سلیمانی

سلیمانی

اقوال فاطمه زهرا علیها السلام میں   ولایت کا دفاع  .

جناب فاطمہ نے مختلف طریقوں سے جانشین رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا لو گوں کو تعارف کرایا اور اس پیغام کو  پہنچایاکبھی کنایہ کی زبان میں جناب امیر المومنین  کا تعارف کراتیں اور کہتیں کہ کوئی بھی انکی مثل نہیں ہے امیرالمومنین کی خصوصِات کو ذکر کرتیں اور آپ کے فضائل کو بیان فرماتیں اور ایسے فضائل بیان فرماتیں جن کو مد مقابل اور دشمن بھی رد نہیں کرتا تھا بلکہ ان  فضائل کو قبول  کرتا ، ان فضائل اور صفات کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ  لوگوں کے احساسات کو بیدار کریں  کیونکہ  قیام کا اصلی محرک  یہی احساسات کا بیدار کرنا ہی ہے .(1) جناب فاطمہ کی ساری کوشش یہ تھی  کہ لوگوں کو اس خطا اور اشتباہ سے آگاہ کریں جس میں سب پڑ گئے تھے، آپ چاہتی تھیں کہ لوگون کو سمجھائیں کہ اگر  جانشین  پیغمبر کا انتخاب بھی کرنا ہے  تو انتخاب کا بھی معیار صحیح ہونا چاہئے  اسی لئے اپنی گفتگو کا آغاز ایسے کیا کہ لوگوں کے احساس بھی بیدار ہوں اور وہ احساس مسئولیت بھی کریں   ۔(2)
ممکن ہے جناب فاطمہ زہراء کے اقوال کو ہم اس طرح تقسیم کریں ۔
خود امامت اور ولایت کے بارے فرامین۔
مولا امیر المومنین کے فضائل  و قصائد کے  فرامین۔
یار و انصار کی سستی اور انکی سرزنش کے بارے اقوال۔
خلافت کے غصب کئے جانے  کے بارے میں اقوال ۔
خود امامت و ولایت کے بارے فرامین.

1 مثل امام  مثل کعبه ہے .

حضرت فاطمه زهرا علیها السلام   نے فرمایا:  مَثَلُ الاِمامِ مَثَلُ الکَعبَة اِذتُؤتی وَ لاتَأتی؛  (3) امام کی مثال  کعبہ کی ہے،  کہ لوگ طواف کرنے کیلئے  کعبہ کے پاس آئیں  اور آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا ۔
اس حدیث شریف کا جانب سیدہ نے اس شخص کے جواب میں فرمایا جس نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اگر امیر المومنین حق پر تھے و خلیفہ اول نے انکے حق کو غصب کیاتھا تو امیر المومنین نے اپنے حق کا دفاع کیوں نہیں کیا اور قیام کیوں نہیں فرمایا؟تو جناب سیدہ نے فرمایا کہ امام کی مثال کعبہ کی ہے کہ حجاج کرام طوف کیلئے خود کعبہ کے پاس آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا یہاں بھی لوگ آتے امیر المومنین کی بیعت کرنے نہ یہ کہ امام جاتے ، لوگ امیر المومنین کے پاس نہیں آئے اور راہ کو بھی گم کر بیٹھے۔

2.  امام  پیغمروں کا وارث ہوتا ہے۔

فاطمه زهرا علیها السلام نے فرمایا  :  نَحنُ وَسیلَتُهُ فی خَلقِه وَ نحن خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدسِهِ وَ نَحنُ حُجَّتُهُ فی غَیبِهِ وَ نحن وَرَثَة اَنبیائِه؛ (4) ہم اہلبیت ہی ہیں جو اللہ اور اسکی مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں خدا متعال کے منتخب شدہ اور پاکیزہ افراد ہیں ، خدا کی حجت  ہیں اور اسکے انبیاء کے وارژ ہم اہلبیت ہی ہیں۔
اس اوپر والی حدیث میں جناب سیدہ  نے  امامت کے چار  وظیفوں کو اور ذمہ داریوں کی طرف اژارہ فرمایا ہے ، ایک یہ کہ امام خالق اور اسکی مخلوق  کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہے، دوسرا یہ کہ امام خدا کا منتخب   نمایندہ ہوتا ہے، تیسرا یہ کہ امام زمین پر اللہ کی طرف سے حجت ہوتا ہے اور آکری یہ کہ اسکے انبیاء کا وارث ہوتا ہے جیسا کہ زیارات میں ہم یہی پڑھتے ہیں خصوصا زیارت وارث میں  کہ السلام علیک یا وارث آدم صفوۃ اللہ۔۔۔۔۔۔۔
جس شخص کو لوگوں نے انتخاب کیا تھا اس میں مذکورہ صفات میں کوئی ایک صفت بھی نہیں تھی، جناب سیدہ یہ بات واضح  کر رہی ہیں کہ کہ اگر جانشین خود ہی انتخاب کرنا ہے تو اسکےلئے بھی معیار و ملاک صحیح ہونا چاہئے۔

3. امام   امت کیلئےنظم و اتحاد  کا سبب ہوتا ہے

حضرت زهرا علیها السلام نے اپنے فصیح و بلیغ خطبہ میں فرمایا :  فَجَعَلَ اللّهُ...طاعَتَنا نِظاماً لِلملةِ وَ اِمامَتَنا اَماناًلِلفُرقَة؛  (28)خداوند  متعال  ہماری(اهل بیت)    کی پیروی کو امت  اسلامی کا نظام قرار دیا ہے ، اور ہماری ولایت و امامت کو عامل وحدت قرار دیا ہے اسی کو سبب بنایا ہے کہ امت اسلام فرقوں میں تقسیم نہ ہو ۔
ایک اور مقام پر اس عامل وحدت یعنی امامت و ولایت کی طرف  اشارہ کر کے فرماتی ہیں : اَمَا وَ اللّهِ لَو تَرَکُوا الحَقَّ عَلَی اَهلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِترَةَ نَبیّهِ لَمَا اختَلَفَ فِی اللّهِ اثنَان؛ (5) خدا کی قسم اگر لوگ حق امامت کو اسکے اہل  کو دے دیتے اور عترت رسول خدا کی اطاعت کرتے تو  خدا کے بارے (اور اسکے احکام )  کے بارے اس عالم میں دو افراد بھی اختلاف نہ کرتے ۔
یہ حدیث شریف یہ بیان کرتی ہے   امامت امام بر حق  صرف امت کی  اجتماعی و سیاسی  وحدت کا سبب ہے بلکہ امت اسلام کی اعتقادی و عقیدتی وحدت کا سبب بھی ہے، ائے کاش امامت کو امام بر حق  کے پاس رہنے دیتے تو بشریت بالعموم اور امت اسلام  بالخصوص  اس سعادت سے  محروم نہ ہوتی۔
فاطمہ زہراء کے اقوال  جن میں فضائل امیر المومنین بیان فرمائے .

1.علی میرابهترین خلیفه ہے.

حضرت زهرا علیها السلام نے اپنے والد محترم جناب رسول خدا  صلی الله علیه و آله وسلم  سے نقل کرتے ہوئے فرمایا : علیٌّ خیر من أخلّفه فیکم؛(6)  علی   سب سے بہتر ہے جسکو مین تمہارے درمیان جانشین بنا کر جا رہا ہوں.
اس حدیث مین پیغمبر اکرم نے اپنے جانشین کی تصریح فرمائی کہ وہ علی ہیں اور تم میں سب سے بہتر ہیں ، لہذا کہیں اور میرا جانشین تلاش نہ کرنا۔یہ حدیث بھی جناب سیدہ نے اس شخص کے جواب میں تلاوت کی جس نے جناب سیدہ  سے تقاضا کیا کہ آیا پیغمبر اکرم نے غدیر کے علاوہ کسی اور جگہ اور کسی اور حدیث مین اپنی جانشینی کا اعلان کیا ہےیا نہ؟ تو جناب سیدہ نے فرمایا کہ ہاں بہت سارے مقامات پر اپنی جانشینی کے بارے فرمایا ہے من جملہ یہ حدیث بھی اپنی جانشینی کے متعلق ہے۔

2.علی رسول اکرم  صلی الله علیه و آله وسلم  کا بھائی ہے .

خطبہ فدکیہ  میں جب آپنے بابا کی معرفی کراتی ہے تو امیر المومنین کی بیی پہچان کراتی ہیں ، کہ اگر میرے بابا کوجانتے ہو تو میرے شوہر امیرالمومنین کو بھی پہچانو فرمایا:اخا ابن عمی دون رجالکم   (7)میرا شوہر  رسول اللہ اور میرے والد کا بھائی ہے  کسی اور کا بھائی نہیں۔
"یہ بات  تو واضح ہے کہ اگر کوئی کسی  کے چچا کا بیٹا ہو ،دوسرے طرفف والا بھی اسکے چچا کا ہی بیٹا ہو گا، لیکن فاطمہ زہراء  سلام اللہ علیہا یہاں پر امیر المومنین کو رسول اللہ کا بھائی معرفی کرا رہی ہیں ، اس نسبت دینے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان یہ تو جانتے تھے  کہ پیغمبر اسلام نے جب مہاجرین و انصار کے درمیان بھائِ چارا ایجاد کیا تو امیر المومنین اور اپنے درمیان  صیغہ اخوت  پڑھا اس کے بعد علی امیر المومنین رسول اللہ کا بھائی معروف ہو گئے ، اس خطبہ  دینے کا مقصد و ہدف  در حقیقت امیر المومنین کی امامت و ولایت کا اثبات کرنا ہے اور یہ اشارات در حقیقت  اسی مقصود کیلئے  براعت استہلال  (8)کی حیثیت  رکھتے ہیں ۔(9)

3.شجاعت امام علی.

فاطمہ زہراء نے امیر المومنین کی شجاعت کے بارے خطبہ فدکیہ میں فرمایا: قذف أخاه فی لهواتها فلا ینکفی حتّی یطأصماخها باصمخه و یخمد لهبها بسیفه پیامبر صلی الله علیه و آله وسلم  اپنے بھائی  علی  کو فتنوں کے درمیان  اور ان درندوں کے منہ میں ڈال دیتے اور امیر المومنین مشرکین  کے ساتھ اس وقت تک جنگ  کرتے جب تک  انکے بڑوں کو اپنے پاوں کے نیچے روند نہ ڈالتے ،انکی بھڑکتی آگ کو امیر المومنین اپنی تلوار سے خاموش کرتے۔  (10)

4.عبادت امیر المومنین با  زبان صدیقه طاهره.

جناب سیدہ نے امیر المومنیں کی عبادت کے  بارے فرمایا : مکدوداً فی ذات اللّه، و مجتهداً فی أمر اللّه، قریباً من رسول اللّه سیّد أولیاء اللّه....   لاتأخذه فی اللّه لومة لائمٍ (11)  ۔  علی خدا مین راہ میں سخت کوشش  کرنے والے اور اسکے معاملات میں  بھی  نہایت جدوجہد کرنے والے ، رسول اللہ کے قریب اور اوصیاء الہی کے سید و سردار و آقا ہیں۔۔۔۔۔۔راہ خدا میں کسی کی ملامت  و سرزنش کرنے والے ملامت و سرزنش کی پرواہ نہیں کرتے   ، اس حدیث کا ہدف و مقصد  لوگوں کو بیدار کرنا ہے کہ   جان لو خلیفہ رسول  کو رسول اللہ کے ساتھ کچھ مناسبت ہونی چاہئے ، علی پیغمبر کا بھائی  ہے علی کو بہادری اور عبادت میں دیکھو ، سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا یہی علی  ہی ہیں و خلافت کا اہل وہی ہے جو اس طرح ہو۔


1- .کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ اثنا عشر ، ص 199، خزاز رازی ، علی ابن محمد، ناشر بیدار  1401
2-  شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، مکتبہ آیت اللہ مرعشی  ج 16، ص 211؛ 20 جلدی چاپ ، اول1404  و ہمچنین منہاج البراعہ  خوئی، حبیب اللہ  21 جلدی  ج 20 ص 97 مکتبہ الاسلامیہ تہران  1400 چہارم
3-  بخشی از خطبہ فاطمہ زہرا علیہا السلام(س) در مسجد مدینہ، .رک: الاحتجاج، احمد طبرسی، مشہد، نشر مرتضیٰ اوّل 2 جلدی،1403 ق، ج 1، ص 99؛
4- الامامہ و التبصرہ من الحیرہ، ابن بابویہ ، علی ابن الحسین، ص 1 ناشر مدرسہ الامام المہدی، قم سال 1404 چاپ اول .
5--  کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ اثنا عشر ، ص 199، خزاز رازی ، علی ابن محمد، ناشر بیدار  1401.
6--  فرازی از خطبہ فدکیہ
7-  . اسکا معنی یہ ہے کہ شاعر یا کاتب شروع میں کچھ ایسے مطالب کو ذکر کرتا ہے کہ سننے والے کو پتہ چل جاتا کہ اسکا موضوع اور مقصد کیا ہے یعنی کس موجوع پر اشعاد کو تیار کیا ہے یا کونسا موضوع کتاب میں درج ہے۔
6-  رسا ترین دادخواہی و روشنگری ص 36
9-  فراز از خطبہ مشہور فدکیہ ترجمہ از رسا ترین دادخواہی و روشنگری ص 56
10-  ہمان
11-  خطبہ بہ زنان انصار و مہاجرین معانی الاخبار، صدوق ابن بابویہ، محمد ابن علی  دفتر انتشارات اسلامی، 1403  اول

پاکستان صوبہ سندھ کی ملی یکجہتی کے وائس چیئرمین حافظ امجد نے گزشتہ رات کراچی میں اتحاد امت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے درج ذیل آیت ’’واعتصموا بحبل الله جمیعاً ولاتفرقوا‘‘ کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں امت مسلمہ متحد ہو کر قرآن کی اس آیت پر عمل کریں اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور وہ رسی قرآن کریم ہے۔
 
انہوں نے مزید کہا: "اگر ہم قرآن پر قائم رہیں تو اب کوئی ہمیں تقسیم نہیں کر سکتا۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے "لا الہ الا اللہ" کو قبول کیا اس کا خون مسلمان پر حرام ہے۔
 
 "آج جب ہم دنیا کو دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، مسلمانوں کی مسجد کی دیوار گرائی جا رہی ہے اور مسلم خواتین کی عزت کو داغدار کیا جا رہا ہے۔ لیکن کفر ایک ہی قوم ہے اور وہ مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔
 
انہوں نے مزید کہا: "جب روس افغانستان میں برسراقتدار آیا تو اس نے طیبہ کے لفظ کو ختم کرنا چاہا، لیکن اللہ تعالیٰ نے روس کو شکست دی۔" روس کے بعد نیٹو اور امریکہ آئے اور وہ بھی ناکام ہوئے، اللہ تعالیٰ نے اسلام، اس لباس اور اس قوم کو عزت دی ہے، اس لیے آئیں مل جل کر اتحاد و اتفاق برقرار رکھیں۔
 
 "جب ہم دنیا میں متحد ہو جائیں تو انشاء اللہ کوئی سپر پاور اسلام اور مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتی۔" ہماری تحریک اس محاذ پر ہمیشہ سب سے آگے ہے اور رہے گی۔

اتحاد امت کانفرنس سے  جماعت اسلامی کہ مرکزی نائب امیر جناب اسد اللہ بھٹو نے کہا اس  وقت دنیا میں اسلام و کفر کے درمیان کشمکش ہے اور عالم طاغوت و اس کے دوست اسلام کے خلاف اسلامی مملک کے خلاف صف آرا ہےآپ دیکھے پاکستان پر تو پابندی ہے مگر ہندوستان پر کوئی پابندی نہیں، امریکہ و یورپ جو انسان حقوق کی بات کرتے ہیں وہ بھی خاموش ہے۔

ابھی یہاں ذکر ہورہا تھا شہید قاسم سلیمانی کا جنہوں نے بہت جہدوجد کی امت رسول اللہ ص کے لئےہم ان خراج تحسین پیش کرتے ہے شہید قاسم سلیمانی کو تو شہید کردیا مگر سلمان راشد کو پاکستان سے بھاگ کر لے گےجو اسلام کا دشمن ہے جونبی ص کا دشمن ہے وہ ان کا ہیرہ ہےاور جو مسلمانوں کے حقوق کے لئے لڑرہا تھا اس کو شہید کردیا اور کسی انسان حقوق کے ادارے نے اس پر بات نہیں کی ، 

آج جو کچھ شام میں ہوا اس کا ذمہ دارکون ہے کون ہے امت کو لڑنے والا،پابندی اگر ہوگی تو یا تو ایران پر یا پاکستان پر اسرائیل کے خلاف کوئی  پابندی نہیں ہوگی۔

عراق کے صدر نے  بدھ کو ملک میں داعش کے خلاف جنگ میں قدس فورس کے شہید کمانڈر کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا: کمانڈر سلیمانی مشکل وقت میں ہمارے پاس آئے اور ہمارے ملک کو داعش سے بچانے میں حصہ لیا۔ 

 "برہم صالح" نے یہ باتیں  قدس فورس کے سابق کمانڈر "قاسم سلیمانی" اور نائب "ابو مہدی المہندس" کی شہادت کی دوسری برسی کے موقع پر کہیں۔

انہوں نے اس تقریب میں، جس کا اہتمام الحشد الشعبی نے کیا تھا، داعش اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو شہیدوں کے کردار کے بارے میں گفتگو کی۔

صالح نے خطے میں بحرانوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اسے عراق سمیت سب کی فوری ضرورت قرار دیا۔

عراقی صدر نے کہا کہ "آج ہمیں فتح کو مستحکم کرنے اور اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے راستے کو منقطع کرنے اور قومی امن کے تحفظ کے لیے ایک عظیم قومی ذمہ داری کا سامنا ہے۔"

صالح نے حکومت کی تشکیل پر زور دیا جو ان کے بقول چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو گی۔

کراچی، ارنا - پاکستان کے مفتی اعظم نے امریکی یکطرفہ اقدامات کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی شدید مذمت کی اور انہیں ظالمانہ قرار دیا۔

یہ بات دارالعلوم نعیمیہ اورتنظیم المدارس کے سربراہ مفتی منیب الرحمان نے پیر کے روز کراچی میں تقریب اسلامی مذاہب کے سیکرٹری جنرل حمید شہریاری سے ملاقات کرتے ہوئے کہی۔
اس ملاقات میں ایرانی پارلیمنٹ کے نمائندہ مولوی نذیر احمد سلامی اور کراچی میں ایرانی قونصلیٹ جنرل کے بعض ماہرین اور پاکستان کی قومی یکجہتی کونسل کے عہدیدار بھی موجود تھے۔
پاکستان کے مفتی اعظم نے تقریب مذاہب اسلامی کے وفد کے دورے کراچی اور دارالعلوم نعیمیہ میں ان کی موجودگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایران اور پاکستان کے درمیان مضبوط اور تاریخی مشترکات کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی، ناجائز صیہونی ریاست اور اس کے مغربی اتحادیوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یکطرفہ اور جابرانہ اقدامات کیے ہیں جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔
مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ ہم بین الاقوامی ترقی میں ایران کی حمایت کرتے ہیں اور امریکہ، مغرب اور اسرائیل کی ایران مخالف سازشوں سے آگاہ ہیں۔
انہوں نے ایران کے موقف کو سراہتے ہوئے اور اسلامی مذاہب کے مقدسات کے احترام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی اتحاد و یکجہتی کے فروغ کے لیے عملی اقدامات اور نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مسلمانوں کو اتحاد، رواداری اور تعامل کی ترغیب دینے میں اسلامی علماء بالخصوص شیعہ ماہرین کے کلیدی کردار پر زور دیا۔
انہوں نے تقریب مذاہب اسلامی کے سیکرٹری جنرل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اسلامی فرقوں کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی کوششوں سے دریغ نہیں کریں گے اور سنی برادری کسی بھی قسم کی تفریق سے پاک رہنے کے لیے پرعزم ہے۔
یاد رہے کہ علامہ حمید شہریاری ایک وفد کی قیادت میں پاکستان کے دورے کے آٹھویں روز جنوبی شہر کراچی پہنچ گئے ہیں۔
کراچی میں اپنے قیام کے دوران، اسلامی فرقوں کے سینئر رہنماؤں سے ملاقات کریں گے تاکہ اتفاق رائے کو مضبوط بنانے، اسلامی دنیا کے مسائل، اور اسلامی یکجہتی کو فروغ دینے، خاص طور پر مسلم اقوام اور پڑوسی ممالک ایران اور پاکستان کے درمیان بات چیت کی جائے۔
ہ

 

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے تہران میں شہید قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کی مناسبت سے ایک عظيم الشان اجتماع سے خطاب میں امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ سے قصاص لینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کے مکتب کو قتل، دہشت گردی اور میزائلوں سے تباہ نہیں کیا جاسکتا۔

صدر رئیسی نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کا مکتب درحقیقت حضرت امام خمینی (رہ) اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مکتب کے سلسلے کی اہم کڑی ہے لہذا اس مکتب کو قتل اور دہشت گردی کے ذریعہ خراب نہیں کیا جاسکتا۔

سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ مکتب حاج قاسم سلیمانی میں سب پہلا نکتہ جس پر توجہ مبذول کرنی چاہیے وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ خدا کے لئے فکر کرنا، خدا کے لئےعمل کرنا اور خدا کے لئے میدان میں استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کرنا ہے۔

 ایرانی صدر نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ایک سماجی ، سیاسی ، اجتماعی اور عسکری شخصیت کے حامل تھے ۔ وہ دشمن کے مد مقابل سیسہ پلائی ہوئي دیوار کے مانند تھے لیکن بچوں ، بے گناہوں اور کمزوروں کے حامی اور ہمدرد تھے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی حلال مشکلات تھے وہ خوداعتمادی کے جذبہ سے سرشار تھے وہ اللہ تعالی پر اعتماد اور توکل کے ساتھ آگے بڑھتے تھے۔

صدر رئیسی نے امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کے مجرمانہ اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ اور شہید سلیمانی کے قتل میں ملوث دیگر افراد سے قصاص لیا جائےگا ، انھیں قانون کے حوالے کیا جائےگا انھیں سزا دی جائےگی۔ اللہ تعالی کا حکم ٹرمپ کے بارے میں جاری ہونا چاہیے۔ اگر عالمی قوانین کی روشنی میں انصاف ملا اور ٹرمپ ، پمپئو اور دیگر افراد کو سزا مل گئی تو بہت بہتر ، اگر ایسا نہ ہوا ، تو امت مسلمہ کی آستین سے انتقام کا ہاتھ اگے بڑھے گا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا دےگا۔

صدر رئیسی نے ایرانی حکام پر زوردیا کہ وہ شہید قاسم سلیمانی کی پیروی کرتے ہوئے عوامی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور حقیقی معنی میں عوام کے خدمتگزآر بن جائیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کے مطابق ہندوستان کے ممتاز عالم دین ، لکھنؤ کے امام جمعہ اور مجلس علماء ہند کے جنرل سکریٹری حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید کلب جواد نقوی نے شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس کی دوسری برسی کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کے جذبہ ایثار اورجذبہ قربانی کو تاریخ انسانیت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید کلب جواد نقوی نے کہاکہ شہید قاسم سلیمانی کے خدمات اور ایثار کو تاریخ انسانیت کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔انہوں نے جس طرح اسلام اور انسانیت کی خدمت کی وہ معمولی انسان کےبس کی بات نہیں ہے ۔انہوں نے عراق اور شام سے داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا اور حرمہائے اہلبیت (ع) کی حفاظت کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہے ۔ مولانانے کہاکہ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی مہندس نے کبھی موت کی پرواہ نہیں کی ۔وہ مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح تھے ۔دشمن ان کے نام سے بھی کانپتا تھا ۔انہیں جس طرح بزدلانہ حملے میں امریکی فوج نے شہید کیا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن آمنے سامنے کی لڑائی میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا ۔

مجلس علماء ہند کے سربراہ نے کہاکہ قاسم سلیمانی ائمہ معصومین علیہم السلام کے سچے فدائی اور پیروکار تھے ۔انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کے لیے وقف کردی تھی ۔امام جمعہ لکھنؤ نے کہا کہ ان کی شہادت کے بعد پوری دنیا بحران کا شکار ہے۔شہید کا خون بیکار نہیں جاتا بلکہ اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔

پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل اسماعیل قاآنی نے کہا کہ ایران مزاحمت کی چوٹی پر کھڑا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شہید کمانڈر جنرل سلیمانی نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ .

جنرل اسماعیل قاآنی نے اتوار کے روز تہران میں جنرل سلیمانی کی شہادت کی دوسری برسی کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج تہران مزاحمت، اسلامی انقلاب اور اسلام میں مختلف طبقات کے درمیان اتحاد کی چوٹی پر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہید سلیمانی جیسی مخلص اور دیانتدار شخصیات عالم اسلام میں اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں سب سے آگے تھیں۔

جنرل قاآنی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کے حوالے سے کہا کہ شہید سلیمانی کے مکتب فکر میں دیانت اور اخلاص دو اہم اجزاء ہیں۔

قدس فورس کے کمانڈر نے کہا کہ جنرل سلیمانی دانشمند آدمی تھے جن کے اپنے  لوگوں کے اپنے نظریات تھے اور ایران اور عالم اسلام دونوں میں کئی اعلیٰ شخصیات نے بھی ان کی تعریف کی۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ رہبر انقلاب کے رہنما اصولوں پر عمل کرنا ہی جنرل سلیمانی کے راستے کو جاری رکھنے کا واحد راستہ ہے۔

میدان جنگ اور سفارت کاری کے درمیان بہت اچھا تعلق قائم کرنے میں جنرل سلیمانی کے کردار کو سراہتے ہوئے جنرل قاانی نے کہا کہ ملک کے سفارتی اداروں نے بھی اس طرح ان کے ساتھ اچھا تعاون کیا۔
 
 

 لبنان کی حزب اللہ موومنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے سردار حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کی دوسری برسی کے موقع پر خطے اور اس کی اقوام کی کامیابیوں کے بارے میں گفتگو کی۔

فارس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ قاسم نے کہا کہ شہید سلیمانی کی کامیابیاں بہت زیادہ ہیں، جب انہوں نے مشن سنبھالا تو وسیع تبدیلیاں ہوئیں۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ پہلا اہم نتیجہ 2000 میں مقبوضہ لبنانی علاقوں کی فتح اور آزادی تھا،  اور اس طرح اسرائیلی فوجیں ذلت کے ساتھ جنوبی لبنان سے نکل گئیں۔اور اس کے بعد ہم نے تین فتوحات دیکھیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصار اللہ یمن کی غیرمعمولی طاقت میں پیشرفت ہوئی ہے اور یہ تحریک وسیع پیمانے پر یمن میں کامیاب ہوئی،  2011 میں شام  ناکام ہو جاتا اور تین مہینوں میں ختم ہو جاتا ، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے جو کیا وہ شام میں شاندار مزاحمت اور محاذ آرائی کی تصدیق کرنا تھا، اس کے علاوہ عراق کی حمایت اور  الحشد الشعبی کو قائم کرنا اور داعش کو عراق اور شام سے نکال باہر کرنا تھا۔ اور شہید قاسم  نے لبنان میں حزب اللہ کی بھرپور حمایت کی اور لبنان میں حزب اللہ کو نہیں بھولیں ، یہ تحریک 2006 میں صیہونی حکومت کی جارحیت کے خلاف جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی اور اس جنگ کے آپریشن روم میں شہید قاسم سلیمانی موجود تھے، اور یہ تمام کامیابیاں،  شہید سلیمانی کی کاوشوں اور جہاد کا نتیجہ تھا۔

شیخ قاسم نے اس سوال کے جواب میں کہ شہید حاج قاسم سلیمانی کا نام کس چیز کی یاد دلاتا ہے؟ انہوں نے کہا: شہید حاج قاسم سلیمانی ایک ایسا نام تھا جو خطے اور دنیا کے افق پر چمکا، ان کا نام مجھے ان عظیم ناموں کی یاد دلاتا ہے جو رسول خدا (ص) اور امام حسین (ع) کے ساتھ تھے اور سب سے زیادہ حیرت انگیز۔ مشکل اور مشکل لمحات میں بہادری کی مہاکاوی محاذ آرائی اور جدوجہد کا پتہ چلا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کارکردگی اور جامعیت کے لحاظ سے خطے اور دنیا کی توجہ کے لحاظ سے ایک بے مثال رول ماڈل تھے، خاص طور پر چونکہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای  کے ساتھ ان کا خاص اور مضبوط رشتہ تھا۔

شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔

شیخ قاسم نے مزاحمتی محاذ پر شہید حاج قاسم کے خون کے اثرات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں تاکید کی کہ شہداء کا خون کبھی رائیگاں اور فراموش نہیں ہوتا اور اس کا سب سے بڑا ثبوت شہادت امام حسینؑ کا خون ہے۔ جس نے زندگی، طاقت اور امید پیدا کی اور آج ہم ان فتوحات کا جشن منا رہے ہیں اور اسلامی ایران اور پورے خطے کے لیے یہ الہی کامیابی شہادت امام حسین (ع) کی برکات میں سے ہے اور حج قاسم کی شہادت کی برکات میں سے ہے۔ یہ سیاق و سباق اور ان کی شہادت تمام مجاہدین اور تمام قائدین کے لیے اس تخلیق کردہ راستے کو جاری رکھنے کی تحریک ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت مزاحمت کو اس راستے کو جاری رکھنے کی تحریک دے گی، ان کی شہادت کے اثرات آنے والے سالوں میں ثابت ہوں گے اور اب ان کی شہادت کے دو سال بعد ہم مزاحمت کی مزید مزاحمت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی شہادت مزاحمت کی ترقی اور وسعت کا باعث بنی۔

قدس حاج قاسم کی توجہ میں تھا۔

لبنان کی حزب اللہ تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ سردار سلیمانی کو کس چیز کی زیادہ فکر تھی؟ انہوں نے کہا کہ حج قاسم کی توجہ میں مسئلہ قدس تھا، وہ قدس فورس کے کمانڈر تھے اور خطے میں ان کی تمام کوششیں اور مزاحمت کا محور قدس اور فلسطین کے محور کے گرد تھا کیونکہ قدس فتح کا محور ہے۔ اپنے ملکوں سے غیر ملکیوں کی آزادی اور بے دخلی، یروشلم پر قبضے کا تسلسل خطے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، شہید سلیمانی نے فلسطین کی ہر ممکن مدد کی۔ فلسطین اور بیت المقدس کی مدد درحقیقت پورے خطے کی ان اقوام کی مدد کرنا ہے جو اس خطے میں استکباری امریکہ اور اس کے ایجنٹ صیہونی حکومت کے انجام سے محفوظ نہیں ہیں۔

شیخ قاسم نے افغانستان اور عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کو بھی حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے نتائج اور اثرات میں سے ایک قرار دیا اور کہا کہ ہم نے حاج قاسم کی شہادت کے بعد افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کو دیکھا۔

ایرانی صدر برائے آئینی قانون کے نفاذ اور مواصلات کے امور نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے نام میں ایک خط میں سرکاری اہلکاروں اور سفارت کاروں کے قتل میں ملوثین کی استثنی کو بین الاقوامی امن کو خطرے میں ڈالنا قرار دیتے ہوئے جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوثین کیخلاف قرارداد جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔

نائب ایرانی صدر برائے آئینی قانون کے نفاذ اور مواصلات کے امور نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے نام میں خط کا متن درج ذیل ہے؛

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی؛

جناب چیئرمین اور معزز نمائندگان؛

احترام کے ساتھ،

عراق میں سفارتی مشن انجام دینے والے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے اعلی عہدیدار جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کے ناقابلِ یقین جرم سے دو سال گزر چکے ہیں۔

اس پرتشدد بین الاقوامی جرم کی براہ راست ذمہ داری کو بعد میں اس وقت کے امریکی کی حکومت نے قبول کی تھی۔

امریکہ کی حکومت کی طرف سے یہ خطرناک اقدام، اس وقت سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کا چارٹر؛ جنگ کے بعد کے عرصے میں ایک بنیادی دستاویز اور بین الاقوامی اتفاق رائے کے سلسلے کے طور پر، حکومتوں کو ایسے کاموں میں ملوث ہونے سے منع کرتا ہے جو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے نقصان دہ ہوں۔

بدقسمتی سے، اب کئی سالوں سے، حکومتوں کی اجتماعی زندگی میں ایک ایسے بدقسمت رجحان کا ظہور ہوا ہے جسے امریکہ کی حکومت کی انتہائی یکطرفہ پسندی کہا جاتا ہے، جو کسی بھی بین الاقوامی چارٹر اور بین الاقوامی اصولوں  اور ضوابط کی خلاف ورزی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

بین الاقوامی قانون؛ ماورائے عدالت پھانسیوں، حکومتی اور سفارتی اہلکاروں کے قتل، انسانیت کے خلاف جرائم، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، بشمول زندگی کا حق، طاقت کے استعمال کے حق کی خلاف ورزی، اور انسانی قانون کے اصولوں کی خلاف ورزیوں پر سختی سے پابندی لگاتا ہے۔

جس طرح دوسری جنگ عظیم کا آغاز ایک دہشت گردانہ حملے سے ہوا تھا، اسی طرح عالمی برادری کے اراکین کی طرف سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات میں سے کوئی بھی بین الاقوامی اقدار پر مبنی بین الاقوامی امن و سلامتی کو افراتفری کے ہنگامہ خیز دور میں لا سکتا ہے۔

اب، اقوام متحدہ کا چارٹر ایک بار پھر لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آخری ایام میں ہونے کے دہانے پر ہے؛ اس طرح کہ موجودہ اشتعال انگیز صورتحال کا تسلسل چارٹر کے جسم پر ایک آزاد تیر لا کر اکیسویں صدی کے مصیبت زدہ انسان کو راکھ اور خون سے نگل سکتا ہے۔

بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے، بین الاقوامی انسانی حقوق کے نظام کا احترام کرنے کے لیے، بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے، بین الاقوامی قانون کے عمومی اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے، بشمول مساوات کے اصول، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصول، دوستانہ بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے، بین الاقوامی برادری کی یکجہتی کو برقرار رکھنے، جارحیت کے عمل کی مذمت، انسانیت کے خلاف جرائم کی مذمت اور زندگی کی دنیا میں قانون کی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ سپریم اسمبلی اپنے اختیارات کے اندر تمام قانونی اقدامات کرے، جس میں حکومت کی طرف سے حکومتی اور سفارتی اہلکاروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قرارداد کی منظوری بھی شامل ہے، تاکہ مستقبل میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ بلاشبہ دہشت گردی کے جرم کے مرتکب افراد کی نافرمانی اور انہیں کسی بھی قسم کی مذمت اور عدالتی سزا سے استثنیٰ بین الاقوامی امن کو مزید  ابتر حالت میں ڈال دے گا۔

نائب وزیر برائے مواصلات اور آئین کے نفاذ کے امور

اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر برائے قانونی امور

تقريب خبررسان ايجنسی