Super User

Super User

Saturday, 16 January 2016 11:53

مسجد براثا ؛ بغداد ۔ عراق

مسجد براثا، عراق کی قدیمی اور مشہور ترین مساجد میں سے ہے اور یہ مسجد بغداد کے محلہ کرخ اور کاظمین کے درمیان واقع ہے۔

براثا، بغداد کے مغرب میں اور کرخ کے جنوب میں واقع ایک محلہ ہے۔ اس محلہ کو اس لئے براثا کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک پادری ساکن تھا، جنگ نہروان سے واپسی پر امیرالمؤمنین (ع) کے اس جگہ پر پڑاؤڈالنے کے دوران امام (ع) کے توسط سے یہ پادری مسلمان ہوا ہے۔

حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ:" براثا، ایک محلہ کا نام ہے جو بغداد کے اطراف میں واقع ہے، اور کرخ کے قبلہ کی طرف اور " باب محول" کے جنوب میں واقع ہے۔

مرحوم شہید ثانی نے اپنی کتاب " ذکری" میں لکھا ہے:" مساجد شریف میں سے ایک " براثا" ہے جو بغداد کے مغرب میں واقع ہے۔

علامہ مجلسی نے فرمایا ہے : یہ مسجد، جو اس وقت موجود ہے، تقریباً بغداد اور کاظمین کی سڑک کے درمیانی نقطہ پر واقع ہے۔

 

مسجد براثا کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

موحوم سید بن طاووس، عبداللہ بن عمر سے نقل کی گئی ایک حدیث میں مسجد (براثا) کے مسمار ہونے کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) سے یوں نقل کیا ہے:

" ایک رات کو منافقین نے مدینہ میں ایک مسجد کو مسمار کیا۔ یہ عمل رسول خدا (ص) کے صحابیوں کے لئے ناگوار اور سخت گزرا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" اس قدر ناراحت نہ ہونا، کیونکہ یہ مسجد تعمیر ہوگی ، لیکن جب مسجد (براثا) مسمار ہوگی، حج باطل ہوگا( یعنی لوگوں کو حج پر جانے سے منع کیا جائے گا)۔"

سوال کیا گیا یا رسول اللہ !" مسجد براثا کہاں ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا: سرزمین عراق میں بغداد کے مغرب میں واقع ہے اور اس مسجد میں ستّر انبیاء (ع) اور اوصیاء (ع) نے نماز ادا کی ہے اور ان کا آخری شخص یہ مرد ہے اور امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔"

یہ واقعہ سنہ 312ھ میں رونما ہوا اسی سال حج پر جانا تعطیل ہوا اور سلیمان بن حسن (قرمطی) نے خروج کیا اور حجاج بیت اللہ کی راہ کو مسدود کیا اور انہیں قتل کر ڈالا اور حج کو تعطیل کیا اور بغداد میں ایک ایسی برف باری ہوئی کہ خرما کے درخت شدید سردی کی وجہ سے جل گئے اور سلیمان بن حسن بھی ہلاک ہوا۔

مسجد براثا، آل بویہ کے زمانہ میں ایک اجتماع گاہ اور عبادت کی جگہ تھی، اس مسجد کو معزالدولہ نے تعمیر نو کیا۔

چونکہ یہاں پر امام علی علیہ السلام نے ایک کنواں کھودا ہے، اس لئے اسے بئر علی یا سنگ علی بھی کہتے ہیں۔

اس کے بعد اس مسجد کو ترقی ملی ہے اور اس کے ارد گرد میں طلاب کے لئے حجرے بھی تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس مسجد میں سلجوقیوں کے زمانہ میں آگ لگ گئی اور سلطان اویس جلایری نے اس کی تعمیر نو کی اور شاہ اسماعیل نے سنہ 927ھ میں اس کی دوبارہ تعمیر نو کی۔ مسجد براثا کو قاجاری دور میں بیشتر رونق ملی۔

اس مسجد کے بارے میں بہت سی فضیلتیں بیان کی گئ ہیں، مثال کے طور پر اس مسجد میں امام علی (ع) امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) نے نماز پڑھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کے پاس موجود کنویں سے جو پانی ابلتا ہے، یہ وہی پانی ہے جو حضرت مریم کے وضع حمل کے دوران جاری ہوا تھا۔

 

اسی طرح جو سفید پتھر وہاں پر ہے، وہ بھی وہی پتھر ہے کہ حضرت عیسی (ع) اس پرمتولّد ہوئے ہیں۔

 

مسجد براثا، پوری تاریخ کے دوران عبادت اور اجتماعی فعالیتوں کا مرکز رہی ہے اور بعض مواقع پر بنی عباسی خلفاء کی طرف سے اس پر حملے کئے گئے ہیں اور اس مسجد کو بند کیا ہے۔

 

مسجد براثا، آج دجلہ (کرخ) کے مغرب میں ایک بارونق مسجد شمار ہوتی ہے اور اس میں ہر روز نماز جماعت قائم ہوتی ہے۔

 

فلسطینی نوجوانوں نے عیساویہ دیہات میں صیہونی فوجیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے۔

صیہونی فوجیوں نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں پر حملے کر کے دسیوں فلسطینیوں کو زخمی کر دیا ہے۔

فلسطین کے انفارمیشن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق صیہونی فوجیوں نے بدھ کے دن مغربی کنارے میں واقع شہر بیت لحم پر حملہ کیا جس کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوگئی۔ اس جھڑپ میں پچاس سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوگئے۔ صیہونی حکومت نے غزہ پٹی اور مقبوضہ فلسطین کے سرحدی علاقے پر بڑی تعداد میں فوجی تعینات کر کے اسے فوجی علاقہ قرار دے دیا ہے۔

فلسطینی نوجوانوں نے بھی بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات صیہونی حکومت کے مظالم کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے مقبوضہ قدس کے شمال مشرق میں واقع عیساویہ دیہات میں صیہونی فوجیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے۔

مسجدالاقصی سے متعلق صیہونی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں میں اکتوبر سنہ دو ہزار پندرہ سے فلسطینیوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ صیہونی حکومت نے اس احتجاج کے دوران اب تک ایک سو ستاون فسطینیوں کو شہید کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ صیہونی حکومت نے ہزاروں فلسطینیوں کو زخمی یا ان کو گرفتار کر لیا ہے۔

اس بات کا اعلان ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے گورنر علی اوسط ہاشمی نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دورے سے واپسی پر ہمارے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ صوبہ سیستان و بلوچستان کے گورنر کی قیادت میں بائیس رکنی ایرانی وفد نے کوئٹہ میں پاکستان کے صوبے بلوچستان کے وزیراعلی ثناءاللہ زہری سے ملاقات کی۔ ملاقات میں سرحدی تجارت، نئی شپنگ سروس شروع کرنے سے متعلق منصوبوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ علی اوسط ہاشمی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستانی حکام کے ساتھ سرحدی سیکورٹی، منشیات کی اسمگلنگ اور سرحد پار سے غیر قانونی آمد و رفت سمیت مختلف دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی سیکورٹی اور متعلقہ معاملات پر نظر رکھنے کے لئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی معاملات کی نگرانی کے لئے بارڈر کمیشن پہلے ہی تشکیل دیا جا چکا ہے۔ علی اوسط ہاشمی نے مزید کہا کہ ایران نے پاکستان کے مکران ڈویژن کو فراہم کی جانے والی بجلی میں تیس میگاواٹ تک اضافہ کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایران اس وقت پاکستان کے مکران ڈویژن کو سات میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کے نیشنل گارڈ کے لئے ایران، ایک ہزار میگاواٹ بجلی الگ سے فراہم کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکا کے ایک تحقیقی ادارے اور امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ نے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تعداد اسی طرح بڑھتی رہی تو2030 تک اسلام امریکا کا دوسرا بڑا مذہب ہوگا۔

تھنک ٹینک کا کہنا ہےکہ اس وقت امریکا میں 43 لاکھ مسلمان بستے ہیں جبکہ یہ تعداد 2040 تک دگنی ہوجائے گی۔

ریسرچ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ مسلم امریکن آبادی کا تناسب بھی ایک فیصد سے بڑھ کر دگنا ہوجائے گا۔

تحقیق کے مطابق 2010 سے 2015 کے درمیان مسلمان آبادی میں نصف اضافہ تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے ہے جب کہ مسلمانوں میں پیدائش کا تناسب بھی دیگر مذاہب کی آبادیوں سے زیادہ ہے۔

تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ کچھ شہروں میں مسلمانوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی زیادہ ہے تاہم مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں سرکاری سطح پر اعدادو شمار موجود نہیں.

میانمار میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ میانمار کے مسلمان شدیدغذائی قلت اور طبی سہولتوں کے فقدان کے باعث خود کشی پر مجبور ہوتے ہیں اور زندگی سے تنگ آکر اپنی جان دے دیتے ہیں۔

اس تنظیم نے کہا ہے کہ اس کے علاوہ بوڈھسٹ ڈاکٹر بھی مختلف امراض اور زہر سے آلودہ انجکشن لگاکر مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں -

روہنگیا عالمی مرکز نامی تنظیم کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار میں روزانہ روہنگیا مسلمانوں کے پانچ بچے اور خواتین، شدید غذائی قلت کی وجہ سے یا پھر سرکاری اسپتالوں میں بوڈھسٹ ڈاکٹروں کے ذریعے آلودہ انجکشن لگائے جانے کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹتھے ہیں-

میانمار میں انسانی حقوق کی مذکورہ تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ روہنگیا مسلمان، اب میانمار کے سرکاری اسپتالوں میں جانے کی ہمت بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر انہوں نے سرکاری اسپتالوں کا رخ کیا تو ان کی موت یقینی ہے -

بتایا جاتا ہے کہ بوڈھسٹ ڈاکٹراپنی نسل پرستانہ سرشت کے تحت مسلمانوں کو آلودہ اور زہریلے انجکشن لگا کر انہیں قتل کردیتے ہیں- چنانچہ کچھ عرصے قبل بوڈھسٹ ڈاکٹروں نے پوسیندونگ شہر میں ایک بیس سالہ روہنگیا خاتون اور اس کے نوزائیدہ بچے کو آلودہ اور زہریلا انجکشن لگا کر ہلاک کر دیا-

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ میانمار کی یہ مسلمان خاتون، بچے کو جنم دینے کے بعد پوری طرح صحیح و سالم تھی اور اس کو کسی طرح کی کوئی خطرہ نہیں تھا- اس سے پہلے بھی میانمار کے کیوکتو شہر کے اسپتال میں ڈاکٹروں نے ایک مسلمان خاتون کے بچے کو جنم دینے سے متعلق ضروری طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اسے اکیاب کے سرکاری اسپتال میں منتقل کر دیا لیکن ابھی چند ہی گھنٹے گذرے تھے کہ یہ خاتون نامعلوم انجکشن لگنے سے دم توڑ گئی-

پچھلے کچھ عرصے کے دوران میانمار کے سرکاری اسپتالوں میں حاملہ مسلمان خواتین کی بلاسبب اموا ت میں کافی اضافہ ہوا ہے اسی لئے روہنگیا عالمی مرکز نامی انسانی حقوق کی تنظیم نے میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے غیر انسانی جرائم کو فوری طور پر بند کرے اور راخین صوبے میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کی درخواستوں پرعمل کرے۔

واضح رہے کہ تین سال قبل میانمار میں نسلی اور مذہبی تصادم کے آغاز کے بعد سے میانمار کے انتہا پسند بوڈھسٹ ، حکومت اور فوج کی ایما پر روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں، ان کی املاک کو تاراج اور ان کی عورتوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں-

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی نے بھی پچھلے دنوں میانمار کے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں میانمار کی حکومت کے رویّے پر شدید تنقید کی تھی- مذکورہ کمیٹی نے حکومت میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق اور خاص طور پر روہنگیا مسلمانوں کے بنیادی شہری حقوق کا خیال رکھے-

پاکستان کے قحط زدہ علاقے صحرائے تھر میں مزید سات بچے ہلاک ہوگئے ہیں۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہفتے کے روز صحرائے تھر کے تعلقہ ڈیپلو کے ایک دور دراز گاؤں میں تین بچے ہسپتال پہنچنے سے قبل ہلاک ہوئے جبکہ ایک نے مٹھی کے سول ہسپتال میں دم تو دیا ۔ نگرپارکر، مٹھی اور اسلام کوٹ میں مجموعی طور پر تین بچوں کی اموات ریکارڈ کی گئیں ۔ ڈان ڈاٹ کام کے مطابق رواں مہینے میں اب تک چونتس بچے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دوسو سے زائد بچوں کو ضلع کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ادھر سندھ کے وزیر خوراک سید ناصر حسین شاہ نے دعوی کیا کہ صوبائی حکومت قحط زدہ صحرا کے اسپتالوں اور طبی مراکز میں ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے میڈیا پر صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں قحط کی صورتحال اتنی خطرناک نہیں جتنی میڈیا پیش کر رہا ہے ۔ انہوں نے بچوں کی ہلاکت پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر کی تفصیلی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ سندھ کے وزیر خوراک نے مزید کہا کہ وہ رپورٹ ملنے کے بعد وزیراعلی قائم علی شاہ سے تھر کو قحط زدہ علاقہ قرار دینے اور امدادی پیکیج فراہم کرنے کی درخواست کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کے تناور درخت کو اکھاڑ کر پھینکنے کے سلسلے میں دشمنوں کی معاندانہ کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمنان اسلام اور انقلاب کی پوری توجہ اسلامی انقلاب کے تناور درخت کو اکھاڑ کر پھینکنے پرمرکوز ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 19 دی سن 1356 ہجری شمسی میں قم کے عوام کے تاریخی قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قم کا یہ تاریخی واقعہ ناقابل فراموش واقعہ ہے یہ واقعہ کبھی پرانا ہونے والا نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی کے مقابلے میں ایک بہت بڑا محاذ ہے جس میں امریکہ ، صہیونی اور وہابی تکفیری طاقتیں شامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمنوں کے تمام تجزیئے اس بات پر مرکوز ہیں کہ وہ کس طرح انقلاب اسلامی کے اس تناور درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ، لیکن ان کی اب تک تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور آئندہ بھی ان کی کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی کو پائداربنانے کے سلسلے میں ہماری بھی پوری تلاش و کوشش جاری رہنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی کی پیشرفت و ترقی اور اس کی پائداری ، دشمن کے لئے باعث حیرت اور باعث تعجب ہے اور وہ مختلف بہانوں کے ذریعہ انقلاب اسلامی کے مضبوط و مستحکم درخت کو اکھاڑ کر پھینکنے کی تلاش و کوشش کررہا ہے، آٹھ سالہ دفاع مقدس، اقتصادی پابندیاں اور علاقائی ممالک کو ایران کے خلاف اکسانا اور بڑھکانا دشمن کے شوم منصوبوں کا حصہ ہے لیکن ایرانی قوم اور حکام باہمی اتحاد و یکجہتی کے ساتھ امریکی، صہیونی اور وہابی تکفیری اتحاد کی تمام کوششوں کو ناکام بنادیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام پر زوردیا کہ وہ آئندہ انتخابات میں بھر پور شرکت کرکے انقلاب اسلامی کو نئی اور تازہ روح بخشیں اور اچھے اور بہترین افراد کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں روانہ کریں۔

 

افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے تہران میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی ۔ رہبر انقلاب اسلامی نے عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات میں فرمایا کہ ایران ، افغانستان کی سلامتی اور ترقی کو اپنی سلامتی اور ترقی سمجھتا ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان تعاون کی بے پنا ہ گنجائش موجود ہے اور دونوں ممالک کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کی جانب سے سابق سویت یونین کے قبضے کی مخالفت نیزافغان مجاہدین کی بھرپور حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اس وقت بھی تقریبا تیس لاکھ افغان شہریوں کی میزبانی کررہا ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے ایران میں فارغ التحصیل ہونے والے سولہ ہزار افغان طلبہ کی موجودگی کو افغانستان کے لیے قیمتی سرمایہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم یافتہ افراد کو ترغیب دلانے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کرے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا فروغ دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے جبکہ پانی کی تقسیم سمیت بعض معاملات پر پائے جانے والے اختلافات کو سچائی اور تعاون کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے افغانستان کے مجاہدین کو الگ تھلگ کرنے کی ماضی کی کوششوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ وار لارڈ جیسے ناموں سے مجاہدین کو گوشہ نشین کرنے کی پالیسی غلط ہے اور ایسے ملک میں جسے فوجی لشکرکشی اور ہمہ گیر بدامنی کا سامنا ہے، عوام کو جہادی جذبے کے ساتھ وطن کے دفاع کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے افغانستان میں امریکہ کے ہاتھوں شہریوں کے قتل عام اور اس ملک کو پہنچنے والے نقصانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اب بھی افغانستان کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیکن افغانستان کے عوام کے جذبہ جہاد اور دینداری کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ کوئی بھی قابض طاقت زیادہ دیر تک افغانستان میں ٹک نہیں پائی۔

 

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے درمیان قریبی اور مضبوط تعلقات موجود ہیں جو آنے والے وقت کے ساتہ مزید مضبوط ہوں گے.

یہ بات قاضی خلیل اللہ نے اپنی ہفتہ وار بریفینگ میں ارنا کے نمائندے کے سوال کے جواب میں کہی.

انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایران اور گروپ 1+5 کے درمیان پر امن جوہری معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ایران مخالف پابندیوں کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اپنے تعلقات کو وسعت دینے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں.

ایک سوال کے جواب میں قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم کی روانگی کے بعد ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے بہت واضح طور پر کہا کہ یہ ایک خیر سگالی دورہ تھا جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینا ہے. 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم جناب شیخ ڈاکٹر احمد الطیب
سلام علیکم؛
خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی میلاد مبارک کے ایام کی مناسبت سے آپ اور الازہر شریف کے دیگر علماء کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ طول تاریخ میں الازہر کی منطقی اور اتحاد پر مبنی پالیسیاں اور آپ کے گزشتہ عرصے میں اعتدال پسند نظریات، امید کی ایک ایسی کرن ہیں جس سے انتہاپسند اور پرتشدد تکفیری تنازعات اور رجحانات میں بھی امت مسلمہ کی امیدیں وابستہ ہیں۔ لیکن حالیہ تفرقہ انگیز اقدامات کہ جو الازہر کے نام سے انجام پائے ہیں جیسے؛ میڈیا میں شیعہ عقائد پر اعتراضات، بعض مزدور اور دشمنوں سے وابستہ چینلوں جن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں کی وجہ سے شیعوں کی طرف غیر واقعی چیزوں کی نسبت دینا، شیعہ مذہب کے خلاف مقالے، کتاب اور داستان نویسی کے مقابلے منعقد کرنا اور مصر میں اہل بیت اطہار(ع) کے پیروکاروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا حتی مصر کی پارلیمنٹ میں ایک شیعہ نمائندے کو بھی قبول نہ کرنا اور اس طرح کے دیگر اقدامات جو الازہر کو خط اعتدال سے منحرف کر کے انتہاپسندی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ جن کا نتیجہ مسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگ کی آگ بھڑکانا اور الازہر کا اپنی تاریخی ساکھ داؤ پر لگا دینا ہے۔
کیا شرع مقدس اور عقل سلیم کی نگاہ میں اسلامی مذاہب کے درمیان اختلافی مسائل کا راہ حل ان کے علماء کے درمیان عالمانہ گفتگو ہے یا ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے کرنا، مقابلے کروانا اور جنگی فضا قائم کرنا ہے؟
کیا ایک مذہب کے عقائد کو پہچاننے کے لیے حقائق کو اس مذہب کے پیشواؤں یا قابل اعتماد منابع سے لینا چاہیے یا دشمنوں سے وابستہ چینلوں، مفتن افراد اور قابل تنقید کتابوں میں پائی جانے والی ضعیف باتوں سے؟
کیا ایسے حالات میں جب اسلامی جمہوریہ ایران کو وجود میں آئے ہوئے ۳۵ سال ہو چکے ہیں آج تک کسی ایک مرجع تقلید نے میڈیا پر اہل سنت کے عقائد یا ان کے فقہی مسائل کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور آج تک کسی حوزہ علمیہ کی جانب سے اہل سنت کے خلاف مقالہ نویسی کا مقابلہ نہیں رکھا گیا، الازہر کا تفرقہ انگیز اقدامات انجام دینا، اس کے اسلامی اتحاد اور تقریب مذاہب کے تئیں کاوشوں کا نتیجہ ہے؟ ایران اور افغانستان میں شیعہ اور سنی ایک ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں حتی انتخابات اور حکومتوں کی تشکیل میں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور کوئی مشکل نہیں پائی جاتی۔
اگر خدانخواستہ الازہر کے اس طرح کے اقدامات اہل سنت کے بعض متعصب ٹولوں کے اندر تشدد کی آگ بھڑکا دیں اور وہ اپنے ہم وطن شیعوں کا خون بہا دیں اور پھر اس کا رد عمل بھی سامنے آئے تو الازہر کے ذمہ دار افراد، مسلمانوں کے اس ناحق خون کا جواب بارگاہ رب العزت میں کیا دیں گے؟
میں جو ہمیشہ آپ کو پرامید نگاہ دیکھتا تھا اور دیکھتا ہوں، آج بھی آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ ٹھوس طریقے سے اس انحراف کا سد باب کریں گے اور الازہر کی ساکھ کو دشمنان اسلام ، وہابیوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں داؤ پر لگنے سے بچائیں گے اس لیے کہ ممکن ہے آپ کے اطراف میں کچھ ایسے مفتن قسم کے افراد موجود ہوں جو آپ کو مختلف وسوسوں کے ذریعے خط اعتدال سے منحرف کر دیں لیکن امید ہے کہ آپ بھی شیخ محمود شلتوت اور تاریخ الازہر کے دیگر والا مقام شیوخ کی طرح خط اعتدال اور تقریب مذاہب کی راہ میں درخشاں ہوں گے۔ آپ سے صرف اسی بات کی امید ہے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ناصر مکارم شیرازی