
Super User
بحرین اور سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین سے غداری کر کے خطرناک دلدل میں قدم رکھ دیا ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں مصلائے حضرت امام خمینی میں نمازعید الفطر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی امامت میں ادا کی گئی جس میں لاکھوں فرزندان اسلام نے شرکت کی۔
رہبرانقلاب اسلامی نے نماز عید کے خطبوں میں ایرانی عوام اور مسلمانان عالم کو عیدالفطر کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین اور فلسطین کے سلسلے میں سینچری ڈیل کے نام سے امریکہ کے خیانت آمیز اور سازشی منصوبے کو عالم اسلام کا اس وقت کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سینچری ڈیل کے سلسلے میں بحرین کی میزبانی میں ہونے والے اقتصادی اجلاس کو امریکی اجلاس قرار دیتے ہوئے فرمایا بحرین اور سعودی عرب کے حکمرانوں نے مسئلہ فلسطین میں غداری و خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ انہوں نے خطرناک دلدل میں قدم رکھ دیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ بحرین اور سعودی عرب جیسے ملکوں نے ہی سینچری ڈیل منصوبے کی زمین ہموار کی ہے-
رہبر انقلاب اسلامی نے سینچری ڈیل کی مخالفت کرنے والےعرب اور اسلامی ممالک اور فلسطینی تنظیموں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: صدی کا معاملہ کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہو گا اور نہ ہی اپنےانجام کو پہنچے گا۔
رہبرانقلاب اسلامی نے اسی طرح عالمی یوم قدس کی ریلیوں میں ایران کے غیور و انقلابی عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ عالمی یوم قدس کی شاندار ریلیوں عوام کی بھرپور اور مستحکم شرکت، عالمی سیاست اور ایرانی قوم کے دشمنوں کے عزم و ارادے کو بری طرح متاثر اور دشمنوں کے اندازوں کو غلط ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہےرہبر انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک میں قرآنی محفلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ رمضان المبارک میں ایرانی قوم، خاص طور پر نوجوانوں نے مساجد، امام بارگاہوں، اور دیگر مقدس مقامات پر اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز کئے اور سر بسجود ہوئے ۔
عالمی صہیونیت، مسئلہ فلسطین اور سابق علماء کی سرگرمیاں
ہمیشہ جب بھی اسلامی معاشرے کو کسی خطرے کا سامنا ہوا تو علمائے دین اسلامی معاشرے کے تحفظ کے لیے میدان کارزار میں نکل آتے رہے ہیں اور اپنی جانوں تک کی قربانی دے کر خطرات کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ سرزمین فلسطین پر عالمی صہیونیت کے قابض ہو جانے کے بعد یہ دینی علماء ہی تھے جو اس عظیم خطرے کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور امت مسلمہ کے اندر اسلامی بیداری کی لہر پیدا کی۔ لیکن یہاں پرجو چیز حائز اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں زیادہ تر ایران اور عراق کے علماء ہی پیش قدم رہے ہیں۔ اگر چہ فلسطین سنی مذہب کے پیرو مسلمانوں کا ملک ہے لیکن کبھی بھی یہ مذہبی اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنا کہ شیعہ علماء فلسطین کے حوالے سے اپنے موقف کو تبدیل کریں۔
اس اعتبار سے اہل تشیع کے بعض بزرگ اور ممتاز علماء جو صہیونیت کے خطرے کے مقابلے میں مجاہدت کرتے رہے ہیں ذیل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛
آیت اللہ سید عبد الحسین شرف الدین
سید عبد الحسین شرف الدین صف اول کے ان ممتاز علماء میں سے ایک ہیں جو ۱۹۴۸ میں اسرائیل کی تشکیل سے پہلے ہی یہودیوں کے خطرات کی طرف متوجہ تھے۔ وہ اس دور میں جب فلسطین برطانیہ کے زیر قبضہ تھا دنیا سے یہودیوں کی فسلطین ہجرت کو اس ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیتے تھے۔ اگر چہ سید شرف الدین کی سرگرمیوں کا دائرہ لبنان میں محدود تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی پوری زندگی تلاش و کوشش کی کہ صہیونی ریاست کی تشکیل کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں۔ انہوں نے عالمی برادری سے بھی برطانیہ کے موقف کے خلاف اعتراض کرنے اور یہودیوں کی فلسطین ہجرت اور صہیونیوں کی سرگرمیوں کو رکوانے کا مطالبہ کیا۔ (۱)
علامہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء
علامہ کاشف الغطاء کی نگاہ میں صہیونی ریاست کا مسئلہ ایک ایسا معضل تھا جو مغربی استکباری طاقتوں (امریکہ و برطانیہ) کے ذریعے وجود میں آیا۔ وہ تاکید کرتے تھے کہ تمام مسلمان اس مشکل کو برطرف کرنے کے لیے کوشش کریں۔ وہ صہیونیت کو تمام عالم اسلام کی مشکل قرار دیتے تھے کہ جو تین وجوہات کی بنا پر عالم اسلام کو درپیش تھی ایک مسلمانوں میں اتحاد کے نہ ہونے، دوسرے مسلمان حکومتوں کی کمزوری اور سب سے زیادہ اہم دوسری عالمی جنگ کے بعد عربوں اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہونے کی بنا پر اس سرطانی پھوڑے نے جنم لیا۔
انہوں نے کئی اسلامی ممالک کا سفر کیا، ۱۳۵۰ ھ کو انہوں نے قدس شریف کا دورہ کر کے مسلمانوں کو صہیونی جرائم کے خطرات سے آگاہ کیا۔ نیز اسرائیل کی تشکیل اور چھے روزہ جنگ کے بعد عرب ممالک کے سربراہوں کو جنگ میں کوتاہی کی وجہ سے ان کی مذمت کی اور اسرائیل کے مقابلہ کے لیے جہاد کا فتویٰ دیا اور تمام اسلامی ممالک سے اس جہاد میں شرکت کا مطالبہ کیا۔ (۲)
آیت اللہ شیخ عبد الکریم زنجانی
آیت اللہ زنجانی نے بھی مصر، لبنان، فلسطین اور شام کے ممالک میں سفر کر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی اور انہیں استعماری طاقتوں کے خلاف مجاہدت کرنے کی ترغیب دلائی۔ انہوں نے فلسطینی مفتی سید محسن حسینی کی دعوت پر مسجد الاقصیٰ کی زیارت اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات کے لیے فلسطین کا دورہ کیا۔ فلسطینی علماء اور عوام نے آیت اللہ زنجانی کا پرتباک استقبال کیا۔ انہوں نے ان کے درمیان صہیونیت اور استکباری طاقتوں کے خلاف پرجوش تقریر کی کہ جو وہاں کے لوگوں کے درمیان “خطبہ ناریہ” کے نام سے معروف ہو گیا۔
انہوں نے اپنے اس خطاب میں اسرائیلی رہنماوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“کیا تم خدا کے ساتھ جنگ کرو گے؟ جبکہ خدا کی کامیابی یقینی ہے۔ وہ جو فلسطین میں اسرائیل نامی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ یہودیوں کے لیے ایک اقتدار اور عزت حاصل کریں اور اس مقصد تک پہنچنے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کریں، انہیں جان لینا چاہیے کہ وہ اس خدا کے ساتھ برسرپیکار ہیں جس نے یہودیوں کے لیے ذلت اور پستی قرار دی ہے۔ (۳)
آیت اللہ سید محسن طباطبائی حکیم
آیت اللہ حکیم خود بھی اسلامی تحریک آزادی تنظیم کی مدد کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنے کی ترغیب دلاتے تھے۔ انہوں نے بیت المقدس کی نجات کے لیے فلسطین اور اسلامی وحدت کے لیے متعدد بار کئی اہم بیانات جاری کئے۔ انہوں نے عراقی حکومت کو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے خلاف عوام کو احتجاجی مظاہرے کرنے سے روکنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ عراقی حکومت ان سے معافی مانگنے پر مجبور ہو گئی۔ (۴)
آیت اللہ سید ابوالقاسم کاشانی
آیت اللہ کاشانی کی جہادی سرگرمیاں ۱۹۴۷ سے پہلے کی طرف پلٹی ہیں ۱۹۴۷ میں ایام اربعین کے موقع پر ہزاروں عزادار آپ کے محلے میں جمع ہوئے آپ نے اس دور کو امام حسین (ع) کے زمانے سے موازنہ کرتے ہوئے لوگوں کو ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: “فلسطین میں ہمارے بھائی سخت حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان کے گھروں اور زمینوں پر یہودیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ان کی جان و مال اور عزت یہودیوں کے ہاتھوں تاراج ہو رہی ہے، دنیا کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں اور ان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں”۔ انہوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مسلمانان عالم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: “کیا یہ درست ہے کہ دنیا کی پست ترین قوم مسلمانوں کے ساتھ اس طرح سے ناروا سلوک کرے اور مسلمان آرام و سکون سے بیٹھے رہیں”۔
اسی سال آیت اللہ کاشانی نے فلسطینی عوام کی حمایت میں ایک بیانیہ جاری کر کے غاصب اسرائیلی حکومت کی تشکیل کو پوری دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے نہ صرف بیان جاری کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لوگوں کو تہران کی شاہی مسجد (موجودہ مسجد امام خمینی) میں فلسطین کی حمایت میں احتجاجی اجتماع کرنے کی دعوت دی۔ یہ چیز باعث بنی کہ حکومت وقت نے انہیں اس اجتماع میں تقریر کرنے سے روک دیا۔ آیت اللہ کاشانی نے اسرائیل کے خلاف اپنی مجاہدت جاری رکھی اور آخر کار شاہی حکومت انہیں لبنان ملک بدر کرنے پر مجبور ہو گئی۔ ملک بدر کرنے سے نہ صرف آیت اللہ کاشانی کی اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ لبنان میں یہ سرگرمیاں مزید شعلہ ور ہوئیں اور آخرکار حکومت ایران کو انہیں واپس وطن لوٹانا پڑا۔ (۵)
آیت اللہ بروجردی
عالم تشیع کے اس مرجع تقلید کی سرگرمیاں صرف ایران میں محدود نہیں تھیں بلکہ صہیونی ریاست کی تشکیل اور عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہوئی جنگ کے بعد آیت اللہ بروجردی نے ایک بیان جاری کر کے مسلمانان عالم کو صہیونی ریاست کے خلاف اور فلسطینی عوام کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اپنے اس بیانیے میں فلسطینی عوام کے ساتھ یہودیوں اور صہیونیوں کے غیر انسانی برتاو کی وجہ سے مسلمانوں کو فلسطینی عوام کی کامیابی اور یہودیوں کی شکست کے لیے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ (۶)
آیت اللہ محمود طالقانی
آیت اللہ طالقانی نے ۱۹۴۸ء سے صہیونیت کے خلاف اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ایران کے عوام کو صہیونیت کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے کئی بیانیے جاری کئے اور تقریریں کیں۔ آیت اللہ طالقانی کے لیے یہ مسئلہ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے ۱۹۷۹ میں اپنی شہادت سے بیس دن پہلے اپنی ایک تقریر میں مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا اور عالم اسلام سے مطالبہ کیا کہ قدس کی آزادی کو اپنے امور میں سرفہرست قرار دیں۔ (۷)
علامہ طباطبائی
سید ہادی خسرو شاہی علامہ طباطبائی کے بارے میں کہتے ہیں: آپ علمی سرگرمیوں کے علاوہ عالم اسلام کے اہم مسائل کے بارے میں بھی اظہار رائے کرتے تھے ان اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ فلسطین تھا۔ علامہ طباطبائی آقائے مطہری اور سید ابوالفضل زنجانی کے ہمراہ تہران کے ایک بینک میں مشترکہ اکاونٹ کھلواتے ہیں اور لوگوں کو فلسطینی عوام کی مدد کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
انہوں نے یہ اقدام اس حدیث «من سمع رجلاً ینادی یا للمسلمین فلم یُجبیه فلیس بمسلم» کی روشنی میں انجام دیا لیکن بعد میں حکومتی کارندوں “ساواک” نے یہ اکاونٹ بند کروا کر اس حوالے سے انجام پانے والی سرگرمیوں کو روک دیا۔(۸)
آیت اللہ گلپائیگانی
آیت اللہ گلپائیگانی نے چھے روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایک بیانیہ جاری کر کے فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے مسجد الاقصیٰ کے آتش سوزی کے واقعہ کے موقع پر بھی ایک سخت بیانیہ جاری کیا اور مسجد اعظم قم میں اس اقدام کے خلاف تقریر کی۔ (۹)
صہیونی ریاست کی تشکیل کے بعد امام خمینی (رہ) کے علاوہ کئی دیگر علماء جیسے آیت اللہ میلانی، آیت اللہ مرعشی نجفی، آیت اللہ خوئی، آیت اللہ بہبہانی، آیت اللہ سید عبد اللہ شیرازی، امام موسی صدر۔۔۔ نے فلسطینی عوام کے دفاع اور غاصب اسرائیل کے ظالمانہ رویے کے خلاف مجاہدت کی اور یہ انہیں مجاہدتوں اور زحمتوں کا نتیجہ ہے کہ آج مسئلہ فلسطین پوری دنیا کا ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے پوری دنیا میں صہیونی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا جاتا ہے اور آج عالمی یوم القدس کے موقع پر پوری دنیا میں احتجاجی جلوس نکانے جاتے ہیں۔ (۱۱)
بقلم میلاد پور عسگری
حواشی
۱ – http://wikinoor.ir
۲- http://zionism.pchi.ir/show.php?page=contents&id=5995.
۳- https://zanjan.ichto.ir/database/agentType/View/PropertyID/79.
۴- http://ir-psri.com/Show.php?Page=ViewArticle&ArticleID=221.
۵- http://www.irdc.ir/fa/news/1914.
۶- http://www.iichs.ir/News-4470.
۷- http://ir-psri.com/Show.php?Page=ViewArticle&ArticleID=1121.
http://navideshahed.com/fa/news/390306.
۸- https://www.mashreghnews.ir/news/911271.
۹- http://ir-psri.com/Show.php?page=ViewNews&NewsID=6179&cat=7
۱۰- http://www.rahmag.ir/content.php?id=184.
۱۱- https://hawzah.net/fa/Magazine/View/3814/3825/23462.
کیا اسرائیل سچ میں صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا؟
ویسے تو امام خامنہ ای نے آج سے چند برس قبل اسرائیل کے وجود کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی ڈیڈ لائن دی تھی اور اس دن سے اہل ایمان و ایران و لبنان نے اسرائیل کا کائونٹ ڈائون شروع کر دیا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس دن ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا اور حضرت امام خمینی کی رہبری میں علماء کی قیادت میں ایک اسلامی نظام قائم ہوگیا، اسی دن سے اسرائیل کے دن گھٹنے شروع ہوگئے تھے، سب سے پہلے اسرائیل کی سفارت جو تہران میں قائم تھی، اس کو بند کر دیا گیا اور اسے پی ایل او کو دے دیا گیا، جس کی سربراہی یاسر عرفات کے پاس تھی، حالانکہ ایران میں یہودیوں کی اچھی تعداد (دیگر کئی ممالک کی بہ نسبت) رہتی ہے۔ اس کے بعد انقلابی اسلامی حکومت کی سربراہی میں پوری دنیا میں جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس کے طور پہ منانے کا اعلان ہوگیا، امام خمینی نے فرمایا کہ جمعة الوداع یوم الاسلام اور یوم اللہ ہے، اس دن اپنی طاقت و قوت کا اظہار کیجئے اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے گھروں سے باہر نکلیں، حتیٰ کہ اگر کوئی یوم القدس نہیں مناتا تو واجب ترک کرتا ہے۔
انہوں نے انقلاب سے بھی پہلے فلسطینیوں کی مدد کا اعلان کیا تھا، ۱۹۶۸ء میں ایک انٹرویو میں آپ نے فرمایا کہ کہ زکات کا ایک حصہ فلسطینی مجاہدین کیلئے مختص کرنا چاہیئے، انقلاب کی کامیابی کے بعد تو امام خمینی نے فلسطینیوں کی ہر قسم کی مدد شروع کی اور اسلامی دنیا کو دعوت دی کہ ارض مقدس کی بازیابی کیلئے باہر نکلیں اور خدا پر توکل کریں، نہ کہ استکباری حکمرانوں پہ۔ امام خمینی نے برملا کہا کہ بیت المقدس کی آزادی صرف مسلح جہاد سے ہی ممکن ہے اور مسلمان اگر ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیلی سرحد پر ڈال دیں تو اسرائیل اس میں ڈوب جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ اسرائیل کا ناجائز وجود امت مسلمہ کے قلب میں خنجر کی مانند ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کینسر کا ایسا جرثومہ ہے، جسے جسم سے الگ کئے بنا امت مسلمہ کے جسم سے بیماری خاتمہ ممکن نہیں۔
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسرائیل روز بروز مقبوضہ علاقوں میں امریکہ اور اپنے دیگر سرپرستوں کی ہلہ شیری سے نئی نئی بستیاں بنا رہا ہے اور اس مقدس سرزمین کے اصل وارثوں کو بے دخل کر رہا ہے، ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، انہیں گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، ان کے گھروں کو بلڈوزروں سے تاراج کیا جاتا ہے، انہیں قید و بند کی صعوبتیں دی جاتی ہیں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں سب کو بلا تمیز تشدد اور ظلم و ستم کا شکار کیا جاتا ہے، حقوق انسانی کے عالمی ٹھیکیداروں اور اقوام متحدہ سمیت اسرائیل کی تمام بدمعاشیوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں اور مظالم کا یہ سلسلہ گذشتہ ستر سال سے زائد عرصہ ہوا جاری ہیں، ان میں روزانہ اضافہ ہوتا ہے، شقاوت و قساوت اور بے رحمی کے ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیسے سید حسن نصراللہ نے فرمایا تھا کہ اسرائیل کا وجود مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے، ایسا ہی ہے، ایک طرف فلسطین کی کئی نسلیں تباہی و بربادی کے یہ مناظر دیکھتے ہوئے جوان ہوئی ہیں اور دوسری طرف بزدل یہودی ہیں، جو ایک دو راکٹ گرنے پہ ہی تہہ خانوں میں چھپ جاتے ہیں، جبکہ فلسطینیوں نے موت کی آغوش میں، گولیوں اور بم دھماکوں کی گھن گرج میں جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ انہیں کچھ کھو جانے کا خوف نہیں جبکہ سنہرے خواب دکھا کر فلسطین میں دنیا بھر سے لائے گئے یہودیوں کیلئے ہنگامی صورتحال میں جینا مشکل ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوم القدس کو عالمی سطح پر منانے سے مظلوم فلسطینیوں کو نئی روح مل جاتی ہے اور مجاہدین کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، وہیں یہودیوں کیلئے یہ دن موت کا پیغام لاتا ہے کہ اس دن امت مسلمہ اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کا عہد کرتی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے مقدس مقام کو واپس لیکر رہیں گے، چاہے اس کیلئے جتنی مرضی قربانیاں دینا پڑیں۔
اس وقت یوم القدس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، اس لئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کوشنر جو یہودی ہیں، اس نے عرب خائنین کیساتھ مل کر سینچری ڈیل کے نام سے ایسا منصوبہ تیار کیا ہے، جسے قبول کرنے سے اسرائیل کو مزید کھلی چھٹی مل جائے گی اور فلسطینی بہت ہی محدود ہو جائیں گے۔ اگرچہ اس منصوبے کی تمام باتیں اور جزئیات ابھی سامنے نہیں آئیں، چند نکات مختلف اطراف سے ذکر ہو رہے ہیں اور اگلے ماہ بحرین میں اس حوالے ایک کانفرنس ہونے جا رہی ہے، جس میں یہ منصوبہ یعنی سینچری ڈیل منظور کی جانے کی توقع ہے۔ اس حوالے سے اہل فلسطین نے اس ڈیل کو یکسر مسترد کر دیا ہے، فلسطین کی تحریک مقاومت حماس، جہاد اسلامی کے علاوہ کئی دیگر گروہوں اور فلسطین کی موجودہ اتھارٹی نے بھی اسے ماننے سے انکار کیا ہے۔
ان حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک دن کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور یک زبان ہو کر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں صدا بلند کرے، تاکہ عالمی اداروں اور خائنین ملت کو علم ہو جائے کہ وہ کسی بھی صورت ایسے کسی منصوبے کو قبول نہیں کروا سکتے، جو فلسطینیوں کے بنیادی ترین حقوق کی پائمالی اور ان کی مقدس سرزمین سے علیحدگی کا باعث ہو۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ فلسطین کی جہادی و مزاحمتی جماعتیں اس وقت ایک صفحہ پر ہیں اور اسرائیل کو سبق سکھانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار بیٹھی ہیں۔ چند ماہ پہلے ہی حماس نے اسرائیلی شہروں پر سینکڑوں میزائل داغ کر ہلچل مچا دی تھی۔ اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ حماس و جہاد اسلامی کو ایران اسلحہ و امداد دے رہا ہے، ایران نے کبھی اس کی تردید نہیں کی بلکہ رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے برملا فلسطینیوں کی مدد کا اعلان کر رکھا ہے، جو جاری رہتی ہے۔
امریکہ نے ایران کے ساتھ گذشتہ چالیس سال سے مخاصمت اور دشمنی کا رویہ اگر اپنا رکھا ہے تو اس میں سب سے اہم ترین مسئلہ یہی بیت المقدس کا ہے، جس کے قبضے کو اہل ایران کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ایران فلسطینی مسئلہ سے دستبردار ہو جاتا تو اس کی تمام مشکلات ختم ہو جاتیں، پھر شام و عراق میں داعش یا القاعدہ کا وجود بھی نہیں ہوتا اور شام کی جو تباہی ہوئی، وہ بھی نہ ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سارے قضیئے کے پس پردہ اسرائیل کا تحفظ یقینی بنانا تھا، جس میں امریکہ کی جان ہے، مگر سب جانتے ہیں اور اب خود امریکی بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ انہیں ایران نے بدترین شکست سے دوچار کیا ہے، جو مقصد یہ رکھتے تھے، اس میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ شام میں حکومت کی تبدیلی کا خواب دیکھنے والے رخصت ہوگئے، عراق کے مقدس مقامات کو تاراج کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے آج جائے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
اسرائیل جسے مضبوط اور اس کے دفاع کو یقینی و فول پروف بنانے کیلئے یہ سارا گیم پلان بنایا گیا تھا، آج شکست خوردہ اور خوف سے مرا جا رہا ہے، پہلے تو آئے روز ایران پر حملوں کی دھمکیاں دی جاتیں تھیں، اب اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے سازشی کھیل کھیلنے جا رہے ہیں اور امت مسلمہ کے خائنین کو ساتھ ملا کے سینچری ڈیل کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی سعی ناکام کی جا رہی ہے، شام و عراق سے مقاومت اسلامی کے بلاک نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، انکا اگلا نتیجہ اسرائیل کے کائونٹ ڈائون کی طرف بڑھنا ہے، ہمیں امید رکھنی چاہیئے کہ ہماری نسل کو وہ دن دیکھنا نصیب ہونگے، جب اسرائیل کا نجس وجود اس پاک و مقدس سرزمین سے مٹا دیا جائیگا۔ ان شاء اللہ
تحریر ارشاد حسین ناصر
رہبر انقلاب اسلامی: فلسطینی عوام کا دفاع اسلامی و شرعی ذمہ داری کے ساتھ انسانی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں کے بعض اساتید ، ممتاز شخصیات اور دانشوروں سے ملاقات میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی اور دینی ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فلسطینی عوام کا دفاع صرف اسلامی اور دینی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی اور اخلاقی مسئلہ بھی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدی معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فلسطین کے بارے میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی عربوں کی گھناؤنی سازشیں ماضی میں بھی ناکام ہوئی ہے اور فلسطین کے بارے میں ان کا صدی معاملہ بھی ناکام ہوجائےگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: فلسطینی عوام کا دفاع صرف اسلامی اور دینی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کا دفاع انسانی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: عالمی یوم قدس اس سال ہر سال کی نسبت کہیں زیادہ اسلامی اور انسانی جذبے کے تحت جوش و خروش کے ساتھ منایا جائےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے مذاکرات کے مطالبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مذاکرات میں کوئی اشکال نہیں، ہم نے مشترکہ ایٹمی معاملے میں بھی مذاکرت کئے لیکن انھوں نے مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے مشترکہ معاہدے کو ہی توڑ دیا اور بد اعتمادی کی فضا ایک بار پھر پیدا کردی ۔ وعدہ خلافی کرنے والے اور جھوٹے ممالک کے ساتھ کون بار بار مذاکرات کرےگا ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اب وہ مذاکرات کس موضوع کے بارے میں کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر وہ ایران کی ناموس کے بارے میں مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو ایسے مذاکرات کی انھیں ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ ناموس کا مسئلہ ہے ، اگر وہ مذاکرات ایران کی دفاعی طاقت کے بارے میں یا ایران کے ریڈ خطوط کے بارے میں کرنا چاہتے ہیں تو ان موضوعات کے بارے میں بھی ان سے کوئی مذاکرات نہیں کرےگا۔ کیونکہ یہ مسئلہ ملکی اور قومی دفاع کا مسئلہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی فرمایا: وہ مذاکرات کے ذریعہ دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں ان کا منصوبہ صرف دباؤ برقرار کرکے ایران کو اس کے اہداف سے پیچھے کرنا ہے اور ایرانی قوم کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دےگی۔
صدی کی ڈیل! فلسطین کو لاحق خطرات
مسئلہ فلسطین تاریخ انسانیت میں ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کی بنیاد کو تلاش کیا جائے تو ایک سو سال قبل یعنی1917ء میں برطانوی سامراج کی جانب سے پیش کیا جانے والے اعلان بالفور تھا کہ جس کی بنیاد پر تمام یورپی و مغربی حکومتوں نے فلسطین پر ایک صہیونی جعلی ریاست قائم کرنے کی تجویز کو منظور کیا۔ فلسطینی عوام نے اس وقت بھی اس اعلان بالفور کو مسترد کیا تھا اور بعد میں بھی اقوام متحدہ کی چار بین الاقوامی سازشوں کے نتیجہ میں منظور کی جانے والی قرار دادوں کو بھی مسترد کیا جاتا رہا۔ یہ یقیناً فلسطین کے عوام کا بنیادی حق تھا اور ہے کہ وہ اپنے مستقبل اور قسمت کا فیصلہ خود کریں، نہ کہ دنیا کی استعماری قوتیں فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ فلسطین کی غیور ملت نے ہر ایسی قرارداد اور عمل کی شدید مخالفت کی کہ جس کا فائدہ براہ راست یا بالواسطہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام یا پھر اس کے بعد صہیونیوں کے حق میں جاتا تھا۔ فلسطینی عوام نے نہ صرف ایسی کوششوں کو مسترد کیا بلکہ جس حد تک ممکن ہوا جدوجہد بھی کی، ہڑتالوں سے لے کر مظاہروں تک اور ہر محاذ پر احتجاج کا دروازہ کھولے رکھا۔
بہرحال فلسطین کے مسئلہ کو اعلان بالفور سے اب تک ایک سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ دراصل فلسطین پر صہیونی قبضہ اور فلسطینی عوام پر صہیونی مظالم کی اصل تاریخ بھی ایک سو سالہ ہی بنتی ہے۔ اس دوران عالمی سامراجی طاقتوں نے ہمیشہ صہیونیوں کی جعلی ریاست کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ ان ہتھکنڈوں میں فلسطین کے عوام پر جنگیں مسلط کرنا، ظلم و بربریت کرنا، گھروں سے بے گھر کرنا، جبری طور پر جلا وطن کرنا، بنیادی حقوق سے محروم کرنا سمیت خطے میں دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھا کر مسئلہ فلسطین کو مسلم دنیا میں صف اول کا مسئلہ بننے سے دور رکھنا۔ ایک سو سالہ دور میں فلسطینی تحریکوں کے سربراہان کو مذاکرات کی میز پر بھی بٹھایا گیا، لیکن نتیجہ میں امریکہ اور عالمی قوتوں نے ہمیشہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور اس کے بڑھتے ہوئے صہیونی عزائم کے سامنے سرتسلیم خم رکھا جبکہ ان نام نہاد مذاکرات کا ہمیشہ فلسطینیوں کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اب صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صہیونیوں نے غزہ کی پٹی کو گذشتہ بارہ سال سے محاصرے میں لے رکھا ہے۔ انسانی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ایسے حالات میں فلسطین کے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔
فلسطین پر صہیونیوں کے ایک سو سالہ مظالم کی تاریخ کی سرپرستی کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر عالمی سامراج اور دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ نے فلسطین کا سودا کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ایک سو سال پہلے سوداگر برطانوی سامراج کی شکل میں آئے تھے۔ پھر ایک سو سال تک امریکی سامراج فلسطینی عوام پر ہونے والے صہیونی مظالم کی سرپرستی کرتا رہا۔ اب ایک سو سال مکمل ہونے پر امریکی صدر نے خود کو دنیا میں چیمپئین منوانے اور اپنے اگلے انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے صہیونیوں کے ساتھ کئے گئے وہ تمام وعدے پورے کرنے کی ٹھان رکھی ہے، جو امریکی صدر ٹرمپ کو امریکہ میں صہیونی لابی کی حمایت دلوا سکتے ہیں۔ ان تمام وعدوں میں سب سے بڑا وعدہ مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کا ہے، جس کے لئے امریکہ نے ایک پلان ترتیب دیا ہے، جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ کہا جا رہا ہے۔ یہ ڈیل امریکی صدر کے داماد کوشنر نے صہیونی جعلی ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مل کر ترتیب دی ہے۔
اس ڈیل کے نتیجہ میں امریکہ چاہتا ہے کہ پورے خطے پر صہیونی بالادستی قائم ہو جائے اور مسئلہ فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امریکی خواہشات اور صہیونی من مانی کے مطابق ختم کر دیا جائے۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر ’’صدی کی ڈیل‘‘ کا چرچہ گذشتہ ایک برس سے جاری ہے، لیکن اس معاہدے کے تفصیلی خدوخال مکمل طور پر سامنے نہیں آئے ہیں، کیونکہ امریکہ نے اس ڈیل کو خفیہ طور پر خطے کی تمام عرب و مسلمان حکومتوں سمیت یورپ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مخفی رکھا ہوا ہے۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکی ’’صدی کی ڈیل‘‘ نامی منصوبہ دراصل فلسطینیوں کو ان کے حق واپسی محروم کرنا چاہتا ہے، فلسطینی جو فلسطین واپسی کی عالمی تحریک چلا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا بھر سے فلسطینیوں کی اپنے وطن واپسی ہو۔ اس واپسی کے عمل کو امریکہ اور اسرائیل صدی کی ڈیل کے تحت روکنا چاہتے ہیں۔ اس ڈیل کے تحت امریکہ چاہتا ہے کہ فلسطین میں موجود تمام فلسطینیوں کو اردن کی طرف دھکیل کر زمین کا کوئی چھوٹا ٹکڑا دے دیا جائے اور فلسطینیوں کو فلسطین سے دستبردار کر دیا جائے، جبکہ فلسطین کے عوام کا ایک ہی نعرہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔
اسی منصوبہ کا ایک حصہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس سے متعلق ہے کہ جس پر امریکی صدر نے پہلے ہی یکطرفہ اعلان کیا تھا کہ یروشلم شہر فلسطین کا نہیں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت ہے، جبکہ تین ہزار سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یروشلم فلسطین کا ابدی دارالحکومت تھا۔ صدی
کی ڈیل کے خدوخال کے مطابق مرحلہ وار امریکی صدر نے امریکن سفارتخانہ کو بھی مقبوضہ فلسطین کے تل ابیب شہر سے نکال کر یروشلم میں منتقل کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کے ان اقدامات کو دنیا بھر میں مذمت کا سامنا رہا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر ایسے فیصلوں کو مسترد کیا ہے۔ حالیہ دنوں امریکی صدر کی جانب سے شام کے علاقہ جولان کی پہاڑیوں سے متعلق بھی اسرائیل کا حق تسلیم کیا تھا، جس کو دنیا بھر میں شدید مذمت کا سامنا رہا اور مسلم دنیا سمیت یورپ نے بھی ایسے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ مسلسل ایک سال میں امریکی صدر کے فلسطین و القدس سے متعلق یکطرفہ فیصلوں اور اعلانات نے یہ ثابت کیا ہے کہ دراصل امریکہ صدی کی ڈیل کے خدوخال پر ہی کاربند ہے اور آہستہ آہستہ اس معاہدے کے خدوخال کو اپنے جارحانہ عوامل کے ذریعے آشکار کر رہا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے لئے فلسطین کو ختم کرنے کا ارادہ کرچکا ہے۔ اس مقصد کے لئے صدی کی ڈیل نامی معاہدے کے تحت خطے کی تمام عرب و مسلمان ریاستوں کو امریکہ نے معاشی پیکج کے نام پر اربوں ڈالر کا لالچ دے رکھا ہے جبکہ کئی ایک شہزادوں اور بادشاہوں کو اگلے پچاس برس کی بادشاہت کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ بدلے میں امریکہ کو صدی کی ڈیل پر ان تمام عرب و مسلمان ممالک سے حمایت درکار ہے۔
موجودہ اطلاعات کے مطابق خطے کی تمام عرب خلیجی ریاستوں نے امریکہ کے فلسطین دشمن صدی کی ڈیل نامی معاہدے پر دستخط کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے، جبکہ ابھی تک اردن نے اس ڈیل کو مسترد کر رکھا ہے یا اس کے کچھ تحفظات ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں ایک سو سال بعد اعلان بالفور کی طرح ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کو ہی خطرات لاحق ہیں اور فلسطین کا مستقبل خطرے میں ہے، کیونکہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ چاہے ماضی میں بالفور کرے یا حال میں ٹرمپ کرے، کبھی فلسطین کے حق میں ہو نہیں سکتا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان و عرب حکومتیں فلسطین کے عوام کے ساتھ ہونے والی اس بدترین خیانت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور امریکہ کی کاسہ لیسی ترک کر دیں۔
تحریر صابر ابومریم
سرزمین فلسطین عرب عوام کے دلوں کی ڈھرکن
آج کے ذرائع ابلاغ کی ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ عام آدمی کو صحیح اور حقیقی واقعات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اطلاعات کے ذرائع پر سیاسی میلانات رکھنے والوں کو کنٹرول حاصل ہونے کی وجہ سے سچائی ایک نایاب شئے بن گئی ہے! مثال کے طور پر مغربی ذرائع ابلاغ، عرب اسرائیل جنگ، عربوں کی جانب سے تیل کی سربراہی پر پابندی، جس کی وجہ سے دنیا میں معاشی بے چینی پیدا ہوئی ہے، اس “ننھے منے” بے یارو مددگار اسرائیل کا ذکر خیر، جو ایسے دشمنوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہے جو اس کو تسلیم کرنے اور اس سے گفت و شنید کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ تاہم ان کی یہ معلومات، تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرتی ہیں اور جس حقیقت کو وہ یا تو دبا دیتے ہیں یا چھپا دیتے ہیں اور جس سے وہ خود بھی لاعلم ہیں وہ در اصل یہ ہے کہ “ننھا منا” اسرائیل، ایک ایسا ملک ہے جو ایک دوسرے ملک، فلسطین کا خاتمہ کر کے عالم وجود میں آیا ہے۔
جب ۱۹۴۸ میں ایک نئے ملک اسرائیل کی داغ بیل ڈالی گئی تو کئی مغربی حلقوں میں یہ سمجھا گیا تھا کہ یہ نئی مملکت، مشرق وسطیٰ میں استحکام و ترقی کا ایک وسیلہ ثابت ہو گی اور عرب، جلد یا بدیر اس کے وجود کو تسلیم کر لیں گے۔
لیکن چالیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی عرب اسی طرح غیر مصالحت پسند ہیں جس طرح کے وہ ابتدا میں تھے وہ لوگ جو مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور عربوں کی نفسیات نیز انسانی نفسیات سے فی نفسہ واقف ہیں اس بات کو تسلیم کریں گے کہ عرب، یورپی یہودیوں کو فلسطین میں کبھی بھی قبول نہیں کریں گے جس طرح کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ پر حملہ آور مسیحیوں کو یا سکندر اعظم کے زمانے کے یورپی مشرکین کو قبول نہیں کیا تھا۔
اسی طرح عرب، سلطنت عثمانیہ کے غیر ملکی مسلم ترکوں سے بھی نبرد آزما رہے ہیں جنہوں نے ان کی سرزمین پر برسہا برس حکومت کی۔ الجیریا میں عرب فرانس سے جس نے وہاں تقریبا ایک سو سال تک اپنا تسلط جمائے رکھا تھا اس وقت تک لڑتے رہے جب تک کہ انہوں نے فرانسیسیوں کو اس علاقے سے نکال باہر نہ کیا۔
ان واضح تاریخی حقائق کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے مسئلہ کو اس بنیاد پر حل نہ کیا جائے کہ فلسطین کے عوام کے مکمل حقوق، علاقائی سالمیت کے ساتھ وطن کی شکل میں بحال نہ کئے جائیں۔ بالفاظ دیگر فلسطینیوں کو ان کی مملکت واپس نہ کر دی جائے، مسئلہ فلسطین اپنی موجودہ شکل میں فی الحقیقت لاینحل معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ برطانیہ فلسطین کو اپنے انتداب سے نکال چکا ہے اس لیے اسرائیل کا مسئلہ عرب دنیا کے تعلق سے ایک ایسا قضیہ ہے جسے ادارہ اقوام متحدہ کو چکانا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ادارے نے ایسی قرار دادوں کی منظوری میں کافی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے کہ جن کا مقصد اس کا حل تلاش کرنا تھا۔ اگر ان قراردادوں کو روبہ عمل لانے کے لیے نیک نیتی سے ذرا سی بھی کوشش کی جاتی تو نتیجہ بہت شاندار ہوتا۔ لیکن یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
۱۹۴۷ء میں اور پھر ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے سنجیدگی سے یہ اعلان کیا کہ فلسطینی عرب مہاجرین کو اس بات کا پورا پورا حق ہے وہ اپنے گھروں کو واپس ہوں اور اگر وہ اس حق سے استفادہ کے خواہاں نہ ہوں تو ان کے مادی نقصانات کی مکمل پابجائی کی جائے۔ فلسطینی مہاجر نہ اپنے گھر لوٹے اور نہ ہی انہیں کوئی معاوضہ ملا۔ وہ اب بھی مہاجر ہیں۔ ابھی تلک یہ جلا وطن لوگ محتاج، مفلس، فلاکت زدہ، بھوکے اور بدحال ہیں، جو کمیونسٹ پروپیگنڈے کا آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ انسان کے انسانوں سے ظالمانہ سلوک کی بدترین مثال ہے۔
لیکن اس صورت میں کم از کم ایک امر باعث اطمینان یہ ہے کہ فلسطین بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے اور عربوں کی جانب سے اسرائیل کی مخالفت کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکر کمیونزم کے ملحدانہ عقیدے کی قبولیت بھی ان کی مخالفت کے جذبے کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بار ایک تحریری مقابلہ جو تمام قوموں کے ادیبوں کے لیے کھلا تھا، اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے منعقد کیا گیا کہ “ہاتھی” کے موضوع پر کس کے مضمون کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ ایک جرمن ادیب نے ایک پر مغز مقالہ، “ہاتھی، ایک وضاحتی مطالعہ” پیش کیا۔ فرانسیسی قلمکار نے ایک مختصر سا مضمون “ہاتھی کی جنسی زندگی” پر لکھا۔ ایک انگریز نے ایک مختصر معلوماتی کتابچہ “مجھے ہاتھی کا شکار کرنا پڑا” تیار کیا۔ ڈنمارک کے ایک باشندے نے پکوان کی ایک کتاب “ہاتھی کے گوشت کے قتلوں سے پکوان کے چالیس طریقے” تحریر کیا۔ لیکن اس مقابلے میں حصہ لینے والے واحد عرب نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا “مسئلہ فلسطین کے حل میں ہاتھی کا کردار”!۔
اس میں شک نہیں کہ یہ قصہ من گھڑت ہے لیکن یہ ایک موزوں طریقے پر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مملکت اسرائیل کے وجود کے تعلق سے عرب احساسات کس قدر شدید ہیں۔ بلاشبہ کوئی بھی عرب علانیہ طور پر اس بات کا اعتراف نہیں کر سکتا کہ ایک نئی آزاد مملکت “اسرائیل”وجود میں آ چکی ہے البتہ وہ جذباتی طور پر یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ طاقت کے ذریعے اس کو نیست و نابود کر دیا جائے۔
ساری دنیا خواہ کچھ ہی کہے، سچ پوچھئے تو آج بھی عربوں کے لیے در اصل اسرائیل ہی فلسطین ہے۔ جو ان کی دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور صدیوں سے محبت اور امن کی یہ سرزمین، مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر ایک مذہبی مسکن ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ فلسطین پر صہیونیوں کی گرفت غیر فطری ہے۔ آخر کب تک ایک “شائی لاک” “انطونیو” (ولیم شیکسپیئر کا ڈراما “وینس کا سوداگر” کے دو اہم کردار) کو اپنی گرفت میں رکھ سکتا ہے؟
قرآن اور سیاست؛ یوم القدس کے قرآنی اصول اور نظریہ مزاحمت
بقلم ڈاکٹر محسن محمدی
قرآن کریم انسان کے لیے ایسی کتاب ہدایت ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق گفتگو کی ہے اور اس کے لیے ہدایت کے راستے کھولے ہیں۔ ان گوشوں میں سے ایک انسان کی سماجی اور سیاسی زندگی ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نے کچھ خاص اصول و قوانین پیش کئے ہیں اور ان اصول و قوانین کو توحیدی نظام پر قائم کیا ہے۔ قرآن کریم نے سیاسی و سماجی زندگی کے لیے جو نظام ہدایت پیش کیا ہے اس کا ایک اہم حصہ دشمن شناسی اور دشمنی کے مقابلے میں مزاحمتی آئیڈیالوجی کا انتخاب ہے۔
ایران کا اسلامی انقلاب، اسلام کے کچھ خاص اصولوں پر قائم ہے جن کی بنا پر وہ دین کو انسان کی انفرادی زندگی میں منحصر نہیں کرتا بلکہ سیاست اور معاشرے کو دینی دستورات کے لازم الاجراء ہونے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت دیتا ہے۔ اسلامی انقلاب ایسے حالات میں کامیابی سے ہمکنار ہوا کہ دین بطور کلی سیاسی میدان سے حذف ہو چکا تھا اور اسے انسانی حیات کی خلوتوں اور گوشہ نشینیوں سے مخصوص کر دیا گیا تھا۔ سیاسی نظریات اور سماجی نظام میں اس کا کوئی مقام اور اثر نظر نہیں آتا تھا۔ ان حالات و شرائط میں اسلامی انقلاب دینی قیادت کے ذریعے اور دینی افکار و اصولوں کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور اپنی کامیابی کے ساتھ عالم سیاست و سماجیت کے اہل نظر افراد کو انگشت بہ دنداں کر دیا تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر اپنے افکار اور نظریات میں تجدید نظر کریں۔
اسلامی انقلاب کا ایک اہم ترین نتیجہ اور ماحاصل مزاحمت کے نظریہ کی ترویج ہے جو مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ اسلامی دشمنوں کے مقابلے میں استقامت کے لیے یکجہتی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس نظریہ کا سب سے بڑا ماحصل اسلامی انقلاب کا صہیونی مخالف موقف ہے کہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلامی مزاحمتی گروہوں کی حمایت اور صہیونی رژیم کی مخالفت کی طرف حرکت دیتا ہے۔
صہیونیت سے مقابلے کا نظریہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی رہبران انقلاب کی جانب سے وجود میں آیا۔ امام خمینی نے ۱۹۶۳ میں ایران کی شہنشاہی حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران ہی اسرائیل کے خلاف مجاہدت کا بھی آغاز کر لیا تھا۔ اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ امام خمینی نے فرمایا کہ “اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیے”۔ نیز امام خمینی نے ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کا نام دے کر اس فکر کو پورے عالم اسلام میں پھیلا دیا اور یہ دن “عالمی یوم القدس” کے نام سے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے اور پوری دنیا کے لوگ مسلمان اور غیر مسلمان اس دن سڑکوں پر نکل کر فلسطین کی حمایت میں نعرے لگاتے ہیں۔
امام خمینی کے اس اقدام نے در حقیقت عالم اسلام کو یہ باور کروا دیا کہ صہیونی ریاست کے ساتھ مقابلہ عالم اسلام کا پہلا مسئلہ ہے اور اس میں کسی مذہب، فرقے، زبان یا علاقے کی کوئی قید نہیں ہے۔ بعد ازآں یہ پالیسی اور یہ موقف انقلاب اسلامی کے تمام رہبروں اور رہنماوں کا شعار رہا ہے۔
یہاں پر جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ نظریہ اور آئیڈیالوجی انقلاب اسلامی کی فکر ہے یا اس کے پیچھے دینی اور قرآنی اصول بھی حاکمفرما ہیں۔
یہ سوال اس اعتبار سے اہم ہے کہ اسلامی انقلاب مذہبی اور قومی اقلیت کے اندر پایا جاتا ہے اور اس کے افکار کی عالم اسلام میں نشر و اشاعت کی راہ میں یہ رکاوٹ پائی جاتی ہے کہ یہ افکار ایرانی انقلاب کی تخلیق ہیں اور عالم اسلام کو ان افکار کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین اور مزاحمتی تحریک بھی انہی مسائل اور افکار کا حصہ ہیں خاص طور پر جب عالم اسلام کے بعض افراد مسئلہ فلسطین کو ایک عربی مسئلہ اور اہل سنت سے متعلق گردانتے ہیں نہ کہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ۔
انقلاب اور رہبران انقلاب کے افکار کے اصولوں پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ مقابلے میں مسئلہ فلسطین اور مزاحمتی تحریک قرانی اصول میں سے ایک اصل ہے اور واضح ہے کہ قرآن کریم تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک ایک مشترکہ کتاب ہے کسی ایک قوم و قبیلہ سے مخصوص نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم بنی اسرائیل اور صہیونیت کی قرآن کریم جو مسلمانوں کو بیداری، مجاہدت اور مقاومت کی دعوت دیتا ہے کی نگاہ سے تصویر کشی کرنا چاہیں اس وقت مزاحمتی تحریک کا نظریہ اسلامی انقلاب کی آئیڈیالوجی نہیں بلکہ مکمل طور پر ایک قرانی نظریہ ثابت ہو گا کہ تمام مسلمان اس میں مشترک اور سہیم ہیں۔
خداوند عالم قرآن کریم میں انبیائے الہی کی تاریخ اور ان کا اپنی قوموں کے ساتھ برتاؤ بیان کرتا ہے یہاں تک کہ بہت سارے سوروں کے نام ہی انبیاء کے ناموں پر رکھے گئے ہیں جیسے یونس، ہود، یوسف، ابراہیم ، لقمان، محمد، نوح، اور ایک سورہ خود انبیاء کے نام سے ہے۔ لیکن قرآن کریم کی زیادہ تر توجہ بنی اسرائیل کی تاریخ پر ہے اور قرآن کریم کا کوئی سورہ “موسی” کے نام سے ہوتا تو قرآن کا سب سے بڑا سورہ ہوتا اس لیے اس قدر اللہ نے جناب موسی اور بنی اسرائیل کے قصے کا قران کریم میں تذکرہ کیا ہے۔
قرآن کریم دین اسلام کی مقدس اور آخری نبی پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب ہے۔ واضح ہے کہ اس میں اسلامی تعلیمات یعنی عقائد، احکام اور اخلاق کو بیان کیا جانا چاہیے تھا نہ کہ تاریخ بنی اسرائیل کو، تو یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اسلام کی آسمانی کتاب اس حد تک بنی اسرائیل کا تذکرہ کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ بنی اسرائیل کی قرآن میں مجموعی تصویر منفی ہے اور خداوند عالم انہیں ان الفاظ سے یاد کرتا ہے؛ ناشکری قوم، نافرمان قوم، بہانہ جو، پیغمبروں کی قاتل کہ جو خداوند عالم اور اس کی نمائندوں کی ناراضگی کا سبب بنی ہے۔ قرآن کریم میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا تذکرہ در حقیقت اس عنوان سے ہے کہ “ادب کس سے سیکھا؟ بے ادبوں سے”، تاکہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں اور ان کے راستے پر نہ چلیں تاکہ خداوند عالم کے غیض و غضب میں گرفتار نہ ہوں۔
۲۔ بنی اسرائیل جو انبیاء کے قاتل معروف ہیں اور انہوں نے جناب صالح اور حضرت عیسی جیسے بزرگ انبیاء کو قتل کیا یا قتل کرنے کی کوشش کی اور آخری پیغمبر کے قتل کے منصوبے بھی بنائے اور ان کے دین کو مٹانے کے لیے کوئی لمحہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ قرآن کریم بنی اسرائیل کا تذکرہ اس لیے کرتا ہے تاکہ مسلمان اپنے دشمنوں کو اچھے سے پہچانیں، اور ان کے مقابلے کے لیے بہترین تدبیریں تلاش کر سکیں اس لیے قرآن نے یہود کی دشمنی کو سخترین اور بدترین دشمنی قرار دیا ہے۔ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ …(مائدہ ۸۲)(آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں) اور بنی اسرائیل جو کرہ زمین پر فساد کا مرکز ہیں کے ساتھ جہاد کو مومنین کے لیے باعث فخر قرار دیا ہے:
وَقَضَینا إِلی بَنِی إِسْرائِیلَ فِی الْکتابِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْأَرضِ مَرَّتَینِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کبِیراً فَإِذا جاءَ وَعْدُ أُولاهُما بَعَثْنا عَلَیکمْ عِباداً لَنا أُولِی بَأْسٍ شَدِیدٍ فَجاسُوا خِلالَ الدِّیارِ وَکانَ وَعْداً مَفْعُولاً (اسرا ۴، ۵)
(اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ اطلاع دے دی تھی کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور خوب بلندی حاصل کرو گے، اس کے بعد جب پہلے وعدے کا وقت آگیا تو ہم نے تمہارے اوپر اپنے بندوں کو مسلط کر دیا جو بہت سخت قسم کے جنگجو تھے اور انہوں نے تمہارے دیار میں چن چن کر تمہیں مارا اور یہ ہمارا ہونے والا وعدہ تھا۔)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں ان آیات کا واضح مصداق کون اور کہاں ہے؟ اگر ہم اپنے اطراف و اکناف میں معمولی غور و فکر کے ساتھ بھی نظر ڈالیں گے تو ہمیں عالمی صہیونیت اور قدس کی غاصب رژیم قرآن کریم کی ان آیات کی واضح مصداق دکھائی دے گی۔ لہذا ایسے موقع پر مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انتہائی ہوشیاری کےساتھ اس رژیم کا مقابلہ کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اس کا مقابلہ قرآنی زاویہ نگاہ سے جہاد فی سبیل اللہ کا مصداق ہے۔
اب یہ واضح ہوا کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو امام خمینی (رہ) نے کیوں یوم قدس کا نام دیا تاکہ ماہ مبارک جو اللہ کی عبادت اور بندگی کا سب سے بڑا مہینہ ہے اس مہینے میں راہ خدا میں جہاد کرنا اور دشمن کے سامنے اپنی طاقت کا لوہا منوانا اور سڑکوں پر نکل کر روزے کی زبان سے اسرائیل مردہ باد اور امریکہ مردہ باد کے نعرے لگا کر دشمن کی نابودی کی دعا کرنا اور یہ ثابت کرنا کہ ہم تیرے ظلم کے آگے دبنے والی قوم نہیں ہیں بلکہ اپنے خون کے آخری قطرے تک قبلہ اول کی نجات کے لیے لڑنے کو تیار ہیں، اس مہینے کے عظیم مناسک اور اعمال کا حصہ ہیں۔
ایرانی قوم کا قطعی آپشن استقامت اور پائداری/ جنگ نہیں ہوگی/ مذاکرات زہر ہیں
اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی حکام اور اہلکاروں نے رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں حکام کی تقوی اور پرہیزگاری، عوامی امور پر توجہ اور بیت المال میں رعایت کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہویرہ ایران کے تینوں قوا کو اقتصادی مشکلات حل کرنے اور پیداوار کی رونق کے سلسلے میں سنجیدہ اقدامات پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کے حالیہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایرانی عوام اور اسلامی نظام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی مذموم کوشش کررہا ہے ایرانی حکام کو امریکہ کے شوم اور گھناؤنی منصوبوں پر حاص توجہ رکھنی چاہیے اور اس کے مکر و فریب میں نہیں آنا چاہیے امریکہ کی موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات زہر ہیں ۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کے مقابلے میں ایرانی قوم کے قطعی آپشن استقامت اور پائداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جنگ نہیں ہوگی ، امریکہ کے ساتھ مذاکرات زہر ہیں جنگ کی صورت میں امریکہ کو پسپائی اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑےگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے خلاف امریکی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن کے مد مقابل ہمارے پاس دو آپشن ہیں یا ہم استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کریں یا دشمن کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کریں۔ تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جب بھی ہم نے دشمن کے مد مقابل استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالی نے ہمیں فتح عطا کی ہے لہذا دشمن کے مقابلے میں ایرانی قوم کی استقامت اور پائداری کا سلسلہ جاری رہےگا اور فتح ایرانی قوم کے قدم چومے گی۔
ایرانی عوام کی غیر معمولی پیشرفت قرآن کریم پر عمل اور استقامت کا نتیجہ: رہبر انقلاب اسلامی
پیر کی شام رمضان المبارک کی آمد کی مناسبت سے حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں قرآن کریم سے انس کی محفل کا آغاز ہوا جس میں قاریان قرآن کریم اور قرآنی دعائیں نیز مناجات پڑھنے والوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس محفل سے خطاب میں قرآن کریم کی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل کو دور حاضر میں بشریت اور اسلامی معاشروں کی بنیادی ترین ضرورت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم سامراج، کفر اور طاغوتوں کے مقابلے میں استقامت پر تاکید کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ گذشتہ چالیس سال کے دوران ایرانی عوام کی روز افزوں عزت اور غیر معمولی پیشرفت قرآن کریم پر عمل اور استقامت کا نتیجہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ شیطانوں اور کفار پر غلبہ حاصل کرنے کا واحد راستہ استقامت ہے۔ آپ نے فرمایاکہ قرآنی تعلیمات سے دوری اور اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہی آج اسلامی دنیا مشکلات سے دوچار ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ آج بعض ملکوں کے صدور اور حکمراں اقوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کر رہے ہیں، یہ وہی ہیں جن سے مقابلے کا قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے اور تاکید کی ہے کہ ان پر اعتماد نہ کرو۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چند سال قبل بعض ملکوں میں آنے والی اسلامی بیداری کی تحریکوں اور عوامی انقلابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تحریکیں اور انقلابات، ان کی قدر نہ کئے جانے اور امریکا و اسرائیل پر اعتماد کی وجہ سے ناکام ہو گئے لیکن ایرانی عوام نے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برکت سے کہ جن کی تحریک قرآنی تعلیمات پر استوار تھی، اس تحریک اور انقلاب کی قدر کی اور شروع دن سے ہی نہ صرف یہ کہ سامراجی طاقتوں پر اعتماد نہیں کیا بلکہ ان کے مقابلے میں استقامت سے کام لیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں قرآن کریم کو ایک بے نظیر فن پارہ قرار دیا اور فرمایا کہ قرآن سے لگاؤ معاشرے کے استحکام کا باعث بنتا ہے اور دنیاوی مسائل کے حل کے ساتھ آخرت کے لئے بھی باعث سعادت ہے- آپ نے فرمایا کہ قران کریم کو سمجھنے سے انواع و اقسام کے علوم و معارف کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آپ نے تاکید فرمائی کی تلاوت قران کی محفلوں کے ساتھ ہی قرآن کی تفسیر اور اس کے معانی و مفاہیم کے بیان کی محفلیں بھی منعقد کی جائیں تاکہ معاشرے میں قرآنی اور دینی تعلیمات کی سطح میں اضافہ ہو۔
امام خميني (رہ) كي نگاہ ميں اتحاد
اسلامي فرقوں كے درميان سياسي اختلافات كي وجہ سے زيادہ گہرے ہوجانے والے نظرياتي اور عقائدي اختلافات كو مدنظر ركهتے ہوئے اتحاد كي راہ ميں دو طرح كے اقدام كئے گئے: بعض افراد نے تقريب مذاہب كا بيڑا اپنے سر اٹها ليا جس ميں شيعہ حوزہ ہائے علميہ اور الازهريونيورسٹي نے اپني علمي حيثيت و منزلت كے مطابق اتحاد كي راہ ميں قدم آگے بڑهائے۔ دوسرے بعض افراد نے بهي مذہبي اختلافات كے سلسلہ ميں گفتگو سے پرہيز كركے سياسي اتحاد برقرار كرنے كي كوشش كي اور مسلمانوں كي بےنظير طاقت كو مدنظر قرار ديا۔ • اتحاد؛ كاميابي كا ضامنجن اسلامي دانشوروں نے معاشرے ميں اتحاد كے سلسلہ ميں گفتگو كي ہے ان ميں سے آيت اللہ بروجردي جيسي كاميابي كم ہي افراد كو ملي۔ افسوس كہ دونوں مذاہب ميں متعصب اور تفرقہ پسند افراد نيز مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كے لئے استعماري سازشوں كي وجہ سے بہت سي جگہوں پر اتحاد كے سلسلہ ميں كي جانے والي كوششيں ناكامياب رہيں۔ مسئلہ اتحاد بين المسلمين كا تعلق صرف اسلامي جمہوريہ كے قيام سے نہيں ہے بلكہ امام خميني(رہ) نے اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے اس كي جانب متوجہ كيا تها: ’’ہميں كاميابي كي اس كليد يعني اتحاد كلمہ اور قرآن مجيد پر اعتماد كي حفاظت كرني چاہئے اورہم سب لوگ شانہ بہ شانہ ہو كر قدم آگے بڑهائيں اور ايران ميں اسلامي جمہوريہ قائم كريں" آپ نے اسلامي انقلاب كي كاميابي كے بعد بهي اس اہم مسئلہ كي جانب اشارہ فرمايا اور كہا:"اگر ہم اتحاد كلمہ اور اسلامي زندگي كي اس خصوصيت كہ جسميں تمام چيزِيں شامل ہيں، كا خيال ركهيں تو ہم آخر تك كامياب رہيں گے اور اگر خدانخواستہ وہ اس ميں خلل ڈاليں يا ہم سستي كا مظاہرہ كريں اور انكا مقابلہ نہ كريں يا اپنے طور پر يہ سوچ كر بيٹهے رہيں كہ ہم كامياب ہيں اور اس طرح سست ہوجائيں تو مجهے اس بات كا ڈر ہے كہ كہيں وہ انہي مسائل كو دوسرے نتائج كے ساته ہمارے سامنے نہ لے آئيں۔ اگر ہم استقامت كا مظاہرہ كريں اور اپنے پاس موجود افراد وطن كي صورت ميں موجود اس طاقت كي حفاظت كريں ، اتحاد كلمہ كي حفاظت كريں تو ہم سب كامياب رہيں گے"۔ امام خميني (رہ) اتحاد بين المسلمين كو اسلامي نظام كي علت وجود اور علت بقاء جانتے ہيں اور اسي عنصر كو مسلمانوں كي بقاء كا ضامن سمجهتے ہيں:"اگر مسلمان اس عزت و عظمت كو دوبارہ حاصل كرليں جو انہيں صدراسلام ميں حاصل تهي ، اسلام اور اتحاد كو مدنظر قرار ديں ، وہ اسلام كے سلسلہ ميں ہونے والا اتفاق نظر ہي تها كہ جسكي وجہ سے وہ غيرمعمولي طاقت و شجاعت كے مالك بن گئے تهے"۔ • اتحاد ايك شرعي فريضہامام (رہ) كے فرض شناس نظريہ كے مطابق سياسي اقدام بنيادي طور پر شرعي ذمہ داري ہے۔ اسي وجہ سے بہت سے سياسي مسائل ميں شركت مثلاً انتخابات ميں شركت يا مظاہروں اور اجلاس كے ذريعہ نظام كي حمايت جو سياسي دانشوروں كي نگاہ ميں لوگوں كے "حقوق" ميں سے ہيں، امام(رہ) كے نظريہ كے مطابق عوام كا فريضہ بهي ہے۔ آپ اتحاد پر توجہ نہ كرنے اور اسے ترك كرنے كو "گناہ كبيرہ" اور "عظيم جرم" شمار كرتے ہيں:"اگر كبهي ايسا اتفاق پيش آئے تو وہ بهي جرم ہے۔ آج اتحاد كو كمزور كرنا بہت بڑا جرم ہے"۔ يہي مسئلہ اس بات كا باعث بنا كہ امام اتحاد كي حفاظت اور اختلاف سے پرہيز كي خاطر (رہ) بہت سے مسائل يا امور كے سلسلہ ميں سكوت اختيار فرمائيں جو آپكے نظريہ كے موافق نہيں تهے ليكن عہديداران حكومت اور ذمہ دار افراد اس پر متفق تهے بلكہ آپ نے ايسے مواقع پر اتحاد كي فضا كو مزيد مستحكم كيا۔ آپ فرماتے ہيں:"ہم اپني خواہشات نفساني سے مكمل طور پر پرہيز نہيں كرسكتے ہيں ، ہمارے پاس ايسي طاقت نہيں ہے، ليكن اتني طاقت تو ہے كہ اسكا اظہار نہ كريں۔ ہم بات پر قادر نہيں ہيں كہ اگر كسي كے واقعاً مخالف ہيں تو دل ميں بهي مخالفت نہ ركهيں ليكن اس بات پر قادر ہيں كہ ميدان عمل ميں اسكا اظہار نہ كريں"۔ امام خميني(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد كي حدودامام(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد بہت وسيع حدود پر مشتمل ہے جس ميں داخلي قوتوں اور امت مسلمہ كا اتحاد شامل ہے۔ اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے داخلي عناصر كے سلسلہ ميں امام (رہ) كي نگاہ ميں سب سے اہم چيز ملك كے ديني اور ثقافتي عناصر كا آپسي اتحاد تها۔ آپ نے خداداد ذكاوت و ذہانت كي بنياد پر اس بات كي كوشش كي كہ داخلي گروہوں اور طاقتوں كے درميان اتحاد برقرار كريں كہ جنميں سے بعض كي جانب اشارہ كيا جارہا ہے:• مدرسہ اور يونيورسٹي كا اتحادامام(رہ) كي شخصيت ايسي تهي كہ آپ كو مدرسہ اور يونيورسٹي كي زيادہ تر شخصيات مانتي تهيں اسي وجہ سے آپ ہميشہ ان دونوں طبقوں كے درميان اختلاف كے خطرہ كے سلسلہ ميں متوجہ كرتے تهے۔آپ فرماتے ہيں:"ہم نے متعدد سال كي زحمتوں كے بعد يونيورسٹيز كو علماء، ديني مدارس اور طلاب ديني سے نزديك كيا ہے۔ ان مختلف طبقوں كو ايك دوسرے كے نزديك كيا ہے اور ہميشہ اس بات كي تاكيد كي ہے كہ اپنے درميان اتحاد كلمہ برقرار ركهئے تاكہ آپ خدمات انجام دے سكيں"۔اسكے بعد آپ مدرسہ اور يونيورسٹي كي مہارت كے سلسلہ ميں اشارہ فرماتے ہيں اور بعض افراد كو اسلامي مسائل كا ماہر اور بعض كو ملكي امور اور سياسي مسائل كا ماہر بتاتے ہيں نيز اسي وجہ سے دونوں كو مستقبل كي كاميابي كے لئے ضروري جانتے ہيں۔ آپ انقلاب اسلامي كے سلسلہ ميں اپني ايك تجزياتي گفتگو كے درميان فرماتے ہيں:"اگر اس تحريك كا نتيجہ صرف علماء اور روشن خيال افراد كا اتحاد ہو تب بهي مناسب ہے" آپكے مطابق مدرسہ اور يونيورسٹي كو اپني صلاحتيوں كے مطابق ايك دوسري كي تكميل كرني چاہئے اور انقلاب و نظام كے آخري ہدف كي راہ ميں قدم بڑهانا چاہئے۔ اسي وجہ سے آپ فرماتے ہيں:"ہم سب اس حقيقت سے واقف ہيں كہ يہ دو مركز درحقيقت ايك شجرہ طيبہ كي دو شاخيں ہيں اور ايك جسم كے دو ہاته ہيں كہ اگر يہ اصلاح كي كوشش كريں ،اپنے معنوي عہد و پيمان كي حفاظت كريں ، ايك دوسرے كے شانہ بہ شانہ خدمت خدا اور خلق خدا كے لئے قيام كريں تو قوم كو مادي اور معنوي دونوں اعتبار سے كمال كي منزلوں تك پہنچاديں گے اور ملك كي آزادي اور اسكے استقلال كي حفاظت كريں گے"۔ انقلاب كي كاميابي كے بعد داخلي عناصر ميں اختلافات كے حالات زيادہ فراہم ہوگئے اسي طرح جنگ كے دوران مليٹري، سپاہ اور كميٹي كے درميان اختلاف بهي بہت اہم تها۔ امام(رہ) ہميشہ عسكري طاقتوں كے اتحاد اور انكے "يدواحدہ" ہونے پر تاكيد كرتے تهے اور انكے اختلاف كو جنگ ميں شكست كے مترادف سمجهتے تهے۔ دوسري جانب اسلامي ملك ميں موجود مختلف قوميتوں اور لہجوں نے بهي قومي اور مذہبي اختلافات كي راہ ہموار كردي تهي۔ كردستان، سيستان، تركمن صحرا وغيرہ كا بحران؛ ان سب كا تعلق امت مسلمہ كو منتشر كرنے اور اسكے درميان مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كي خاطر تها۔ امام خميني(رہ) نے اپني گفتگو كا ايك محور ان گروہوں ميں اتحاد اور ساري ايراني عوام كے مسلمان ہونے پر تاكيدكو قرار ديا۔ انقلاب كي كاميابي كے بعد حكومت اور عوام كا اتحاد، حكومت كے مختلف شعبوں كے درميان اتحاد، سياسي پارٹيوں كےدرميان اتحاد اور انہيں اسلام كے محورپر متحد كرنے كے سلسلہ ميں امام (رہ) نے خاص توجہ دي۔ بيروني معاملات ميں بهي مسلمانوں اور مستضعفوں كے درميان اتحاد آپكي ديرينہ آرزو تهي جسكے متعلق آپنے انقلاب سے پہلے اور اسكے بعد بہت زيادہ تاكيد فرمائي۔ اسرائيل كے مقابلہ ميں اتحادبين المسلمينامام خميني(رہ) كے بيانات اور تحريروں كے درميان بہت سے ايسے موضوعات ملاحظہ كئے جاسكتے ہيں جنكے ذيل ميں آپ نے اسرائيل سے مقابلہ كرنے كے لئے مسلمانوں كے متحد ہونے كي تاكيد كي ہے اور مظلوم فلسطيني عوام پر اس غاصب حكومت كے مظالم بيان كئے ہيں ۔ قابل توجہ بات يہ ہے كہ آپ ان بيانات كا تعلق انقلاب اسلامي كي كاميابي كے صرف بعد كے دور سے نہيں ہے بلكہ اس سے پہلے بهي آپ ان مسائل كي جانب افراد كو متوجہ كرتے رہتےتهے۔ آج مظلوم فلسطيني قوم پر صہيونيوں كے مظالم اور اسلامي ممالك كي مجرمانہ خاموشي كو مدنظر ركهتے ہوئے آپ كے ان اقدامات كي اہميت دوچنداں ہوجاتي ہے۔ ايك ايسا وقت تها جب صہيوني گماشتے ايران ميں حكمراني كررہے تهے اور انتہائي مخفيانہ طور پر كام كرنے والي جاسوسي تنظيم "ساواك" صہيوني ماہروں كے زير تعليم و نگراني كام كررہي تهي۔ ايران ميں انكانفوذ بے مثال تها۔ اگرچہ آپ عراق ميں جلاوطني كي زندگي گزار رہے تهے ليكن وہاں سے آپ نے بہ كمال شجاعت يہ پيغام ديا: "غيروں كا نشانہ قرآن اور علماء ہيں ․․․ ہم امريكا اور فلسطين كے يہوديوں كي خاطر ذلت برداشت كريں! قيد و بند كي صعوبتيں تحمل كريں اور سزائے موت كا سامنا كريں اور اس طرح غيروں كے مفادات كي قرباني بنتے رہيں!" ميں اپني شرعي ذمہ داري ادا كرتے ہوئے ايراني عوام اور مسلمانان عالم كو متوجہ كرتا ہوں كہ قرآن اور اسلام خطرے ميں ہے، ملك كا استقلال اور اسكا اقتصاد صہيونيوں كے قبضہ ميں ہے"۔ آپ صہيونيوں كے جرائم طشت از بام كرنے كي توجہ سے جيل جاتے ہيں، جلاوطن ہوتے ہيں ليكن آپ اس سلسلہ ميں كوئي كوتاہي نہيں كرتے ہيں۔ ايك دوسري جگہ آپ فرماتے ہيں:"ميں تقريباً بيس سال عالمي صہيونيت كے خطرات كي جانب متوجہ كررہا ہوں اور ميں آج بهي دنيا كے تمام آزادي طلب انقلابوں اور ايران كے انقلاب اسلامي كے لئے اسكے خطرہ كو پہلے سے كم نہيں سمجهتا ہوں۔ دنيا كو نگلنے كا ارادہ كرنے والي ان جونكوں نے مختلف حربے اپنا كر مستضعفين عالم كے خلاف اقدام اور قيام كيا ہے۔ دنيا كي آزاد قوموں كو ان خطرناك سازشوں كے مقابلہ ميں شجاعت و دليري كے ساته كهڑے ہوجانا چاہئے"۔ دوسري جانب فلسطين كي مظلوم عوام كي حمايت ميں مسلمانوں كو بيدار كرنے كے لئے روز قدس (ماہ مبارك رمضان كا آخري جمعہ) كا اعلان آپ كے اہم كارناموں ميں ہے۔ اقسام اتحادمجموعي طور پر امت مسلمہ كے تين طرح كے اتحاد كا تصور كيا جاسكتا ہے: اتحاد مطلقاتحاد مطلق سے مراد ہے عقايد ، احكام اور اسلامي تعليمات كے تمام اصول و فروع ميں متفقہونا۔ خصوصيات اور كفيات ميں آزادي فكر و نظر نيز اسلام كے بنيادي اصولوں ميں استدلال كي اہميت كو مدنظر ركهتے ہوئے يہ اتحاد ناممكن ہے۔ بالخصوص مختلف سليقوں اور طرز فكر كے باعث دانشوروں ميں اختلاف نظر، اسلامي مآخذ كے سلسلہ ميں معلومات كي كمي و زيادتي اور استدلال و مسائل كو سمجهنے ميں موثر ذہانت و ذكات كے اختلاف كو مدنظر ركهتے ہوئےيہ اتحاد غيرعملي ہے۔ مصلحتي اور وقتي اتحادوقتي اتحاد ديني تعليمات سے قطع نظر بيروني عوامل كي وجہ سے وجود ميں آتا ہے۔ كبهي كبهي ايسا ہوتا ہے كہ ان عناصر سے اسلامي سماج كو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ عام طور پر سنگين حالات ميں فرقہ وارانہ اختلافات بالائے طاق ركه دئے جاتے ہيں اور لوگوں ميں ايك قسم كا اتحاد پيدا ہوجاتا ہے۔ چونكہ اس طرح كا اتحاد بيروني عوامل سے موثر ہوتا ہے اور ديني تعليمات سے اسكا تعلق-