Super User

Super User

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی اف سے ملاقات میں ایران اور ترکمانستان کے قریبی تعلقات اور دو جانبہ تعاون کو توسیع دینے کے سلسلے میں موجود امکانات اور خطے میں فتنے اور سازش کو ہوا دیئے جانے کا مقابلہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ دہشتگرد عناصر سے مقابلے اور انکے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے عوام کے درمیان صحیح اسلامی سرگرمیوں کا فروغ اور معتدل اور عقلانی اسلامی افکار پر مبنی تحریکوں کی تقویت کے زریعے ممکن ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں ایران اور ترکمنستان کی ملتوں کو ایسا ہمسایہ کہ جو عزیز و اقارب کی مانند ہیں قرار دیا اور آپس میں تعاون کے لئے موجود امکانات سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ضروری ہے کہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ معاہدوں کے اجرا کے لئے موثر اور عملی اقدامات انجام دیئے جائیں۔
رہبر انقلاب نے ہمسایہ اور اسلامی ممالک کے امن و امان، فلاح و بہبود اور پیشرفت و ترقی کو اسلامی جمہوریہ ایران کے فائدے میں قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور ترکمنستان کی سرحدیں امن و امان اور صلح پر مبنی سرحدیں ہیں اور یہ بات دونوں ممالک کے آرام و آسائش کا سبب ہے اور ایران کے راستے خلیج فارس اور آزاد پانیوں تک ترکمانستان کی رسائی ترکمانستان کے لئے ایک قیمتی موقع ہے۔
آپ نے خطے کی موجودہ کشیدہ صورتحال کے باوجود ایران اور ترکمانستان میں امن و امان کی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے موجودہ صورتحال کے ثبات کے لئے باہمی تعاون کے فروغ پر زور دیا اور فرمایا کہ داعش اور تکفیری گروہوں کے وحشیانہ اقدامات اور دہشتگردی کے مقابلے میں کہ جو اسلام کے نام پر ان سنگین جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں، ضروری ہے کہ عوام کو صحیح اسلامی سرگرمیوں کے امکانات فراہم کئے جائیں اور ان عناصر کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے معتدل اور عقلی اسلامی افکار پر مبنی تحریکوں کی تقویت کی جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دہشتگرد عناصر کی جانب سے سر تن سے جدا کرنے اور انسانوں کو زندہ جلا کر مارنے جیسے وحشیانہ اقدامات کو ان عناصر کی اسلام سے مکمل بیگانگی کی علامت قرار دیتے ہوئے تاکید فرمائی کہ اسلام بھائی چارے، محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا مذہب ہے اور ان جرائم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس ملاقات میں سینئر نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے۔ ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی محمد اف نے اپنے تہران کے سفر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کو اپنے لئے باعث فخر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے ہمیشہ اچھے اور تاریخی تعلقات رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک رہے ہیں اور آپ کی یہ گفتگو کہ یہ دونوں ممالک نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں بلکہ عزیز و اقارب کی مانند ہیں ترکمانستان کی حکومت اور عوام کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔
ترکمانستان کے صدر نے اپنے پچھلے سفر میں رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے کی گئی نصیحتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک دانا رہبر و لیڈر اور متفکر شخصیت کے عنوان سے آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے نہایت قابل قدر ہیں اور آپ کی نصیحتوں پر عمل کرنے سے کافی اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
انہوں نے باہمی تعلقات میں توسیع خاص طور پر گیس، حمل ونقل اور مواصلات کے شعبوں میں موجود امکانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے تجارت اور تعمیرات کے شعبوں میں مشترکہ پروجیکٹس کی تکمیل پورے خطے کے لئے فائدہ مند ہے۔
ترکمانستان کے صدر نے شاہراہ ریشم کی تاریخی اہمیت کو تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض ممالک کی خواہش ہے کہ وہ ایران اور ترکمانستان کے زریعے سمندر تک رسائی حاصل کر سکیں۔
انہوں نے خطے کے سیاسی حالات کو ناساز قرار دیتے ہوئے اور دہشتگرد گروہ داعش کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ داعش اور اس جیسے دوسرے گروہوں کا اسلام سے دور دور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض ممالک انکی مدد اور حمایت میں مشغول ہیں۔

 

 

   کوفہ کی اہم اوربا فضیلت مساجد میں سے ایک مسجد سہلہ ہے۔ یہ مسجد بہت سے انبیاء (ع) کی منزل گاہ اور عبادت گاہ ہے، جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، خضرعلیہ السلام کے مقامات قابل ذکر ہیں، اور بعض ائمہ اطہار علیہم السلام کی منزل گاہ ہے، من جملہ مقام امام صادق علیہ السلام، امام سجاد علیہ السلام وغیرہ۔

   امام حسین علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے کہ :" مسجد سہلہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا گھر تھا، جہاں سے وہ عمالقہ گئے ہیں اور وہاں پر ادریس کا گھر ہے، صخرہ (چٹان) حضراء ہے اور اس مسجد میں صور پھونکا جاتا ہے وغیرہ"

   سہلہ کے معنی ہموار زمین ہیں۔ مسجد سہلہ کے دوسرے نام یہ ہیں: مسجد سہیل، بنی ظفر اور عبدالقیس، مذکورہ مسجد ایک قدیمی ترین اور مشہورترین اسلامی مساجد میں سے ہے۔ یہ مسجد پہلی صدی ہجری میں عرب قبائل کے توسط سے کوفہ میں مسجد جامع کے شمال مغرب میں تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد سہلہ نجف کی مشرق میں،یعنی قدیم شہر کوفہ میں واقع ہے۔ یہ مسجد امام علی علیہ السلام کی قبر مبارک کے شمال مشرق میں 10 کلومیٹر کے فاصلہ پر اور مسجد کوفہ کے شمال مغرب میں 2کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ روایات کے ایک مجموعہ میں مسجد سہلہ کے معنوی مقام و منزلت کا مختلف عبارتوں میں ذکر کیا گیا ہے۔

   یہ مسجد ایک غیر آباد اور بستی سے خالی زمین پر تعمیر کی گئی ہے، جس کے اطراف میں سرخ ریت ہے۔ یہ مسجد تقریباً مستطیل شکل کی ہے اور اس کی لمبائی 140 میٹر اور چوڑائی 135 میٹر ہے اور اس کی مساحت 17500 مربع میٹر ہے۔ اور اس مسجد کو احاطہ کرنے والی دیواروں کی بلندی تقریباً 22 میٹر ہے۔ اس کے چار ضلعوں کے کونوں پر باہر سے نیم دائرہ شکل کے برج بنائے گئے ہیں جو ایک دوسرے سےمساوی فاصلے پر واقع ہیں۔ مشرقی ضلع کی دیوار کے درمیان میں ایک مینار ہے جس کی بلندی 30 میٹر ہے۔ مسجد کا صدر دروازہ اس کے مشرقی ضلع کےبیچ میں، مذکورہ مینار کے نزدیک واقع ہے۔

   مسجد کے صحن کے مختلف حصوں میں کچھ محراب تعمیر کئے گئے ہیں جن کی دینی پیشواؤں کے نام پر نام گزاری کی گئی ہے، من جملہ مقام امام صادق علیہ السلام، امام سجاد علیہ السلام، امام زمانہ علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، خضر علیہ السلام، یونس علیہ السلام، ہود علیہ السلام، اور مقام صالح علیہ السلام۔

   امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیاگیا ہے کہ:" کوئی ایسی مشکل نہیں ہے، جو اس مسجد میں دورکعت نماز بجالانے کے بعد حل نہ ہوجائے۔"

   مسجد سہیلہ کو قبیلہ بنی ظفر نے تعمیر کیا ہے۔ وہ انصار کا ایک طائفہ ہے اور امام علی علیہ السلام مسجد بنی ظفر کو مسجد کوفہ کے مانند جانتے ہیں۔

ہندوستان میں شدید بارش کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد نوے سے تجاوز کرگئی

اطلاعات کے مطابق ہندوستان کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں ایک ہفتے کے دوران ہونے والی شدید بارش کے نتیجے میں اب تک نوے سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ بارش کی وجہ سے عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

شدید بارش سے کئی اضلاع متاثر ہوئے ہیں اور کئی علاقوں میں سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں نیز ریل پٹریاں بھی پانی میں ڈوب گئی ہیں جس کی وجہ سے کئی ٹرینیں منسوخ کردی گئیں۔ ٹرینیں منسوخ ہونے سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

شدید بارش اور سیلاب کی وجہ سے ریاست کے متعدد علاقوں میں اسکول اور کالج بھی بند کردیئے گئے ہیں۔

ریاست کے متاثرہ علاقوں میں پھنسے لوگوں کی مدد کے لئے بری اور ہوائی فوج کے اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ تمل ناڈو کی وزیر اعلی جے للتا نے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لئے پانچ ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے اور انتظامیہ سے امدادی کاموں میں تیزی لانے کی تاکید کی ہے۔

 

صیہونی حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیاں

صیہونی کابینہ نے صیہونی باشندوں کی معکوس ہجرت بالخصوص بیرون ملک فارغ التحصیل طلبا کے مقبوضہ فلسطین میں نہ رکنے کی طرف اشارہ کئے بغیر اعلان کیا ہے کہ اسرائیل ساری دنیا کے یہودیوں کو اسرائیل آنے کی ترغیب دلانے کے لئے ایتھیوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل لانے کی زمین ہموار کرنے کی کوششیں شروع کرنے والا ہے۔ افریقی نژاد یہودیوں کو فلاشہ کہا جاتا ہے۔ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاھو نے فلاشہ یہودیوں کو اسرائیل لانے کے کابنیہ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اسرائیل کے یہودیوں اور عالمی یہودی برادری کو تقویت پہنچانے کی غرض سے اہم فیصلہ ہے۔

صیہونی حکومت نے ایک بار پھر ایتھیوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل لانےکی کوششیں شروع کردی ہیں اور یہ اقدامات ایسے حالات میں ہورہے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں افریقی یہودیوں کو شدید تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ افریقی یہودیوں نے حالیہ مہینوں میں احتجاجی مظاہرے کرکے صیہونی حکام کی امتیازی اور تعصب آمیز پالیسیوں پر شدید احتجاج کیا تھا۔ مقبوضہ فلسطین میں ایتھیوپین نژاد یہودیوں کی انجمن کی رپورٹ کے مطابق سیاہ فام یہودیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ شہر کے باہر مضافات میں سکونت اختیار کریں۔

ان کی متوسط فی کس آمدنی اسرائیل کے دیگر صیہونیوں سے چالیس فیصد کم ہے اور انہیں سرکاری اداروں میں نوکری حاصل کرنے میں بھی بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ صیہونی حکومت نے انیس سو چوراسی اور انیس سو اکانوے میں سلیمان اور موسی نامی آپریشنوں کے تحت ایتھیوپیا کے ہزاروں یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لاکر بسایا تھا۔ صیہونی حکومت نے ان لوگوں سے جھوٹے وعدے کئے تھے۔ آج ایتھیوپیا کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں شدید ترین تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ سیاہ فام یہودیوں کو مشقت آمیز اور پست کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان مسائل سے یہ لوگ بری طرح برہم ہیں۔

ان تمام مسائل کے باوجود ایتھیوپیا کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین لانے کی صیہونی حکومت کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ قدس کی غاصب حکومت کے پاس یہودیوں بالخصوص جوانوں کی معکوس مہاجرت کی بنا پر دنیا کے مختلف علاقوں سے یہودیوں کو جھوٹے وعدوں اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے مقبوضہ فلسطین میں لاکر بسانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس سرزمین کے اقتصادی، سیکورٹی اور سماجی بحران اور صیہونی حکومت کے جھوٹے وعدے اس بات کا سبب بنے ہیں کہ صیہونی حکومت معکوس مہاجرت کا سامنا کرے۔

دراصل صیہونی حکومت جھوٹے وعدے کرکے دیگر ملکوں کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین آنے کی ترغیب دلاتی ہے، یہ لوگ جب مقبوضہ فلسطین آتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت نے ان سے جھوٹ کہا تھا اور بے بنیاد وعدے کئے تھے۔ اس کےعلاوہ ان کے ساتھ نسل پرستانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ واضح رہے صیہونی حکومت کی ان مکارانہ چالوں سے اب تک اس غاصب حکومت کو یہودی آباد کی اکثریت بنانے میں کوئی مدد نہیں ملی ہے اور وہ آبادی کے بحران سے نہیں نکل سکی ہے۔

اس سلسلے میں امریکن سوشلوجیکل ایسوسی ایشن کہ جس کے ہزاروں ارکان ہیں، اسرائیل کے ساتھ اپنا تعاون ختم کرنے کا جائزہ لے رہی ہے۔

صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل دس نے اعلان کیا ہے کہ امریکن سوشلوجیکل ایسوسی ایشن آئندہ جمعہ کے روز اسرائیل کے ساتھ اپنا تعاون ختم کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کرے گی۔

اس چینل کا مزید کہنا تھا کہ امریکن سوشلوجیکل ایسوسی ایشن کا اسرائیل کے ساتھ تعاون ختم کرنا اسرائیل کا سب سے بڑا یونیورسٹی بائیکاٹ ہو گا۔ 

اسرائیل کی نیوز سائٹ واللا نے بھی اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں نے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور قدس کی صیہونی کالونیوں میں بنی ہوئی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے لیے لاطینی امریکہ میں وسیع پیمانے پر مہم شروع کر رکھی ہے۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب یورپی یونین نے بھی باضابطہ طور پر غرب اردن اور قدس کی صیہونی کالونیوں کی مصنوعات پر علامت لگانے کا کام شروع کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے یورپی ممالک اس مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ 

حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم میں اضافے کی بھی کہ جس میں دسیوں فلسطینی شہید اور تقریبا دس ہزار زخمی ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کے قانونی امور کے ماہرین نے شدید مذمت کی ہے۔

اس سلسلے میں فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر مکارم وبسونو Makarim Wibisono اور اندھی پھانسیوں کے امور مین اقوام متحدہ کے مشیر کرسٹوف ہینز Christof Heyns نے اپنی رپورٹ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم میں شدت آنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ 

صیہونی حکومت پر بڑھتی ہوئی عالمی تنقید اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ صیہونی حکومت کے ناجائز قیام کو ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ حکومت مختلف قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود اپنی تشکیل کو قانونی جواز نہیں دے سکی ہے اور اس حکومت کو پہلے سے زیادہ عالمی نفرت کا سامنا ہے اور عالمی رائے عامہ مختلف طریقوں سے ناجائز صیہونی حکومت کے بارے میں اپنی نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ 

فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم نے پوری دنیا کے لوگوں کے دلوں کو مجروح کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

جوں جوں دنیا والوں کو مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہو رہی ہیں، اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید اور ان کی مخالفت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ 

صیہونی حکومت کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اور اس کا بائیکاٹ کرنے پر بین الاقوامی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ صیہونی حکومت کی توسیع پسندی کے بارے میں دنیا والوں کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے اور اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر صیہونی حکومت کے خلاف اقدامات شروع ہو رہے ہیں۔ جس پر غاصب صیہونی حکومت کے حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 

صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کچھ عرصہ قبل بائیکاٹ کی عالمی لہر میں اضافے پر خبردار کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک اس حکومت کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جس کا مغرب کے صحافتی حلقے بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے اسرائیل کے بائیکاٹ کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہ جسے ڈان پیری نے تیار کیا، لکھا ہے کہ موجودہ فضا ہمیں اس بائیکاٹ کی یاد دلاتی ہے کہ جس نے پچیس سال قبل جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خاتمے میں مدد دی تھی۔ 

بین الاقوامی حالات اس وقت سیاسی، اقتصادی، قانونی اور تعلیمی شعبوں سمیت تمام شعبوں میں صیہونی حکومت کے خلاف ردعمل کا دائرہ وسیع ہونے کی عکاسی کرتے ہیں اور اس غاصب حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی عالمی نفرت نے صیہونی حکومت کو بین الاقوامی میدان میں الگ تھلک اور تنہا کر کے رکھ دیا ہے۔

 

پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ رواں ہفتے پیش کئے جانے والے بل میں گوانتانامو بے جیل کو بند کرنے کے سلسلے میں متعدد آپشنز کو تجویز کیا گیا ہے۔ اور وزارت جنگ کے ماہرین نے اس جیل کے بعض قیدیوں کو امریکی سرزمین میں واقع جیلوں میں منتقل کرنے کے لئے مختلف علاقوں کا جائزہ لیا ہے۔

اگرچہ اس بل کی تفصیلات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی ہیں لیکن ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی سینیٹ کے تین اراکین کوری گارڈنر ، ٹیم اسکاٹ اور پٹ رابرٹز نے اس بل کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ گوانتانامو جیل کے قیدیوں کو امریکی سرزمین میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

گوانتانامو جیل کو امریکہ کے سابق صدر جارج بش کے زمانے میں خلیج گوانتانامو میں جنوری سنہ دو ہزار دو میں بنایا گیا۔ اس جیل کی تعمیر کا مقصد ان افراد کو یہاں قید میں رکھنا بتایا گیا جن کو امریکی قیادت میں بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار کیا گیا۔ باراک اوباما نے سنہ دو ہزار آٹھ میں انتخابی مہم کے دوران اس جیل کو بندکرنے کا وعدہ کیا۔ اب سات سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس جیل میں ایک سو بائیس افراد قید ہیں اور ان پر ابھی تک مقدمہ بھی نہیں چلایا گیا ہے۔

باراک اوباما کی حکومت کے پاس اس مسئلے سے نمٹنے کے سلسلے میں معدودے چند آپشن ہیں جن میں سب سے زیادہ آسان ان افراد کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجنا ہے۔ لیکن اس جیل کے صرف ترپن قیدی ہی ایسے ہیں جن کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجا جا سکتا ہے ۔ جبکہ باقی قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس کو مشکلات کا سامنا ہے۔

امریکی حکومت ایسے قیدیوں کو اپنے ملک میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن کانگریس کا پاس کردہ قانون اس آپشن کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے کیونکہ کانگریس کے فیصلے کے مطابق ان پر امریکی سرزمین میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا اور اس سے زیادہ بڑی رکاوٹ امریکی جماعتوں کا سیاسی کھیل ہے جو گوانتانامو جیل کے بارے میں فیصلے سے متعلق امریکہ کی دو بڑی جماعتوں کے باہمی مقابلے کا ذریعہ بن چکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تیرہ برس کا عرصہ گزرنے کے بعد موجودہ حالات میں گوانتانامو جیل کو برقرار رکھنا ماضی کی طرح زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حوالے سے وقتا فوقتا جو چیز امریکہ کے سیاسی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے وہ وائٹ ہاؤس اور ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کانگریس کی جانب سے محاذ آرائی کا ایک نیا میدان تیار کرنا ہے ۔ گوانتانامو جیل کو بند کرنا باراک اوباما کے لئے صرف انتخابی مہم کے دوران کئے گئے اس وعدے کو عملی جامہ پہنانا ہے جو انہوں نے سات سال قبل کیا تھا اور ان کو امید ہے کہ ان کے دوسرے عہد صدارت کے آخری ایام میں یہ وعدہ پورا ہو جائے گا۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کے ری پبلیکن پارٹی کے اراکین ڈیموکریٹ صدر کے وعدہ پر عملدرآمد کے ذریعے تقدیر ساز صدارتی انتخابات میں مخالف سیاسی جماعت کی پوزیشن مضبوط کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ امریکی جماعتوں کے اس سیاسی کھیل کی بھینٹ گوانتانامو کے وہ قیدی چڑھ رہے ہیں کہ جن میں سے بعض پر حتی باضابطہ طور پر فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی ہے اور وہ اپنی عمر کے کئی برس اس بدنام زمانہ جیل میں گزار چکے ہیں۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی نوعیت کی منفرد '' حجاب کیمپین '' کا اہتمام کیا گیا۔ '' میں با حجاب ہوں '' نامی اس کیمپین کا اہتمام انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل نے کیا تھا جس کے تحت سرینگر میں راہ چلتی باحجاب طالبات کو مختلف انعامات سے نوازا گیا اور  با حجاب رہنے پر انکی حوصلہ افزائی کی گئی۔ انٹر نیشنل مسلم یونٹی کونسل سے وابستہ خواہران نے راہ چلتی باحجاب کالج طالبات اور دیگر عورتوں کو پھول، اسٹیکر،اسکارپ اور دیگر انعامات سے بھی نوازا تاکہ اس طرح دوسری لڑکیوں میں بھی حجاب پہننے کا رحجان پیدا ہو جائے۔ یہ وادی کشمیر میں اپنی نوعیت کی پہلی و منفرد ''حجاب کمپین'' تھی جس کے ذریعے کونسل نے حجاب کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جسکو عوام اور معزز خواتین نے سراہا اور مختلف مقامات پر اسے انجام دینے کی دعوت بھی دی۔ انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل کے جنرل سیکریٹری سید جاوید عباس رضوی نے اس موقع پر ابنا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مغرب اپنی ثقافت کے ذریعہ مسلم معاشرے سے حجاب کو ختم کرکے عریانیت عام کرنا چاہتاہے، وہ اپنی سازش کے ذریعہ مسلم خواتین کا تقدس پائمال کرنے کے درپے ہے۔ انہوں نے مزید بتایا وادی کشمیر اولیاء خدا کی سرزمین ہے یہاں پر بھی کچھ عرصے سے لڑکیوں میں بے حجابی کا اثر پیدا ہونے لگا ہے جس کو توڑ کرنے کے لئے کشمیر کی مقدس سرزمین پر آئندہ بھی اسلامی حجاب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر مختلف مقامات، اسکول ،کالج اور دانشگاہوں میں''حجاب کمپین'' جاری رکھی جائے گے۔ کیمپین میں شریک با حجاب طالبات کا کہنا تھا کہ حجاب کے حوالے سے آگہی فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہمارے مسلم معاشرے سے بے حجابی و بے پردگی کامکمل طور پر خاتمہ ہوسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے رویئے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت فلسطینی سرزمین کے مختلف علاقوں پر قبضے اور فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل پامالی کے لئے موقع کی تلاش میں ہے۔ صیہونی حکام مغربی کنارے پر اپنا قبضہ جاری رکھنے اور اس پر مزید تسلط حاصل کرنے پر ایسی حالت میں تاکید کر رہے ہیں کہ جب یہ خطہ انیس سو سڑسٹھ سے عملی طور پر صیہونی حکومت کے قبضے میں ہے۔

مغربی کنارے پر ایسی حالت میں صیہونی حکومت کا قبضہ جاری ہے کہ جب فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں منجملہ دو سو بیالیس اور تین سو اڑتیس میں مقبوضہ علاقوں سے صیہونی حکومت کی پسپائی پر تاکید کی گئی ہے۔ فلسطینیوں نے صیہونی حکومت کے توسیع پسندانہ اور تشدد آمیز اقدامات کے خلاف اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

اکتوبر کے مہینے سے غاصب صیہونیوں کے خلاف فلسطینی عوام کے احتجاج میں شدت پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے صیہونی حکومت کے تمام اندازے غلط ثابت ہوگئے ہیں اور صیہونی حکومت کو فلسطینی عوام کے احتجاجات اور اعتراضات میں پھیلاؤ کے بعد مغربی کنارے میں اپنی ریزرو فوج کے متعدد بٹالین تعینات کئے ۔ یہ ایسی حالت میں تھا کہ جب اسرائیلی فوج کا گمان تھا کہ وہ اکتوبر سے شروع ہونے والے فلسطینی انتفاضہ پر آسانی کے ساتھ قابو پا سکتی ہے۔

دریں اثناء صیہونی حکومت کے فوجی اقدامات میں آنے والی شدت کا دائرہ مغربی کنارے تک محدود نہیں ہے بلکہ صیہونی حکومت کے لڑاکا طیاروں نے حالیہ دنوں میں فلسطینی علاقوں خصوصا غزہ پٹی کے علاقے پر بارہا حملے کر کے اس علاقے میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔ غزہ پٹی پر سنہ دو ہزار چودہ میں صیہونی حکومت کے حملوں کے بعد مصر کی ثالثی میں صیہونی حکومت اور فلسطین کے جہادی گروہوں کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کئے جانے کے بعد اسرائیل غزہ پٹی پر ہر طرح کے حملے سے اجتناب کرنے کا پابند ہے۔ لیکن یہ حکومت مختلف بہانوں کے ساتھ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے۔

رائے عامہ نے صیہونی حکومت کے تشدد آمیز اقدامات کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے اس غاصب حکومت کی حمایت کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ دونوں ممالک باہمی تعلقات میں توسیع کے بھی درپے ہیں۔ اسی تناظر میں صیہونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور امریکی حکام غاصب صیہونی حکومت کی فوجی امداد میں اضافے کے طریقوں کا جائزہ لئے جانے کے بارے میں مشاورت کر رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت اس غاصب حکومت کے لئے گرین سگنل کے مترادف ہے۔ اس حکومت نے امریکی حمایتوں کی وجہ سے اپنے تشدد آمیز اور توسیع پسندانہ اقدامات میں شدت پیدا کر دی ہے۔

صیہونی حکومت کی ہمہ گیر حمایت کی وجہ سے امریکہ بھی اس غاصب حکومت کے مظالم میں برابر کا شریک بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے رائے عامہ میں دنیا کے مختلف علاقوں میں اقوام پر مظالم ڈھانے والے امریکی حکام کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی رائے عامہ بھی امریکہ کے مفادات کا تعلق صیہونی حکومت کے ساتھ جوڑنے اور امریکی شہریوں کے ٹیکسوں سے اس غاصب حکومت کی حمایت میں بے تحاشا اخراجات برداشت کرنے پر مبنی امریکی حکام کے اقدامات پر معترض ہے۔

امریکہ کے مختلف شہروں میں حالیہ مہینوں خصوصا اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دورہ امریکہ کے موقع پر صیہونیت مخالف مظاہروں میں شدت پیدا ہونے سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ امریکی رائے عامہ امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کا ساتھ دینے سے شدید نفرت کرتی ہے۔

صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے دورۂ امریکہ کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشت گردی کا بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد گروہ داعش اور ایران کی زیر قیادت شیعہ اسلامی ملیشیا مشرق وسطی کو فتح کرنے کے درپے ہیں۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں باراک اوباما اور میرے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے لیکن سمجھوتے پر دستخط ہوچکے ہیں اور اب ہمیں اس معاہدے کی خلاف ورزی نہ کئے جانے کی جانب توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔

ایران کے ایٹمی معاہدے پر تشویش کے علاوہ ان بیانات میں طنزیہ نکتہ یہ ہے کہ سب سے بڑے شرپسند اور دہشت گردوں کے سرغنہ نیتن یاہو نے ایران پر مشرق و مغرب میں دہشت گردگروہوں کی تشکیل کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ مغرب کو بھی اس خطرہ کا سامنا ہے۔

بلاشبہ ایٹمی معاہدہ بہت سے پہلووں کے اعتبار سے ایک موثر اور قابل توجہ واقعہ ہے۔ اس واقعے سے اختلافات کو منطقی اور پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حامیوں کے دل خوش ہوئے جبکہ دشمنوں کے سینوں میں آگ لگ گئی۔

دریں اثناء صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے شروع سے ہی ایٹمی معاہدے کو خطرناک ظاہر کرنے کی کی کوشش کی۔ اس رویئے کو اگرچہ عوام کو فریب دینے پر مبنی اسرائیل کی پالیسی قراردیا جا سکتا ہے لیکن یہ اس مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے اور ایران کے بارے میں نیتن یاہو کے واویلے کا دوسرا پہلو حقائق سے فرار اختیار کرنے پر مبنی ان کی گھسی پٹی پالیسی ہے۔ یہ رویہ چند وجوہات کی بناء پر نیتن یاہو کے لئے اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔

نیتن یاہو کے ایران مخالف بے بنیاد دعوے کی سب سے پہلی وجہ ان کی یہ تشویش ہے کہ ایران پر پڑنے والے بین الاقوامی دباؤ کا رخ اب مشرق وسطی میں واحد ایٹمی ہتھیاروں کے حامل اور این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنے والے اسرائیل کی جانب مڑ چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو کو اس خوف نے ایران پر بے بنیاد الزامات لگانے پر اکسایا ہے کہ مشرق وسطی کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں دباؤ میں مزید شدت پیدا ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں ہی اس تجویز کے مخالف ہیں۔

نیتن یاہو کی جانب سے ایران پر بے بنیاد الزام لگائے جانے کی دوسری وجہ اسرائیل کی بلیک میلنگ ہے اور یہ سلسلہ کبھی رکنے والا نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے با رہا کہا ہےکہ ان کو ایران کے ایٹمی معاہدے پر تشویش لاحق ہے۔ اس تشویش کی بازگشت ان مسائل کی جانب ہوتی ہے جن کے بارے میں اسرائیل جوابدہ ہے ایران نہیں۔ بنابریں صیہونی حکام نے، اس استدلال کے ساتھ کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعملدرآمد اسرائیل کے لئے بہت زیادہ اخراجات کا باعث بنے گا اور اسے کٹھن صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا، امریکہ سے مزید مطالبات کئے ہیں۔

صیہونی حکام نے امریکہ سے جو مطالبات کئے ہیں ان میں براہ راست اور بلامعاوضہ سالانہ تین ارب ڈالر کی مدد کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانا بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے مزید ہتھیاروں کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی حکام سے ملاقاتوں کے دوران ایک بار پھر یہ مطالبات ان کے سامنے رکھے ہیں۔البتہ امریکہ اسرائیل کے بقا پر موقوف مغربی ایشیا میں اپنےاسٹریٹیجک مفادات کی اہمیت کی خاطر صیہونی حکومت کو یہ خراج دینے پر مجبور ہے۔

نیتن یاہو کے ایران مخالف بے بنیاد الزامات کی تیسری وجہ یورپ خصوصا امریکہ کے تسلط کے خاتمے پر نیتن یاہو کی تشویش ہے۔ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو اس بات نے شدید تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کی دھمکیوں، پابندیوں اور دباؤ کے مقابلے میں استقامت سے کام لیا اور یورپ اور امریکہ کو ایران کے جائز ایٹمی حقوق تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

بنابریں ایٹمی معاہدہ اور مشترکہ جامع ایکشن پلان ایٹمی معاملے کے بارے میں ایک معمولی معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے اثر و رسوخ پر ایک کاری ضرب ہے۔ خطے میں رونما ہونے والی اس تبدیلی سے یقینا امریکہ اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے سامنے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی اور خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے اہداف کے حصول کے لئے دہشت گرد گروہ داعش کے پھیلاؤ اور اس کے کردار کی اہمیت کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گرد گروہ ہی ان کے خیال خام کے مطابق اسرائیل کا مقابلہ کرنے والے ممالک پر قابو پا کر خطے میں پیچیدہ بحران پیدا کر سکتا ہے اور یہ بحران صرف امریکہ اور اسرائیل کے فائدے میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش امریکہ اور اسرائیل کے لئے کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے اور اس گروہ نے خطے میں صیہونی داعشی دہشت گردی کو چھپانے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اور صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیانات کا جائزہ بھی انہی وجوہات اور دلائل کے تناظر میں لیا جانا چاہئے

تہران یونیورسٹی میں مرکزی نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے آیت اللہ امامی کاشانی نے امید ظاہر کی کہ ایران کی مذاکراتی ٹیم نے اب تک جس دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے،ایٹمی اتفاق رائے پر عملدرامد کے معاملے میں بھی اسی دانشمندی سے کام لے گی۔ 

آیت اللہ امامی کاشانی نے صدر ایران کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے ہدایت نامے میں درج نو نکات کی جانب بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کی اعلی کونسل اور پارلیمنٹ میں جامع مشترکہ ایکشن پلان کا جائزہ مکمل ہونے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے اس پر عملدرآمد کی گہری نگرانی کئے جانے پر زور دیا ہے۔ 

تہران کے خطیب جمعہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ملک میں دشمن کے نفوذ کا راستہ ہر حال میں روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت، اخلاقیات اور سیاست کی حدود واضح ہیں اور استقامتی معیشت کا راستہ ہی ملکی ترقی و پیشرفت کا واحد ذریعہ ہے۔ 

آیت اللہ امامی کاشانی نے کہا کہ شام کے بارے میں ہونے والے ویانا مذاکرات میں ایران کو شرکت کی دعوت دیا جانا،تہران کے عالمی وقار کی نشاندھی کرتا ہے۔


عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کے موقع پر اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کی ریلیوں کا ذکر کرتے ہوئے تہران کے خطیب جمعہ نے کہا کہ یہ ریلیاں شاہی حکومت کے دور میں اسکولوں اور یونیورسٹی کے طلبہ کی سامراج مخالف تحریک اور امریکہ مردہ باد کے نعرے کا تسلسل ہیں۔