
Super User
ہندوستان ایران میں مائع گیس کا ٹرمنل قائم کرے گا
ہندوستان ایران میں گیس فیلڈ کی توسیع اور مائع گیس کا ٹرمنل قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ بات ہندوستان کے وزیر پیٹرولیم دھرمندر پردھان نے نئی دھلی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایران کی فرزاد گیس فیلڈ کی ترقی میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ مائع گیس ٹرمنل تعمیر کرنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔
ایران کی فرزاد بی گیس فیلڈ سن دوہزار آٹھ میں ہندوستانی کمپنی او این جے ودیش نے دریافت کی تھی لیکن پابندیوں کے باعث اس علاقے میں ترقیاتی کام شروع نہیں کیا جاسکا تھا۔
توقع ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ ایران کے موقع پر مذکورہ گیس فیلڈ کے ترقیاتی منصوبے سے متعلق معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی بائیس مئی کو دو روزہ دورے پر تہران پہنچیں گے ۔
ہندوستان کے وزیر پیٹرولیم نے وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ ایران کو نئی دہلی تہران تعلقات کے فروغ کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
جدید نسل کی مستقل شناخت کے ساتھ تربیت کی جائے
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملک بھر سے آئے ہوئے ہزاروں اساتذہ سے ملاقات میں اساتذہ کے طبقے کی کوششوں اور زحمتوں کی قدر دانی کرتے ہوئے جدید نسل کی آزاد اور مستقل شناخت، عزت دار، مذہبی، ممتاز نمونوں اور کچھ کر گذرنے کی ہمت کی بنیاد پر تربیت کو ادارہ تعلیم و تربیت اور اساتذہ کا اصلی اور بہت عظیم وظیفہ قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر معاشرہ ان خصوصیات کے ساتھ تشکیل پائے تو یقینی طور پر تیل کی صنعت سے استفادہ کئے بغیراستقامتی معیشت، آزاد اور مستقل ثقافت کا حامل ہونا، کفایت شعاری اور دھونس و دھمکیوں کے مقابلے میں استقامت اور مزاحمتی رویہ با معنی کہلائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اساتذہ کے پیشے کو ایک مشکل کام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جو کام بھی مخلصانہ اور خدا کے لئے ہو وہ باقی رہنے والا اور نجات کا باعث ہے اور مخلصانہ کام انجام دینے کے مواقع اساتذہ کے پیشے میں مکمل طور پر موجود ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شہید آیت اللہ مطہری کی سرگرمیوں اور انکے علمی آثار کو مخلصانہ اور با برکت کام کا درخشاں نمونہ قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ اس زمان شناس اور ضرورت شناس عالم دین کے اخلاص کے نتیجہ ان کے برجستہ آثار کی صورت میں اس طرح موجود ہے کہ انکی شہادت کے دسیوں سال گذر جانے کے باوجود آج بھی اہل فکر ان کے آثار سے بہترین انداز میں بہرمند ہو رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ البتہ اساتذہ کے طبقے کا اخلاص اور قناعت اس بات کا سبب نہ بنے کہ حکام اس محنتی طبقے کے مادی اور معیشتی مسائل سے غافل ہو جائیں اور اسی طرح جس طرح کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اور ایک بار پھر کہوں گا کہ تعلیم وتربیت کے شعبے میں جو اخراجات اور بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے وہ دراصل سرمایہ گذاری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسکے بعد اپنی اصل گفتگو کا آغاز کیا اور فرمایا کہ بنیادی موضوع یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کا ادارہ کن خصوصیات کی بنا پر آئندہ آنے والی نسلوں کی پرورش اور تربیت کرنا چاہ رہا ہے اور ہمارے ملک کو اپنے اصل راستے پر چلنے کے لئے کس طرح کی نسل کی ضرورت ہے؟
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کے لئے ضروری خصوصیات کا ذکر کرنے سے پہلے ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کے لئے ہمارا مقابلہ کسی خالی فضا یا میدان میں نہیں ہے بلکہ ہمیں بین الاقوامی تسلط پسند نظام جیسے فریق کا سامنا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ بعض افراد تعجب کریں کہ تعلیم و تربیت اور بین الاقوامی تسلط پسند نظام کے درمیان کیسا ربط ہے۔ حالآنکہ حقیقت یہ ہے کہ اقوام عالم بالخصوص ایرانی جوانوں کے لئے تسلط پسند نظام نے پروگرام تشکیل دیا ہوا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ، صیہونی سرمایہ داروں اور بعض استکباری حکومتوں کو بین الاقوامی تسلط پسند نظام کا مظہر قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ تسلط پسند نظام چاہتا ہے کہ اقوام عالم کی آئندہ نسلیں، ایسی نسلیں ہوں کہ جو عالمی مسائل میں انکی مورد نظر فکر، ثقافت، نظریے اور سلیقے کو اپنائیں اور بالآخر پڑھے لکھے افراد، سیاست دان اور با اثر شخصیات اسی طرح فکر اور عمل کریں جیسا وہ چاہتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے استعمار کے اس ثقافتی پروگرام کی قدمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی مفکرین نے بارہا کہا ہے کہ انیسویں صدی میں استعمار کی جانب سے کشور کشائی کے بجائے بہترین اور سستا طریقہ اقوام عالم کی نوجوان نسل میں اپنی فکر اور ثقافت منتقل کرنا اور ایلیٹ اور اشرافیہ افراد کی اپنے مطابق تربیت کرنا ہے کہ جو تسلط پسند نظام کے سپاہیوں کے طور پر کام کریں گے۔
آپ نے خطے کی بعض حکومتوں کو استکبار کی اس پلاننگ کا واضح نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ حکومتیں آج بھی وہ کام انجام دیتی ہیں جو امریکہ چاہتا ہے اور حتی انکے تمام تر اخراجات بھی خود ہی اٹھاتی ہیں اور انہیں اس سلسلے میں کوئی امتیاز بھی نہیں ملتا اور اس کے صلے میں امریکہ ان حکومتوں کی حفاظت کرتا ہے اور انکا تختہ الٹنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ ہمارے مقابل فریق نے ہماری آئندہ آنے والی نسل کے لئے اس طرح کا منصوبہ بنا رکھا ہے، مقامی زبان، ثقافت اور افکار کی ترویج پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات فارسی کی ترویج کے بجائے انگریزی کی ترویج کی جاتی ہے اور اب بات یہاں تک جا پہچنی ہے کہ نرسری اور دیفر چھوٹی کلاسوں میں بھی بچوں کو انگریزی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اس کا مطلب کسی خارجی زبان کی مخالفت کرنا نہیں ہے بلکہ ہماری اس گفتگو کا اصل مقصد ملک کے اندر اور بچوں، نوجوانوں اور جوانوں کے درمیان اغیار کی ثقافت رائج کرنے کے موضوع پر بات کرنا ہے۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دوسرے ملکوں میں بھی اغیار کی فرہنگ و ثقافت اور زبان کی ترویج کے سدباب کے لئے پروگرام موجود ہیں، فرمایا کہ افسوس کہ ہمارے ملک میں اس اہم موضوع سے مقابلے کے لئے کوئی خاص پروگرام موجود نہیں اور اسکی وجہ سے اغیار کی ثقافت کی توسیع کے لئے ہم نے میدان کھلا چھوڑ رکھا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بعض مغربی ممالک میں فارسی زبان کی ترویج کی راہ میں رکاوٹیں اور سختیاں پیدا کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے موقع پر کہ جب وہ فارسی زبان کی ترویج کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں ہم ان کی زبان اور انکی ثقافت کو ترویج دیں آیا یہ کام حقیقت میں عقلی اور منطقی ہے ؟
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ یہ گفتگو اسکولوں میں انگریزی زبان پر پابندی کے لئے نہیں بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ کس طرح کے مقابل فریق کا ہمیں سامنا ہے اور ہمارے مد مقابل نے ہمارے ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے کس طرح کی پلاننگ کر رکھی ہے۔
آپ نے اس کے بعد ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کے لئے ضروری اور اہم خصوصیات اور مثالی سسٹم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اہم ترین خصوصیت کہ جو اسکولوں کے طالبعلموں کے نہایت ضروری ہے وہ آئندہ آنے والی نسلوں کی عزت مند، مذہبی اور انکی مستقل اور آزاد شناخت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں اور جوانوں کی اس انداز میں تربیت کرنی چاہئے کہ وہ اپنی آزاد سیاست، معیشت اور ثقافت کے حصول کے درپے ہوں اور اس سلسلے میں ہر طرح کی وابستگی مذموم شمار کی جائے گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس موضوع کے لحاظ سے ملک کو آسیب زدہ قرار دیا اور فرمایا کہ ثقافتی تعبیروں سے حد سے زیادہ دلچسپی رکھنا اس آسیب کا ایک نمونہ ہے کہ جو طاغوتی دور حکومت سے ہمیں وراثت میں ملا ہے۔
آپ نے استقامتی معیشت کے احیاء کے ضروری لوازمات میں سے ایک نوجوانوں اور جوانوں کو ایک مستقل اور آزاد شناخت دیئے جانے کو قرار دیا اور فرمایا کہ جب تک آزادی، استقامت اور مزاحمت کا جذبہ موجود نہ ہو اگر حکام استقامتی معیشت کے لئے سینکڑوں اجلاس بھی بلا لیں تب بھی اس کام کا نتیجہ مکمل اور صحیح طور پر سامنے نہیں آئے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ استقامتی معیشت، تیل پر تکیہ نہ کرنے والی معیشت اور آزاد ثقافت اس وقت با معنی ہوں گی کہ جب معاشرے میں آزاد اور مستقل شناخت تشکیل پا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے طالبعلموں میں اعلیٰ تدابیر اور موثر مفاہیم پیدا کرنے کو اساتذہ اور ادارہ تعلیم وتربیت کی ایک سنگین ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا کہ تفکر، ایمان، سماجی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد، اور اصلاح الگو مصرف ان اہم خصوصیات میں سے ہیں کہ جنہیں آئندہ آنے والی نسلوں میں پروان چڑھنا چاہئے۔
آپ نے ملک میں موجودہ مشکلات خاص طور پر کفایت شعاری کے سلسلے میں چند مثالیں پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ غیر ملکی اشیاء کا استعمال اور دسیوں اور سینکڑوں پر تعیش اشیاء کی اسمگلنگ، ملک میں عدم کفایت شعاری کی چند مثالیں ہیں کہ جنکی اصلاح ہونی چاہئے اور ان اصلاحات کی ایک بنیاد جوان نسل میں اس ثقافتی اصلاحات کا رائج کیا جانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مد مقابل کو تحمل اور برداشت کرنا آئندہ آنے والی نسل کی ایک اور نمایاں خصوصیت قرار دیا اور فرمایا کہ معاشرے میں اپنے مد مقابل کو برداشت کیا جانا رائج نہیں ہو پایا ہے کیونکہ جیسے ہی کوئی شخص چھوٹا سا بھی طعنہ دیتا ہے اس پر گھونسوں کی بارش کردی جاتی ہے، یعنی اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ادب اور باادب ہونے اور تدین اور اشرافیت کا شکار نہ ہونے کو طالبعلموں کی تربیت کے لئے ایک اور اہم خصوصیت قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ آئندہ نسلوں میں ان نمونوں کو رائج کیا جانا اور انکے بارے میں ثقافتی حوالے سے کام کیا جانا عظیم اساتذہ اور ادارہ تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہے۔
آپ نے اس بات پر تاکید کی کہ ادارہ تعلیم و تربیت تن تنہا اس مقدس وظیفے کو انجام نہیں دے سکتا، آپ نے اس سلسلے میں مختلف اداروں، شعبوں اور آرگنائزیشنز کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ادارہ تعلیم و تربیت میں شعبہ تربیت ان شعبوں میں سے ایک ہے کہ جو اس سلسلے میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے اور اس کی اہم ذمہ داریاں ہیں اور اس ادارے کو چاہئے کہ مسلسل، ہدف مند اور بھرپور جدوجہد اور اعتقادی، سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے سالم اقدامات کے زریعے اس راستے میں قدم بڑھائے اور اس سلسلے میں ہر طرح کی کوتاہی آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت پر کاری ضرب ثابت ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے نشریاتی ادارے صدا و سیما کو آئندہ نسل میں ان اہم خصوصیات اور نمونوں کو عملی جامہ پہنانے والے اداروں میں سے ایک اہم ادارہ گردانتے ہوئے اور قومی نشریاتی ادارے پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ سال بھی نشریاتی ادارے میں جوان نسل کے لئے منظم اور صحیح پلاننگ کے سلسلے میں گفتگو کی تھی لیکن افسوس کے اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
آپ نے مزید فرمایا کہ صدا و سیما صاحب فکر اور ماہر افراد سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیم وتربیت کے لئے اپنے پروگراموں میں ایک خاص حصہ مختص کرے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے گذشتہ ہفتے طالبعلموں سے ہونے والی ملاقات میں ایک طالبعلم کی جانب سے صدا و سیما میں جوانوں کے لئے مناسب اور موثر پروگرام پیش نہ کئے جانے کی شکایت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قومی نشریاتی ادارے کو چاہئے کہ ہنرمندانہ اور ماہرانہ انداز میں جوانوں کی فکری، روحانی، مذہبی اور علمی تقویت کے لئے پروگرام ترتیب دے اور بعض ٹی وی چینلوں میں آج کل پیش کئے جانے والے پروگرام اس موضوع سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتے۔
آپ نے وزارت مواصلات کو بھی آئندہ آنی والی نسلوں کی تربیت کے لئے ایک اہم ادارہ قرار دیتے ہوئے اور سائبر اسپیس اور اس کی رفتار میں روز بروز اضافے اور جوانوں کے سائبر اسپیس سے مستقل رابطے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی بھی شخص سائبر اسپیس کا مخالف نہیں ہے بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ اس میدان میں کہ جس میں لغزشوں کے امکانات بہت زیادہ ہیں ضروری ہے کہ اس سے صحیح طور پر استفادے کے لئے مواقع فراہم کئے جائیں نہ یہ کہ سائبر اسپیس آزاد اور غیر قابل کنٹرول رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وزارت مواصلات اور سائبر اسپیس کی اعلیٰ کونسل سے شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ سائبر اسپیس پر پابندی لگا دی جائَے کیونکہ یہ کام عقلمندانہ نہیں ہے لیکن جب دوسرے ممالک اپنی ثقافت کی حفاظت کی خاطر سائبر اسپیس سے استفادے کے لئے قوانین مقرر کرتے ہیں تو ایسے موقع پر ہم نے کیوں اسے آزاد چھوڑ دیا ہے؟
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اساتذہ میں جوان اور شاداب روح پھونکے جانے کو دارہ تعلیم و تربیت کی ایک اور ذمہ داری قرار دیا اور اسی زاویے سی ملک کے تعلیمی نظام کی از سر نو تشکیل پر تاکید کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قدیمی اور فرسودہ تعلیمی نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ تعلیمی نظام یورپی تعلیمی نظام سے حاصل کردہ نظام ہے اور یہ اب تک آثار قدیمہ کے طور پر باقی ہے اور پرانا ہوچکا ہے، حالانکہ اس کی از سر نو تشکیل نہایت ضروری ہے۔
آپ نے مغربی تقلید میں اور مغرب کی تحریر کردہ خطوط پر تعلیمی نظام کی از سر نو تشکیل کو غلط کام قرار دیا اور فرمایا کہ البتہ تجربات سے فائدہ اٹھانا اچھی بات ہے لیکن صاحبان فکر و اندیشہ کو چاہئے کہ تعلیم وتربیت کے سسٹم میں تبدیلی لانے کے ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے نئے اور جدید تعلیمی نظام کو تشکیل دیں اور اسکا اجرا کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جوان نسل کی مہارتوں اور صلاحیتوں میں اضافے کے سلسلے میں ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز کو اہمیت دیئے جانے کو ادارہ تعلیم و تربیت کی ایک اور اولویت قرار دیا اور مزید فرمایا کہ رپورٹوں کے مطابق، معاشرے میں بارہ ہزار اقسام کے مشغلے موجود ہیں، لیکن مختلف توانائیوں کے حامل تمام طالبعلموں کو کیا اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے یکساں اور واحد راستہ ہی طے کرنا پڑے گا؟
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم طالبعلموں کی استعداد اور انکی صلاحیتوں کی شناسائی کریں اور انہیں پروان چڑھائیں تاکہ انکی پرورش یافتہ صلاحیتیں مختلف مشاغل میں خلاقیت کا سبب بن سکے۔
لفظ اسکاوٹس جیسے بعض ناموں اور علامتوں سے استفادہ کئے جانے پر تنقید جن کا تعلق زمانہ طاغوت سے ہے، ادارہ تعلیم و تربیت کے عہدیداروں سے رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو کا ایک اور محور تھا۔
آپ نے مزید فرمایا کہ ادارہ تعلیم وتربیت میں " بسیج دانش آموزی" اور " اتحادیہ انجمنھای اسلامی دانش آموزان" جیسے عناوین اور اداروں کے ہوتے ہوئے ہمیں ایسے الفاظ اور اصطلاحات کو استعمال نہیں کرنا چاہئے کہ جو کچھ مخصوص معنی منتقل کرتے ہوں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ تعلیم و تربیت آئین میں ایک بنیادی اور اہم مسئلہ کے طور پر سرفہرست ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسکی تمام تر ذمہ داری حکومت کے کاندھوں پر ہے، لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنا سرگرم کردار ادا کرے اور اسی بنا پر سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تبدیل کرنے کا عمل کہ جن میں سے بعض کی فیسیں بہت زیادہ ہیں کوئی اچھا عمل اور سنجیدہ عمل نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ سرکاری اسکولوں کے معیار کو اتنا بہتر ہونا چاہئے کہ لوگوں کی ان اسکولوں کی جانب رغبت میں اضافہ ہوتا رہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے وزیر تعلیم کی فکری اور عملی سلامتی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس ادارے کی جانب سے اس بھاری وظیفے کی انجام دہی کے موقع سے فائدہ اٹھانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی "فرہنگیان" ایک بہت اہم مرکز ہے کہ جس کی کمیت اور کیفیت میں توسیع کے لئے سرمایہ گذاری کی جانی چاہئے۔
آپ نے اپنے گفتگو سمیٹتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی اور اسے مضبوط کرنے اور اس راستے میں اساتذہ کے اہم کردار پر تاکید کرتے ہوئے، علم کو داقتور ترین عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ طاقت صرف اسلحے کا حامل ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ، علم، اینام، قومی شناخت، استقامت اور انقلابی تشخص قدرت و طاقت میں اضافہ کرنے والے عناصر ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ دشمن جب آپ کی قدرت و طاقت کو دیکھتا ہے تو وہ عقب نشینی پر مجبور ہوجاتا ہے، لیکن جب دشمن کے مقابلے میں اپنے مبانی اور عناصر کے اظہار میں ہم اجتناب کریں یا ڈر و خوف کا اظہار کریں تو دشمن گستاخ ہوتا چلا جائے گا۔
آپ نے ایران کی سمندری مشقوں کے بارے میں کہ جو ابھی جاری ہیں امریکی کانگریس کے پلان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج دشمن ایسی بات کرتا ہے کہ جو اسکے منہ سے بھی بڑی ہے اور مثلا پلاننگ کرتا ہے کہ ایران خلیج فارس میں فوجی مشقیں نہ کر سکے، حالانکہ یہ باتیں انکی اضافی غلطیاں ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی عظیم اور بیدار ملت کی جانب سے بڑی طاقتوں کے بے جا مطالبات کو جواب کے قابل قرار دیا اور فرمایا کہ خلیج فارس ملت ایران کا گھر اور اور انکی اقامت گاہ ہے اور خلیج فارس کے ساحل اور بحر الکاہل کے بہت سارے ساحل اس طاقتور ملک کی ملکیت ہیں، بنا برایں ہمیں چاہئے کہ ہم اس علاقے میں اپنی موجودگی، فوجی مشقیں اور اپنی طاقت کا اظہار کریں، اور یہ امریکی ہیں کہ جو اس بات کا جواب دیں گے کہ وہ دنیا کے اس کونے سے اٹھ کر اس کونے میں کیوں آئے ہیں اور فوجی مشقیں کر رہے ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ بے جا مطالبات کرنے والی طاقتوں کے ساتھ اس طرح بات کی جانی چاہئے اور اس طرح کا رویہ اپنانا چاہئے۔
آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی بقا اور اسکی توانائی اور طاقت میں مسلسل اضافے کو دشمنوں کی شکست سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کچھ اس طرح سے تیار کریں ہمارا دشمن ہمیشہ ہم سے دہشت زدہ اور خوف میں مبتلا رہے۔
ایران اور جنوبی کوریا کے تعلقات کو مستقل، پائیدار اور امریکی دبائو سے آزاد ہونا چاہئے
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جنوبی کوریا کی صدر پارک گئون ہی سے ملاقات میں ایشیائی ممالک کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مثبت نگاہ اور ایران اور جنوبی کوریا کے درمیان مستقل اور پائدار رابطے کو دونوں ملکوں کے لئے مفید قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اور معاہدے اس انداز میں ہونے چاہئیں کہ ان پر خارجی عوامل اور پابندیوں کے اثرات مرتب نہ ہوں، کیونکہ یہ بات شایان شان نہیں ہے کہ ایران اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کے تعلقات پر امریکہ کے فیصلے اور ارادے اثر انداز ہوں۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای علمی، سائنس و ٹیکنالوجی، سماجی اور سیکورٹی جیسے مسائل یں تعاون اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کو دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند قرار دیا اور فرمایا کہ ہمارے درمیان موجود تاریخی اور ثقافتی مشترکات خارجہ سیاست میں ایشیا کی جانب ہماری بہت زیادہ رجحان کی دلیل ہے، اسی وجہ سے ہمارا اعتقاد ہے کہ ان ممالک من جملہ جنوبی کوریا کہ جو ایشیا کے پیشرفتہ ممالک میں سے ایک ہے کے ساتھ تعاون،مفاہمت، معاہدے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے اور دنیا میں موجود سیکورٹی اور امن و امان کی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر دہشتگردی اور ناامنی سے حقیقی اور صحیح انداز میں نمٹنے کی کوشش نہیں کی گئی تو مستقبل میں اس کا علاج کرنا مشکل ہوجائے گا اور پھر دنیا کو کوئی ملک بھی اس خطرے سے محفوط نہیں رہ سکے گا۔
آپ نے امریکہ کی جانب سے دہشتگردی کو دو مختلف قسموں یعنی اچھی اور بری دہشتگری میں تقسیم کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ دہشتگردی سے مقابلے کا نعرہ تو لگاتا ہے لیکن عملی میدان میں اس سے صادقانہ مقابلہ نہیں کرتا، حالآنکہ دہشتگردی اپنی ہر شکل میں بری ہے اور ملتوں اور اقوام عالم کے لئے خطرناک ہے، کیونکہ امن و امان کے بغیر مطلوبہ پیشرفت اور ترقی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور معاہدوں کے سلسلے میں دو جانبہ تعاون میں اولویت کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور جنوبی کوریا کے درمیان فائدہ مند تعاون شروع ہونے کا امکان موجود ہے لیکن اس تعاون میں اولویت صرف تجارت اور لین دین کو نہیں بلکہ ایسے معاہدے ہونا ضروری ہے کہ جو ایران کے انفرااسٹرکچر اور معیشت عامہ کے لئے فائدہ مند ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور معاہدوں کو بیرونی مداخلت قبول نہ کرنے کے مسئلے کو دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی بنیادی ضرورت قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ایران اور جنوبی کوریا کے تعلقات کو امریکہ کی پابندیوں، اس کی خودغرضیوں اور پابندیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے بلکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو مستقل، پائدار، مضبوط اور بے تکلف ہونا چاہئے۔ آپ نے دونوں ملکوں کے درمیان قدیمی لیکن فراز ونشیب پر مشتمل تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خوش قسمتی کے ساتھ آج جنوبی کوریا کی حکومت ایک موزوں اور ساتھ دینے والی حکومت ہے اور ایران بھی
کثرت سے موجود امکانات، جوان، با صلاحیت اور تعلیم یافتہ افرادی قوت، کی وجہ سے پائیدار تعاون کا حامل ملک ہے۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر روحانی بھی موجود تھے، جنوبی کوریا کی صدر پارک گئون ہی نے اپنے سفر تہران کو دوطرفہ تعاون اور تعلقات کی راہ میں ایک گراں قدر موقع قرار دیا اور کہا کہ ہم نے پابندیوں کے دور میں بھی کوششیں کی کہ جہاں تک ہو سکے ایران میں اپنی موجودگی جاری رکھیں۔
جنوبی کوریا کی صدر نے ایران کو کار آمد اور موثر افرادی قوت اور اسی طرح بہترین جفرافیائی اہمیت کا حامل ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ان دونوں ملکوں کے تعلقات خاص طور پر اقتصادی تعلقات فروغ پائیں گے۔ محترمہ پارک گئون ہی نے رہبر انقلاب اسلامی کی ایران میں اقتصادی پیشرفت اور آپ کی علمی، اقتصادی اور صنعتی ترقی اور خود مختاری کے بارے میں گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اطمینان ہے کہ ایران میں اقتصادی پیشرفت اور ترقی کے بارے میں آپ کی نصیحتیں آپ کے ملک کے مستقبل کے لئے بہت فاءدہ مند ثابت ہوں گی اور ہم بھی نیز سائنس و ٹیکنالوجی، اقتصاد اور ماحولیات سمیت مکتلف شعبوں میں ایران کے ساتھ اپنے تعاون کے فروغ کے خواہاں ہیں۔
فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے جنرل سیکرٹری رمضان عبداللہ اور انکے ہمراہ وفد سے ملاقات میں خطے کی موجودہ صورتحال کے بارے میں تجزئیہ کرتے ہوئے موجودہ تبدیلیوں کی حقیقت کو مغربی محاذ کی جانب سے امریکہ کی سرکردگی میں اسلامی محاذ کے ساتھ وسیع پیمانے پر جنگ کے زریعے اس خطے پر تسلط حاصل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ آج خطے میں جو وسیع پیمانے پر جنگ چھیڑی گئی ہے، یہ اسی جنگ کا تسلسل ہے کہ جو سینتیس سال پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف شروع کی گئی تھی اور اس جھڑپ میں مسئلہ فلسطین اصل اور مرکزی محور کا حامل مسئلہ ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران جس طرح ابتدا ہی سے فلسطین کی حمایت کو اپنا وظیفہ سمجھتا آیا ہے مستقبل میں بھی اپنے اس وظیفے پر عمل کرتا رہے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ فلسطین کے مسئلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف کسی خاص زمانے سے تعلق نہیں رکھتا، فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور جدوجہد کے دوران امام خمینی کے مواقف میں متعدد مرتبہ فلسطین کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت سے مقابلے جیسے موضوعات بیان کئے گئے اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی ہمارے کاموں میں فلسطین کے عوام کی حمایت اولویت رکھتی تھی، بنا بر ایں فلسطین کی خواہشات کا دفاع فطری طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کی ذات میں شامل ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اسلامی انقلاب ایسی شرائط میں کامیاب ہوا کہ امریکہ اس وقت اس خطے میں اپنی طاقت کی بلندیوں پر تھا اور اس خطے کے تمام تر امور بظاہر امریکہ کو ہی نفع پہنچا رہے تھے، لیکن اسلامی انقلاب نے اسلامی معاشرے کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دی اور خطے کی صورتحال کو یکسر تبدیل کردیا۔
آپ نے اسلامی انقلاب کے گھٹنے ٹیک دینے یا اسلامی نظام کے اپنے مواقف سے پیچھے ہٹ جانے کے لئے وسیع پیمانے پر اور مختلف طریقوں سے سیاسی، اقتصادی حتی فوجی دبائو ڈالے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ آج جو کچھ اس خطے میں ہو رہا ہے در حقیقت یہ ایران کے اسلامی نظام سے امریکہ کے تصادم کا تسلسل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی محاذ کے خلاف، امریکی سرکردگی میں مغربی محاذ کی جانب سے وسیع پیمانے پر شروع کی جانے والی موجودہ جنگ کے اصلی مقصد کو اس خطے پر قبضہ کئے جانے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ خطے کی صورتحال کو اس نگاہ سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے اور اسی پیرائے میں شام، عراق، لبنان و حزب کے مسائل اس بڑے پیمانے پر ہونے والے اس تصادم کا ایک حصہ ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ موجودہ صورتحال میں فلسطین کا دفاع اسلام کے دفاع کی علامت ہے، فرمایا کہ استکباری محاذ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر کوششیں کر رہا ہے تاکہ اس جنگ کو اہل سنت اور شیعوں کی جنگ ثابت کر سکے۔
آپ نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ شام میں، شیعہ حکومت نہیں ہے، فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پھر بھی شام کی حکومت کی حمایت کرے گا، کیونکہ شام کے مقابلے میں جو لوگ کھڑے ہیں درحقیقت وہ اصل اسلام کے دشمن اور امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت کے فائدے کے لئے کام کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اہل سنت اور شیعوں کے درمیان موازنہ کو استعمار اور امریکہ کی ایک سازش قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ خطے کی موجودہ صورتحال میں اہم ترین مسئلہ وسیع پیمانے پر ہونے والی اس جنگ کے دو اصل محاذوں کی صحیح شناخت اور اپنی موجودہ صورتحال کا صحیح ادارک ہے۔ کیونکہ اگر ان دو محاذوں کے درمیان موجود فاصلے کی حد کو صحیح طور پر نہیں پہچانا گیا تو ممکن ہے کہ ہم نا چاہتے ہوئے بھی اسلامی محاذ کے مدمقابل کھڑے ہوجائیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے کے مسائل کے بارے میں اپنے اس نظریے کی بنا پر امریکہ کو اپنا اصلی دشمن اور غاصب صیہونی حکومت کو اس کا پشت پناہ سمجھتا ہے،آپ نے فرمایا کہ ایران فلسطن کا دفاع کئے جانے کو ہمیشہ اپنا وظیفہ سمجھتا ہے اور اپنے اس وظیفے کی انجام دہی کو ہمیشہ جاری رکھے گا۔
آپ نے گذشتہ چند سالوں کے دوران اسلامی نظام کے خلاف امریکہ اور اسکے پٹھووں کی جانب سے وسیع پیمانے پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان پابندیوں کا اصل مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کو اسکے اپنے اس اصلی راستے سے دور ہٹانا ہے جس پر وہ رواں دواں ہے، لیکن وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائے ہیں اور مستقبل میں بھی وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہم خدائے متعال کے وعدے کی بنا پر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس وسیع پیمانے پر ہونے والی جنگ میں ہم کامیاب ہوں گے اور ہم آج تک کامیاب ہوتے چلے آئے ہیں، کیونکہ ہمارے دشمن اسلامی نظام کی نابودی کے خواہاں ہیں لیکن آج بھی نہ صرف یہ کہ اسلامی نظام جاری و ساری ہے بلکہ روز بروز مختلف زاویوں سے ترقی و پیشرفت کر رہا ہے اور گہرائیوں تک پھیل چکا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نےاسی طرح حزب اللہ لبنان پر مزید دبائو بڑھانے کے لئے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے سیکرٹری جنرل کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حزب اللہ لبنان اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے کہ وہ ان اقدامات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوجائے اور آج قطعی طور پر غاصب صیہونی حکومت حزب اللہ لبنان کی وجہ سے گذشتہ زمانے کی نسبت کہیں زیادہ خوف وہراس کا شکار ہے۔
آپ نے اہل حق کی کامیابی سے متعلق سنت الہی کے تحقق پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کامیابی یقینی ہے، اگرچہ اس میں نشیب وفراز اور کمی اور زیادتی ہے، لیکن دین خدا کی مدد کرنے والوں کے لئے الہی وعدہ کبھی تبدیل نہیں ہوسکتا۔
اس ملاقات کے آغاز میں تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے سیکرٹری جنرل رمضان عبداللہ نے فلسطین کے مسئلے پر اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے کی جانےوالی تمام تر حمایتوں اور مواقف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے غزہ اور غرب اردن کی موجودہ صورتحال پر ایک رپورٹ پیش کی اور کہا کہ غزہ کے عوام سخت ترین شرائط اور محاصرہ جاری رہنے کے باوجود آج بھی ثابت قدم اور استوار ہیں اور گرب اردن میں بھی غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے وسیع پیمانے پر ہونے والے شدید کریک ڈاون کی وجہ سے فلسطین کی نوجوان نسل کے عزم و حوصلے نے انتفاضہ کے شعلوں کو ایک بار پھر بھڑکا دیا ہے۔
انہوں نے فلسطین میں مزاحمتی گروہوں کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں اور انکی ناقابل یقین توانائیوں کا تذکرہ کرتےہ ہوئے اور خطے کی موجودہ صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اور انکے پٹھو ممالک اپنی سازشوں کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کا غیر حقیقی چہرہ پیش کرنے اور اسی طرح غاصب صیہونی حکومت کو فراموش کر دیئے جانے، اور اہل سنت اور شیعوں کے درمیان جنگ کے ذریعے اس خطے کو ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں اسی لئے حزب اللہ لبنان پر دبائو بڑھایا گیا ہے، لیکن تحریک جہاد اسلامی فلسطین موجودہ صورتحال کا صحیح ادارک کرتے ہوئے حزب اللہ اور امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت کے مدمقابل موجود مزاحمتی محاذ کی حمایت پر تاکید کرتی ہے۔
مسجد جامع گلپائیگان
گلپائیگان شہر کی جامع مسجد ، سلجوقی دور کی اہم مساجد میں سے ہے ، اور ایران کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے اس مسجد کی تاریخ تعمیر کو مد نظر رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مسجد کا ایرانی اسلامی فن تعمیر ، دوسری بڑی مساجد کی تعمیر کے لیے ایک نمونہ تھا۔۔ خصوصا ان علاقوں میں جہاں سلجوقیوں کی حکومت تھِی
مسجد جامع گلپائیگان کی تاریخ تعمیر
گلپائیگان کی جامع مسجد ۵۰۸ ہجری قمری میں ابو شجاع محمد بن ملک شاہ سلجوقی کے دور حکومت میں بنائی گئی ہے ، اس سے پہلے ابو شجاع کے نام کا استناد کرتے ہوئے جو مسجد کے گنبد کے ارد گرد لکھا گیا ہے ، مسجد کی تاریخ تعمیر ۴۹۸ اور ۵۱۲ کے سالوں کے درمیان جانتے تھے ، یعنی جن سالوں میں ابو شجاع حکومت کرتے تھے۔ لیکن اس کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے محراب کے کتبوں کو پڑھ کر یہ اندازہ لگایا کہ بعض کتبے مسجد کے فرش پر موجود ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مسجد کی تعمیر کی تاریخ بھی اس پر موجود ہوگی اس طرح مسجد کی تعمیر کی دقیق تاریخ معین کی گئی۔
گلپائیگان کی جامع مسجد ابو نصر ابراھیم بن محمد بن ابراھیم بابا عبد الملک کے کہنے پر بنائی گئی ہے اور اس کا نام مسجد کی دو جگہوں ، گنبد کے ارد گرد اور محراب کے حاشیے میں لکھے گئے کتبے پر درج ہے۔
مسجد کا فن تعمیر
اس مسجد کو ایک قزوینی معمار ابو عمر بن محمد القزوینی ( معروف بہ بواسار کسرار) نے تعمیر کیا ہے ، اور اس کا نام بھی محراب کے اوپر ، گنبد کے نیچے کتبے پر نقش کیا گیا ہے۔
جن باقی آثار پر سلطان ابو شجاع محمد بن ملک شاہ سلجوقی کا نام نقش کیا گیا ہے وہ یہ ہیں ، مسجد جامع ساوہ کی مینار پر ۵۰۴ ھجری، قزوین کی جامع مسجد پر ۵۰۸ ھجری، ۲ کمرے ترکیہ کے دیار بکر کی جامع مسجد میں تاریخ ۵۱۱ ھ۔ اور دمشق کی مسجد اموی کے شبستان کے مقابل والی دیوار پر تاریخ ۵۰۳ ھ۔
جب گلپائیگان کی مسجد جامع کی تاریخ تعمیر کا دوسری مساجد جیسے دیار بکر ترکیہ ، دمشق ، قزوین اور ساوہ سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مختصر دور میں ۵۰۳ سے لے کر ۵۱۱ھ تک کئی مساجد سلجوقی دور میں ایک دوسرے سے دور مختلف علاقوں میں تعمیر کی گئی ہیں ، یہاں سے پتا چلتا ہے کہ تاریخ میں حکومتیں اپنی مشروعیت اور طاقت دکھانے اور اپنے حکومتی دائرے کی وسعت کو سمجھانے کے لیے مسجد کو ایک اہم رکن جانتی تھیں ، دوسری جانب شاید ان مساجد کے فن تعمیرمیں گہرائی سے تحقیق کرنے پر ان میں موجود بہت سی شباھتیں روشن ہوجائیں گی۔
فتح علی شاہ قاجار کے دور میں گنبد کے دو طرف دو شبستان مسجد کی مشرقی اور مغربی سمت میں تعمیر کئے گئے اور انہیں عہد سلجوقی کی تعمیر پر اضافہ کیا گیا۔ گنبد کی تعمیر سلجوقی دور سے متعلق ہے اور اس کی تاریخ چھٹی ہجری قمری کے ابتدائی سال ہیں۔ مسجد جامع گلپائیگان کے صحن کا رقبہ ، دہلیزوں اور کمروں اور ڈیوڑھیوں کے بغیر تقریبا ۱۶۰۰ مربع میٹر ہے ، مسجد کے گنبد کی اونچائی ۲۲ میٹر ہے اندر سے گنبد کا رقبہ ۱۲ میٹر X ۱۲ میٹر ہے۔
صحن کے مرکز میں پانی کا مختصر گہرائی والا بڑا حوض بھی موجود ہے۔ یہ حوض نماز گزاروں کے وضو کرنے کے علاوہ مسجد کو اور بھی خوبصورت بناتا ہے۔
مسجد جامع گلپائیگان ۱۳۱۰ ھ، ش میں فرانس کے آندرہ گدار نامی فرد کی سرپرستی میں تعمیر ہوئی ہے۔
مسجد جامع گلپائیگان۱۳۱۰ ھ ، شمسی کی تعمیر سے پہلے مسجد کی محراب دو حصوں پر مشمتمل تھی ، جھاں نیچے والی طرف سے محراب کی زمین اور محراب کے اوپر والے حصے میں "اللہ احد" ، اور " اللہ صمد" کے کلمات خط کوفی سے لکھے گئے ہیں۔
مسجد جامع گلپائیگان کی محراب کے ارد گرد قرآن کریم کی آیات کوفی خط میں ٖلکھے گئے ہیں۔
امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے محنت کشوں کے دن کی مناسبت سے آئے ہوئے ہزاروں محنت کشوں سے ملاقات میں، انقلاب اور نظام کے لئے محنت کش طبقے کی وفاداری اور ثبات قدم کی قدردانی کرتے ہوئے، محنت کش طبقے کی مشکلات کے حل، مقامی پروڈکشن کو تقویت دینے، اسمگلنگ سے سنجیدگی سے نمٹنے، اور ایسی تمام پروڈکٹس کی درآمد پر پابندی عائد کئے جانے کی تاکید کی کہ جو ایرانی پروڈکٹس سے مشابہت رکھتے ہوں اور امریکہ کی کینہ پروری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ غیر قابل اعتماد امریکی، ایران پر مختلف طرح کی پابندیوں میں اضافے کےزریعے اس بات کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں کہ ایران فوبیا پیدا کر کے، اس ملک کے دوسرے ممالک کے ساتھ اقتصادی معاملات کی راہ میں عملی طور پر رکاوٹیں کھڑی کر سکیں۔
آپ نے اسی طرح پارلیمنٹ کے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل تمام افراد کو انتخابات کے اس مرحلے میں شرکت کرنے کی دعوت دی۔
رہبر انقلاب اسلامی ںے محنت کش طبقے کی زحمتوں اور کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور محنت کشوں سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے معاشرے میں محنت اور جدوجہد کو ایک ارزش قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ معاشرے میں جو فرد بھی محنت اور جدوجہد میں مشغول ہے، چاہے وہ حکام ہوں، وزراء، یونی ورسٹی کے اساتذہ، مدرسوں اور اسکول کالجوں کے طالبعلم، افسران یا دوسرے افراد سب کے سب درحقیقت محنت کش کی تعریف کے زمرے میں آتے ہیں اور درحقیقت وہ اقدار وجود میں لاتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ اسلام کی نگاہ میں، بے روزگاری، سستی اور بیہودہ وقت ضائع کرنا خلاف اقدار ہے، فرمایا کہ وہ تمام افراد کہ جو مختلف شعبوں میں مصروف عمل ہیں انہیں چاہئے کہ کام کی کیفیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کام کے حق کو ادا کریں اور اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کر دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ ملک میں جس کسی نے بھی کوئی عہدہ قبول کیا ہے اسے چاہئے کہ وہ ہمہ وقت اور اپنی پوری توانائی اس عہدے کی ذمہ داریاں نبھانے میں صرف کرے۔
آپ نے گذشتہ سینتیس سالوں کے دوران انقلاب اور اسلامی نظام سے محنت کش طبقے کی وفاداری اور ثبات قدم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ معیشتی مشکلات کے باوجود محنت کش طبقے نے کبھی بھی ضد انقلاب تشہیرات پر کان نہیں دھرے اور وہ کبھی بھی نظام کے مقابلے پر کھڑے نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ہمیشہ اسلامی نظام کا دفاع کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نظام اور انقلاب کو درپیش مسائل کے سلسلے میں محنت کش طبقے کی وفاداری اور بصیرت پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے، استقامتی معیشت کی سیاست کے اجرا کے لئے محنت کشوں، اقتصادی فرموں اور اعلی حکام کی ذمہ داریوں جیسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ استقامتی معیشت، اقدام اور عمل کا اصلی پیغام یہ ہے کہ حکام بالا استقامتی معیشت کی سیاست کی تمام شقوں کے سلسلے میں پلاننگ کریں اور انکا حقیقی معنی میں اجرا کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے استقامتی معیشت کی سیاست کے اجرا میں خاص طور پر محنت کشوں کے کردار اور انکے حصے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا اس سلسلے میں محنت کشوں کی سب سے اہم ذمہ داری صحیح، معیاری اور مستحکم کام انجام دینا ہے۔
آپ نے کام کی کیفیت کو بہتر بنانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ محنت کشوں کے کام کی کیفیت کو بہتر بنانے کے لئے جملہ مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ مہارتوں میں اضافے اور مزدوروں کی مہارتوں کو بہتر بنانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں اور اس سلسلے میں حکومت کی طے شدہ ذمہ داریاں ہیں۔
رہبر انقلاب نے محنت کشوں کے پیشوں کی سیکورٹی کو کام کی کیفیت میں اضافے کے لئے ایک اہم اور موثر امر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ محنت کشوں کے مشاغل کی سیکورٹی اور ضمانت اعلی حکام اور انکے مالکان کی ذمہ داری ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملکی صنعتوں اور کارخانوں کے بند ہونے کو ایک عظیم آفت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض اوقات یہ کارخانے مالی خسارے، امکانات کے نہ ہونے یا مشینوں کے فرسودہ ہونے کی وجہ سے بند ہوجاتے ہیں اور اس طرح کے مسائل میں ان کے مالکان قصوروار نہیں ہوتے لہذا صنعت و تجارت، بینکنگ، سائنس و ٹیکنالوجی اور نالج بیسڈ کمپنیوں اور اداروں کے مالکان کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
آپ نے مزید فرمایا کہ البتہ بعض دیگر موارد میں مالکان کی جانب سے سوء استفادہ کئے جانےاور قرضوں اور دیگر مالی سہولیات سے پروڈکشن کے بجائے عمارتیں تعمیر کئے جانے کی وجہ سے کارخانے بند ہوجاتے ہیں اور اس طرح کے موارد میں عدلیہ، مجریہ اور انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کو چاہئے کہ وہ سنجیدگی سے ان موارد کی تفتیش کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دولت میں اضافے کا کوئی بھی مخالف نہیں ہے لیکن معاشرے میں موجود محنت کشوں اور محروم طبقوں کو پیروں تلے روند کر یہ مال جمع نہیں کیا جانا چاہئے۔
آپ نے ایرانی محنت کشوں کی پروڈکٹس کی تشہیر، کام کی جگہ کی سیفٹی، اور پروڈکٹ کی قیمت میں موجود اجرت کی رقم میں اضافے کو محنت کشوں کے کام کی کیفیت میں بہتری کا ایک اور موثر عامل قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ان تمام موارد میں صحیح طریقوں سے استفادہ کرتے ہوئے اور اسی طرح دوسرے ممالک کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے صحیح پلاننگ کی جا سکتی ہے تاکہ محنت کشوں کے اندر کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور انکے کام کی کیفیت بہتر ہوسکے ساتھ ہی ساتھ مالکان کو بھی نقصان نہ پہنچے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں محنت کشوں کے حقوق بھی بیان کئے اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ مالک اور محنت کش اسلام کی منطق میں ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے دشمن۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ان سرمایہ داروں کی قدردانی کرتے ہوئے کہ جو اپنے سرمائے کو بغیر کسی پریشانی کہ بینکوں میں رکھنے کے بجائے پروڈکشن اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لئے میدان میں لاتے ہیں مزید فرمایا کہ محنت کشوں کا مالکان سے خلوص دل کے ساتھ تعاون، حکام بالا کی جانب سے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے جدوجہد اور برآمد کرنے کا زمینہ فراہم کرنے اور بیرونی ممالک میں برآمد کرنے والے ایکسپورٹرز کے حقوق مالکان کے جملہ حقوق ہیں کہ جن کی رعایت کی جانی چاہئے۔
آپ نے اس موقع پر اعلی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ برآمد کی جانے والی اشیاء کی کیفیت اور انکے صحیح و سالم ہونے کی نظارت کی جانی چاہئے کیوں کہ برآمد کی جانے والی اشیاء اگر سالم نہ ہوں اور انکی کیفیت اچھی نہ ہو تو یہ ایران کی بدنامی کا باعث ہو گا اور اس سے ہماری برآمدات کو نقصان پہنچے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مقامی پیداوار کی اہمیت پر بہت زیادہ تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ مقامی یا داخلی پیداوار کو ایک مقدس امر کے طور پر پہچانا جانا چاہئے اور اسکی حمایت کئے جانے کو ایک وظیفہ سمجھا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایسی تمام چیزوں کے درآمد کرنے کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا کہ جن سے ملتی جلتی چیزیں داخلی سطح پر تیار کی جارہی ہیں اور فرمایا کہ بعض دکانوں میں اس بات کی پابندی کی جاتی ہے کہ وہاں داخلی طور پر بنائی جانے والی اشیاء کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں بیچی جاتیں اور ایسے غیرت مند افراد کی تعریف کی جانی چاہئے۔
آپ نے فرمایا کہ البتہ بعض نسبتا بڑی مارکیٹوں میں اور بعض اوقات حکومت سے وابستہ مارکیٹوں میں تمام چیزیں امپورٹڈ ہیں اور اس برے عمل کی وجہ سے ایرانی محنت کشوں کی بے روزگاری میں اضافہ جبکہ بیرون ملک محنت کشوں کی حالات بہتر ہوں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غیر ملکی اشیاء کی خریداری اور غیر ملکی کمپنیوں کی اشیاء پر فخر فروشی کی ثقافت پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم دنیا سے رواداری رکھتے ہیں لیکن جن میدانوں میں ہمارے پاس داخلی پیداوار موجود ہے، ان میدانوں میں غیر ملکی اشیاء کی خرید و فروش اور درآمدات کو اقدار کے منافی سمجھا جانا چاہئے اور اس عمل کے خلاف تشہیر کی جانی چاہئے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ البتہ اس سلسلے میں افراط کے قائل نہیں ہیں بلکہ حکمت اور تدبیر کے ساتھ عمل کیا جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی گاڑیاں درآمد کرنے کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ خود امریکی شہری بھی ان گاڑیوں کے بھاری اخراجات کی وجہ سے انہیں خریدنے کی رغبت نہیں رکھتے، اب ایسی شرائط میں ہم آئیں اور امریکہ کے فلاں دیوالیہ کارخانے سے گاڑیاں درآمد کریں؟ اس کام پر تعجب کیا جانا چاہئے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ حکام بالا کو چاہئے کہ اس سلسلے میں ان پر پڑنے والے خفیہ دبائو کے سامنے اٹھ کھڑے ہوں اور اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس طرح کے مسائل پیدا ہوں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی طرح بعض غیر ضروری گراں قیمت اشیاء ک درآمدات پر تنقید کرتے ہوئے اور مختلف اشیاء کی ملک کے اندر اسمگل کئے جانے کے سنجیدہ مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مختلف حکومتوں کے حکام بالا سے کئی مرتبہ اس مسئلے کے بارے میں گفتگو کی ہے اور انہوں نے بھی کہا ہے کہ اگر ٹیرف میں اضافہ کیا جائے گا تو اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہو جائے گا لیکن یہ دلیل قابل قبول نہیں ہے۔
آپ نے اسمگلنگ کو داخلی پیداوار کے لئے ایک عظیم بلا اور زہر ہلاہل سے تعبیر کرتے ہوئے اس مسئلے سے سنجیدگی کے ساتھ نہ نمٹنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس کام کی ذمہ داری مضبوط افراد کے سپرد کی جائے اور حکومت بھی مربوطہ اداروں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ منظم اسمگلنگ سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ اور اقدامات کرے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ البتہ اشیاء کی اسمگلنگ سے مراد ان کمزور افراد سے مقابلہ کرنا نہیں ہے کہ جو بعض علاقوں میں اپنی کمر پر لاد کر چھوٹا موٹا سامان اسمگل کرتے ہیں، بلکہ اس سے مراد بڑے اسمگلر ہیں کہ جو دسیوں اور سینکڑوں کنٹینروں میں سامان بھر کر ملک کے اندر لے کر آتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح داخلی پیداوار کے سلسلے میں ایک اہم مسئلے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض اوقات کوئی چیز ملک کے اندر بنائی جا سکتی ہے لیکن بعض امپورٹرز کہ جو درآمدات کے زریعے بہت زیادہ منافع کماتے ہیں، مختلف حیلے بہانوں اور مختلف طریقوں سے من جملہ بھاری رشوت، دھمکیوں حتی جرائم انجام دے کر اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اس داخلی پیداوار کا راستہ روکا جاسکے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ یہ مسائل بہت زیادہ اہم ہیں اور انہیں اتنا سادہ نہیں لینا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے داخلی پیداوار کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان افراد پر تنقید کی کہ جو داخلی سطح پر موجود ٹیکنالوجی کو فرسودہ قرار دے کر غیر ملکی اشیاء کی درآمدات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ بعض غیر ملکی اشیاء درآمد کرنے کا دفاع کرنے والے افراد اس کی دلیلیں پیش کرنے میں مار کھا جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ غیر ملکی ٹیکنالوجی پیشرفتہ جبکہ ملکی ٹیکنالوجی فرسودہ اور قدیمی ہے، بہت خوب لیکن اتنی صلاحیتوں اور خلاق ذہن موجود ہونے کے باوجود اس مشکل کو کیوں حل نہیں کرتے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سوال کیا کہ آیا وہ ایرانی ذہن کہ جو میزائیل کے زریعے ۲ دو ہزار کیلومیٹر کے فاصلے سے دس میٹر سے بھی کم خطا کے ساتھ اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے وہ داخلی سطح پر بعض دوسرے میدانوں من جملہ آٹوموبائیل کی صنعت میں ٹیکنالوجی کی مشکل کو حل نہیں کرسکتا؟ پس اس طرح کی مشکلات کے حل کے لئے جوانوں سے رجوع کیوں نہیں کیا جاتا؟
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا ملک کی بعض پیشرفت خفیہ ہے اور اسے بیان نہیں کیا جاسکتا ورنہ لوگ اس سرزمین کے جوانوں کی استعداد سے حیرت میں مبتلا ہوجائیں گے۔
رہبر انقلاب نے اپنی گفتگو کے اس حصے کو سمیٹتے ہوئے فرمایا کہ محنت کش طبقے، کارخانوں کے مالکان اور حکومتی عہدیداروں سے ہمیں اچھی امیدیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض جگہ کاموں میں رکاوٹیں موجود ہیں اور بعض علل و عوامل نہیں چاہتے کہ کوششیں کسی نتیجے تک پہنچ سکیں، حکام کوششیں جاری رکھیں اور ان رخنہ اندازیوں کو دور کرکے ملکی ترقی و پیشرفت کی رفتار میں اضافہ کریں۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ایران کا اسلامی تمدن کے بلند مقام پر پہنچنا کوئی شعر یا رجز خوانی نہیں ہے بلکہ حقائق، ممکنات، خصوصیات اور توانائیوں پر مبنی ہے کہ جن پر توجہ کئے جانے سے یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ البتہ دشمن اسی طرح اپنی دشمنی جاری رکھے ہوئے ہے اور رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے اور اس دشمنی میں سب سے اوپر امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ امریکی بعض اوقات دور بیٹھ کر اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ آپ ہم سے بد بین کیوں ہیں؟ خوب ہم ان مسائل کو دیکھ رہے ہیں کہ جو اس بد بینی کا سبب بنے ہیں اور ہم ان کے سلسلے میں اپنی آنکھوں کو بند نہیں کر سکتے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بینکنگ لین دین میں مشکلات اور اسکے بہت زیادہ سست ہونے اور بینک کے معاملات میں امریکیوں کی جانب سے رخنہ اندازی کو بدبینی کے واضح نمونوں میں سے ایک نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ اب بینک کے معاملات میں رخنہ اندازی کے مسئلے کے بارے میں دیگر حکام بھی کہہ رہے ہیں لیکن دنیا کے بڑے بینک ایران کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا کے بڑے بینکوں کی جانب سے ایران کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی وجہ ایرانو فوبیا ہے جسے امریکیوں نے شروع کیا اور اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ میں نے بارہا کہا ہے کہ امریکیوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور اس مسئلے کی وجہ واضح ہوتی چلی جا رہی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی جانب شارہ کیا کہ کاغذ پر لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مالی ادارے ایران کے ساتھ معاملات انجام دیں لیکن عملی میدان میں دوسری طرح عمل کرتے ہیں تاکہ ایرانو فوبیا پیدا کیا جاسکے، آپ نے مزید فرمایا کہ امریکی کہتے ہیں کہ ایران دہشتگردی کا حامی ملک ہے اور ممکن ہے کہ دہشتگردی سے حمایت کی وجہ سے اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ یہ باتیں بینکوں اور غیر ملکیوں کو کیا پیغام دے رہی ہیں؟ ان باتوں کا پیغام یہ ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات انجام دینے کے لئے اقدامات نہ کریں اور نتیجتا عملی طور پر بینک اور غیر ملکی سرمایہ دار ایران کے ساتھ معاملہ کرنے میں ڈر و خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ البتہ دہشتگردی کے موضوع کے سلسلے میں ہم کہیں گے کہ امریکی دنیا کے تمام دہشتگردوں سے زیادہ بدتر ہیں اور موجودہ اطلاعات کے مطابق وہ نام نہاد دہشتگردوں کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی حکومت کی جانب سے ایرانو فوبیا کے ایک اور طریقہ یعنی عملی طور پر بینکوں اور غیر ملکی سرمایہ داروں کو منع کرنے کے مسئلے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایران کی داخلی صورتحال دراصل خارجی ممالک کے تعاون نہ کرنے کی اہم وجہ ہے حالانکہ اس خطے میں آج ایران سے زیادہ پر امن ملک کوئی بھی نہیں ہے اور ایران کی داخلی صورتحال امریکہ جیسے ملک سے کہیں بہتر ہے کہ جہاں روزانہ متعدد افراد مارے جاتے ہیں اور حتی یورپی ممالک سے بھی زیادہ پر امن ہے اور خدا دشمنوں کی نظر بد سے بچائے، ایران کی داخلی صورتحال بہت زیادہ اچھی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کی جانب سے ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے نظام اور کیفیت کو باقی رکھنے پر مسلسل تاکید کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے ایرانو فوبیا کا ایک واضح طریقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا مقابلہ اس طرح کے دشمن سے ہے اور ہم چاہے کوئی بھی سرگرمی انجام دینا چاہ رہے ہوں ہمیں اپنے اس دشمن کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنی ای نے گذشتہ ۳۷ سالوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی و پیشرفت اور امریکہ کی دشمنی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ دشمنی آئندہ سو سالوں تک بھی جاری رہے گی تو خدا نظر بد سے بچائے ہم آئندہ سو سالوں میں بھی پیشرفت کریں گے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے، چاہے ہم اسکا اظہار کریں یا نہ کریں، چاہے اسے زبان پر لے کر آئیں یا نہ لے کر آئیں، یہ دشمنی کبھی ختم نہیں ہوگی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عدلیہ، مقننہ اور مجریہ، تمام انقلابی اداروں اور اسی طرح ہر ہر فرد کو ملک کی قدر وقیمت اور توانائیوں کی شناخت کی نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ ہم امیر المومنین علیہ السلام کی طرح مظلوم لیکن طاقتور ہیں اور اگر ہم اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں سے بہترین، انسانی ترین اور اسلامی ترین شکل میں استفادہ کریں تو ہم یقینی طور پر تمام تر رکاوٹوں کو عبور کر لیں گے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ راستہ ہموار نہیں ہے لیکن پتھریلا بھی نہیں ہے اور اگر ہم اپنی قدرت پر بھروسہ کریں تو یقیننا کامیابیاں اور بہت زیادہ ترقی و پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آخری حصے میں بعض شہروں میں مجلس شورائے اسلامی کے دوسرے مرحلے کے انتخابات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دوسرے مرحلے کے انتخابات کی اہمیت پہلے مرحلے کے انتخابات سے کسی طور بھی کم نہیں ہے اور ووٹ ڈالنے کے اہل تمام افراد کو اس میں شرکت کرنی چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ انتخابات میں شرکت فیصلے کا تعین کرتا ہے کیونکہ اگر ووٹ ڈالنے کے لئے نہ جائیں تو یہ رغبت، کشش اور شناخت بیلٹ بکس میں منتقل نہ ہو سکے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے کوآپریٹو، محنت اور سماجی بہبود کے وزیر نے محنت کشوں کے دن کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے محنت کشوں اور پینشن یافتہ افراد کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دو سالوں کے دوران محنت کشوں اور مالکان کے درمیان ہمدردی اور رحمدلی کی بنیاد پر مہنگائی اور تنخواہ کے درمیان موجود فرق میں نمایاں کمی پیدا ہوئی ہے۔
جناب ربیعی نے چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروباری اداروں کی ترقی کو ملازمت کی فراہمی کے زریعے غربت کے خاتمے کے نظریے کا اہم محور قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیمہ کو مستحکم کرنے، اور ہیلتھ انشورنس سے عاری دس میلین شہریوں کا بیمہ کیا جانا، فقر و فساد سے مقابلہ، چائلڈ لیبر کی صورتحال کو بہتر بنانا، کو آپریٹو کمپنیوں کو توسیع دینا، محرم علاقوں میں علاج معالجے کی صورتحال کو بہتر بنانا، تکنیکی اور پیشہ ورانہ ترقی پر زور دیتے ہوئے با اختیار بنانا، معذوروں کی حمایت کے لئے بل اور انکے لئے ملازمتوں اور رہائش کا انتظام کرنا، سرپرست خواتین کے بیمے کا اجرا، اجتماعی مشکلات سے نمٹنا اور محنت کش کی شخصیت کا تحفظ کیا جانا وزارت کوآپریٹو، محنت اور سماجی بہبود کے اہم پروگرام اور سرگرمیاں رہی ہیں۔
اسلامی تمدن کا احیاء مثالی اسلامی ایرانی ترقیاتی سسٹم کے بغیر ممکن نہیں
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مثالی اسلامی ایرانی ترقیات کے سسٹم کے مرکز کی سپریم کونسل کے اراکین سے ملاقات میں اسلامی تہذیب کے احیا کو اسلامی انقلاب کا ہدف قرار دیا اور عالمی ترقی کے غلط مبادیات اور غیر موثر سسٹموں کا تذکرہ کرتے ہوئے اور جدید اسلامی اور ایرانی سسٹم پیش کئے جانے، انقلابی اور جہادی بنیادوں پر کام کئے جانے، حوزہ ہائے علمیہ اور قوی اسلامی منابع کی ظرفیت سے استفادہ کئے جانے، علمی قوت کے حامل ہونے، اور تبادلہ خیال کا سلسلہ شروع کئے جانے کو مثالی اسلامی ایرانی ترقیات کے سسٹم کے احیاء اور تدوین کے لئے لازمی امر قرار دیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کے اہداف کے حصول کے لئے پانچ مراحل کا ذکر کرتے ہوئے اس کی مثالی ترقیاتی سسٹم سے مناسبت کے بارے میں فرمایا کہ اس عمل کا پہلا مرحلہ، اسلامی انقلاب کا قیام ہے اور اسکے فورا بعد ایک اسلامی نظام کی تشکیل ضروری ہے اسی لئے اسلامی نظام کا قیام امام خمینی رح کا ایک عظیم ہنر تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی حکومت کے قیام کو تیسرا مرحلہ قرار دیا کہ جس مرحلے میں ہم اس وقت موجود ہیں، یعنی ایک حکومت کا قیام کہ جو اسلامی معیارات کی بنیاد پر تشکیل پائی ہو، اور فرمایا کہ جب تک یہ مرحلہ مکمل طور پر مشخص نہیں ہوجاتا، اسلامی معاشرے کی تشکیل کی باری نہیں آسکے گی اور اس صورت میں اسلامی طرز زندگی کا موضوع صرف اور صرف معاشرے میں تبادلہ خیال کی حد تک باقی رہ جائے گا۔
آپ نے اسلامی انقلاب کے اہداف کے مرحلوں کا پانچواں اور آخری مرحلہ اسلامی تمدن کے احیا کو قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی تمدن کا مطلب کشور کشائی نہیں ہے بلکہ اقوام عالم کی جانب سے فکری طور پر اسلام کے زیر اثر آنا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ نے مثالی اسلامی ایرانی ترقیات کے سسٹم بنائے جانے کو اسلامی تمدن کے احیا کا لازمی جز قرار دیا اور اس سوال کے جواب میں کہ دنیا میں موجود اور آزمودہ سسٹم ہمارے مطلوہ سسٹم کیوں نہیں بن سکتے، فرمایا کہ دنیا میں رائج ترقی کے دوسرے سسٹم، اپنے مبانی کے لحاظ سے غلط اور ہیومن ازم اور غیر الہی اصولوں کی بنیاد پر استوار ہیں اور اپنے اثرات اور نتائج کے اعتبار سے یہ نمونے اپنے ان وعدوں کو پورا نہیں کر پائے ہیں کہ جو انہوں نے آزادی اور عدل و انصاف جیسے اقدار کے بارے میں کئے تھے۔
رہبر انقلاب نے بعض ملکوں کی جانب سے ان نمونوں کو اپنانے کی وجہ سے حکومتی سطح پر بڑے بڑے قرضوں میں گرفتار ہونا، بے روزگاری، طبقاتی اختلافات اور غربت جیسی نا مناسب صورتحال کو ان رائج شدہ سسٹموں کے ناکارہ ہونے کی واضح مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ معاشرے اگرچہ ترقی بھی کررہے ہیں لیکن یہ ترقی اور پیشرفت معاشرے کی جڑوں میں رسوخ نہیں کرپائی ہے اور اسکا اختتام اخلاق، عدل و انصاف، روحانیت اور امن و امان پر نہیں ہوتا، بنا بر ایں ہمیں چاہئے کہ ہم مقامی سطح پر اسلامی نظریات اور ایرانی ثقافت پر تکیہ کرتے ہوئے پیشرفتہ مثالی سسٹم بنائیں اور پیش کریں۔
آپ نے مثالی ترقیاتی سسٹم کے اسلامی ہونے کو بنیادی امر قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس موضوع کے محقق ہونے کے لئے سنجیدہ اسلامی تحقیقات، اور حوزہ ہائے علمیہ اور مفکرین، فلسفہ، کلام اور فقہ سے آگاہ اور اس پر تسلط رکھنے والے علما سے گہرا اور مسلسل رابطہ کیا جانا نہایت ضروری ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مثالی اسلامی ایرانی ترقیاتی سسٹم میں ایران کی جانب توجہ کئے جانے کو بھی نہایت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ ایران خود اس مثالی سسٹم کے احیا کے لئے زمینہ ہے اور اگر ملک کی ثقافت، تاریخ، جغرافیا،آب و ہوا، آداب و رسومات، روایتوں، افرادی قوت اور معدنی ذخائر پر توجہ نہیں کی گئی تو یہ مثالی سسٹم اجرا کے قابل نہیں ہوگا اور اس سے استفادہ نہیں کیا جاسکے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مثالی اسلامی ایرانی ترقیاتی سسٹم کی اہمیت اور ضرورت پر گفتگو کے بعد اس کے احیا کے لئے ضروری چیزوں کے بارے میں گفتگو کی۔
آپ نے اسے علمی طور پر منظم اور اسکی تدوین کئے جانے، مثالی سسٹم کے لئے گفتگو اور متضاد رائے کا اظہار کرنے، دنیا بھر میں کثرت کے ساتھ موجود سسٹموں کے ساتھ اسکا موازنہ اور اسکی سرحدوں کے تعین کئے جانے، دونوں سسٹموں کے حقائق اور نظریات پر غور و فکر کئے جانے، عملی ہونے، مخالف نظریات اور اعترضات کے مقابلے میں علمی توانائی اور استقامت کے حامل ہونے کو مثالی اسلامی ایرانی ترقیاتی سسٹم کا لازمہ قرار دیا۔
مثالی سسٹم کی تیاری اور تدوین میں عجلت سے کام نہ لینا، اس مرکز کی پانچ سالہ کارکردگی کا جائزہ، دنیا میں رائج عالمی ترقیاتی سسٹموں پر سنجید گی اور پوری قوت کے ساتھ تنقید کیا جانا، انقلابی، جہادی اور سنجیدہ بنیادوں پر کام انجام دیا جانا، جوان، روشن فکر اور مومن اور انقلابی جوانوں سے استفادہ کیا جانا، مختلف آرگنائزیشنز اور ملک کے نظام کو چلانے والے اداروں سے رابطہ، اور تبادلہ خیال کیا جانا وہ اہم نکات تھے کہ جو رہبر انقلاب اسلامی اسلامی ایرانی مثالی ترقیاتی سسٹم کے مرکز کی اعلی کونسل کے اراکین کے سامنے پیش کئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تبادلہ خیال کئے جانے پر تاکید کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ مختلف اداروں اور امکانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تبادلہ خیال کا ایسا زمینہ فراہم کیا جانا چاہئے کہ اسلامی ایرانی مثالی ترقیاتی سسٹم جوانوں یعنی ملک کے مستقبل کے معماروں کے ذہنوں اور دلوں پر حاکم ہو جائے۔
آپ نے ایمان اور راسخ عمل کو ہر عمل اور اقدام میں کامیابی کی لازمی شرط قرار دیا اور مثالی اسلامی ایرانی ترقیاتی سسٹم کے مرکز کے سربراہ اور اعلی کونسل کے اراکین کا شکریہ ادا کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے مثالی اسلامی ایرانی ترقیاتی سسٹم کے مرکز کے سربراہ ڈاکٹر واعظ زادہ نے اس مرکز کی سرگرمیوں اور پروگراموں اور اسلامی ایرانی مثالی ترقیاتی سسٹم کے مختلف مرحلوں کی تیاری اور تدوین کے سلسلے میں رپورٹ پیش کی۔
ہندوستان میں شدید گرمی کی وجہ سے سو افراد ہلاک
ہندوستانی حکام کے مطابق گرمی کی شدت کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں اسکول بند کر دیے گئے ہیں جبکہ تعمیرات جیسے بیرونی کام روک دیے گئے ہیں۔
ہندوستانی حکام کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ ریاست تلنگانہ میں پینتالیس افراد ہلاک ہوئے جبکہ آندھرا پردیش میں سترہ اور اڑیسہ میں تینتالیس افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
واضح رہے کہ ہندوستان میں عام طور پر گرم ترین مہینے مئی اور جون ہوتے ہیں مگر بعض ریاستوں میں قبل از وقت ہی شدید گرمی کا آغاز ہو گیا اور درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گرمی کا زور اسی طرح جاری رہا تو ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
میانمار؛ کشتی الٹنے سے اکیس روہنگائی مسلمان سمندر میں غرق
رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے بدھ کے روز کہا کہ نو بچوں سمیت کم از کم اکیس افراد منگل کے روز ایک کشتی الٹنے سے غرق ہو گئے۔ اس کشتی پر ساٹھ افراد سوار تھے جو مقامی بازار سے خریداری کرنے کے لیے جا رہے تھے کہ سمندر کی متلاطم لہروں کی وجہ سے ان کی کشتی الٹ گئی۔
میانمار کے مغربی صوبے راخین میں بے گھر مسلمانوں کے لیے عارضی کیمپ بنائے گئے ہیں کہ جہاں وہ بدترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ میانمار کے روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف دو ہزار بارہ سے تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور انتہا پسند بدھسٹ اب تک سینکڑوں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر چکے ہیں۔ جبکہ دسیوں ہزار بے گھر ہوئے ہیں۔
میانمار کی حکومت اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو شہریت دینے سے گریز کر رہی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ یہ مسلمان غیرقانونی مہاجرین ہیں کہ جو بنگلہ دیش سے میانمار میں آئے ہیں۔
دوسری جانب روہنگیائی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کے مقامی باشندے ہیں اور صدیوں سے اس ملک میں رہ رہے ہیں۔
ہبر انقلاب اسلامی: حزب اللہ کے خلاف فاسد اور وابستہ حکومت کےکھوکھلے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملک کے میزائل پروگرام کے تعلق سے مغرب کے نئے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کئے جانے کی بابت خبردار کیا ہے۔ آپ نے تہران میں طلبا کے بڑے اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ اگر ہم نے اس مسئلے میں کوئی نرمی دکھائی تو وہ بائیوٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی اور دیگر سائنسی پیشرفت میں بھی رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں گے۔
طلبا کی اسلامی انجمنوں کے اراکین کی بڑی تعداد نے بدھ کو رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں طلبا سے فرمایا کہ رجب کے مہینے سے اپنی روحانی تقویت کے لئے فائدہ اٹھائیں ۔ آپ نے فرمایا کہ رجب، شعبان اور رمضان کے مہینے روحانیت اور معنویت کی بہار کے مہینے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ بھی اپنی عمر کی بہار کے دور میں ہیں، اس بہار معنویت و روحانیت سے فائدہ اٹھائیں، ذکر و یاد خدا، دعاؤں اور تلاوت قرآن کریم سے استفادہ کریں، اول وقت نماز کی پابندی کریں، گناہوں سے پرہیز کریں اور اچھے صفات سے خود کو آراستہ کریں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے طلبا سے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ نوجوانوں کے مسئلے میں اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکا اور صیہونی حکومت کی ایک ہمہ گیر خاموش جنگ جاری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان شجاعت، جوش و ولولے، امید اور جسمانی نیز فکری توانائی سے عاری رہیں، دشمنوں کے سلسلے میں خوش فہمی کا شکار اور اپنوں سے بدگمان رہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران سے سامراجی طاقتوں کی دشمنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے مقابلے میں سامراجی طاقتوں کی صف آرائی کا ایک بنیادی محرک یہ تھا کہ انھوں نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کسی دوسرے ملک پر انحصار کئے بغیر ایٹمی توانائی کے انتہا ئی حساس میدان میں اپنی جگہ بنالی اور اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ہم نے میزائلی پروگرام کے سلسلے میں ان کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تو وہ کل بائیو ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی اور دیگر سائنسی شعبوں میں بھی ہماری پیشرفت پر اعتراض کرنا شروع کر دیں گے۔
آپ نے حزب اللہ کے خلاف سامراجی طاقتوں کی ہنگامہ آرائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے حزب اللہ کے خلاف کیسی کیسی تشہیراتی مہم شروع کر رکھی ہے اور کس طرح کے وہ عملی اقدامات انجام دے رہی ہیں لیکن اسلامی دنیا میں حزب اللہ پورے وقار کے ساتھ موجود ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اندر سے کھوکھلی، بدعنوان اور سامراجی طاقتوں سے وابستہ ایک حکومت نے ایک بیان جاری کر کے حزب اللہ کی مذمت کی ہے، اس کی اہمیت کیا ہے؟
آپ نے فرمایا کہ حزب اللہ اور اس کے اراکین خورشید کی مانند ضو فشاں اور اسلامی دنیا کے لئے باعث افتخار ہیں۔ انہوں نے لبنان پر مسلط کی گئی تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ سے صیہونی حکومت کی شکست اور حزب اللہ کی اس کامیابی کا صیہونی حکومت کے مقابلے میں تین عرب ملکوں کی طاقتور فوجوں کی شکست سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حزب اللہ اور اس کے مومن جوان عالم اسلام کے لئے عزت و افتخار کا باعث ہیں-
رہبرانقلاب اسلامی نے مغربی ایشیا اور دنیا میں ایران کی مقتدر انداز میں موجودگی، مسئلہ فلسطین، مزاحمتی تحریکوں اور ایرانی اسلامی طرز زندگی کے موضوعات کو اسلامی نظام سے سامراجی محاذ کے اختلافات کی وجوہات میں سے قرار دیا اور فرمایا کہ اگر کسی ملک میں مغربی طرز زندگی رواج پا جائے تو اس معاشرے کے دانشور اور تعلیم یافتہ لوگ سامراجی پالیسیوں کے مقابلے میں گھٹنے ٹیک دینے والے افراد میں تبدیل ہو جائیں گے- آپ نے فرمایا کہ کبھی کبھی ہمیں جنگ اور ہم پر بمباری کرنے کی بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں مگر یہ سب ہرزہ سرائی ہے کیونکہ ان لوگوں میں ایسا کرنے کی ہمت اور جرائت نہیں ہے اور اگر کبھی ایسا کیا بھی تو انھیں منہ توڑ جواب دیا جائے گا-
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ سینتیس سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی سامراجی محاذ اسلامی جمہوریہ ایران کو ختم نہیں کر سکا اور نہ ہی علاقے میں اس کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ کو روک سکا ہے۔