اور دینی تشخص۔ میں نے ایک بار ان ہی آذربائیجانی بھائيوں اور بہنوں کے اجتماع میں کہا تھا(5) کہ جب مرحوم ستار خان نے 'تحریک مشروطہ' میں اور اس دوران جو اقدامات انھوں نے کیے تھے، اس وقت ان کی جیب میں علمائے نجف کی تحریر موجود تھی، یعنی انھوں نے علمائے نجف سے استفتاء کیا تھا، سوال پوچھا تھا اور انھوں نے بھی انھیں جواب دیا تھا، وہ اس نیت سے آگے بڑھ رہے تھے، یہ بہت اہم ہے۔ آگے بڑھنے کی وجہ کیا ہے، محرّک کیا ہے، یہ واضح ہونا چاہیے، یہ اس کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر یہ کام ہو گيا تو پھر قدم بڑھتے رہیں گے۔

مقدس دفاع کے مؤثر اور نادر واقعات کو ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت کرنے کی اہمیت

31 عاشورا ڈویژن کا کردار تو واضح ہے، ایسی شخصیات تھیں جنھوں نے واقعی اپنی چمک دکھائي، میں سیکنڈ ٹیکٹکل ایئر بیس(6) کے رول کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا: جنگ کے بالکل ابتدائي دنوں میں ہمارے جنگي طیاروں کے اس عظیم اقدام نے، جنھوں نے سیکنڈ ایئر بیس اور دوسرے بیسز سے، تھرڈ(7) اور فورتھ ایئر بیس(8) سے اڑان بھری تھی اور وہ بڑا کارنامہ انجام دیا تھا، جنگ کے پہلے ہی ہفتے میں یہ کام کر دیا تھا اور میں نے اسی وقت پارلیمنٹ میں جا کر اراکین پارلیمنٹ کو اس کی تفصیلات بتائي تھیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو قابل توجہ اور بہت اہم ہیں اور ان شاء اللہ انھیں ذہنوں میں باقی رہنا چاہیے، ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت ہو جانا چاہیے، مطلب یہ کہ سب سے اہم کام یہ ہے کہ ان اہم واقعات کو، ان مؤثر اور نادر اور بعض مواقع پر بے نظیر واقعات کو ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت کرنا چاہیے اور ہمارے جوانوں اور بچوں کو ان کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ البتہ اب تک ہم نے کسی حد تک تساہلی دکھائي ہے نتیجتا ہمارے بہت سے جوان، ہمارے بہت سے بچے، نمایاں شخصیات کو نہیں پہچانتے اور بہت سے اہم واقعات کا علم نہیں رکھتے، ہمیں ان چیزوں کو ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے اور اسی طرح کے دوسرے سرکاری تشہیراتی اداروں سے بھی اور ان وسائل کے ذریعے بھی جو آج لوگوں کے پاس اور ان کی دسترس میں ہیں، نشر اور شائع کرنا چاہیے۔

میں دعاگو ہوں کہ خداوند عالم آپ سبھی کو توفیق عطا کرے اور آپ اس عظیم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائيں اور ان شاء اللہ مستقبل میں، خراج عقیدت کی ان کانفرنسوں اور نشستوں کے درمیان کا وہ فاصلہ، جو آج اور پچھلی کانفرنس کے درمیان کا ہے، مزید کم ہو۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں مشرقی آذربائيجان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور تبریز کے امام جمعہ حجت الاسلام سید محمد علی آل ہاشم اور مشرقی آذربائيجان صوبے میں سپاہ عاشورا کے کمانڈر اور کانفرنس کے سیکریٹری بریگیڈیر جنرل اصغر عباس قلی زادہ نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) سورۂ حشر، آيت 19، وہ اللہ کو بھول گئے تواللہ نے ان کو اپنا آپ بھلا دیا۔

(3) شہید آيت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائي اور شہید آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی

(4) شہید آیت اللہ محمّد صدوقی، شہید آیت اللّہ عطاء اللّہ اشرفی اصفہانی، شہید آیت اللّہ سیّد عبد الحسین دستغیب، شہید آیت اللّہ سیّد محمّد علی قاضی طباطبائی اور شہید آیت اللّہ سیّد اسد اللّہ مدنی

(5) مشرقی آذربائيجان صوبے کے عوام سے خطاب (16/2/2013)

(6) شہید فکوری سیکنڈ ایئر بیس، تبریز

(7) شہید نوژہ تھرڈ ایئر بیس، ہمدان

(8) شہید وحدتی فورتھ ایئر بیس، دزفول


امریکہ نے صیہونی حکومت کے اہم حامی کے طور پر غزہ جنگ کے دوران نہ صرف صیہونی حکومت کی وسیع سیاسی اور فوجی مدد کی ہے بلکہ امریکی انتظامیہ نے فلسطینیوں کے حامیوں اور اسرائیل کے جرائم پر تنقید کرنے والوں کے خلاف بھی دباؤ بڑھا رکھا ہے۔ مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے فلسطین کے حامیوں بالخصوص یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور اسٹوڈینٹس کو ہر قسم کے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ بعض پروفیسروں کو اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے یا استعفیٰ دینے پر مجبور ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں ریاستہائے متحدہ کانگریس کی تعلیم اور افرادی قوت سے متعلق کمیٹی نے 5 دسمبر کو یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی صدر "لِز میگل"، ہارورڈ یونیورسٹی کی صدر "کلاؤڈین گی" اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی صدر "سیلی کورن بلوتھ" کو تفتیش کے لئے بلایا۔ یہ کارروائی کانگریس کی جانب سے غزہ کی پٹی کے لیے حمایت کا اعلان کرنے کے لیے بعض امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے اقدامات کی مذمت میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد ہوئی ہے۔

اس قرارداد کے مطابق حماس، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروپوں کی امریکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حمایت مبینہ "دہشت گردی" کی حمایت سمجھی جائے گی۔ اگرچہ مذکورہ قرارداد میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ محض ایک علامتی اقدام ہے، لیکن امریکی یونیورسٹی کے صدور کے تفتیشی پروگرام نے اس دعوے کے برعکس ظاہر کیا اور ثابت کیا کہ قرارداد کے مواد پر امریکی یونیورسٹیوں میں باقاعدہ عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں امریکی یونیورسٹی کے طلباء کی سیلف سنسر شپ اور اس کی وجوہات کے بارے میں شائع ہونے والا ڈیٹا اس معاملے کی سچائی کو ثابت کررہا ہے۔

امریکی کانگریس کے مطالبے کے بعد یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی صدر "لِز میگیل" جنہیں اس یونیورسٹی کے کیمپس میں فلسطین کے مظلوم عوام کے حامیوں کے مظاہرے کے بعد امریکی کانگریس میں طلب کیا گیا، ریاستی دھمکیوں کی وجہ سے پیر کے روز اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں۔ پنسلوانیا یونیورسٹی کے طلباء نے اس سے قبل صیہونی حکومت کے جرائم پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں شہریوں کے قتل عام کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس یونیورسٹی میں ہونے والے مظاہرے میں "Liz Magill" کو اسرائیل کے حامیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

 ایک اور تقریب میں ہارورڈ یونیورسٹی کے چار طلباء کو غزہ کے عوام کی حمایت اور احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرنے پر یونیورسٹی کی تادیبی کمیٹی میں بلایا گیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس یونیورسٹی میں فلسطین کے حامیوں کی طرف سے مظاہروں کو ایک ناقابل قبول رویہ قرار دیکر اسے تعلیم  اور تعلیمی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں گذشتہ ماہ فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے والے طلباء کو خبردار کیا جائے گا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے طالبعلم "کوجو اچمپونگ" کا کہنا ہے کہ: تادیبی کارروائیوں میں طلباء کی پڑھائی کی معطلی بھی شامل ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ (یونیورسٹی حکام) ہمیں نہیں روک سکتے اور یہ اقدامات ہمیں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی سے نہیں روک سکتے۔

 اسرائیل کے لیے انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والی بائیڈن کی جمہوری حکومت کی وسیع حمایت کے باوجود، امریکہ کے اندر عوام، اشرافیہ، خاص طور پر طلباء اور پروفیسرز غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مخالفت اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی یونیورسٹیاں فلسطینی قوم کے حامیوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تصادم کا مرکز اور 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے بعد کے ہفتوں میں مختلف احتجاجی ریلیوں کا مرکز بن چکی ہیں۔ صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت میں یونیورسٹی کے پروفیسرز کے موقف اور اسرائیلی جرائم کے خلاف طلباء کے احتجاج ن کی وجہ سے ان کے خلاف  ریاستی دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔

 یہود دشمنی کے الزامات کے ذریعے امریکی ماہرین تعلیم پر لایا جانے والا دباؤ اس حقیقت کا باعث بنا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ خود سنسر شپ کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ان تنازعات کے بارے میں علمی رائے دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ امریکہ میں مشرق وسطیٰ کے 80 فیصد پروفیسرز اور طلباء کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی جرائم کے بارے میں سیلف سنسر کے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی حمایت میں وسعت اور غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت نے امریکی انتظامیہ کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ امریکی یونیورسٹیوں کی سطح بالخصوص یونیورسٹی کے مراکز کی انتظامیہ نیز طلباء اور پروفیسروں کو ڈرا دھمکا اور انہیں نکالنے کی دھمکیاں دے کر خاموش کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے صدر کے حوالے سے تادیبی کارروائی نے ایک بار پھر مغرب اور خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ میں آزادی اظہار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

 اہل مغرب ان لوگوں کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کرتے ہیں، جو ان کے نقطہ نظر سے مقدس اور ناقابل اعتراض معاملات میں غیر روایتی یا غیر مجاز موقف اختیار کرتے ہیں۔ مغرب کے حکمران ان کے خلاف ہر قسم کے دباؤ اور سزائیں لاگو کرتے ہیں۔ درحقیقت امریکہ سمیت مغربی ممالک میں اظہار رائے کی آزادی صرف اس وقت تک موجود ہے، جب تک کہ کوئی ان کی سرخ لکیروں یا ان ممالک کے نام نہاد ممنوعات، مثلاً صیہونی حکومت یا ہولوکاسٹ کی مکمل حمایت پر سوالیہ نشان نہیں لگاتا۔ جیسے ہی اس ایشو پر یا فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے جرائم کی مذمت کے بارے میں کوئی چھوٹا سا بھی سوال اٹھائے تو اس طرح کے اقدامات کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جاتی ہے۔

تحریر: سید رضا میر طاہر

Wednesday, 13 December 2023 02:02

آیت حجاب کا شان نزول

مورخین نے صر اسلام کے حالات اور اس دور کی تاریخ کے باب میں یہ تحریر کیا ہے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانہ میں خواتین پردہ کرتی تھیں البتہ ان کا حجاب اور پردہ ، کامل اور جس قسم کے پردہ کا حکم اسلام نے دیا ہے ویسا پردہ نہ تھا، عرب خواتین معمولا لمبے لمبے لباس پہنا کرتی تھیں مگر گلہ کھلا ہوتا تھا ، گردن اور سینہ کا بالائی کچھ حصہ قابل دید تھا، سر پر جو اسکارف اور دوپٹہ ڈالتیں اسے اپنی پشت پر ڈال دیتیں، جس کی وجہ سے انکا کان ، کان کی بالیاں ، گردن اور سینہ کا بالائی  حصہ قابل دید ہوجاتا ۔ (۱)

امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا : ایک دن گرمی کے موسم میں مدینہ کی گرم ہوا میں ایک خوبصورت عورت معمول کے مطابق سر پر اسکارف باندھے ، اسکارف کے سرے کو اپنی پشت پر ڈالے کہ جس کی وجہ سے ان کی گردن اور کان دِکھ رہا تھا، گلی سے گذر رہی تھی ، اصحاب پیغمبر اسلام (ص) میں سے ایک صحابی سامنے کی گلی سے ارہے تھے ، وہ اس حَسِین اور خوبصورت منظر کو دیکھنے میں اس قدر محو ہوگئے کہ اپنے اطراف سے غافل ہوگئے اپنے سامنے کا راستہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے ، وہ عورت گلی میں داخل ہوگئی مگر صحابی کی نگاہیں اس کا تعاقب کرتی رہیں کہ ناگہاں اپ کا چہرہ  دیوار سے  باہر نکلے ہوئے شیشہ کے ٹکڑے سے ٹکرایا اور اپ کی صورت زخمی ہوگئی ، جب وہ غفلت سے چونکے تو ان کے چہرہ خون سے لد پھد رنگین اور زخمی ہوچکا تھا، وہ اسی حالت میں رسول اسلام (ص) کی خدمت میں پہونچے اور انہوں نے مرسل اعظم (ص) سے تمام ماجرا بیان کیا ۔ (۲)   

یہ وہ مقام ہے جس کے بعد رسول اسلام (ص) پر آیت حجاب نازل ہوئی « وَ قُلْ لِلْمُؤْمِناتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ إِلاَّ ما ظَهَرَ مِنْها وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلی جُیُوبِهِنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ .... ؛  اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں ۔ » (۳)

اس ایت کریمہ کے لب و لہجہ سے یہ بات واضح اور روشن ہے کہ مذکورہ ایت حجاب اور پردہ کے دائرہ اور محدودہ کو بیان کررہی ہے کیونکہ صدر اسلام کی عورتوں کے بدن ، لمبے لباس اور پہناوے سے ڈھکے ہوئے تھے مگر گردن اور سینہ کا بالائی حصہ کھلا ہوا تھا ۔

اس ایت میں موجود اس ٹکڑے « لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلی جُیُوبِهِنَّ » کے سلسلہ میں راغب اصفھانی فرماتے ہیں کہ خمر کے لغوی معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اور خمار اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو ڈھکا یا چھپایا جائے مگر عرف عام میں خمار اس کپڑے سے مخصوص ہے جس سے عورت اپنا سر چھپاتی اور ڈھکتی ہے (۴)

بیان کیا جاتا ہے کہ اس ایت کے نازل ہونے کے وقت عرب معاشرہ کی خواتین اپنے اسکارف کے چاروں کونے سمیٹ کر اپنی پشت پر ڈال دیتی تھی جس کے نتیجہ میں ان کا گلا اور سینہ کا اوپری حصہ کھل جاتا تھا ۔ (۵) تو پھر ایت کے معنی اور اس کی تفسیر یہ ہوئی کہ عورتیں اپنا اسکارف سمیٹ کر اپنی پشت پر ڈالنے سے پرھیز کریں ، اس سے اپنی گردن اور اس کے نیچے کے حصہ کو بھی چھپائیں تاکہ ان کی گردن اور سینہ کا اوپری حصہ بھی ڈھکا رہے ۔

ابن عباس اس ایت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ «تغطی شعرها، و صدرها، و ترائبها و سوالفها» یعنی عورت اپنا بال ، اپنا سینہ، گردن کے اطراف اور گردن کے نیچہ کا حصہ چھپائے رکھے ۔ (۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شھید مطهری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج 19، ص 484- 485
۲: فیض کاشانی، تفسیر صافی، ج 5، ص 230 اور شھید مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج 19، ص 485
۳: قران کریم، سورہ نور، ایت 31
۴: راغب اصفهانی، مفردات الفاظ قرآن، لفظ خمر
۵: قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ج 2، لفظ حجب
۶: طبرسی، مجمع البیان، ج 4، ص 138

 


 

فاطمیہ کیا ہے ، اس کی اہمیت کیا ہے ، رحلت پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کیا حالات پیش آئے ، ان حالات اور واقعات کا ہمارے عقائد اور ہمارے دین سے کیا تعلق ہے ، اور کیوں بعض حضرات مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ فاطمیہ کو ختم کردیں یا حداقل ان ایام کی اہمیت کو کم اہمیت یا کم فروغ بنادیں ؟ کیونکہ فاطمیہ تشیع کی بنیاد اور عقائد کے ایک اہم مسٔلہ کو حل کر رہی ہے اور اس مسٔلہ کا تعلق امامت و ولایت اہلبیت طاہرین علیہم السلام جیسے عظیم ، اہم اور بنیادی مسٔلہ سے ہے جس کے بارے میں نبی گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن دوسرے میری عترت جو میرے اہلبیت ہیں اور جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہونچے۔ (۱)

حدیث ثقلین میں نبی گرامی اسلام ، امت کی نجات کا ذریعہ قرآن اور اہلبیت کو پہچنوا رہے ہیں اور امت کو قرآن اور ان ذوات مقدسہ سے متمسک ہونے کا دستور دے رہے ہیں اور اس بات پر تاکید فرما رہے ہیں کہ میرے بعد گمراہی سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ انسان قرآن اور اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے دامن کو تھام لے ان سے متمسک ہوجائے اور جب تک انسان ان کا دامن تھامے ہوئے ہے گمراہی سے بچا ہوا ہے اور جہاں ان کا دامن ہاتھ سے چھوٹا انسان گمراہی کے دلدل میں گرتا چلا جائے گا۔

اسی طرح آپ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : جو اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ (۲)

امام حسین علیہ السلام بھی اسی مطلب کی جانب ایک حدیث میں اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اللہ جل ذکرہ نے انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے کہ اس کی شناخت حاصل کریں اور جب اس کو پہچان لیں گے تو اس کی عبادت کریں گے اور اگر اس کی عبادت کریں گے تو اس کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا : اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے بتائیے اللہ کی معرفت کیا ہے ؟ امام نے فرمایا : ہر عصر کے لوگوں کا اپنے زمانہ کے اس امام کی معرفت حاصل کرنا جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔ (۳)

جاری ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

۱: صحیح ترمذی ، ج ۵ ، ص ۶۶۲ و ۳۲۸ ؛ مستدرک حاکم ، ج ۳ ، ص ۱۰۹ ، ۱۱۰ ، ۱۴۸ ، ۵۳۳ ؛ سنن ابن ماجه ، ج ۲ ، ص ۴۳۲ ؛ مسند احمد بن حنبل ، ج ۳ ، ص ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ ، ۵۹ ، ج ۴ ، ص ۳۶۶ ، ۳۷۲–۳۷۰ ؛ فضائل الصحابه ، احمد بن حنبل ، ج ۲ ، ص ۵۸۵ ؛ خصایص نسایی ، ص ۲۱، ۳۰ ؛ صواعق المحرقه ، ابن حجر هیثمی ، فصل ۱۱، بخش ۱ ، ص ۲۳۰ ؛ کنزالعمال ، متقی هندی ، ج ۱، ص ۴۴ ؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۴، ص ۱۱۳ ؛ طبقات الکبری ، ابن سعد ، ج ۲، ص ۱۹۴؛ مجمع الزوائد ، هیثمی ، ج ۹، ص ۱۶۳ ؛ تاریخ ابن عساکر، ج ۵، ص ۴۳۶ ؛ درالمنثور، حافظ سیوطی، ج ۲، ص ۶۰ ؛ ینابیع الموده ، قندوزی حنفی ، ص ۳۸ ، ۱۸۳ ، مختلف عبارتوں کے ساتھ ، إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي [مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَداً] وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ ۔

۲: کلینی ، کافی ، ج۳، ص۵۸ ؛ شیخ صدوق ، کمال الدین ،‌ ج۲، ص۴۰۹۔ ابن حنبل ، مسند احمد ، ج ۲۸، ص ۸۸۔  ابوداؤد ، مسند ، ج ۳ ، ص ۴۲۵۔ مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیة۔

۳: الشيخ الصدوق ، علل الشرائع ،   ج ۱ ،  ص ۹ ، حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ خَرَجَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ (ع) عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَنْ سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ۔

مصنف: سید باقری

حدیث ثقلین میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا خاص مقام اور خاص کردار پوشیدہ ہے ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں دیگر روایتیں بھی منقول ہیں جو اپ کی منزلت و عظمت کی بیانگر ہیں ، انحضرت (ص) نے ایک حدیث میں فرمایا :«جنت کی عورتوں کی سردار خدیجه دختر خویلد، فاطمه دختر محمّد، مریم دختر عمران  اور آسیہ دختر مزاحم ہیں»۔ (۱)

ایک اور حدیث میں اس طرح موجود ہے کہ انحضرت (ص) نے فرمایا: اے فاطمہ[علیہا السلام] کیا تم راضی نہیں ہو کہ عالمین کی ، میری امت کی اور مومنین کی خواتین کی سردار رہو»۔(۲)

یا انحضرت (ص) خداوند متعال کے نزدیک جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے مقام و منزلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : «اے فاطمہ یقینا تمھارے غضب سے غضبناک اور تمھاری خوشنودی سے خوشنود اور راضی ہوتا ہے»۔ (۳)

رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ اپ نے بارہا و بارہا فرمایا : فاطمہ میرا ٹکڑا ہیں ، (۴) اور بعض روایات میں اس طرح نقل ہے کہ انحضرت (ص) نے فرمایا : « وہ میری جان اور میرے جگر کا ٹکڑا ہیں جو میرے سینہ میں موجود ہے اور میری انکھوں کا نور اور میرے دل کا سکون ہیں»۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: حاکم نیشابوری ، ابوعبداللّه محمدبن عبداللّه ضَبّی طَهمانی ، مستدرک الصحیحین، ج۲، ص۴۹۷ ۔ «اِنَّ اَفْضَلَ نِساءِ اَهْلِ الْجَنَّةِ خَدیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِد، وَ فاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّد، وَ مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرانَ، وَ آسِیَةُ بِنْتُ مُزاحِم»۔

۲: حاکم نیشابوری ، ابوعبداللّه محمدبن عبداللّه ضَبّی طَهمانی ، مستدرک الصحیحین،  ج۳، ص۱۵۶۔ «یَا فَاطِمَةُ اَلا تَرْضَیْنَ اَنْ تَکُونِی سَیِّدَةَ نِساءِ الْعالَمینَ، وَ سَیِّدَةَ نِساءِ هذِهِ الاُمَّةِ، وَ سَیِّدَةَ نِساءِ الْمُؤْمِنینَ»۔

۳: قَلقَشندی، محمد بن عبدالله اکراوی، اتحاف السائل بما لفاطمة من الفضائل، ص۸ ۔ «إن الله یرضی لرضاک و یغضب لغضبک»۔

۴: مجلسی محمد باقر، بحارالأنوار، ج۴۳ ، ص۲۳ ، ح۱۷ ۔ «فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی ‏فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِی» ۔

 

فساد، بدعنوانی ، رشوت، سود خوری، ظلم و جنایت یہ تمام چیزیں اسلام کی نگاہ میں حرام عمل ہیں، اسلام نے کسی بھی صورت انہیں قبول نہیں کیا کیوں کہ ان میں سے بعض کی حالت فتنہ کے مانند ہے کہ اگر معاشرہ میں پھیل گیا تو پورا کا پورا معاشرہ فاسد ہوجائے گا ، جیسا کہ قران کریم نے فرمایا: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ؛ اور اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمین (جن لوگوں نے فتنہ پروری کی ہے) کو پہنچنے والا نہیں ہے (دوسروں کے بھی دامن گیر ہوگا)۔ (۱)  

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام رشوت لینے اور دینے کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: و قد عَلِمتُم أنَّهُ لا يَنبَغِي أن يكونَ الوالِي على الفُرُوجِ و الدِّماءِ و المَغانِمِ و الأحكامِ و إمامَةِ المسلمينَ البَخِيلُ ··· و لا المُرتَشِي في الحُكمِ ؛ فَيَذهَبَ بالحُقوقِ ، و يَقِفَ بِها دُونَ المَقاطِعِ ۔ (۲) اور اپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی ناموس ، جان ، غنمیت، احکام اور رہبریت کے ذمہ دار، ہرگز بخیل انسان کو نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی مسند قضاوت پر رشوت لینے والا ہو کہ اس حالت میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوجائیں گے اور حق حقدار تک نہیں پہونچے گا۔

یا مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سود خوری کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَ مُؤْكِلَهُ وَ كَاتِبَهُ وَ شَاهِدَيْهِ ؛ خداوند عزوجل نے سود خور ، سود دینے والے اور سود لکھنے والے پر لعنت کی ہے ۔ (۳) چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا: دِرْهَمُ رِبا أَعْظَمُ عِنْدَ اللّه مِنْ سَبْعينَ زِنْيَةً بِذاتِ مَحْرَمٍ فى بَيْتِ اللّه الْحَرامِ وَ قَالَ: اَلرِّبَا سَبْعُونَ جُزْءاً فَأَيْسَرُهَا مِثْلُ أَنْ يَنْكِحَ اَلرَّجُلُ أُمَّهُ فِي بَيْتِ اَللَّهِ اَلْحَرَامِ ؛ سود کا ایک درہم خداوند متعال کے نزدیک ۷ بار محارم کے ساتھ خانہ خدا میں زنا کرنے سے بدتر ہے اور فرمایا : سود کے ستر اجزاء ہیں کہ ان میں سے سب سے کم، مرد کا اپنی ماں کے ساتھ خانہ خدا میں نکاح کرنا ہے ۔ (۴)

رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ظلم و جنایت کے سلسلہ میں فرمایا : اَلظُّلْمُ ثَلاثَةٌ: فَظُلْمٌ لايَغْفِرُهُ اللّه ُ وَظُلْمٌ يَغْفِرُهُ وَظُلْمٌ لايَتْرُكُهُ، فَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى لايَغْفِرُ اللّه ُ فَالشِّرْكُ قالَ اللّه ُ: «إنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظيمٌ» وَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى يَغْفِرُهُ اللّه ُفَظُلْمُ الْعِبادِ أَنْفُسَهُمْ فيما بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى لا يَتْرُكُهُ اللّه ُ فَظُلْمُ الْعِباد ِبَعْضُهُمْ بَعْضا ؛ ظلم کی تین قسمیں ہیں ، ایک وہ ظلم جو قابل بخشش نہیں ہے ، دوسرے وہ ظلم جو قابل بخشش ہے اور تیسرے وہ ظلم جو قابل گذشت نہیں ہے ۔ وہ ظلم جو قابل بخشش نہیں ہے وہ خدا کو شریک قرار دینا ہے اور اس سلسلہ میں فرمایا : «إنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظيمٌ» اور وہ ظلم جو قابل بخشش ہے وہ بندے کا خود پر ظلم ہے اور وہ ظلم جو قابل گذشت نہیں ہے وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم ہے ۔ (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: قران کریم ، ، سورہ انفال ، ایت ۲۵ ۔

۲: نہج البلاغۃ ، خطبة ۱۳۱ ۔

۳: شیخ صدوق، من لایحضره الفقیۃ ج۴ ، ص۸ ، ح ۴۹۶۸ ؛ و شیخ صدوق، امالى، ص۴۲۵، ح۱ ۔

۴: مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱۰۰، ص۱۱۷، ح ۱۳؛ و حویزی، عبد علی بن جمعه، تفسیرنورالثقلين، ج ۱، ص۲۹۵، ح۱۱۷۷۔

۵: پاینده ، ابوالقاسم، نہج الفصاحۃ، ح۱۹۲۴۔

Wednesday, 13 December 2023 01:38

قوم نوح کہاں آباد تھی ؟

ایکنا نیوز- «إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِيَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى  إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ»

ہم نے نوح کو انکی قوم کی جانب ارسال کیا اور کہا: اپنی قوم کو ڈرائیے اس سے پہلے کہ عذاب انکو گھیر لے۔

اے قوم: میں تمھیں خبردار کرنے آیا ہوں، خدا کی پرستش کرو اور اسکی مخالفت سے پرہیز کیجیے اور میری اطاعت کیجیے۔! اگر ایسا کروگے، خداتمھارے گناہوں کو معاف کرے گا اور معین مدت تک تمھیں مہلت ملے گی، کیونکہ جب اجل کا وقت قریب آتا ہے اس میں تاخیر نہ ہوگی اگر تم جانتے!»(نوح: 1الی 4)

حضرت نوح (ع) پہلا نبی ہے جو حضرت شیث اور ادریس کے بعد آئے، وہ ترکان تھا اور اولعزم انبیاء میں شمار ہوتا ہے وہ آدم کے بعد ساتویں جد اور دوسرا والد شمار ہوتا ہے۔

حضرت نوح نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور بتوں کی پرستش سے دوری پر تاکید کی تاہم انہوں نے انکار کیا.»(اعراف: 61 و 62).

قوم نوح دولت کے نشے کے علاوہ تکبر میں بھی گرفتار تھی انہوں نے نوح کو دیوانہ اور جھوٹا کہا اور انکی توہین کی، حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا جاتا ہے تاکہ انکی قوم اور حیوانات کو نجات ملتی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی قوم کہاں آباد تھی؟ حضرت نوح نے کشتی کہاں بنائی، کہا جاتا ہے کہ مسجد کوفہ نوح کا گھر تھا اور وہ کوفہ میں آباد رہتے تھے۔

 

مسجد کوفه چار اہم ترین مساجد میں سے ایک ہے جو کوفہ شہر میں قایم ہے یہ نجف سے بارہ کیلومیٹر کے فاصلے پر شمال میں واقع ہے، مسلمانوں کا خیال ہے کہ اس مسجد کی ابتدا آدم سے ہوئی تھی اور اس کی فضیلت میں امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جنت کے چار محل دنیا میں موجود ہیں یہ مسجد الحرام، مسجد النبی، مسجد بیت المقدس اور مسجد کوفہ ہے۔/

 

آیت مودت، سورہ شوری کی آیت 23 کا حصہ ہے جو اہل بیت رسول ؐ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ رسول خدا ؐ کی رسالت کا مزد و اجر اہل بیت کی مودت ہے۔

آیت مودت کا متن
ذَلِک الَّذِی یبَشِّرُ اللهُ عِبَادَهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَن یقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِیهَا حُسْنًا إِنَّ اللهَ غَفُورٌ شَکُورٌ[؟–؟]
یہ وہ بات ہے جس کی خوشخبری خدا اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کئے آپ(ص) کہیے کہ میں تم سے اس(تبلیغ و رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اپنے قرابتداروں کی محبت کے اورجو کوئی نیک کام کرے گا ہم اسکی نیکی میں اضافہ کردیں گے یقیناً اللہ بڑا بخشنے والا(اور) بڑا قدردان ہے۔

مفسرین "ذوی القربی" کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "ذوی القربی" سے مراد "علی"، "فاطمہ" اور ان کے دو فرزند "حسن" اور "حسین" علیہم السلام ہیں اور رسول خداؐ اس عبارت کو تین مرتبہ دہرایا تاکہ اذہان میں ہمیشہ کے لئے باقی اور زندہ رہے۔

شان نزول
تمام شیعہ مفسرین نے، نیز بعض سنی مفسرین نے سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرمؐ کی ہجرت مدینہ اور اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈالنے کے بعد، انصار نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلامی نظام کے انتظام مذاکرات کئے اور کہا کہ "اگر اپنے نئے معاشرے کی تشکیل کے لئے اگر آپ کو مالی اور معاشی ضرورت ہے تو ہماری پوری دولت اور ہمارے تمام وسائل آپ کے اختیار میں ہیں؛ جس طرح آپ خرچ کریں اور ہمارے اموال میں جس طرح بھی تصرف کریں، ہمارے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہوگا؛ تو فرشتۂ وحی آیت مودت لے کر نازل ہوا:


"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى"
ترجمہ: (اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے

رسول اللہؐ نے مسلمانوں کے لئے آیت کی تلاوت فرمائی؛ اور اصحاب ایسے حال میں اٹھ کر چلے گئے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے مطیع و فرمانبردار تھے مگر منافقین نے [ اس حقیقت کا ادراک کرکے کہ یہ مودت اطاعت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور خدا نے مسلمانوں کو اہل بیت کی امامت کا پابند بنایا ہے] فوری طور پر مشتہر کیا کہ گویا یہ آیت قرآنی نہیں ہے بلکہ محمدؐ نے خود بیٹھ کر اپنے خاندان کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی غرض سے گھڑ لی ہے۔ منافقین کی اس دروغ پردازی اور افترا سازی کے بعد سورہ شوری کی آیت 24 نازل ہوئی۔


"أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللَّہِ كَذِباً..."
ترجمہ: کیا [منافقین و مشرکین] کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے اللہ پر تہمت لگائی ہے...۔

رسول اللہؐ نے انہیں واپس بلوایا اور یہ آیت انہیں پڑھ کر سنائی تو انصار گریہ و بکاء کرنے لگے اور یہ واقعہ ان کے لئے بہت بھاری پڑا، کیونکہ بعض منافقین نے اتنی بڑی توہین کا ارتکاب کیا تھا۔ بہر حال اسی موقع پر ہی سورہ شوری کی آیت 25 نازل ہوئی: جس میں توبہ کی قبولیت کی بشارت دی گئی:

"وَہُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ"۔
ترجمہ: اور وہ وہ ہے جو اپنے بندوں سے توبہ کو قبول کرتا ہے اور معمولی برائیوں سے درگزر کرتا ہے اور جانتا ہے اسے جو تم کرتے ہو۔ ۔
رسول اللہؐ نے انہیں دوبارہ بلوایا اور انہیں نوید دی کہ خداوند متعال گنہگاروں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کی دعا کو درجہ اجابت تک پہنچا دیتا ہے۔[1]۔[2]

اصطلاحات کی وضاحت
1۔ مودت:

ابن منظور و دیگر اہل لغت مادہ "ود" کے ذیل میں لکھتے ہیں: مودت کے معنی کسی چیز کی نسبت محبت رکھنے اور کسی چیز کو دوست رکھنے کے ہیں۔[3]۔[4]۔[5]

البتہ راغب اصفہانی نے لفظ مودت کے لئے مذکورہ معانی ذکر کرنے کے بعد ایک معنی یعنی "آرزو رکھنے" کا اضافہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لفظ دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ تمنا، کسی چیز کی آرزو کرنا اور اس کو وصول یا حاصل کرنا ہے جو دوستی کے معنی پر بھی مشتمل ہے اور چاہنے اور اس چیز کے حصول کی شدید خواہش و آرزو کرنے کے معنی پر بھی جس سے محبت کی جاتی ہے۔[6] پس "ود" سے مراد کسی چیز سے محبت کرنا اور اس کی بقاء کی آرزو رکھنا، اور یہ لفظ ان دونوں میں استعمال ہوتا کیونکہ آرزو کا لفظ بذات خود آرزو کے معنی پر بھی مشتمل ہے اور آرزو اس چیز کے حصول کی طرف میل و رجحان ہے جس سے محبت کی جاتی ہے۔

2۔ قربی

اور مادہ "قرب" کے ذیل میں لکھتے ہیں: قربی در اصل مصدر اور مادہ "قرب" سے مشتق ہے اور بعض لغت نویسوں کی رائے کے مطابق قرب لفظ "بُعد" کا متضاد ہے، اسی بنا پر قرب کے معنی نزدیک ہونے اور بعد کے معنی دور ہونے کے ہیں۔ "قرب الشیئ" یعنی کسی چیز کے/سے قریب ہونا اور "القرابۃ" (قرابت) اور "القربی" سے نسب [اور خاندان] میں قربت رکھنا اور نزدیک ہونا، مراد ہے۔ [7] راغب اصفہانی اس معنی کو تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قرب جگہ، وقت، نسب، مرتبت و منزلت اور روحانی قرب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔[8]

قربی کے مصادیق
آیت مودت میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ "قربی" کے مصادیق کون لوگ ہیں؟ شیعہ مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت کے مصادیق اہل بیت رسول یعنی علیؑ، فاطمہ(س)، حسنؑ اور حسینؑ اور حسینؑ کے بعد 9 ائمہ، جو ان کی اولاد میں سے ہیں۔ شیخ طوسی اور امین الاسلام طبرسی جیسے بزرگ شیعہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت مودت کا مصداق اہل بیت ہیں۔[9]۔[10]

علامہ حلی نے کتاب "نہج الحق" کی شرح میں اس آیت کو "آیۃ المودہ" کا عنوان دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حضرت علیؑ کی امامت پر دلالت کرنے والی چوتھی آیت قرآنی ہے اور اس آیت کے ذیل میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ "آیت مودت نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! آپ کے وہ قرابتدار جن کی مودت ہم پر واجب ہے، کون لوگ ہیں؟ اور رسول اللہؐ نے فرمایا: علیؑ، فاطمہ(س)، حسنؑ اور حسینؑ، اور یاد رکھو کہ مودت کا وجوب اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔[11]

احادیث و روایات
شیعہ روایات
شیعیان اہل بیتؑ نے اہل بیتؑ سے منقولہ احادیث نیز اہل سنت کے منابع و مصادر سے بےشمار احادیث کے حوالے دے کر ثابت کیا ہے کہ آیت مودت کا مصداق خاندان رسول اللہؐ ہے اور یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ان روایات کی تعداد 32 تک پہنچی ہے۔

مکتب اہل بیتؑ کے منابع و مصادر کو مد نظر رکھ کر ان روایات کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

اہل بیت آیت مودت کا مصداق ہیں:
حضرت امام سجاد علیہ السلام سے آیت مودت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
"ہي قرابتنا اہل البيت من محمد صلی اللہ عليہ وآلہ"
ترجمہ: وہ ہم اہل بیتؑ کی قرابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ۔[12]
اصحاہ کساء، مودت کا مصداق ہیں:
امام صادقؑ نے فرمایا: "أنہا نزلت فينا أہل البيت أصحاب الكساء"۔
ترجمہ: یہ آیت ہم اہل بیت اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[13]۔[14]
ائمۂ ہدی، آیت مودت کا مصداق ہیں:
امام صادقؑ نے فرمایا:
"عَنْ أَبِى جَعْفَرٍ عليہ السلام فِى قَوْلِہِ تَعَالَى قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبى قَالَ ہُمُ الْأَئِمَّةُ عليہم السلام"۔
ترجمہ: امام ابو جعفرؑ فرمان خداوندی "(اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے"کی تفسیر میں فرمایا: قربی کا مصداق ائمہ علیہم السلام ہیں۔[15]
واضح رہے کہ یہ سارے اقوال ایک دوسرے سے تضاد و تنافی نہیں رکھتے کیونکہ ان سب میں اہل بیت، اصحاب کساء اور ائمہ کو مصداق کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور یہ سب بہر حال ایک ہی ہیں۔

روایات اہل سنت
اس آیت کریمہ کے سلسلے میں سنی مآخذ و مصادر حدیث میں کثیر روایات و احادیث نقل ہوئی ہیں اور "القربی" کے معنی و مصادیق کو تفسیر و حدیث کی کتب میں بیان کیا گیا ہے جنہیں دیکھ کر ہر قسم کا شبہہ رفع ہوجاتا ہے۔ آیت اللہ نجفی مرعشی نوراللہ بن شريف الدين شوشتری کی کتاب پر اپنے تعلیقے میں اہل سنت کے 46 اکابرین کا نام ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اپنی اسناد سے اس آیت کریمہ کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کو نقل کیا ہے۔

اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابوالقاسم حاکم حسکانی نے اس آیت کے ذیل میں 23 احادیث نقل کی ہیں، 16 احادیث اول الذکر معنی سے مطابقت رکھتی کیونکہ اس معنی میں رسول اللہؐ کے قرابتداروں کو مصداق کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور 7 احادیث میں علی، فاطمہ اور حسن اور حسین علیہم السلام کے اسماء گرامی پر تصریح کی گئی ہے۔[16]

یہاں نمونے کے طور پر اہل سنت اور شیعہ منابع سے چند حدیثیں نقل کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ "قربی" سے مراد اہل بیتؑ اور رسول اللہؐ کے خاص افراد خاندان اور اقارب ہیں:

عبداللہ بن عباس کی روایت:
احمد بن حنبل سند متصل سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:
آیت "قل لاّ اسئلکم..." نازل ہوئی تو اصحاب نے عرض کیا: آپ کے خاندان میں کن کی مودت ہم پر واجب ہے تو آپ نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دو فرزند حسن اور حسین؛ اور یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔[17]
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان جانتے تھے کہ آیت کا مصداق خاندان نبویؐ ہے اور ان کا سوال خاندان کے خاص افراد کا تعین ہوجائے۔ آپؑ نے جواب میں اپنے خاندان کے چار افراد کا نام لیا۔ یعنی اصطلاح میں یہ روایت مقامی اطلاق پر دلالت کرتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں خاندان نبوی کے دیگر افراد اس آیت کے مصادیق میں شامل نہ تھے اور اگر اس زمانے میں خاندان کا کوئی اور فرد بھی شامل ہوتا تو آپؐ اس کا نام بھی ذکر کرتے۔
سیوطی اپنی مشہور تفسیر "درالمنثور" میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد خداوندی "قُل لاّ أسئلکم ..." کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ان تحفظوني في اہل بيتي و تودوہم بي"۔
ترجمہ: [اس آیت کا مفہوم و مقصود یہ ہے کہ] میرے اہل بیت میں میرے حق کا تحفظ کرو اور ان سے میری خاطر محبت کرو۔[18]
ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں ایک سند سے سعید بن جبیر سے دوسری سند سند "عمر بن شعیب" سے آیت مودت سے مراد رسول اللہؐ کے اقرباء ہیں۔[19]
اہل سنت کے مشہور مفسر حاکم حسکانی اپنی کتاب "شواہد التنزیل" میں "ابو امامہ باہلی" سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

"إن اللہ خلق الانبياء من أشجار شتى وخلقت أنا وعلي من شجرة واحدة، فأنا أصلہا وعلي فرعہا، والحسن والحسين ثمارہا، وأشياعنا أوراقہا، فمن تعلق بغصن من أغصانہا نجا، ومن زاغ ہوى ولو أن عبدا عبد اللہ بين الصفا والمروة ألف عام ثم ألف عام ثم ألف عام حتى يصير كالشن البالي ثم لم يدرك محبتنا أكبہ اللہ على منخريہ في النار. ثم تلا (قل لا أسالكم عليہ ..."
ترجمہ: خدا نے انبیاء کو مختلف درختوں سے خلق کیا اور مجھ اور امام علیؑ کو ایک درخت (شجر واحد) سے خلق کیا۔ میں اس کی جڑ ہوں، علیؑ اس کی شاخ ہیں، فاطمہ اس کی بارآوری کا سبب ہیں، اور حسنؑ اور حسینؑ اس کے پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اس کے پتے ہیں؛ اگر کوئی شخص اس کی شاخوں میں سے کسی شاخ سے وابستہ ہوجائے، وہ نجات یافتہ ہے اور جو ان سے انحراف کرے تو اگرچہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان ایک ہزار سال خدا کی عبادت کرے، اور اس کے بعد ایک ہزار سال عبادت کرے، پھر بھی ایک ہزار سال علیہ حتی کہ فرسودہ ہوکر سوکھی مشک کی مانند ہوجائے، لیکن ہم خاندان سے محبت نہ رکھے خداوند متعال اس کو منہ کے بل دوزخ میں پھین ک دے گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے آیت مودت کی تلاوت فرمائی۔[20]۔[21]

آیت مودت کی تفسیر
سورہ شوری کی آیت 22 میں ارشاد ہوتا ہے کہ نیکوکار مؤمنین کی پاداش بہشتی باغ اور تمام مطلوبہ مقاصد تک پہنچنا ہے جبکہ اس آیت میں اس شخصیت کے معاوضے اور اجر و پاداش کی بات ہورہی ہے جس نے کروڑوں انسانوں کو ان باغات اور اعلی مراتب تک پہنچنے کی اہلیت عطا کی ہے یعنی پیغمبر اسلامؐ۔

اگر کوئی ایک گلدستہ تحفتا کسی کو پیش کرے تو اس کے لئے شکریہ اور جزا و پاداش دینا ضروری ہے تو کروڑوں انسانیت کی نجات کی جزا کیا ہوگی؟ سورہ شعراء کی آیات 109 تا 127 میں حضرت نوح، حضرت صالح، حضرت لوط، اور حضرت شعیب علیہم السلام اور سورہ سبا کی آیت 47 میں حضرت محمدؐ ـ اور دیگر آیات کریمہ میں دیگر انبیاء کا کلام یہ ہے کہ "اور میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ نہیں ہے میرا معاوضہ کسی پر سوا پروردگار عالمیان کے "إن أجري إلاّ على اللہ"۔

البتہ شک نہیں ہے کہ انبیاء کی مراد یہ ہے کہ "ہم تم سے مادی اجرت و معاوضہ نہیں مانگتے لیکن اطاعت الہی اور تمہاری ہدایت کو چاہتے ہیں۔ کیونکہ جہاں انھوں نے سورہ شعراء میں کہا ہے کہ "ہم تم سے اجرت نہیں مانگتے" وہاں لوگوں کو تقوی اور طاعت الہی کی تلقین بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں:

"فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِيعُونِ"۔
ترجمہ: تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔
یعنی انبیاء اگرچہ مادی اجرت نہیں مانگتے لیکن معنوی اجرت اور لوگوں کی ہدایت کے خواہاں ہیں کیونکہ یہ لوگوں کے اپنے فائدے میں ہے۔ جس طرح کہ ایک استاد اپنے شاگرد سے کہہ دے کہ "میں تم سے کچھ نہيں مانگتا اور میری اجرت صرف یہ ہے کہ تم اچھی طرح سے پڑھو" کہ یہ پاداشت و اجرت درحقیقت شاگرد کے لئے ہے۔

سوال یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی رسالت کا معاوضہ کیا ہے؟ لیکن کئی مرتبہ لفظ "قل" کے ذریعے خداوند متعال کی طرف سے مامور ہوئے کہ ان سے اجر معنوی کا تقاضا کریں جو ان کے اپنے فائدے میں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

"قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَہُوَ لَكُمْ"۔ ترجمہ: کہئے کہ میں نے تم سے جو اجر طلب کیا ہے، وہ تو تمہارے ہی لئے ہے۔[22]
یہ معنوی معاوضہ بھی دو طریقوں سے آیا ہے: ایک بار فرماتے ہیں: "میں کوئی تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا اس کے، کہ جو چاہے اللہ کے راستے پر گامزن ہوجائے؛ ارشاد ہے:

"قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَاء أَن يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّہِ سَبِيلاً"۔ ترجمہ: کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا مگر جو چاہے کہ اپنے پروردگار کی طرف راستہ بنائے۔[23]
اور ایک بار آیت مودت میں فرماتے ہیں:

"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى"۔
ترجمہ: اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے۔
چنانچہ اجر رسالت دو چیزوں میں ہے: 1۔ راہ خدا پر گامزن ہونا 2۔ مودت قربی۔ دونوں کو لفظ "إلّا" کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؛ یعنی یہ کہ "میری رسالت کی اجرت صرف یہی ہے"؛ گویا راہ خدا اور مودت اہل بیت ایک ہی چیز ہے؛ ورنہ یہ درست نہیں درست ہے کہ انسان ایک بار کہے کہ "میں صرف موسم گرما میں مطالعہ کرتا ہوں" اور دوسری بار بھی یہی جملہ دہرائے کیونکہ محصور (حصر شدہ اور منحصر شدہ) چیز ایک ہی ہونا ضروری ہے۔ خداوند متعال نے رسول خداؐ کو حکم دیا کہ لوگوں سے کہہ دیں: "میرا اجر رسالت صرف یہ ہے کہ تم اللہ کے راستے پر گامزن ہوجاؤ" اور دوسری بار کہہ دیں: "میرا اجر رسالت صرف یہ ہے کہ تم میرے خاندان سے مودت کرو"؛ ان دو آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ راہ خدا منتخب کرنا اور اہل بیت سے محبت کرنا، دونوں ایک ہیں۔

دوسری طرف سے مودت دو چیزوں کے ساتھ لازم و ملزوم ہے: 1۔ شناخت و معرفت؛ کیونکہ جب تک انسان کسی کو نہ پہچانے اس سے محبت نہیں کرسکتا؛ 2۔ اطاعت؛ کیونکہ مودت اطاعت کے بغیر ہو تو ایک قسم کا دکھاوا اور ریا یا چاپلوسی ہے۔ چنانچہ جو لوگ اہل بیت کے بغیر دوسروں سے اپنی زندگی اور اپنے دین کے احکام اخذ کرتا ہے وہ راہ خدا پر گامزن نہیں ہوا ہے۔ یہ قرآن کی رائے ہے۔

عقل کے حوالے سے بھی پاداش و اجرت کو عمل کے ہم وزن ہونا چاہئے۔ رسالت کا ہم وزن صرف امامت ہے، رسالت کا م معاوضہ صرف یہ ہے کہ ہدایت جاری اور مسلسل ہو۔ ایک معصوم کی زحمتوں کی اجرت صرف یہ ہے کہ ہدایت و راہبری کا کام دوسرے معصوم کے سپرد کیا جائے۔ ایک عادل راہنما کی اجرت یہ ہے کہ اس کی زحمتوں کو دوسرے عادل کے سپرد کیا جائے۔

عقل کہتی ہے: جب تک لطف ہے تشکر بھی ہونا چاہئے اور اگر آج ہم رسول اللہؐ کی راہنمائی کی نعمت سے بہرہ ور ہیں اور ہم اسلام کی طرف ہدایت پاچکے ہیں، ہم پر اجر رسالت ادا کرنا ہم پر لازم ہے، اور اگر اجر رسال "مودت قربی" ہے آج بھی ذوی القربٰی کو موجود ہونا چاہئے جن کی مودت و اطاعت ہم پر لازم ہے۔ یعنی آج اس زمانے کے امام اور آج کے زمانے میں جانشین رسولؐ مام زمانہ(عج) ہیں جن کی مودت اور اطاعت ہم پر لازم ہے۔ یہ کہنا کیونکر درست ہوسکتا ہے کہ "صدر اول کے مسلمان اجر رسالت ادا کرنے اور ذوی القربٰی سے مودت کرنے پر مامور تھے لیکن آج کے مسلمان اس حکم سے مستثنٰی ہیں یا یہ کہنا کیونکر درست ہوسکتا ہے کہ آج ذوی القربٰی موجود نہیں ہیں جن سے مودت کی جائے یا جن کی اطاعت کی جائے؟" البتہ زمانۂ غیبت میں مودت سے مراد یہ ہے کہ ہم امام زمانہ(عج) کے پیغامات پر عمل کریں اور ان لوگوں کے احکامات پر عمل کریں جنہیں آپ(عج) نے ہمیں سپرد کردیا ہے۔ اور وہ لوگ فقہائے عادل ہیں وہ جو ہویٰ و ہوس کے تابع و مطیع نہیں ہیں۔

یہ جو ذوالقربی کی مودت ایسے پیغمبر کے اجر رسالت قرار پائی ہے جس نے ہدایت و سعادت اور اللہ کے فضل عظیم تک پہنچایا ہے؛ عقل انسان سمجھتی ہے کہ ذوی القربٰی کی مودت ـ جن کی محبت اجر رسالت ہے ـ بنی نوع انسانی کے برترین افراد اور معصوم ہیں؛ کیونکہ کبھی بھی ایک معصوم شخصیت کے عمل کی اجرت غیر معصوم افراد کی محبت و مودت نہیں ہوسکتی۔ یہ قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ گنہگار افراد کی محبت ابتدا‏ئے تاریخ اسلام سے آخر تک مسلمانوں پر واجب ہے۔ اور (شیعہ کے سوا) کوئی بھی اسلامی فرقہ اپنے امام و پیشوا کو معصوم نہیں سمجھتا، اور کسی بھی فرد یا جماعت نے آج تک ائمۂ معصومین کی طرف کسی گناہ کی نسبت نہیں دی ہے اور نہ ہی کسی نے یہ کہا ہے کہ انھوں نے کسی استاد کی شاگردی کی ہے۔

عقل کہتی ہے: بنی نوع انسان کا ہاتھ غیر معصوم کے ہاتھ میں دینا نہ صرف انسانیت پر ظلم ہے، بلکہ پورے عالم وجود پر ظلم ہے۔ کیونکہ عالم ہستی کو انسان کے لئے خلق کیا گیا ہے اور (اور وہ تمام آیات جن میں خَلَقَ لَكُم ترجمہ: [وہ وہ ہے جس نے] تمہارے لیے پیدا کیا[24]۔ مَتَاعاً لَّكُمْ ترجمہ: [تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لئے] سامان زندگی کے طور پر[25]۔ سَخَّرَ لَكُمُ ترجمہ: اور تمہارے قابو میں دیے [سورج اور چاند ...]۔[26] جیسے الفاظ ذکر ہوئے ہیں اس بات کی علامت ہیں کہ پورا نظام وجود انسان کے لئے ہے) انسان کا ہدف یہ ہے کہ معنوی اور حقیقی ارتقاء کے مرحلے طے کر اور الہی اور خدائی ہوجائے؛ تو کیا اس موجود کو غیر معصوم انسانوں کے سپرد کرنا اس پر اور نظام وجود پر ظلم کے مترادف نہ ہوگا؟

اگر احادیث میں معصوم پیشوا اور اس کی ولایت دین کی بنیاد و اساس ہے جیسا کہ امام باقرؑ نے فرمایا:

"بني الاسلام على خمس: على الصلاة والزكاة والصوم والحج والولاية"
ترجمہ: اسلام کو پانچ چیزوں پر استوار کیا گیا: نماز پر اور زکٰوۃ، رو‌زے، حج اور ولایت پر۔[27]

اگر امام علیؑ کو قسیم دوزخ و جنت کے مقسم کے طور پر متعارف کرائے گئے ہیں: جیسا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

"إنّك قسيم الجنّة و النّار ..." ترجمہ: اے علی! تم جنت اور دوزخ کے تقسیم کرنے والے ہو۔[28] یا ابن عباس کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے فرمایا: "... معاشر الناس ، إن عليا قسيم النار ، لا يدخل النار ولي لہ ، ولا ينجو منہا عدو لہ... "
ترجمہ: لوگو! بے شک علی جہنم کے قسیم ہیں، داخل نہیں ہوگا دوزخ میں ان کا دوست اور نجات نہیں پائے گا اس سے ان کا دشمن۔[29]

اگر نماز بغیر ولایت کے مقبول نہیں ہے جیسا کہ امام صادقؑ نے فرمایا: "إن أول ما يسأل عنہ العبد إذا وقف بين يدي اللہ جل جلالہ عن الصلوات المفروضات وعن الزكاة المفروضة وعن الصيام المفروض وعن الحج المفروض وعن ولايتنا أہل البيت، فان أقر بولايتنا ثم مات عليہا قبلت منہ صلاتہ وصومہ وزكاتہ وحجہ، وإن لم يقر بولايتنا بين يدي اللہ جل جلالہ لم يقبل اللہ عزوجل منہ شيئا من أعمالہ"۔
ترجمہ: بے شک بارگاہ الہی میں بندوں سے سب سے پہلے جن چیزوں کے بارے میں سب سے پہلے سوال ہوگا وہ واجب نمازیں، واجب زکٰوۃ، واجب رو‌زے، واجب حج ہے اور ہم اہل بیت کی ولایت کے بارے میں پوچھا جائے گا، پس اگر اس نے ہماری ولایت کا اقرار کیا اور دنیا سے رخصت ہوا تو خدا اس کی نماز، روزہ، زکٰوۃ اور حج قبول فرمائے گا اور اگر اس نے اللہ جل جلالہ کے حضور ہماری ولایت کا اقرار نہ کیا تو اللہ جل جلالہ اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرمائے گا۔[30] یا جس طرح کہ اہل سنت کے بزرگ عالم دین جناب خوارزمی ـ جن کی وثاقت پر دوسرے اکابرین اہل سنت نے تاکید کی ہے ـ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
يا علي! لو أن عبدا عبد اللہ عز وجل مثل ما قام نوح في قومہ وكان لہ مثل أحد ذہبا فأنفقہ في سبيل اللہ ومد في عمرہ حتي حج ألف عام علي قدميہ، ثم قتل بين الصفا و المروة مظلوما، ثم لم يوالك يا علي، لم يشم رائحة الجنة و لم يدخلہا"۔ ترجمہ: اے علی! اگر ایک بندہ عمر حضرت نوحؑ جتنی عبادت کرے اور کوہ احد جتنا سونا خدا کی راہ میں خیرات کرکے دےدے؛ اور اس کی عمر اس قدر طویل ہوجائے کہ ایک ہزار بار پائے پیاد حج بیت اللہ بجا لائے، اور اس کے بعد [[[صفا اور مروہ]] کے درمیان مظلوم ہوکر شہید کیا جائے، لیکن تمہاری ولایت پر یقین نہ رکھتا ہو، اے علی! کبھی بھی جنت کی خوشبو اس تک نہیں پہنچے گی اور کبھی بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔[31]۔[32]۔[33]۔[34]۔[35]۔[36]۔[37]۔[38]۔[39]۔[40]۔[41] اگر |اہل بیتؑ کی مودت حسنہ ہے جیسا کہ امام حسنؑ نے شہادت امیرالمؤمنینؑ کی شہادت کے بعد مسجد کوفہ میں فرمایا:

"أنا من أہل بيت أذہب اللہ عنہم الرجس وطہرہم تطہيرا أنا من أہل بيت فرض اللہ مودتہم في كتابہ فقال تعالى ترجمہ: قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَہُ فِيہَا حُسْناً فالحسنة مودتنا أہل البيت"
ترجمہ: میں اہل بیتؑ سے ہوں، وہی جن سے خداوند متعال نے ہر گناہ کو دور رکھا ہے اور انہیں پاک رکھا ہے جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے اور خداوند متعال نے اپنی کتاب میں ان کی مودت فرض کردی ہے اور فرمایا ہے: کہئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے اور جو کوئی "حسنہ" (نیک کام) انجام دے گا، ہم اسے اس میں بھلائی اور زیادہ عطا کریں گے۔[42] پس حسنہ ہم اہل بیت کی مودت ہے۔[43]۔[44]
متعلقہ مضامین
اہل البیت علیہم السلام
مودت اہل بیت
حوالہ جات

 طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج9، ص29۔
 لسان المیزان ابن حجر عسقلانی، ج 4، ص 434
 ابن منظور، لسان العرب۔
 فراہيدي،‌ خليل،‌ العين، ذيل مادہ "ود"۔
 طريحي، مجمع البحرين، ذيل مادہ «ود"۔
 راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، مترجم: دکتر خسروی، ذيل مادہ"ود"۔
 ابن منظور، لسان العرب، ذيل مادہ«قرب۔
 راغب اصفہانی، وہی ماخذ، ذيل مادہ "قرب"۔
 طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، ج9، ص158۔
 طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج9، ص48۔
 علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، ص175۔
 فرات الکوفی، تفسیر فرات، ص392۔
 حاکم حسکانی، عبداللہ بن احمد، شواہد التنزیل، ج2، ص213۔
 المفيد، الارشاد ص 188۔
 کلینی، اصول کافی، ج1، ص413۔
 حاکم حسکانی، عبداللہ بن احمد، شواہد التنزیل، ج2، ص189-196۔
 قرطبی، محمد بن احمد انصاری، احقاق الحق، ج3، ص2۔
 سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن ، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، ج6، ص7۔
 طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل القرآن، ج25، ص16و17۔
 طبرسی، مجمع البيان، ج 9، ص28۔
 حسكاني، حاكم، شواہدالتنزيل، ج2، ص203۔
 سورہ سبأ آیت 47۔
 سورہ فرقان آیت 57۔
 سورہ بقرہ آیت 29۔
 سورہ نازعات آیت 33۔
 سورہ ابراہیم آیت 32 و 33۔
 کلینی، الکافی، ج2 ص18۔
 ابن مغازلى، المناقب، ص 67۔
 امالي شيخ صدوق ص 83 ، بہ سند ديگر خصال ، شيخ صدوق ، ص 496۔
 مجلسی، بحار، ج‏27، ص‏167۔
 المناقب للموفق الخوارزمي، ص 68۔
 ينابيع المودة لذوي القربي للقندوزي، ج 2، ص 293۔
 شواہد التنزيل للحاكم الحسكاني، ج 2، ص 203۔
 فرائد السمطين للجويني، ج 1، ص 289۔
 ينابيع المودة لذوي القربي للقندوزي، ج 1، ص 338۔
 الرياض النضرة، ج 3، ص 116۔
 المعجم الأوسط للطبراني، ج 2، ص 360ـ
 مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہيثمي، ج 9، ص 172۔
 ينابيع المودة لذوي القربي للقندوزي، ج 2، ص 272ـ
 إحياء الميت سيوطي شافعي بہ نقل از الإتحاف بحب الأشراف، ص 111۔
 الصواعق المحرقة لإبن حجر الہيثمي، ص 138۔
 سورہ شوری، آیت 23۔
 بحار، ج‏43، ص‏362۔
 محسن قرائتی، تفسیر نور۔


مآخذ
قرآن کریم.
آلوسي، سيد محمود، روح المعاني، بيروت، دارالكتب العلمية، 1415.
راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، مترجم: دکتر خسروی.
ابن منظور، لسان العرب، جامع التفاسير.
سلمي، محمد بن حسين، حقائق التفسير، تہران، مركز نشر دانشگاہي، 1369..
طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا.
طريحي، فخر الدين، مجمع البحرين، جامع التفاسير.
شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالاحیاء التراث العربي، بی‌تا.
طباطبائی، محمد حسین، المیزان، انتشارات جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، 1417.
علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، قم، موسسہ دارالہجرة.
ميبدی، ابو الفضل رشید الدین، کشف الاسرار، تہران، انتشارات امير كبير، 1371.
فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، جامع التفاسير.
زمخشری، محمود، الکشاف، دارالکتب العربی، بیروت.
علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، 1403ق.
فرات الکوفی، ابی القاسم فرت بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق: محمد کاظم، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1410ق.
حاکم حسکانی، عبیداللہ بن احمد، شواہد التنزیل، تحقیق: شیخ محمد باقر محمودی، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1411ق.
کلینی، محمد یعقوب، اصول کافی، قم، دارالکتب الاسلامیہ، 1365ق.
برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، دارالکتب الاسلامیہ، بی‌تا.
قرطبي، محمد بن احمد، الجامع لاحكام القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1364.
مراغي، احمد بن مصطفي، بيروت، دارالاحیاء التراث العربي.
قرطبی، صمد بن احمد انصاری، احقاق الحق،
سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور،، بیروت، دار الفكر ، 1414ق.
طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل القرآن، بيروت، دار المعرفة، 1412.
مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1374.
عابدی، خدا حسین، تفسیر تطبیقی آیہ مودت، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1384.
فخر الدین رازی، محمد، مفاتیح الغیب، دارالفکر، بیروت، 1405ق.
تفسیر نور۔

اسلام ٹائمز۔ حماس تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کو ویٹو کرنے کے امریکی اقدام کی شدید مذمت کی ہے، جس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خبررساں ادارے تسنیم نیوز کے مطابق تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کے خلاف امریکی ویٹو، جس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، ایک غیر اخلاقی اور غیر انسانی موقف ہے۔ تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے رکن نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ بند کرنے کی قرارداد کے اجراء میں واشنگٹن کی رکاوٹ فلسطینی قوم کو قتل کرنے اور ان کی نسلی تطہیر میں مزید جرائم کے ارتکاب میں قابضین کے ساتھ براہ راست شرکت ہے۔

13 ممالک کی منظوری، امریکہ کی مخالفت اور ویٹو اور برطانیہ کی عدم شرکت کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن غزہ میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی درخواستوں کی حمایت نہیں کرتا۔ سلامتی کونسل میں امریکی نمائندے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہم ایسی قرارداد کو ووٹ نہیں دے سکتے، جس میں اسرائیلی شہریوں کے خلاف حماس کی دہشت گردی کی مذمت نہ ہو۔ اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ نے اس قرارداد کے مسودے کے بارے میں ووٹ دینے سے پرہیز کیا اور کونسل کے دیگر ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

سلامتی کونسل میں چین کے نمائندے نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ امریکہ نے غزہ میں مسلسل ہلاکتوں کے باوجود جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف اپنا ویٹو استعمال کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے نمائندے نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے پر امریکی اقدام پر تنقید کی۔ امریکہ ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی میں رکاوٹ بن گیا اور جنگ بندی کو نہ روکنے کا مطلب ہزاروں اور شاید لاکھوں فلسطینیوں کے لیے امریکہ کی جانب سے سزائے موت کا حکم صادر کرنا ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق امریکا کی جانب سے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ویٹو کرنے پر حماس کا ردعمل آگیا۔ حماس کے رہنماء عزت الرشق کا کہنا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے غیر اخلاقی اور غیر انسانی مؤقف اپنایا،  امریکا نے ہمارے لوگوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی مدد کی ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے سکیورٹی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کی قرارداد پر 15 میں سے 13 ارکان نے حمایت میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ غیر حاضر رہا۔ اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد کا ڈرافٹ غیر متوازن ہونے کے علاوہ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس قرارداد سے معاملے کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکل سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اس مسئلے میں دیرپا قیام امن کی بھرپور حمایت کرتا ہے، جس سے دونوں فریق یعنی اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔ رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ ہم اس قرارداد کی حمایت نہیں کرسکتے، جو غیر پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے، اس سے صرف ایک نئی جنگ کا بیج بویا جا سکتا ہے۔ امریکی نمائندے نے قرارداد میں ترامیم تجویز کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کو بہتر بنانے کے لیے اس میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت کو شامل کیا جائے، جس میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 240 سے زائد یرغمالی بنالیے گئے تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل امریکا نے رواں برس اکتوبر میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ جنگ بندی کیلئے برازیل کی قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا۔

Sunday, 10 December 2023 19:22

نقل مکانی

غاصب اسرائیل کی آبادی کے مسئلے کی دو جہتیں ہیں، ایک جذب اور امیگریشن اور دوسری ریورس مائیگریشن۔ اگرچہ یہ دونوں جہتیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں، لیکن ان میں مختلف حالات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ جب بھی بحران اور جنگیں کم ہوئیں، قدرتی طور پر یہودیوں کو زیادہ جذب اور قبول کیا گیا، لیکن جب بھی بحران سنگین اور جنگیں ملک گیر اور انتفاضہ شروع ہوا تو الٹی ہجرتیں زیادہ ہوئیں۔ صیہونی حکومت کے لیے سب سے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ایک جو سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، وہ آبادی کا مسئلہ ہے۔ درحقیقت فلسطین پر قبضے اور فرضی حکومت کے قیام کے لیے زمین کی تشکیل کے بعد سے آبادی کا مسئلہ اور دنیا بھر سے یہودیوں کی اس سرزمین پر آمد ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ اپنی آبادی میں قدرتی اضافے کے باوجود، یہودی مقبوضہ سرزمین کے اصل باشندوں یعنی فلسطینیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے، جن کی آبادی میں اضافہ قابل ذکر ہے۔

اس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی انتظامیہ کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ دنیا بھر سے لوگوں کو لایا جائے۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کے قیام سے پہلے بھی یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور بہت سے مذہبی اور صیہونی یہودی رہنماء یہ کام کرتے رہے ہیں۔ ہجرت کی پہلی لہر تقریباً 140 سال قبل 1880ء کی دہائی سے شروع ہوئی، جب صیہون سے محبت کرنے والوں کی شکل میں ایک آبادی روس سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوئی۔ یہ تھیوڈور ہرزل کی سرگرمیوں سے پہلے کی بات ہے۔ ہرزل کے کسی نہ کسی طرح اس معاملے میں اہم شخصیت بننے کے بعد دیگر منظم صہیونی تنظیمیں بھی اس میدان میں داخل ہوئیں۔

حالیہ برسوں میں ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت کی کوششوں میں سے ایک وزارت ہجرت اور جذب کے نام سے ایک وزارت قائم کرنا ہے، یعنی ایک ایسی وزارت جو پوری دنیا سے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لانے کے لیے کام کرتی ہے۔ بلاشبہ، امیگریشن اور جذب کی وزارت نے یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور صہیونی تنظیموں کی مدد سے ایسا کرنے کی کوشش کی، لیکن موجودہ صورت حال نے ریورس مائیگریشن کو تیز تر کر دیا ہے۔ اگرچہ الٹی ہجرت کا رجحان بہت پہلے شروع ہوا تھا، لیکن غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ کے ساتھ اس میں تیزی آئی ہے۔ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو 63 دن گزر چکے ہیں۔ صیہونی حکومت کے لیے جنگ کے ٹھوس نتائج میں سے ایک مقبوضہ علاقوں سے الٹی ہجرت کی لہر میں شدت آنا ہے۔
 
صہیونی میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد سے شمالی مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد نصف ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مقبوضہ علاقے چھوڑنے والے ان افراد میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا۔ حالیہ الٹی ہجرت یا معکوس نقل مکانی7 اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے سے پہلے شروع ہوئی۔ پرتگال کی امیگریشن سروس نے اعلان کیا ہے کہ اس سال کے آغاز سے اب تک 21,000 اسرائیلیوں نے شہریت کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے شہریوں کے مقابلے پرتگال میں اسرائیلیوں کی درخواستیں سب سے زیادہ تھیں۔ اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز مقبوضہ زمینوں سے ریورس ہجرت کی بنیادی وجہ ہیں۔

طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے قبل مقبوضہ زمینوں سے معکوس نقل مکانی کے پیچھے بہت سے معاشی مسائل اور چیلنجز تھے، لیکن طوفان الاقصیٰ کے بعد اس میں سکیورٹی کے عوامل بھی شامل ہوگئے۔ جنگ کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں میں بڑے پیمانے پر عدم تحفظ پیدا ہوا ہے، جبکہ معاشی مسائل میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بے روزگاری میں کافی اضافہ ہوا ہے۔الاقصیٰ طوفان کے بعد معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہوگئی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بے روزگار افراد کی تعداد دس لاکھ تک پہنچنے کے قریب ہے۔ کچھ دن قبل صہیونی وزارت محنت نے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے 26ویں دن تک 760,000 اسرائیلی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک ایسے اعداد و شمار جو بلاشبہ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
 
اقتصادی اور معاشی مسائل کے علاوہ صہیونی بستیوں کی خفیہ حفاظت کا پول بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مقبوضہ سرزمین کے باشندے نہ صرف اقتصادی خوشحالی سے لطف اندوز نہیں ہو پا رہے بلکہ مزاحمتی میزائلوں کے مسلسل خوف کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں کو چھوڑنے کے لیے مزید پرعزم ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کی گوگل سرچ میں ٹرینڈ کرنے والے الفاظ میں سے ایک لفظ "اسرائیل سے کیسے نکلا جائے" اور اس سے متعلق طریقے تلاش کرنا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اسرا‎ئیلی تارکین وطن امیگریشن کے ساتھ ساتھ دوسرے ملک کی شہریت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے موجودہ حالات میں اسرائیلی شہریوں کی ایک بڑی پریشانی شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے کسی غیر ملک کی تلاش ہے۔ سب سے زیادہ، تارکین وطن یورپی ممالک کو اپنی امیگریشن  کی منزل کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔
 
مقبوضہ علاقوں میں سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کی جانب سے پرتگال، جرمنی اور پولینڈ کی شہریت حاصل کرنے کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ تل ابیب میں یورپی یونین کے دفتر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے یورپی یونین کے رکن ممالک میں ہجرت کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں صیہونی حکومت کی کابینہ کو جنگ کے ساتھ الٹی ہجرت اور مقبوضہ علاقوں کو ترک کرنے والے باشندوں کو روکنے کے لیے ایک منظم منصوبہ پر غور کرنا ہوگا۔ البتہ یہ ایسا مسئلہ ہے، جس کے قلیل مدت میں مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
 
 
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی