Super User

Super User

Saturday, 09 April 2016 11:56

رحمۃ للعالمین

ہجرت کا آٹھواں سال اسلام و مسلمین کے لئے افتخارات اور کامیابیوں کا سال تھا اسی سال مسلمانوں نے مشرکین کے سب سے بڑے اڈے یعنی مکہ مکرمہ کو فتح کیا تھا۔ 
اس کے بعد اسلام سارے جزیرۃ العرب میں بڑی تیزی سے پھیل گیا۔ 
فتح مکہ کے دن لشکر اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا مسلمان چاروں طرف سے خانہ کعبہ تک پہنچ گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غسل کرنے کے بعد اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے اور اونٹ پر بیٹھ کرمسجد الحرام کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر مکہ جہاں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ندائے حق اور دعوت الہی کو دبانے کے لئے تمام وسائل و ذرائع سے کام لیا گیا تھا آج اس پر عجیب خاموشی اور خوف چھایا ہوا ہے اور لوگ اپنے گھروں ، دروازوں کے شارفوں اور کچھ لوگ پہاڑ کی چوٹیوں پر سے عبدالمطلب کے پوتے کی عظمت و جلالت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آپ خانہ کعبہ تک پہنچ گئے لشکر اسلام اپنے آسمانی رہبر کی قیادت میں طواف کرنے کو بے چین تھا لوگوں نے آپ کے لئے راستہ کھولا۔ رسول اللہ کے اونٹ کی حمار محمد بن مسلمہ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ نے اس عالم میں طواف کیا حجراسود کو بوسہ دینے کے بعد خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکے ہوئے بتوں کو نیچے گرایا اور حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ کے شانہ ہائے مبارک پر کھڑے ہو کر بتوں کو نیچے پھینکیں۔ سیرہ حلبیہ اور فریقین کی بہت سی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا کہ جب آپ آنحضرت کے شانے پر کھڑے ہوئے تھے تو کیسامحسوس کر رہے تھے ؟ آپ نے فرمایا میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ میں ستارہ ثریا کو چھوسکتا ہوں۔ اس کے بعد آپ ص نے کلید دار کعبہ عثمان طلحہ کو کعبے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا کعبے میں داخل ہوئے اور مشرکین نے پیغمبروں اور فرشتوں کی جو تصویریں بنا کر دیواروں سے آویزاں کر رکھی تھیں انہیں اپنی عصا سے نیچے گرایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ 
قل جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا "اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔ (اسراء 81) 
مشرکین مکہ صنادید قریش اور ان کے خطباء و شعرا جیسے ابوسفیان ، سہبل بن عمرو اور دیگر افراد خانہ کعبہ کے کنارے سرجھکاے کھڑے تھے۔ شاید یہ لوگ سوچ رہے ہونگے رسول اللہ نے مکہ فتح کر لیا ہے ، اب وہ کس طرح سے ان کی اذیتوں ،تہمتوں اور تمسخروافتراءت کا بدلہ لیں گے ؟ اور ان کے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے! 
جن لوگوں نے ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبی و پیغمبر الہی کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا اور آپ کی بزرگواری اور کریمانہ اخلاق سے آگاہ نہیں تھے ان کے دلوں میں خوف و اضطراب موجزن تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے صرف فاتح سرداروں کو لوٹ مار کرتے اور خون بہاتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ قرآن کریم نے رسول اللہ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا ہے ، دونوں جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اقتدار و فتح و کامرانی کی صورت میں ان پر غرور و ہوا و ہوس کا سایہ تک نہیں پڑسکتا۔ اہل مکہ کے لئے اس دن (فتح مکہ) کا ہر لمحہ پر اضطراب تھا ایسے میں آپ نے وہی جملے دوہرائے جو مبعوث برسالت ہونے کے بعد فرمائے تھے ، آپ نے کہا لا الہ الا ا للہ وحدہ لاشریکلہ صدق وعدہ و نصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ، اپنے بندے کی نصرت کی اور تنہا تمام گروہوں کو شکست دی۔ 
اس کے بعد اہل مکہ کو یہ اطمینان دلانے کے لئے کہ مسلمان ان سے انتقام نہیں لیں گے ان سے فرمایا ماذانقولون و ماذاتظنون۔ میرے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو اور کیا سوچ رہے ہو؟ قریش جو رسول اللہ کی عظمت و جلالت کو دیکھ کر بری طرح بے دست و پا ہو چکے تھے گڑکڑا کر کہنے لگے نقول خیرا و نظن خیرا اخ کریم و ابن اخ کریم وفد قدرت۔ ہم آپ کے بارے میں خیر خواہی اور خوبی کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ہیں اور خیر و نیکی کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے۔ آپ مہربان و کریم بھائی ہیں اور ہمارے بزرگ و مہربان چچازاد ہیں اور اب آپ کو بھرپور اقتدار حاصل ہو گیا ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں مزید اطمناین دلایا اور ان کی معافی کا حکم جاری کیا آپ نے فرمایا میں تم لوگوں سے وہی کہوں گا جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا (جب ان کے بھائیوں نے انہیں نہیں پہچانا تھا) آپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی قال لاتثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم و ہوا ا رحم الراحمین۔ یوسف نے کہا آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے خدا تمہیں معاف کر دے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ 
اس کے بعد آپ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ تم سب بڑے برے لوگ تھے کہ اپنے پیغمبر کو جھٹلایا اور اسے اپنے شہرودیارسے نکال دیا ، اس پر اکتفا نہ کی بلکہ دوسرے شہروں میں بھی مجھ سے جنگ کرنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ 
آپ کی باتیں سنکر بعض لوگوں کے چہرے فق ہو گئے وہ یہ سوچنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت و آزار و مصائب یاد آ گئے ہیں اور آپ ، انتقام لینا چاہتے ہیں لیکن رسول حق نے رحمت و کرامت کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا فاذھبوا فانتم الطلقاء جاؤ تم سب آزاد ہو۔ تاریخ و روایات میں آیا ہے کہ جب رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تو لوگ اس طرح سے مسجد الحرام سے باہر جانے لگے جیسے مردے قبروں سے اٹھ کر بھاگ رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسی مرےبانی و رحمت کی وجہ سے مکہ کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔

 

ماخوذ : رسول الله کے اخلاق حسنه کی کتاب ( فارسی سے ترجمه )

رہبر انقلاب اسلامی نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کے موقع پر مدح خوانوں اور ذاکرین اہلیبیت سے ملاقات میں اہل بیت علیہم السلام کی عملی زندگی کے مطالعے کو منقبتوں اور مدحتوں کے موثر ہونے کا سبب قرار دیا اور ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی جانب سے تمام تر آپشنز کے مسلسل استعمال کے مقابلے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ پیچیدہ حالات میں آج اور آئندہ ہمیں چاہئے کہ ایران کے مقام کو مظبوط بنانے کے لئے سیاسی، معیشتی، اجتماعی اور دفاعی وسائل سمیت تمام آپشنز سے بھرپور استفادہ کریں۔
آپ نے حضرت صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کی مبارکباد دیتے ہوئے، اہل بیت علیہم السلام کی مدح خوانی اور ذاکری کو قابل فخر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اتنے گہرے مطالب کے ساتھ کی جانے والی مدح خوانی اور منقبت خوانی شیعہ معاشرے کا خاصہ ہے طالبعلموں اور محققین کو چاہئے کہ وہ اس شعبے کو مستحکم کرنے اور وسعت دینے کے لئے کام کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے با عظمت اور نورانی مقام کے ادراک کو ناممکن امر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کے باوجود آپ کی سیرت اور رفتار و کردار میں بیان کرنے اور درس حاصل کرنے کے لئے بے تحاشہ نکات موجود ہیں۔
رہبر انقلاب نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی ہونے اور ولی خدا کی زوجہ ہونے کو حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کےعظیم مقام ومنزلت اور جاہ وجلال کی علامت قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ جنت کے جوانوں کے دو سرداروں کی پرورش و تربیت، روح و باطن زندگی کی طہارت، اور قلب کی پاکیزگی اور پرہیزگاری، آپ کی اہم خصوصیات میں سے ہے کہ جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تقوی اور دائمی مراقبت کے زریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔
آپ نے مدح خوانوں اور شاعروں کو اپنے اشعار، مداحی اور مرثیوں میں یہ عملی نکات اور حقیقتیں شامل کرنے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ معنوی مقامات کا ذکر کیا جانا دلوں میں محبت اور روشنی لانے کا سبب بنتا ہے لیکن یہ کافی اور سازگار نہیں اور ضروری ہے کہ تمام منبروں سے، ائمہ علیہم السلام کی عملی سیرت کے نکات کو ہنرمندانہ انداز میں بیان کیا جائے اور ولایت کے لئے زمینہ سازی اور اہل بیت کی سیرت کی عملی پیروی کی جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اشعار اور مدح خوانی میں موجودہ دور کے مسائل پر توجہ کئے جانے پر تاکید کرتے ہوئےفرمایا کہ استکباری نظام کہ جو سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور فوجی دھونس اور دھمکی پر مبنی ہے وہ کبھی بھی اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کو نقصان پہچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور ہمیں اس حقیقت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی جانب سے ایران کی دشمنی کے لئے نئے پرانے ہتھیار استعمال کئے جانے کے مسئلے پر تاکید کرتے ہوئےفرمایا کہ وہ لوگ گفتگو، اقتصادی مبادلات، پابندیوں، فوجی دبائو اور دوسرے تمام طریقوں کو اپنے اہداف کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی ان میدانوں میں مقابلے اور دفاع کی توانائی رکھتے ہوں۔
آپ نے ملت ایران کے خلاف فوجی توانائی کو استکبار کی سب سے بڑی تکیہ گاہ قرار دیا اور ایک بنیادی سوال مطرح کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کی اس جنگل جیسی صورتحال میں اگر اسلامی جمہوریہ ایران صرف مذاکرات اور اقتصادت مبادلات حتی سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششوں میں مشغول رہے اور دفاعی صلاحیت کا حامل نہ ہوتو کیا چھوٹے چھوٹے ممالک بھی ایران کو دھونس اور دھمکیاں نہیں دیں گے؟
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ان لوگوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہ جو مستقبل کی دنیا کو صرف مذاکرات کی دنیا سمجھتے ہیں نہ کہ میزائیلوں کی، فرمایا کہ یہ زمانہ تمام چیزوں کا زمانہ ہے ورنہ بہت آسانی سے قوموں کے حقوق غصب کر لئیے جائیں گے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ اگر یہ باتیں لا علمی کی وجہ سے کی جا تی ہیں تو دوسرا مسئلہ ہے لیکن اگر عمدا یہ باتیں کی جاتی ہیں تو یہ ایک خیانت ہے۔
رہبر انقلاب نے سپاہ پاسداران کے پیشرفتہ میزائیلوں کی نمائش کو ان ملتوں کی خوشی کا باعث قرار دیا کہ جنکے دل امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت کے ظلم و ستم کی وجہ سے خون کے آنسو رو رہے ہیں لیکن وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ دشمن مسلسل اپنی فوجی اور میزائیلی طاقت میں اضافہ کرنے کے درپے ہے تو موجودہ شرائط میں ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ زمانہ پرانے میزائیلوں کا ہی زمانہ ہے؟
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ان باتوں کو پچھلی عبوری حکومت کے بعض اراکین کی باتوں کی شبیہہ قرار دیا کہ جنہوں نے انقلاب کے اوائل میں کہا تھا کہ ہم نے امریکہ سے جو ایف ۱۴ لڑاکا طیارے خریدے ہیں انہیں واپس کردیں کیونکہ وہ ہمارے لئے بے کار ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ ہم نے اس موقع پر استقامت دکھائی اور انکشافات کئے اور اس کے کچھ دنوں بعد صدام نے ایران پر حملہ کر دیا تب معلوم ہوا کہ دفاعی ساز و سامان کہ ہمیں کتنی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے چند چیزوں کو چھوڑ کر ڈپلومیسی اور سیاسی مذاکرات پر ایک بار پھر تاکید کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ ایسی تشہیر نہ جائے کہ ہم گفتگو کے ہی مخالف ہیں، ہم یہ کہتے ہیں ہوشیاری سے اور پوری قوت کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں تاکہ ہمیں دھوکہ نہ دیا جاسکے۔
آپ نے استقامی معیشت کے بارے میں خاص طور پر فرمایا کہ نعروں اور باتوں کی تکرار سے سست روی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے اقدام اور عمل ملک کی اقتصادی صورتحال اور عوام کی معیشت کی صورتحال میں بہتری کے لئے ہے۔
رہبر انقلاب نے اسی طرح مداحوں اور ذاکرین اہل بیت کو اپنی نصیحتوں میں دشمنوں کی جانب سے نوجوانوں کے عقائد کمزور کئے جانے کی سازشوں کا مقابلہ کئے جانے کو ایک ضروری امر قرار دیا اور فرمایا کہ ایسی کوششیں  کی جاتی ہیں کہ نوجوانوں کے عقائد کمزور پڑ جائیں اور حتی اسلامی جمہوریہ کی بقا کو ناممکن سمجھا جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ البتہ ۳۷ سالوں سے ہمارے دشمن مختلف حیلے بہانوں اور سازشوں کے زریعے اسلامی نظام کی بقا کو ناممکن قرار دینے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ملت ایران کا منتخب کردہ نظام آج اوائل انقلاب کے زمانے کے پودے کے مقابلے ایک تناور اور سر سبز درخت میں تبدیل ہو چکا ہے اور یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ رشد اور ترقی اور مضبوط ہونے کی صلاحیت اسلامی نظام کی ذات میں شامل ہے اور یہ ہر نئے دن اور زیادہ مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔
رہبر انقلاب نے ملک کے مستقبل کے افق کو مزید روشن قرار دیا اور مداحوں اور ذاکرین اہل بیت کو نصیحت فرمائی کہ اپنے پر معنی اشعار اور انہیں ہنر مندانہ انداز میں پیش کرنے کے زریعے اپنے سننے والوں کو پر امید، جدوجہد کرنے والے اور کارآمد انسانوں میں تبدیل کردیں اور عوام کی بیداری اور بصیرت میں اضافے کی جانب ہدایت کو اپنا وظیفہ سمجھیں۔
اس ملاقات کے آغاز میں چند مداحوں اور ذاکرین نے حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کی شان میں فضائل اور مناقب پیش کئے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1395 کے آغاز پر مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کلیدی مسائل اور امور کا جائزہ لیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے سامراج کے سامنے سر جھکا دینے کی ترغیب دلانے والی خطرناک فکر کے حقیقی مفہوم اور پنہاں اہداف کی تشریح کی جسے امریکا اور ملک کے اندر کچھ لوگ ایران کی رائے عامہ اور دانشوروں کے ذہنوں میں بٹھانے کے لئے 'جھوٹے اور مصنوعی دو راہے' کی بات کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں مزاحمتی معیشت کے تعلق سے 'اقدام و عمل' کے لئے دس اساسی تجاویز پیش کیں۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ یہ منطقی اور ساتھ ہی انقلابی راستہ وطن عزیز ایران کو خطرات اور پابندیوں کے مقابل محفوظ بنا دیگا اور حکومت کو یہ توانائی ملے گی کہ ہمہ گیر ہمدلی کے سائے میں اور تینوں شعبوں (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کے تعاون سے رواں سال کے آخر تک عوام کے سامنے عینی اور اعتماد بخش رپورٹ پیش کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں بھی ملت ایران کو سال نو کی مبارکباد پیش کی اور ہجری شمسی سال 1395 مطابق 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2-17 کے آغاز و اختتام کے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام ولادت سے اتصال کو ملک کے لئے باعث برکت قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1395 کے لئے منتخب کئے گئے نعرے؛ "مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل" کی تشریح کی۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ رواں سال کے لئے منتخب نعرے کا مدلل اور منطقی پس منظر ہے اور ملک کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو اس نعرے کی مدلل بنیادوں پر غور کرنے کی دعوت دی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شاید کچھ لوگوں کی ترجیح یہ رہی ہو کہ اس سال کے لئے کوئی ثقافتی یا اخلاقی نعرہ منتخب کیا جائے لیکن ملکی مسائل کا مجموعی طور پر جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال کا نعرہ بھی اقتصادی شعبے سے متعلق ہو تاکہ یہ مسئلہ عمومی بحث میں تبدیل ہو جائے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اس سال کے نعرے کا انتخاب ملکی مسائل کے تجزئے اور دراز مدتی جائزے پر استوار ہے۔ آپ نے اس دراز مدتی جائزے کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ دور میں امریکیوں کی یہ کوشش ہے کہ معاشرے کے دانشور طبقے اور پھر عمومی سطح پر یہ خاص فکر پھیلائیں کہ ملت ایران اس وقت دو رہے پر کھڑی ہے اور اس کو لا محالہ ان میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جس دو راہے کا دعوی وہ کر رہے ہیں یہ ہے کہ ملت ایران یا تو امریکا سے سمجھوتا کر لے یا پھر دائمی طور پر امریکا کے دباؤ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کی دولت، سیاسی وسائل، وسیع تشہیراتی نیٹ ورک اور عسکری ساز و سامان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ 'خاص فکر' یہ کہتی ہے کہ امریکا سے سودا کر لینا چاہئے اور اس کا دباؤ قبول کرتے ہوئے اپنے بعض اصولوں، پالیسیوں اور ریڈ لائنوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ حالیہ ایٹمی اتفاق رائے میں بھی، جس کی حمایت کی گئی اور ہمارے ملک کے مذاکرات کار بھی قابل اطمینان تھے، یہی ہوا اور کچھ امور کے سلسلے میں محترم وزیر خارجہ نے مجھ سے کہا کہ ہم بعض ریڈ لائنوں کی حفاظت نہیں کر سکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سامنے امریکا جیسی حکومت ہو تو اس سے سمجھوتا کرنے کا مطلب ایسی بعض چیزوں سے صرف نظر کرنا ہوتا ہے جن پر انسان زور دے رہا ہوتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ اس فرضی دو راہے کی خطرناک سوچ کو قبول کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی قبول کروانا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایسے افراد کہتے ہیں کہ ایران کی معیشت میں بڑی توانائیاں اور صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور ان صلاحیتوں کو متحرک کرنا صرف ایٹمی معاہدے سے ممکن نہیں ہے بلکہ امریکا کے ساتھ ہمارے کچھ اور بھی مسائل ہیں جن کے بارے میں ملت ایران اور ملک کے حکام کو فیصلہ اور اقدام کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ یہ 'خاص فکر' ایٹمی معاہدے کے بعد سے اس کوشش میں ہے کہ مغربی ایشیا کے مسائل کے بارے میں امریکا سے گفتگو اور تعاون شروع کیا جائے اور اپنے کچھ اصولوں اور ریڈ لائنوں سے ایران کی پسپائی کیلئے تہران واشنگٹن مذاکرات انجام پائیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ یہ خاص نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ملک کی اقتصادی مشکلات صرف اسی صورت میں حل ہو سکتی ہیں جب ہم مختلف امور کے بارے میں امریکا سے مذاکرات کریں اور اپنے موجودہ موقف سے پیچھے ہٹ جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ افراد کہتے ہیں کہ جس طرح ایٹمی معاہدے کو مشترکہ جامع ایکشن پلان کا نام دیا گیا، اسی طرح دیگر امور کے بارے میں یہاں تک کہ ملک کے آئین کے بارے میں امریکا سے گفتگو بھی مشترکہ جامع ایکشن پلان دو، تین اور چار ہو سکتی ہے اور ان مذاکرات اور معاہدوں کے نتیجے میں عوام آسانی کی زندگی بسر کریں گے اور ان کی مشکلات حل ہو جائيں گی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اس خطرناک سوچ کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران بتدریج اپنی قوت اور سلامتی کی بنیادوں سے اور ان کلیدی امور سے جن کی اسلام کے حکم کے مطابق اور اسلامی نظام کے دائرے میں یہ ملک پابندی کر رہا ہے جیسے اسلامی مزاحمتی محاذ کی حمایت اور فلسطین، یمن اور بحرین کے عوام کی پشت پناہی، ان سب سے صرف نظر کرے اور اپنا موقف امریکی مطالبات سے قریب کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس خاص سوچ کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ کو بھی بعض عرب حکومتوں کی طرح جنھوں نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ صیہونی حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، صیہونی دشمن سے ہاتھ ملا لینا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ اس 'خطرناک سوچ' کے تناظر میں ایک ایک قدم پسپائی کا سلسلہ لگاتار جاری رہے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر امریکا کی مرضی اور خواہش کے مطابق عمل کرنا ہے تو اسلامی جمہوریہ کو اپنے دفاعی وسائل سے بھی صرف نظر کر لینا ہوگا اور مستقل طور پر اسے امریکا کے سوالوں اور توسیع پسندانہ مطالبات کا جواب دینا ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کی میزائلی مشقوں کے بارے میں مغربی میڈیا میں اٹھنے والے طوفان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکی خود تو خلیج فارس کے علاقے میں جو ان سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہے وقفے وقفے سے مشترکہ مشقیں کرتے ہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی مشقوں پر جو وہ اپنے گھر میں اور اپنی سیکورٹی کے دائرے میں انجام دیتا ہے، ہنگامہ برپا کرتے ہیں!
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر اس 'خاص سوچ" کو قبول کر لیا جائے تو امریکا کے 'ڈو مور' کے مطالبات اور ان کے سامنے پسپائی کا سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اس تدریجی عمل کے تحت اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے امریکیوں کے سامنے یہ وضاحت کرنی بھی ضروری ہو جائے گی کہ اس نے پاسداران انقلاب فورس اور القدس بریگیڈ کیوں بنائی ہے، اس کی داخلی پالیسیاں اسلامی شریعت کے معیاروں کے مطابق کیوں وضع کی جاتی ہیں، اس کے تینوں شعبے اسلامی شریعت کے مطابق کیوں عمل کرتے ہیں اور شورائے نگہبان (نگراں کونسل) شرعی معیاروں سے متصادم قوانین کو حمایت کیوں نہیں کرتی؟
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر ہم امریکا کے سامنے پسپائی اختیار کریں گے تو و ایک ایک قدم کرکے آگے ہی بڑھتا آئے گا اور نوبت یہ ہو جائے گی کہ اسلامی جمہوریہ ایران اندر سے کھوکھلا ہو جائے گا صرف اس کی ظاہری صورت باقی رہ جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن کی پسندیدہ اس فکر و تجزئے کی بنیاد پر اگر ملت ایران خود کو امریکا کے شر سے نجات دلانا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ کے اصلی مضمون، اسلامی مفاہیم اور اپنی سلامتی کو فراموش کر دے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس 'خاص سوچ' کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کے بعد اس کے نقائص کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ اس فکر و تجزئے میں ایک چیز جو نظر انداز کر دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا سے معاہدے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایران تو اپنے وعدے پورے کرنے پر مجبور ہو جبکہ امریکا اپنے وعدوں کے سلسلے میں عہد شکنی، فریب دہی اور گڑبڑ کرتا رہے، چنانچہ آج ہم بعینہ یہی چیز دیکھ رہے ہیں جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس سلسلے میں ایٹمی اتفاق رائے کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کے سلسلے میں بھی امریکیوں نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا اور محترم وزیر خارجہ کے بقول کاغذ پر انھوں نے کچھ وعدے کئے لیکن عمل میں اور انحرافی راستوں کے ذریعے انھوں نے وعدوں پر عمل آوری کا سد باب کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایٹمی معاہدہ ہو جانے کے بعد بھی ہمارا بینکنگ لین دین ہنوز مشکلات سے دوچار ہے اور ایران کے پیسے بھی اسے نہیں لوٹائے گئے ہیں، کیونکہ مغربی ممالک اور ان کے زیر اثر دیگر ممالک امریکیوں سے خائف ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ 'جھوٹے دو راہے والے نظرئے' کے تحت ایک اور چیز ملت ایران سے امریکا کی دشمنی و عناد کی وجہ کے طور پر بیان کی جاتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے میں ایران کی اسٹریٹیجک پوزیشن اور اہم مقام، تیل اور گیس کے بڑے ذخائر، اچھی خاصی آبادی، بے پناہ توانائیوں اور طویل تاریخی پس منظر کی بنیاد پر ایران علاقے کا گلدستہ ہے، لیکن یہی بے نظیر ملک کئی عشروں تک امریکیوں کے قبضے اور تسلط میں تھا اور ملت ایران نے اسلامی انقلاب کے ذریعے اس تسلط کو ختم کیا اور ملک کو امریکیوں کے بے چوں و چرا غلبے سے نجات دلائی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب نے صرف ایران کو امریکیوں کے قبضے سے نہیں نکالا بلکہ پورے علاقے میں اور یہاں تک کہ علاقے کے باہر بھی امریکی سامراج اور توسیع پسندی کے مقابل استقامت و مزاحمت کا جذبہ عام کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی عظیم مشرق وسطی کی اپنی پالیسی اور علاقے پر صیہونی حکومت کو مسلط کرنے کی کوششوں میں اپنی شکست، نیز یمن، شام، عراق اور فلسطین میں اپنی پے در پے ناکامیوں کی وجہ اسلامی جمہوریہ ایران کو سمجھتے ہیں، بنابریں ملت ایران سے ان کی دشمنی بہت گہری اور بنیادی قسم کی ہے اور یہ دشمنی تبھی ختم ہوگی جب وہ ایران پر پوری طرح اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے!
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایران پر برطانیہ اور پھر امریکا کے طولانی مدت تسلط کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک میں امریکا اور برطانیہ نے داخلی محاذ ایجاد کر لئے تھے جن کی مدد سے وہ اپنا تسلط جاری رکھے ہوئے تھے، لیکن اسلامی انقلاب نے اپنے انقلابی نوجوانوں کی مدد سے ان محاذوں کو نابود کر دیا اور اسلامی جمہوریہ اور ملت کے مفادات کی پاسبانی کرنے والے نئے مورچے بنا لئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی اب منصوبہ بندی کے ذریعے اور سفارتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کوشش میں ہیں کہ منہدم ہو چکے محاذوں کی تعمیر نو کریں اور انقلابی محاذوں کو مسمار کر دیں۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ظالم و طاغوتی پہلوی حکومت ایران میں امریکا کے سب سے اہم محاذ کا کام کرتی تھی، لیکن اسلامی انقلاب نے شاہی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اس کی جگہ عوامی حکمرانی کے نام سے ایک مستحکم محاذ بنا دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ بڑی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا سے خوف بھی تسلط کا راستہ ہموار کرنے والا ایک محاذ ہے، آپ نے فرمایا کہ طاغوتی دور کے برخلاف اب اسلامی جمہوریہ میں کوئی بھی آگاہ، باخبر اور دینی اقدار پر بھروسہ کرنے والا شخص امریکا سے نہیں ڈرتا۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ آج بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ امریکا سے ڈرتے ہوں، تاہم طاغوتی حکومت کا امریکا سے خوف تو منطقی تھا کیونکہ امریکا کے مد مقابل اس کے پاس کوئی سپورٹ نہیں تھا، لیکن اسلامی جمہوریہ میں امریکا سے خوف غیر منطقی ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ کو عظیم الشان ملت ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق امریکی تسلط کا ایک طریقہ احساس کمتری کی ترویج اور قومی خود اعتمادی کے جذبے کو کمزور کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکی تسلط کے سامنے سر جھکائے رکھنے والا محاذ 'ہم سب کچھ کر سکتے ہیں' کی فکر والے محاذ میں بدل گیا۔
رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہ دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی مہم کو بھی ایران پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے امریکا کی جانب سے ایران کے اندر بنائے جانے والے ایک محاذ سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب نے اس محاذ کو بھی نابود کر دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا کہ دشمن سے ان کی مراد امریکا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی سیاسی رہنما اور اس ملک کی وزارت خزانہ ایک طرف خاص پیچیدہ روش کے ذریعے پابندیوں کو عملی طور پر باقی رکھے ہوئے ہیں اور خالص عناد برتتے ہوئے دھمکیوں اور پابندیوں کی باتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف وائٹ ہاؤس میں 'ہفت سین دسترخوان' (نوروز کے موقع پر بچھایا جانے والا خاص دسترخوان جس پر حرف 'س' سے شروع ہونے والی سات چیزیں رکھی جاتی ہیں) بچھایا جاتا ہے اور بچوں کو پھسلانے والی روش کے تحت نوروز کے پیغام میں ہمارے نوجوانوں کے روزگار کے تعلق سے ہمدردی دکھائی جاتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس دوہرے روئے کی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکام ملت ایران کو ہنوز پہچان نہیں سکے ہیں اور انھیں نہیں معلوم ہے کہ یہ باشعور قوم اپنے دشمنوں کے خفیہ و آشکارا سارے حربون کو بخوبی پہچانتی ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دنیا کی دیگر اقوام کی طرح ہمیں امریکی عوام سے بھی کوئی بیر نہیں ہے، ہم تو بس اس ملک کی معاندانہ سیاست کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ ایسے حقائق بیان کئے جن پر توجہ دینے سے ملک کی آئندہ کی حکمت عملی کو سمجھا جا سکتا ہے۔
اندرونی طور پر پروان چڑھنے والی ترقی کے لئے بے پناہ انسانی اور قدرتی وسائل اور سرمایہ، بین الاقوامی سطح پر مواقع، علاقائی اور بعض اوقات عالمی سطح پر گہرا اثر و رسوخ، اس سلسلے میں پہلی حقیقت تھی جس کا ذکر رہبر انقلاب اسلامی نے کیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران اور اسلامی نظام سے امریکا کی کھلی دشمنی کو بھی ایک عینی حقیقت قرار دیا جس کی واضح نشانیاں امریکیوں کی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہنا اور ایٹمی معاہدے کے نتائج سے بہرہ مند ہونے کے معاملے میں ایران کے راستے میں ان کی طرف سے لگاتار کھڑی کی جانے والی رکاوٹیں ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکا میں صدارتی انتخابات سے چند ماہ قبل انتخابی امیدواروں نے ایران کے خلاف بدکلامی کا مقابلہ شروع کر دیا ہے اور اس بات کی کوئی گیرنٹی نہیں ہے کہ آئندہ حکومت ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں جو اس وقت امریکا کی طرف سے معمولی سا التزام ہے اسے جاری رکھے گی۔ مگر جب بھی امریکا کی دشمنی کا ذکر آتا ہے تو ملک کے اندر کچھ لوگ فورا پریشان اور مضطرب ہو جاتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تیسری حقیقت کے طور پر ملت ایران سے امریکا کی دشمنی کے وسائل کے لا محدود ہونے کا حوالہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکیوں کے پاس تین بنیادی اور موثر وسائل ہیں؛ پروپیگنڈا، دراندازی اور پابندیاں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پابندیوں کے بارے میں فرمایا کہ حقیقت میں دشمن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایران پر وار کرنے کے سلسلے میں پابندیاں موثر ہیں، البتہ اس احساس اور تصور کو تقویت پہنچانے میں ہمارا بھی رول رہا ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس سلسلے میں مزید فرمایا کہ ایک زمانے میں ہم نے ملک کے اندر پابندیوں کے نقصانات اور اس سے پڑنے والی ضربوں کے بارے میں بہت مبالغہ آرائی کی، اسی طرح ایک موقع پر پابندیوں کے اٹھ جانے کے اثرات و ثمرات کے بارے میں بھی مبالغہ آرائی کی گئی، جبکہ اب تک اس میدان میں کچھ بھی نہیں بدلا ہے اور اگر حالات موجودہ نہج پر آگے بڑھتے رہے تو آئندہ بھی کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔
پابندیوں پر دشمن کی خاص توجہ کے بارے میں دلائل پیش کرنے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بنیادی سوال کیا کہ؛ عناد و دباؤ کے اس ذریعے کا مقابلہ کرنے کا صحیح راستہ کیا ہے؟ آپ نے اس کے جواب میں ایک بار پھر امریکا کے اسی فرضی دو راہے کی بات کی، یعنی یا تو سر جھکا لینا یا سختیوں اور پابندیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جانا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ البتہ اس مسئلے میں ہم ایک حقیقی اور اصلی دو راہے پر ہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ یا تو پابندیوں سے پیدا ہونے والی مشکلات کو ہم بس تحمل کرتے رہیں یا مزاحمتی معیشت پر بھروسہ کرکے استقامت کریں اور مشکلات پر غالب آئیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد اس سال کے نعرے 'مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل' کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ بیشک حکومت نے کچھ کام انجام دئے ہیں منجملہ مزاحمتی معیشت کے لئے کمانڈ تشکیل دی ہے اور اس کے مثبت نتائج جیسے تجارتی لین دین میں توازن اور درآمدات کی شرح میں کمی کی اطلاعات حکومت دے رہی ہے لیکن ضروری ہے کہ اس میدان میں بنیادی کام انجام دئے جائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے لئے روڈ میپ معین کئے جانے اور اس کا خاکہ تیار کر لینے کی ضرورت پر زور دیا اور مزاحمتی معیشت کے میدان میں اقدام و عمل کے تعلق سے دس اساسی تجاویز پیش کیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کی پہلی تجویز تھی اقتصادی ماہیت کی سرگرمیوں اور سلسلہ وار اقدامات کی شناخت اور ان پر ارتکاز، آپ کا کہنا تھا کہ اس طرح اقتصادی نمو اور رونق کے دوسرے راستے بھی کھلیں گے۔ حکام کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی دوسری تجویز تھی قومی پیداوار کا احیاء اور پیداواری یونٹوں کو متحرک کرنا جو مزاحمتی معیشت کے تناظر میں اقدام و عمل کا تقاضا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بعض رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ داخلی پیداوار کی یونٹوں میں ساٹھ فیصدی یا تو بند ہیں یا اپنی گنجائش سے نیچے پیداواری سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں، حکومت ناقد ماہرین اور اقتصاد دانوں کی مدد سے قومی پیداوار میں تحرک پیدا کر سکتی ہے۔
غیر ملکی مصنوعات کی ایسی خریداری سے سختی کے ساتھ اجتناب جس سے داخلی پیداوار متاثر ہو اور غی ممالک سے آنے والے پیسے اور اثاثوں کا درست استعمال۔ یہ بھی اجرائی حکام کے لئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی دو اہم تجاویز تھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ امریکا کی شیطنت اور بعض عوامل کی وجہ سے ایران کا پیسہ ابھی ملک کے اندر نہیں آ سکا ہے، لیکن بہرحال بہت توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ پیسہ اسراف اور غیر ضروری خریداری کی نذر نہ ہو جائے۔
اقدام و عمل کے تعلق سے حکام کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی پانچویں تجویز اہم اقتصادی شعبوں کو نالج بیسڈ اکانومی کے مطابق ڈھالنا تھا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ وہ ایرانی استعداد جو دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے ایک میزائل کو اس کے نشانے پر درستگی کے ساتھ پہنچا سکتی ہے، دیگر اہم صنعتوں میں بھی، منجملہ تیل اور گیس، گاڑی، ہوائی جہاز اور ٹرین کے انجن بنانے اور نئی ایجادات میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ حکومت کو چاہئے کہ اس کے لئے زمین تیار کرے۔
ان شعبوں کو آپریشنل بنانا جہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو چکی ہے جیسے پیٹروکیمیکل اور بجلی گھروں کی تعمیر، تمام غیر ملکی سودوں کو ایران کے اندر ٹیکنالوجی کی منتقلی سے مشروط کرنا اقتصادی استحکام کے بارے میں حکام کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی چھٹی اور ساتویں تجاویز تھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح کرپشن کے بارے میں سیاسی اور تشہیراتی ہنگامہ مچائے جانے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی معیشت کے تناظر میں اقدام و عمل کے لئے آٹھویں تجویز کرپشن اور اسمگلنگ سے سختی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے جس نے ملکی معیشت کو گہرا نقصان پہنچایا ہے۔
انرجی کی افادیت میں اضافہ جس سے ایک طے شدہ پروسس کے تحت سو ارب تک کی بچت کی جا سکتی ہے، اقتصادی تحرک اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے چھوٹی اور اوسط سطح کی صنعتوں پر خاص حمایتی نظر رکھنا رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی آخری دو تجاویز تھیں جو 'مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل' کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے حکام کو پیش کیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دوسرے بھی کچھ کام ہیں جو اس سلسلے میں انجام دئے جا سکتے ہیں، لیکن اگر ان دس نکات کو عملی جامہ پہنایا گیا تو ملک کے اندر بہت بڑے اور ترقی پذیر انقلابی پروسس کا آغاز ہوگا جو ایران کی معیشت کو محفوظ بنائے گا اور پابندیوں کے اثرات کو بالکل کم کر دیگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر اس منطقی و انقلابی پروگرام کو عملی جامہ پہنا دیا گيا تو پھر پابندیوں کا نام سن کر کسی پر لزرہ طاری نہیں ہوگا اور امریکا کی پابندیوں سے بچنے کے لئے ایران کے اصولوں، اقدار اور ریڈ لائنوں سے پیچھے ہٹنے اور پسپائی اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ عوام اور سیاسی و اقتصادی امور کے ماہرین حکومت کی مدد کریں اور تینوں شعبوں (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کے درمیان مکمل ہم آہنگی قائم رہے۔ آپ نے فرمایا: "میں امید کرتا ہوں کہ مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدام و عمل کے زیر سایہ حکومت رواں سال کے آخر تک کئی ہزار صنعتی، پیداواری اور زرعی کارخانوں اور ورک شاپس کے احیاء کی عینی رپورٹ عوام الناس کے سامنے پیش کریگی اور عوام بھی ان اقدامات کو محسوس کریں گے اور ان کی بابت ان کے اندر اعتماد و اطمینان پیدا ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انقلابی انداز میں کام کرنا گزشتہ تین عشروں کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کی بنیادی وجہ ثابت ہوا ہے۔ آپ نے انقلابی فورسز کی قدردانی کی ضرورت پر ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ شہید ایٹمی سائنسدانوں کی خدمات، میزائل سے متعلق ریسرچ کے میدان میں شہید طہرانی مقدم کی کامیابیاں، اسٹیم سیلز کے شعبے میں جناب کاظمی، ثقافتی میدان میں شہید آوینی اور مرحوم سلحشور کی حصولیابیاں ثابت کرتی ہیں کہ انقلابی فکر و جذبہ کس طرح گرہیں کھولتا ہے اور کامیابیوں کے لئے زمین ہموار کرتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ثقافتی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انھیں بڑی اہمیت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ میں ایک بار پھر حکام کو تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ ملک بھر میں رضاکارانہ طور پر ثقافتی کاموں میں مشغول تنظیموں کی حمایت کریں۔ آپ نے فرمایا کہ ان تنظیموں کو روز بروز وسعت دی جانی چاہئے اور ثقافتی ادارے اپنی آغوش ان لوگوں کے لئے کھولنے کے بجائے جو اسلام، انقلاب اور اقدار کو نہیں مانتے مومن و انقلابی نوجوانوں کی پشت پناہی کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وطن عزیز کے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ملک اور حال و مستقبل سب آپ کا ہے، اگر آپ تمام میدانوں میں ایمان اور خود اعتمادی کے جذبے کے ساتھ موجود رہیں گے اور آگے بڑھیں گے تو امریکا ہی نہیں اس کے بڑے بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آستانہ مقدس رضوی کے مجاہد و حقیقی خدمت گزار عالم دین آیت اللہ واعظ طبسی مرحوم کی رحلت اور اس انقلابی عالم دین کے فقدان کو بہت بڑے خسارے سے تعبیر کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہجری شمسی سال 1395 مطابق 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017 کے آغاز کی مناسبت سے اپنے سالانہ پیغام میں نئے سال کو "مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل" کے سال سے موسوم کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام نوروز حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا مقلّب القلوب و الابصار۔ یا مدبر الّیل و النّھار یا محوّل الحول و الاحوال حوّل حالنا الی احسن الحال
السلام علی الصدّیقۃ الطّاھرۃ فاطمۃ المرضیّۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ۔ و السلام علی ولی اللہ الاعظم ارواحنا فداہ و عجّل اللہ فرجہ
تمام ایرانی خاندانوں اور ایرانیوں کو، وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں، عید نوروز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ عزیز ہم وطنوں آپ کو عید (نوروز) مبارک ہو۔ خاص طور پر شہیدوں کے عزیز اہل خانہ کو، عزیز جانبازوں (دفاع وطن میں اپنے اعضا کا نذرانہ پیش کرنے والے سپاہیوں) ان کے محترم اہل خانہ اور تمام ایثار گروں (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر پہنچنے والے مجاہدین) کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہم اپنے عظیم شہیدوں اور اپنے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ سال جو شروع ہوا، سنہ 95 (ہجری شمسی 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017) اس کا آغاز اور اختتام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اسم مبارک سے متبرک ہے۔ اس سال کا آغاز اور اختتام دونوں، ہجری قمری مہینوں کے مطابق اس عظیم ہستی کی ولادت کے ایام سے متصل ہے ۔ بنابریں مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ سنہ 95 (ہجری شمسی 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017) حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا)کی برکت سے ملت ایران کے لئے مبارک سال ہوگا اور ہم اس عظیم ہستی کی روحانیت، آپ کی ہدایات اور آپ کی زندگی سے سبق لیں گے اور مستفیض ہوں گے ۔
جو سال گزرا سنہ 94 (ہجری شمسی 21مارچ 2015 الی 19 مارچ 2016) دوسرے برسوں کی طرح یہ بھی شیریں و تلخ واقعات اور نشیب و فراز سے پر تھا۔ زندگی کا مزاج ہی یہی ہے۔ سانحہ حج کی تلخی سے لیکر 22 بہمن (11 فروری) کے جلوسوں اور 7 اسفند (26 فروری) کے انتخابات کی شیرینی تک۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے پیدا ہونے والی امیدوں سے لیکر اس کے تعلق سے ہمارے اندر موجود تشویش تک، یہ سب کچھ اس سال کے واقعات میں شامل ہے اور سارے ہی سال ایسےہی ہوتے ہیں۔ انسان کی زندگی کے ایام اور سال مواقع اور خطرات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہمارا کمال یہ ہونا چاہئے کہ مواقع سے استفادہ کریں اور خطرات کو بھی مواقع میں تبدیل کر دیں۔ سنہ 95 (ہجری شمسی 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017) اب ہمارے سامنے ہے۔ اس سال میں بھی ہمیشہ کی طرح مواقع اور خطرات ہیں۔ سب کوشش کریں کہ ہم اس سال کے مواقع سے صحیح معنی میں استفادہ کر سکیں اور اس سال کے آغاز سے لیکر اس کے اختتام تک ملک کے اندر واضح طور پر تبدیلی نظر آئے۔
سنہ 95 (ہجری شمسی 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017) کے لئے کچھ امیدیں ہیں۔ انسان جب حالات کا بطور مجموعی جائزہ لیتا ہے تو امیدیں نظر آتی ہیں۔ البتہ ان امیدوں کی تکمیل کے لئے محنت کرنی چاہئے۔ شب و روز کام کرنا چاہئے اور انتھک سعی و کوشش کرنا چاہئے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ملت ایران دشمنوں کے خطرات اور ان کے عناد کے مقابلے میں خود کو ہر طرح کے زک اور نقصان سے محفوظ بنا لے۔ ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہئے کہ ہم دشمنوں کے خطرات کے مقابلے میں محفوظ ہو جائیں۔ ہم نقصان پہنچنے کے امکانات کو بالکل ختم کر دیں۔
میرے خیال میں معیشت کا مسئلہ پہلی ترجیح ہے۔ یعنی جب انسان ترجیحی مسائل پر نگاہ ڈالتا ہے تو سب سے زیادہ فوری اور سب سے قریبی مسئلہ معیشت کا نظر آتا ہے۔ اگر ہم سب، ملت بھی، حکومت بھی اور مختلف حکام بھی اقتصادی میدان میں توفیق خداوندی سے درست، بروقت اور محکم کام انجام دے لے جائیں تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دوسرے مسائل جیسے سماجی مسائل، سماجی کمزوریوں(کودور کرنے)، اخلاقی مسائل اور ثقافتی مسائل میں بھی موثر انداز سے کام کریں گے۔ اقتصاد کے معاملے میں جو چیز اہم اور بنیادی ہے وہ داخلی پیداوار کا مسئلہ ہے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور بے روزگاری دور کرنے کا مسئلہ ہے۔ اقتصادی پیشرفت اور ترقی کرنے اور کساد بازاری کا مقابلہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہ عوام کو پیش آنے والے مسائل ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جنھیں عوام خود محسوس کرتے ہیں اور اان کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکام کے اعداد و شمار اور بیانوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے یہ مطالبات بجا اور صحیح ہیں۔ اگر ہم کساد بازاری کی مشکل کو حل کرنا چاہتے ہیں، اگر داخلی پیداوار کی مشکل کو رفع کرنا چاہتے ہیں، اگر بے روزگاری کے مسئلے کا ازالہ چاہتے ہیں، اگر ہم گرانی کی مشکل سے نجات چاہتے ہیں تو ان تمام مشکلات کا علاج اقتصادی مزاحمت اور مزاحمتی معیشت میں رکھا گیا ہے۔ مزاحمتی معیشت میں یہ ساری چیزیں شامل ہیں۔ مزاحمتی معیشت کی مدد سے بے روزگاری سے لڑا جا سکتا ہے، کساد بازاری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے، دشمنوں کی دھمکیوں کا ثابت قدمی سے سامنا کیا جا سکتا ہے، ملک کے لئے بہت سے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں اور ان مواقع سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ مزاحمتی معیشت کے لئے ہم محنت کریں، کام کریں۔
حکومت میں موجود ہمارے بھائیوں نے جو رپورٹ مجھے دی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے بہت وسیع پیمانے پر کام انجام دئے ہیں۔ لیکن یہ مقدماتی کام ہیں۔ یہ مختلف اداروں کو سرکولر اور احکامات جاری کرنے کا کام ہے جو مقدماتی کام ہے۔ جو چیز ضروری ہے کہ آگے جاری رہے وہ عبارت ہے اقدام کی انجام دہی، عمل آوری اور زمینی سطح پر عوام کے سامنے کاموں کے ثمرات پیش کرنے سے۔ یہ ہمارا فریضہ ہے جس کی تشریح میں ان شاء اللہ تقریر کے دوران اپنے عزیز عوام کی خدمت میں پیش کروں گا۔ بنابریں میں نے اس سال کے نعرے کے طور پر جو انتخاب کیا ہے وہ ہے؛ "مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل" مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل یہ اس منزل کی سمت جانے والاروشن اور سیدھا راستہ ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ البتہ ہم یہ توقع نہیں رکھتے کہ یہ اقدام اور عمل ایک سال کے اندر تمام مشکلات کو حل کر دے گا، تاہم ہمیں یہ اطمینان ہے کہ اگر اقدام اور عمل منصوبہ بندی کے ساتھ اور صحیح طریقے سے انجام دیا جائے تو ہم اس سال کے آخر تک اس کے اثرات اور نشانیوں کا مشاہدہ کریں گے۔ میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس راستے میں کوششیں کیں اور کر رہے ہیں۔ اپنے عزیز عوام کو ایک بار پھر تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں اور محمد و آل محمد اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام پردرود و سلام بھیجتا ہوں۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مجلس خبرگان رہبری کے چوتھے دور کے سربراہ اور نمائندوں سے ملاقات میں اپنی اہم گفتگو کے دوران چھبیس فروری کے انتخابات میں با معنی اور با شکوہ شرکت کرنے اور اسلامی نظام سے اپنی وفاداری کا صراحت سے اعلان کئے جانے پر عوام کی قدردانی کرتے ہوئے ان انتخابات کی خصوصیات بیان فرمائی اور مجلس خبرگان اور پارلیمنٹ کی اس نئے دور میں اہم ترین وظائف اور اولویت کا ذکر کیا اور موجودہ دور میں ملک کے لئے تین اصلی اور اہم اولویت پر مبنی وظائف کا تذکرہ کرتے ہوئے نفوذ یا اثر و رسوخ کے مسئلے کو نہایت سنجیدہ اور اہم مسئلہ قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ حقیقی پیشرفت اور ترقی کی تنہا راہ اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں " ملک کی داخلی پیداوار کو مستحکم کرنے" " انقلاب خصوصیات کے تحفظ"، " جہادی عمل"،" اسلامی اور قومی تشخص کی حفاظت" اور " دنیا کے خطرناک ہاضمہ میں ہضم نہ ہوجانے" میں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے چھبیس فروری کے انتخابات میں چونتیس میلین افراد کی شرکت اور تقریبا ستر میلین ووٹ ڈالے جانے کی وجہ سے با معنی اور اہم انتخابات قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عوام ان انتخابات میں حقیقت میں جلوہ نما ہوئے اور ووٹ ڈالنے کے اہل افراد میں سے باسٹھ فیصد کی شرکت  دوسرے ملکوں حتیٰ امریکہ کے مقابلے میں کئی فیصد زیادہ ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ عوام نے اتنے بڑے پیمانے پر شرکت کر کے درحقیقت اسلامی نظام پر اپنے اعتماد کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔
آپ نے مختلف انتخابات میں بعض افراد کے منتخب ہونے یا منتخب نہ ہونے کو ایک فطری عمل قرار دیا اور مجلس خبرگان کے نئے دور کے لئے منتخب نہ ہونے والے مجلس خبرگان کے نمائندوں کی کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ البتہ بعض بزرگان ایسے ہیں کہ منتخب ہونے یہ منتخب نہ ہونے کی وجہ سے انکی شخصیت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا اور جناب یزدی اور مصباح ان افراد میں سے ہیں کہ مجلس خبرگان میں انکی موجودگی اس ادارے کے معیار میں اضافے کا سبب ہے اور ان کا مجلس خبرگان میں نہ ہونا باعث ضرر اور خسارہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام میں انتخابات کی خصوصیات خاص طور پر چھبیس فروری کے انتخابات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات میں شرکت کے لئے عوام کا آزادی عمل انتخابات کی خصوصیات میں سے ایک ہے کیونکہ اسلامی نظام میں انتخابات میں زبردستی شرکت نہیں کرنا پڑتی بلکہ عوام اپنے شوق، اپنے جوش و جذبے اور اپنی فکر کے ساتھ تمام انتخابات میں شرکت کرتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی نظام میں انتخابات کو مقابلے پر مبنی ہونے کی خصوصیت کا حامل قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ چھبیس فروری کے انتخابات مکمل طور پر مقابلے پر مبنی انتخابات تھے کیونکہ ان انتخابات میں مختلف گروہوں کے اور مختلف افراد طرح طرح کے عناوین اور نعروں کے ساتھ شامل ہوئے اور ریڈیو ٹیلیویژن بھی مجلس خبرگان کے امیدواروں کے اختیار میں تھا اور سب نے حقیقی معنی میں کوشش اور مقابلہ کیا۔
آپ نے امن و امان پر مبنی انتخابات کی فضا کو گذشتہ انتخابات کا ایک اہم نکتہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایسے عالم میں کہ جب ہمارے اطراف کے ممالک میں عوام بدامنی اور دہشتگردانہ واقعات کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں، لیکن ہمارے یہاں اتنے عظیم اور وسیع عوامی اشتراک اور بغیر کسی تلخ حادثے کے انتخابات منعقد ہوئے اور وہ بھی اس طرح کہ تہران کے عوام صبح آٹھ بجے سے آدھی رات تک مکمل امن و امان کے ساتھ ووٹ ڈالنے کے لئے موجود رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انتخابات میں امن و امان برقرار کرنے پر پولیس، وزارت اطلاعات، وزارت داخلہ، سپاہ اور بسیج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، سلامت اور امانتداری کو ان انتخابات کی ایک اور خصوصیت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کے پروپیگنڈے اور اسی طرح ملک کے اندر بعض افراد کے دعوے کے برخلاف اسلامی نظام میں انتخابات مکمل طور پر شفاف تھے اور انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے کہیں بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ چھبیس فروری کے انتخابات نے ایک بار پھر ان افراد کی باتوں کو غیر معتبر قرار دے دیا ہے کہ جو سن اٹھاسی شمسی کے انتخابات کو غیر شفاف قرار دے رہے تھے اور جنہوں نے ملک میں وہ فتنہ برپا کیا تھا۔
آپ نے مزید فرمایا کہ جس طرح گذشتہ انتخابات شفاف تھے، اس سے پہلے سن اٹھاسی اور چوراسی شمسی کو منعقد ہونے والے انتخابات بھی صحیح اور شفاف تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وہ افراد کہ جو انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئے ان کے رد عمل کو مکمل طور پر نجابت کا حامل قرار دیتے ہوئے اس بات کو ان انتخابات کی ایک اور خصوصیت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ سن اٹھاسی شمسی کو انتخابات میں کامیاب نہ ہونے والے افراد کے غیر اخلاقی رد عمل اور ملک میں فتنہ و فساد پھیلانے کی کوشش اور دشمن کو موقع فراہم کرنے والے افراد کے برخلاف اس دفعہ جو لوگ انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئے انہوں نے کامیاب ہونے والے افراد کو مبارکباد دی اور یہ بات بہت زیادہ عظیم اور گراں قدر ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اس حصے کو سمیٹتے ہوئے فرمایا کہ چھبیس فروری کے انتخابات میں دشمن کی جانب سے عوام اور نظام کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور انتخابات کو غیر شفاف قرار دینے کی کوششوں کے مقابلے میں عوام کی جانب سے اسلامی نظام پر اعتماد کا اعلان تھا۔
آپ نے ایک بار پھر گذشتہ چند مہینوں کے دوران شورائے نگہبان پر نکتہ چینی کے موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اور ان افراد سے شدید گلہ کرتے ہوئے کہ جو نا چاہتے ہوئے بھی دشمن کا اتباع کر رہے ہیں، شورائے نگہبان کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں فرمایا کہ شورائے نگہبان نے اپنا کام سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا ہے اور اگر اس میں کوئی اشکال بھی ہے تو وہ قانون سے مربوط ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ بارہ ہزار افراد کی صلاحیت کی بیس دنوں میں جانچ پڑتال کیا جانا ایک قانونی مسئلہ ہے جسے برطرف ہونا چاہئے اور اس قانونی مسئلے کی وجہ سے شورائے نگہبان کو مورد الزام نہیں ٹہرانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خاصطور پر اہلیت ثابت ہونے کے موضوع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آیا اہلیت کے ثابت ہوئے بغیر کسی بھی شخص کو انتخابات میں امیدوار بنایا جا سکتا ہے اور کیا خداوند متعال کے سامنے جوابدہ ہوا جا سکتا ہے؟
آپ نے مزید فرمایا کہ جب شورائے نگہبان کے سامنے کسی امیدوار کی اہلیت ثابت نہیں ہوگی تو انتخابات کے لئے اس شخص کی اہلیت کی تائید بھی نہیں کرے گی اور یہ کوئی عیب نہیں بلکہ قانون پر عمل درآمد ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ شورائے نگہبان اسلامی جمہوری نظام کے ان چند اہم اداروں میں سے ایک ہے کہ جنہیں انقلاب کے اوائل سے ہی استکبار نے اپنی تخریب کاری اور یلغار کا نشانہ بنایا ہوا ہے فرمایا کہ شورائے نگہبان کے خلاف ہر طرح کا اقدام غیر اسلامی، غیر قانونی اور غیر انقلابی عمل ہے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ جن افراد کی اہلیت کی تائید نہیں ہوسکی ممکن ہے کہ وہ فطری طور پر ناراض ہوں لیکن انہیں چاہئے کہ وہ شورائے نگہبان کو خراب کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ قانونی طریقے سے اپنے اعتراضات کی پیگیری کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے چھبیس فروری کے انتخابات کی خصوصیات اور پیغامات پر گفتگو کے بعد فرمایا کہ عوام نے میدان میں آکر اپنے وظیفے پر عمل کیا ہے اور اب حکومتی عہدیداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وظیفے پر عمل کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے سب سے پہلے مجلس خبرگان کے نئے منتخب شدہ اراکین کے وظایف کو اسلامی نظام کا ایک اہم ترین رکن قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مجلس خبرگان کا وظیفہ انقلابی رہنا، انقلابی فکر کرنا اور انقلابی عمل کرنا ہے۔ 
آپ نے ملک کے آئندہ رہبر کے انتخاب میں بھی ان تینوں خصوصیات کو مد نظر رکھنے کو مجلس خبرگان کی بنیادی ترین ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ رہبر کے انتخاب میں ضروری ہے کہ ہر طرح کے تکلف، رواداری اور مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات، ملک کی ضرورتوں اور عین حقیقت کو مد نظر رکھا جائے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس عظیم فریضے کی ادائیگی میں اگر کوتاہی ہوئی تو یقینی طور پر ملک اور نظام کے امور کی بنیاد میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ 
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ماہرین اسمبلی میں بزرگ علمی ہستیوں اور علمائے کرام کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس اسمبلی کے ارکان کی ایک ذمہ داری حکام کے سامنے عوام کی مشکلات و مسائل کو رکھنا، عوام کے سامنے حقائق بیان کرنا اور انھیں حالات سے آگاہ رکھنا ہے۔
آپ نے اسی طرح پارلیمنٹ کے نو منتخب اراکین کے فرائض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ، حکومت سے تعاون کرے اور اس کا ساتھ دے لیکن اس تعاون کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پارلیمنٹ اپنے آئینی فرائض کے سلسلے میں کسی طرح کی چشم پوشی کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد حکومتی عہدیداروں کے فرائض پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے موجودہ حالات میں تین بنیادی فرائض اور ترجیحات پر توجہ دی جانی چاہئے۔ اول مستحکم مزاحمتی معیشت، دوم ملک کی تیز رفتار علمی پیشرفت کا سلسلہ قائم رکھنا اور سوم ملک کی ثقافت، قوم اور نوجوانوں کا تحفظ۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے پہلی ترجیح کے بارے میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کی اقتصادی مشکلات مستحکم مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کے نفاذ کے بغیر حل نہیں ہوں گی اور اقتصادی نمو بھی حاصل نہیں ہو سکے گا فرمایا کہ یہ طے پایا ہے کہ حکومت مزاحمتی معیشت کے لئے ایک مرکز قائم کرے اور اس مرکز کی کمانڈ کا بھی تعین کرے، اور اس سلسلے میں کچھ اقدامات انجام پائے ہیں، لیکن اقدامات ایسے ہونے چاہئے کہ محسوس ہوں اور نظر آئیں۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حکومتی عہدیداران مزاحمتی معیشت سے اپنی اقتصادی سرگرمیوں اور کوششوں کی نسبت واضح کریں اور ہر طرح کی اقتصادی منصوبہ بندی اور اقتصادی تعاون کی بنیاد مزاحمتی معیشت کی پالیسیاں ہوں جو اجتماعی تدبر کے بعد تیار کی گئی ہیں اور اکثر اقتصادی ماہرین کا ان پر اجماع ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دوسری ترجیح یعنی تیز رفتار علمی پیشرفت کا سلسلہ قائم رکھے جانے کے متعلق فرمایا کہ اگر ہم دنیا میں طاقت، عزت اور مرکزیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم و دانش کے شعبے کو تقویت پہچانی ہوگی اور علمی پیشرفت کی رفتار قائم رکھنی ہوگی۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علمی پیشرفت پر سنجیدگی سے توجہ رکھنی چاہئے کیونکہ اس کا ایک نتیجہ نالج بیسڈ اقتصاد ہے۔ 
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حکومتی عہدیداران کی تیسری ترجیح یعنی ملک کو ثقافتی اعتبار سے تحفظ فراہم کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ثقافتی تحفظ کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہمیں ہدف پر پورا یقین ہو اور اس کے بعد اس کے لئے منصوبہ بندی اور سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ 
آپ نے فرمایا کہ اگر یہ تینوں ترجیحات حکومتی عہدیداران کے ایجنڈے میں سنجیدگی کے ساتھ شامل کر لی جائیں تو اس کا نتیجہ ملک کی حقیقی پیشرفت کی صورت میں نکلے گا۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے ظاہری رونق اور اشیاء کی درآمد کے ذریعے نمائشی پیشرفت اور معاشرے کی وقتی خوشحالی کو عوام کے لئے ضرررساں قرار دیا اور فرمایا کہ پیشرفت عمیق، مستحکم اور داخلی ستونوں پر استوار ہونی چاہئے۔
آپ نے انقلابی خصوصیات کی حفاظت، مجاہدانہ طرز عمل، قومی و اسلامی شناخت و وقار کی حفاظت اور دنیا کے خطرناک ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی ہاضمے میں خود کو ہضم ہو جانے سے بچانے کو ترقی کے اہم لوازمات میں سے قرار دیا اور دشمن کی دراندازی کی سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ صحیح اطلاعات کے مطابق امریکا اور استکباری محاذ کا منصوبہ ملک میں اپنی جڑیں پھیلانا ہے، تاہم اس کے لئے بغاوت کا منصوبہ نہیں ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے ڈھانچے کے اندر اس طرح کی سازش کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے، بنابریں اب دوسرے طریقوں سے دراندازی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام اور حکام کو ہدف بنانے کو دشمن کی دراندازی کے دو بنیادی اہداف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حکام کی سطح پر دراندازی کا مقصد ملک کے حکام کے اندازوں اور تخمینوں کو بدلنا ہے جس کے نتیجے میں حکام کی فکر اور قوت ارادی دشمن کی گرفت میں چلی جاتی ہے اور ایسی حالت میں دشمن کو براہ راست مداخلت کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ عہدیدار نادانستہ طور پر وہی فیصلہ کرتا ہے جو دشمن کو پسند ہے۔
آپ نے دراندازی کی دوسری سطح میں عوام کے نظریات اور افکار اور اسلام و انقلاب سے ان کے لگاؤ، ان کی اسلام شناسی اور عمومی احساس ذمہ داری کو نشانہ بنائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی خود مختاری کی نفی بھی دشمن کا اہم ہدف ہے اور ملک کے اندر بھی بعض لوگ سادہ لوحی کی بنیاد پر وہی بات دہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خود مختاری کا نظریہ پرانا ہو چکا ہے، آج اس کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے۔ 
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام کے ذہنوں سے مغرب کی خیانتوں کی یادیں مھو کردینے کو دشمن کی ایک سازش قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عالمی پروپیگنڈے میں اس بات کی تشہیر کی جاتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس ملک کے حکام مغرب اور امریکا کے اتنے مخالف کیوں ہیں؟ 
آپ نے فرمایا کہ ہمیں مغرب سے نقصان پہنچا ہے، ہمیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ مغرب نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے، میں مغرب سے روابط منقطع کر لئے جانے کا طرفدار نہیں ہوں، لیکن ہمیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم کن لوگوں سے لین دین کر رہے ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے قاجاریہ دور کے وسط سے لیکن تا حال ملت ایران کے خلاف مغرب کے معاندانہ اقدامات کی بعض واضح مثالیں پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ قاجار سلاطین کی کمزوری کے سبب مغرب نے مراعات حاصل کیں اور ملت ایران کی پیشرفت کو روک دیا، جس کے بعد رضاخان اور پھر اس کے بیٹے کو اقتدار دلایا اور اس کے بعد 19 اگست 1953 کو تیل کی صنعت قومیائے جانے کی تحریک کچل دی گئی اور جہنمی خفیہ تنظیم ساواک کی تشکیل عمل میں آئی۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زراعت کی نابودی، علمی پیشرفت کے سد باب، اچھے دماغوں کے اغوا، ملک کے نوجوانوں کو بدعنوانی اور نشے کی جانب گھسیٹنے کو پہلوی دور حکومت میں مغرب کے زیر نگرانی تیارے ہونے والی سازشیں قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کامیاب ہوتے ہیں مغربی حکومتوں نے مخالفت شروع کر دی، سرحدی علاقوں میں انقلاب مخالف عناصر کو پیسہ، اسلحہ اور سیاسی مدد دی گئی، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، اسلامی انقلاب اور انقلابی عہدیداروں کے خلاف افواہیں پھیلائی گئيں، معاندانہ کارروائیاں کی گئیں اور جنگ میں بھی جہاں تک ممکن تھا مغرب نے صدام کی فوجی، سیاسی اور انٹیلیجنس مدد کی۔
آپ نے ایران کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں کو اسی دشمنی کی ایک مثال گردانتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام مغرب سے دشمنی کا ارادہ نہیں رکھتا تھا، بلکہ ایران میں ایک خود مختار سسٹم کی بنیاد رکھے جانے کے بعد مغرب نے اس سے دشمنی کا برتاؤ شروع کر دیا۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف معاملات منجملہ پابندیوں اور معاندانہ تشہیرات میں یورپ کی طرف سے امریکا کی پالیسیوں کی پیروی کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم ملک، قوم اور تاریخ کے ذمہ دار ہیں، اگر ہم دشمنوں کے معاندانہ اقدامات کے جواب میں استقامت کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو وہ ملک و قوم کو ہضم کر جائیں گے اور اس کا موقع انھیں ہرگز نہیں دینا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے بعض عہدیداران کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ہمیں ساری دنیا سے تعاون کرنا چاہئے، فرمایا کہ امریکا اور صیہونی حکومت کو چھوڑ کر ساری دنیا سے ہمارا رابطہ ہونا چاہئے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا بس مغرب اور یورپ تک محدود نہیں ہے۔ 
آپ نے تہران میں ناوابستہ تحریک کے اجلاس میں 130 سے زائد ملکوں کی شرکت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج طاقتیں دنیا میں بکھر چکی ہیں اور مشرق اور ایشیا کا علاقہ بھی بہت بڑا علاقہ ہے۔
حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ پہلے مغربی حکومتوں نے ملت ایران سے دشمنی کی بنیاد رکھی اور آج بھی وہ غلبہ حاصل کرنے کی فکر میں ہیں فرمایا کہ دشمن نے علمی، ثقافتی اور اقتصادی میدانوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے تقریبا دس راستوں منجملہ یونیورسٹیوں اور دانشوروں سے رابطے، بظاہر علمی دکھائی دینے والی کانفرنسوں میں دراندازی کی نیت کے ساتھ شرکت اور ثقافتی سرگرمیوں کی آڑ میں سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی کا تعین کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بیرونی تسلط سے بچائو کے لئے ملک کو اندرونی طور پر مستحکم کرنے کو بنیادی ترین طریقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ایران اندر سے مستحکم اور بے نیاز ہو تو وہی لوگ جو آج دھمکیاں دے رہے ہیں، اسلامی نظام سے روابط قائم کرنے کے لئے صف بستہ کھڑے دکھائی دیں گے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ مغربی وفود کی آمد و رفت تو انجام پا رہی ہے لیکن اب تک اس آمد و رفت کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں ملا ہے، لہذا ہمیں عملی میدان میں دیکھنا چاہئے کہ اس آمد و رفت کا کیا اثر ہوتا ہے، ورنہ صرف کاغذات پر اتفاق رائے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے ملکی حکام کی زحمتوں کی قدردانی کی اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سینتیس سالہ تجربات سے ثابت ہو گیا ہے کہ فکری، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور علمی اعتبار سے ہمیں مضبوط ہونا چاہئے اور جب ہم اس منزل پر پہنچ جائیں گے تو پھر حقیقت میں وقار حاصل ہوگا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں اپنی گفتگو کے آغاز میں چوتھی ماہرین اسمبلی کے رحلت پا جانے والے اراکین خاص طور پر آيت اللہ واعظ طبسی اور آیت اللہ خزعلی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ان دونوں عزیز بھائیوں نے حقیقت میں ماہرین اسمبلی کے اندر مہارت کے معیار کو قائم رکھا اور امتحانوں میں سرخرو ہوئے۔
رہبر انقلاب نے آیت اللہ واعظ طبسی کی مجاہدانہ انقلابی سرگرمیوں کا ذکر کیا اور انقلاب کی تحریک کے دوران اور پھر آستانہ مقدس رضوی کے لئے ان کی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس مومن، پرعزم اور صریحی موقف رکھنے والے انسان نے حساس ترین مواقع پر اپنی انقلابی پوزیشن کو آشکارا طور پر پیش کیا اور ۲۰۰۹ کے فتنے کے دوران ہر طرح کی رواداری، دوستی اور تکلف کو نظرانداز کرتے ہوئے میدان میں قدم رکھا۔
آپ نے آيت اللہ طبسی مرحوم کی پرشکوہ تشییع جنازہ میں عوام کی عظیم پیمانے پر شرکت کو مشہد کے عوام کی قدرشناسی کی نشانی قرار دیا اور فرمایا کہ فرائض منصبی ادا کرنے کے دوران اس عظیم انسان کے طرز زندگی میں کوئی بدلاؤ اور توسیع نہیں ہوئی، انھوں نے کبھی بھی اشرافیہ کلچر کو قریب نہیں آنے دیا اور اسی گھر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے جس میں انقلاب سے قبل زندگی بسر کرتے تھے۔
رہبر انقلاب نے آیت اللہ خزعلی کے تعلق سے فرمایا کہ وہ مرحوم بھی بڑے سخت امتحانوں سے گزرے اور جب بھی قریبی لوگوں اور رشتہ داروں کی بات ہوئی انھوں نے شجاعت کے ساتھ خود کو ہمیشہ انقلاب سے وابستہ رکھا، یہ خصوصیات انسانوں کو ارزش اور ان کے انقلابی جذبے کو معنی عطا کرتی ہیں۔ 
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام شہادت کی مناسبت سے تعزیت پیش کی اور کہا کہ اس عظیم ہستی کے مناقب بیان کرتے وقت توجہ رکھی جانی چاہئے کہ اختلاف پیدا کرنے والے مسائل نہ اٹھائے جائیں، کیونکہ آج استکباری محاذ کی شیطانی پالیسی شیعہ سنی اختلاف کی آگ بھڑکانے پر مرکوز ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ البتہ معیاروں اور آداب نیز مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخ بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اختلاف اور منافرت نہیں پیدا کی جانی چاہئے۔ 
آپ نے اس وقت خطے میں جاری جنگوں کے محرکات کو صرف اور صرف سیاسی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلام دشمن قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ ان اختلافات کو مذہبی اور مسلکی تنازعے کا رنگ دیں تاکہ انھیں آسانی سے ختم نہ کیا جا سکے، چنانچہ ہمیں چاہئے کہ اس خطرناک سازش میں مددگار واقع نہ ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حرم اہل بیت اطہار علیہم السلام کی حفاظت میں برادران اہلسنت کی شرکت، ان کی شہادت اور پھر ان کے اہل خانہ کی جانب سے اس پر افتخار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علمائے کرام اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اہل سنت کو ناراض کرکے امریکیوں اور صیہونیوں کی تفرقہ انگیز سازشوں کی تکمیل کی جائے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے مجلس خبرگان کے سربراہ آیت اللہ یزدی نے ایام شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے تعزیت پیش اور آيت اللہ واعظ طبسی اور آيت اللہ خزعلی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ماہرین اسمبلی کے انیسویں اجلاس کے بارے میں بریفنگ دی۔ 
اسی طرح مجلس خبرگان کے نائب سربراہ آیت اللہ شاہرودی نے بھی اجلاس میں اراکین اور مہمان اراکین کے اہم مذاکرات، بیانات، اور بحثوں کی تفصیلات بیان کیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے ایران کے انسانی حقوق کے ہیڈکوارٹر کے سیکرٹری سے ایک ملاقات کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی مبصر اداروں اور کنونشنوں کے ساتھ قریبی تعاون اور ان کے حوالے سے رپورٹیں پیش کرنے کی کارکردگی کو سراہا ہے.

انسانی حقوق کے ہیڈکوارٹر کی رپورٹ کے مطابق، یہ بات زید رعد الحسین نے جنیوا میں محمد جواد لاریجانی کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی.

اقوام متحدہ کے عہدیدار نے کہا کہ منشیات کے خلاف جنگ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران منشیات کے خلاف اس جنگ کی فرنٹ لائن میں ہے. 

اس موقع پر محمد جواد لاریجانی نے انسانی حقوق کی صورتحال پر دوطرفہ بات چیت پر روشنی ڈالی اور انسانی حقوق کونسل اور سیکرٹریٹ کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے مزید تعاون کی ضرورت پر زور دیا.

ایران اور جاپان افغانستان میں چاول کی کاشت کو فروغ دینے کے مشترکہ منصوبے میں تعاون کر رہے ہیں۔

ایران کے ہراز زرعی تحقیقاتی مرکز اور جاپان کی عالمی ترقیاتی ایجنسی نے سن دو ہزار چودہ میں افغانستان کی وزارت زراعت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت پوست کی کاشت کو ختم کرنے کے لیے افغان کسانوں کو چاول کی کاشت کی ترغیب دلائی جا رہی ہے۔

ایران اور جاپان افغان کسانوں کو چاول کی کاشت کی تربیت دینے کے علاوہ ضروری سہولتیں بھی فراہم کر رہے ہیں۔

تہران میں جاپان کی عالمی ترقیاتی ایجنسی کے دفتر کی نمائندہ مینا ای تو نے بتایا ہے کہ افغانستان میں بدامنی کے سبب، افغانستان کی مدد کے اس منصوبے سے متعلق تحقیقات کی انجام دہی مشکل تھی لہذا اس کام کے لیے ایران کا انتخاب کیا گیا ہے۔

ایران اور جاپان نے سن دو ہزار چودہ میں افغانستان کی مدد کے لیے ایران جاپان تعاون کے نام سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

افغانستان میں تیس برس سے جاری خانہ جنگی کے سبب اس ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی بدتر ہو گئی ہے۔

ہندوستان کے وزیر دفاع نے ایک بار پھر پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کی بنا پر پاکستان پر تنقید کی ہے۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق منوہر پاریکر نے منگل کے روز کہا کہ جنگجو پاکستان کی حمایت کے بغیر پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ نہیں کر سکتے تھے۔ ہندوستان کے وزیر دفاع نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فیڈرل پولیس اس حملے کے بارے میں تحققیات کر رہی ہے، کہا کہ یقینا پاکستان میں نان اسٹیٹ ایکٹرز اس حملے میں ملوث تھے۔

منوہر پاریکر نے گزشتہ بدھ کے روز بھی کہا تھا کہ ہندوستان پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کو پٹھان کوٹ ایئربیس کا معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

واضح رہے کہ جنوری کے مہینے میں مسلح افراد نے ہندوستان کی ریاست پنجاب کے پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کر دیا تھا جس میں سات سیکورٹی اہلکار اور چھے حملہ آور مارے گئے تھے۔

پیغمبروں کی زندگیوں پر مختلف تاریخی فیلمیں بنانے والے مشہور ایرانی ہدایت کار مرحوم 'فرج اللہ سلحشور' کے انتقال پر سپریم لیڈر 'حضرت آیت اللہ خامنہ ای' اور صدر 'حسن روحانی' نے تعزیت کا اظہار کیا.

ایران میں بننے والے ٹی وی سیریل حضرت ایوب، مردان آنجلس (اصحاب کہف) اور حضرت یوسف علیہ السلام کے ہدایت کار فرج اللہ سلحشور گزشتہ ہفتے کے روز تہران میں واقع بقیۃ اللہ اسپتال میں انتقال کرگئے.

مرحوم سلحشور کینسر کے مرض میں مبتلا تھے. ان کے پھیپھڑوں نے بیماری کے باعث کام کرنا چھوڑ دیا تھا جس کی وجہ سے مرحوم کو انتہائی نگہداشت یونٹ میں داخل کردیا گیا تھا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے.

رہبر معظم اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس مشہور ایرانی ہدایت کار کے انتقال پر ان کے خاندان سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مرحوم ہنر کے میدان بالخصوص ایرانی سینما میں ایک نمایاں آرٹسٹ تھے جن کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا.

صدر مملکت حسن روحانی نے بھی فرج اللہ سلحشور کے معزز خاندان کو دل کی گہرائی سے تعزیت اور تسلیت پیش کرتے ہوئے اللہ تعالی کی بارگاہ سے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی.

Tuesday, 01 March 2016 07:10

ملیشیا کی کرسٹل مسجد

ملیشیا کی کرسٹل (شیشہ ) کی بنی مسجد ، دنیا کی خوبصورت مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جس کا ہر حصہ کریسٹل یعنی شیشہ سے بنا ہوا ہے ، یہ مسجد ماڈرن ٹیکنولوجی سے بنی ہوئی ہے۔

میزان زین العابدین " جو ۲۰۰۶ میں ترنگانو ، ریاست کا بادشاہ تھا اس نے یہ مسجد بنانے کا حکم دیا ، کرسٹل مسجد بنانے کا آغاز ۲۰۰۶ میں ہوا اور فروری ۲۰۰۸ میں اس کا افتتاح کیا گیا۔


یہ مسجد خالص کرسٹل سے بنی ہوئی ہے ، جو جنوب مشرقی ایشیاء میں جکارتا کی "استقلال جامع مسجد"  کے بعد  دوسری بڑی مسجد ہے اور  ملیشیاء کی  خوبصورت مسجدوں میں شمار کی جاتی ہے۔
 

یہ مسجد ریاست تیرینگانو  کے تین ھزار آبادی والے  شھرکوالا تیرینگانو میں پوتراجیا کی  مصنوعی جھیل کے کنارے "وان من" اسلامی ثقافتی باغ میں واقع ہے۔
 

کرسٹل مسجد کی اندرونی معماری بے نظیر ہے اور اس میں پچیس ھزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں یہ مسجد ریاست ترنگانو میں سیاحوں کے لئے دلکش  جگہ شمار ہوتی ہے۔

اس مسجد کی شیشہ والی دیواروں نے اس کی ظرافت اور شفافیت کو دوبالا کیا ہے۔ اگر چہ ہلکے مواد جیسے شیشہ کے استعمال نے اس کو ناپایدار اور قابل شکست  جیسا بنایا ہے لیکن اس کا اندرونی ڈیزائن بہت مضبوط اور طاقتور ہے۔
 

کرسٹل مسجد اپنے اطراف کے  ماحول، باغ، پانی کے فواروں کے ساتھ بہترین طریقے سے بنائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ھم آھنگ ہے۔
 

مسجد کی محراب اور نماز کی مخصوص جگہ  کے ارد گرد خوبصورت نقش و نگارسے قرآنی آیات ، خداوند متعال کے اسماء گرامی خط کوفی سے لکھے گئے ہیں جس  نے فضا میں ایک خاص روحانی ماحول بنا دیا ہے۔
 


اس مسجد کے بنانے والوں نے اس کی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی طرف خاص توجہ دی ہے۔
 

ملیشا کے لوگوں کا خیال  ہے کہ یہ مسجد چینی طرز  کے مطابق بنائی گئی ہے جبکہ وہ یہ چاھتے تھے کہ وہ مسجد کو اپنے علاقائی طرز پر بناتے۔

رات کے وقت کرسٹل مسجد کا ایک خوبصورت منظر