
Super User
امام خمینی(رہ) تاریخ معاصر کے مرد مجاہد
امام خمینی(رہ) ایک ایسے عظیم انقلاب کے موجد و بانی تھے جس نے شہنشاہوں کے2500سالہ اقتدار کا یکسر خاتمہ کیا ۔ انہوں نے اپنی بے لوث و پرخلوص قیادت کے بل پر امریکہ ، روس اور دیگر عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرکے اسلامی معاشرے کو پاک و صاف کرانے کی جدوجہد آخری دم تک جاری رکھی ....دیکھتے ہی دیکھتے سرزمین ایران کے کلمہ گو نوجوان اور بزرگ مع خواتین جن کے سینوں میں جوش وخروش اور انقلابی لہر موجزن تھی ‘ عیش وآرام چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ۔ انہوں نے شاہی لوازمات ٹھکرائے ،امام خمینی(رہ) کے فرمان کو دلوں سے لگائے ،سلطنتی نظام کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کا نعرہ بلند کیا ۔ الغرض پرخلوص اور دیانتدارانہ قیادت کے زیر اثرخوابیدہ قوم کواسلامی انقلاب کے طلوع کی خوش خبری سننے کو ملی ۔
امام خمینی (رہ) کو ابتداء ہی سے اس بات کا احساس تھا کہ دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے دو عظیم طاقتوں کے سیاسی ونظریاتی حملوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی مقاصد کے دفاع وتحفظ کے لئے ایرانی جیالوں کو صف اوّل میں کھڑا ہونا ہے ۔ دنیا والوں پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ امام کی بے لوث اور بروقت رہنمائی میں امت نے تمام رکیک حملوں کا مقابلہ کیا ۔
۔ امام خمینی(رہ) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا تھا :
” یہ اسلامی تحریک کسی شخص پر قائم نہیں ہے ۔ میں آپ کے درمیان رہوں یا نہ رہوں مگر یاد رکھو کہ اتحاد ویگانگت کی ڈگر سے وابستہ تحریکی سفر جاری رکھ کے ہی آپ کو منزل ملے گی “۔
.اس وقت اسلامی دنیا امام خمینی(رہ) کے بوئے ہوئے تحریکی پودے کو تناوردرخت کی صورت میں دیکھ رہی ہے ۔ بلاشبہ امام خمینی (رہ)کا انقلابی مشن اور ان کا لازوال پیغام آبندہ نسلوں کے لئے بھی مفید اور تعمیری ثابت ہوگا کیونکہ امام انقلاب(رہ) نے آ ج کے انسان کو یہ سبق دیا ہے کہ سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی قوتوں کے سامنے جھکنا ذلت ورسوائی کے مترادف ہوگا ۔
ان کی وصیت میں سے ایک جھلک پیش خدمت ہے :
” اسلامی ممالک کے غیور عوام سے میری وصیت ہے کہ آپ اس انتظار میں نہ رہیں کہ کوئی باہر سے آ کر اسلامی احکامات کے مفاد کے سلسلے میں آپ کے مقاصد میں کسی طرح کی مدد کرے ۔ آپ خود اس حیات بخش عمل کے لئے جو آزادی کو اپنے ہمراہ لاتا ہے اقدام کیجئے‘ اسلامی ممالک کے علماءاعلام اور خطبائے کرام کا فریضہ ہے کہ وہ حکومتوں کی بڑی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہونے اور اپنی قوم سے مفاہمت کرنے کی دعوت دیں“۔
امام خمینی(رہ) نے زمانے کو بتا دیا کہ کس طرح سے خدائے برتر وبزرگ پر بھروسہ کرکے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے یہ بات ذہن نشین کرائی کہ جب بھی علم ودولت کا مقابلہ ہوگا ہمیشہ دولت کو احساس کمتری میں مبتلا ہونا پڑے گا اور علم کا ہرحالت میں بول بالا ہوگا۔ مرحوم کی ساری زندگی مجاہدہ حق میں گزری ۔ نیز انہوں نے اپنے زمانے میں دنیا کو سلیقہ جہاد سکھایا ۔ ان کی بابرکت شخصیت میں ایسی جاذبیت اور کشش تھی جس کی تابناکی کو ہزار پروپیگنڈے ماند نہ کرسکے ۔ ان کی خداداد مقبولیت کو ختم کرنے کے لئے مغربی طاقتوں نے امریکہ کی سرکردگی میں ایڑی چوٹی کا زورلگایا لیکن کامیابی نہیں ملی ۔
اس عظیم المرتبت ہستی نے بیسوی صدی میں وہ کام کر دکھایاا جس کی مثال تاریخ عالم میں ملنا مشکل ہے ۔
ایران کے جابر شاہ کا تختہ پلٹ دینا ان کا اتنا بڑا کارنامہ نہیں ہے جتنا ان کا دنیا کو یہ دکھا دینا کہ اسلام ایک جیتا جاگتا دین ہے جس کے ارفع وزریں اصولوں کو اپنانے سے ہر زمانے میں تمام انسانی مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
اسلام ہی وہ دین ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور پیغمبر آخرزماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہمیں ملا ہے ۔ آج دنیا میں اہل دنیا مغربی اور مشرقی شکل میں منظم ہونے والے الحاد سے درد ورنج میں مبتلا ہے ۔ لہٰذا جب تک اس دنیا پر ظلم وستم ،جارحیت اور سامراج کی حکمرانی ہے ‘ امام خمینی (رہ) کے زریں افکار زندہ وپائندہ رہیں گے۔
امام خمینی(رہ) فقط ایک قوم کے قائد ورہبر نہ تھے بلکہ ایک ایسی امت کے امام تھے جس نے ساری دنیا میں دین اسلام کی سربلندی کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔انہوں نے اپنی پوری زندگی خدا کی راہ میں صرف کردی ۔ وہ ایک عادل ،شجاع اور دانشمند تھے جو خدائے تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور امت اسلامیہ کو اپنا مخاطب خیال کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی پرخلوص قیادت سے امت اسلامیہ کی زندگی کو معنوی جلا بخشی !
آیت اللہ امام خمینی(رہ) نے برملا ارشاد فرمایا:
” مسلمانوں کے مسائل بہت ہیں لیکن مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور خود دوسروں کے جھنڈوں کے نیچے جمع ہو گئے ہیں ۔ حالانکہ قرآن فرماتا ہے:تم سب اللہ کے دین پر مضبوطی سے اکھٹے ہو جاﺅ اور فرقوں میں مت بٹ جاﺅ۔ اگر مسلمانان عالم اس ایک آیت پر عمل کرتے تو ان کی تمام اجتماعی ،سیاسی ،اقتصادی غرضیکہ تمام درپیش مشکلات بغیر کسی کے دامن کوتھامے حل ہوجائیں “۔
مسلمانوں کی صفوں میں بلاتمیز مسلک وگروہ اتحاد ویکجہتی کو فروغ دینے کی غرض سے بار بار فرماتے تھے :
” شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے والے مسلمان نہیں بلکہ اسلام دشمن قوتوں کے ایجنٹ ہیں جو ہم سے اسلامی قدریں چھیننا چاہتے ہیں ۔ یادرکھئے دین اسلام ہم کو اتحاد وحدت کا حکم دیتا ہے ۔ سنی ہو یا شیعہ ہوں یا کسی او رفرقہ کے پیروکار....آئیے ہم سب کلمہ گو ہر اختلاف سے کنارہ کشی اپنائے آپس میں مل کر صلح وصفائی کی زندگی بسرکریں اور اللہ کی قدرت پر بھروسہ کرکے اسلام کی قدروں کا دفاع کریں۔ اس صورت میں اللہ ہمارا مدد گار ہوگا اور کوئی قوت ہم پر غالب نہ آئے گی ۔
امام خمینی(رہ) کے چھبیسویں یوم وصال پر آئیں ہم سب مسلمان بلاتفریق مسلک ونظریہ ہر قدم پر اتفاق واخوت کا مظاہرہ کریں اور اسلام دشمن طاقتوں کی فریب کاریوں کا موثر انداز میں جواب دینے کے لئے ایک مشترکہ قیادت کی داغ بیل ڈال دیں۔ فلسطین ،عراق، شام، یمن، افغانستان، پاکستان اور کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں کو در پیش مشکلات کا حل فقط اتحاد ویکجہتی میں ہے ۔ امام خمینی (رہ) نے بھی اپنے ارشادات میں زیادہ تر اسی اتحاد پر زور دیا ہے ۔ گروہ بندی یا فرقہ بندی سے قطع نظر انہوں نے آپسی رواداری واخوت کو فروغ دینے کی تلقین آخری دم تک کی۔غرض آیت اللہ (رہ) باہمی اتحاد درس زندگی بھر دیتے رہے
سوره التكاثر
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ
(1) تمہیں باہمی مقابلہ کثرت مال و اولاد نے غافل بنادیا
﴿2﴾ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ
(2) یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی
﴿3﴾ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ
(3) دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا
﴿4﴾ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ
(4) اور پھر خوب معلوم ہوجائے گا
﴿5﴾ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ
(5) دیکھو اگر تمہیں یقینی علم ہوجاتا
﴿6﴾ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ
(6) کہ تم جہنمّ کو ضرور دیکھو گے
﴿7﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ
(7) پھر اسے اپنی آنکھوں دیکھے یقین کی طرح دیکھو گے
﴿8﴾ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ
(8) اور پھر تم سے اس دن نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا
سوره القارعة
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ الْقَارِعَةُ
(1) کھڑکھڑانے والی
﴿2﴾ مَا الْقَارِعَةُ
(2) اور کیسی کھڑکھڑانے والی
﴿3﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ
(3) اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ کیسی کھڑکھڑانے والی ہے
﴿4﴾ يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ
(4) جس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی مانند ہوجائیں گے
﴿5﴾ وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ
(5) اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح اُڑنے لگیں گے
﴿6﴾ فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ
(6) تو اس دن جس کی نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا
﴿7﴾ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ
(7) وہ پسندیدہ عیش میں ہوگا
﴿8﴾ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ
(8) اور جس کا پلہّ ہلکا ہوگا
﴿9﴾ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ
(9) اس کا مرکز ہاویہ ہے
﴿10﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ
(10) اور تم کیا جانو کہ ہاویہ کیا مصیبت ہے
﴿11﴾ نَارٌ حَامِيَةٌ
(11) یہ ایک دہکی ہوئی آگ ہ
آزاد سمندروں میں پوری قوت سے موجود رہیں گے
ایران کی بحریہ، ماضی سے کہیں زیادہ قوت و اقتدار کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمیرل حبیب اللہ سیاری نے اتوار کے روز ہمارے نامہ نگار سے گفتگو میں کہا کہ ایران کی بحریہ، ماضی سے کہیں زیادہ قوت و اقتدار کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی بحریہ، آزاد سمندروں میں بھرپور طریقے سے موجود ہے اور سات سال قبل سمندری قزاقوں اور دہشت گردوں کے مقابلے اور ایران کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے مقصد سے، بحری جہازوں کی آمد و رفت کے راستوں کی حفاظت کا اقدام کیا گیا اور اس وقت سے اب تک بحریہ کا یہ مشن جاری ہے۔ ایڈمیرل حبیب اللہ سیاری نے کہا کہ ایرانی بحریہ نے اس عرصے میں باب المندب، خلیج عدن، اور بحیرہ احمر کے حساس علاقوں میں چھّبیس سو بحری جہازوں کی حفاظت کی ہے اور سمندری قزاقوں کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا ہے۔ ایڈمیرل سیّاری نے کہا کہ بحریہ کی توانائی میں اضافہ، ہمارے منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی بحریہ ماضی سے کہیں زیادہ توانائی کے ساتھ آزاد سمندروں میں موجود رہے گی اور ایران کی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کے لئے ایک لمحہ بھی دریغ نہیں کرے گی۔
مرکز اسلامی امریکہ - میشیگان کے بڑے شہر ڈیٹرویٹ
مرکز اسلامی امریکہ، ایک مسجد ہے ، جو ریاست میشیگان کے بڑے شہر ڈیٹرویٹ کے شہر ڈیٹر بورن میں واقع ہے۔ یہ مسجد سنہ 2005ء میں افتتاح ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد شمالی امریکہ میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ مسجد شہر ڈیربورن کے مسلمانوں کی ہے۔
مرکز اسلامی امریکہ سنہ 1963ء میں مرحوم محمد جواد شیری کے توسط سے تاسیس ہوا ہے اور سنہ 1994ء میں ان کی وفات تک وہ خود اس مرکز کے رئیس تھے۔
اس مسجد کی انتظامیہ کے اراکین کے کہنے کے مطابق یہ مسجد شمالی امریکہ کی سب سے بڑی دینی عمارت شمار ہوتی ہے۔
مسجد، مرکز اسلامی امریکہ کا گنبد 45میٹر بلند ہے اور اس کے دو میناروں میں سے ہر ایک کی لمبائی 30 میٹر ہے۔
مسجد مرکز اسلامی امریکہ تین ہزار افراد کی ظرفیت کا ایک اسلامی ثقافتی مجتمع ہے اس کی مساحت 11148 مربع میٹر ہے۔ یہ مرکز ایک کتاب خانہ، ایک میٹنگ ہال، کانفرنس ہال اور مہد اطفال پر مشتمل ہے۔
اس مرکز اسلامی کی تعمیرکا کام،من جملہ ان کئی منصوبوں میں سے ایک تھا، جو امریکہ کی ریاست میشیگان میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر تاسیس کئے جارہے ہیں۔
اس مسجد کی معماری، شمالی امریکہ کی سب سے بڑی مسجد کے عنوان سے انتہائی خوبصورت اور جذّاب ہے۔ مرکز اسلامی امریکہ، شہر ڈیر بورن کی اثر گزار ترین عمارتوں میں شمار ہوتا ہے۔
رہبر معظم کا امام خمینی (رہ) کے حرم میں ان کی 26 ویں برسی کے موقع پر عظیم الشان اجتماع سے خطاب
۲۰۱۵/۰۶/۰۴ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر میں ایران کے وفادار عوام کے ایک عظیم اور بےمثال اجتماع سے خطاب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کو ایرانی قوم کے لئے پرامید نقشہ راہ قراردیا اور حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس عظیم انسان کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا مقابلہ صرف ان کے مستند اصول کا مطالعہ کرنے کے ذریعہ ممکن ہے، حضرت امام خمینی(رہ) کے اصولوں میں ، خالص اسلام محمدی کا اثبات، امریکی اسلام کی نفی، اللہ تعالی کے وعدے پر اعتقاد ، مستکبرین پر عدم اعتماد ، عوامی طاقت و عزم پر اعتماد ، حکومتی تمرکز کی مخالفت ، محرومین کی سنجیدہ حمایت ، اشرافیت کی مخالفت ، دنیا کے مظلومین کی حمایت ،بین الاقوامی منہ زور طاقتوں کی آشکارا مخالفت، استقلال کی حمایت ، تسلط قبول کرنے کی مخالفت اور قومی اتحاد پر تاکید جیسے اصول شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی 26 ویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب کے آغاز میں پندرہ شعبان حضرت ولی عصر (عج) کی ولادت باسعادت اور منجی آخرالزمان کے موضوع پر تمام ابراہیمی ادیان کے اتفاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تمام اسلامی مذاہب اس منجی کو پیغمبر اسلام (ص) کی اولاد اور مہدی (عج) کے نام سے پہچانتے ہیں، شیعہ مذہب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس عظیم ہستی کو مشخص اور معین طور پر معرفی کرتے ہیں اور امام مہدی (عج) کو گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری (ع) کا فرزند مانتےاور اسےمختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امید آفرینی کو مہدی موعود (عج) کے ظہور پر اعتقاد کو سب سے بڑی خاصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس گہرے اور نجات بخش اعتقاد کی یہ شمع فروزاں شیعوں کو ظلم و تاریکی کے تمام ادوار میں مستقبل کے بارے میں پرامید اور پر تحرک بناتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد اپنے آج کے خطاب کے اہم موضوع یعنی امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: بعض افراد حضرت امام (رہ) کو اپنے دور میں محصور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حضرت امام (رہ) ایرانی قوم کی عظیم اور تاریخ ساز حرکت کے مظہر ہیں اور قدرتی طور پر ان کی شخصیت کے بارے میں تحریف سے اس عظیم حرکت کو بیشمار حظرات پہنچنے کا خدشہ ہے لہذا اس سلسلے میں مکمل طور پر ہوشیار رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے سیاسی، فکری اور سماجی مکتب کو پیشرفت، اقتدار اور عدالت جیسے اعلی اہداف کے حصول کے لئے ایرانی قوم کا روڈ میپ قراردیتے ہوئے فرمایا: بیشک حضرت امام (رہ) کی صحیح اور درست شناخت کے بغیر یہ نقشہ راہ متوقف ہوجائے گا اور آگے کی سمت نہیں بڑھ پائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے ممتاز عرفانی، فلسفی اور فقہی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا اور انھیں آیات قرآنی کے مضمون کا عملی مظہر قراردیا جو اللہ تعالی کی راہ کے حقیقی مجاہدوں کی تعریف میں ہیں جنھوں نے اللہ تعالی کی راہ میں حقیقی معنی میں حق جہاد ادا کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم کے عظيم الشان امام (رہ) نے عالم اسلام اور ایرانی تاریخ میں بے مثال انقلاب برپا کیا، شہنشاہیت کے غلط اور بوسیدہ نظام کوسرنگوں کرکے صدر اسلام کے بعد اسلامی احکام پر مشتمل پہلی اسلامی حکومت تشکیل دی اور اس طرح اپنے تمام وجود کے ساتھ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کا حق ادا کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی اور معنوی جہاد کو حضرت امام (رہ) کے سیاسی ، فکری اور سماجی جہاد کی تکمیل قراردیا اور حضرت امام (رہ) کے مکتب کے پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: وہ فکری منظومہ جس نے اس عظیم انقلاب کو برپا کیا وہ توحیدی جہان بینی پر استوار تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فکری بالیدگی کو حضرت امام خمینی (رہ) کی دوسری خصوصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) اپنے منسجم منظومہ فکری تکیہ کرکے ایرانی معاشرے اور عالمی معاشرے کے لئے راہ حل پیش کرتے تھے اور قومیں ان کے راہ حل کی قدر و قیمت کا احساس کرتی تھیں اور مکتب امام (رہ) کو قوموں کے درمیان فروغ ملنے کی ایک وجہ یہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمکتب امام خمینی (رہ) کی دیگرخصوصیات میں تحرک ، فکری بالیدگی اور زندہ دلی کو شمار کرتے ہوئے فرمایا: امام (رہ) دنیا کے دوسرے نظریہ پردازوں اور مفکرین کی طرح نہیں تھے کہ جو عام محفلوں میں اچھے بیانات جاری کرتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں بے بس ہوجاتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم میں امید ، نشاط ، جذبہ کی موجودگی اور حرکت کو مکتب امام (رہ) اور امام کی پیروی کے مبارک نتاچ میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کا ابھی اپنے اہداف تک پہنچنے میں کافی فاصلہ ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایرانی قوم عزم و ہمت و امید اور حوصلہ کے ساتھ اس تابناک راستے پر گامزن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس شرق آفریں راستے پر درست حرکت کو حضرت امام خمینی (رہ) اور ان کے اصولوں کی صحیح شناخت سے وابستہ قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف ، در حقیقت امام (رہ) کے راستے کی تحریف اور ایرانی قوم کو صراط مستقیم سے منحرف کرنے کی ایک کوشش ہے اور اگر راہ امام (رہ) گم ہوگیا یا اسے فراموش کردیا گیا یا خدانخواستہ اسے جان بوجھ کر الگ کردیا گیا تو اس صورت میں ایرانی قوم کو زوردار طمانچے کا ساما کرنا پڑےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقہ کے ایک بڑے ملک کے عنوان سے ایران کے بارے میں عالمی منہ زور اور تسلط پسند طاقتوں کی طمع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عالمی منہ زور طاقتیں اس وقت اس طمع سے دست بردار ہوجائیں گی جب وہ ایران کی ترقی، پیشرفت اور طاقت کو دیکھ کر مایوس ہوں گی۔
رہبر معظم انقلاب نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے اصول کے دائرے میں رہ کر حرکت کو ایرانی قوم کی طاقت ، قدرت اور پیشرفت کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: ان مسائل کو مد نظر رکھنے کے بعد حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے خطرے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اس خطرے کے بارے میں حوزات علمیہ، یونیورسٹیوں ، مفکرین ، انقلاب اسلامی اور حضرت امام (رہ) سے محبت اور ہمدردی رکھنے والے افراد ، ممتاز شخصیات ،جوانوں ، حضرت امام (رہ) کے قدیمی شاگردوں اور حکام کو سنجیدہ خطرے کے عنوان سے خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے موضوع کو انقلاب اسلامی کے آغاز سے لیکر ایک طولانی موضوع قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی زندگی میں اور انقلاب کے آغاز سے دشمن کی یہ تلاش و کوشش تھی کہ وہ حضرت امام (رہ) کو ایک خشک و خشن ، غیر لچکدار شخصیت اور غیر عاطفی شخصیت کے عنوان سے معرفی کرے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) مستکبر طاقتوں کے مقابلے میں ٹھوس اور غیر متزلزل شخصیت کے حامل تھے اور اس کے ساتھ ہی وہ اللہ تعالی کے سامنے خاضع و خاشع اور خلق خدا بالخصوص مستضعف طبقات کے ساتھ مہر و محبت اور الفت کے ساتھ پیش آتے تھے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی حیات میں بعض افراد کو جو بات اپنی نظر میں پسند آتی تھی اس کی نسبت حضرت امام (رہ) کی طرف دیتے تھے حالانکہ اس کا ان کی شخصیت کے ساتھ کوئی ربط نہیں تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد اس گروپ کی تلاش جاری رہی ، یہاں تک کہ بعض افراد حضرت امام خمینی (رہ) کو ایک لیبرل شخص معرفی کرتے تھے جو سیاسی، فکری اور ثقافتی رفتار میں کسی قید و شرط کا قائل نہیں تھے حالانکہ یہ ںظریہ بالکل غلط اور خلاف واقع ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام (رہ) کی شخصیت کی صحیح اور دقیق شناخت کی راہ کو ان کے فکری مکتب اور اصولوں کے صحیح مطالعہ پر مبنی قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر حضرت امام (رہ) کی پہچان اس روش کی بنیاد پر نہ ہو تومکن ہے بعض افراد اپنے فکری نظریہ کے مطابق حضرت امام (رہ) کی معرفی شروع کردیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کے دلوں میں حضرت امام خمینی (رہ) کی محبت کو یادگار اور اس محبت کو محو کرنے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں کو ناکام قراردیتے ہوئےفرمایا: حضرت امام (رہ) کی شخصیت کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست ہیں اسی بنیاد پر حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا معاملہ بڑا خطرناک معاملہ ہے اور امام خمینی (رہ) کے اصولوں کی شناخت اور ان کی زندگی کے مطالعہ سے اس خطرے کو دور کیا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے فکری نظریات اور اصولوں کو اسلامی تحریک کے 15 سال کے عرصہ اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد 10 سال کے عرصہ میں ان کے گوناگوں بیانات کے ذریعہ حاصل کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ان اصولوں کو ایکدوسرے کے ساتھ ملا کررکھا جائے تو حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کی حقیقی تصویر سامنے آجائے گی۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے سات نظریات اور اصولوں کی تشریح سے قبل حضرت امام (رہ) کے اصول کے سلسلے میں چند نکات پیش کئے: 1- یہ اصول مکرر اور بار بار حضرت امام (رہ) کے بیانات میں بیان اور امام (رہ) کے بیّنات کا حصہ ہوں، 2- ان اصول کا خاص انتخاب اور بیان نہیں ہونا چاہیے، 3- امام کے اصول ان سات موارد میں منحصر نہیں ہیں بلکہ صاحب نظر افراد طے شدہ دائرے کے مطابق، امام (رہ) کے فکری مکتب سے دوسرے اصول بھی نکال سکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد حضرت امام (رہ) کے فکری مکتب کے سات اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خالص محمدی (ص) اسلام کا اثبات اور امریکی اسلام کی نفی ، ان میں سے ایک اصول ہے اور حضرت امام (رہ) ہمیشہ خالص اسلام کو امریکی اسلام کے مقابلے میں قراردیتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی اسلام کی دو شاخوں یعنی سیکولر اسلام اور متحجر اسلام کی حقیقت اور ماہیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) دین سے انسانوں کی اجتماعی رفتار اور معاشرے کی جدائی کے قائل افراد کو ہمیشہ ان افراد کے ساتھ قراردیتے تھے جونئی سوچ کے افراد کے لئے دین پر پسماندہ اور متحجرانہ اور ناقابل فہم نگاہ رکھتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی اسلام کی دونوں شاخوں کے سلسلے میں ہمیشہ امریکہ اور عالمی منہ زور طاقتوں کی بھر پور حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج بھی اسلامی شریعت اور اسلامی فقہ سے بیگانہ اور منحرف داعش اور القاعدہ جیسے بظاہر اسلامی گروہوں کو امریکہ اور اسرائیل کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی نظر میں خالص اسلام ، کتاب اور سنت پر مشتمل ہے جو زمان و مکان کے شرائط اور روشن و متناسب نظریات کے ذریعہ ، اسلامی و انسانی معاشرے کی بالفعل ضرورتوں کی شناخت ، قابل قبول علمی طریقوں سے استفادہ کے ساتھ ، دشمن کے طریقوں کو مد نظر رکھنے سے اور حوزات علمیہ میں تکمیل شدہ طریقوں سے حاصل ہوتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) کے فکری مکتب میں درباری ملاؤں کا اسلام اور داعشی اسلام ایک طرف اور امریکہ و اسرائیل کے بھیانک جرائم کے مقابلے میں غیر متوجہ اور بڑی طاقتوں کی طرف دیکھنے والے افراد کا اسلام دوسری طرف ؛ لیکن یہ دونوں اسلام ایک نقطہ پر پہنچتے ہیں اور یہ دونوں مردود ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو شخص خود کو حضرت امام (رہ) کا پیروہ کار سمجھتا ہے اسے سیکولر اسلام اور متحجر اسلام کے ساتھ اپنی سرحد کو پہچاننا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی مدد پر تکیہ، اللہ تعالی کے سچے وعدے پر اعتماد اور اس کے ساتھ عالمی منہ زور اور مستکبرطاقتوں پر عدم اعتماد کو حضرت امام خمینی (رہ) کے فکری اصول کی دوسری اصل قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) ہمیشہ اللہ تعالی کے سچے وعدے پر اعتقاد اور یقین رکھتے تھے اور اس کے مقابلے میں عالمی منہ زور اور سامراجی طاقتوں کے وعدوں پر بالکل اعتماد نہیں رکھتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی یہ بارز خصوصیت اس بات کا موجب بن گئی تھی کہ وہ اپنا مؤقف کسی لحاظ اور ملاحظہ کے بغیر واضح اور ٹھوس انداز میں پیش کرتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے بعض مستکبر حکمرانوں کے خطوں کے جوابات کو ادب و احترام کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ٹھوس اور واضح جوابات دینےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) نے اعتماد اور توکل کو ایرانی قوم کی رگوں میں خون کی طرح جاری کردیا ہے کہ یہ قوم بھی اللہ تعالی کی مدد و نصرت پر اعتقاد اور اس پر توکل کی خوگر بن گئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستکبرین اور ان کے وعدوں پر حضرت امام (رہ) کے مکمل عدم اعتماد اور عدم توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے اس موضوع کو مکمل طور پر محسوس اور مشاہدہ کیا ہے کہ کیوں مستکبرین کے وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ وہ خصوصی جلسات میں ایک بات کرتے ہیں اور عمومی سطح پر اس کے خلاف عمل کرتے ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی ذات پر اعتماد اور مستکبرین پر عدم اعتماد کو حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول کا اہم حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ اس موضوع کا مطلب دنیا سے رابطہ ختم کرنا نہیں تھا کیونکہ محترمانہ اور معمول کی حد تک رابطہ موجود تھا لیکن مستکبروں اور ان کے حامیوں پر کسی قسم کا اعتماد نہیں تھا۔
عوامی طاقت اور عزم پر اعتقاد اور حکومتی تمرکز کی مخالفت امام خمینی (رہ) کے فکری اصول کی تیسری قسم تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف اقتصادی، فوجی، تعمیراتی ، تبلیغاتی اور سب سے بڑھ کر انتخابات کے مسائل میں ہمیشہ عوامی رائے اور طاقت پر حقیقی اعتقاد اور ان کے عوام پر متکی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے بعد حضرت امام (رہ) کی زندگی کے 10 سال میں 10 انتخابات منعقد ہوئے جبکہ ان 10 سالوں میں آٹھ سال دفاع مقدس سے متعلق ہیں، حتی حضرت امام (رہ) نے ایک دن بھی انتخابات کو مؤخر کرنے کی اجازت نہیں دی ، انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوئے کیونکہ امام (رہ) حقیقی معنی میں عوام کی رائے ، ان کی تشخيص اور ان کی فکر کے احترام کے قائل تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حتی بعض موارد میں ممکن تھا کہ عوام کا انتخاب و تشخیص ، امام (رہ) کی نظر کے ساتھ یکساں نہ ہو لیکن امام (رہ) عوام کی رائے کے احترام کے قائل تھے۔
سوره العاديات
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا
(1) فراٹے بھرتے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کی قسم
﴿2﴾ فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا
(2) جوٹا پ مار کر چنگاریاں اُڑانے والے ہیں
﴿3﴾ فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا
(3) پھر صبحدم حملہ کرنے والے ہیں
﴿4﴾ فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا
(4) پھر غبار جنگ اڑانے والے نہیں
﴿5﴾ فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا
(5) اور دشمن کی جمعیت میں در آنے والے ہیں
﴿6﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ
(6) بے شک انسان اپنے پروردگار کے لئے بڑا ناشکرا ہے
﴿7﴾ وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ
(7) اور وہ خود بھی اس بات کا گواہ ہے
﴿8﴾ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ
(8) اور وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے
﴿9﴾ أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ
(9) کیا اسے نہیں معلوم ہے کہ جب مفِدوں کو قبروں سے نکالا جائے گا
﴿10﴾ وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ
(10) اور دل کے رازوں کو ظاہر کردیا جائے گا
﴿11﴾ إِنَّ رَبَّهُم بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّخَبِيرٌ
(11) تو ان کا پروردگار اس دن کے حالات سے خوب باخبر ہوگ
رہبر معظم کا امام خمینی (رہ) کے حرم میں ان کی 26 ویں برسی کے موقع پر عظیم الشان اجتماع سے خطاب
۲۰۱۵/۰۶/۰۴ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر میں ایران کے وفادار عوام کے ایک عظیم اور بےمثال اجتماع سے خطاب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کو ایرانی قوم کے لئے پرامید نقشہ راہ قراردیا اور حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس عظیم انسان کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا مقابلہ صرف ان کے مستند اصول کا مطالعہ کرنے کے ذریعہ ممکن ہے، حضرت امام خمینی(رہ) کے اصولوں میں ، خالص اسلام محمدی کا اثبات، امریکی اسلام کی نفی، اللہ تعالی کے وعدے پر اعتقاد ، مستکبرین پر عدم اعتماد ، عوامی طاقت و عزم پر اعتماد ، حکومتی تمرکز کی مخالفت ، محرومین کی سنجیدہ حمایت ، اشرافیت کی مخالفت ، دنیا کے مظلومین کی حمایت ،بین الاقوامی منہ زور طاقتوں کی آشکارا مخالفت، استقلال کی حمایت ، تسلط قبول کرنے کی مخالفت اور قومی اتحاد پر تاکید جیسے اصول شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی 26 ویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب کے آغاز میں پندرہ شعبان حضرت ولی عصر (عج) کی ولادت باسعادت اور منجی آخرالزمان کے موضوع پر تمام ابراہیمی ادیان کے اتفاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تمام اسلامی مذاہب اس منجی کو پیغمبر اسلام (ص) کی اولاد اور مہدی (عج) کے نام سے پہچانتے ہیں، شیعہ مذہب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس عظیم ہستی کو مشخص اور معین طور پر معرفی کرتے ہیں اور امام مہدی (عج) کو گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری (ع) کا فرزند مانتےاور اسےمختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امید آفرینی کو مہدی موعود (عج) کے ظہور پر اعتقاد کو سب سے بڑی خاصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس گہرے اور نجات بخش اعتقاد کی یہ شمع فروزاں شیعوں کو ظلم و تاریکی کے تمام ادوار میں مستقبل کے بارے میں پرامید اور پر تحرک بناتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد اپنے آج کے خطاب کے اہم موضوع یعنی امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: بعض افراد حضرت امام (رہ) کو اپنے دور میں محصور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حضرت امام (رہ) ایرانی قوم کی عظیم اور تاریخ ساز حرکت کے مظہر ہیں اور قدرتی طور پر ان کی شخصیت کے بارے میں تحریف سے اس عظیم حرکت کو بیشمار حظرات پہنچنے کا خدشہ ہے لہذا اس سلسلے میں مکمل طور پر ہوشیار رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے سیاسی، فکری اور سماجی مکتب کو پیشرفت، اقتدار اور عدالت جیسے اعلی اہداف کے حصول کے لئے ایرانی قوم کا روڈ میپ قراردیتے ہوئے فرمایا: بیشک حضرت امام (رہ) کی صحیح اور درست شناخت کے بغیر یہ نقشہ راہ متوقف ہوجائے گا اور آگے کی سمت نہیں بڑھ پائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے ممتاز عرفانی، فلسفی اور فقہی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا اور انھیں آیات قرآنی کے مضمون کا عملی مظہر قراردیا جو اللہ تعالی کی راہ کے حقیقی مجاہدوں کی تعریف میں ہیں جنھوں نے اللہ تعالی کی راہ میں حقیقی معنی میں حق جہاد ادا کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم کے عظيم الشان امام (رہ) نے عالم اسلام اور ایرانی تاریخ میں بے مثال انقلاب برپا کیا، شہنشاہیت کے غلط اور بوسیدہ نظام کوسرنگوں کرکے صدر اسلام کے بعد اسلامی احکام پر مشتمل پہلی اسلامی حکومت تشکیل دی اور اس طرح اپنے تمام وجود کے ساتھ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کا حق ادا کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی اور معنوی جہاد کو حضرت امام (رہ) کے سیاسی ، فکری اور سماجی جہاد کی تکمیل قراردیا اور حضرت امام (رہ) کے مکتب کے پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: وہ فکری منظومہ جس نے اس عظیم انقلاب کو برپا کیا وہ توحیدی جہان بینی پر استوار تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فکری بالیدگی کو حضرت امام خمینی (رہ) کی دوسری خصوصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) اپنے منسجم منظومہ فکری تکیہ کرکے ایرانی معاشرے اور عالمی معاشرے کے لئے راہ حل پیش کرتے تھے اور قومیں ان کے راہ حل کی قدر و قیمت کا احساس کرتی تھیں اور مکتب امام (رہ) کو قوموں کے درمیان فروغ ملنے کی ایک وجہ یہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمکتب امام خمینی (رہ) کی دیگرخصوصیات میں تحرک ، فکری بالیدگی اور زندہ دلی کو شمار کرتے ہوئے فرمایا: امام (رہ) دنیا کے دوسرے نظریہ پردازوں اور مفکرین کی طرح نہیں تھے کہ جو عام محفلوں میں اچھے بیانات جاری کرتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں بے بس ہوجاتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم میں امید ، نشاط ، جذبہ کی موجودگی اور حرکت کو مکتب امام (رہ) اور امام کی پیروی کے مبارک نتاچ میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کا ابھی اپنے اہداف تک پہنچنے میں کافی فاصلہ ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایرانی قوم عزم و ہمت و امید اور حوصلہ کے ساتھ اس تابناک راستے پر گامزن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس شرق آفریں راستے پر درست حرکت کو حضرت امام خمینی (رہ) اور ان کے اصولوں کی صحیح شناخت سے وابستہ قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف ، در حقیقت امام (رہ) کے راستے کی تحریف اور ایرانی قوم کو صراط مستقیم سے منحرف کرنے کی ایک کوشش ہے اور اگر راہ امام (رہ) گم ہوگیا یا اسے فراموش کردیا گیا یا خدانخواستہ اسے جان بوجھ کر الگ کردیا گیا تو اس صورت میں ایرانی قوم کو زوردار طمانچے کا ساما کرنا پڑےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقہ کے ایک بڑے ملک کے عنوان سے ایران کے بارے میں عالمی منہ زور اور تسلط پسند طاقتوں کی طمع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عالمی منہ زور طاقتیں اس وقت اس طمع سے دست بردار ہوجائیں گی جب وہ ایران کی ترقی، پیشرفت اور طاقت کو دیکھ کر مایوس ہوں گی۔
رہبر معظم انقلاب نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے اصول کے دائرے میں رہ کر حرکت کو ایرانی قوم کی طاقت ، قدرت اور پیشرفت کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: ان مسائل کو مد نظر رکھنے کے بعد حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے خطرے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اس خطرے کے بارے میں حوزات علمیہ، یونیورسٹیوں ، مفکرین ، انقلاب اسلامی اور حضرت امام (رہ) سے محبت اور ہمدردی رکھنے والے افراد ، ممتاز شخصیات ،جوانوں ، حضرت امام (رہ) کے قدیمی شاگردوں اور حکام کو سنجیدہ خطرے کے عنوان سے خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے موضوع کو انقلاب اسلامی کے آغاز سے لیکر ایک طولانی موضوع قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی زندگی میں اور انقلاب کے آغاز سے دشمن کی یہ تلاش و کوشش تھی کہ وہ حضرت امام (رہ) کو ایک خشک و خشن ، غیر لچکدار شخصیت اور غیر عاطفی شخصیت کے عنوان سے معرفی کرے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) مستکبر طاقتوں کے مقابلے میں ٹھوس اور غیر متزلزل شخصیت کے حامل تھے اور اس کے ساتھ ہی وہ اللہ تعالی کے سامنے خاضع و خاشع اور خلق خدا بالخصوص مستضعف طبقات کے ساتھ مہر و محبت اور الفت کے ساتھ پیش آتے تھے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی حیات میں بعض افراد کو جو بات اپنی نظر میں پسند آتی تھی اس کی نسبت حضرت امام (رہ) کی طرف دیتے تھے حالانکہ اس کا ان کی شخصیت کے ساتھ کوئی ربط نہیں تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد اس گروپ کی تلاش جاری رہی ، یہاں تک کہ بعض افراد حضرت امام خمینی (رہ) کو ایک لیبرل شخص معرفی کرتے تھے جو سیاسی، فکری اور ثقافتی رفتار میں کسی قید و شرط کا قائل نہیں تھے حالانکہ یہ ںظریہ بالکل غلط اور خلاف واقع ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام (رہ) کی شخصیت کی صحیح اور دقیق شناخت کی راہ کو ان کے فکری مکتب اور اصولوں کے صحیح مطالعہ پر مبنی قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر حضرت امام (رہ) کی پہچان اس روش کی بنیاد پر نہ ہو تومکن ہے بعض افراد اپنے فکری نظریہ کے مطابق حضرت امام (رہ) کی معرفی شروع کردیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کے دلوں میں حضرت امام خمینی (رہ) کی محبت کو یادگار اور اس محبت کو محو کرنے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں کو ناکام قراردیتے ہوئےفرمایا: حضرت امام (رہ) کی شخصیت کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست ہیں اسی بنیاد پر حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا معاملہ بڑا خطرناک معاملہ ہے اور امام خمینی (رہ) کے اصولوں کی شناخت اور ان کی زندگی کے مطالعہ سے اس خطرے کو دور کیا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے فکری نظریات اور اصولوں کو اسلامی تحریک کے 15 سال کے عرصہ اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد 10 سال کے عرصہ میں ان کے گوناگوں بیانات کے ذریعہ حاصل کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ان اصولوں کو ایکدوسرے کے ساتھ ملا کررکھا جائے تو حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کی حقیقی تصویر سامنے آجائے گی۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے سات نظریات اور اصولوں کی تشریح سے قبل حضرت امام (رہ) کے اصول کے سلسلے میں چند نکات پیش کئے: 1- یہ اصول مکرر اور بار بار حضرت امام (رہ) کے بیانات میں بیان اور امام (رہ) کے بیّنات کا حصہ ہوں، 2- ان اصول کا خاص انتخاب اور بیان نہیں ہونا چاہیے، 3- امام کے اصول ان سات موارد میں منحصر نہیں ہیں بلکہ صاحب نظر افراد طے شدہ دائرے کے مطابق، امام (رہ) کے فکری مکتب سے دوسرے اصول بھی نکال سکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد حضرت امام (رہ) کے فکری مکتب کے سات اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خالص محمدی (ص) اسلام کا اثبات اور امریکی اسلام کی نفی ، ان میں سے ایک اصول ہے اور حضرت امام (رہ) ہمیشہ خالص اسلام کو امریکی اسلام کے مقابلے میں قراردیتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی اسلام کی دو شاخوں یعنی سیکولر اسلام اور متحجر اسلام کی حقیقت اور ماہیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) دین سے انسانوں کی اجتماعی رفتار اور معاشرے کی جدائی کے قائل افراد کو ہمیشہ ان افراد کے ساتھ قراردیتے تھے جونئی سوچ کے افراد کے لئے دین پر پسماندہ اور متحجرانہ اور ناقابل فہم نگاہ رکھتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی اسلام کی دونوں شاخوں کے سلسلے میں ہمیشہ امریکہ اور عالمی منہ زور طاقتوں کی بھر پور حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج بھی اسلامی شریعت اور اسلامی فقہ سے بیگانہ اور منحرف داعش اور القاعدہ جیسے بظاہر اسلامی گروہوں کو امریکہ اور اسرائیل کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی نظر میں خالص اسلام ، کتاب اور سنت پر مشتمل ہے جو زمان و مکان کے شرائط اور روشن و متناسب نظریات کے ذریعہ ، اسلامی و انسانی معاشرے کی بالفعل ضرورتوں کی شناخت ، قابل قبول علمی طریقوں سے استفادہ کے ساتھ ، دشمن کے طریقوں کو مد نظر رکھنے سے اور حوزات علمیہ میں تکمیل شدہ طریقوں سے حاصل ہوتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) کے فکری مکتب میں درباری ملاؤں کا اسلام اور داعشی اسلام ایک طرف اور امریکہ و اسرائیل کے بھیانک جرائم کے مقابلے میں غیر متوجہ اور بڑی طاقتوں کی طرف دیکھنے والے افراد کا اسلام دوسری طرف ؛ لیکن یہ دونوں اسلام ایک نقطہ پر پہنچتے ہیں اور یہ دونوں مردود ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو شخص خود کو حضرت امام (رہ) کا پیروہ کار سمجھتا ہے اسے سیکولر اسلام اور متحجر اسلام کے ساتھ اپنی سرحد کو پہچاننا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی مدد پر تکیہ، اللہ تعالی کے سچے وعدے پر اعتماد اور اس کے ساتھ عالمی منہ زور اور مستکبرطاقتوں پر عدم اعتماد کو حضرت امام خمینی (رہ) کے فکری اصول کی دوسری اصل قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) ہمیشہ اللہ تعالی کے سچے وعدے پر اعتقاد اور یقین رکھتے تھے اور اس کے مقابلے میں عالمی منہ زور اور سامراجی طاقتوں کے وعدوں پر بالکل اعتماد نہیں رکھتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی یہ بارز خصوصیت اس بات کا موجب بن گئی تھی کہ وہ اپنا مؤقف کسی لحاظ اور ملاحظہ کے بغیر واضح اور ٹھوس انداز میں پیش کرتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے بعض مستکبر حکمرانوں کے خطوں کے جوابات کو ادب و احترام کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ٹھوس اور واضح جوابات دینےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) نے اعتماد اور توکل کو ایرانی قوم کی رگوں میں خون کی طرح جاری کردیا ہے کہ یہ قوم بھی اللہ تعالی کی مدد و نصرت پر اعتقاد اور اس پر توکل کی خوگر بن گئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستکبرین اور ان کے وعدوں پر حضرت امام (رہ) کے مکمل عدم اعتماد اور عدم توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے اس موضوع کو مکمل طور پر محسوس اور مشاہدہ کیا ہے کہ کیوں مستکبرین کے وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ وہ خصوصی جلسات میں ایک بات کرتے ہیں اور عمومی سطح پر اس کے خلاف عمل کرتے ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی ذات پر اعتماد اور مستکبرین پر عدم اعتماد کو حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول کا اہم حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ اس موضوع کا مطلب دنیا سے رابطہ ختم کرنا نہیں تھا کیونکہ محترمانہ اور معمول کی حد تک رابطہ موجود تھا لیکن مستکبروں اور ان کے حامیوں پر کسی قسم کا اعتماد نہیں تھا۔
عوامی طاقت اور عزم پر اعتقاد اور حکومتی تمرکز کی مخالفت امام خمینی (رہ) کے فکری اصول کی تیسری قسم تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف اقتصادی، فوجی، تعمیراتی ، تبلیغاتی اور سب سے بڑھ کر انتخابات کے مسائل میں ہمیشہ عوامی رائے اور طاقت پر حقیقی اعتقاد اور ان کے عوام پر متکی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے بعد حضرت امام (رہ) کی زندگی کے 10 سال میں 10 انتخابات منعقد ہوئے جبکہ ان 10 سالوں میں آٹھ سال دفاع مقدس سے متعلق ہیں، حتی حضرت امام (رہ) نے ایک دن بھی انتخابات کو مؤخر کرنے کی اجازت نہیں دی ، انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوئے کیونکہ امام (رہ) حقیقی معنی میں عوام کی رائے ، ان کی تشخيص اور ان کی فکر کے احترام کے قائل تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حتی بعض موارد میں ممکن تھا کہ عوام کا انتخاب و تشخیص ، امام (رہ) کی نظر کے ساتھ یکساں نہ ہو لیکن امام (رہ) عوام کی رائے کے احترام کے قائل تھے۔
خطیب نماز جمعہ تہران: ایرانی قوم کے ایٹمی حقوق کو مدنظر رکھا جائے
تہران کے خطیب نماز جمعہ نے ایٹمی معاملے میں ایرانی قوم کے جوہری حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر تاکید کی ہے-
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ محمد امامی کاشانی کی اقتدا میں ادا کی گئی- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے نمازیوں کی کثیر تعداد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظام چونکہ ایک معنوی نظام ہے اس لئے یہ دوسرے تمام نظاموں پر برتری رکھتا ہے- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے اسلامی نظام حکومت اور دنیا کے دوسرے نظام ہائے حکومت کے درمیان پائے جانے والے فرق کو بیان کیا- انھوں نے اسلامی نظام کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کے بانی امام خمینی رح کی سیرت، بہت ہی گرانقدر اہمیت کی حامل ہے- خطیب نماز جمعہ تہران نے کہا کہ ہمارے معاشرے اور جوان نسل کو امام خمینی رح کی سیرت کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دینا چاہئے- خطیب نماز جمعہ نے اغیار کے ساتھ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رح کے برتاؤ نیز اسلامی دنیا، اتحاد بین المسلمین، اقتصاد، عوام کی زندگی اور دشمن کی پہچان کے بارے میں امام خمینی رح کے نظریات کی جانب اشارہ کیا اور اس سلسلے میں امام خمینی رح کی روش کو آپ کی سیرت کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رح کی سیرت میں ہرگز تحریف نہیں کی جا سکتی- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے مزید کہا کہ امام خمینی رح کی وفات کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای، اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک نعمت ہیں اور اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لئے ان کی ولایت بہت اہمیت کی حامل ہے- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے اسلامی نظام میں ولایت فقیہ کے مقام کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے اسلامی نظام کے دشمن ہیں- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے ایران کے ایٹمی معاملے کے حل کی امید کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی قوم کے ایٹمی حقوق کے تحفظ کے لئے ایٹمی مذاکراتی ٹیم کی ہوشیاری کی ضرورت پر تاکید کی-
سوره الزلزلة
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا
(1) جب زمین اپنی لرزش سے ہلائی جائے گی
﴿2﴾ وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا
(2) اور زمین اپنا بوجھ نکال دے گی
﴿3﴾ وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا
(3) اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟
﴿4﴾ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا
(4) اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی
﴿5﴾ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا
(5) کیونکہ آپ کے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا
﴿6﴾ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ
(6) اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر نکل آئیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں
﴿7﴾ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ
(7) پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا
﴿8﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
(8) اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا