Super User

Super User

المنار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کی معطلی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ کی معطلی  در حقیقت غاصب صہیونی حکومت کے خلاف فلسطینیوں کا بہترین ہتھیار ہے اور فلسطینیوں کو اس ہتھیار سے  بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔

سید حسن نصر اللہ نے جہاد سازندگی ادارے کی اکتیسویں سالگرہ کے موقع پر عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے نے لبنانی عوام کی بہترین خدمات انجام دی ہیں اور ہم اس کی سالگرہ کے موقع پر اس ادارے کے بانیوں اور خدمت گزاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ  لبنان پر حزب اللہ کی حکمرانی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حزب اللہ لبنان کی مختلف سیاسی جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے جس کی اصلی ذمہ داری لبنانی فوج ، عوام اور لبنانی حکومت کے ہمراہ لبنانی سرزمین کی اسرائیلی حملوں کے مقابلے میں حفاظت کرنا اور اسرائیلی جارحیت کو روکنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر حزب اللہ کو کسی سے کوئی مشکل درپیش ہو تو حزب اللہ کی طرف سے اس کا باقاعدہ اور براہ راست اعلان کیا جاتا ہے ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے ہم کسی کے پیچھے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ اور ہم مسائل اور مشکلات کو باہمی تعاون سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ ہم فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کو معطل کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ  جس چير سے اسرائیل کو سخت پریشانی لاحق ہے وہ سکیورٹی تعاون کا معاہدہ ہے اور فلسطینیوں کے پاس سکیورٹی معاہدہ بہترین ہتھیار ہے اور انھیں اس ہتھیار سے اسرائیل کے خلاف بھر پور استفادہ کرنا چاہیے اور اسرائیل کو فلسطینیوں کے گھر تباہ کرنے کی مزید اجازت نہیں دینی چاہیے ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ وعدہ الہی کے مطابق فلسطین کا مسئلہ فلسطینی عوام اور عالم اسلام کے حق میں حل ہوکے رہے گا۔

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے اعلی سطحی وفد نے تنظیم کے نائب سربراہ صالح العاروری کی قیادت میں پیر کی صبح رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حماس کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ بدستور عالم اسلام کا اولین مسئلہ ہے اور حماس، فلسطینی جدوجہد کا قلب ہے بالکل اسی طرح جیسے فلسطین عالم اسلام کے دل کی دھڑکن بن گیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ مزاحمت اور جدوجہد کے بغیر کامیابی کا حصول ممکن نہیں اور اللہ کے تبدیل نہ ہونے والے وعدے کے مطابق فلسطین کا مسئلہ یقینا فلسطینی عوام اور عالم اسلام کے حق میں حل ہو گا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے غزہ اور غرب اردن کے عوام کی استقامت اور مزاحمت کو فتح و کامرانی کی بشارت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دنیا کے کسی ملک کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتے گا کیونکہ فلسطین کی حمایت ہمارے عقیدے اور مذہب کا مسئلہ ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکہ کی پیروی کرنے والے سعودی عرب جیسے بعض ملکوں کا مسئلہ فلسطین کو چھوڑ دینا ایک حماقت ہے کیونکہ اگر وہ فلسطین کی حمایت جاری رکھتے تو امریکہ سے زیادہ سے زیادہ امتیاز حاصل کر سکتے تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سینچری ڈیل منصوبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس خطرناک سازش کا مقصد فسطینی قوم اور نوجوانوں میں فلسطین کے تشخص کو نابود کرنا ہے لہذا اس بات کی اجازت نہ دی جائے کے وہ پیسے کے ذریعے فلسطینی تشخص کو ختم کر دیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ چند برس پہلے تک فلسطینی، پتھروں سے جدوجہد کر رہے تھے لیکن آج پتھر کے بجائے گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ہیں جو اہم پیشرفت ہے۔
حماس کے نائب سربراہ صالح العاروری نے اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فلسطینی عوام کی بے دریغ حمایت کی قدر دانی کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف کسی بھی قسم کا مخاصمانہ اقدام در اصل فلسطین اور تحریک مزاحمت پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

تجزیہ عبد الباری عطوان

’’ رای الیوم‘‘ اخبار کے ادارتی حصہ میں مدیر کی بات کے ذیل میں فلسطین کے معروف و ممتاز صحافی عبد الباری عطوان نے اپنے کالم ’’ کیوں بنجامن نیتن یاہو نے اپنی عادت کے برخلاف حسن نصر اللہ کی تقریر کے بارے میں فوری رد عمل کا اظہار کیا ‘‘ میں یہ سوال کیا ہے کہ واضح طور پر حسن نصر اللہ کی تقریر میں آخر وہ کونسی معینہ چیز تھی جس نے اسرائیلیوں کی نیندیں اڑا دیں ہیں ؟

اس کالم میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: تقریبا چالیس سال سے زائد عرصے قبل مصر کے مرحوم صدر جمہوریہ جمال عبد الناصر کے انتقال کے بعد عرب کے لوگوں کا طرز یہ رہا کہ وہ کبھی بھی کسی عرب لیڈر اور رہنما کی تقریر سننے کے لئے ٹیلیویژن کے سامنے نہیں بیٹھے عربوں کا یہ شیوہ قاعدہ رہا کہ انہوں نے کسی بھی عرب رہنما کی تقریر کو ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر سننے کی زحمت نہ کی یہاں تک کہ انکا یہ معمول و قاعدہ لبنان میں اسلامی مزاحمت اور حزب اللہ کے قائد و رہبر سید حسن نصر اللہ کی ذات پر آ کر ٹوٹ گیا اور یہ لوگ مجبور ہو گئے اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر یہ سنیں کہ قائد حریت کیا کہہ رہا ہے ؟

قائد مزاحمت اسلامی سید حسن نصر اللہ کی تقریر کو سننے کا محض سبب یہ نہیں ہے کہ سید حسن نصر اللہ ایک ممتاز و مایہ ناز خطیب ہیں اور انکے سلسلہ وار خطابات و انکی تقاریر میں حقیقت پر مبتنی بے لاگ اور دقیقی تجزییے پیش کئے جاتے ہیں بلکہ سید حسن نصر اللہ کی تقاریر کا استقبال اس لئے ہوتا ہے کہ ان میں وزن و اعتبار پایا جاتا ہے اور بلا کی جرات کے ساتھ وہ خطاب کرتے ہیں ، انکی تقاریر و خطابات کا محور و مرکز اسلامی دنیا کے بنیادی مسائل ہوتے ہیں یا پھر یوں کہا جائے کہ مقبوضہ فلسطین کی اراضی کی آزادی ، امریکہ و استعمار کی جانب سے اختلافات کو بھڑکانے اور تقسیم کے منصوبوں سے مقابلہ کرنے کی راہوں جیسے مطالب سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنی تقاریر کی ترتیب و تنظیم کرتے ہیں۔

یہی وہ چیزیں ہیں جنکے سبب پورے خطہ عرب میں ان کی تقاریر کی گھن گرج سنائی دیتی ہے ، اور سید حسن نصر اللہ کی حالیہ المنار ٹیلی ویژن سے جمعہ کی رات نشر ہونے والی گفتگو بھی انہیں اسباب کے پیش نظر لاکھوں لوگوں کی توجہات کا مرکز رہی اور اس تقریر کو جہاں سید حسن نصر اللہ کے حامیوں نے توجہ کے ساتھ سنا وہیں انکے مخالفوں، حتی اسرائیلیوں اور صہیونی حکومت کے سیاسی و عسکری عہدے داروں نے بھی کان لگا کر سنا، اور اس طرح سنا کہ اسرائیل سیکورٹی و اسکی سالمیت کی نظارت و دیکھ ریکھ کرنے والی سروسز نے جرائد و اخبارات حتی اپنے ٹی وی چینلز سے سید نصر اللہ کی گفتگو کے بارے میں کسی بھی طرح کا تجزیہ کرنے پر پابندی لگا دی اور انہیں اس بات سے روک دیا کہ حسن نصر اللہ کی تقریر کے سلسلہ سے اظہار خیال کریں، اور اس بات کا سبب یہ تھا کہ اگر سید حسن نصر اللہ کی گفتگو کا تجزیہ فوجی ماہرین یا سابقہ فوجی جنرلوں کے ذریعہ پیش کیا جاتا تو مقبوضہ فلسطین کے شمال میں موجودہ دور ترین علاقوں سےجنوب کے دور ترین علاقوں تک عوام کے درمیان ایک تشویش کی لہر پھیل جاتی اور ہر طرف ایک اضطرابی کیفیت سامنے آتی جسکے چلتے ٹینشن بڑھ جاتا۔

عطوان نے اپنے اس ادارتی کالم میں لکھا کہ ہم نے سید حسن نصر اللہ کی تقریر کے سلسلہ سے وہ اہم چیز محسوس کی جسے اسرائیلی میڈیا میں بنیادی طور پر چھایا ہوا پایا وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی گفتگو میں کچھ خاص اشارے کئے چنانچہ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلوں کے لئے سید حسن نصر اللہ کی گفتگو میں سب سے خطرناک بات انکی جانب سے مغربی میڈیٹرین ساحل اور مقبوضہ فلسطین کے نقشے کی طرف اشارہ کرنا تھی ، یہ وہ جگہ ہے جہاں گھنی و گنجان آبادی پائی جاتی ہے اور اسرائیل کے لئے حیاتی مفادات کی حامل جگہ ہے ، اور سید حسن نصر اللہ نے اپنی گفتگو میں واضح طور پر ان اہداف کی طرف اشارہ کیا جن پر جنگ چھڑنے کی صورت میں حزب اللہ کی جانب سے حملہ کیا جا سکتا ہے اور جو حزب اللہ کے صاف تنے اور سدھے نشانے پر ہیں ، چنانچہ یہ تصویر کہ جس میں نیتن یاہو کو اپنے خاص ڈھنگ سے جواب دیا گیا ہے وہی ہے جسے اسرائیل رسائل و جرائد کے پہلے صفحہ کے ساتھ ساتھ ٹی وی کی خبروں میں بھی نمایاں طور پر دکھایا گیا۔

ٹھیک ہے کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنی اس گفتگو میں حزب اللہ کی زمینی فورسز کے ہاتھوں میں موجود میزائیلوں کی صلاحیتوں اور انکی اپنے نشانوں پر زبردست ودقیق انداز میں اصابت کرنے نیز شام کی جنگ میں ہونے والے گرانبہا تجربوں کو بیان کیا ، لیکن اس گفتگو کا اہم نکتہ یہ تھا کہ حزب اللہ کو نہ تو جوہری بمب کی ضرورت ہے اور نہ ہی کیمیکل بمب کی ضرورت ہے بلکہ اسرائیل کی جانب حزب اللہ کی طرف داغے جانے والے ایک میزائیل کے لئے کافی ہے کہ حیفا کی بندرگاہ پر موجود اسرائیل کے زہریلے ذخائر پر گر کے پورے اسرائیل کو نابود کر دے اور دسیوں و شاید سیکڑوں و ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنے ۔ اس زبردست گفتگو کا اسراییل کے لوگوں پر اثر اور اسرایلیوں کے دلوں میں ان باتوں کی بنا پر وحشت یہ دونوں ہی چیزیں اس بات کا سبب بنیں کہ گزشتہ سالوں کی طرح اپنے رویے کے برخلاف اسلامی مزاحمت کے قائد سید حسن نصر اللہ کی گفتگو یا تقریر پر کان نہ دھرتے ہوئے مغرورانہ انداز میں بے توجہی نہ دکھا کر اس بار رد عمل دکھانے پر مجبور ہو یہی وجہ ہے تند اور سخت زبان استعمال کرتے ہوئے نیتن یاہو کو کہنا پڑا کہ اگر حزب اللہ نے اسرائیل پر حملہ کی کوشش کی یا اسے نقصان پہنچانے کے لئے منصوبہ بندی کو عملی کیا تو حزب اللہ کو بہت بری اور دردناک مار پڑے گی۔

جب سید حسن نصر اللہ اسرائیل کو یہ انتباہ دیتے ہیں کہ اسرائیل عصر حجر کی طرف پلٹ جائے گا تو یہ اپنے آپ میں غور طلب بات ہے اس لئے کہ عصر حجر کی بات جب وہ کر رہے ہیں تو واضح ہے کہ اس دور میں خود کبھی نہیں رہے اور اس دور کی کوئی بھی میراث علاقے اور فلسطین میں نہیں پائی جاتی ہے لیکن سید حسن نصر اللہ نیتن یاہو اور اسرائیل کی قیادت کو انہیں کے لہجے میں اپنے مخصوص انداز میں جواب دیتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تم اپنے ماضی کی طرف پلٹا دئیے جاوگے اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خود اس چیز کا تصور کریں کہ اس دور میں زندگی کیسی ہوگی جس کے بارے میں انہیں ذرا واقفیت نہیں ہے ، اور پھر یہ بات اپنے اندر اسرائیلوں کو اور بھی جھنجلا دینے والی ہے کہ کیا برائی ہے کہ یہ لوگ عصر حجر میں جینے کا تجربہ بھی کر لیں لیکن یہ تو تب ہی ہو سکتا ہے جب وہ خود رہیں اور انکا ملک بھی باقی رہے ۔

اس مرد مجاہد نے عزم مصمم کر رکھا ہے کہ مسجد الاقصی میں ایک دن نماز قائم ہوگی ،اور اس بے نظیر شخصیت کی نگاہ اس دن پر ہے جب لاکھوں لوگ اسی مسجد میں اس مرد مجاہد کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے ، یہ معقول و جائز اور قانونی آرزو تبھی پوری ہو سکے گی جب فلسطین آزاد ہو جائے۔

اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ایسا ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں ، مجھے بی بی سی نیٹ ورک کے سینئیر سیاسی تجزیہ کار و مبصر جوہن سمباسن کی یہاں پر ایک بات یاد آ رہی ہے جو انہوں نے اسرائیل کی تاسیس کے پچاس سال پورے ہونے کی پچاسویں سالگرہ کی مناسبت سے کہی تھی اور بہت ہی تذبذب کے ساتھ یہ سوال کیا تھا ’’ کیا اسرائیل تمام تر اختلافات اور شگافوں کے سایہ میں جب کہ اسکے اطراف کی فضا اور اسکے شرائط بھی بدل رہے ہیں اپنی تاسیس کی صد سالا یادگار منا سکے گا ؟ کیا اسرائیل اپنے وجود میں آنے کے سو سال مکمل ہو جانے کا جشن منا سکے گا ؟‘‘۔

ہمیں یقین نہیں کہ نیتن یاہو کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دی جانے والی دھمکی کارگر ثابت ہو اور لبنان یا لبنانیوں کو ڈرا سکے ، اس لئے کہ اسرائیل کی فوج اسلامی مزاحمتی محاذ سے تین مرتبہ بری طرح شکست کھا چکی ہے ، اور جنگ کے الٹے ہی نتائج سامنے آئے ہیں چنانچہ اسکے منفی اثرات و نتائج نے اسرائیل ہی کو متاثر کیا ہے اور منفی اثرات اسی کا مقدر بنے ہیں۔

جہاں تک جنگ کی بات ہے تو سید حسن نصر اللہ جنگ نہیں چاہتے اور نہ ہی ہم یہ مانتے ہیں کہ نیتن یاہو جنگ کے طرفدار ہوں لیکن یہ جنگ ناگزیر ہے

اب یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل ایک ایسے جنگل میں جہاں چاروں طرف سے اسے سیکڑوں میزائیلوں نے گھیر رکھا ہو ، معمول کے مطابق تحفظ و ثبات کے ساتھ جی سکتا ہے ؟ جبکہ اب دور بدل چکا ہے اور امریکہ کی ٹیکنالوجی اور اسکی ناقابل شکست فوج پہلے کی طرح اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کا دم خم کھو چکی ہے اور اب اسرائیل کی حفاظت اس کے بس میں نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو نے اپنے بیانات میں کوشش کی کہ حسن نصر اللہ کی گفتگو کی بنا پر جو تشویش اسرائیلی باشندوں کو لاحق ہوئی ہے اسے کم کیا جائے اور اسی وجہ سے نیتن یاہو نے اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں پر اپنی فوج کی پیٹھ تھپتھپانے کے سوا کچھ نہ کیا اور فخریہ انداز میں اسرائیل کی جانب سے چنددہائیوں قبل حزب اللہ کی جانب سے کھودی جانے والی سات سرنگوں کے چند دنوں قبل انہدام کو ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اسکے علاوہ نیتن یاہو کے پاس کچھ نہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنے عوام کے ذہن میں قائم خدشات کو دور کرتے جبکہ نیتن یاہو کہ جنہیں اپنی ذہانت اور چالاکی کا بھی بہت دعوی ہے یہ بھول گئے کہ یہ سرنگیں تو حزب اللہ کا پرانا ہتھیار ہیں جبکہ اپنے ہدف تک مار کرنے والی میزائلز اور پھٹ پڑنے والے ڈرون اور جدید ٹکنالوجی نے اب ان سرنگوں کی جگہ لے لی ہے اور اس وقت حزب اللہ کی دفاعی طاقت اسرائیل کی اس ہوائی برتری سے کہیں زیادہ جس نے عرب افواج کے ساتھ اس سے پہلے کی جنگوں میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا اتنا اشارہ کرنا کافی ہوگا کہ نیتن یاہو کی وحشت تو حماس اور جہاد اسلامی تحریک سے بھی اس قدر ہے کہ جب شہید محمود الادہم کو غزہ پٹی کی شمالی سرحد پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا اور اسرائیل کو حماس و جہاد اسلامی کی جانب سے انتقام کا خطرہ لاحق ہوا تو اسی متکبر اور زور زبردستی کو اپنی خو بنالینے والے وزیر اعظم نے اس پر معافی تک مانگ لی اور معذرت کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی کہ اس ظلم و جنایت کا ارتکاب جان بوجھ کر نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ غلطی کی بنا پر ہوا تھا ، چنانچہ نہ صرف نیتن یاہو نے معافی مانگی بلکہ فورا ہی مصر سے ثالثی کا کردار نبھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ فلسطینیوں سے کہا جائے کہ وہ انتقامی کاروائی نہ کریں۔

نیتن یاہو کی پہچان کب سے ایسی ہے کہ لوگ انہیں معذرت طلب کرنے والے اور اپنی غلطی کو ماننے والے انسان کے طور پر جاننے لگیں ، نیتن یاہو نے اس سے قبل کب کسی کو شہید کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ غلطی سے ہو گیا ، اسکی مثال اس سے پہلے تو نہیں ملتی لیکن ہاں ابھی کچھ ہی عرصہ پیشتر نیتن یاہو کی طرف سے کہا گیا کہ حماس کے ایک کارکن کو اسرائیلی فوجی نے غلطی سے نشانہ بنا کر شہید کر دیا ، لہذا یہ سوال اٹھتا ہے کہ نیتن یاہو کو کب سے معافی کی ضرورت پڑنے لگی کہ وہ بیچ میں کسی کو واسطے و ثالثے کا کردار نبھانے کے لئے کہے۔ ظاہر ہے کہ یہ غلطی ماننا نہیں ہے بلکہ اس ڈر سے دوسروں کو واسطہ بنانے کی بات ہو رہی ہے کہ ایسا نہیں کیا تو اسلامی مزاحمت کے محاذ کی جوابی کاروائی سے بچ پانا ناممکن ہو جائے گا ، لہذا یہ واسطہ بنانا اس لئے ہے کہ بھوکے اور محاصرہ ہوئے غزہ کی پٹی سے جوابی کاروائی کے طور پرآنے والی اسلامی مزاحمت کی تباہ کن میزائلوں کے حملوں کو روکا جا سکے ۔

یہاں پر یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ حسن نصر اللہ کی خود اعتمادی انکے ایمان سے فروغ حاصل کرتی ہے انکے اس اعتماد سے ماخوذ ہے جو انہیں اسلامی مزاحمت کے محاذ پر حاصل ہے یہی وہ چیز ہے جو حسن نصر اللہ کے اعتماد کو جہاں ظاہر کرتی ہے اور انکے نظریات و انکے عمل سے جھلکتی ہے وہیں اس بات کا سبب بھی ہے کہ مد مقابل اپنے دشمن کو تشویش میں مبتلا کر دے چنانچہ اسی وجہ سے اسرائیلی ڈر اور خوف کے ساتھ کشمکش کا شکار ہیں اور اب یہ خود اعتمادی سرحدوں سے پرے پھیل چکی ہے ، لبنان ، عراق ، شام سے غزہ پٹی تک اس خود اعتمادی کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے وہ مقامات جہاں اسلامی مزاحمتی تحریک سے جڑے گروہ پوری طاقت و توانائی کے ساتھ دشمن کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں ، ایک بار پھر دشمن کے سامنے ڈٹ جانے اور شکست تسلیم نہ کرنے کا کلچر متعدد مزاحمتی محاذوں میں راسخ ہو گیا ہے اور اس نے دشمن کے حملوں کے سامنے ایک ایسی سپر قائم کر دی ہے جس کے سبب دشمن حملوں سے ڈرتا ہے ، زمانہ بدل رہا ہے اسرائیل آج اس صورت حال کا شکار ہے کہ جنگ کے نام سے ہی اس پر لرزہ اور خوف طاری ہو جاتا ہے جنگ سے آج اسرائیل خائف ہے اور جنگ کا نام آتے ہی اسکے ہاتھ پیر پھولنے لگتے ہیں اور پورے وجود پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے یورپی ملکوں کی عہدشکنی اور سینہ زور پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایران نے اپنے وعدوں پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو آئندہ بھی جاری رہے گا۔

ایران میں پہلی نماز جمعہ کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر ملک بھر کے آئمہ جمعہ و جماعات نے حسینہ امام خمینی رح میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آبنائے جبل الطارق میں ایرانی تیل بردار بحری جہاز روکے جانے کو بحری قزاقی قرار دیا اور فرمایا کہ برطانیہ کا یہ اقدام قانون کی کھلی خلاف ورزی اور مجرمانہ فعل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس نظام کے مومن عناصر، برطانیہ کی اس خباثت کا جواب ضرور دیں گے۔
آیت اللہ العظمی سید‏علی خامنہ ای نے خود کو بڑا سمجھنے کو مغربی ملکوں کی سب سے بڑی مشکل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسی تکبر کی وجہ سے وہ حقائق کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ اگر یورپ کے مد مقابل کوئی کمزور حکومت ہو تو ان کا تکبر کام کر جاتا ہے لیکن اگر کوئی ایسا ملک ہو جو ان کی حقیقت کو پہنچان کر ان کے سامنے ڈٹ جائے تو مغرب ڈھیر ہو جاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے یورپی ملکوں کی عہد شکنی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لیے یورپ نے ایران سے گیارہ وعدے کیے تھے لیکن ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا جبکہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر اپنے عہد و پیمان سے زیادہ بڑھ کر عمل کیا ہے۔
آپ نے ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کے بارے میں یورپ کے ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے ایک بھی وعدے پر عمل نہیں کیا اور ہم سے مطالبہ کر رہے ہو کہ ہم اپنے وعدوں پر عمل کرتے رہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یورپی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے ایک بھی وعدے پر عمل نہیں کیا تو کس منھ سے ہم سے مطالبہ کر رہے ہو کہ ہم اپنے وعدوں پر عمل کرتے رہیں۔ ہم نے ابھی واپسی کا عمل شروع کیا ہے اور یقینی طور پر یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملک کی قابل فخر دفاعی طاقت اور توانائی کو دفاع مقدس کے دور کے دباؤ، پابندیوں اور بیرونی طاقتوں سے امیدیں توڑ لینے کا نتیجہ قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے موجودہ صورتحال کا بھی مختلف میدانوں خاص طور سے اقتصادی لحاظ سے اچھا نتیجہ برآمد ہو گا۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن نصر اللہ نے المنار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل  مکڑی کے گھر سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے 2006 میں لبنان  پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ میں اسرائیل کی تاریخی شکست کی چودھویں سالگرہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ لبنان آج طاقت کے اس مرحلے تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ اسرائیل کے اندر ہر نقطہ کو نشانہ بنا سکتی ہے۔آج اسرائیل مکڑی کے گھر سے کہیں زيادہ کمزور ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ لبنانی عوام آج امن کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں اور یہ امن انھیں باہمی اتحاد کی وجہ سے حاصل ہوا ۔ 2006 میں اسرائیل پر حزب اللہ کی کامیاب در حقیقت لبنانی عوام کی کامیابی تھی اور لبنانی عوام باہمی اتحاد کے ساتھ اسرائیل کی ہر جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ آمادہ ہیں۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ آج اسلامی مزاحمت کی طاقت سے اسرائیل خوفزدہ ہےاور اسلامی مزاحمت ہر دور کی نسبت زیادہ طاقتور بن گئی ہے ۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسرائیلی فوج اور اسرائیلی سیاستداں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر وہ ایک راکٹ داغیں گے تو انھیں اس کے جواب میں دس راکٹوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔آج پورا اسرائیل حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت کے میزائلوں کے نشانے پر ہے اور بیشک آئندہ جنگ 2006 کی جنگ سے وسیع تر ہوگی اور یہ جنگ اسرائیل کی نابودی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

سید حسن نصر اللہ نے صدی معاملے کی شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدی معاملے کے نتیجے میں خائن اور غدار عرب حکمرانوں کے چہرے مسلمانوں کے سامنے نمایاں ہوگئے ہیں۔

سید حسن نصر اللہ نے یمن جنگ میں یمنی عوام کی کامیابی کو یقینی قراردیتے ہوئے کہا کہ یمن میں سعودی عرب کی شکست یقینی ہے اور سعودی عرب کے فوجی اتحاد میں شگاف پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی رعب کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش اور خیانت پہلے سے کہیں زيادہ نمایاں ہوگئی ہے۔

امام رضا اللہ کے نور کا ٹکڑا، اسکی رحمت کی خوشبو اور ائمہ طاہرین ؑ کی آٹھویں کڑی ہیں جن سے اللہ نے رجس کو دوررکھا اوران کو اس طرح پاک وپاکیزہ رکھا جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔ مامون نے ائمہ طاہرین ؑ کے متعلق اپنے زمانہ کے بڑے مفکرو ادیب عبداللہ بن مطرسے سوال کرتے ہوئے کہا: اہل بیت ؑ کے سلسلہ میں تمہاری کیا رائے ہے ؟عبداللہ نے ان سنہرے لفظوں میں جواب دیا:میں اس طینت کے بارے میں کیاکہوں جس کا خمیر رسالت کے پانی سے تیار ہوااوروحی کے پانی سے اس کو سیراب کیاگیا؟ کیا اس سے ہدایت کے مشک اور تقویٰ کے عنبر کے علاوہ کوئی اورخوشبو آسکتی ہے ؟ان کلمات نے مامون کے جذبات پر اثرکیا اس وقت امام رضا ؑ بھی موجود تھے، آپ نے عبداللہ کامنھ موتیوں سے بھر دینے کا حکم صادر فرمایا[1] ۔وہ تمام اصلی ستون اور بلند و بالا مثالیں جن کی امام ؑ عظیم سے تشبیہ دی گئی ہے، آپ ؑ کے سلوک ، ذات کی ہو شیاری اور دنیا کی زیب و زینت سے رو گردانی کرنا سوائے اُن ضروریات کے جن سے انسان اللہ سے لولگاتا ہے، یہ سب اسلام کی دولتوں میں سے ایک دولت ہے۔ہم ان میں سے بعض خصوصیات اختصار کے طور پر بیان کرتے ہیں:

آپ ؑ کی پرورش 
امام ؑ نے اسلام کے سب سے زیادہ باعزت وبلند گھرانہ میں پرورش پائی ،کیونکہ یہ گھر وحی کا مرکز ہے ۔یہ امام موسیٰ بن جعفر ؑ کا بیت الشرف ہے جو تقویٰ اور ورع وپرہیزگاری میں عیسیٰ بن مریم کے بیت الشرف کے مشابہ ہے ،گویا یہ بیت الشرف عبادت اور اللہ کی اطاعت کے مراکز میں سے تھا، جس طرح یہ بیت الشرف علوم نشرکرنے ا ور اس کو لوگوں کے درمیان شائع کرنے کا مرکزتھا اسی بیت الشرف سے لاکھوں علماء ، فقہاء،اور ادباء نے تربیت پائی ہے ۔اسی بلند وبالا بیت الشرف میں امام رضا ؑ نے پرورش پائی اور اپنے پدر بزرگوار اور خاندان کے آداب سے آراستہ ہوئے جن کی فضیلت ،تقویٰ اور اللہ پر ایمان کے لئے تخلیق کی گئی ہے ۔آپ ؑ کا عرفان اور تقویٰامام رضا ؑ کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدارتھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا، اس لئے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰہی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ہوگیااور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیااگرامام ؑ اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ہرگناہ کی تائید کی تو آ پ کا مقام اس کے نزدیک بہت عظیم ہوتا ۔اسی بناء پرمامون نے بہت جلد ہی آپ کو زہر دے کر آپ ؑ کی حیات ظاہری کا خاتمہ کردیا۔

آپ کے بلند وبالااخلاق
امام رضا ؑ بلند و بالا اخلاق اور آداب رفیعہ سے آراستہ تھے اور آپ کی سب سے بہترین عادت یہ تھی کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو اپنے غلاموںیہاں تک کہ اصطبل کے رکھوالوں اور نگہبانوں تک کو بھی اسی دستر خوان پر بٹھاتے تھے[2]۔ ابراہیم بن عباس سے مروی ہے کہ میں نے علی بن موسیٰ رضا ؑ کو یہ فرماتے سنا ہے :ایک شخص نے آپ سے عرض کیا :خداکی قسم آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے ہیں ۔امام ؑ نے یہ فرماتے ہوئے جواب دیا:اے فلاں! مت ڈر،مجھ سے وہ شخص زیادہ اچھا ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس کی سب سے زیادہ اطاعت کرے ۔خدا کی قسم یہ آیت نسخ نہیں ہوئی ہے۔امام ؑ اپنے جدرسول اعظم کے مثل بلند اخلاق پر فائز تھے جو اخلاق کے اعتبار سے تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔

آپ ؑ کا زہد
امام ؑ نے اس پرمسرت اورزیب وزینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوں نے دنیا میں زہداختیارکیا،آپ ؑ کے جدبزرگوارامام امیرالمومنین ؑ نے اس دنیاکو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نہیں کیاجاسکتا۔محمد بن عباد نے امام کے زہدکے متعلق روایت کی ہے :امام ؑ گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پربیٹھتے تھے ،آپ سخت کھر درا لباس پہنتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے تو پسینہ سے شرابور ہوجاتے تھے[3] ۔دنیا میں زہد اختیار کرنا امام ؑ کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا،تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام ؑ کو ولی عہد بنایاگیا تو آپ ؑ نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاہرہ نہیں فرمایا،حکومت وسلطنت کو کوئی اہمیت نہ دی،اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نہیں فرمائی، آپ کسی بھی ایسے مظاہرے سے شدیدکراہت کرتے تھے جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت وبادشاہت کا اظہار ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے تھے :لوگوں کاکسی شخص کی اقتداکرنااس شخص کیلئے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کیلئے ذلت و رسوائی ہے ۔

آپ ؑ کے علوم کی وسعت
امام رضا ؑ اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے ان (اہل زمانہ) کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ،فلسفہ ،علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی۔ہروی نے آپ کے علوم کی وسعت کے سلسلہ میں یوں کہا ہے :میں نے علی بن موسی رضا ؑ سے زیادہ اعلم کسی کو نہیں دیکھا، مامون نے متعددجلسوں میں علماء ادیان ،فقہاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا،لیکن آپ ان سب پر غالب آگئے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیاہو،اور میں نے آپ ؑ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ،جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کردیتے تھے اور مسئلہ میرے پا س بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا[4] ‘‘۔ابراہیم بن عباس سے مروی ہے :میں نے امام رضا ؑ کونہیں دیکھامگریہ کہ آپ ؑ نے ہر سوال کا جواب دیا ہے [5]۔،میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نہیں دیکھااور مامون ہر چیز کے متعلق آپ سے سوال کرکے آپ کا امتحان لیتاتھااورآپ ؑ اس کا جواب عطافرماتے تھے[6] ۔مامون سے مروی ہے :میں اُن (یعنی امام رضا ؑ )سے افضل کسی کو نہیں جانتا[7]۔ بصرہ،خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پردلالت کرتے ہیں ۔دنیاکے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لئے جمع کرتا تھا وہ ان سب سے زیادہ آپ ؑ پر یقین اور آپ کے فضل وشرف کا اقرار کرتے تھے ،کسی علمی وفدنے امام ؑ سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کرلیا۔مامون آپ کو لوگوں سے دور رکھنے پر مجبور ہوگیاکہ کہیں آپ کی وجہ سے لوگ اس سے بدظن نہ ہوجائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] حیاۃالامام رضا ؑ ، جلد ۱،صفحہ ۱۰۔

[2] نورالابصار، صفحہ۱۳۸۔

[3] عیون اخبار الرضا ؑ ،جلد ۲صفحہ ۱۷۸۔مناقب ،جلد ۴،صفحہ ۳۶۱۔

[4] کشف انعمہ، جلد۳ صفحہ۱۰۷۔

[5] ایک نسخہ میں الاعلم آیاہے۔

[6] حیاۃ الامام الجواد ؑ صفحہ۴۲۔

[7] اعیان الشیعہ ،جلد۴ صفحہ۲۰۰۔

صلوات خاصہ حضرت امام علی بن موسی الرضا(ع)

اَللّـهُمَّ صَلِّ عَلى عَلِیِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا الْمُرْتَضَى الاِمامِ التَّقِیِّ النَّقِیِّ وَحُجَّتِکَ عَلى مَنْ فَوْقَ الاَرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّرى، الصِّدّیقِ الشَّهیدِ، صَلاةً کَثیرَةً تامَّةً زاکِیَةً مُتَواصِلَةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً، کَاَفْضَلِ ما صَلَّیْتَ عَلى اَحَد مِنْ اَوْلِیائِکَ

اسرائیلی اخبار ہارٹس میں شائع ایک مقالے میں اسرائیلی معاشرے پر سید حسن نصر اللہ کے اثرات کا وسیع پیمانے پر ذکر کیا گیا ہے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل کو، سید حسن نصر اللہ کی وجہ سے کافی مسائل کا سامنا ہے ۔ صیہونی رہنما یہ اعتراف کرتے ہیں کہ سید نصر اللہ نے اسرائیل کے سابق وزیر اعظم اسحاق شامیر کے اس مشہور نظریہ کا خاتمہ کر دیا ہے کہ عرب وہی عرب ہیں اور پانی وہی پانی ہے ۔ شامیر کا مطلب یہ تھا کہ یہ وہی عرب ہیں جنہیں 6 دنوں کے اندر ہم نے شکست دی تھی اور جن کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا ۔

اب اسرائیلی یہی مانتے ہیں کہ سید حسن نصر اللہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ وہی عرب نہیں ہیں کیونکہ اب تک اسرائیلی فوج کے کمانڈر کہتے ہیں کہ حزب اللہ، ان کی فوج کے بعد، مشرق وسطی کی سب سے طاقتور فوج ہے ۔ یہ معجزہ سید حسن نصر اللہ کا ہی ہے کہ انہوں نے حزب اللہ نامی تحریک کو ایک طاقتور فوج میں بدل دیا ۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے بارے میں اسرائیلی کیا سوچتے ہیں، اس کی ایک مثال، اسرائیل کے اسکولوں میں سماجیات کی کتاب میں سید حسن نصر اللہ کے بارے میں کچھ باتوں کے ذکر ہے ۔ اسرائیل کے حکومتی نصاب میں شامل ایک کتاب میں لکھا ہے: حسن نصر اللہ غیر معمولی طور پر ایک معجزاتی شخصیت کے مالک نہیں اور انہیں اسرائیل کے بارے میں ہر چیز کی اطلاع ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ اسرائیلی معاشرے کی بہت اچھی شناخت رکھتے ہیں اور اپنی اس اطلاع کو متعدد مواقع پر نفسیاتی جنگ میں اسرائیلی معاشرے کو پیغامات دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ انہوں نے 2000 میں جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجیوں کی پسپائی کے بعد اسرائیلی معاشرے کو مکڑی کا جالا کہا تھا جسے بڑی آسانی سے تباہ کیا جا سکتا ہے ۔

اسرائیلی اخبار ہارٹس کے مطابق، حزب اللہ کی نفسیاتی جنگ اس حد تک موثر تھی کہ اسرائیلی فوجیوں کو اپنی توانائی پر شک ہونے لگا ۔ اخبار نے مزید لکھا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے خوف سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے ۔ یہ خوف اسرائیل میں 1985 اور 2000 میں ہونے والے نقصانات سے پیدا ہوا ہے۔

اسرائیلی اخبار ہارٹس میں شائع ڈیوڈ داوود کے مقالے میں کہا گیا ہے کہ حزب اللہ، آئندہ کسی تصادم میں اسرائیل میں پیدا خوف سے استفادہ کرے گی جس نے اسرائیل کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ وہ الجلیل شہر کو فتح فتح کر سکتا ہے، اسرائیل پر دقیق نشانہ لگانے والے میزائلوں کی بارش کر سکتا ہے، امونیا گیس کے ذخائر اور ڈیمونا ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر سکتا ہے اور حزب اللہ نے یہ یقین، بغیر یہ سب کچھ کئے، اسرائیل کو دلا دیا ہے ۔

اسرائیلی اخبار ہارٹس میں شائع اس مقالے کے مقالہ نگار نے یہ اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ، اسرائیلی معاشرے کو یہ یقین دلانے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے کہ جنوبی لبنان، اسرائیلی فوجیوں کی قبرستان بن جائے گا ۔

مقالہ نگار کے مطابق، ممکنہ نقصان سے اسرائیل کا خوف، جنوبی لبنان میں حزب اللہ سے اسرائیل کی شکست کی اصل وجہ تھی نہ کہ حزب اللہ کی فوجی طاقت اور یہی خوف 2006 میں وسیع جنگ سے اسرائیل کے پرہیز کی بھی اصل وجہ ہے، جیسا کہ اس مقالے میں لکھا ہے ۔

حزب اللہ سے اسرائیل کا یہی خوف، تل ابیب کی راہ میں جنگ شام سے وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھانے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔

ہارٹس نے آخر میں لکھا ہے کہ کسی بھی تصادم کی صورت میں، حزب اللہ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ اسرائیلی سرحد پر کچھ چوکیوں اور چھوٹے قصبوں پر قبضہ کر لے یا کچھ اسیروں کو اغوا یا قتل کر دے اور اس کا ویڈیو جاری کر دے تو اس طرح سے اسرائیلی فوجی یہ یقین کر لیں گے کہ اپنے شہریوں کی حفاظت کی توانائی نہیں رکھتے ہیں اس لئے وہ اپنی حکومت پر جنگ کے خاتمے کے لئے دباؤ ڈالیں گے اور اس طرح سے جنگ ختم ہو جائے گی اور اس کی تلخ یاد، اسرائیل کے لئے باقی رہے گی ۔

مزاحمتی تحریک کی عالمی علماء یونین کے سربراہ کے ساتھ خیبر کی گفتگو؛
بحرین کانفرنس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ معاشی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات کی بحالی/ عرب حکمران امریکہ کے ملازم ہیں: شیخ حمود

۲۵ اور ۲۶ جون کو بحرین کے دار الحکومت منامہ میں امریکی صدر کے یہودی داماد کی صدارت میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کے بارے میں جتنا شور شرابا مچایا گیا تھا جتنی ایٹوٹائزمنٹ کی گئی تھی اتنا کچھ نظر نہیں آیا اور ایک لاحاصل اور بے نتیجہ نشست ثابت ہوئی۔ اس درمیان بعض بحرینی عہدیدار جیسے وزیر خارجہ “خالد بن احمد آل خلیفہ” نے امریکہ اور اسرائیل کی چاپلوسی کرتے ہوئے فلسطینی کاز اور مسئلہ قدس کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی۔
ٹائمز آف اسرائیل نے اپنی رپورٹ میں لکھا: منامہ میں اسرائیلی تاجروں، نامہ نگاروں اور رپورٹرز کا پرتباک استقبال کیا گیا اور بحرینی حکمران جہاں جہاں وہ جاتے تھے ان کی ہمراہی کرتے تھے۔
دوسری جانب بحرین کے میڈیا کنسلٹنٹ “سلمان بن احمد الخلیفہ” نے اسرائیلی نامہ نگاروں اور رپورٹرز کو ایک مرغن عشائیہ بھی کھلا دیا۔
امریکہ کے خصوصی ایلچی ”برین ہوک” (Brian Hook) نے “کان” ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں عرب اور صہیونیوں کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کے بارے میں کہا: تم اپنی آنکھیں بند کر لیتے اور بحرین نشست میں عرب سربراہان کی باتوں کو غور سے سنتے تو متوجہ ہو جاتے کہ کیا ایک اسرائیلی عہدیدار گفتگو کر رہا ہے یا ایک عربی حکمران!
اسی حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے ‘مزاحمتی تحریک کی عالمی علماء یونین’ کے سربراہ شیخ “ماہر حمود” کے ساتھ ایک گفتگو کی ہے جس کا ترجمہ اپنے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
خیبر: گزشتہ ایام بحرین میں “صدی کی ڈیل” نامی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ایک معاشی نشست کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ نیز بحرین کے سربراہان نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی ضرورت پر تاکید کی لیکن اس کے بعد انہوں نے پسپائی اختیار کر لی۔ آپ کا اس بارے میں کیا تجزیہ ہے اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟
۔ اس بارے میں اورعرب ممالک کے امریکہ کے ساتھ تعاون کے بارے میں میرا یقین ہے کہ خلیجی عرب ریاستیں ہوں یا اطراف و اکناف کے دیگر عرب ممالک، اس طرح کے امریکی اقدامات کو روکنے پر قادر نہیں ہیں۔ اس لیے کہ جب امریکی انہیں کسی کام کا حکم دے دیں تو وہ اس پر عمل کرنے میں مجبور ہیں اس لیے کہ ان کے پاس امریکہ کا مقابلہ کرنے کی توانائی نہیں ہے۔ شام اور چند دوسرے ممالک کے علاوہ اکثر عرب ممالک اپنے حکمرانوں کو ‘امریکی ملازم’ سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہم نے چند سال قبل قطر میں دیکھی اور دوسری مثال آج دیکھ رہے ہیں، جب ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام کہتے ہیں کہ سعودی ہمارے بغیر چند روز زندہ نہیں رہ سکتے اور سعودی حکمران ان کا کوئی جواب نہیں دیتے اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ یہ چھوٹے یا بڑے تمام ممالک کسی بھی صورت میں امریکی دستور کی مخالفت کرنے کی توانائی نہیں رکھتے۔ اس نشست کے انعقاد کے لیے بحرین کا انتخاب میرے خیال میں اس لیے کیا گیا تاکہ امریکہ یہ باور کروانا چاہے کہ صرف ریاض ہی امریکہ کی کٹھ پتلی نہیں ہے بلکہ دیگر عرب ریاستیں بھی اسی کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔
خیبر: علمائے اسلام خصوصا تحریک مزاحمت کے حامی ممالک کے مفتیوں کا ایک جانب سے اور وہابی علما کا دوسری جانب سے اس نشست کے انعقاد کے حوالے سے کیا کردار رہا ہے؟
۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر علما اپنے اپنے ملکوں میں سرکاری ملازم ہیں اور اپنے حکمرانوں کے خلاف کوئی موقف نہیں اپنا سکتے۔ بعض دیگر بھی انہیں کا بازیچہ بنے ہوئے ہیں اور دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کے خواھشمند ہیں اور جو وہ کہتے ہیں اسی پر قانع ہیں۔ ٹھیک فرانسوی تیونسی علما کی طرح جو اسرائیلی فوجی افسروں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کرتے اور بعض امور میں ان کا تعاون بھی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض علما نے صحیح اسلامی فکر سے اپنا ناطہ توڑ دیا ہے۔ چند ایک کوئی ٹھوس موقف اپنانا چاہتے ہیں لیکن توانائی نہیں رکھتے۔
خیبر: عالم اسلام، عرب اور بین الاقوامی اداروں کا ایسی نشست کے بارے میں کیا ردعمل رہا جو فلسطین کے بارے میں منعقد کی گئی لیکن کوئی ایک بھی فلسطینی اس میں حاضر نہیں تھا؟
۔ کویت، لبنان، شام اور عراق کے علاوہ کسی عرب ریاست کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس لیے کہ وہ کوئی ایسا موقف اختیار کر ہی نہیں سکتے جو امریکی صہیونی مفاد کے خلاف ہو۔ اور اگر امریکی پالیسیوں سے کنارہ گیری اختیار کریں گے تو انہیں امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک اسرائیلی عہدیدار نے ایک مرتبہ یہ اعلان کیا تھا کہ ‘یہ سب عرب ذلیل ہو کر ہماری طرف پلٹیں گے’۔ اس لیے کہ امریکہ ان تمام عرب حکمرانوں کا ایک دن میں سارا تخت و تاج الٹ سکتا ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا اردن کے بادشاہ ملک عبد اللہ پہلے اس نشست میں شرکت کے مخالف تھے لیکن امریکہ نے آنکھیں دکھائیں تو فورا اپنا موقف بدل دیا۔ انسانی حقوق تنظیمیں بھی سب کی سب امریکہ اور اسرائیل کے مفاد کی راہ پر گامزن ہیں اور جب تک اسرائیل کی سالمیت محفوظ ہے یہ کوئی اعتراض نہیں سکتے۔
خیبر: منامہ نشست میں صہیونی میڈیا گروپ کی شرکت عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے میں کتنا موثر رہی؟ اور ایسے اقدامات کا کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟
اس نشست کا اصلی مقصد ہی کھلے عام عرب اسرائیل تعلقات کی بحالی تھا۔ اسرائیلی بھی اس نشست میں حاضر ہونا چاہتے تھے لیکن امریکیوں نے بہتر سمجھا کہ وہ خود ہی اس نشست کی صدارت سمبھالیں اور صرف اسرائیل کے میڈیا گروہ کو دعوت دیں۔ اس نشست کا مقصد معاشی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر تعلقات کی بحالی تھی لیکن ہماری نظر میں یہ منصوبہ شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔

امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کی ولادت کے 25 سال بعد حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) یکم ذوالقعدۃالحرام سنہ 173 ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئیں۔ ان دونوں کی والدہ حضرت سیدہ نجمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) تھیں جن کا تعلق موجودہ زمانے کے شمال افریقی ملک مراکش سے تھا؛ یوں ان دونوں نے ایک ہی والدہ کی آغوش میں پرورش پائی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ان کے والد ماجد حضرت امام موسی بن جعفر (علیہ السلام) مسلسل عباسی بادشاہوں کے اذیتکدوں میں اسیری کے ایام گذار رہے تھے اور بالآخر اسیری میں ہی جام شہادت نوش کرگئے؛ جبکہ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی عمر ابھی 10 سال سے زیادہ نہ تھی چنانچہ آپ (سلام اللہ علیہا) کی پرورش کی ذمہ داری حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے سنبھالی۔

عباسی بادشاہ ہارون الرشید کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا مامون الرشید اپنے بھائی مامون کو قتل کرنے کے بعد مقام ملوکیت میں مستقر ہوا تو اس نے بھی اپنے غدار اسلاف کی مانند ائمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات کے فروغ کا راستہ روکنے کی ٹھانی اور سنہ 200 ہجری میں امام (علیہ السلام) کو اپنے دارالحکومت (مرو (Marw) میں بلوایا اور امام (علیہ السلام) نے یہ دعوت بامر مجبوری قبول کی لیکن اہل خاندان میں سے کسی کو بھی ساتھ لے کر نہيں گئے بلکہ اس سفر پر اکیلے روانہ ہوئے۔ گو کہ آپ (علیہ السلام) نے مرو روانہ ہونے سے قبل اہل خاندان کو بلوایا اور ان سے کہا: میرے اس سفر میں واپسی کا کوئی تصور نہیں ہے چنانچہ اہل خاندان نے آپ (علیہ السلام) کی موجودگی میں سوگ منایا۔ تجزیہ نگار مؤرخین کی رائے کے مطابق امام (علیہ السلام) نے ایسا کرکے درحقیقت اہل مدینہ کو بتانے کی کوشش کی کہ مامون کی دعوت ایک دوستانہ دعوت نہيں ہے اور آپ (ع) کو یہ دعوت مجبوری کی بنا پر قبول کرنی پڑ رہی ہے۔ اور دوسری طرف سے مامون کی طرف سے امام رضا (علیہ السلام) کو مرو لے جانے کے لئے، پورا لشکر مدینہ پہنچا تھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) ایک سال بعد سنہ 201 ہجری میں اپنے چار بھائیوں اور کئی بھتیجوں کے ہمراہ خراسان کی طرف روانہ ہوئیں اور جب یہ چھوٹا سا قافلہ شہر "ساوہ" کے قریب پہنچا تو مامون عباسی کے حکم پر ان کے تعاقب ميں آنے والے دشمنان اہل بیت (علیہم السلام) نے ان کا راستہ روکا اور حملہ کیا۔ اس غیرمساوی اور غیرمنصفانہ لڑائی میں سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے چاروں بھائی اور باقی مرد ـ جن کی تعداد 23 تک پہنچتی تھی ـ شہید ہوگئے۔ حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا صدمے اور غم کی شدت سے بیمار پڑ گئیں اور ایک قول کے مطابق عباسی گماشتوں نے ایک مقامی عورت کے ذریعے انہیں زہر دلوایا۔ اسی دن، شام کو یہ خبر اہل قم اور قم میں "آل سعد" خاندان کو ملی تو موسی بن خزرج ان کے نمائندے کی حیثیت سے ـ سیدہ (سلام اللہ علیہا) کو قم تشریف آوری کی دعوت دینے کی غرض سے ـ قم سے ساوہ کی طرف روانہ ہوئے۔ موسی بن خزرج غمزدہ کاروان سے ملے اور سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے قم آنے کی دعوت قبول کی تو موسی بن خزرج نے خود ہی آپ (سلام اللہ علیہا) کی سواری کی لگام سنبھالی اور قم میں اپنے گھر اور سرائے کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے شہر ساوہ میں قدم دکھا تو آپ (سلام اللہ علیہا) اپنے اہل کاروان سے دریافت کیا: یہاں سے قم تک کتنا راستہ باقی ہے؟ اہل کاروان نے جواب دیا تو سیدہ (سلام اللہ علیہا) کو اپنے والد امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی ایک پیشنگوئی یاد آئی چنانچہ اہل کاروان سے فرمایا: مجھے قم لے جاؤ کیونکہ میں نے اپنے والد سے کئي بار سنا ہے کہ "قم ہمارے پیروکاروں کا مرکز ہے"، چنانچہ عباسی حملے کے بعد زندہ رہنے والے افراد نے مرو اور خراسان جانے کے بجائے، قم کا راستہ لیا اور 23 ربیع الاول سنہ 201 ہجری کو قم المقدسہ میں داخل ہوئے۔ قم میں سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی تشریف آوری کی خبر اہل قم کے لئے بہت زیادہ سرور انگیز تھی۔ قم کے زعماء، عمائدین اور عام لوگ سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے استقبال کے لئے نکلے اور پروانہ وار آپ (سلام اللہ علیہا) کے شمع وجود کے گرد گھومنے لگے۔ ان سب کے آگے آگے شہر کے سب سے نامی گرامی بزرگ موسی بن خزرج الاشعری تھے جنہوں نے سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی اونٹنی کی لگام سنبھالی اور آپ (سلام اللہ علیہا) سے اپنے گھر میں سکونت پذیر ہونے کی درخواست کی جو سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے قبول کرلی۔ کہتے ہیں موسی بن خزرج اپنی عمر کے آخری لمحوں تک اس واقعے میں حاصل ہونے والی سعادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ سیدہ (سلام اللہ علیہا) اپنے بھائی کی جدائی اور اپنے دیگر بھائیوں اور بھتیجوں کی مظلومت اور شہات (اور بروایتے زہر خورانی) کے بموجب سترہ دن تک بیمار رہیں جبکہ آپ (سلام اللہ علیہا) اپنی حالت سے بہتر آگاہ تھیں چنانچہ یہ ایام آپ (سلام اللہ علیہا) نے عبادت الہی اور معبود کے ساتھ راز و نیاز میں گذارے اور بالآخر 28 سال کی عمر ـ غریب الوطنی میں ـ دنیا سے رخصت ہوئیں اور پیروان اہل بیت (علیہم السلام) سوگ و ماتم میں ڈوب گئے۔ سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی عمر کی آخری عبادتگاہ آج کل "بیت النور" کہلاتی ہے جو اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کے شیدائیوں کی زیارتگاہ ہے۔ سب سے پہلے میرابوالفضل عراقی نے بیت النور کے برابر میں ایک مسجد تعمیر کی چنانچہ وہ محلہ اور اس کے اطراف میں ایک وسیع احاطہ "میدان میر" کے نام سے مشہور ہے۔وفات کے بعد آپ (سلام اللہ علیہا) کے پیکر مبارک کو غسل و کفن دینے کے بعد نہایت باشکوہ انداز سے "باغ بابلان" میں سپرد خاک کیا گیا جہاں آج روضہ مبارکہ موجود ہے۔جب آپ (س) کی قبر تیار ہوئی تو یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ آپ کے جسم اطہر کو قبر میں کون  اتارے گا؟؛ آل سعد کے متقی اور پرہیزگار اکابرین نے اپنے خاندان کے ایک عمررسیدہ شخص کو بلوایا کہ یہ ذمہ داری اس کے سپرد کی جائے لیکن اچانک دو نقاب پوش سوار قبلہ کی جانب رملہ (ریگستان) سے آتے ہوئے دکھائی دیئے. سوار جلد ہی نزدیک آکر گھوڑوں سے اترے ان میں سے ایک نے نماز جنازہ پڑھائی اورنمازکے بعد ایک نقاب پوش بزرگ قبر میں اترا اور دوسرے بزرگ نے جنازہ اٹھا کر اس کے ہاتھوں میں دے دیا تا کہ آپ (سلام اللہ علیہ) سپرد لحد کر سکے. وہ دونوں سوار تدفین کے بعد ـ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر ـ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر اسی سمت میں چلے گئے جہاں سے آئے تھے اور انہیں کوئی بھی نہیں پہچان سکا۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ وہ دونوں سوار دونوں امام و حُجَجِ خدا تھے. حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) پرہیزگار ترین خواتین میں سے تھیں جو عالمہ اور محدثہ تھیں اور شیعہ اور سنی کتب میں آپ (سلام اللہ علیہا) سے متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔ عبادت اور زہد آپ (سلام اللہ علیہا) کی وجہ شہرت تھی اور علم و فضل میں کمال کے مدارج پر فائز تھیں۔ سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے لئے کئی زیارت نامے وارد ہوئے ہیں جن میں سے ایک میں آپ کو "طاهره" (پاک و پاکیزہ)، "حميده" (قابل تعریف خصال کی مالک)، «برّۃ» (نیک اور بہترین تربیت سے بہرہ مند)، "نقيّہ" (پرہیزگار اور نیک خصال)، "مرضيه" (اللہ کی رضا یافتہ)، "رضيّه" (اللہ سے راضی)، "محدّثه"، "شفيعه" (یعنی روز جزا شفاعت کرنے والی) اور "معصومہ (مقام عصمت پر فائز) جیسے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ لیکن آپ (سلام اللہ علیہا) کا مشہورترین لقب "معصومہ" ہے جو آپ (سلام اللہ علیہا) کے بھائی حضرت رضا (علیہ السلام) نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔

تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کتاب " ثواب الاعمال " اور " عیون الرضا " میں سعد بن سعد سے منقول ہے کہ میں نے حضرت امام رضا (ع) سے معصومہ (س) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: حضرت معصومہ (س) کی زیارت کا صلہ بہشت ہے ۔ سعد، امام رضا (ع) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے سعد جس نے حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی اس پر جنت واجب ہے ۔

حضرت امام صادق (ع) نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کا حرم مکہ مکرمہ ہے پیغمبر (ص) کا حرم مدینہ ہے ،امیر المومنین (ع) کا حرم کوفہ ہے اور آل محمد کا حرم قم ہے۔ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے تین قم کی جانب کھلتے ہیں ،پھر امام (ع) نے فرمایا :میری اولاد میں سے ایک عورت جس کی شہادت قم میں ہوگی اور اس کا نام فاطمہ بنت موسیٰ ہوگا اور اس کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔۔ (بحار ج/۶۰، ص/۲۸۸ )
حضرت معصومہ (س) کا اسم مبارک "فاطمہ" اور آپ کا مشہور لقب " معصومہ" ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خاندان اہلبیت (ع) کی ایک بی بی قم میں دفن ہوں گی جس کی شفاعت سے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے خلاف سب سے بڑے شیطان کی طرف سے مضحکہ خیز پابندیوں سے، سب سے بڑے شیطان امریکہ اور اس کے احمق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بے بسی، مایوسی اور عجز عیاں ہوگیا ہے، اب یہ بات دنیا کو سمجھ لینا چاہیئے کہ امریکہ، عالمی صیہونزم اور ان کے اتحادیوں کی آنکھ میں خار کی طرح سب سے زیادہ جو چبھتا ہے، وہ حضرت آیت اللہ خامنہ ای ہیں۔

کہاں فرزند رسول حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اور کہاں ابلیس زادہ ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں نور چشم حضرت فاطمة الزہرا (ع) اور کہاں ہوا و ہوس زادہ ٹرمپ
کہاں اسد اللہ الغالب کا بہادر اور شجاع بیٹا اور کہاں معاملہ گر ذہن والا بزدل ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں الہٰی بصیرت رکھنے والا بینا قائد اور کہاں بہرہ اور اندھا (صم بکم عمی) ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں عالم ربانی رہبر اور کہاں شیطان کا پیرو ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں عابد شب زندہ دار پیشوا اور کہاں شراب پی کر اوندھے منہ مدہوش سونے والا ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں صائم النہار حاکم اور کہاں حرام خور، بلکہ خنزیر خور ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں مست عشق خدا اور کہاں مست عیاشی ڈونلڈ ٹرمپ

کہاں دنیا کو خاطر میں نہ لانے والا زاہد انسان اور کہاں دنیا زادہ حیوان ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں پرچم حق اٹھائے صدائے حق بلند کرنے والا سید اور کہاں باطل کا پرچم اٹھائے، گدھے جیسی مکروہ آواز والا ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں عدالت خواہ ولی فقیہ اور کہاں ظلم کا پجاری ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں مستضعفین کو مستکبرین کے مقابلے میں کھڑا کرنے والا حریت پسند اور کہاں حریت دشمن ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں غیرت مند اور باحیا شخصیت اور کہاں بےغیرتی اور بے حیائی کی آخری حدوں کو چھونے والا ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں صادق اور امین عبد خدا اور کہاں پرلے درجے کا جھوٹا اور مکار ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں تمام شریف اور باضمیر انسانوں کے دلوں کا محبوب نائب امام اور کہاں منفور ترین، پست ترین اور گھٹیا خبیث ڈونلڈ ٹرمپ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے اتحادی جان لیں کہ آج کے اس معرکہ حق و باطل میں ہم اپنے رہبر کے ساتھ ہیں اور تو ہماری نگاہوں میں اور بھی منفور ہوگیا ہے، ہم اس معرکہ حق و باطل کے اس مرحلے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور اپنے رہبر کے ایک اشارے کے منتظر ہیں، ہم دنیا میں جہاں بھی ہیں، تمہارے اور تمہارے اتحادیوں کے لئے اس سرزمین کو جہنم بنا دیں گے اور طول تاریخ کے تمام مظلوموں کا انتقام قابیل اور ابوجہل کی نسل سے لے کر رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای پر بے معنی پابندیاں لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منہ پر تھوکا ہے، رہبر انقلاب کے فرزند ہر جگہ پیش آنے والے معرکہ حق و باطل میں میدان میں حاضر ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے اتحادیوں کو عبرت ناک شکست دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔
و ماالنصر الا مں عند اللہ العزیز الحکیم