
Super User
رہبر انقلاب:سعودیہ کو حجاج کی تکریم اور سکیورٹی پر توجہ مبذول کرنی چاہیے/ دشمن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائےگا
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے آج حج کے امور میں ولی فقیہ کےنمائندے اور حج اہلکاروں نے ملاقات کی ۔ یہ ملاقات ہر سال حجاج بیت اللہ الحرام کے سرزمین وحی پر روانہ ہونے سے قبل انجام پذیر ہوتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی حجاج کے سرپرست اور حج اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں حج کو ایک سیاسی ، عبادی اور دینی فریضہ قراردیتے ہوئے فرمایا: حج مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور یکجہتی کا بہترین مظہر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج امریکہ کی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی واضح اور نمایاں ہے اگر آپ حج کے موسم میں امریکہ کی دشمنی کو مسلمانوں کے سامنے بیان نہیں کریں تو پھر کہاں بیان کریں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جن لوگوں کے پاس حج کے انتظامی امور ہیں انھیں حجاج بیت اللہ الحرام کے ساتھ اسلامی اور انسانی رفتار سے پیش آنا چاہیے۔ اور اللہ تعالی کے مہمانوں کی تعظيم اور تکریم کرنی چاہیے۔
جناب فاطمه الزہرا(س) اور نماز
بسم الله الرحمن الرحیم والحمد لله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید خلقه وسید رسله محمد وآله الطاهرین.
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ کے سلسلے میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا بات اس جملے پر پہنچی جس میں حضرت زہرا (س) نے دین اسلام کا فلسفہ بیان کیا ہے اور واجبات اور دینی احکام کے دلائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔
آپ (س) کے اس جملے کے بارے میں گفتگو جاری تھی «فَجَعَلَ اللهُ الإیمانَ تَطهیراً لَکُم مِن الشِّرکِ» ( خداوندعالم نے ایمان کو اس لیے قرار دیا تاکہ تم شرک سے پاک ہو جاو) اور کہا کہ یہ جملہ بظاہر تو بہت مختصر ہے لیکن اس میں معانی کا ایک دریا سمایا ہوا ہے۔ پچھلی تقریر میں اس بارے میں مختصر گفتگو ہوئی اور کہا گیا کہ اگر انسان اپنی زندگی میں کامیابی کی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ایک سمت و سو حرکت کرنا پڑے گی یعنی انسان کا کسی عمل کو انجام دلانے والا محرک صرف ایک ہی ہونا چاہیے تب وہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر انسان مومن ہے تو اپنی تمام تر توانائیوں کے ذریعے اللہ کی خشنودی حاصل کرنے کی راہ میں لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ ایسا انسان اپنی زندگی میں بے انتہا مثبت اثرات کا حامل ہو سکتا ہے اور اس کی زندگی بابرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن مشرک انسان چونکہ اس کے اندر محرک ایک نہیں ہوتا اس کی سمت و سو ایک نہیں ہوتی تو اس کا باطن کھوکھلا ہوتا ہے وہ اندر سے بٹا ہوا ہوتا ہے اس کی زندگی کامیاب زندگی نہیں ہوتی۔ ہم نے چند مثالوں سے یہ ثابت کیا تھا کہ انسان یا حیوان حتی ایک مرغا اگر ایک سمت و سو حرکت کرتا ہے تو کس طرح اس کے اندر حیرتک انگیز توانائیاں وجود پا جاتی ہیں۔ لہذا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس جملے کا خلاصہ یوں ہو گا کہ شرک ایک طرح کی روانی بیماری ہے کہ جس سے بدتر اور مہلک کوئی اور بیماری نہیں ہے اس لیے کہ شرک انسان کے وجود کو تقسیم کر دیتا ہے انسان کے باطن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اور اسے کمال کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔
بنابرایں، شرک ایک قسم کی بیماری ہے اور ایمان اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ایمان انسان کو اس بیماری سے پاک کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ایمان کو انسان کے لیے شرک سے پاک ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک گزشتہ مجلس میں گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ (س) عبادتوں کے فلسفے اور ان کے نتائج کے بارے میں گفتگو کا آغاز کرتی ہیں۔ نماز واجب ہوئی ہے تاکہ مومنین اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کرنے کی مشق دیں اور خدا کی عبادت اور بندگی کو درک کریں۔ روزہ اور حج کے واجب ہونے کے بھی اپنے آثار ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا یہ گفتگو کہاں کر رہی ہیں؟ مسجد میں نمازیوں کے درمیان۔ آپ نمازیوں سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اے مسلمانو! یہ نمازیں اور یہ عبادتیں جو تم پر واجب ہوئی ہیں اس لیے نہیں ہیں کہ تم نماز پڑھنے کو عادت بنا لو اور نماز کی ادائیگی کا حقیقی مقصد بھول جاو اور اسے صرف ایک ظاہری رسم و رواج میں تبدیل کر دو۔
خداوند عالم نے اس وجہ سے نماز کو تم پر واجب قرار دیا ہے کہ نماز تمہیں برائیوں سے روکے، برے کاموں سے باز رکھے اور یہ نص قرآن کریم ہے «إِنَّ الصَّلوۃ تَنهی عَنِ الفَحشاءِ وَ المُنکَرِ»(۱) لہذا اے مسلمانوں تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسرے کے حق بھی غصب کر رہے ہو؟ نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسروں پر ظلم بھی کر رہے ہو؟ نماز بھی پڑھ رہے ہو اور اہل حق کو اس کا حق نہیں دے رہے ہو؟
حضرت فاطمہ زہرا(ع) مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازیوں کو یہ فرما رہی ہیں کہ تم لوگ کیا سمجھتے ہو نماز کیوں واجب کی گئی؟ کیا اس لیے کہ ہر دن ایک بار دو بار یا پانچ بار مسجد میں آکر جانماز پر کھڑے ہو کر کچھ حرکتیں انجام دے دیں اور اس کے بعد چلیں جائیں؟ بس نماز صرف یہی ہے؟ کیا حقیقت نماز صرف یہی ہے؟ کیا خدا کو اس طرح کی نمازوں کی ضرورت ہے؟ ایسی نماز تو ہمارے دین میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہماری عبادت، ہمارے نماز، روزے، حج و زکات سے بے نیاز ہے۔ پس کیوں نماز واجب ہوئی ہے؟
خداوند عالم نے نماز کو واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اطاعت اور بندگی کا سلیقہ پیدا ہو ان کے اندر بندگی کی روح پیدا ہو۔ نماز کا فلسفہ یہ ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے نماز انسان کو ہر طرح کی برائی سے روکتی ہے یعنی اس کے اندر خدا کی اطاعت اور بندگی کی روح پیدا کرتی ہے۔ یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے اور خدا سے تقرب کا ذریعہ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے انسان اللہ کا واقعی بندہ بن جاتا ہے۔ اب ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہماری نمازیں ہمیں گناہوں سے روکتی ہیں؟ کیا جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر گناہوں سے دور ہونے کا محرک پیدا ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نمازیں بھی چند حرکتیں ہیں ورزش ہے نماز نہیں ہے۔
حضرت زہرا اس امت کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ یہ نمازیں پڑھ رہی ہے لیکن کیا یہ پیغمبر اسلام (ص) کے دیگر فرامین پر بھی عمل پیرا ہو رہی ہے؟ رسول خدا (ص) نے جو علی علیہ السلام کے بارے میں وصیت کی تھی کیا اس کو انہوں نے نہیں سنا ہے؟ کیا یہ لوگ کل تک رسول خدا (ص) کے ساتھ ساتھ نہیں چل رہے تھے؟ کیا انہوں نے نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: «الساکِتُ عَنِ الحَقِّ شَیطانٌ أخرَسٌ" ( جو شخص حق بات کہنے پر خاموش ہو جائے وہ گونگا شیطان ہے) کیا انہوں نے ان باتوں کو رسول اسلام سے نہیں سنا تھا؟ کیسے انہوں نے اجازت سے دی ان کی آنکھوں کے سامنے حق اہل حق سے چھن جائے؟ ابھی تو حجۃ الواع اور اعلان ولایت امیر المومنین (ع) کو چار ہی مہینے گزرے تھے۔ کیا یہ لوگ بھول گئے؟ یا خود کو فراموشی میں ڈال دیا ہے؟ یا چپ ساد لی ہے؟ مگر ایسا نہیں ہے جو حق بات کہنے کے بجائے چپ ساد لے وہ گونگا شیطان ہے؟ کیوں ان کی نمازوں، عبادتوں، حج و دیگر اعمال نے انہیں حق کی حمایت کرنے سے روک دیا؟ اس لیے کہ عبادت ان کے لیے عادت بن چکی تھی ان کی عبادتیں اپنی اصلیت کو کھو چکی تھیں وہ صرف نماز کی شکل میں حرکات انجام دے کر چلے جاتے تھے۔
حضرت زہرا(س) فرماتی ہیں: اے لوگو! ان نمازوں، روزوں ، حج و زکات اور امر و نہی کا کچھ معنی اور مفہوم بھی ہےْ کیسے تم نماز پڑھتے ہو اور غرور و تکبر بھی کرتے ہو؟ کیسے ایسی چیز ممکن ہے؟ نماز خدا کی اطاعت اور بندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نماز خدا کے سامنے انکساری کے اظہار کی ایک مشق ہے۔ وہ نماز جس سے غرور پیدا ہو وہ نماز نہیں ہو سکتی جس کا حکم اللہ نے دیا ہے بلکہ یہ وہ نماز ہے جس کا حکم نفس امارہ دے رہا ہے۔ جس نماز کا حکم اللہ نے دیا ہے وہ نماز دل کو روشن کرتی ہے، نفس کو منکسر کرتی ہے، انسان کو متواضع کرتی ہے۔ ہم نماز میں کیا کرتے ہیں؟ کتنی مرتبہ خدا کا تذکرہ کرتے ہیں اس کا نام لیتے ہیں؟ شروع سے آخر نماز تک کتنی مرتبہ اس کے سامنے جھکتے ہیں؟ کتنی مرتبہ اپنی پیشانی زمین پر رکھتے ہیں اور اس کا سجدہ کرتے ہیں؟ سجدہ کا کیا مطلب ہے؟ انسان خدا کے سامنے سجدہ کرنے سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا پورا وجود اور میری روح و جان خدا کے سامنے تسلیم ہے۔ اپنا سر اور پیشانی جو میری سربلندی اور میری عزت کی علامت ہے اسے اپنے معبود کے سامنے خاک پر رکھ دیتا ہوں۔ کیا نماز اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ کیوں سجدہ کرتے ہو؟ کیا کسی بادشاہ یا حاکم کے سامنے سجدہ کرنا جائز ہے؟ انسان کا سجدہ صرف خدا کے لیے ہونا چاہیے۔ ہم خدا کے علاوہ کسی کے سامنے اپنا سر نہیں جھکا سکتے۔ اس سجدہ کا کیا مطلب ہے؟
سجدہ یعنی تواضع اور فروتنی کی آخری حد۔ سجدہ کی علامت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے۔ یعنی خدایا میں صرف تیرے آگے تسلیم ہوں لہذا اپنے سر اور پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ہوں۔
ہم نماز کے وقت خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ کیسے خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہم نماز میں خدا کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتے؟ کیا ہم نماز میں نہیں کہتے؟ «اِیّاکَ نَعبُدُ وَاِیّاکَ نَستَعینُ.»(۲) ہم کہتے ہیں صرف تو، تو کون ہے؟ کیا خدا نہیں ہے؟ خدا کو کہتے ہیں کہ صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ صرف تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ تیرے علاوہ کسی سے مدد کا مطالبہ نہیں کرتے۔ لہذا آپ نماز میں اپنے پروردگار سے مناجات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اس کے سامنے سجدے اور رکوع کر رہے ہوتے ہیں۔
ان تمام اعمال کو نتیجہ کیا ہے؟ غرور؟ تکبر؟ حدیث میں آیا ہے: «الغُرورُ شِرکٌ خَفیٌّ» غرور مخفی شرک ہے۔ انسان کو تکبر کرنےکا حق نہیں ہے۔ انسان کس چیز پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے؟ قرآن کہتا ہے: «وَلاَ تَمْشِ فِی الأرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الأرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً.»(۳) کس چیز پر فخر کریں اور اپنے آپ کو بڑا کہیں میں ایسا موجود ہوں جس کے پاس نہ اپنے نفع کا اختیار ہے نہ نقصان کا نہ زندگی کا نہ موت کا کچھ بھی تو میرا نہیں ہے۔ نہ دولت میری، نہ علم میرا، نہ اولاد میری، ہمارے پاس کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ ہم برہنہ دنیا میں آئے اور برہنہ دنیا سے جائیں گے۔ نہ کچھ لائے تھے اور نہ کچھ لے کر جائیںگے۔
لہذا، یہ ثروت، یہ دولت، علم، طاقت زندگی ہمارے پاس امانت ہے۔ یہ چیزیں ہماری اپنی نہیں ہیں۔ ہم ان کے امین ہیں۔ پس غرور کس بات کا؟ وہ نماز جو انسان کے اندر غرور پیدا کرے نماز نہیں ہے۔ نماز وہ ہے جو انسان کے اندر سے غرور کو ختم کرے۔
لہذا ہماری نمازوں کو ہمارے اندر تواضع پیدا کرنا چاہیے جب میں خدا کے سامنے سر سجدے میں رکھوں تو یہ احساس کروں کہ میں اپنے پروردگار کے سامنے تسلیم ہو گیا ہوں میرا سب کچھ اس کا ہے «إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.»(۴) اس وقت مجھے یہ محسوس کرنا چاہیے کہ میرے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں کون ہوں جو تکبر کر وں؟ میں کون ہوں جو کسی سے انتقام لوں؟ میں تو ایک ناتوان، ضعیف اور بے کس موجود ہوں۔
یہ نماز کے معنی کا خلاصہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ میں شیطان، دشمنوں اور ظالموں کے مقابلہ میں بھی ضعیف اور ناتوان بنا رہوں۔ اس لیے کہ ہماری قدرت اور طاقت اللہ کے لیے ہے نہ ہماری ذات کے لیے۔
یہاں پر میں آپ کی توجہ کو اس اصطلاح ’’اعتماد بالنفس‘‘ کی طرف مبذول کرنا چاہوں ہوں گا۔ اعتماد بالنفس کا کیا مطلب ہے؟ کہتے ہیں فلاں کے اندر اعتماد بالنفس پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ نڈر اور شجاع ہے۔ اعتماد بالنفس غرور اور تکبر سے الگ ہے۔ توکل اور اعتماد بالنفس ایک قسم کا کمال ہے یعنی جب میں کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہوں، جب میں میدان جنگ میں جاتا ہوں، جب میں زندگی کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہوں تو اگر خدا پر بھروسہ کرتا ہوں تو قوی ہوں خدا پر بھروسے کے ذریعے قوی ہوں لیکن خود متواضع ہوں۔
لیکن انسان اگر خود اپنے آپ پر بھروسہ کرے تو مغرور ہو جائے گا حق اور باطل کے درمیان تمیز پیدا نہیں کر پائے گا۔ کبھی حق کی راہ پر چلے گا اور کبھی باطل کی راہ پر۔ لیکن اگر خدا پر بھروسہ ہے تو نہ مغرور ہو گا اور نہ متکبر، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اس کی صحیح راہ میں ہدایت کرے گا۔
لہذا نماز بندوں کی صحیح تربیت کے لیے تمرین اور مشق ہے۔ نماز ایسا کارخانہ ہے جس میں انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔ نماز یعنی خدا کے ساتھ زندگی کرنا اور خدا کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا۔ جانتے ہیں انسان نماز سے کیا چیز حاصل کرتا ہے؟ خدا کی راہ میں قوی ہونا اور باطل کی راہ میں ناتوان ہونا۔ نہ باطل کے مقابلہ میں۔ نماز مومن کی معراج کا ذریعہ ہے۔ نماز اسے برائیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
حضرت زہرا (س) لوگوں سے یہ سوال کرتی ہیں کہ اے لوگو! کیسے تم نمازیں بھی پڑھتے ہو اور باطل کے مقابلے میں گھبراتے بھی ہو! تم نمازیں بھی پڑھتے ہو اور حق کو چھپاتے بھی ہو! کل خلافت کو غصب کر لیا اور آج فدک کو۔ تم جانتے ہو یہ میرے بابا کا مجھے دیا ہوا ہدیہ ہے۔ لیکن تم خاموش ہو گئے ہو۔ تم سب نے پیغمبر کی میری نسبت سفارشات کو سن رکھا ہے۔ پس کیوں خاموش ہو؟ تم میں سے ایک گروہ طمع اور لالچ کی خاطر اور دوسرا گروہ خوف اور ڈر کی خاطر خاموش ہو گیا۔ ایک گروہ لوٹ رہا ہے دوسرا ڈر رہا ہے۔ وہ نمازی جو خدا کے ساتھ ہم پیمان ہو کر زندگی گزارتے ہیں قوی ہوتے ہیں نہ ڈرپوک۔ جو انسان نماز پڑھتا ہے در حقیقت دن میں پانچ مرتبہ خدا کے ساتھ رابطہ پیدا کرتا ہے۔ کیا تمہارا خدا کےساتھ کوئی سروکار نہیں ہے؟ کیا تم خدا سے گفتگو نہیں کرتے؟ کیا تم نہیں کہتے صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اگر خدا تمہارے دلوں میں نہیں ہے تمہارے سامنے حاضر اور ناظر نہیں ہے تو تم یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ کہو اس کی عبادت کرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ جب تم خدا کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کی عبادت کرتے ہو اس سے گفتگو کرتے ہو تو تمہیں کسی دوسرے سے نہیں ڈرنا چاہیے چونکہ جس شخص کا رابطہ اللہ سے ہے وہ کبھی نہیں ڈرتا۔ وہ کسی چیز کا طمع نہیں کرتا اس لیے کہ طمع بھی فقر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو باطنی طور پر فقیر ہو وہ دوسروں کی چیزوں کی لالچ کرتا ہے لیکن جس کے پاس خدا ہو وہ غنی اور بے نیاز ہوتا ہے۔ جناب زہرا (س) پوچھ رہی ہیں کیا تم نماز پڑھتے ہو؟ کیا تمہاری نمازیں تمہیں برائیوں سے نہیں روکتی ہیں؟ کیا تمہاری نمازیں تمہارے فقر کو دور نہیں کرتی؟ پس کیوں خاموش ہو؟
واضح ہے تمہاری عبادتیں عادتیں بن چکی ہیں اپنی اصلیت کھو چکی ہیں۔ سلام ہو آپ پر اے فاطمہ زہرا! گویا چودہ سال بعد بھی آپ کا خطاب ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ ابھی ہم سے مخاطب ہیں۔ گویا آپ ہم سے فرما رہی ہیں: اے مسلمانو!، اے نماز گزارو! اے عبادت کرنے والو! کیسے تم نمازیں بھی پڑھتے ہو اور برائیاں بھی کرتے ہو؟
حقیقی نماز ایسی نہیں ہوا کرتی۔ نماز جہاد کی مشق کرواتی ہے۔ «إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِهِ صَفًّا کَأَنَّهُم بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ.»(۵) نہیں دیکھتے نماز میں کیسے صفیں بچھتی ہیں اور کیسے سب ایک ساتھ تمام حرکات انجام دیتے ہیں کیسے سب ایک ساتھ رکوع و سجود کرتے ہیں؟ محراب کس لیے ہوتا ہے؟ کیوں ہر مسجد میں ایک محراب کی ضرورت ہوتی ہے؟ محراب یعنی جنگ کا ذریعہ۔ نماز انسان کو شیطان کے ساتھ جنگ کرنے کی مشق کرواتی ہے۔
نماز سماجی اقتدار کے حصول کی تمرین اور مشق ہے لیکن کون سا اقتدار؟ وہ اقتدار جس میں غرور نہ ہو۔ وہ اقتدار جو خود اپنے بل بوتے پر نہ ہو بلکہ خدا کی مدد سے ہو۔
لہذا فاطمہ زہرا (س) فرما رہی ہیں: کیوں تمہاری نمازوں نے تمہیں قوی نہیں کیا؟ کیوں تمہاری نمازوں نے تمہارے غرور کو نہیں توڑا؟ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں: اے مسلمانو صحیح ہے کہ خدا نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے لیکن یہ حکم اس لیے نہیں ہے کہ اسے تمہاری نمازوں کی ضرورت ہے بلکہ خدا نے خود تمہاری تربیت کے لیے یہ حکم
دیا ہے تاکہ تم خود اس کے ذریعے اپنی اصلاح کر سکو لیکن تم لوگوں نے جیسا کہ ظاہر ہے اس سے کما حقہ استفادہ نہیں کیا ہے اس لیے کہ تم لالچ اور خوف کی وجہ سے حق کے مقابلہ میں خاموش ہو گئے ہو جو پائمال ہو چکا ہے۔
اس کے بعد حضرت زہرا ہم سے مخاطب ہوتی ہیں اور فرماتی ہیں: اے مسلمانو! کیا تم بھی نماز پڑھتے ہو اور حق کے غصب ہونے پر راضی ہو؟ تم جانتے ہو کس وقت نماز قابل قبول ہے؟ تم جانتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوتی ہیں یا نہیں؟ جب تم نماز پڑھو، اور خدا کی بارگاہ میں اپنے اندر ایک نئی قوت کے پیدا ہونے کا احساس کرو تو سمجھ لو کہ نماز قبول ہو گئی لیکن اگر نماز کے بعد اپنے اندر ضعف اور خوف کا احساس کرو تو جان لو کہ نماز رد ہو گئی۔ بزرگی اور عزت اللہ کی بندگی میں ہے اس لیے کہ حقیقی بڑھائی اور عزت کا مالک وہی ہے۔ حضرت زہرا (س) پوچھتی ہیں: کیوں خدا نے نماز تم پر واجب کی ہے؟ نماز انسان کو کامل کرنے کا کارخانہ ہے۔ کیا ہماری نمازوں کے اندر ایسی تاثیر پائی جاتی ہے؟
کسی حد تک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے اس فقرے پر گفتگو ہو چکی ہے اور امید ہے کہ اس کے معنی کسی حد تک واضح ہو چکے ہوں گے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
حوالہ جات
۱. «نماز انسان کو فحشا و منکر سے روکتی ہے (عنکبوت، ۴۵)
۲. «میں صرف تیری عبادت کرتا ہوں اور صرف تجھ سے مدد چاہتا ہوں.» (فاتحه، ۵)
۳. «اکڑ کر زمین پر مت چلو نہ تم زمین کو ہلا پاوں گے اور نہ پہاڑوں کی چوٹیوں تل پہنچ پاو.» (اسرا، ۳۷)
۴. «کہوں میری نماز، میری قربانی، میری زندگی، اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے.» (انعام، ۱۶۲)
۵. «خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو خدا کی راہ میں اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف آوار ہوتے ہیں.» (ص، ۴)
بحرین کانفرنس میں شرکت اسلام و فلسطین کے حق میں خیانت/ سینچری ڈیل منصوبے کی شکست کے لیے پانچ عملی اقدامات
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے فلسطین علماء کونسل کے ترجمان اور مشاورتی کمیٹی کے سربراہ شیخ ’محمد صالح الموعد‘ کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کی ہے جسے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے؛
خیبر: حالیہ دنوں بحرین میں اقتصادی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے جو امریکی منصوبے صدی کی ڈیل کے نفاذ کے لیے مقدمہ کہی جا رہی ہے۔ آپ کی نظر میں اسلامی عربی معاشرے کو اس منصوبے سے مقابلے کے لیے سیاسی، ثقافتی، عسکری اور سفارتی اعتبار سے کیا اقدامات انجام دینا چاہیے؟
۔ صدی کی ڈیل کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر کافی تلاش و کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا سب سے پہلی چیز اسلامی عربی اتحاد ہے جو اس منصوبے کے مد مقابل تشکیل پانا چاہیے۔ دوسرے بین الاقوامی سطح پر کانفرنسیں کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرے سینچری ڈیل کے مخالف گروہوں کو جگہ جگہ احتجاجی جلسے جلوس نکال کر اپنا موقف ظاہر کرنا چاہیے۔ چوتھے یہ کہ علمائے دین کو صہیونی ریاست کے ساتھ روابط برقرار کرنے کی حرمت پر فتاوا دینا چاہیے۔ تمام علمائے دین کو اس کے خلاف موقف اپنانا چاہیے۔ یہ چیز کافی موثر ثابت ہو گی۔ پانچویں یہ کہ اسلامی عربی امت اعتراض آمیز حرکات انجام دے، اور صرف مذمت کرنے پر اکتفا نہ کرے۔ سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں تک ہمیں اس اقدام کے خلاف اعتراض کرنا چاہیے۔ ملت فلسطین بھی اس راستے میں مکل تیاری رکھتی ہے اور واپسی ریلیوں کے ذریعے صہیونیوں کے مقابلے میں کھڑی ہے۔ فلسطینیوں کی اس راہ میں حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔
خیبر: امریکہ نے صہیونی ریاست کے تحفظ کے لیے مقبوضہ گولان پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا اور اسرائیلی حکام نے بدلے میں ان پہاڑیوں کا نام ٹرمپ کے نام پر رکھ دیا، آپ کا ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف کیا رد عمل ہے؟
۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو اقدام بھی صہیونی دشمن کے فائدے میں انجام پائے گا وہ فلسطین پر کاری ضربت ہو گی اور ہم صہیونیوں کے اس وسعت طلبانہ نقشے کو قبول نہیں کر سکتے۔ یہ نہ صرف فلسطین کی زمینوں کو واپس نہیں کر رہے ہیں بلکہ عربی سرزمینوں جیسے گولان شام کا حصہ ہے پر بھی غاصبانہ قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صہیونیوں نے گولان پہاڑیوں کا نام ٹرمپ رکھ کر ان کے عمل کی جزا دینا چاہی ہے لیکن شام کے عوام انہیں اس کام کی اجازت نہیں دیں گے وہ قومی اور اسلامی اتحاد کے ذریعے گولان پہاڑیوں کو واپس لے لیں گے۔ اسی طرح فلسطینی بھی غزہ پٹی، مغربی کنارے اور ۱۹۴۸ کی دیگر فلسطینی اراضی کو واپس لیں گے اور دشمن کو اس ملک سے نکال باہر کریں گے۔ یہ جنگ نسلوں کی جنگ ہے اور دشمن کا ہماری زمینوں میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔
خیبر: کیوں امریکہ نے سینچری ڈیل کے نفاذ کے پہلے مرحلے میں مسئلہ اقتصاد کو مرکزیت دی اورامریکہ اس طریقے سے ظاہر کر رہا ہے کہ گویا وہ فلسطینیوں کی اقتصادی مدد کرنا چاہتا ہے؟
۔ اس کانفرنس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو سینچری ڈیل کے لیے مقدمہ قرار دی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق دلوانے کے بجائے مسئلہ فلسطین کو خاتمہ دینا ہے۔ ہم اس کانفرنس میں شرکت کی مذمت کرتے ہیں اور اس میں شرکت کو فلسطین، قرآن، اسلام اور خون شہدا کی نسبت خیانت جانتے ہیں۔ ٹرمپ اس کانفرنس کے عناوین کو دلچسپ بنا کر اس کے مقاصد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کانفرنس کا اصلی مقصد مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ تمام عالم اسلام اور عرب، فلسطینیوں کا ساتھ دیں اور اس کانفرنس کی مذمت میں اپنی صدائے احتجاج بلند کریں۔
خیبر: سینچری ڈیل کی مخالفت ایسا عامل ہے جس سے تمام فلسطینی گروہوں میں اتحاد پیدا ہو چکا ہے۔ آپ اس وحدت کو امریکی صہیونی سازشوں کے مقابلے کے لیے کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۔ ہم اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے صہیونی سازشوں کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان کے شروع میں صہیونیوں کے خلاف کچھ کاروائیاں انجام پائیں جو ان کی پسپائی کا سبب بنیں اور ایک بڑی کامیابی ہمیں حاصل ہوئی۔ دشمن فلسطینیوں کے اتحاد اور ان کی متحدانہ کاروائیوں سے خوف کھا گیا اور یہ وحدت دشمن سے مقابلے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور دوسری جانب فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے واپسی ریلیاں بہت ہی حائز اہمیت ہیں۔ ہمارا شعار صہیونی دشمن کا مقابلہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ عربوں، مسلمانوں نیز اسلامی جمہوریہ ایران سب کو یکسو موقف اپنانا چاہیے تاکہ سینچری ڈیل کو شکست سے دوچار کر سکیں۔ اگر چہ یہ جنگ طولانی جنگ ہے لیکن حق صاحبان حق کو مل کر رہے گا۔
خیبر: بہت بہت شکریہ
تکفیری افکار کی ترویج میں عالمی صہیونیت کا کردار
وہابی اور تکفیری افکار اور گروہوں کو وجود میں لانے اور انہیں شیعت کے خلاف استعمال کرنے میں عالمی صہیونیت کا کیا کردار رہا ہے اس کے بارے میں حجت الاسلام و المسلمین حدادپور جہرمی کے ساتھ خیبر ویب گاہ کے نمائندے نے ایک گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
خیبر: وہابیت کو وجود میں لانے اور وہابی فکر کو ترویج دینے میں صہیونیت کا کیا کردار رہا ہے اس کے بارے میں کچھ بیان کریں۔
۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس موضوع پر ہم نے پہلے بھی گفتگو کی ہے اور اسی ویب سائٹ پر اسے شائع بھی کیا گیا میں اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سوال کے جواب کو پانچ حصوں میں عرض کرنا چاہوں گا۔
شیعہ سنی اتحاد استکباری طاقتوں کی سب سے بڑی پریشانی
۱۔ شیعہ سنی معاشرے پر نگاہ دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کا چہرہ بہت ہی مطمئن، برادرانہ اور غیر انقلابی ہے، غیر انقلابی ہونے سے مراد ایران کا اسلامی انقلاب نہیں ہے بلکہ انقلاب سے مراد قیام اور تحریک ہے۔ اسی وجہ سے اہل سنت کبھی بھی شیعوں کے مقابلے میں کھڑے نہیں ہوئے۔ البتہ شیعہ و سنی علمائے دین ایک دوسرے کے ساتھ مکاتبات کرتے رہے ہیں اور یہی چیز ان دو گروہوں کے مشترکہ دشمنوں کے لیے ہمیشہ خطرے کی گھنٹی رہی ہے۔
۲۔ اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان اتحاد مشترکہ دشمن کے لئے سب سے بڑا خطرہ رہا ہے لہذا دشمنوں نے اس خطرے کو دور کرنے کے لیے شیعوں اور سنیوں کے درمیان دوگروہوں کو جنم دیا تاکہ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کریں۔ شیعوں کے درمیان بہائیوں اور اہل سنت کے درمیان وہابیوں کو جنم دیا۔
وہابیت اہل سنت کا نقلی چہرہ
وہابیت در حقیقت انقلاب اور حکومت کے جذبے کے ساتھ اہل سنت کا ایک نقلی اور بناوٹی چہرہ ہے۔ لہذا نقلی چہرے نے اسلحہ اٹھایا اور حکومت کی تشکیل کے لیے جد و جہد شروع کی اور بین الاقوامی سیاسی میدان میں داخل ہوئے۔
۳۔ اہل سنت سے سامراجیت، یہودیت، عیسائیت اور صہیونیت کو کوئی خطرہ نہیں تھا، ابھی بھی یہی صورتحال ہے، اور اہل سنت کی تعداد بڑھنے یا گھٹنے سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہذا یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہابیت اور بہائیت کو صرف اس لیے جنم دیا گیا تاکہ شیعوں کو کمزور بنا سکیں۔ اس لیے کہ بہت سارے اہم اور موثر مفاہیم جیسے جہاد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، عدل و انصاف کا قیام، سامراجیت کا مقابلہ، انقلاب، مستضعفین کی حکومت وغیرہ سب شیعہ مکتب فکر کا حصہ ہیں۔
لہذا یہ کہنا صحیح ہے کہ وہابیت ہو یا بہائیت ہو دونوں گروہوں کو شیعت کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا اور اس مسئلے کا شیعہ سنی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ شیعہ سنی اتحاد طول تاریخ میں اپنی جگہ مسلّم رہا ہے اور یہ گروہ اسی اتحاد کی رسی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
وہابی طرز تفکر میں مفہوم شہادت
۴۔ دشمنوں کی کوشش رہی ہے کہ شیعت کے مقدس ترین مفاہیم جیسے شہادت میں تحریف پیدا کریں اور ان کا اصلی چہرہ بگاڑ کر رکھ دیں۔ مفہوم شہادت ایسا مقدس مفہوم ہے جو استقامت، پائیداری اور انتظار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ شہادت کو دوسرے لفظوں میں شیعت کی تسبیح کے دھاگے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ تمام ائمہ طاہرین درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں لیکن اہل سنت کے ائمہ میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں اور لفظ شہید کو شیعوں کے لیے، امام علی علیہ السلام اور خصوصا امام حسین علیہ السلام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اہل سنت کا فقہی مبنیٰ یہ ہو کہ شہید وہ ہوتا ہے جو میدان جنگ میں شہید ہو یا تلوار سے شہید ہو تب بھی اہل تشیع کے ائمہ ہی اس مفہوم کے مصادیق قرار پائیں گے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفہوم شہادت اہل تشیع سے ہی مخصوص ہے۔
لیکن دشمنوں نے یہ کوشش کی کہ شہادت کے مفہوم کو عقل و منطق اور فقہی مبانی سے دور کر کے اسے دوسرے فرقوں میں بھی عام کردیں۔ نتیجہ کے طور پر ہر دھشتگرد کو، ہر طرح کے قاتلانہ حملے میں مرنے والے کو، خودکش حملہ کرنے والے کو یا اس طرح کی دھشتگردانہ کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے کو شہید کا نام دے کر اسے سعادت اور جنت کے بشارت دے دیں۔
خیبر: ان باتوں کے پیش نظر یہ بتائیں کہ عالمی صہیونیت کس حد تک شیعت کے مقدسات کا چہرہ بگاڑنے میں کامیاب ہوئی ہے؟
۔ عالمی صہیونیت نے شیعت کے مقدس مفاہیم کو بگاڑنے کی بہت کوشش کی لیکن جتنی انہوں نے کوشش کی اتنا کامیاب نہیں ہوئے آپ اسی مفہوم شہادت کو لے لیں انہوں نے کتنی کوشش کی کہ عراق و شام میں ہلاک ہونے والے تکفیریوں کو شہید کا لقب دیں اور اس مقدس مفہوم کا چہرہ مسخ کر دیں۔ لیکن میں پوری تحقیق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ صرف چند ایک وہابی علما اس بات کے معتقد ہیں کہ عراق و شام میں ہلاک ہونے والے تکفیری شہید ہوئے ہیں لیکن اہل سنت کے اکثر بزرگ علما کا ماننا ہے کہ ان لوگوں کا خون رائیگاں گیا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں کوئی شیعہ عالم دین تکفیریوں کے مقابلے میں جانیں قربان کرنے والے شیعہ مجاہدوں کے خون کے رائیگاں جانے کا قائل نہیں ہے بلکہ سب کا ان کی شہادت پر اتفاق ہے۔
حقیقی تشیع کو مٹانے کے لیے تکفیری تشیع کے ایجاد کی کوشش
۵۔ پانچویں اور آخری بات جو گفتگو کا ایک نیا باب ہے اور اس موضوع پر مستقل گفتگو کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت دقیق معلومات ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل میں کچھ ایسے دینی مدارس اور تحقیقی مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ تشیع کے نام سے ایک نیا فرقہ وجود میں لایا جائے۔
اس لیے کہ اہل سنت کے اندر وہابیت اور اہل تشیع کے اندر بہائیت جیسے فرقے پیدا کر کے وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے اور ان منصوبوں میں دشمن بری طرح سے ناکام ہوئے ہیں لیکن اب جو فرقہ ایجاد کیا جا رہا ہے وہ تکفیری تشیع کا ہے افراطی تشیع کا ہے، یعنی شیعت کے اندر ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جو عقلانیت سے دور ہو اور احساسات و جذبات کی بنا پر انتہا پسندی کی جانب آگے بڑھے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہے کہ فرقہ یمانی، فرقہ سرخی اور فرقہ شیرازی انہیں کوششوں کا نتیجہ اور انہیں مراکز کی پیداوار ہیں۔
یمانی، سرخی اور شیرازی فرقے عالمی صہیونیت کے تازہ ترین ہتھکنڈے
حال حاضر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان تین فرقوں نے پوری ہم آہنگی کے ساتھ تین الگ الگ جگہوں پر اپنی سرگرمیاں شروع کر لی ہیں، فرقہ سرخی نے عراق میں، فرقہ یمانی نے ایران میں اور فرقہ شیرازی نے یورپ اور کچھ مرکزی شہروں جیسے قم، مشہد، کربلا اور نجف میں۔
آج دشمن ان تین فرقوں کو مضبوط بنانے میں انتھک کوشش کر رہا ہے اور شیعوں کے اصلی مراکز کے اندر ان کا نفوذ پیدا کر رہا ہے یعنی ممکن ہے کہ آپ کو حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف کے اندر بھی ان افکار کے حامل لوگ مل جائیں۔
لہذا اگر ہم مذکورہ ان پانچ نکتوں کو ایک دوسرے کے کنارے رکھ کر دیکھیں گے تو آپ اس نتیجہ تک پہنچے گے کہ صہیونیت کے شر سے نجات اللہ کی آخری حجت کے ظہور تک ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ رہبر انقلاب اسلامی کی پیش گوئی کے مطابق صہیونیت کا اصلی گڑھ یعنی اسرائیل نابودی کی طرف گامزن ہے لیکن صہیونی فکر کا دنیا سے خاتمہ نہیں ہو گا یہ جنگ امام زمانہ (عج) کے ظہور تک جاری رہے گی۔
خیبر: بہت بہت شکریہ
رہبر انقلاب اسلامی سے عدلیہ کے سربراہ اور اہلکاروں کی ملاقات رہبر انقلاب: امریکہ مذاکرات کے ذریعے ایرانی عوام کی طاقت اور اقتدار کے عناصر کو سلب کرنا چاہتا ہے
عدلیہ کے سربراہ، ججوں اور دیگر عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مذاکرات کی امریکی پیشکش کو ایک فریب قرار دیا اور فرمایا کہ امریکی حکام ایرانی عوام کی طاقت کے عوامل سے خوفزدہ ہیں اور آگے آنے سے ڈرتے ہیں لہذا وہ مذاکرات کے ذریعے اس اسلحے اور طاقت کے عامل کو چھیننا چاہتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملت ایران کے خلاف دنیا کی شرپسند ترین حکومت، یعنی حکومت امریکہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات، توہین اور دشنام طرازی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا" ملکوں اور قوموں کے درمیان جنگ، اختلافات، لوٹ مار اور تباہی کا سبب بننے والی دنیا کی منفور ترین اور خبیث ترین حکومت، ایران کے غیور عوام پر ہر روز ناروا الزامات عائد کر رہی ہے لیکن ایران کے عوام امریکہ کے گھناؤنے اقدامات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور وہ پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کی عائد کردہ پابندیوں کو ایرانی عوام کے خلاف کھلا ظلم قرار دیا اور فرمایا " پچھلے چار عشروں کے دوران ایرانی تشخص اور اسلامی خصوصیات کے امتزاج کے، منہ زور عالمی طاقتوں کے دباؤ سے ایرانی قوم کی ترقی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یہ بات زور دے کر فرمائی کہ ایران کے عوام مظلوم ہونے کے ساتھ ساتھ طاقتور بھی ہیں، خدا کے فضل سے بدستور پہاڑ کی مانند کھڑے ہوئے ہیں اور پوری قوت کے ساتھ طے شدہ اہداف اور مقاصد کی جانب قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔
آپ نے انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی تقریبات اور القدس ریلیوں اور ملک میں ہونے والے انتخابات میں ایرانی عوام کی بھرپور شرکت کو لائق تحسین اور قومی عزم و ارادے کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا: بعض حلقوں کی جانب سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کے باوجود ایران کے عوام رواں سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لے کر قومی عظمت و وقار کا ثبوت پیش کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکیوں کی جانب سے انسانی حقوق جیسے معاملات سے ناجائز فائدہ اٹھائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم (امریکی) تقریبا تین سو بے گناہ مسافروں کو فضا میں قتل کر دیتے ہو، سعودی عرب کے تعاون سے یمن اور یمنی عوام کے خلاف جرائم کی تکرار کرتے ہو اور پھر بھی انسانی حقوق کا دم بھرتے ہو؟!!
بحرین کانفرنس کا مقصد، فلسطینی عوام اور اسلامی امت کو دھوکا دینا ہے: علی برکہ
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے لبنان میں اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے نمائندے “علی برکہ” کے ساتھ ’منامہ کانفرنس‘ اور ’صدی کی ڈیل‘ کے موضوع پر گفتگو کی ہے جسے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
خیبر: امریکی نام نہاد امن منصوبے’ صدی کی ڈیل‘ کے نفاذ کے لیے امریکہ کا پہلا اقدام ’منامہ اقتصادی کانفرنس‘ کا انعقاد ہے آپ کا اس کانفرنس کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ اور کیوں بحرین ہی اس کانفرنس کے لیے انتخاب کیا گیا ہے؟
۔ ’منامہ اقتصادی کانفرنس‘ کا انعقاد امریکی منصوبے ’صدی کی ڈیل‘ کے نفاذ کا مقدمہ ہے اور ہم بحرین میں اس کے انعقاد کی مذمت کرتے ہیں۔ عربی اور اسلامی ممالک سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اس خائنانہ کانفرنس کی مذمت کریں۔ اس لیے کہ یہ کانفرنس صہیونیوں اور امریکیوں سے متعلق ہے اور اس کانفرنس کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو خاتمہ دینے اور اسے ایک سیاسی مسئلے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس کانفرنس کے منعقد کرنے والے کوشش کر رہے ہیں کہ مسئلہ حق و باطل کو کھانے پینے والی چیزوں میں تبدیل کر دیں!۔ فلسطینی عوام غاصبوں کے ساتھ خوراک و پوشاک کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے، اپنے مقدسات کی بازیابی کے لیے اور اس سرزمین پر اپنی حکومت کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں جس کا دار الحکومت قدس ہو۔ لہذا ہم قائل ہیں کہ بحرین کانفرنس فلسطینی عوام اور مسئلہ فلسطین کے خلاف امریکی اور صہیونی سازشوں کا حصہ ہے۔
خیبر: امریکہ سینچری ڈیل کے نفاذ کے لیے پہلے مرحلے پر ’مسئلہ اقتصاد‘ کو بحرین کانفرنس کی صورت میں بروئے کار لانا چاہتا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اور بحرین کانفرنس میں فلسطینیوں کو معیشتی سہولیات دینے کے دعووں کے پس پردہ کیا مقاصد پوشیدہ ہیں؟
۔ امریکی حکومت کے ذریعے بحرین میں اقتصادی کانفرنس کے انعقاد کا مقصد فلسطینی عوام اور عربی اسلامی امت کو دھوکہ دینا ہے تاکہ امریکہ اس طریقے سے ظاہر کرے کہ اسے فلسطینی عوام کے معیشت کی فکر ہے۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ امریکہ فلسطینی غاصبوں کے مظالم اور جرائم میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔
لہذا ہمیں نہ اقتصادی کانفرنسوں کی ضرورت ہے نہ سیاسی کانفرنسوں کی، بلکہ ہماری عربی اسلامی امت سے اپیل ہے کہ فلسطینی مزاحمت کی حمایت کریں۔ امت مسلمہ ۱۳ سال سے غزہ پر جاری محاصرے کے خاتمہ کے لیے کوشش کرے، ہم اس کانفرنسوں کی مذمت کرتے ہیں اور اس کانفرنس میں صہیونی ریاست کی شرکت کو مذموم سمجھتے ہیں جس کا مقصد عرب ممالک کے ساتھ روابط کو معمول پر لانا ہے۔ ہم اس کانفرنس کی مذمت کرتے ہیں اور جو عرب اور اسلامی ممالک اس میں شرکت کریں گے ان کی بھی مذمت کرتے ہیں۔
خیبر: مسئلہ فلسطین کی پشت پر خنجر گھونپنے کے لیے مزدور عرب حکومتوں کا صہیونیوں کے ساتھ مل جانا اور عالمی یوم القدس کی ریلیوں کو ناکام بنانا چہ معنی دارد؟
۔ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ عرب حکمرانوں کے صہیونی ریاست کے ساتھ ہر طرح کے روابط کی سخت مذمت کرتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ ان تعلقات کی بہتری گویا مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کی پشت پر خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ مزاحمت اور واپسی ریلیاں تنہا راستہ ہے اپنے حقوق اور مقدسات کی بازیابی کا۔
عالمی یوم القدس کو بھی اس مقصد کی خاطر وجود میں لایا گیا کہ مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا پہلا مسئلہ قرار دیا جائے، تمام امت مسلمہ قدس کو یہودی سازشوں اور ہتھکنڈوں سے آزادی دلانے کے لیے کوشاں رہے نہ خود صہیونیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور ان کے ساتھ چھپ چھپ کر ملاقاتیں کریں۔ لہذا بحرین کانفرنس میں بھی صہیونیوں کو دعوت دینا اور ان کے ساتھ ملاقاتیں کرنا مسئلہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے ساتھ خیانت ہے۔
خیبر: فلسطینی مزاحمتی گروہ اور اسلامی ممالک کیسے سینچری ڈیل منصوبے کو ناکام بنا سکتے ہیں؟ واپسی ریلیوں کا اسے حوالے سے کیا کردار ہے؟
۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سینچری ڈیل منصوبے کو ناکام بنائیں اس لیے کہ فلسطینی عوام اور تمام سیاسی گروہ اس کے مخالف ہیں۔ ملت فلسطین ہر دور سے زیادہ آج متحد ہے۔ اور تمام فلسطینی گروہ اس امریکی منصوبے کے مخالف ہیں۔ ہم مزاحمت، جہاد اور واپسی مارچ کے راستے کو جاری رکھیں گے تاکہ غزہ پر جاری محاصرے کو توڑ سکیں اور قدس کو آزاد کروا سکیں۔
ہم اسلامی امت کو خطاب کرتے ہیں کہ فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں پر بھروسہ کریں۔ فلسطینی عوام اور مزاحمت کی پشت پناہی کریں نہ یہ کہ امریکی دباؤ کے آگے تسلیم ہو جائیں اور صہیونی رہنماؤں کا اپنے دار الحکومتوں میں استقبال کریں فلسطینی عوام کبھی بھی تسلیم نہیں ہوں گے لہذا اسلامی امت کو فلسطینی مزاحمت کی حمایت کرنا چاہیے اس لیے کہ دشمن صرف وقت اور طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔
خیبر: فلسطینی گروہوں کے درمیان اتحاد صدی کی ڈیل منصوبے کی ناکامی میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
۔ میں یہ تاکید سے کہتا ہوں کہ فلسطینی گروہوں کی صفوں میں اتحاد امریکی منصوبے صدی کی ڈیل کوناکام بنانے میں اہم ترین عامل ہے۔ ہم ابومازن اور تحریک فتح کے برادران کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ فلسطین میں اتحاد کی فضا قائم کریں اور اختلاف اور انتشار کا راستہ چھوڑ دیں اور مزاحمت کی راہ میں اتحاد کو ترجیح دیں۔ نیز صہیونی ریاست کے ساتھ سکیورٹی روابط اور سیاسی مذاکرات کو خاتمہ دیں اسلو معاہدے کو باطل قرار دے کر صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کریں۔ لہذا پہلا قدم فلسطینیوں کو یکجا کرنا اور ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے۔ اس لیے کہ ہمیں اس مرحلے میں امریکی صہیونی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ اگر مزاحمتی گروہوں میں یکجہتی پیدا ہو گی تو انشاء اللہ ہم صدی کی ڈیل منصوبے کو ناکام بنا پائیں گے۔
خیبر: آپ کا بہت بہت شکریہ جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی: صوبہ کردستان کے شہداء کی مجاہدت دیگر صوبوں کے شہداء کی نسبت بہت زیادہ رہی ہے
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کردستان کے شہیدوں کی شہادت ، مجاہدت اور فداکاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس علاقہ کے شہیدوں نےفداکاری اور مجاہدت کے شاندار نمونے پیش کئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان ميں 5400 شہیدوں کی یاد میں کانفرنس منعقد کرنے والی کمیٹی کے ارکان سے ملاقات میں فرمایا: صوبہ کردستان کے شہداء کی مجاہدت دیگر صوبوں کے شہداء کی نسبت بہت زیادہ رہی ہے اور اسی وجہ سےصوبہ کردستان کے شہیدوں کی فداکاری نمایاں ہے ان کا مقابلہ بیرونی دشمنوں کے ساتھ اندرونی دشمنوں کے ساتھ بھی تھا ۔
رہبر معظم کے اس بیان کو آج صوب کردستان کے شہداء کی یاد میں منعقد ہونے والے کانفرنس میں پیش کیا گيا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان کے شہریوں کی اتحاد پر مبنی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کردستان کے عوام نے اختلاف اور تفرقہ پر مبنی تمام سازشوں اور کوششوں کو ناکام بنادیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہیدوں کی تکریم اور تعظیم کو اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: شہیدوں کی تعظیم و تکریم پوری قوم کے لئے سزاوار ہے۔
امام رضا (ع) کی حیات طیبہ کے بارے میں رہبر معظم انقلاب کا تاریخی پیغام
1984 میں منعقد ہونے والی عالمی امام رضا (ع) کانگریس کے لئے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ـ جو اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر تھے ـ کا تاریخی پیغام ملاحظہ ہو جس میں آپ نے امام رضا (ع) کی سیاسی زندگی کا تجزیہ کیا ہے.
رہبر معظم کا پیغام عالمی امام رضا (ع) کانگریس کے نام:
امام رضا علیہ السلام کی ایام ولادت میں آپ (ع) کے آستان مبارک میں آپ (ع) کی علمی حیات کے بارے میں کانگریس کا انعقاد ائمۂ معصومین علیہم السلام کے روشن چہروں کو مزید عیاں کرنے اور ان عظیم الشان پیشواؤں کی کارناموں سے بھرپور مگر پرمشقت زندگی کی شناخت کی جانب ایک نیا قدم ہے. ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ائمہ علیہم السلام کی زندگی کی صحیح طور پر شناخت حاصل نہیں کی جاسکی ہے؛ حتی کہ مصائب اور صعوبتوں کے باوجود ان کے جہاد کی عظمت شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے بھی روشن نہیں ہوسکی ہے.
ائمۂ طاہرین کی زندگی کے جس اہمترین پہلو کی طرف شائستہ انداز میں توجہ نہیں ہوئی ہے وہ ان کے "شدید سیاسی جدوجہد" کا عنصر ہے. پہلی صدی ہجری کی ابتدا ہی میں اسلامی خلافت سلطنت کی پیرایوں میں ڈھل گئی اور اسلامی امامت جابرانہ بادشاہت میں تبدیل ہوئی. ائمۂ طاہرین علیہم السلام نے سیاسی حالات کے تناسب سے ہی اپنی سیاسی جدوجہد کو شدت بخشی. اس جدوجہد کا اہم ترین اور بنیادی مقصد اسلامی نظام اور امامت کے اصول پر مبنی حکومت کی تأسیس تھا.
تاریخ، ہارون عباسی کے دور میں امام رضا علیہ السلام کی دس سالہ زندگی اور اس کے بعد خراسان [میں مأمون] اور بغداد [میں امین] کے درمیان ہونے والی پانچ سالہ لڑائیوں کے بارے میں ہمیں کوئی خاص بات نہیں بتا سکی ہے؛ لیکن تدبر و تفکر کے ذریعے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام اس پندرہ سالہ عرصے میں اہل بیت (ع) کی اسی طویل المدت جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے تھے جو عاشورا کے بعد شروع ہوئی تھی اور ان ہی اہداف کے حصول کے لئے کوشاں تھے.
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اختصار کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی ولیعہدی کے واقعے پر روشنی ڈالی جائے:
اس واقعے میں امام ہشتم علی بن موسی الرضا علیہ السلام ایک عظیم تاریخی تجربے سے گذرے اور آپ کو ایک خفیہ سیاسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس میں کامیابی یا ناکامی تشیع کی مقدر کی ترسیم میں مؤثر ہوسکتی تھی. مأمون امام ہشتم (ع) کو خراسان بلوا کر کئی اہم اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا: سب سے پہلا اور سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ اہل تشیع کی تند و تیز اور انقلابی سیاسی جدوجہد کو ایک پر امن اور بے خطر سیاسی سرگرمیوں میں تبدیل کیا جائے.... اہل تشیع تقیّہ کی حکمت عملی سے استفادہ کرتے ہوئے انتھک اور کبھی نہ ختم ہونے والی سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے تھے؛ دو اہم خصوصیات والی یہ جدوجہد خلافت کی بساط لپیٹنے میں اہم کردار ادا کررہی تھی اور وہ دو خصوصیات مظلومیت اور تقدس سے عبارت تھیں... مآمون اس اقدام کے ذریعے اہل تشیع کی جدوجہد کو ان دو مؤثر خصوصیات سے خالی کرنا چاہتا تھا. کیونکہ جن لوگوں کا زعیم و قائد خلافت کی مشینری کا ممتاز فرد اور وقت کے مطلق العنان بادشاہ کا ولیعہد ہو وہ لوگ مظلوم یا مقدس نہیں ہوتے.
مآمون کا دوسرا ہدف اہل تشیع کے اس اعتقاد کو غلط ظاہر کرنا تھا کہ اموی اور عباسی خلافتیں شرعی اور قانونی حیثیت نہیں رکھتیں اور اس طرح و ان دو خلافتوں کو قانونی حیثیت دینا چاہتا تھا.
تیسرا ہدف امام (ع) کو اپنے اداروں کے قابو میں لانا چاہتا تھا کیوں کہ امام (ع) ہر قسم کی جدوجہد اور حکومت کی مخالفت کا محور سمجھے جاتے تھے. اور اگر امام (ع) ان کے قابو میں آتے تو سرکردہ علوی رہنما، انقلابی افراد اور جنگجو مجاہدین بھی حکومت کے قابو میں آسکتے تھے.
چوتھا ہدف یہ تھا کہ امام علیہ السلام جو ایک عوامی شخصیت، لوگوں کا قبلۂ امید اور سوالات و شکایات کا مرجع تھے کو حکومتی گماشتوں کی نگرانی میں لایا جائے اور رفتہ رفتہ ان کا عوامی چہرہ مخدوش کیا جائے اور ابتداء میں امام (ع) اور عوام اور دوسرے مرحلے میں امام (ع) اور عوام کی عقیدت و محبت کے درمیان فاصلے کی دیواریں کھڑی کی جائیں.
پانچواں ہدف یہ تھا کہ مأمون امام (ع) کو ولیعہد بنا کر اپنے لئے معنوی اور روحانی لبادہ تیار کرنا چاہتا تھا. فطری امر تھا کہ اس وقت کی دنیا میں لوگ اس کی تعریف و تمجید کرتے جس نے پیغمبر خدا (ص) کے ایک فرزند اور ایک مقدس اور معنوی شخصیت کو اپنا ولیعہد مقرر کیا تھا اور اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو اس منصب سے محروم رکھا تھا اور ہمیشہ صورت حال یہی ہے کہ جب دیندار لوگ دنیا پرستوں کی قربت حاصل کریں تو دینداروں کی حیثیت مجروح ہوجاتی ہے اور دنیا پرستوں کی حیثیت بہتر ہوجاتی ہے. مأمون کا چھٹا ہدف یہ تھا کہ اس کے اپنے خیال میں، امام (ع) ولیعہد بن کر اس کی خلافت کی توجیہ کرنے اور اس کا دفاع کرنے والی شخصیت میں تبدیل ہوجاتے. امرِ مسلم ہے کہ اگر علم و تقوی کے لحاظ سے امام (ع) کے رتبے کی کوئی شخصیت ـ جو عوام کی نظر میں رسول خدا (ص) کے فرزند کی حیثیت سے بے مثال حرمت و آبرو کے مالک تھے ـ حکومت وقت کے دور میں رونما والے حوادث اور واقعات کی توجیہ کرنے لگتی تو کوئی بھی مخالف صدا اس حکومت کی شرعی اور قانونی حیثیت کو مخدوش کرنے کے قابل نہ رہتی. یہی وہ ناقابل تسخیر حصار تھا جو خلافت کی خطاؤں اور خلیفہ بھونڈے اعمال کو آنکھوں سے پوشیدہ رکھ سکتا تھا.اس سیاسی چال کے مد مقابل امام علیہ السلام کی تدبیریں اور پالیسیاں: 1- جب امام علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان بلوایا گیا، تو آپ (ع) نے مدینہ کے ماحول کو اپنی ناپسندیدگی اور کراہیت سے پر کردیا؛ حتی کہ امام (ع) کے اردگرد موجود افراد نے یقین کرلیا کہ امام رضا علیہ السلام کو وطن سے دور کرنے کے سلسلے میں مأمون کا ارادہ بدنیتی پر مبنی ہے.
امام (ع) نے مأمون کے حوالے سے اپنی منفی نگاہ اہل مدینہ کو پہنچا دی تھی. رسول خدا (ص) کے حرم سے وداع کرتے وقت، اہل خاندان سے وداع کرتے وقت، مدینہ سے نکلتے وقت، طواف کعبہ کے وقت جو آپ (ع) نے بعنوان طواف وداع انجام دیا ـ، قول و فعل کے ذریعے، دعا اور اشک و آہ کے زبانی آپ (ع) نے سب پر ثابت کیا کہ یہ سفر موت کا سفر ہے [اور اس سفر سے زندہ لوٹ کر آنے کی کوئی امید نہیں ہے]. مأمون اپنی سازش کے تحت جن لوگوں کو امام علیہ السلام کی نسبت بدظن اور اپنی نسبت پراعتماد کرنا چاہتا تھا ان کے دل ۔ سازش پر عملدرآمد کرنے کے ابتدائی لمحوں سے ہی ۔ مأمون کی نفرت اور اس کی نسبت بداعتمادی سے مالامال ہوگئے جو ان کے امام کو ظالمانہ انداز سے ان سے جدا کرکے قتلگاہ کی طرف لی جانا چاہتا تھا. 2- جب مأمون کے دارالحکومت ـ شہر مرو MARV ـ میں مأمون نے ولایت عہدی کی تجویز پیش کی تو امام (ع) نے یہ عہدہ قبول کرنے سے سختی سے انکار کیا اور جب تک مأمون نے آپ (ع) کو قتل کی دھمکی نہیں دی تھی امام نے یہ منصب قبول نہیں کیا تھا. یہ بات سب تک پہنچ گئی تھی کہ امام علیہ السلام نے مأمون کی جانب سے ابتداء میں خلافت کی پیشکش اور بعد میں ولیعہدی کی پیشکش ٹھکرا دی ہے.
حقیقت کچھ یوں تھی کہ سرکاری اہلکاروں کو مأمون کی چالوں کا علم نہیں تھا چنانچہ انہوں نے امام (ع) کے انکار کی خبر علاقے میں پھیلادی حتی مأمون کے وزیر فضل بن سہل نے سرکاری اہلکاروں کے ایک گروہ سے کہا کہ "میں نے آج تک خلافت کا عہدہ اتنا خوار و بے مقدار نہیں دیکھا تھا کہ امیرالمؤمنین (مأمون) علی بن موسی الرضا کو اس عہدے کی پیشکش کررہے ہیں اور علی بن موسی اس پیشکش کو مسترد کررہے ہیں!!.
3- تاہم علیبنموسیالرضا علیہ السلام نے ولایتعہدی کی پیشکش قبول کرلی اور شرط یہ رکھی کہ حکومت کے کسی بھی مسئلے میں مداخلت نہیں کریں گے؛ جنگ و صلح اور تقرری اور معزولی جیسے مسائل میں کوئی حکم نہیں دیں گے اور کوئی فیصلہ نہیں کریں گے اور مأمون ـ جو تصور کرتا تھا کہ یہ شرط ابتدائی مرحلے میں قابل برداشت ہے اور وہ رفتہ رفتہ امام (ع) کو سلطنت کے امور میں داخل کردے گا ـ یہ شرط قبول کرنے پر آمادہ ہوا. ظاہر ہے کہ اگر یہ شرط باقی رہتی تو مأمون کا منصوبہ خاک میں مل جاتا اور اس کے بیشتر اہداف و مقاصد حاصل نہ ہوتے. 4- مگر ان حالات سے امام علیہ السلام نے جو فائدہ اٹھایا وہ ان تمام مسائل سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
امام (ع) نے ولایتعہدی کا منصب قبول کرکے ایک ایسا اقدام کیا جو سنہ 40 ہجری میں اہل بیت (ع) کی خلافت کے خاتمے کے بعد ائمۂ طاہرین (ع) کی حیات طیبہ تک اور حتی سلسلۂ خلافت کے خاتمے تک بے مثال اور بے بدیل تھا اور وہ اقدام یہ تھا کہ آپ (ع) نے اسلامی قلمرو کی وسعتوں میں شیعہ امامت کا مدعا آشکار کردیا اور تقیہ کے دبیز پردوں کو چاک کرکے تشیع کا پیغام تمام مسلمانوں تک پہنچایا. خلافت کا بلند منبر آپ (ع) کے ہاتھ آگیا تھا اور امام (ع) نے اس منبر سے استفادہ کرکے ان حقائق کو آشکار کردیا جو ائمۂ طاہرین 150 برسوں تک تقیہ کے پس پردہ خاص افراد اور اصحاب و انصار کے سوا کسی کے سامنے بیان نہیں کرسکے تھے.
رہبر انقلاب: ٹرمپ کی یہ اوقات نہیں کہ ان کو کوئی پیغام دیا جائے/ ہم امریکہ سے مذاکرات نہیں کریں گے
جاپان کے وزير اعظم شینزوآبے اور اس کے ہمراہ وفد نے آج صبح رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات اور گفتگو کی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جاپان کے وزير اعظم کی طرف سے امریکی صدر ٹرمپ کا پیغام پیش کرنے کے رد عمل میں فرمایا: میں امریکی صدر ٹرمپ کو پیغام کے تبادلے کے لائق نہیں سمجھتا ہوں اور نہ ہی اس کے پیغام کا جواب دوں گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی بدعہدی اور بداعتمادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکہ پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور نہ ہی ہم امریکہ کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمیں آپ کی نیک نیتی، سنجیدگی اور حسن رفتار پر کوئی شک و شبہ نہیں ، آپ نے ٹرمپ کے حوالے سے جو کچھ بیان کیا ہے ۔ میں ذاتی طور پر ٹرمپ کو پیغام کے تبادلے کے لائق نہیں سمجھتا ہوں ، ٹرمپ کے لئے میرے پاس نہ کوئی پیغام ہے اور نہ ہی میں ٹرمپ کو کسی پیغام کا اہل سمجھتا ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کا محور جاپان کو قراردیتے ہوئے فرمایا: جاپان ایران کا دوست ملک ہے اگر چہ ہمیں جاپان کے بارے میں بھی شکوے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی طرف سے ایران کی حکومت کو تبدیل نہ کرنے کے جاپانی وزیر اعظم کے بیان کی طرف سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کی امریکہ کے ساتھ مشکل ایرانی حکومت کو تبدیل کرنے کی نہیں، اگر امریکہ ایسا کرنا بھی چاہیے تو نہیں کرسکتا ۔امریکہ کے سابق صدور نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ ایرانی حکومت کو تبدیل نہ کرنے کی امریکی صدر ٹرمپ کی بات بالکل جھوٹ ہے اگر وہ ایسا کرسکتا تو ضرور کرتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاملے کے بارے میں گروپ 1+5 کے ضمن میں پانچ ، چھ سال تک امریکہ اور یورپ کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مذاکرات کامیاب بھی ہوگئے لیکن امریکہ نے اس عالمی معاہدے کو توڑ دیا ۔ لہذا جس ملک نے تمام معاہدوں کو توڑدیا ہو اس ملک کے ساتھ کون عقلمند آدمی دوبارہ مذاکرات کرےگا ؟۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کی ساخت کو روکنے کے امریکی عزم کے بارے میں جاپانی وزیر اعظم کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ ایٹمی ہتھیار بنانے کی حرمت کے بارے میں میرا فتوی موجود ہے۔ اگر ہمارا ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ ہوتا تو امریکہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا اور امریکہ کی عدم اجازت کا اس پر کوئی اثرنہ پڑتا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو عقل کے خلاف قراردیتے ہوئے فرمایا: امریکہ کو اس بات کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ کس ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں یا نہ ہوں ،کیونکہ امریکہ کے پاس خود ہزاروں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جاپانی وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا: ایران آنے سے قبل امریکی صدر نے جنابعالی کے ساتھ ایران کے بارے میں گفتگو کی اور واپس امریکہ پہنچ کر ایران کے پیٹروکیمکل ادارے کے خلاف پابندیاں عائد کردیں ۔ کیا امریکہ کی یہ رفتاراس کی صداقت کا مظہر ہے؟ کیا امریکہ جھوٹا نہیں ہے؟ امریکہ کے بغیر بھی ہماری پیشرفت اور ترقی کا سلسلہ جاری رہےگا ہم امریکہ کے فریب میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی ہمیں ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور جاپان کے باہمی تعلقات کے فروغ کا خير مقدم کرتے ہوئے فرمایا: جاپان کو بھی بعض دیگر ممالک کی طرح امریکہ کی منہ زوری کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
مسلم خوابیدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو
امت اسلامی کے درمیان اتحاد، یکجہتی ، رواداری اور باہمی تعاون کے فروغ کی ضرورت کو آج ہر مسلمان محسوس کر رہا ہے ۔ افق گیتی پر رونما ہونے والے حالات اور تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے دنیا کے رنگ ہر مسلمان کے اندر یہ احساس جگا رہے ہیں کہ جہاں مسلمانوں کی بین الاقوامی برادری میں موجودہ ساکھ کو دیکھتے ہوئے قرآن جیسے خزینہ بے بہا کے حقیقی معارف کا اقوام عالم تک پہونچنا ضروری ہے وہیں ایک ایسے قرآنی سماج کی تشکیل بھی ناگزیر ہے جسے امت واحدہ کہا جا سکے ۔ ہم اس وقت تک اقوام عالم کے درمیان اپنا کھویا ہوا وقار بحال نہیں کر سکتے جب تک متحد نہ ہوں ،اس وقت تک دوسروں کو قرآن کے امن و سلامتی کے پیغام کو نہیں پہونچا سکتے جب تک اپنی قوم کے فرد فرد کو اتحاد و ھم دلی اور پیغام امن کا خوگر نہ بنا دیں ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اسکے اندر اپنی منتشر طاقتوں کو جمع کر کے اپنے اندر اتحاد پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا نہ ہو جائے چنانچہ قرآن و احادیث میں جا بجا اسی بات کے پیش نظر اتحاد و انسجام کی دعوت کے ساتھ تفرقہ اور اختلاف سے پرہیز کرنے کی تلقین نظر آتی ہے ۔ ارشاد ہوتاہے ۔ ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون ...ولا تکونوا کالذین تفرقو ا واختلفو من بعد ما جاءھم البینات و اولئک لھم عذاب الیم ..(آل عمران ۱۰۳،۱۰۴) اسی طرح حدیث میں ارشاد ہوتا ہے ۔ لا تختلفوا فان من قبلکم اختلفو فھلکوا۔ قرآن نے اختلاف کی اخروی سزا یعنی عذاب الہی کو بیان کیا ہے اور حدیث میں دنیاوی سزا یعنی ہلاکت کو بیان کیا گیا ہے ۔یقنیا اگر امت اسلامی قرآن اور حدیث کے آئینہ میں اپنے خدو خال سنوار لے تو اس منزل پر پہونچ سکتی ہے جہاں قرآن یہ نوید دے رہا ہے ’’ولتکن منکم امۃ یدعون ..... بس ضرورت ہے متحد ہو کر آگے بڑھنے کی، بیدار ہونے کی، جاگنے کی اگر ہم بیدار ہو گئے خواب غفلت سے جاگ گئے تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔
مسلم خوابیدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو
وہ چمک اٹھا افق گرم تقاضا تو بھی ہو
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی