
Super User
رہبر انقلاب اسلامی کی سانحہ اٹھائیس جون کے شہدا کی اہل خانہ سے ملاقات
۲۰۱۵/۰۶/۲۹ - رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شہدائے ہفتم تیر اور صوبہ تہران کے چند شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران کو شہداء اور انکے اہل خانہ کا مرہون منت قرار دیتے ہوئے ہر دور میں شہدا کے امید بخش، واضح، معنوی خوشی ومسرت اور عزم راسخ سے سرشار پیغام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ آج ملت ایران کو سیاست، ثقافت اور اجتماعی زندگی کے میدانوں میں ہونے والی سافٹ وار یا جنگ نرم میں دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے عزم راسخ، دشمن کی پہچان اور تیاری کی ضرورت ہے اور جو لوگ اس کوشش میں ہیں کہ خبیث دشمن کے عفریت کو تشہیراتی حربوں کے زریعے چھپا سکیں، وہ ملک و قوم کے منافع کے مخالف ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلام کے اساسی معارف کی دوبارہ تدوین اور معاشرے میں اسکے عملی نفاذ کو انقلاب کی برکتوں سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: ان بنیادی معارف میں سے ایک شہادت سے مربوط معارف کا سسٹم ہے کہ جو ہمارے معاشرے میں محقق ہو چکا ہے ۔ اس طرح کہ شہدا اپنے عزم و ارادے اور خوشی و مشرت کے ساتھ میدان میں اترے اور انکی صادقانہ جدوجہد کے بدلے میں انہیں خداوند متعال کی جانب سے عظیم صلہ یعنی شہادت نصیب ہوئی اور وہ بغیر کسی حزن وملال کے اپنے پروردگار سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئے اور ان شہادتوں کے معنوی آثار معاشرے پر بھی منعکس ہوئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اٹھائیس جون کے سانحے اور اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ شہدا کے اہل خانہ کا عزت و احترام اور عوام کے درمیان معنوی خوشی و مسرت، شادمانی اور عزم راسخ بھی شہدا کی برکتوں میں سے ایک ہے فرمایا کہ اٹھائیس جون جیسے عظیم سانحے کے بعد کہ جس میں آیت اللہ بہشتی سمیت مختلف وزرا، پارلیمنٹ کے اراکین اور انقلابی و سیاسی شخصیات شہید ہوئیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسلامی انقلاب کو شکست ہو جاتی لیکن شہدا کے خون کی برکت سے جس بات کا تصور کیا جا رہا تھا اس کے برخلاف صورتحال دیکھنے کو ملی اور ملت ایران اس سانحے کے بعد متحد ہو گئی اور انقلاب اپنےاصلی اور حقیقی راستے پر گامزن ہو گیا۔
آپ نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ اس حادثے کے مرکزی کرداروں کے اصلی چہروں کا آشکار ہونا اٹھائیس جون کے شہدا کی خون کی برکتوں میں سے ایک ہے فرمایا کہ اٹھائیس جون کے سانحے کے بعد اس عظیم حادثے کے کرداروں کا اصلی چہرہ عوام اور ہمارے جوانوں کے سامنے برملا ہو گیا کہ جو کئی سال تک مختلف انداز سے اپنا تعارف کروا رہے تھے اور یہی دہشتگرد کچھ عرصے کے بعد صدام کی پناہ میں چلے گئے اور ملت ایران اور اسی طرح عراقی عوام سے مقابلہ کرنے کے لئے انہوں نے صدام سے اتحاد کر لیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سانحہ اٹھائیس جون کے داخلی اور خارجی عوامل اور اسی طرح وہ افراد کہ جنہوں نے رضا شاہ کے ساتھ خاموشی اختیار کی ہوئی تھی کے حقیقی چہرے برملا ہونے کو شہدا کے خون کی برکت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اٹھائیس جون کے عظیم سانحے کے بعد امام بزرگوار رح نے اس سانحے کا بہترین استفادہ کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کو کہ جو اپنے اصلی راستے سے منحرف ہو رہا تھا، نجات دلائی اور انقلاب کے اصلی چہرے کو ملت ایران کے سامنے پیش کیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے سانحہ اٹھائیس جون کے بعد معاشرے میں معنوی خوشی و مسرت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سانحے نے معاشرے میں انقلاب کی قدرت اور رسوخ کو دشمن کے سامنے برملا کر دیا اور وہ اس بات کی جانب متوجہ ہو گئے کہ انقلاب کے ساتھ تشدد کی زبان میں بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس طرح کے برتائو کو انسانی حقوق کے دعوے داروں کی منافقت سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ملک میں سترہ ہزار افراد دہشتگردی کا نشانہ بنے ہیں کہ جن میں سے اکثریت تاجروں، کسانوں، تنخواہ دار ملازمین، یونی ورسٹیوں کے اساتذہ حتی خواتین اور بچوں کی ہے لیکن ان دہشتگردی کے واقعات کے ذمہ دار افراد آج بھی ان ممالک میں آزادی سے زندگی گذار رہے ہیں کہ جو انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملت ایران میں استقامت اور طاقت اور بلند حوصلے کو شہدا کے خون کی برکت قرار دیا اورتہران میں گذشتہ دنوں 270 شہدا کی تشییع جنازہ اور اس میں ملت ایران کے عشق و ولولہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ عظیم سانحہ، اور اس کے نتیجے میں تحرک، تیاری، عشق و ولولہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آئیڈیلزم، یاس و نا امیدی اور افسردگی کے مدمقابل ہے۔
آپ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ شہدا من جملہ اٹھائیس جون کے شہدا کو ملت ایران کی استقامت اور عظمت کے مظہر کے عنوان سے صحیح طور پر روشناس نہیں کروایا جا سکا، افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مومن اور انقلابی جوان، عوامی سطح پر اور اپنی مدد آپ کے تحت میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے ان عظیم شخصیات کے مختلف پہلووں کو دنیا کے سامنے اجاگر کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملت ایران کی گردن پر شہدا اور انکے اہل خانہ کے حق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ شہدا کے اہل خانہ کو چاہئے کہ وہ اپنے بلند حوصلے اور عظیم عزم و ارادے کو معاشرے میں منتقل کریں اور یہ حوصلہ اور امید پیہم وہی چیز ہے جس کی آج ملت ایران کو ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی شناخت کو آجکل کی اہم ضرورت قرار دیا۔ آپ نے مکارانہ انداز میں میڈیا اور دوسرے تشہیراتی زرائع کی مدد سے دشمن کے خبیث چہرے اور ملت ایران کے خلاف امریکا کی جانب سے انجام دیئے گئے دہشتگردانہ اقدامات اور ان واقعات کے ذمہ دار افراد کے چہروں کو خوبصورت بنا کر پیش کئے جانے کی بابت بھی خبردار کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ستائیس جون 1981 کا سانحہ، اٹھائیس جون 1987 کو سر دشت کے علاقے پر کیمیکل بمباری، دو جولائی 1982 کو شہید صدوقی کی ٹارگٹ کلنگ اور تین جولائی 1988 کو ایرانی مسافر بردار ہوائی جہاز کو سمندر برد کئے جانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد کا اعتقاد ہے کہ ان ایام کو امریکی انسانی حقوق کے ہفتے کا نام دیا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کی مکمل شناخت پر ایک بار پھر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کو چاہئے کہ وہ دشمن کی بھرپور شناخت نیز سافٹ وار یا جنگ نرم کے میدان میں اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے خود کو آمادہ کرے چاہے وہ ثقافتی، سیاسی اور اجتماعی میدان ہی کیوں نہ ہو۔
آپ نے ان افراد پر تنقید کرتے ہوئے کہ جو امریکا کے بھیانک چہرے اور عفریت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں فرمایا کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ امریکا جیسے خبیث دشمن اور اسکے پٹھووں کے چہرے کو میڈیا کے زریعے خوبصورت بنا کر پیش کریں وہ دراصل ایران اور اسکے عوام سے خیانت کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آخر میں ملت ایران کو شہیدوں کے امید افزا اور خوشی و مسرت سے لبریز پیغام کا مرہون منت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران شہدا اور انکے اہل خانہ کی مرہون منت ہے اور جو لوگ اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں دراصل وہ ملت کی مصلحتوں سے بیگانہ اور درحقیقت اجنبی ہیں چاہے انکے پاس ایرانی پاسپورٹ ہی کیوں نہ ہو
سوره الإخلاص
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
(1) اے رسول کہہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ہے
﴿2﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ
(2) اللہ برحق اور بے نیاز ہے
﴿3﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
(3) اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد
﴿4﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
(4) اور نہ اس کا کوئی کفو اور ہمسر ہے
فریڈم فلوٹیلا 3، صیہونی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار
"فریڈم فلوٹیلا 3 " کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کے ہر طرح کے اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں-
فلسطین کی خـبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق غزہ پٹی کے محاصرے کے خاتمے کی یورپی مہم کے سربراہ مازن کحیل نے اتوار کے دن کہا کہ ماریان بحری جہاز بین الاقوامی پانیوں میں غزہ کی جانب جارہا ہے اور کوئی بھی اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔ واضح رہے کہ مازن کحیل "فریڈم فلوٹیلا 3 " میں شامل بحری جہاز میں موجود ہیں۔ غزہ پٹی کے محاصرے کے خاتمے کی یورپی مہم کے سربراہ مازن کحیل نے کہا کہ "فریڈم فلوٹیلا 3 " کے منتظمین کا مقصد دنیا والوں کو انسانیت کی فتح کا پیغام دینا ہے- مازن کحیل نے آٹھ برسوں سے جاری غزہ پٹی کے محاصرے کے خاتمے کے لئے دنیا والوں سے مدد کے مطالبے کو بھی "فریڈم فلوٹیلا 3 " کے منتظمین کا ایک مقصد قرار دیا- مازن کحیل نے مزید کہا کہ "فریڈم فلوٹیلا 3 " میں شریک افراد نے تمام ممکنہ سناریوز کے لئے تیاری کر رکھی ہے اور وہ صیہونی فوجیوں کی جانب سے "فریڈم فلوٹیلا 3 " پر حملہ کئے جانے کی صورت میں ہر طرح کے تشدد آمیز اقدام اور صیہونی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ سے گریز کریں گے- غزہ پٹی کے محاصرے کے خاتمے کی یورپی مہم کے سربراہ مازن کحیل نے "فریڈم فلوٹیلا 3 " میں تیونس کے سابق صدر ڈاکٹر منصف المرزوقی کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تیونس کی حکومت اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈاکٹر منصف المرزوقی کی حفاظت کریں- واضح رہے کہ تیونس کے سابق صدر ڈاکٹر منصف المرزوقی نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ "فریڈم فلوٹیلا 3 " کو فلسطین کے محصور علاقے غزہ پٹی لے جانے کا مقصد بھوک و افلاس کا شکار بیس لاکھ انسانوں کی مدد کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے عالمی امدادی کارکنوں کو غزہ کے محصورین کی مدد سے روکنے کی کوشش کی مگر ہم نے صیہونی دھمکیاں مسترد کردی ہیں۔ فریڈم فلوٹیلا 3 میں شامل امدادی ادارے فاقہ کش فلسطینیوں کی مشکلات کم کرنے کے عظیم مشن پر نکلے ہیں اور وہ اسے انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمارے پاس اسلحہ اور گولہ بارود نہیں کہ ہمیں روکا جائے یا امدادی جہازوں پر حملہ کیا جائے۔ ہمارے ساتھ بحری جہازوں پر ادویات لادی گئی ہیں۔ مریض بچوں کے علاج کے لیے طبی سامان ہے۔ خوراک اور کپڑے ہیں۔ ہم نے غزہ کے بیس لاکھ لوگوں کو بھوکا پیاسا اور گھیر کر مارنے کے ظالمانہ طرز عمل کو مسترد کرتے ہوئے مظلوموں کی مدد کا علم اٹھایا ہے۔ عالمی برادری کو ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔ غزہ کے عوام کو بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی جدوجہد کا حق حاصل ہے اور پوری عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ محصورین غزہ کی مدد کرے۔ دوسری جانب غزہ پٹی کے فلسطینی عوام "فریڈم فلوٹیلا 3 " کے بحری جہازوں کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں- دریں اثناء امدادی جہازوں کے غزہ کے قریب پہنچنے پر اسرائیلی فوج کے حملے کا خطرہ بھی ہے کیونکہ اسرائیلی حکومت نے اپنی بحریہ کو طاقت کے استعمال سے امدادی جہازوں کو روکنے کا حکم دیا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اسرائیلی فوج کی طرف سے کسی بھی قسم کی ممکنہ جارحیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امدادی جہازوں کو حفاظت کے ساتھ غزہ تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سوره المسد
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ
(1) ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوجائے
﴿2﴾ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ
(2) نہ اس کا مال ہی اس کے کام آیا اور نہ اس کا کمایا ہوا سامان ہی
﴿3﴾ سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ
(3) وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا
﴿4﴾ وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ
(4) اور اس کی بیوی جو لکڑی ڈھونے والی ہے
﴿5﴾ فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ
(5) اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسی بندھی ہوئی ہے
کمیل بن زیاد نخعی کی آرام گاہ – نجف اشرف - عراق
کمیل بن زیاد نخعی یمانی، تابعین کی ایک عظیم شخصیت اور حضرت علی علیہ السلام کے شجاع اور وفادار صحابی تھے۔ علم رجال کے ماہرین نے " شجاع"، " زاہد اور عابد" جیسی صفات سے ان کی تعریف کی ہے۔ وہ اپنے زمانہ کے کوفہ کے آٹھ مشہور عابدوں میں سے ایک شمار ہوتے تھے۔
دعائے کمیل ، امام علی علیہ السلام کی یاد گار اور مشہور و معروف دعا ہے، جسے بہت سے مسلمان شب جمعہ میں پڑھتے ہیں۔ یہ دعا " دعائے حضرت خضر" کے نام سے بھی مشہور ہے، اور امام علی (ع) نے کمیل بن زیاد کو اس کی تعلیم دی ہے۔ امام (ع)، کمیل سے فرماتے ہیں:" ہر شب جمعہ یا ایک مہینہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یا پوری عمر میں ایک بار اسے پڑھنا، خداوند متعال تمھارے لئے چارہ جوئی کرے گا اور تمھاری مدد کرے گا اور تجھے رزق دے گا اور تجھے مغفرت الہی حاصل ہوگی۔" اس کے بعد کمیل سے فرمایا: لکھدو:" اللّھم انی اسالک برحمتک الّتی وسعت کلّ شیء۔ ۔ ۔"
امام علی (ع) کی شہادت کے بعد، کمیل امام حسن مجتبی (ع) کے صحابی شمار ہوتے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ تھے اور صلح امام حسن (ع) کے واقعہ میں مکمل طور پر امام (ع) کے مطیع اور فرمانبردار تھے۔
امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت کے وقت کمیل مدینہ میں نہیں تھے۔ کمیل کو امام حسین (ع) کے زمانہ میں گرفتار کیا گیا اور کربلا کے واقعہ کے بعد تک عبیداللہ بن زیاد کے زندان میں تھے۔
انہوں نے زندان سے آزاد ہونے کے بعد کوفہ کے انقلابوں کے دوران حقائق کے سلسلہ میں افشا گری کی اور امام حسین (ع) کی خونخواہی میں مختار ثقفی کا ساتھ دیا اورامام (ع) کے قاتلوں سے جنگ کی۔
جب حجاج بن یوسف عراق کا والی بن گیا، تو اس نے امام علی (ع) کے صحابیوں کا تعاقب کیا۔ ایک دن حجاج نے " ھیثم اسود" سے کمیل کا پتہ معلوم کیا تاکہ انھیں قتل کر ڈالے۔ اسود نے جواب دیا: وہ ایک بوڑھا ہے۔ حجاج نے کہا: میں نے سنا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان تفرقہ پھیلاتا ہے۔ اس کے بعد حکم دیا تاکہ کمیل کو گرفتار کریں۔ جب کمیل کو حجاج کے ارادہ کے بارے میں خبر ملی، تو کوفہ سے بھاگ گئے۔ جب حجاج انھیں پیدا نہ کرسکا، تو ان پر دباؤ ڈالنے کے لئے ان کے قبیلہ کے افراد کا بیت المال سے ملنے والا وظیفہ بند کیا، جب کمیل کو اس قضیہ کے بارے میں خبر ملی تو اس نے سوچا کہ اب میری زندگی کچھ سال سے زیادہ باقی نہیں بچی ہے، میں کیوں اپنے قبیلہ کے لئے روزی منقطع ہونے کا سبب بنوں! لہذا کوفہ میں داخل ہوئے اور دار الامارہ میں جاکر اپنے آپ کو پیش کیا، حجاج نے ان سے کہا: اے کمیل! میں نے تیرا کافی تعاقب کیا تاکہ تجھے سزادوں۔ جناب کمیل نے جواب میں کہا: جو چاہو کرو کہ میری عمر میں سے کوئی خاص مدت باقی نہ بچی ہے اور جلدی ہی میں اور تم خدا کی طرف پلٹنے والے ہیں، میرے مولانے مجھے خبر دی ہے کہ میرا قاتل تم ہوگے۔
اس وقت حجاج نے امام علی علیہ السلام کا نام لیا تو کمیل نے صلوات بھیجی ۔ حجاج نے غیض و غضب میں آکر ان کو قتل کرنے کا حکم دیا اور انھیں شہید کیا گیا۔
کمیل بن زیاد کو سنہ 82ھ میں نوے سال کی عمر میں شہید کیا گیا۔
کمیل کو شہید کئے جانے کے بعد سر زمین تویہ میں انھیں دفن کیا گیا۔ تو یہ، کوفہ کے اطراف میں ایک علاقہ تھا، جہاں پر خیرہ کے حاکم نعمان بن منذر کا زندان واقع تھا۔
اس علاقہ میں بہت سے صحابی اور بزرگ شخصیتیں مدفون ہیں کہ اس وقت ان کی قبروں کے نام نشان موجود نہیں ہیں۔ اس سرزمین میں سپرد خاک کئے گئے بعض شخصیتیں حسب ذیل ہیں:
1۔ خبّاب بن اَرَث: وہ صدر اسلام کے ایک بزرگ صحابی تھے۔ انھوں نے مکہ میں کافی تکلفیں اٹھائی ہیں، یہاں تک کہ مشرکین نے ان کی پشت کو جلادیا۔ وہ مہاجرین میں ایک فاضل شخصیت شمار ہوتے تھے، جنھوں نے جنگ بدر کو درک کیا تھا۔ انھوں نے جنگ صفین اور نہروان میں بھی شرکت کی تھی۔ وہ سنہ 39ھ میں فوت ہوئے ہیں اور امام علی علیہ السلام نے ان کی نماز جناز پڑھی ہے۔ امام علی علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں:" خداوندا خبّاب بن اَرَث کو رحمت کرے، وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوا اور فرمانبرداری کے عنوان سے ہجرت کی اور قناعت سے زندگی بسر کی، راضی بہ رضائے الہی تھا اور مجاہدانہ زندگی کی۔"
2۔ جویرة بن مسہر عبدی: ابن زیاد کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئے گئے اور اس کے بعد کوفہ میں صلیب پر چڑھائے گئے۔
3۔ احنف بن قیص تمیمی: وہ جنگ صفین میں امام علی علیہ السلام کے صحابی تھے اور سنہ 67ھ میں کوفہ میں وفات پاگئے ہیں۔
4۔ سہل بن حنیف انصاری: وہ مدینہ منورہ میں امام علی علیہ السلام کے گورنر تھے۔ سنہ 38ھ میں کوفہ میں فوت ہوگئے اور امام علی علیہ السلام نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
5۔ عبداللہ بن ابی اوفی:وہ رسول (ص) کےبیعت رضوان کے آخری صحابی تھے اور کوفہ میں سنہ 86ھ میں فوت ہوئے۔
6۔ عبداللہ بن یقطر: وہ امام حسین علیہ السلام کے رضاعی بھائی تھے، امام کی طرف سے کوفہ بھیجے گئے سفیر تھے۔ ان کو عبیداللہ بن زیاد نے قیس بن مسہر صیداوی کے مانند قصر کی چھت سے نیچے گرا کر شہید کیا۔
7۔ عبداللہ بن ابی رافع: امام علی علیہ السلام کے مخصوص کاتب تھے۔
اس وقت مذکورہ بزرگوں میں سے کسی ایک کی قبر معلوم و مشخص نہیں ہے اور صرف معروف و مشہور کمیل بن زیاد کا مقبرہ موجود ہے۔
تہران کے خلاف پابندیاں منسوخ کی جائیں : خطیب جمعہ تہران
تہران کے خطیب جمعہ نے کہا ہے کہ تہران پابندیوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا اور مذاکرات میں پوری طاقت کے ساتھ موجود رہے گا-
تہران کے خطیب جمعہ حجۃ الاسلام والمسلیمن کاظم صدیقی نے ممکنہ سمجھوتے کے حصول کے لئے، مذاکرات کی معینہ مدت کے اختتامی دنوں میں گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایران کے ایٹمی مذاکرات جاری رہنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران پابندیوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا اور مذاکرات میں بھرپور شرکت کرے گا- حجۃ الاسلام والمسلمین صدیقی نے ایٹمی مذاکرات کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے حالیہ بیانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رہبر انقلاب کے بیانات نے حکام میں نیا ولولہ پیدا کیا ہے- تہران کے خطیب جمعہ نے کہا کہ ایرانی قوم ہرگز ذلت برداشت نہیں کرے گی اور نہ ہی وہ بعض ملکوں کی طرح استکباری طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرے گی- انہوں نے کہا کہ ایران پرامن ایٹمی ٹکنالوجی کے استعمال کے تعلق سے جتنا زیادہ مضبوط موقف کا حامل ہوگا، مذاکرات میں بھی اس کو اتنی ہی برتری حاصل رہے گی- اہنھوں نے کہا کہ ایرانی مذاکرات کاروں کو یہ جان لینا چاہئے کہ فریق مقابل کے تمام وعدے کھوکھلے ہیں کیوں کہ دشمن کے وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا- تہران کے خطیب جمعہ نے کہا کہ علمی تحقیق اور ترقی و پیشرفت، ایٹمی مذاکرات کی ریڈ لائنز میں شامل ہے اور ایران کے خلاف عائد تمام پابندیاں سمجھوتے پر دستخط کے وقت ہی منسوخ کی جائیں اور انہیں التوا میں نہ ڈالا جائے- حجۃ الاسلام والمسلمین کاظم صدیقی نے سمجھوتے میں کئے گئے وعدوں پر عملدر آمد کو آئی اے ای اے کے دستخط سے مشروط قرار دینے کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ آئی اے ای اے بڑی طاقتوں کی آلہ کار نیز اس کے اختیار میں ہے- تہران کے خطیب نماز جمعہ نے ماہ رمضان کی مناسبت سے کہا کہ یہ مہینہ خدا کی مہمانی کا مہینہ ہے جسے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیوں کہ یہ مہینہ انسان کو کمال کی سمت لے جاتاہے اور خدا کا مقرب بندہ بناتا ہے-
سوره النصر
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ
(1) جب خدا کی مدد اور فتح کی منزل آجائے گی
﴿2﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا
(2) اور آپ دیکھیں گے کہ لوگ دین خدا میں فوج در فوج داخل ہورہے ہیں
﴿3﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
(3) تو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کریں اور اس سے استغفار کریں کہ وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے
شیعہ و سنی اسلام کے دو اہم ستون ہیں: شیخ الازھر
مصر کی الازہر یونیورسٹی کے سربراہ ’’ شیخ احمد الطیب ‘‘نے مسلمانوں کے اتحاد پر زور دیتےہوئے کہا ہےکہ شیعہ اورسنی دین مبین اسلام کے دواہم ستون ہیں ۔
انہوں نے مسلمانوں کو باہمی اتحاد کی تاکید کرتےہوئےکہاہےکہ دین مبین اسلام کے پیروکار شیعہ و سنی ایک کشتی پر سوار ہوکر اس الیٰ دین کو دوام بخش سکتے ہیں ۔
انہوں نے ذرائع ابلاغ کے ان پر وپگنڈوں جن میں وہ دین اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی خاطر امت مسلمہ کے مختلف فرقوں کے درمیاں تنازعات اور فسادات کو ہوا دیتے ہیں کی مذ مت کر تے ہوئے کہا ہے کہ دشمنان اسلام اپنی نا پاک سا زشوں کے ذریعےامت مسلمہ کو تقسیم کرنے اور انکے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کے درپے ہیں ۔
موصوف سربراہ نے زوردیکر کہاہےکہ عصرحاضر امت مسلمہ کے یکجا ہونے کا وقت ہے اور مسلمانوں کو دشمنوں کی سازشوں کو سمجھ کر فتنوں اور تنازعات سے باز رہنا چاہئے ۔
شیخ احمد الطیب نے مزید امت مسلمہ کے نوجوانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ ان اقدام سے گریز کریں جو امت مسلمہ کے تفرقہ، انتشار اور تقسیم کا باعث بنیں ۔
رہبر معظم کا رمضان المبارک کی مناسبت سے ملک اعلی حکام اور اہلکاروں سے خطاب
۲۰۱۵/۰۶/۲۳-رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رمضان المبارک کی مناسبت سے تینوں قوا کے سربراہان ، اعلی حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد اور معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے طریقوں، چيلنجوں اور مثبت نتائج کی تشریح کے ضمن میں ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں فیصلہ کن نکات بیان کئے اور ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ایران کی ریڈ لائنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایران کی ایٹمی صنعت کو نابود اور ویران کرنے کی تلاش و کوشش میں ہے جبکہ ایران کے تمام حکام ریڈ لائنوں اور ایران کے مفادات اور مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اچھے ،منصفانہ اور عزتمندانہ معاہدے کی تلاش میں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں رمضان المبارک کو ماہ تقوی قراردیا اورتقوی کی ذاتی اور سماجی دو قسموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ذاتی تقوی در حقیقت وہ دائمی حالت اور مراقبت ہے جو انسان کو معنوی مہلک اور خطرناک چوٹیں کھانے سے محفوظ رکھتی ہے البتہ دنیاوی امور میں بھی اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرتی تقوی کو عام سماجی اور اقتصادی مسائل میں جاری و ساری قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصادی مسائل میں معاشرتی تقوی درحقیقت وہی مزاحمتی اقتصاد ہے جو ملک کو عالمی حوادث اور زلزلوں کے مقابلے میں یا عالمی زہرآلودہ تیروں اور معاندانہ پالیسیوں کے مقابلے میں محفوظ بناتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی طاقتوں کے مقابلے میں ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے کے سلسلے میں گذشتہ سالوں میں اپنے مکرر انتباہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: حالیہ برسوں میں حکام نے اپنی توانائی اور طاقت کے مطابق اچھی کوششیں کی ہیں لیکن مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں ملک کی تمام توانائيوں اور ظرفیتوں سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض ممالک میں مزاحمتی اقتصاد کے نفاذ اور اس کے مثبت اثرات کی طرف اشارہ کیا اور مزاحمتی اقتصاد کو اندرونی پیداوار اور اندرونی توانائیوں پر استوار قراردیتے ہوئےفرمایا: اندرونی پیداوار کا مطلب تنہائی اور الگ تھلگ ہونا نہیں ہے بلکہ بیرونی نگاہ کے ساتھ اندرونی ظرفیتوں اور توانائیوں پر توجہ دینا اور اعتماد کرنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد کی کلی پالیسیوں کی تدوین کو طویل مشوروں اور خرد جمعی کی کوششوں کا نتیجہ قراردیتے ہوئےفرمایا: مزاحمتی اقتصاد کی کلی پالیسیوں کے ابلاغ کے بعد بہت سے اقتصادی ماہرین نے ان پالیسیوں کی تائید کی اور اب مزاحمتی اقتصاد ملک کی مروجہ اقتصادی ثقافت اور ادبیات کا حصہ بن گیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اقتصاد کے ماڈل کو تیسری دنیا پر بڑی طقاتوں کے قدیم اور مسلط کردہ ماڈل کے مد مقابل قراردیتے ہوئے فرمایا: قدیم ماڈل کی نگاہ ملک سے باہرمرکوزہے جبکہ مزاحمتی اقتصاد داخلی اور اندرونی ظرفیتوں پر مشتمل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے بعض افراد یہ کہیں کہ مزاحمتی اقتصاد کا ماڈل اچھا اور پسندیدہ ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے لیکن میں قطع و یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک کی تمام داخلی ظرفیتوں اور توانائیوں سے استفادہ کرکے مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس مقدمہ کے بعد ملک میں موجود بعض ظرفیتوں کو بیان کیا جو مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ ماہر اور خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار اور پڑھے لکھے افراد پہلی ظرفیت تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں ماہرین اور پڑھے لکھے افراد کی اتنی بڑی تعداد میں موجود افرادی قوت ،انقلاب اسلامی کے برکات میں شامل ہے بشرطیکہ غلط پالیسیاں معاشرے کے پیر ہونے اور جوانوں کی کمی کا موجب نہ بنیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے اوائل کی نسبت 25 گنا زیادہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل 10 ملین جوانوں اور یونیورسٹیوں میں مشغول 4 ملین سے زائد جوانوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ماہرین اور تحصیل کردہ جوانوں کی اتنی بڑی تعداد اسلامی نظام کے لئے فخر کا باعث ہے اور یہ ایک عظیم فرصت بھی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اقتصادی مقام کو دوسری اہم ظرفیت قراردیتے ہوئے فرمایا: عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے اقتصاد اور معیشت میں ایران کا بیسواں رتبہ ہے اور استفادہ نشدہ ظرفیتوں سے استفادہ کی صورت میں ایران دنیا کے اقتصاد کے بارہویں رتبے تک پہنچ سکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیس اور تیل کے ذخائر میں مجموعی طور پر ایران کے پہلے مقام کو مزید ایک اہم ظرفیت قراردیا اور شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ارتباط کو ملک کی ممتاز جغرافیائی پوزیشن قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران کے پڑوس میں 15 ممالک ہیں جن کی آبادی 370 ملین ہے اور ایران کے قریب میں یہ ایک اہم بیرونی بازار ہے اور اسی طرح خود ایران کی آبادی 70 ملین سے زائد ہے جو ایک بڑا داخلی اور اندرونی بازار ہے اور اگر اسی اندرونی بازار پر توجہ مبذول کی جائے تو پیداوار کی صورتحال دگرگوں ہوجائے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انرجی، روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ، ارتباطات ،بجلی گھروں ، ڈیموں کے سلسلے میں ملکی تعمیرات اور اسی طرح ملک میں مدیریتی تجربہ کو ایک اور ظرفیت شمار کرتے ہوئےفرمایا: ہمیں ان ظرفیتوں سے مناسب اور درست استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ ملک کی مشکل اچھے منصوبوں اور اچھی اور ماہرانہ باتوں میں کمی نہیں ہے بلکہ اصلی مسئلہ اور اصلی مشکل ان منصوبوں اوران اچھی باتوں سے درست استفادہ نہ کرنے کا مسئلہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض مشکلات کو ملک کے اندرونی چیلنجوں کی وجہ سے قراردیا اور بعض چیلنجوں کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: عمل میں غفلت،سادگی اور مسائل پر سطحی نظر رکھنے جیسے امور ملک کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئےفرمایا: لفظی بحثوں اور روشنفکری سے کام آگے نہیں بڑھےگا بلکہ مسائل اور بلند مدت امور کے حل کے لئے اقدام ، عمل اور جدوجہد ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض بڑے امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے طویل عرصہ اور ایک نسل کے برابر مدت گزرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دور میں جب ملک کی علمی تحریک اور یونیورسٹیوں کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی شاید کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ 10 یا 15 سال کے بعد ملک کی موجودہ علمی تحریک باصلاحیت اساتید اور جوانوں کی ہمت سے پیدا ہوجائے گی اور گذشتہ سالوں کی نسبت آج ملک کی علمی پیشرفت اور ترقی پر ہم حیران اور خیرہ کنندہ ہیں۔
موازی، آسان اور مہلک راستے ایک اور اندرونی چیلنج تھا جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض اوقات ضروری اشیاء کی فراہمی دو راستوں سے ممکن ہے ایک راستہ یورپ کا راستہ اور آسان راستہ ، جبکہ دوسرا راستہ غیر یورپی راستہ اور سخت راستہ، پہلا راستہ انسان کو مشکل میں مبتلا کردےگا اور دوست اس کو کمزور اور دشمن اس کو قوی بنا دیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: داخلی سطح پر ایک اور بڑا چیلنج جو درپیش ہے وہ عظیم اور اساسی اشتباہ ہے کہ کوئی یہ سوچ لے کہ اسلامی نظام اور عقائد پر مبنی اصولوں سے دور رہنے کی وجہ سے تمام راہیں کھل جائیں گی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت میں مشغول افراد خدمتگزار اور انقلاب اسلامی کے اصولوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور میرا ان سے کوئی گلہ اور شکوہ نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر بعض یہ تصور کرتے ہیں کہ دشمن کے سامنے سے پیچھے ہٹنے یا اسلامی اصولوں کو نظر انداز کرنے سے تمام دروازے کھل جائیں گے حالانکہ حالیہ برسوں میں بعض ممالک میں اس غلط فکر کے برے نتائج ہم مشاہدہ کرچکے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی اصولوں پر استقامت اور پائداری ، پیشرفت اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔
سوره الکافرون
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ
(1) آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو
﴿2﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ
(2) میں ان خداؤں کی عبادت نہیں کرسکتا جن کی تم پوجا کرتے ہو
﴿3﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ
(3) اور نہ تم میرے خدا کی عبادت کرنے والے ہو
﴿4﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ
(4) اور نہ میں تمہارے معبودوں کو پوجا کرنے ولا ہوں
﴿5﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ
(5) اور نہ تم میرے معبود کے عبادت گزار ہو
﴿6﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ
(6) تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے