Super User

Super User

ہندوستان میں شدید بارشوں اور زمین کھسکنے کے نتیجے میں انسٹھ افراد ہلاک ہو گئے-

مشرقی ہندوستان میں گذشتہ دو دنوں کے دوران شدید بارشوں، دریاؤں میں طغیانی اور زمین کھسکنے کے واقعے میں انسٹھ افراد ہلاک ہو گئے- ہندوستان کی ریاست بنگال میں گذشتہ اٹھارہ گھنٹوں کے دوران ہونے والی شدید بارش اور زمین کھسکنے کے واقعے میں اٹھارہ لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں- انھوں نے کہا کہ بارشوں کے نتیجے میں انتالیس افراد ہلاک ہوئے ہیں- ہندوستانی حکام، امدادی کارروائیوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں- مغربی بنگال کی وزیر اعلی نے کہا کہ بنگال کی ریاستی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نو سو چھالیس امدادی کیمپ قائم کئے ہیں اور دس لاکھ سے زیادہ افراد اس کیمپوں میں منتقل ہو چکے ہیں- رپورٹ کے مطابق شہر کلکتہ میں بھی گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران شدید بارش کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں سیلاب آگیا ہے اور گاڑیوں کی آمد و رفت میں مشکلات پیش آرہی ہیں- مشرقی ہندوستان کی ریاست منی پور کے مقامی حکام نے بھی اعلان کیا ہے کہ گذشتہ تین دنوں سے شدید بارشوں اور "جومل" کے علاقے میں زمین کھسکنے کے نتیجے میں بیس افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں رہائشی مکانات تباہ ہوئے ہیں- ہندوستان میں مانسون یعنی شدید موسمی بارشوں کے نتیجے میں اب تک ایک سو تیس سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں- ہندوستان میں مانسون کی بارشیں معمولا جولائی سے ستمبر ماہ تک جاری رہتی ہیں اور اس سے ہر سال بالخصوص دیہی علاقوں میں بھاری جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں-

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الازہر جناب ڈاکٹر احمد الطیب صاحب
سلام علیکم و رحمۃ ا۔۔۔
عید سعید فطر کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔
سب سے پہلے آپ کا اس بات پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس سال ماہ مبارک رمضان میں ’’حدیث شیخ الازہر‘‘ کے عنوان سے امامت اور صحابہ کے موضوع پر شیعہ سنی اختلافات کے بارے میں ٹیلیویزن پر مسلسل گفتگو کی۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے آپ کی تلاش و کوشش قابل قدر ہے۔
ہم آپ کی بعض باتوں پر بہت خوش ہیں جو آپ نے ان پروگراموں میں بیان کیں جیسے’’ شیعہ سنی، امت مسلمہ کے دو پر ہیں اور اس وقت جو شیعوں اور سنیوں کے درمیان ہو رہا ہے یہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کو نابود کرنے کی سازش ہے‘‘، ’’ جب تک شیعہ و سنی شہادتین پر ایمان رکھتے ہوں تو الازہر شیعہ و سنی کے درمیان کسی طرح کے فرق کی قائل نہیں ہے‘‘۔ یہ آپ کی وہ باتیں ہیں جو فکری اور اعتقادی میدان میں الازہر کے اعتدال پسندانہ رویہ کی عکاسی کرتی ہیں۔ لیکن اجازت دیں آپ کے ان پروگراموں میں بیان کی گئیں کچھ دیگر باتوں کی طرف بھی اشارہ کریں:
پہلی بات یہ کہ صحابہ کو گالیاں دینے اور لعن طعن کرنے کا مسئلہ جو آپ نے بعض شیعہ افاضل کی طرف منسوب کیا اس کے بارے میں کہا جائے کہ تمام شیعہ مراجع اس کام ( صحابہ کو گالیاں دینا) سے طلب برائت کرتے ہیں۔ صرف بعض شیعہ عوام جو قابل توجہ بھی نہیں ہیں اس طرح کے کاموں میں سبقت اختیار کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ شیعہ عقائد کے بارے میں جو باتیں آپ نے ان پروگراموں میں بیان کیں وہ قابل بحث و تنقید ہیں۔
ہم اس احترام کے ساتھ جو آپ کی نسبت قائل ہیں یہ کہنا چاہیں گے کہ اس طرح کی باتیں میڈیا کے راستے سے بیان کرنا شیعوں اور سنیوں کے درمیان اختلافات کو مزید ہوا دینے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں رکھتیں اور بہت سارے اسلام دشمن ان باتوں کو اپنے مقاصد کے لیے ہھتکنڈہ بنانے کی کوشش کریں گے۔
اے کاش کہ یہ مسائل، علمی اور خصوصی جلسوں اور شیعہ سنی علماء کی موجودگی میں بیان کئے جاتے نہ میڈیا پر۔
بنابرایں، ہم یہاں پر ایک تجویز پیش کرتے ہیں کہ شیعہ اور سنی دونوں مذاہب کے بزرگ علماء کی موجودگی میں ایک علمی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ اس میں اسلامی اتحاد کی راہ میں پائی جانے والی اہم ترین رکاوٹوں کی چھان بین کی جائے اور دوسری جانب سے اسلامی وحدت کو تقویت پہنچانے والے اہم ترین اقدامات عمل میں لائے جائیں اور آخر میں اس علمی کانفرنس کے نتائج کو لازم الاجرا ہونے کے طور پر تمام امت مسلمہ کے لیے بیان کئے جائیں۔
ہمیں امید ہے کہ آپ ہماری اس تجویر کو قبول کریں گے تاکہ شیعہ حضرات مجبور نہ ہوں آپ کی جانب سے شیعوں پر لگائے گئے اتہامات کا میڈیا اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے جواب دیں۔
آخر میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی فضا قائم کرنے میں اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ خداوند عالم سے آپ کے لیے مزید توفیقات کے خواہاں ہیں۔
قم ــ ناصر مکارم شيراز

 29 رمضان المبارک 1436

پاکستان میں سیلاب کے باعث ایک سو نو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے کہا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں سیلاب آنے کے باعث تقریبا سات لاکھ افراد کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ کوہستانی علاقوں میں ٹوٹنے والی سڑکوں اور پلوں کی مرمت کے لئے ماہرین اور امدادی ٹیموں کو ان علاقوں میں روانہ کر دیا گیا ہے۔ ان حکام نے پاکستان میں سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے جمعرات کے دن ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے حکام سے کہا تھا کہ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امداد اور نجات کی کارروائیاں تیز کر دیں۔ دریں اثنا پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں ۔ میانوالی میں بارشوں کے بعد ندی نالوں میں طغیانی سے سیکڑوں دیہات زیر آب آ گئے ہیں ۔حالیہ بارشوں کے بعد دریائے سندھ میں چشمہ کے مقام پر پانی کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ چشمہ بیراج سے چھ لاکھ دس ہزار کیوسک پانی کا بڑا ریلہ ضلع لیہ سے گزر رہا ہے اور تحصیل کروڑ لعل عیسن میں اونچے درجے کا سیلاب ہے جس کی وجہ سے متعدد بستیاں زیر آب آ گئی ہیں۔ راجن پور میں دریائے سندھ میں کوٹ مٹھن کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، کوہ سلیمان کے سیلابی ریلے سے مزید پانچ بستیاں زیر آب آ گئی ہیں ۔ اب تک دریائے سندھ اور کوہ سلیمان سے آنے والے سیلابی ریلوں سے ایک سو پچاسی بستیاں زیر آب آ چکی ہیں۔ ۔ڈیرہ غازی خان میں درجنوں دیہات پانی میں گھرے ہوئے ہیں جبکہ رابطہ سڑکیں اور چھوٹے پل بہہ گئے ہیں، سکھر بیراج پر اونچے درجے کے سیلاب کے پیش نظر بیراج کے پل کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ویانا ایٹمی معاہدے کے باوجود ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر عائد پابندی ابھی تک برقرار ہے۔

فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے پاکستانی وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی جانب سے گروپ پانچ جمع ایک اور ایران کے ایٹمی معاہدے کا خیر مقدم کئے جانے پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ مارک ٹونر نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ ابھی تک ایران کے ساتھ تجارت پر عائد پابندیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سے کہا تھا کہ پاکستان ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے معاہدے کی حمایت کرتا ہے کیونکہ اس معاہدے سے ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون خصوصا قدرتی گیس کی درآمدات کے لئے گیس پائپ لائن کی تعمیر کے سلسلے میں باہمی تعاون کا راستہ ہموار ہو گا۔

عراق کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر نے جوہری مذاکرات میں ایران کی کامیابی کو عالم سیاست میں ایک انقلاب سے تعبیر کیا ہے۔

عراق کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر ہمام حمودی نے ایران کے ادارہ اوقاف کے سربراہ علی محمدی سے گفتگو کے دوران اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی چھے بڑی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی مذاکراتی ٹیم کا عزم، قابل دید اور قابل فخر تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان مذاکرات میں ایران کی کامیابی، ایک تاریخی واقعہ ہے جس سے دشمنوں کو شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ ہمام حمودی نے مزید کہا کہ دو سال کی انتھک کوششیں سرانجام رنگ لے آئیں اور دنیا، ایران کے ایٹمی حق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی۔ عراق کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر نے ایران اور عراق کے مثالی تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عراق، ایران کا عالم عرب میں داخل ہونے کا راستہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اور عراق کی قومیں، ایک ملت کی مانند ہیں، جو ایک ہی کشتی پر سوار ہیں۔ ایران کے ادارہ اوقاف کے سربراہ علی محمدی نے بھی ایران اور عراق کے تعلقات کو انتہائی اہم قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران، دنیا کے تمام علاقوں کے مظلوموں کی حمایت کرتا رہا ہے اور یہ حمایت آئندہ بھی جاری رہے گی۔ علی محمدی نے کہا کہ وقف املاک اور زیارت کے مقامات، دونوں ممالک کے رابطے کے محور کی مانند ہیں۔ انہوں نے اس شعبے میں معاہدے کے ذریعے تعاون کو مزید فروغ دیئے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

Sunday, 02 August 2015 07:28

مسجد زاہر – ملیشیا

   مسجد زاہر، ملیشیا کی ریاست کداح کے دارالخلافہ شہر الورستار میں واقع ہے۔ یہ مسجد، بیسویں صدی ہجری کی ابتداء میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مسجد اپنی نوعیت کی معماری کے علاوہ ملیشیا میں قرات قرآن کے سالانہ مقابلے منعقد ہونے کے مرکز کی حیثیت سے بھی مشہور ہے۔

   یہ مسجد، ریاست کداح کا ایک مشہور ترین اور ممتاز ترین معماری کا نمونہ ہے۔ مسجد کداح کو اس کے باشکوہ میناروں اور سیاہ رنگ کے گنبدوں کی وجہ سے ملیشیا کی اسلامی معماری کا نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

   ملیشیا کی مسجد زاہر کو سنہ 1912 ء میں ریاست کداح کے جنگجوؤں کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جو ساکنان صیام کے مقابلے میں اس ریاست کا دفاع کرتے ہوئے سنہ 1821ء میں وفات پائے ہیں۔

   اس مسجد کی معماری کے سلسلہ میں، سوماترا کے شمال میں موجود مسجد عزیزی سے الہام لیا گیا ہے۔ اس مسجد کے پانچ بڑے گنبد ہیں، جو اسلام کے پانچ اصلی ارکان کی علامت ہیں۔ اس مسجد کا اصلی گنبد اس عمارت کے شمال مشرقی حصہ میں واقع ہے۔

   ملیشیا کی مسجد زاہر کا باقاعدہ طور پر 15 اکتوبر سنہ 1915ء مین افتتاح کیا گیا ہے۔

   یہ مسجد گیارہ ہزار مربع میٹر کی مساحت پر تعمیر کی گئی ہے۔

  اس مسجد کا اصلی شبستان 3844 مربع میٹر مساحت پر مشتمل ہے اور اس کا ایوان 4/2 میٹر بلند ہے۔ یہ مسجد چار مؤذّ نوںوالے مخصوص چار حصوں پر مشتمل ہے اور اس کے ہر حصہ کے اوپر ایک گنبد ہے۔

   یہ مسجد ملیشیا کی سب سے بڑی اور قدیمی ترین مسجد ہے کہ قرآن مجید کے سالانہ مقابلے اس میں منعقد کئے جاتے ہیں۔ مسجد زاہر دنیا کی 10 مشہور مساجد میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے ہفتے کے روز ارنا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے عوام اور حکومت نے ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی حمایت کی ہے اور اس وقت وہ، ویانا مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے اور ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان اچھے اور حتمی سمجھوتے پر دستخط ہونے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں- پاکستان کی شیعہ علماء کونسل کے سربراہ نے کہا کہ اسلام آباد صرف اس سمجھوتے کو تسلیم کرے گا جو ملت ایران کے مطالبات کی بنیاد پر ہوگا اور اس میں قومی و ایٹمی حقوق کی ضمانت دی گئی ہو گی- انھوں نے کہا کہ بلاشبہ ایسا سمجھوتہ علاقے اور عالمی برادری کے لئے بھی مفید ثابت ہو گا- علامہ ساجد علی نقوی نے ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والے مغربی فریقوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ، ایران کے حقوق کو نظر انداز کرکے یہ چاہیں کہ ہٹ دھرمی کے ذریعے اپنے مطالبات ایران پر مسلط کر دیں تو پھر یہ جان لیں کہ مذاکرات کے تعلق سے ان کی کئی برسوں کی کوششیں شکست سے دوچار ہو جائیں گی- پاکستان کے شیعہ مسلمانوں کے قائد نے عالمی یوم القدس کے حوالے سے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح کسی بھی ملک نے فلسطینی امنگوں کی حمایت نہیں کی ہے اور یہ ایران ہی ہے کہ جس نے فلسطین کے مظلوم عوام کی آواز کو اقوام عالم کے گوش گذار کیا-

حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری حجت الاسلام و المسلمین سید حسن نصر اللہ نے شب قدر کی مناسبت تقریر کرتے ہوئے کہا: حالیہ برس عالم عرب اور امت اسلامیہ کے لئے بدترین سال رہا ہے ۔

انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ خدا نے ہمیں دشمن سے جہاد کا حکم دیا ہے اس لئے دعا کے ساتھ ساتھ جہاد کی بھی ضرورت ہے کہا : دشمن کے خطرے کو دور کرنے کے لئے عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے اور دعا اس اقدام کو مکمل کرتی ہے۔

حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ جس کی سرزمین زیر قبضہ ہو یا پھر دشمن اسے دھمکی دے رہا ہو، اسے خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے کہا: حالیہ برس عالم عرب اور امت اسلامیہ کے لئے بدترین سال رہے ہیں ۔

انہوں نے عرب دنیا اور عالم اسلام کی صورت حال کو انتہائی تشویشناک بتاتے ہوئے کہا: مسائل اور بحرانوں کا حل دعا اور عملی اقدامات کے ذریعے ممکن ہے ۔

حجت الاسلام و المسلمین سید حسن نصر اللہ نے امت اسلامیہ اور عربیہ کی نجات کو فکری اور ثقافتی جد و جہد، عملی اقدامات، جہاد، تعاون اور ثابت قدمی نیز دعا کے ذریعے ممکن قرار دیا اور کہا:  لبنان کے خلاف تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی دشمن پر کامیابی، لبنان اور دیگر ممالک کے عوام کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا۔

Tuesday, 07 July 2015 04:23

مسجد کوفہ - عراق

   عراق کے شہر نجف ا شرف کا ایک اہم زیارتی مقام مسجد کوفہ ہے، جو شہر کوفہ اور نجف اشرف کے جوار میں واقع ہے۔

   یہ مسجد، شائد پہلی عمارت ہے جو اس شہر کے تشکیل پانے کے وقت تعمیر کی گئی ہے، کیونکہ جب سعد بن وقاص نے اس علاقہ کو مسلمان سپاہیوں کو مستقل طور پر مستقر کرنے کے لئے منتخب کیا، تو پہلا اقدام عبادت کے لئے ایک مسجد تعمیر کرنا تھا۔

   انہوں نے پہلے ایک مسجد تعمیر کرنے کے لئے ایک مفصل اور جامع نقشہ کھینچا اور اسی بنا پر شہر کے مرکز میں مسجد کی سنگ بنیاد ڈالی۔ اس مسجد کی مساحت کو ایک تیر اندآز کی تیر اندازی سے معین کیا گیا اور اس نے چاروں طرف تیر پھینکے۔ اس کام کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس مسجد کے لئے ایک بڑا رقبہ مخصوص کرنا چاہتے تھے تاکہ اس علاقہ کے ساکن اور سپاہی ، جن کی تعداد چالیس ہزار افراد پر مشتمل تھی، نماز ادا کرنے کے لئے اس میں سما سکیں۔

مسجد کوفہ کی سنہ 1915 میں لی گئی ایک تصویر

   یہ مسجد مربع شکل میں تعمیر کی گئی ہے اور اس کی دیواریں پست ہیں۔ اس کے اکثر حصہ پر چھت نہیں تھی۔ اس مسجد کی تعمیر کے دن سے سنہ 41ہجری تک ، عراق کے حاکم زیاد بن ابیہ نے اس کی تعمیر و ترقی کے لئے اقدام کیا ہے، لیکن مسجد میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ اس دوران مسجد کی دیواریں مضبوط اور بلند تر کی گئیں اور اس کو تھوڑا بڑھا یا گیا، اس کے لئے ایک چھوٹا محراب تعمیر کیا گیا اور اس کے فرش پر ریت ڈال دی گئی ہے۔

   مختلف ادوار میں، اس مسجد میں تعمیر نو اور مرمت ہوتی رہی ہے اور اس کی مساحت تھوڑی سی بڑھ گئی ہے، اس مسجد کی موجودہ عمارت چالیس ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے کہ اس کے ضلعے بالترتیب 110، 116، 109اور116 میٹر لمبے ہیں اور مسجد کے تین اطراف میں زائرین کے لئے کمرے تعمیر کئے گئے ہیں۔ مسجد کی عمارت شمال سے جنوب کی طرف مستطیل شکل میں ہے اور تقریباً 21درجہ قبلہ، یعنی مغرب کی طرف ٹیڑھی ہے۔

   مسجد کے دروازے

   اس مسجد کی تعمیر کے دن سے ہیاس میں داخل ہونے کے لئے متعدد دروازے بنائے گئے ہیں:

1۔ باب السدہ: حضرت علی(ع) اس دروازہ سے مسجد میں داخل ہوتے تھے۔

2۔ باب کندہ: یہ دروازہ مغرب کی طرف واقع ہے۔

3۔ باب الانماط: یہ دروازہ باب الفیل کے موازی ہے۔

4۔ باب الفیل یا باب الثعبان: یہ دروازہ شمال کی طرف واقع ہے، آج صرفیہی ایک دروازہ ہے جو اس زمانہ سے باقی بچا ہے۔ باب الفیل کے پاس ہی مسجد کا میناربھی ہے۔

مسجد کوفہ میں تعلیم و تربیت

   مسجد کوفہ، اس کی داغ بیل ڈالنے کے دن سے ہی شہر کا ایک ثقافتی مرکز شمار ہوتی تھی۔ جب سنہ 36ھ میں امام علی (ع)کوفہ میں داخل ہوئے، سب سے پہلے مسجد کوفہ میں تشریف لئے گئے اور وہاں پر لوگوں سے خطاب کیا۔امام علی علیہ السلام نے کوفہ میں مستقر ہونے کے بعد مسجد کوفہ میں تفسیر قرآن اور دوسرے علوم کا درس دینا شروع کیا۔ کمیل بن زیاد اور ابن عباس جیسے بہت سے شاگرد آپ (ع) کے درس سے مستفید ہوتے تھے۔

مسجد کوفہ کے محراب اور مقا مات:      

محراب امیرالمؤمنین:

مسجد کوفی کا یہ محراب، وہ جگہ ہے، جہاں پر امام علی علیہ السلام کے فرق مبارک پر جہل و ستم کی تلوار کا ایک بزدلانہ وار کیا گیا کہ جس کے نتیجہ میں امام شہید ہوئے۔ مسجد کے اندر مذکورہ محراب کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ جو بھی اس مسجد میں داخل ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے اس جگہ کی طرف دوڑتا ہے، جہاں پر حضرت علی (ع) عبادت کرتے تھے اور جہاں پر آپ (ع) نے شہادت پائی ہے۔ یہ محراب مسجد کے اندر دوسرے چھ محرابوں کے پاس زائرین کی خاص توجہ کا مرکز ہے۔ محراب امیرالمؤمنین (ع) جس کی حال ہی میں تعمیر نو کی گئی ہے، شبستان کی جنوبی دیوار میں واقع ہے۔ آج وہاں پر ایک دروازہ نصب کیا گیا ہے، جس کے اوپر یہ عبارت لکھی گئی ہے: " ھذا محراب امیرالمؤمنین"۔

یہ محراب قبلہ کی طرف دیوار پر واقع ہے۔

محراب و مقام امام زین العابدین (ع):

   یہ امام زین العاابدین (ع) کی عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہ محراب صحن کے اندر دوسرے محرابوں اور مقامات کے پاس واقع ہے ۔

محراب امام صادق (ع)

   یہ امام صادق علیہ السلام کی عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔

مقام خضر(ع)

   یہ مقام حضرت خضر نبی (ع) کی عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔

دکة المعراج

مقام ابراھیم (ع)

سفیینة نوح

دکة القضاء: یہ چبوترہ مربع شکل میں ہے اور مسجد کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہاں پر امام علی (ع) لوگوں کے فیصلے کرتے تھے۔ خاص مواقع پر اس جگہ پر بٹھ کر فیصلے سناتے تھے۔

بیت الطشت:

   یہ وہ جگہ ہے جہاں پر امام علی (ع) نے ایک کرامت دکھائی ہے۔ بیت الطشت ایک سرداب ہے جہاں تک پہنچنے میں دو سیڑھیاں طے کرنی ہوتی ہیں۔ بعض اہل ریاضت افراد اس سرداب میں وقت گزارتے تھے۔

مقام حضرت آدم (ع)

   ایسا لگتا ہے کہ یہ مقامات مسجد کے ستونوں کی جگہ پر واقع ہیں۔

مسجد کوفہ کے جوار میں مقبرے:

مسلم بن عقیل:

   مسجد کوفہ کی مشرق میں، امام حسین علیہ السلام کے سفیر حضرت مسلم بن عقیل کی قبر ہے، حقیقت میں یہ قبر دار الامارہ کے پاس مسجد کوفہ کی دیوار سے متصل واقع ہے۔ پہلے شخص جس نے اس قبر پر ایک عمارت تعمیر کی، وہ مختار بن ابی عبیدة ثقفی تھے۔

   سنہ 368 ھ میں، آل بویہ کے زمانہ میں،عضد الدولہ نے بھی اس مقبرہ کو وسعت دیدی۔ سلطان اویس جلایری نے سنہ 767ھ میں اور صفوی بادشاہوں نے سنہ 1055 ھ میں اور قاجار بادشاہوں نے سنہ 1232ھ میں وہاں پر کچھ تعمیرات کی ہیں۔ دوسرے لوگوں میں، جنہوں نے اس مقبرہ کی تعمیر نو کی ہے، ان میں شیخ محمد حسین المعروف صاحب جواہر قابل ذکر ہیں، انھوں نے سنہ 1263ھ میں، لکھنو کے سلطان کی طرف سے اس کام کے لئے بھیجی گئی ایک مخصوص رقم سے اس پر ایک وسیع تعمیری کام انجام دیا۔ انھوں نے مسلم کی قبر پر ایک ضریح نصب کی۔

   اس کے قریب ہی امام حسین (ع) کی دو بیٹیوں عاتکہ اور سکینہ کی قبریں بھی واقع ہیں، حالیہ برسوں کے دوران حضرت آیت اللہ حکیم اور بعض نیکو کاروں کی ہمت سے اس پر ایک نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے جو حرم اور رواق پر مشتمل ہے۔

ہانی بن عروة

   ہانی بن عروہ امام علی (ع) کے صحابی ہیں، جنھوں نے امام (ع) کے زمانہ میں واقع ہوئی جنگوں میں شرکت کی ہے، انھوں نے مسلم بن عقیل کو پناہ دیدی تھی۔ سنہ 60 ہجری میں مسلم بن عقیل کے ہمراہ عبیداللہ بن زیاد کے ہاتھوں شہید کئے گئے۔ امام حسین (ع) کے اس یار باوفا کی قبر مسلم بن عقیل کے حرم کے نزدیک واقع ہے کہ ان دونوں کی ایک مشترک عمارت اور مشترک صحن ہے۔ ہانی کی قبر پر ضریح کو ہندوستان کے مسلمانوں نے بنایا ہے۔ اس پر نیلے رنگ کی ٹائیلوں کا بنا ہوا ایک بڑا گنبد بھی ہے۔

مختار بن ابی عبیدہ ثقفی

   قبلہ کی طرف، مسجد سے متصل، مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کا بقعہ اور مزار واقع ہے۔ مختار وہ شخصیت ہیں، جو عبیداللہ بن زیاد کی سپاہ سے کربلا کے شہیدوں کا انتقام لینے میں کامیاب ہوئے اور کوفہ کو ایک مدت کے لئے اپنے تسلط میں قرار دیا۔

   مختار کا مقبرہ، مسلم بن عقیل کے حرم کے اندر واقع ہے اور دونوں پر ایک مشترک عمارت تعمیر کی گئی ہے۔

   مختار کی قبر پر لکڑی کی بنی ہوئی ایک ضریح نصب کی گئی ہے اور اس کے مشرقی زاویہ میں مسجد کوفہ کی جنوب کی طرف ایک پنجرہ کھلتا ہے۔ ان کی قبر پر ایک پتھر ہے، جو دوسری صدی ہجری سے ہے اور اس پر خط کوفی میں لکھا گیا ہے: " ھذا قبر مختار بن ابی عبیدہ الثقفی الآخذ بثارات الحسین"۔

   آٹھویں صدی ہجری کے مشہور سیاح، ابن بطوطہ کہتے ہیں: " قبرستان کوفہ کے مغرب کی طرف، مختار کی قبر کے قریب، سفید زمین پر ایک تیز سیاہ رنگ کی چیز نے ہماری توجہ کو جلب کیا، کہ لوگ کہتے تھے کہ یہاں پر ابن ملجم معلعون کی قبر ہے  اور کوفہ کے لوگ ہرسال لکڑی جمع کرکے سات دن تک اس قبر پر آگ جلاتے تھے"۔

   مسجد کوفہ کے حدود کے باہر امام علی (ع) کی بیٹی اور حضرت عباس (ع) کی بہن خدیجہ کی قبر ہے۔ 

۲۰۱۵/۰۷/۰۵ - حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران بھر سے آئے ہوئے یونیورسٹیوں کے ہزار سے زیادہ اساتذہ اور پروفیسرز سے ملاقات میں مومن و پیشقدم اور  محنتی جوان نسل کی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے اور تعلیمی اداروں میں حاشیہ سازی سے پرہیز کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک میں علمی ترقی و پیشرفت میں کسی بھی صورت کمی نہیں آنی چاہئے۔
دو گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے بعض اساتذہ اور پروفیسروں کی گفتگو اور انکی آراء سننے کے بعد فطری طور پر استاد کی جانب سے طالبعلم کے قلب و روح پر نفوذ اور موثر واقع ہونے کو ایک نادر موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس نادر موقع سے ان جوانوں کی تربیت کے لئے فائدہ اٹھائیں کہ جو دین دار، ملی غیرت کے حامل، با حوصلہ، انقلابی، محنتی، با اخلاق، شجاع، اعتماد بنفس کے حامل اور اچھے مستقبل کے امیدوار ہیں اور ایران عزیز کی ترقی و پیشرفت کے لئے انہیں تعلیم دیں اور انکی تربیت کریں۔
آپ نے اغیار سے خود انحصاری، ملک کی صحیح سمت اور مقام کے درست ادراک، اور ملکی سالمیت کو خدشہ دار کرنے والے امور کے مقابلے میں ڈٹ جانے کو جوان نسل کی  اہم خصوصیت بتاتے ہوئے فرمایا کہ محترم اساتذہ اپنے طور طریقے کے زریعے اس جوان نسل کی پرورش کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اساتذہ کو سافٹ وار کا سپہ سالار خطاب کرتے ہوئے فرمایا آٹھ سالہ مقدس دفاع کے کمانڈروں کی طرح آپ بھی اس حساس اور اہم جنگ کے میدان میں بنفس نفیس، سافٹ وار کے جوان افسروں کی کمانڈ اور انکی ہدایت کے فرائض انجام دیں کیونکہ یہ میدان بھی مقدس دفاع کا میدان ہے۔
آپ نے یونیورسٹیوں میں ستر ہزار اساتذہ کی موجودگی پر نہایت خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ان اساتذہ کی ایک بڑی تعداد مومن، دیندار، اور انقلاب کے مبانی کی معتقد ہے اور یہ بات ہمارے ملک کے لئے فخر کا باعث ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ ایجوکیشن، ریسرچ اور ٹیکنالوجی اور میڈیکل، صحت عامہ اور طبی تعلیم کی وزارتیں ان انقلابی اور مومن اساتذہ کی اہمیت کو سمجھیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ افراد کہ جو نقصاندہ پروپیگنڈوں کی یلغار سے نہیں گھبراتے جو اکثر اوقات مخفی طور پر انجام دی جاتی ہیں اور اپنے اہم وظیفے کو انجام دینے میں مشغول رہتے ہیں، ان پر توجہ کئے جانے اور انکی قدر دانی کئے جانے کی ضرورت ہے۔

آپ نے علمی میدان کی عالمی رینکنگ میں ایران کی جانب سے سولہواں مقام حاصل کئے جانے کو علمی مراکز اور یونیورسٹیوں کی دس پندرہ سالہ مستقل جد وجہد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ علمی ترقی اور پیشرفت کے جوش و جذبہ کے لئے کی جانی حوصلہ افزائی کہ جس کی وجہ سے ایران کو یہ مقام اور افتخار حاصل ہوا آج کم ہو چکا ہے اور اعلی حکام کو چاہئے کہ اس سلسلے میں  زیادہ سے زیادہ کوششیں کریں تاکہ یہ علمی پیشرفت اپنا تسلسل برقرار رکھ سکے اور ملکی ضرورتوں کے مطابق ترقی کرتی رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک میں علمی ترقی و پیشرفت کے عوامل پر گفتگو کرتے ہوئے علمی مراکز میں سیاست بازی اور حاشیہ سازی پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ یونی ورسٹیوں کا ماحول سیاسی فہم و شعور پیدا کرنے اور سیاست سے آگاہی اور اسکا شعور پیدا کرنے کے لئے سازگار ہونا چاہئے لیکن یونیورسٹیوں میں سیاست بازی اور حاشیہ سازی کی وجہ سے اصلی ہدف یعنی علمی جدوجہد اور پیشرفت پر کاری ضرب لگتی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے کو اعلی حکام کی جانب سے انسانی علوم میں ارتقا کے سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ کوششیں کرنے کی تاکید سے مختص کرتے ہوئے فرمایا کہ اس اہم اور ضروری ارتقا اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں اور دوسرے علمی مراکز منجملہ انسانی علوم میں ارتقا کی کونسل اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں اندرونی جوش و ولولہ پیدا ہو اور اسی کے ساتھ ساتھ مختلف مربوط ادارے بھی انکی مدد کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ الحمد اللہ اندرونی جوش و ولولہ موجود ہے اور ضروری ہے کہ مربوط ادارے انسانی علوم کے ارتقا کے سلسلے میں انجام دی جانے والی تھیوری کو عملی جامہ پہنائیں اور انسانی علوم میں ارتقا کی کونسل کے فیصلوں کو تحقق بخشیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اعلی تعلیم کے میدان میں طالبعلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو وزارت تعلیم کے لئے ایک سنہری موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا وزارت تعلیم کو چاہئے کہ صحیح منصوبہ بندی اور پلاننگ کے ساتھ اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں کی محنت، جد وجہد اور کوشش کو ملکی مسائل کے حل کی جانب گامزن کرے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک میں موجود وسائل اور امکانات ضائع ہو جائیں گے۔
آپ نے دشمن کی منصوبہ بندیوں کے مقابلے میں اساتذہ اور علمی مراکز کے اہم کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پابندیوں سے دشمن کا ہدف ایٹمی مسائل یا دہشتگردی اور انسانی حقوق کے مسائل ہرگز نہیں ہیں کیونکہ یہ ممالک خود ہی دہشتگردی کی پرورش گاہ اور انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ بلکہ ان پابندیوں سے انکا ہدف یہ ہے کہ وہ ملت ایران کو اس کے شایان شان تہذیبی اور تمدنی مقام تک پہنچنے سے روک سکیں ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے مقام و منزلت کے کامل فہم و ادراک کے ساتھ باعث فخر ملکی ترقی کا سفر جاری رکھیں اور اس سفر میں علمی مراکز اور اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہے