Super User

Super User

پاکستانی فوج کے اسٹریٹیجک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ میجر جنرل نوئیل اسرائیل کھوکھر نے تہران میں ایران کی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف بریگیڈیئر جنرل مصطفی ایزدی سے ملاقات اور گفتگو کی ہے۔

ایران کی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف برگیڈیئر جنرل مصطفی ایزدی نے ایران اور پاکستان کے درمیان مشترکہ تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے وسیع مواقع موجودہیں۔ بریگیڈیئر جنرل ایزدی نے مشرق وسطی کی تبدیلیوں اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے علاقے کے ملکوں اور قوموں کے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایران کی مسلح افواج کے جنرل ہیڈکوارٹر کے ڈپٹی کمانڈر نے ایران اور پاکستان کی مسلح افواج کے درمیان تعاون، تجربات کے تبادلے اور اسٹریٹیجک معاملات میں تبادلہ خیال کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ پاکستانی فوج کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک ریسرچ اینڈ اینالیسس کے ڈائریکٹرجنرل، میجرجنرل نوئیل اسرائیل کھوکھر نے اس موقع دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستانی فوج کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مختلف میدانوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون کے لئے مکمل طور پر تیار ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مشرقی آذربائیجان کے مکتلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد سے ملاقات میں اس سال گیارہ فروری کی ریلیوں میں ایران کی عظیم ملت کی بھرپور شرکت کو عوام کے عزم راسخ، استقامت اور بیداری سے تعبیر کرتے ہوئے اور اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ آئندہ ماہ منعقد ہونے والے انتخابات ملت کی بیداری کا مظہر، نظام کا دفاع، استقامت اور قومی عزت ہے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کی ہر انداز میں اور بصیرت و دانائی کے ساتھ شرکت دشمن کی خواہشات کے برعکس عمل کرنے کے مترادف ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں کہ جو تبریز کے عوام کی جانب سے اٹھارہ فروری انیس سو اٹہتر کے تاریخی قیام کی مناسبت سے انجام پائی، مختلف ادوار اور ملک کے اہم تاریخی واقعات خاص طور پر اسلامی انقلاب کے دوران آزربائیجان کے عوام کے راسخ ایمان، بیداری، نشاط اور استقامت کی قدردانی کرتے ہوئے اور انقلاب کے تاریخی ایام کی یاد منانے کی تاکید کرتے ہوئے اور گیارہ فروری کو ایک انتہائی اہم دن قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے معتبر اداروں سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس سال گیارہ فروری کے اجتماعات میں عوام کی تعداد میں گذشتہ سالوں کے مقابلے میں قابل توجہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے گیارہ فروری کے اجتماعات اور ریلیوں میں عوام کی باشکوہ شرکت پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ یہ اضافہ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ استکباری طاقتوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر عوام کے ذہنوں سے انقلاب کو فراموش کرنے یا اسے کم رنگ کرنے کی بے پناہ کوششوں کے باجود قوم کی عزم راسخ میں زرہ برابر بھی کمی نہیں آئی ہے۔

آپ نے 26 فروری کو ہونے والے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دشمن مخصوص منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں ہے، بنابریں اس ملک کے اصلی مالکوں کی حیثیت سے ایرانی عوام کو چاہئے کہ بعض اہم حقائق سے آگاہ رہیں تاکہ یہ پلید عزائم پورے نہ ہو سکیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کو مقدمہ بناتے ہوئے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور ایران پر سے امریکا اور صیہونی حکومت کا اثر و رسوخ کتم ہوجاناان کی سب سے بڑی توہین تھی اور ان طاقتوں نے گزشتہ 37 سالوں کے دوران ملت ایران کی تیز رفتار پیشرفت کو روکنے کے لئے کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کیا، فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اولین ایام سے ہی اغیار کی سازش ایران میں انتخابات کے انعقاد کا راستہ روکنا تھا اور اس سلسلے میں کچھ کوششیں بھی انجام دی گئیں لیکن چونکہ انہیں مایوسی ہی ہوئی اس لئے گزشتہ برسوں میں انہوں نے یہ کوشش کی کہ انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا کر انتخابات پر اثرانداز ہوں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ 26 فروری کے انتخابات کے لئے ان طاقتوں کی سازش شورائے نگہبان یعنی نگراں کونسل کی شبیہ خراب کرنے اور اس کے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگانے سے شروع ہوئی اور یہ ادارہ اسلامی نظام کے ان کلیدی اداروں میں سے ایک ہے جن کی امریکیوں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اولین ایام سے ہی شدید مخالفت کی تھی۔

آپ نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ نگراں کونسل کے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگانے کا مطلب انتخابات کے غیر قانونی ہونے کے مسئلے کو ترویج دینا ہے فرمایا کہ جب انتخابات کے غیر قانونی ہونے کا مطرح ہوجائے تو پھر ان انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہو نے والی پارلیمنٹ اور اس کے فیصلے بھی غیر قانونی ہوں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس مکارانہ سازش کا مقصد آئندہ چار سالوں کے دوران ملک کے اندر آئینی اور پارلیمانی خلا پیدا کرنا ہے اس لئے عوام الناس کو چاہئے کہ اس مسئلے پر توجہ رکھیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ان افراد کا حوالہ دیتے ہوئے کہ جو ملک کے اندر نگراں کونسل کی شبیہ خراب کرنے کے زریعے دشمنوں کے ہم صدا ہوگئے ہیں فرمایا کہ ان میں سے بیشتر افراد کی توجہ اس بات کی جانب نہیں ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس لئے ان پر خیانت کا الزام نہیں لگایا جا سکتا، لیکن انھیں اس بات کی جانب متوجہ۰ ہونا چاہئے کہ دشمن سے ہم صدا ہونے کا مطلب دشمن کی خطرناک سازش کی تکمیل ہے۔
 
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے استکباری محاذ کا ایک اہم مقصد مسلمانان جہان کو اسلامی جمہوریہ کے  بے نظیر، پرکشش اور حیرت انگیز جلوؤں سے محروم کرنا ہے اور مجلس شورائے اسلامی یعنی پارلیمنٹ کا مقام انتہائی اہم ہے فرمایا کہ پارلیمنٹ قوانین پاس کرکے حکومت اور مجریہ کی کارکردگی کے لئے پٹری بچھانے کا کام کرتی ہے لہذا بصیرت و آگاہی کے ساتھ ممبران پارلیمنٹ کا انتخاب ملک کی پیش قدمی کے لئے پٹری بچھانے کے عمل میں بہت موثر کردار کا حامل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر پارلیمنٹ عوامی رفاہ، معاشرتی مساوات، اقتصادی لحاظ سے آسائش، سائنس کے میدان میں ترقی و پیشرفت اور قومی اقتدار و خود مختاری سے وابستہ ہوگی تو اس پٹری کی تعمیر کا عمل انہی اہداف کے تحت انجام دیگی، لیکن اگر پارلیمنٹ مغرب اور امریکا سے مرعوب اور اشرافیہ تہذیب و ثقافت کی ترویج میں دلچسپی لے گی تو اسکی جانب سے پٹری بچھانے کا عمل اسی سمت میں ہوگا اور وہ ملک کو بدبختی کے راستے پر ڈال دیگی۔

حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رح کی گفتگو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ پارلیمنٹ تمام امور میں سر فہرست ہے فرمایا کہ تمام امور میں سر فہرست ہونے کا مطلب اجرائی سلسلہ مراتب نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ملکی ترقی وپیشرفت کے لئے راستے اور سمت کے تعین کے لحاظ سے پارلیمنٹ کا کلیدی کردار ہے۔

آپ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اسلامی نظام کے اندر مجلس خبرگان یعنی ماہرین کی کونسل کے بنیادی اور کلیدی کردار کا بھی حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ماہرین کی کونسل کی اس وجہ سے اہمیت ہےکہ ملک کے رہبر کے انتخاب میں کہ جو ملکی امور کے بارے میں فیصلہ کرنے اور پالیسی مرتب کرنے والے سب سے اہم شخص ہے یہ کونسل مرکزی کردار ادا کرتی ہے، بنابریں اس کونسل کے اراکین کا انتخاب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر ماہرین کی کونسل کے ممبران انقلاب کے گرویدہ، عوام کے شیدائی، دشمنوں کی سازشوں سے باخبر اور ان سازشوں کے سامنے سینہ سپر ہوں گے تو ضرورت پڑنے پر وہ مختلف انداز سے فیصلے کریں گے، لیکن اگر ماہرین کی کونسل کے اراکین میں یہ خوبیاں نہیں ہوں گے تو پھر ان کی کارکردگی کی شکل بالکل مختلف ہوگی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ماہرین کی کونسل پر استکبار کے تشہیراتی اداروں کی خاص توجہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کی آگاہی، بصیرت اور دانائی پر توجہ کی ضرورت پر تاکید کی یہی وجہ ہے کہ دشمن کے ارادوں کے برخلاف عمل کیا جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر ملت ایران کو انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اسلامی نظام، خود مختاری اور قومی عزت و وقار کے دفاع کی دعوت دی اور ملت ایران کے مدمقابل موجود لاپرواہ اور خطرناک محاذ سےکہ جو صیہونی نیٹ ورک کے زیر اثر کام کرتا ہے  ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکا اور بہت سی یورپی حکومتوں کی پالیسیاں اسی نیٹ ورک سے متاثر رہتی ہیں اور ایٹمی مسئلے میں امریکیوں کا رویہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ طولانی مذاکرات اور پھر ایٹمی معاہدے کے بعد ایک بار پھر ایک امریکی عہدیدار نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہم وہ کام کریں گے کہ دنیا کے سرمایہ کار ایران میں قدم رکھنے کی ہمت نہ کر سکیں۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس طرح کے بیانات ملت ایران سے امریکا کی شدید دشمنی کی عکاسی کرتے ہیں فرمایا کہ جو افراد گزشتہ دو سال تک ایٹمی مذاکرات میں مصروف تھے اور حقیقت میں انھوں نے بڑی زحمتیں اٹھائی ہیں اور ان کا ایک ہدف غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی مسائل پر قابو پانا تھا لیکن امریکی اس سلسلے میں بھی اب ایران کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ جو بار بار کہا گیا کہ امریکی قابل اعتماد نہیں ہیں اس کا یہی مطلب ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی سیاستدانوں کی جانب سے ایران میں ریلیوں کے دوران امریکا مردہ باد کے نعروں پر اعتراض کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جب آپ کا یہ طرز عمل ہے اور آپ کا ماضی و حال آشکارا دشمنی کا آئینہ دار ہے تو پھر آپ ملت ایران سے اور کس قسم کے رد عمل کی توقع رکھتے ہیں؟

آپ نے مزید فرمایا کہ البتہ وہ خصوصی ملاقاتوں میں مسکراتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں اور دل لبہانے والی باتیں بھی کرتے ہیں، لیکن انکا یہ رویہ سفارتی اور خصوصی ملاقاتوں تک محدود ہے اور اس کا زمینی حقائق پر  کوئی اثر نہیں پڑتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ طولانی مذاکرات انجام پانے، معاہدہ ہو جانے اور تمام امور کے ختم ہو جانے کے بعد اب وہ یہ باتیں کہہ رہے ہیں اور صراحت کے ساتھ نئی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ یہی امریکا کی حقیقت ہے اور اس دشمن سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی اور اس پر ہرگز اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

آپ نے عوام کو مخاطب کرکے فرمایا کہ عزیز ملت ایران، آپ کا واسطہ ایک ایسے عنصر سے ہے، لہذا آپ کو چاہئے کہ بیدار و ہوشیار رہیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ملک کی مشکلات کا حل عوام کی بیداری، معاشرے کے اندر ایمانی و دینی جذبات کی حفاظت، مون اور پرجوش نوجوانوں کی خدمات حاصل کرنا اور ایمان، معیشت، علم اور انتظامی اداروں کے لحاظ سے ملک کو اندرونی طور پر تقویت پہنچانا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب اور اس کے اصول و اہداف کی حفاظت کے لئے عوام کے اتحاد، یکجہتی اور ہم آہنگی برقرار رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ حکومتی عہدیدار بھی جو ملک کے مستقبل میں دلچسپی رکھتے ہیں، اللہ کی خوشنودی اور عوام کے لئے کام کریں اور ملک کے اندر موجود افرادی قوت اور توانائیوں پر اعتماد کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ استقامتی معیشت کا مطلب ملک کے چاروں جانب حصار کھینچنا نہیں ہے فرمایا کہ استقامتی معیشت اگر خوکفیل نہ ہو اور اسکی نگاہ ملک سے باہر کے معاملات پر نہ ہو تو وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتی۔
آپ نے دنیا کے ممالک سے اقتصادی تعاون کو ایک اچھا عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ البتہ یہ تعاون ہوشیاری کے ساتھ اور اس کا نتیجہ داخلی معیشت کے خود کفیل ہونے کی صورت میں سامنے آئے اور اس ہدف تک عوام کی استقامت اور اعلی حکام کے ہوشمندانہ اقدمات کے بغیر نہیں پہنچا جا سکتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں فرمایا کہ خداوند متعال کے فضل و کرم سے ملک کے نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے جب امریکا ہی نہیں اس کے بڑےبھی ملت ایران کا کچھ بھی بگاڑ نہ پائیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صوبہ مشرقی آذربائیجان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہر تبریز کے امام جمعہ آیت اللہ مجتہد شبستری نے حساس مواقع پر جلوہ گر ہونے والی صوبہ آذربائیجان کے عوام کی دینی حمیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 18 فروری 1978 کا تبریز کے عوام کا قیام اسلامی انقلاب کی تاریخ میں بہت اہم موڑ اور ولی امر مسلمین سے عقیدت رکھنے والے آذربائیجان کے عوام کی بصیرت کی نشانی ہے۔
تبریز کے امام جمعہ نے انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کو اسلامی جمہوریہ ایران کی قدرت و طاقت کی علامت قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ آذربائیجان کے عوام پورے ملک کے عوام کے ساتھ آئندہ 26 فروری کو وسیع پیمانے پر اور مکمل آگاہی کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں پر جمع ہوں گے اور ایک بار پھر پر شکوہ اور یادگار کارنامہ رقم کریں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گھانا کے صدر جان درامانی ماھاما سے ملاقات میں افریقی ممالک کے ساتھ تعاون کے فروغ کے سلسلے میں انقلاب کے ابتدائی دور سے لے کر ایران کی مثبت اور جانبدارانہ نقطہ نظر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تسلط پسند طاقتیں ایران اور افریقا کے روابط کے مخالف اور اسی طرح بہت ساری جنگوں اور جھڑپوں کے آغاز اور دہشتگرد گروہوں کو تقویت پہچانے کا سبب ہیں لیکن ان تمام مشکلات کا علاج آزاد ممالک کے ایک دوسرے سے نزدیک ہونے اور ایک دوسرے سے تعاون میں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں نا امنی اور مختلف جنگیں برپا کرنے میں استکباری طاقتوں کا فائدہ ہے فرمایا کہ ہمارے علاقے میں اور افریقا میں موجود دہشتگرد گروہ امریکی، برطانوی اور صیہونی حکومت کے جاسوس اداروں کے پروردہ ہیں۔
رہبر انقلاب نے گھانا کے صدر کے شام میں دہشتگردی کی وجہ سے نقصانات کے بارے میں اظہار افسوس کا حوالہ دیتے ہوئے ایک سوال کے زریعے کہ کس طرح پیشرفتہ اسلحوں کا انبار اور مالی امداد دہشتگردوں کے حوالے کی جاتی ہے فرمایا کہ ان تمام مشکلات کی بنیاد استکباری طاقتیں ہیں اور امریکہ ان سب کے اوپر موجود ہے اور غاصب صیہونی حکومت شرارتوں کا مظہر ہے۔
آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی شام کے مسئلے کے بارے میں مستقل سیاست کو صلح کی طرفداری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ یہ مسئلہ شام کے عوام کے فائدے میں ختم ہو اور ہمارا نظریہ ہے کہ کسی بھی ملک کے باہر بیٹھ کر اسکی قوم کے معالجے کے لئے نسخہ نہیں لکھا جا سکتا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ امریکی اور یورپی ممالک ملت شام کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتے اور یہ ملت شام ہی ہے کہ جو اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔
رہبر انقلاب نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ شام کے مسئلے کا حل اور دہشتگردی جیسی مشکلات اور فلسطین کے عوام کے رنج و غم کا حل آزاد ممالک کے درمیان تعاون اور ایک دوسرے کے نزدیک آنے میں مضمر ہے فرمایا کہ ایران اور گھانا بہت بہترین صلاحیتوں کے حامل ممالک ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آپ کا یہ سفر باہمی تعاون میں اضافے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
آپ نے افریقہ کی بعض شخصیات کی جانب سے تسلط پسند طاقتوں کے خلاف آزادی طلب جدوجہد کی قدر دانی کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ ان برجستہ شخصیات نے افریقہ کی شناخت کو دنیا میں اجاگر کیا ہے۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر روحانی بھی موجود تھے، گھانا کے صدر جان درامانی ماھاما نے ایران کی غنی ثقافت اور علمی میدان میں ترقی و پیشرفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو کو فروغ امن کی جانب دنیا کی حوصلہ افزائی قرار دیا اور خاص طور پر فلسطین کے مسئلے کے بارے میں کہا کہ ملت فسطین کی مشکلات نے تمام اقوام عالم کا رنجیدہ کردیا ہے اور ہمیں چاہئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے زریعے ملت فلسطین کے حقوق کا دفاع کریں۔
انہوں نے افریقہ اور مغربی ایشیا میں دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اور دہشتگردی کے خلاف ایران کے سنجیدہ اقدامات خاص طور پر شام کی پیچیدہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی خارجہ سیاست اپنے مستقبل کے تعین کے سلسلے میں اقوام عالم کے حقوق کے احترام پر استوار ہے اور ہمیں امید ہے کہ دہشتگردی سے مقابلے کے سلسلے میں ایران کے موثر کردار کی وجہ سے شام کا مسئلہ بہت جلد حل ہوجائے گا۔
صدر ماہاما نے ایران کی جانب سے گھانا کے عوام کے لئے انسان دوستانہ امداد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بر اعظم افریقہ میں آزادی کی تحریکوں خاص طور پر جنوبی افریقہ میں آپارتھائیڈ مخالف تحریک کی حمایت کی وجہ سے افریقی ممالک کے عوام کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کی قدر دانی کرتا ہوں۔
گھانا کے صدر نے تہران میں اپنے مذاکرات اور تعاون کی چند یادداشتوں پر دستخط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم مختلف شعبوں میں ایران کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے آمادہ و تیار ہیں۔

تحریر :  سیّد تصور حسین نقوی ایڈووکیٹ
١٠ فروری ١٩٧٩ ء کو ریڈیو تہران سے اعلان کیا گیا کہ توجہ فرمائیے: '' یہ انقلاب کی آواز ہے'' یہ اعلان کرتے ہوئے ریڈیو نے در حقیقت  ٢٥٠٠ سالہ شہنشاہی اور ظالم شاہی نظام کی سر نگونی کی نوید اور باطل پر حق کی فتح کی خوشخبری دی ۔ ٣٧  برس قبل اسلامی انقلاب ١٠ فروری  ١٩٧٩ء کو  بیسویں صدی کے عظیم رہنما امام روح اللہ الموسوی الخمینی علیہ رحمہ کی سرپرستی ،رہنمائی اور قیادت میں قیام پذیر ہوا اور خطے سے شیطانی و طاغوتی قوتوں کا  ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا۔ عمر خیام، سعدی، فردوسی، حافظ ، شمس تبریز اور حسین بن منصور حلاج کی سرزمین ایران میں انقلاب آج اسی آب و تاب اور پورے جوش و ولولے کے ساتھ ترقی کرتا ہوا اپنی منزلوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور یہ انقلاب  نہ صرف دن کی روشنی میں خورشید اور رات کی تاریکیوں میں مہتاب کی مانند چمک دمک رہا ہے بلکہ دنیا بھر کی مظلوم قوموں کی حمایت اور عالمی سامراجی اور طاغوتی  طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر آواز بلند کرنے میں سر فہرست خطے میں موجود ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے مظلوم، مجبور اور محکوم اقوام کی حمایت و نصرت کوفرضِ عین سمجھ کر اسکی ادائیگی میں مصروف عمل ہے ۔ جسکی روشن مثال قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے اور فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنا اور فلسطینیوں کی تحریک کی حمایت ہے۔  اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے چند سو جوانوں کا اسرائیل کے حملوں کے جواب میں مزاحمت ، حزب اللہ کی طرف سے لبنان وشام میں اسرائیلی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ اور اسرائیل اور اسکے اتحادیوں کو ناکوں چنے چبا کر ذلت و رسوائی کے ساتھ شکست سے ہمکنار کرنا بھی انقلابِ اسلامی ایرانی کے ثمرات میں سے ایک ہے جسے پوری دنیا جانتی ہے۔  مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت اور خطے میں دہشت گرد تنظیموں القاعدہ، دولتِ اسلامیہ، جنداللہ، طالبان، آئی ایس آئی ایس اور داعش کے خلاف برسرِپیکار ہونا اور بوسنیا ، چیچنیا، کشمیر میں آزادی کی تحریکوں کی حمایت بھی انقلابِ اسلامی ایران کی بدولت ممکن ہو سکا۔ اخلاقی و انسانی اقدار کی پامالی اور عالمی استعمار و استبداد کے خلاف برپا ہونے والے اس انقلاب نے سرمایہ داری اور اشتراکی نظام میں بٹی دنیا میں ایک ہمہ گیر ارتعاش برپا کر دیا۔ اپنی خصوصیت کے اعتبار سے سامراج دشمن انقلاب جوآج  ٣٧  سال گذر جانے کے بعد نہ صرف مزید طاقتور ہو رہا ہے بلکہ اسی اسلامی انقلاب کی بہاریں دنیا کے دیگر ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور خطے میں شروع ہونے والی اسلامی بیداری اور شعور و فکر کی لہر بھی انقلابِ اسلامی ایران کی مرہون منت ہے۔ اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس اور بیسویں صدی کے انقلاب روس اور چین کے بعد انقلابِ ایران تاریخ کا ایک سنہری حصہ ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت، آمریت اور مطلق العنانیت کا خاتمہ کرکے ملک میں ''ولایت فقہیہ''  نافذ کی گئی لیکن ملک کو جمہوری راستوں پر چلانے کا بھی عزم کیا گیا۔ قدامت پسند سخت گیر قیادت بھی رہی اور اصلاح پسند بھی حکومت میں رہے لیکن ایران جمہوری طریقے سے اپنی مضبوط قومی سوچ اور منظم انداز میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر آگے بڑھا اور اس دوران ایرانی قوم کسی بھی موقع پر تقسیم کا شکار ہوتے نظر نہیں آئی۔ ایرانی قیادت کے ساتھ ایرانی قوم نے بقاء کی غیر معمولی جبلت کے ساتھ حالات کا سامنا اور اسکا مردانہ وار مقابلہ بھی کیا اور ایران کی معیشت اور سماج کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ان ٣٧ سالوں میں ایران کے ارد گرد خوفناک انتشار اور افراتفری کی آگ کے شعلے بہت تیزی کیساتھ بھڑکتے رہے، تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک خانہ جنگی کا شکار رہے اور انکی معیشت آئے دن کمزور ہوتی رہی،  لیکن ایران سیاسی، سماجی ، مذہبی اور معاشرتی طور پر ایک مستحکم ریاست میں تبدیل ہوتا رہا اور اسکی معیشت مسلسل ترقی کی منزلیں طے کرتی رہی۔ اس دوران ایران کی مذہبی اور سیاسی قیادت نے اپنے تدبر ، سیاسی بصیرت ، گڈ گورننس ،بہترین خارجہ و داخلی پالیسیوں اور کامیاب سفارت کاری کے ذریعے اس خطے کی جیو پولیٹک اور جیو اسٹریٹیجک میں ایران کو مرکزی حیثیت بھی دلائی۔ انقلاب ِاسلامی ایران ایک ایسی آئیڈیالوجیکل تحریک تھی جو جغرافیائی سرحدوں میں پابند نہیں تھی اور یہی نقطہ مغربی دنیاکی ایران سے دشمنی کا آغاز تھا۔  وہ خوفزدہ تھے کہ اس انقلاب کے افکار کا دائرہ ایران کی سرحدوں سے باہر پھیلے گا اور دنیا کی آزادی بخش تحریکیں اس انقلاب کی قومی و اسلامی قدروں سے متاثر ہو کر بیدار ہو جائیں گی لہذا سامراج و استبدادی طاقتوں نے انقلاب کے آئیڈیالوجک افکار، اسٹریجیک  اور سیاسی نتائج کی تاثیر کو بھانپ لیا اور شروع دن سے اسے ناکام بنانے کی سازشوں میں مصروف رہے۔ اس تمام عرصے میں عالمی طاقتوں نے انقلاب ِ ایران کو ناکام بنانے، اپنی جنگی معیشت کو فروغ  دینے اور مشرق وسطیٰ کے تیل پر قبضہ کرنے کی غرض سے ایران کے گرد گھیرا تنگ بھی کیا اوراپنی پشت پناہی میں ایران کو عراق کے ساتھ جنگ میں الجھا بھی دیا گیا، جس کے نتیجے میں١٩٨٠ء سے ١٩٨٨ء تک کی ٨ سال کی اس جنگ میں ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کا حامل ملک عراق معاشی طور پر تباہ  اور عدم استحکام کا شکار ہوگیالیکن اس جنگ سے بھی ایران میں سیاسی ، مذہبی اور داخلی  افراتفری پیدا کرنے کی عالمی سازشیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ فرزندانِ توحید نے  مغربی ممالک کی جانب سے دیئے گئے اسلحہ سے لیس اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کی ناپاک سوچ رکھنے والوں کا مسلسل آٹھ سال تک سینہ سپر ہو کر اس یک طرفہ جنگ کاا یمانی قوت و جذبے کیساتھ نہ صرف اپنی سرزمیں کے انچ انچ کا تحفظ کیا  بلکہ  انقلابِ اسلامی کی بھی حفاظت کی اور آخر کار عراق سمیت اسکے پشت بانوں کو اقوام متحدہ کی مدد کا سہارا لیکر جنگ بندی کا مطالبہ کرناپڑا۔عرب دنیا نے جس طرح صدام حسین کی معاشی، سیاسی، اخلاقی، دفاعی پشت پناہی کی وہ بھی ایک کھلا راز ہے اور جسطرح امریکہ کے عزائم کو تقویت پہنچائی وہ بھی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔انقلاب کی وجہ سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا رویہ ایران کیساتھ انتہائی جارہانہ متعصبانہ اور مخاصمانہ  رہا اورامریکہ ،اسرائیل اور اُنکے مغربی اتحادیوں کی طرف سے ایران پر حملے کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی۔ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو بنیاد بنا کر ہر طریقے سے ایران کو دبانے کی کوششیں کی جاتی رہیں ۔ امریکہ و مغرب کی طرف سے دنیا کے شائد کسی دوسرے ملک کو اس قدر طویل ترین اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہو جتنا ایران کو کرناپڑا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ہمارا خطہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ایران کے پڑوسی ملک افغانستان میں ١٩٧٩ء  میں لگنے والی آگ نے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا مگر ایران اس سے محفوظ رہا۔درحقیقت اس دہشت گردی نے عالمی سامراجی ایجنڈے کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس خطے میں اس عالمی ایجنڈے کا سب سے بڑا ہدف ایران تھا ، اس کے باوجود بھی ایران نے اپنی سرزمیں کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک رکھا۔ ان تمام غیر معمولی سازشوں ،پابندیوں  اور جارحانہ رویوں کے باوجودسیاسی ، دفاعی ،داخلی،خارجی و اقتصادی ماہرین اور غیر جانبدار مبصرین یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ایران ہر حوالے سے ایک مضبوط ، منظم اورمستحکم طاقت اور ریجنل لیڈر کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور ان غیر معمولی چیلنجز ، رکاوٹوں اور نامساعد حالات میں ایران میں استحکام اسی طرح حیرت انگیز ہے جس طرح ایران کا انقلاب حیرت انگیز تھا اور انقلاب کے بعد کے ٣٧ سالوں میں ایران کے استحکام، ترقی اور خوشحالی کی داستان بھی اتنی ہی حیرت انگیز ہے۔ ان ٣٧ سالوں میں ایران میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس نے تعلیمی، سائنس وٹیکنالوجی، میڈیسن، کیمسٹری، ریاضی اور دیگر اقتصادی و سماجی شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کی۔  دنیا میں سائنس کے شعبے میں ہونے والی ترقی میں ایران نے گیارہ گناہ  زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے۔  عہد ِ حاضر میں ایران میں ٧٥٠  ایسے تحقیقاتی سینٹر ، کالج اور حکومت سے متعلق یونیورسٹیاں موجود ہیں کہ جن میں موجود ماہرین کی شبانہ روز محنت کی بنا پر ایران نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے۔ کیمسٹری، میڈیسن، کمپیوٹر سائنس اور ریاضی میں اس کا شمار دنیا کے پہلے ٢٠ ملکوں میں ہوتا ہے۔ایران اسٹیم سیل اور کلوننگ ریسرچ میں دنیا کے ١٠ ملکوں میں شامل ہے۔آئی بائیو امپلانٹس کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔١٩٧٨ء میں ایران میں صرف آٹھ ہزار ڈاکٹر موجود تھے جبکہ اس وقت ایک لاکھ دس ہزار سے زائد قابل ترین ڈاکڑز موجود ہیں۔ایشیا میںنئی دوائیں ایجاد کرنے اور نئی ترکیب والی دوائیں بنانے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے  اور بنیادی سیلوں میں پیوند لگانے میں ایران دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ١٩٧٩ ء سے پہلے صرف پچیس فیصد دوائیں ملک کے اندر سے تیارکی جاتی تھیں لیکن اب یہ شرح ٩٥ فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اب ایران میں ١٢٠٠ سو سے زیادہ ادویات تیار کی جاتی ہیں۔اینجی پارس نامی دوا ایرانی ماہرین طب نے سات سال کی محنت کے بعد دریافت کی ے جو شوگر کے مریضوں کے لئے نہایت ہی مفید ہے اور اگر کسی مریض کا کوئی اعضا ء کاٹنے کی نوبت بھی آجائے تب بھی اس کے استعمال سے مریض کو شفا ملتی ہے۔نینو ٹیکنالوجی کا علم پیدا کرنے والے ملکوں میں ایران کا دنیا بھر میں ساتواں نمبر ہے۔لیبارٹری میں کام آنی والی مشینیں،  مائیکروسکوپ، ایس ٹی ایم، کیرو میٹر گرافی، اینٹی بیکٹیریا محصولات کی ایجاد، افزائش کی قوت بڑھانے والے نینو میٹرز کی ایجاد اور اسی طرح توانائی کو کنٹرول،گاڑیوں میں ایندھن کا کم خرچ اورانواع اقسام کے ایسے لباس جس پر پانی کا اثر نہ ہو شامل ہیں۔بائیوٹیکنالوجی کے بعد طب کے میدان میں دوسرا بڑا انقلاب  بنیادی خلیوںکی تحقیق کا علم ہے۔ ایران میں قائم تحقیقاتی سینٹرز نے انسان کے بنیادی خلیے تیار کر کے ایران کا نام دنیا کے ان پہلے دس ملکوں میں درج کروا دیا ہے جنہوں نے اس شعبے میں کامیابی حاصل کی ہے۔انفلیونزا،  ہیپاٹائیٹس اور تپ دق کی بیماریوں کی ویکسین تیار کرنے میں ایران کا پہلا نمبر ہے۔ ایران میں استعمال  ہونے والے ٩٩ فیصد لین لائن اور ٦٢ فیصد موبائل فون  ایران میں  بنائے جاتے ہیں ۔ ایران میں تین کروڑ  ٦٩ لاکھ انٹر نیٹ کے مراکز، موبائل فون کے  ٢٧٣ آپریٹرز،  دنیا کے کے  ١١٢  ممالک کے ساتھ رومنگ کے ذریعے رابطے کی سہولت موجود ہے۔ایران خطے کا وہ واحد ملک ہے جو بغیر کسی بیرونی امداد کے سٹیلائٹ بنانے میں نہ صرف کامیاب ہوا ہے بلکہ دنیا کا آٹھوں ملک ہے جو  اپنے بل بوتے پر سٹیلائٹ فضا میں بھیجنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ دنیا کا ٩واں ملک ہے، جس کی اپنی اسپیس ٹیکنالوجی ہے اور جس نے مدار میں کامیابی  سے سٹیلائٹ چھوڑے ہیں۔١٩٨٠ء سے ٢٠١٢ء تک اوسط عمر ، تعلیم تک رسائی اور معیار زندگی کے حوالے سے ایران ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں ٦٧  فیصد اضافہ ہوا اور اس انڈیکس میں ایران کا شماردنیا کے سرفہرست ملکوں میں ہے۔  ١٩٧٦ء کے مقابلے میں شرح خواندگی ٣٦ فیصدسے ٩٩ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ایران نے اپنی فوج اور ملکی دفاع کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔ ڈراؤن ٹیکنالوجی میں ایران نے اتنی ترقی کی ہے کہ اسکی مثال امریکہ کا ڈراؤن صحیح سلامت اتار کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالنا ہے۔ اسکے علاوہ ایرانی بحریہ دنیا کی مضبوط ترین اور بہترین تربیت یافتہ بحریہ ہے جس نے گذشتہ دور میں کئی بار امریکہ سمیت غیر ملکی  مداخلت کو روکا اور انہیں نہائت ہی مستعدی سے ہتھیار ڈالنے پر مجبور بھی کیا ۔ ایرانی ریڈار ٹیکنالوجی بھی دنیا کی ایڈوانس ترین ٹیکنالوجی ہے جو کسی بھی قسم کی نقل و حرکت کو بھانپنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ ایران کے پاس دنیا کا جدید ترین میزائل سسٹم موجود ہے جو فضا اور زمین میں اپنے ٹارگٹ پر پہنچنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران نے اپنے بل بوتے پر پُرامن مقاصد کے لئے  بیس فیصدیورینیم کی افزدگی کرکے بھی دنیا کو ورطہ ء حیرت میں ڈالا ہے۔ بجلی ، گیس، تیل، قدرتی معدنیات و قیمتی دھات کے حوالے سے ایران انتہائی خود کفیل ہے اور وہ یہ چیزیں دوسرے ملکوں کو برآمد بھی کرتا ہے۔دنیا کے ملکوں کو ضروری  ٦٥  فیصد توانائی اسی علاقے سے گذرتی ہے اس لئے مشرق وسطیٰ کے خطے کی جیو پولیٹیک اور جیو اسٹریٹیجک کی اہمیت کے پیش نظر ایران کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے۔اسی لئے عرب بہار اور عراق پر امریکہ کے حملے نے ایران کے لئے جہاں نئے چیلنج پیدا کئے وہیں ایران کو نئے مواقع بھی ملے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران کا اثر و رسوخ زیادہ ہوا اور یمن، لبنان، بحرین، شام، عراق ان سب خطوں میں ایرانی اثر و رسوخ میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اب مشر ق وسطیٰ میں امن کے قیام اور اس خطے میں نئی صف بندی کے لئے ایران کی طرف دیکھا جارہا ہے۔ایران نے ٣٧ سالوں میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی مکارانہ چالوں ،سازشوں اور دھمکیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اُنکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ایران نے عالمی طاقتوں کو چیلنج بھی کیا اور سفارت کاری کے ذریعے دباؤ باوقار طریقے سے برابری کی بنیاد پر ان کے ساتھ مفاہمت بھی کی۔یہ ایران کی کامیاب سیاسی، سفارتی اور خارجی حکمت عملی ہے کہ امریکہ سمیت عالمی طاقتیں اس  بات پر مجبور ہوئیں کہ اسلامی انقلاب ایران کی حکومت  کے ساتھ  مذاکرات کرنے کے لیے  مذاکراتی  میز پر  ایرانی  شرائط کے ساتھ بیٹھیں اور تمام شرائط مان کر ماضی کی تمام پابندیاں ختم کر کے ایران کی اہمیت و حیثیت اور اسے خطے کی ایک بڑی اسلامی طاقت کے طور پر تسلیم کیا،  حالانکہ ان سامراجی و طاغوتی طاقتوں کی یہ تاریخ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی شرائط پر دنیا کی اقوام سے بات کی ہے اور اپنے سے کمزور ممالک پر  ہمیشہ فوجی چڑھائی  کے ذریعے اپنے مطالبات  تسلیم کروائے ہیں۔لیکن ایران نے اپنی کامیاب حکمت عملی کے ذریعے خطے کی سیاست میں اپنی اہمیت و کردار کو تسلیم کروایا۔  چین کے صدر  شی چن پنگ کا  ٨٠٠  افراد کے ہمراہ کسی بھی ملک کا سب سے پہلا دورہ  اور دونوں ملکوں کی تجارت کاحجم ٦٠٠ ارب ڈالرز تک لے جانے پر اتفاق،  یورپی یونین اور ایران کے درمیان تجارتی لین دین چھ گناہ سے زیادہ  بڑھانے کے اعلانات،  جرمنی کے وزیر اقتصادی امورکا اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ ایران کا دورہ اور اس کے بعد جرمنی اور فرانس کی  بڑی بڑی کمپنیوں کے نمائندہ وفود کی تہران آمد،    روس کے صدر پیوٹن، جرمنی کے چانسلر اور دیگر مغربی ممالک کا بڑے  پیمانے پر  ایران میںسرمایہ کاری اور امریکہ کی طرف سے  ١٠٠  ارب ڈالر سے زائد کے منجمد اثاثے ایران کو واپس کرنے کا اعلان بھی ایران کی بڑی کامیابیاں ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے حالیہ تنازعہ کو حل کرنے میں پاکستان کے علاوہ چین، روس اور امریکہ کی قیادت کے کردار کا کچھ عرصہ پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔  اس طرح کے تنازعات پہلے بھی پیدا ہوئے لیکن ان میں ایران کو ہی عالمی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اب صورتحال اس کے بر عکس ہے۔ایران کی کامیابیوں اور انقلابِ ایران کے ثمرات کی ایک طویل داستان  ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مگر۔۔۔۔۔!

رپورٹ کے مطابق یونان کے وزیر اعظم نے تہران میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی ۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں اپنی گفتگو میں فرمایا کہ یورپ پر یہ تنقید بجا ہے کہ امریکا کے مقابلے میں اس کے اندر آزادی عمل نہیں پائی جاتی بنا بریں یورپ کو اپنی یہ کمزوری دور کرنی چاہئے ۔

یونان کے وزیراعظم الیکسیس سیپراس نے پیر کی شام تہران میں رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی - رہبرانقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ثفافتی اور تہذیبی لحاظ سے ایران اور یونان کے درخشاں ماضی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یونان کے وزیراعظم کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور تجارتی معاملات میں اضافے اور طویل المیعاد تعاون کے لئے بہترین آغاز ثابت ہو سکتا ہے -

رہبرانقلاب اسلامی نے یورپ میں متضاد نظریات اور مفادات کے بارے میں یونانی وزیراعظم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یورپ پر یہ تنقید بجا ہے کہ ماضی کے برخلاف امریکا کے مقابلے میں اب یورپ کے اندر آزادی عمل نہیں پائی جاتی اس لئے یورپ والوں کو چاہئے کہ وہ اس کمزور پہلو کی اصلاح کریں -

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شام کے بارے میں یونانی وزیراعظم کے موقف کے بارے میں کہا کہ دہشت گردی ایک وبائی اور انتہائی خطرناک بیماری ہے- آپ نے فرمایا کہ اگر سب متحد ہوکر سنجیدگی کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تو اس پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن افسوس کہ بعض ممالک براہ راست یا بالواسطہ طور پر دہشت گرد گروہوں کی مدد کر رہے ہیں -

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران اور یونان کی پالیسیوں میں پائی جانے والی مشترک باتوں کا ذکر کرتے ہوئے یونانی وزیر اعظم سے فرمایا کہ آپ کی اور آپ کی حکومت کی پالیسی آزاد ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ یونان کے اقتصادی مسائل پر غلبہ پالیں گے اور آپ کا یہ دورہ بھی دونوں ملکوں کے مفادات کی تقویت کا باعث بنے گا -

اس ملاقات میں جس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے یونان کے وزیراعظم الیکسیس سپراس نے رہبرانقلاب اسلامی سے کہا کہ آپ ایک عظیم اور صاحب افتخار قوم کے رہبر ہیں جس نے اپنی تاریخ اور اپنی امنگوں اور آزادی کے دفاع میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے -

یونانی وزیراعظم نے اپنے دورہ تہران کو تمام میدانوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لئے مشترکہ سیاسی عزم کی علامت قرار دیا اور کہا کہ یہ دورہ دوطرفہ تعلقات میں سنگ میل اور دونوں ملکوں کے لئے سود مندثابت ہوگا ۔ یونان کے وزیراعظم نے یورپ میں پائے جانے والے متضاد نظریات و مفادات اور مشکلات و پیچیدگیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یورپی ملکوں کی معیشت ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور اس میں تبدیلی بہت ہی مشکل ہے - انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں تبدیلی کے لئے خود یورپی یونین کے اندر طاقت کے توازن میں تبدیلی کی ضرورت ہے -

انہوں نے شام کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ شام کے سلسلے میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی کیونکہ اس بحران کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے اور دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر دیگر ملکوں منجملہ یونان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں -

رپورٹ کے مطابق رہبرانقلاب اسلامی نے دشمن کی چالوں اور سازشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ دشمن جب دشمنی کے ذریعے اپنے مقصد میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ دوستی کے لباس میں نقصان پہنچاتا ہے.

آٹھ فروری انیس سو اناسی کو ایرانی فضائیہ کے حضرت امام خمینی( رح) سے تاریخی اعلان وفاداری کی سالگرہ کی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈروں اور کارکنوں نے پیر کو رہبرانقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی.

رہبرانقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں دشمنوں کی چالوں اور سازشوں سے ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن مسکرا کے ملتا ہے لیکن ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ اس مسکراہٹ کے پیچھے اس کا کیا مقصد چھپا ہوا ہے - آپ نے فرمایا کہ ہمارے سامنے دشمنی کا ایک محاذ اقتصادی، ثفافتی اور سماجی میدانوں سے متعلق محاذ ہے - انہوں نے فرمایا کہ دشمن سے غفلت کوئی فخر کی بات نہیں ہے اور دشمن جب دشمنی کے ذریعے اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہو جاتا ہے تو دوستی کے لباس میں نقصان پہنچاتا ہے -

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایاکہ اگر ملک کے اقتصاد اور معیشت کو ہم اندر سے مستحکم بنائیں تو بے روزگاری ، کساد بازاری، اقتصادی جمود اور افراط زر کی شرح میں اضافے جیسی مشکلات ختم ہوجائیں گی - آپ نے فرمایا کہ مختلف پیداواری شعبوں میں ہمیں اپنی ملکی پیداوار کو بڑھانا ہوگا -

رہبرانقلاب اسلامی نے آئندہ چھبیس فروری کو ہونےوالے انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات ان تنصراللہ ینصرکم کے مصداق ہیں آپ نے ایرانی عوام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ اسلامی جمہوری نظام کی مدد کریں گے تو اللہ بھی آپ کی مدد کرے گا.

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر اب تک دنیا کی بڑی مادی طاقتیں انقلاب کے مقابلے میں صف آرا رہی ہیں لیکن وہ اسلامی انقلاب کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں - رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جب انتخابات عوامی ہو جاتے ہیں اور اس میں عوام کے تمام طبقات شرکت کرتے ہیں تو ملک اور اسلامی جمہوری نظام کو عزت و سربلندی عطا ہوتی ہے اور ملک و نظام محفوظ ہو جاتا ہے - آپ نے فرمایا کہ اسی لئے انتخابات میں شرکت کرنا سب کا فریضہ ہو جاتا ہے اور سب کو انتخابات میں شرکت کرنی چاہئے.

برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیاں نو مسلموں کو اپنا جاسوس بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

یہ بات برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں انجام دی جانے والی ایک تحقیق کے دوران سامنے آئی۔ اس تحقیق میں پچاس نو مسلم برطانوی شہریوں نے حصہ لیا اور محققین کے سوالوں کے جوابات دینے کے علاوہ اپنے تجربات سے بھی آگاہ کیا۔ اس تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ انٹیلی جنس ایجنسیاں سمجھتی ہیں کہ نومسلموں کو استعمال کرنا آسان ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی برادری سے الگ تھلگ ہوگئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاسوسی اداروں کے ایجنٹ یا تو ان مسلمانوں کے ساتھ جھوٹی ہمدردی ظاہر کرتے ہیں یا پھر انہیں ڈرا دھمکا کر تعاون کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جاسوسی اداروں کے ساتھ تعاون کا دائرہ نومسلموں تک محدود نہیں ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز شعبے کے سربراہ پروفیسر یاسر سلیمان نے کہا ہے کہ نو مسلموں کو معاشرے اور دیگر برطانوی نژاد شہریوں سے الگ تھلگ کرنے کی فکر، میڈیا کی جانب سے پھیلائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے یہ فکر پھیلائی جا رہی ہے کہ جو لوگ اسلام اختیار کرتے ہیں وہ شدت پسند اور انتہا پسند ہیں، چاہے وہ انتہا پسند فکر رکھتے ہوں یا نہیں۔

فلسطینی قیدیوں کے امور سے متعلق کمیٹی نے کہا ہے کہ انتفاضہ قدس کے آغاز سے اب تک دسیوں فلسطینی خواتین کو صیہونی فوجیوں نے گرفتار کر لیا ہے۔

فلسطین کے انفارمیشن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے امور سے متعلق کمیٹی میں تحقیقاتی شعبے کے سربراہ عبدالناصر فروانہ نے کہا کہ صیہونی فوجیوں نے سنہ دو ہزار پندرہ کے اکتوبر کے مہینے میں اڑتیس، نومبر کے مہینے میں انتیس ، دسمبر کے مہینے میں پچیس اور رواں برس جنوری کے مہینے میں آٹھ فلسطینی خواتین کو گرفتار کیا ہے۔ عبدالناصر فروانہ نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے، کہ انتفاضہ قدس کے دوران صیہونی فوجیوں نے فلسطینی خواتین پر اپنے حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے، کہا صیہونی فوجیوں نے بارہا فلسطین کی کمسن لڑکیوں پر فائرنگ کر کے ان کو زخمی کیا اور پھر انہیں زد و کوب کے بعد ہشارون اور دامون جیلوں میں قید کر دیا۔

اس وقت پچپن فلسطینی خواتین صیہونی دشمن کی جیلوں میں قید ہیں جن میں سب سے کمسن کریمان سویدان ہے جس کی عمر چودہ برس ہے اور سب سے قدیم ترین قیدی خاتون لینا جربونی ہے۔ صیہونیوں نے اس فلسطینی خاتون کو اپریل سنہ دو ہزار دو میں گرفتار کیا تھا۔

صیہونی فوجیوں نے یکم اکتوبر سنہ دو ہزار پندرہ میں انتفاضہ قدس شروع ہونے کے بعد سے اب تک تین ہزار آٹھ سو سینتالیس فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے۔ صیہونی حکومت کی جیلوں میں اس وقت سات ہزار سے زیادہ فلسطینی قید ہیں۔

رہبر انقلاب اسلام نے تاکید کے ساتھ فرمایا ہے کہ دین اور انقلاب کی راہ میں اپنی جان فدا کرنا کسی خاص طبقے سے مخصوص نہیں ہے اور اس عظیم اور معنوی رقابت میں تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل کے روز شہید کھلاڑیوں کی کانفرنس کے منتظمین سے اپنے خطاب میں شہید کھلاڑیوں کی قدردانی کے لئے سیمینار کے انعقاد کو انقلابی جذبے کی تقویت اور اعلی انقلابی فکر کی بلندی قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جوان کھلاڑی، فطری طور پر خاص جوانوں کے لئے ایک نمونہ ہوتا ہے جس کا اخلاق و کردار اور طریقہ زندگی، بہت زیادہ متاثر کرتا ہے کہ جس سے سماج کی دین، اخلاق اور معنویت کی جانب ترغیب بھی ہوتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے لفظ پہلوان کو قومی و مقامی ادبیات میں امتیاز کا حامل ایک لقب قرار دیا اور کھیل کے میدان میں بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی قدردانی کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ فتح کے بعد قومی ترانہ پڑھے جانے اور قومی پرچم اوپر لے جائے جانے سے بھی زیادہ قابل فخر، اس کھلاڑی کا اقدام ہے جو صیہونی حریف سے کشتی لڑنے سے انکار کر دیتا ہے یا وہ خاتون کھلاڑی ہے جو مکمل اسلامی پردے میں فتح کے اسٹیج پر حاضر ہوتی ہے۔ آپ نے اس طرح کے اخلاق و عمل کو میدان جنگ میں جانے اور ایرانی مسلمان کے مستحکم جذبے کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ یہ اقدام، ایک قوم کے تشخص، بھرپور استقامت اور آہنی عز م و ارادے کی نشاندہی کرتا ہے جو وہم اور اس قسم کے احساسات کے مقابلے میں کبھی شکست نہیں کھاتا اور مغلوب نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا کہ اس طرح سے کام کئے جانے کی ضرورت ہے کہ کھیل کا ماحول، اس طرح کے عمل کا حامل بنے۔ آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایسے کھلاڑیوں کی قدردانی کرتے ہوئے جو جیتنے پر اعلانیہ طور پر اخلاقی اقدار کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، فرمایا کہ ایک ضروری اقدام، ایسے کھلاڑیوں کی قدردانی کرنا ہے جو خدا کا نام لیتے ہیں اور فتح حاصل کرنے پر خدا کا سجدہ ادا کرتے ہیں۔ آپ نے اس طرح کے عمل کو اسلامی ایران کے تشخص و وقار کا مظہر قرار دیا اور اس طرح کے عمل کی تقویت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس طرح کے عمل سے کھیل کا ماحول اور زیادہ شفاف اور پاکیزہ بنے گا۔ قابل ذکر ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شہید کھلاڑیوں کی کانفرنس کے منتظمین سے گیارہ جنوری کو خطاب فرمایا تھا اور آپ کی اس تقریر کو منگل کے روز آزادی اسٹیڈیم میں اسی مناسبت سے منعقدہ سیمینار میں سنوایا گیا۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے تعلیمی ، سائنسی اور ثقافتی ادارے "یونسکو" کے نمائندے نے ایران اور افغانستان کے درمیان ثقافتی تعاون میں فروغ کی درخواست کی ہے-

ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں یونسکو کے نمائندے احمد یاور نے ایران کے صوبہ خراسان رضوی کے شہر خواف کے تاریخی مقامات کے دورے کے موقع پر کہا ہے کہ ایران اور افغانستان کے درمیان ثقافتی اشتراکات کے استحکام اور اضافے سے علاقے میں اغیار کی ثقافت کے نفوذ کو روکا جا سکتا ہے-

افغانستان میں یونسکو کے نمائندے نے مزید کہا کہ افغانستان کو تاریخی مقامات کی مرمت میں ایران کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے-

احمد یاور نے شہر خواص میں تاریخی "مدرسہ غیاثیہ" کی مرمت کرنے والے ایرانی ماہرین کی تعریف کرتے ہوئے ایرانی ماہرین سے افغان کاری گروں کو سکھانے اور ٹریننگ دینے کی خواہش ظاہر کی-

شہر خواص سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مدرسہ غیاثیہ کو سلطان شاہ رخ تیموری کے وزیر خواجہ غیاث الدین پیر احمد خوافی کے حکم سے آٹھ سو چھیانوے ہجری قمری میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسی بنا پر وہ غیاثیہ کے نام سے معروف ہے-