سلیمانی

سلیمانی

1۔ آپ ہمیشہ سلام میں پہل کرتے تھے۔
2۔ بڑوں کا ہمیشہ احترام اور چھوٹوں پر ہمیشہ شفقت کیا کرتے تھے۔ 
3۔ مسافروں کا ہمیشہ خیال رکھا کرتے تھے۔
4۔ راستہ چلتے وقت وقار و متانت سے قدم بڑھاتے تھے۔
5۔ آپ کی نگاہیں ہمیشہ جھکی رہتی تھیں۔
6۔ جب بھی کسی سے ہاتھ ملاتے تو جب تک دوسرا اپنا ہاتھ نہ کھینچتا تو اس وقت تک آپ اس کا ہاتھ تھامے رکھتے تھے۔
7۔ لوگوں سے اس طرح گھل مل کر رہتے تھے کہ ہر ایک یہ گمان کرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے زیادہ مجھے چاہتے ہیں۔
8۔ ہمیشہ سکوت کو اپنا وطیرہ بناتے تھے اور ضرورت بھر سے زیادہ گفتگو کرنے سے اجتناب فرماتے تھے۔
9۔ جب بھی کسی سے ہم کلام ہوتے تو مکمل اس سے روبرو ہو کر گفت و شنید کیا کرتے تھے۔
10۔ جب بھی کسی سے محو گفتگو ہوتے تو اس کی باتوں کو غور سے سنا کرتے تھے۔

11۔ جب بھی کسی کے ساتھ بیٹھ جاتے تو جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھتا، اس وقت تک آپ اس کے احترام میں بیٹھے رہتے تھے۔
12۔ آپ جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے تو ہمیشہ آپ کی زبان پر ذکر خدا ہوتا تھا اور جب بھی آپ کسی کے ہاں جاتے تو تین مرتبہ اجازت طلب کرتے تھے۔
13۔ آپ جب بھی کسی اجتماع میں تشریف لے جاتے تو دروازے کے قریب تشریف فرما ہوتے تھے۔
14۔ جب بھی آپ کے ہاں کوئی مہمان آتا تو آپ اسے خدا حافظی کرنے دروازے تک جایا کرتے تھے۔
15۔ آپ جب بھی جہاد کے لئے ایک گروہ کو بھیجتے تو ان میں سے ایک شخص کو اس لشکر کا سربراہ معین کرتے اور ان کے ساتھ اپنے کسی قابل اعتماد شخص کو بھی حالات سے آگاہ کرنے کے لئے بھیجتے تھے۔
16۔ آپ اپنے لیے کسی خاص جگہہ کا چناؤ کبھی بھی نہیں کرتے تھے۔
17۔ آپ دوسرے لوگوں کو بھی اجتماعی مقامات پر اپنے لئے خاص جگہہ کا چناؤ کرکے رکھنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔
18۔ لوگوں کی موجودگی میں کبھی بھی آپ لیٹتے تھے۔
19۔ اکثر آپ قبلہ رو ہوکر تشریف فرما ہوتے تھے۔
20۔ آپ کے سامنے اگر کسی سے غلطی سے کوئی برا کام سرزد ہو جاتا تو آپ اسے نادیدہ قرار دیتے تھے۔

21۔ کسی کی غلطی کو کبھی بھی کسی اور کے سامنے نہیں دہراتے تھے۔
22۔ کسی سے باتیں کرنے میں اگر بے ادبی ہو جاتی تو آپ اس کا مؤاخدہ نہیں کرتے تھے۔
23۔ آپ کسی سے بھی جھگڑا فساد نہیں کرتے تھے۔
 24۔ فضول اور لایعنی باتوں کے علاوہ آپ کسی کے کلام کو بھی قطع کلامی نہیں کرتے تھے۔
25۔ جب بھی آپ سے کوئی سوال ہوتا تو آپ اس کے جواب کو چند بار تکرار فرماتے تھے، تاکہ سننے والے کو جواب کے سننے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
26۔ جب بھی کسی کی غلط بات آپ کی کانوں سے ٹکراتی تو آپ اس کا نام لیکر  ملامت کرنے کے بجائے فرماتے تھے کہ بعض لوگوں کو کیا ہوا ہے، معلوم نہیں کہ ایسا کہتے ہیں۔
27۔ آپ کا رہن سہن اکثر غریبوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔
28۔ آپ اکثر و بیشتر غریبوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔
29۔ غلاموں اور کنیزوں کی دعوت کو آپ کبھی نہیں ٹھکراتے تھے۔
30۔ کوئی بھی جب آپ کو معمولی سا بھی تحفہ دیتا تو آپ اسے قبول فرماتے تھے، خواہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں نہ ہو۔

31۔ سب سے زیادہ صلہ رحمی بجا لایا کرتے تھے۔
32۔ اپنے رشتہ داروں کو دوسروں پر برتری دیئے بغیر ان کے ساتھ نیکی کیا کرتے تھے۔
33۔ اچھے کام انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور برائی کا ارتکاب کرنے والوں کو اس کام سے روکتے تھے۔
34۔ لوگوں کے دین و دنیا کی اصلاح سے متعلق امور ان کے لیے بیان فرماتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ حاضرین غائبین تک میری ان باتوں کو پہنچا دیں۔
35۔ جب بھی کوئی اپنے کیے پر معذرت چاہتا تھا تو آپ اسے قبول فرماتے تھے۔
36۔ آپ کسی کو بھی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔
37۔ آپ نے کبھی کسی کی بدگوئی نہیں کی۔ 
38۔ آپ نے کبھی کسی کو غلط نام سے نہیں پکارا۔
39۔ آپ کے ارد گرد بیٹھنے والوں میں سے کسی کے بارے میں بھی آپ نے نفرین نہیں کیں۔
40۔ لوگوں کی عیب جوئی سے آپ ہمیشہ اجتناب کرتے تھے۔

41۔ دوسروں کی کوتاہیوں کو صبر و تحمل سے برداشت کرتے تھے۔
42۔ بدی کا بدلہ اچھائی سے دیا کرتے تھے۔
43۔ مریضوں کی عیادت کیا کرتے تھے، خواہ اس امر کے لیے آپ کو مدینے کی دور ترین جگہہ تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
44۔ اپنے اصحاب سے مشاورت کیا کرتے تھے، انہیں اس امر کی تاکید بھی کرتے تھے اور آخر میں آپ اپنے فیصلے پر عمل کرتے تھے۔
45۔ اپنے ساتھیوں کے درمیان میں ایسے تشریف فرما ہوتے تھے کہ جب بھی کوئی اجنبی وہاں پہنچتا تو وہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کون ہیں۔
46۔ اپنے عہد و پیمان کو ہمیشہ پورا کیا کرتے تھے۔
47۔ جب بھی کسی فقیر کی مالی مدد کرتے تو کسی کے حوالے کرنے کے بجائے آپ خود اپنے دست مبارک سے عطا فرماتے تھے۔
 48۔ اگر نماز کے دوران میں کوئی آپ سے ملنے آتا تو آپ  نماز کو مختصر کیا کرتے تھے۔
49۔ دوران نماز میں اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپ نماز کو مختصر کیا کرتے تھے۔
50۔ جب بھی کسی بچے کو آپ کے پاس دعا کی خاطر یا نام گزاری کے لئے لے آتے تو آپ ان کے احترام میں بچے کو گود میں لیتے اور بسا اوقات بچہ آپ کی گود میں بول و براز کرتا تو اس کے گھر والوں کو اسے ڈانٹنے سے منع کرتے اور ان کے احترام میں ان کے واپس جانے کے بعد آپ اپنے لباس کو پاک کرتے تھے۔

51۔ آپ کو جب بھی کسی پریشانی کا سامنا ہوتا تو فوراً مشغول عبادت ہو جاتے تھے۔
52۔ آپ کے نزدیک زیادہ عزیز وہ افراد تھے، جو دوسروں کے ساتھ زیادہ اچھائی کیا کرتے تھے۔
53۔ کوئی بھی شخص آپ کے ہاں سے مایوس ہو کر واپس نہیں لوٹتا تھا۔
54۔ آپ حکم دیا کرتے تھے کہ جن لوگوں کی حاجتیں مجھ تک کوئی پہنچانے والا نہیں، ان کی حاجتیں مجھ تک پہنچایا کرو۔
55۔ جب بھی کوئی سائل آپ کے پاس کوئی حاجت لے کر حاضر ہوتا تو آپ مقدور بھر اس کی مدد فرماتے، بصورت دیگر آپ اپنی دلنشین باتوں اور آئندہ اس کی مدد کرنے کی یاد دہانی کے ذریعے اسے خوش کرکے  واپس لوٹاتے تھے۔
56۔ آپ جنگ کے لئے جاتے وقت سب سے آخر میں نکلتے تھے، تاکہ چلنے میں کمزور افراد کو اپنے ہمراہ لے جاسکیں۔
57۔ جب بھی آپ کسی سواری پر سوار ہوتے تو کسی اور کو پیدل آپ کے ہمراہ آنے سے منع کرتے تھے، یا اسے اپنے ہمراہ سواری پر سوار کرتے، بصورت دیگر اسے حکم دیتے کہ جلدی آگے بڑھ کر اگلے پڑاؤ پر آپ کا انتظار کریں۔
58۔ جب بھی کسی نے آپ سے کسی چیز کا تقاضا کیا تو آپ نے اسے رد نہیں کیا، مگر یہ کہ اس کا یہ تقاضا غلط کام سے متعلق ہو۔
59۔ اچھے برتاؤ کے ذریعے برے لوگوں کو اپنی طرف جذب کر لیتے تھے۔
60۔ آپ کی زبان پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، البتہ آپ کا قلب مبارک ہمیشہ خوف الہیٰ سے لبریز ہوتا تھا۔

61۔ آپ قہقہے سے ہمیشہ اجتناب کیا کرتے تھے۔
62۔ آپ مذاق بھی کرتے تھے۔ البتہ مذاق کے ضمن میں فضول باتوں سے اجتناب فرماتے تھے۔
63۔ کسی کا اگر نامناسب نام ہوتا تو اسے تبدیل کرکے آپ اس کے لیے اچھے نام کا انتخاب کیا کرتے تھے۔
64۔ آپ کا صبر و تحمل ہمیشہ غصے پر غالب رہتا تھا۔
65۔ دنیوی کسی چیز کے ہاتھ سے جانے سے نہ آپ پریشان ہوتے تھے اور نہ ہی آپ کو غصہ آتا تھا۔
66۔ آپ کے نزدیک سب سے منفور عادت جھوٹ تھی۔
67۔ خوشی اور غم دونوں حالتوں میں پل بھر کے لیے بھی آپ ذکر خدا سے غافل نہیں ہوتے تھے۔
68۔ آپ اپنے پاس درہم و دینار میں سے کوئی بھی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے۔
69۔ زمین پر تشریف فرما ہوتے، وہیں پر غذا تناول فرماتے اور زمین پر سویا کرتے تھے۔
70۔ لباس اور کھانے پینے والی چیزوں میں اپنے خدمت گاروں سے زیادہ کوئی چیز آپ کے پاس نہیں تھی۔

71۔ چھوٹی سی نعمت کو آپ بڑی نعمت سمجھتے تھے اور کسی بھی نعمت کی مذمت نہیں کرتے تھے۔
72۔ جو بھی کھانے پینے کی چیزیں آپ کے سامنے لائی جاتیں تو آپ بغیر کسی اعتراض و تمجید کے اسے تناول فرماتے تھے۔
73۔ دسترخوان پر جب آپ تشریف رکھتے تو اپنے سامنے سے غذا تناول فرماتے تھے۔
74۔ کھانے کے لئے دوسروں سے پہلے حاضر ہوتے اور سب سے آخر میں کھانے سے ہاتھ اٹھاتے تھے۔
75۔ جب تک بھوک نہ لگے، اس وقت تک آپ کچھ تناول نہ فرماتے اور مکمل پیٹ بھرنے سے پہلے آپ کھانے کو ترک کرتے تھے۔
76۔ آپ نے کبھی بھی دو طرح کے کھانے ایک ساتھ تناول نہیں فرمائے۔
77۔ حتی الامکان آپ اکیلے کھانا کھانے سے اجتناب کرتے تھے۔
78۔ کھانے کے بعد ہاتھوں کو دھوتے اور ہاتھوں کو چہرے پر ملتے تھے۔
79۔ آپ اپنے لباس اور جوتوں کو خود پیوند لگایا کرتے تھے۔
80۔ آپ اپنے دست مبارک سے بکریوں کا دودھ دوہتے اور اونٹوں کے پیروں کو رسی باندھتے تھے۔

81۔ جو بھی سواری فراہم ہوتی، اسی پر سوار ہوتے تھے۔
82۔ جہاں بھی جاتے، آپ اپنی عبا کو بچھا کر سوتے تھے۔
83۔ آپ اکثر سفید لباس زیب تن فرماتے تھے۔
84۔ جب بھی آپ نیا کپڑا زیب تن کرتے تو پرانا لباس غریبوں کو عطا فرماتے تھے۔
85۔ آپ اپنے سب سے اچھے لباس کو جمعے کے دن کے لیے مختص کرکے رکھتے تھے۔
86۔ کپڑے اور جوتے پہنتے وقت ہمیشہ داہنے جانب سے پہننا شروع کرتے تھے۔
87۔ بالوں کو گھنگریالہ حالت میں چھوڑے دیکھ کر آپ کراہت محسوس کرتے تھے۔
88۔ آپ ہمیشہ خوشبو استعمال کیا کرتے تھے اور آپ کا سب سے زیادہ خرچہ عطر خریدنے کا تھا۔
89۔ آپ ہمیشہ باوضو رہتے تھے اور وضو کرتے وقت مسواک کیا کرتے تھے۔
90۔ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز تھی اور نماز کی حالت میں آپ اطمینان و سکون کا احساس کرتے تھے۔

91۔ ہر مہینے کی چودھویں، پندرھویں اور سولہویں کو آپ روزہ رکھا کرتے تھے۔
92۔ اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی بھی نعمت کو آپ بہت بڑی نعمت سمجھتے تھے۔
93۔ نہ کسی کی ملامت کرتے تھے اور نہ کسی کی خوشامد کرتے تھے۔
94۔ لوگوں کے عیبوں کے بارے میں جستجو کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔
95۔ کسی کو بھی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔
96۔ کسی کو بھی غلط لقب سے نہیں پکارتے تھے اور بدگوئی سے بھی ہمیشہ اجتناب کرتے تھے۔
97۔ آپ نے ذاتی امور میں کسی سے انتقام نہیں لیا، مگر یہ کہ حق کی بے حرمتی کا خطرہ ہو۔
98۔ آپ اپنے اصحاب کے احترام اور ان کا دل مول لینے کے لئے انہیں کنیہ و القاب سے پکارتے تھے، جن کے لئے کنیہ اور لقب نہ ہو تو ان کے لئے کنیہ قرار دیتے تھے۔ اسی طرح بے اولاد خواتین کے لئے بھی کنیہ معین کرتے تھے، تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔
99۔ آپ اپنے اصحاب کی طرف دیکھنے میں بھی مساوات سے کام لیتے تھے۔
100۔ آپ اپنے اصحاب کے سامنے کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں رکھتے تھے۔

101۔ جب بھی آپ کی اکلوتی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام آپ کے پاس تشریف لے آتیں تو آپ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ابن عباس کی نقل کے مطابق آیہ تطہیر کے نزول کے بعد سے 9 مہینے تک آپ ہر پنجگانہ نماز کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے گھر کے پاس جا کر اپنی اہل بیت کو سلام کرنے کے بعد آیہ تطہیر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ  اپنے آخری وقت میں دو گراں بہا چیزیں امت کے پاس امانت چھوڑ گئے، جن میں سے پہلی قرآن مجید اور دوسری آپ کی اہل بیت ہیں۔ آپ نے ان دونوں سے متمسک رہنے، دونوں میں جدائی نہ ڈالنے اور قرآن و اہل بیت کی پیروی کرتے رہنے کی وصیت فرمائی۔

102۔ آپ حضرت امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنی گود میں بٹھاتے، ان سے پیار کرتے، ان کا بوسہ لیتے اور فرماتے کہ یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد گرامی ان سے بھی افضل ہیں، یہ دونوں دنیا میں میری خوشبو ہیں۔ جو بھی ان دونوں سے محبت کرے تو اس نے مجھ سے محبت کی ہے۔
103۔ گھریلو اوقات کو آپ نے تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا، ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لئے، ایک حصہ اہل و عیال کے لئے اور ایک حصہ اپنی ذات کے لئے۔ پھر اپنی ذات سے مختص وقت میں سے آپ لوگوں کے لئے بھی وقت نکالتے تھے۔
104۔ پردے دار دوشیزاؤں سے بھی زیادہ آپ باحیا تھے۔
105۔ آپ امانت کو واپس لوٹاتے تھے، خواہ وہ سوئی کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔
106۔ رمضان المبارک میں جو کچھ آپ کے پاس ہوتا، اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے۔

107۔ آپ ہر وقت آئینے یا پانی میں دیکھ کر بالوں میں کنگھی کیا کرتے اور جب بھی گھر والوں کے پاس یا اصحاب کے پاس جاتے تو آراستہ ہوکر جاتے تھے۔
108۔ پانی پیتے وقت داہنے ہاتھ میں پانی اٹھاتے، اسے تین گھونٹ کرکے پیتے اور ابتدا میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد للہ کا ورد کرتے تھے۔
109۔ آپ جب بھی تین دن تک کسی برادر مؤمن کو نہ دیکھتے تو اس کا حال احوال دریافت کرتے، اگر وہ سفر پر ہو تو اس کے حق میں دعا کرتے، ورنہ اس سے ملنے جاتے۔ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرتے۔
110۔ آپ اللہ کے حضور آہ و زاری کرتے، نیک آداب اور مکارم اخلاق کے حصول اور بداخلاقی سے دور رکھنے کی دعا کرتے تھے۔
الغرض خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر عمل ہمارے لئے بہترین اسوۂ حسنہ ہے اور آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور سرخرو ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق اور آخرت میں آپ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے، آمین

تحریر: ایس ایم شاہ

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سےعام عدالتوں، انقلاب اسلامی عدالتوں ، فوجی اور خصوصی عدالتوں سے سزا پانے والے 3458  قیدیوں کی سزاؤں میں کمی اور عفو کی در‍خواست موافقت کی ہے۔

عدلیہ کے سربراہ  حجۃ الاسلام والمسلمین محسنی اژہ نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے  رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نام ایک خط میں درخواست کی تھی کہ قیدیوں کی سزاؤں میں کمی اور بخشش سے متعلق مرکزی کمیشن نے 3458  قیدیوں کو سزاؤں میں کمی اور بخشش کا مستحق قراردیا ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بنیادی آئین کی دفعہ 110 کی شق 11 کے تحت اس درخواست کو منظور کرلیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابرہیم رئیسی نے عید میلاد النبی (ص) اور حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت  اور ہفتہ وحدت کی مناسبت سے اسلامی ممالک کے سربراہان اور تمام مسلمانوں کو مبارکباد کا پیغام ارسال کیا ہے۔ ایرانی صدر رئیسی نے اپنے پیغام میں پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت کو نمونہ عمل بنانے اور اسلامی مشترکات پر عمل کرنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان کو  پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت پر عمل کرکے اسلام کی سرافراز اور سربلندی کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی کی موجودگي میں تہران میں 35  ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس کا آغاز ہوگيا ہے۔ تہران میں 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 52 اسلامی ممالک کے علماء اور دانشور شریک ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس " اسلامی اتحاد، صلح اور عالم اسلام میں تفرقہ اور تنازعات سے پرہیز" کے عنوان سے منعقد ہورہی ہے۔

اسلامی وحدت کانفرنس پارسیان آزادی ہوٹل میں ہورہی ہے۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 52 ممالک کے علماء اور دانشور حضوری اور آن لائن شریک ہیں ۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس کا سلسلہ 19 اکتوبر سے لیکر 24 اکتوبر تک جاری رہےگا۔

عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 39 ممالک سے  514 تقریریں مختلف موضوعات پر پیش کی جائیں گی ، جن میں اسلامی اخوت اور دہشت گردی سے مقابلہ اور تفرقہ و تنازعات سے پرہیز کے موضوعات بھی شامل ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق آج کے دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 جبکہ صوبائی دارالحکومتوں لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں 21، 21 توپوں کی سلامی سے ہوا۔

اس موقع پر مساجد میں دین اسلام کی سر بلندی، مسلم امہ کے اتحاد، یکجہتی، ترقی و فلاح کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔

میلاد مصطفیٰ ﷺ کے سلسلے میں حکومتی اور مذہبی تنظیموں، میلاد کمیٹیوں اور لوگوں کی جانب سے جلسے جلوس، سیرت النبی ﷺ کانفرنسز، سیمینار سمیت مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں علما، آئمہ حضرات مساجد میں سیرت النبی ﷺ اور حیات طیبہ پر روشنی ڈال رہے ہیں۔

رحمت اللعالمین ﷺ کی ولادت کے دن کی خوشی میں گھروں، دفاتر، مساجد، پارکس، تفریحی مقامات، گلیوں، مارکیٹوں، بازاروں، شاہراہوں کو سبز پرچموں، برقی قمقموں، آرائشی محرابوں، خوبصورت فلیکس سائنز، بینرز، جھنڈیوں اور دیگر زیبائشی اشیا سے دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔

 

اس سال وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر 3 سے 12 ربیع الاول تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر عشرہ رحمت اللعالمین ﷺ منایا جارہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق  رواں سال بھی وزارت مذہبی امور کی طرف سے سرکار دوعالم ﷺ کی سیرت طیبہ اور حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے کتب سیرت، کتب نعت، مقالات سیرت اور خواتین کے لیے مذہبی کتب کے مقابلے منعقد کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں اور فارن مشنز میں بھی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے سیرت کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا۔

12ربیع الاول کے موقع پر ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے، علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے غیر سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی سزاؤں میں 3 ماہ کی تخفیف بھی کی گئی۔

علاوہ ازیں عیدمیلاد النبی ﷺ کی تمام تقاریب کے انعقاد کے موقع پر کووڈ 19 کے ایس او پیز کا مکمل طور پر خیال رکھا جائے گا جبکہ اس سلسلے میں سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات اور ٹریفک پلانز جاری کیے گئے ہیں۔

 
 

المسیرہ نیوز کے مطابق انصاراللہ اور حوثی رہنما سیدعبدالملک بدرالدین الحوثی نے پیغام میں گذشتہ روز کہا تھا کہ امید ہے اس سال بھی لاکھوں یمنی جشن میلاد النبی کی ریلی میں شرکت کریں گے اور عشق نبی آخر الزمان میں اپنی عقیدت کا ثبوت دیں گے۔

 

رپورٹ کے مطابق صنعا میں جشن میلاد میدان «السبعین» میں منایا گیا اور ریلی نکالی گئی۔

 

پیر کے روز صبح ہی سے لاکھوں افراد میدان میں جمع ہوئے جو مختلف شہروں سے پرچموں کے ساتھ شریک تھےاور انہوں نے مختلف بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔

 

یمن میں میلن مارچ ریلی اور جشن میلادالنبی(ص)

جشن کمیٹیوں کے مطابق صعدہ شہر میں بھی خصوصی طور پر جشن کا اہتمام کیا گیا تھا جبکہ میدان «المیناء» جو صوبہ «الحدیده»،  «بنی مشطاء» جنوب مغربی  شهر «شفر» صوبہ «حجة»، صوبہ عمران کے اسپورٹس اسٹیڈیم، شهر الحزم صوبہ الجوف، میدان «هران» صوبہ ذمار، یونیورسٹی میدان «إب» اور شهر «یریم» میں بھی جشن میلاد کا اہتمام کیا گیا تھا۔

 

کمیته‌های سازمان‌دهنده این مراسم پرشکوه در استان‌های تعز، المحویت، ریمة، مأرب، البیضاء، الضالع نیز مکان‌های اختصاص یافته برای این گردهمایی مردمی را اعلام کرده‌اند و در خصوص آن اطلاع‌رسانی‌های لازم را انجام داده‌اند.

 

دارالحکومت کے مرکزی میدان الثورہ اسٹیڈیم میں مرکزی جشن کا اہتمام تھا جبکہ خواتین کی ریلی بھی اس موقع پر نکالی گیی۔

 

علما کرام نے میلاد نبی مکرم اسلام(ص) نے یمنی عوام سے جشن میں بھرپور شرکت کی دعوت کی تھی۔

 

 

علما کے بیان میں کہا گیا تھا کہ میلاد پیامبر اکرم(ص) وحدت امت اور فرقہ واریت سے دوری کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔

 

علما نے بیان میں افغانستان میں داعش کے حملوں کی بھی شدید مذمت کی ۔

 

جشن میلاد نبی گرامی اسلام(ص) یمن میں اس حال میں بھرپور طریقے سے منایا جارہا ہے جہاں یہ غریب پسماندہ ملک چھ سالوں سے سعودی الائنس کے حملوں کا سامنا کررہا ہے اور شدید اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے۔/

ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شیعہ رہنما علامہ سید ساجد علی نقوی نے عید میلادالنبی کی مناسبت سے 12 تا 17 ربیع الاول ملک بھر میں ”ہفتہ وحدت و اخوت“ منانے کا اعلان کرتے ہوئے عالم اسلام سمیت مسلمانان پاکستان کو مبارک باد پیش کی ہے اور کہا کہ حکم قرآنی اورسنت خاتم النبین کا تقاضا ہے کہ امت محمدی کی وحدت اور اتحاد کے لئے کام کیا جائے اور موجودہ پرفتن اور سنگین حالات میں پیغمبر گرامی کی سیرت سے درس لیتے ہوئے باہمی اختلافات اور فروعی و جزوی مسائل کے حل کے لئے امن‘ محبت‘ رواداری‘ تحمل اور برداشت کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ امت مسلمہ میںمسلکی تفریق و اختلافات کے خاتمے‘ امن و آشتی کے فروغ کا راستہ اپنا کر ہم خالق کائنات اور منجی بشریت‘ رحمت اللعالمین کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔

انہوں نے تاکید کی کہ خاتم المرسلین اور حضرت امام جعفر صادق ؑکے میلا د کا جشن منانے کا سب سے بہتر اور موزوں طریقہ یہ ہے کہ امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم حضور اکرم اور خانوادہ رسالت کی سیرت اور فرامین پر عمل کرے اور اپنی انفرادی‘ اجتماعی‘ روحانی‘ دینی و دنیاوی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے حضور اکرم کے اسوہ حسنہ کو نمونہ عمل قرار دے۔

انکے پیغام  میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی سیرت عالیہ کی شکل میں عمل کیلئے جو اثاثہ ہمارے لئے چھوڑا ہے اس پر صحیح معنوں میں عمل کرنا ہی ہمارے لئے باعث نجا ت ہے۔ قرآنی تعلیمات اور اسلام کی عملی تعبیر کے لئے ہمیں سیرت رسول اکرم سے استفادہ کرنا ہوگا ۔ بدقسمتی سے امت مسلمہ عملی طور پر ان تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہے جس کی وجہ سے مسلسل مصائب و آلام میں مبتلا ہے۔

علامہ ساجد نقوی نے عوام اور کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ ہفتہ وحدت کے دوران تمام مسالک اور مکاتب فکر کے مابین وحدت و یگانگت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لئے مشترکہ پروگرامز اور اجتماعات منعقد کریں اور سینکڑوں مشترکات کو بنیاد بناکر معمولی اور جزوی نوعیت کے اختلافی مسائل کو پس پشت ڈال کر ملت اسلامیہ کی وحدت کا عملی مظاہرہ کریں اور انسانیت دشمن عناصر پر واضح کردیں کہ وہ اتحاد و وحدت کو کسی صورت نقصان نہیں پہنچاسکتے۔

عقل، احکام اسلام کی ضرورت، رسول اکرمؐ اور امیر المومنینؑ کا رویہ اور آیات و حدیث کے مفاد سے، حکومت اسلامی کی تشکیل واجب اور لازم ہے۔ بطور نمونہ ایک روایت امام رضاؑ سے نقل کرتا ہوں۔ حدیث کا آخری حصہ ہمارےمطلب کے لئے مفید ہے اس لئے اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔

خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟

’’ اگر کوئی پوچھے کہ خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟ جن کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔ اس کا جواب یوں دینا چاہئے کہ بہت سی حکمتوں اور دلیلوں کے پیش نظر خدا نے ایسا کیا ہے، ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کو ایک طریقہ کا پابند کر دیا گیا ہے اور یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اس کے حدود و قوانین سے آگے نہ بڑھیں ورنہ مبتلائے فساد ہوجائیں گے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک فرد (یا قدرت) ان کے لئے امین و پاسبان نہ ہو، جس کا فریضہ ہو کہ لوگوں کو ان کے حقوق سے آگے نہ بڑھنے دیں۔ دوسروں کے حقوق پر کوئی ظلم و تعدی نہ کر سکے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو لوگ اپنی لذت و منفعت کے حصول کے لئے دوسروں پر ظلم سے باز نہیں آئیں گے۔

ایک دلیل یہ بھی کہ دنیا کہ دنیا کے مختلف فرقوں اور مذہبوں میں کسی بھی ملت یا مذہب یا فرقے کا وجود بغیر رئیس کے ممکن نہیں ہوا ہے (اس لئے مسلمانوں میں بھی ایک حاکم اور رئیس ہونا چاہئے) کیونکہ دین و دنیا کے امور میں ایسے شخص کا وجود ضروری ہے۔

اسی لئے خدا خدا وند عالم کی حکمت میں یہ بات نا جائز ہے اپنے بندوں کو بغیر رہبر اور سرپرست کے چھوڑ دے۔ کیونک خدا جانتا ہے کہ مخلوق کے لئے ایسا رہبر ہونا ضروری ہے جو دشمنوں سے جنگ کر کے آمدنی کو ان کے درمیان تقسیم کرے، ان کے جمعہ و جماعت قائم کرے، مظلوموں کے دامن تک ظالموں کے ہاتھوں کو نہ پہنچنے دیں۔ علاوہ بر ایں

رہبر و امام کے تعیین کا فلسفہ

خدا اگر مخلوق کے لئے امام، امین، رہبر اور حافظ معین نہ کرے تو ملت کہنہ ہوجائے، دین برباد ہوجائے، سنت اور اس کے احکام متغیر ہو جائیں، بدعتی لوگ دین میں اضافہ کر دیں، ملحدین کمی کر دیں۔ اور اس طرح کر دیں کہ دین مسلمانوں پر مشتبہ ہو کر رہ جائے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ ناقص ہیں، کمال کے محتاج ہیں، اس کے علاوہ آپس میں اختلافات رکھتے ہیں، ان کے حالات ان کی خواہشیں الگ الگ ہیں۔

لہذا خدا اگر لوگوں کے لئے دین کا قیم اور محافظ معین نہ کرتا تو جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں لوگ فساد میں مبتلاء ہوجاتے، شریعتیں، سنن، احکام، ایمان سب میں تغیر ہوجاتا اور اس میں پوری مخلوق کا فساد ہی فساد ہوتا۔

کتاب: حکومت اسلامی، ص ۲۷ سے ۲۸، امام خمینی رح؛ سے اقتباس

 

آج کی دنیا میں محبت کی بری تعریف پیش کی جاتی ہے ۔یہ عشق جسے بیان کیا جاتا ہے، یہ سچی محبت و عشق نہیں ہے ۔یہ وہ جنسی خواہشات اور شہوت پرستی ہے کہ جسے یہ لوگ ایک خاص شکل میں ظاہر کرتے ہیں ۔ممکن ہے کہ یہ غیر واقعی عشق و محبت ،حقیقی عشق و محبت کی جگہ نظر آئے مگر اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔وہ عشق و محبت جو قابل قدر اور ذی قیمت ہے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے لڑکے اور لڑکی کے درمیان خدا کی پسندیدہ، سچی اور گہری محبت ہے جو ایک دوسرے کی نسبت احساس ذمے داری کے ہمراہ ہوتی ہے۔ 

وہ یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ اب اس نکاح اور ازدواجی زندگی کے بعد ایک جان دو قالب اور ایک ہی منزل کے راہی ہیں اور یہی وہ محبت ہے کہ جس کی بنیاد پر ایک گھرانہ تعمیر کیا جاتا ہے۔

 

 

مادی محبت اور قلبی محبت میں فرق

وہ عشق و محبت جو انسانیت سے میل نہیں کھاتی اور ظاہری چیزوں اور جلد ختم ہونے والی شہوت سے مربوط ہے، اس کی کوئی مضبوط اور مستحکم بنیاد نہیں ہوتی ہے۔ لیکن وہ محبت کہ جو انسانی و بشری اساس پر قائم ہے اور جسے خداوند متعال نے انسانی قلب کو ودیعت کیا ہے اگر اپنی خاص شرائط کے ساتھ کہ جس کی اس اسلامی رشتے ’شادی ‘ میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ، انسانی حیات میں قدم رکھے تو یہ محبت روز بروز زیادہ ہوتی جائے گی۔

 

ایک دوسرے کا احترام

میاں بیوی کو چاہیے کہ اپنی بہترین مشترکہ ازدواجی زندگی کے لئے ایک دوسرے کا احترام کریں۔ یہ احترام، ظاہری اور خانہ پوری کی حد تک نہ ہو بلکہ ایک واقعی اور حقیقی احترام ہو۔(کہ جس میں ایک شریک حیات اور ایک صاحب دل انسان کی عقلی اور فطری توقعات ،امیدوں ،آرزووں ، احساسات اور جذبات کو مدنظر رکھا جاتا ہو ۔)احترام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو القاب و آداب سے بلائیں بلکہ شوہر اپنی شریکہ حیات کی نسبت اور بیوی اپنے سرتاج کے لئے قلبی طور پر احترام کا احساس کرے اور اس کے احترام کو اپنے دل میں زندہ رکھے۔

آپ کو چاہیے کہ اس احترام کو اپنے دل میں محفوظ رکھیں اور ایک دوسرے کی حرمت کا خیال رکھیں ۔ یہ زندگی کو چلانے کے لئے بہت اہم چیز ہے۔اسی طرح میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی اہانت و تحقیر کا کوئی بھی عنصر موجود نہیں ہونا چاہیے۔ (نہ زبانی ، نہ قلبی اور نہ اشارے سے )۔

 

میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کریں

ایک دوسرے کے دل میں محبت کو اس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور گھر میں اعتماد کی فضا بحال کریں۔ جب گھر میں اطمئنان کی فضا قائم ہو گی تو نہ صرف یہ کہ محبت بھی مستحکم ہو گی بلکہ انس والفت بھی اس پیار بھرے ماحول میں جنم لے کر گھر کی فضا میں چار چاند لگا دیں گے۔اطمئنان وہ مضبوط بنیاد ہے کہ جو محبت کو قائم رکھتی ہے ۔اگر میاں بیوی کے درمیان اعتماد کی فضا ختم ہو جائے تو محبت بھی آہستہ آہستہ زندگی سے اپنا رختِ سفر باندھ لیتی ہے۔لہٰذا آپ کو چاہیے کہ ایک دوسرے پر اعتماد کریں ۔


اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی شریکہ حیات یا آپ کا سر تاج آپ سے زیادہ محبت کرے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اس سے وفادار رہیں اور اس کے اعتماد کو بحال کریں ۔وہ چیز جو محبت کو ایک گھرانے میں مکمل طور پر نابود کردیتی ہے وہ میاں بیوی کے درمیان بے اعتمادی ہے۔

محبت وہ قیمتی گوہر ہے کہ جس کے وجود کا انتظام اور اس کی حفاظت کا اہتمام انسانی حیات میں اشد ضروری ہے اور اس کا راستہ یہ ہے کہ بیوی ،شوہر اور شوہر، بیوی پر اعتماد کرے ۔جب دونوں میں اعتماد کی فضا قائم ہوگی تو وفاداری اور اطمئنان کے پروں کے ذریعے یہ گھرانہ سعادت کی طرف پرواز کرے گا اور اس گھر پر محبت بھی اپنی برکتیں زیادہ نچھاور کرے گی۔

زندگی میں (ایک دوسرے کے جسم و جاں سے) وفاداری ایک بہت اہم عنصر ہے ۔اگر ایک بیوی یہ احساس کرے کہ اس کا شوہر اس سے وفادار ہے یا شوہر یہ احساس کرے کہ اس کی بیوی وفاداری کی ایک زندہ مثال ہے تو خود یہ احساس مزید محبت کی پیدائش کا باعث بنتا ہے۔جب محبت وجود میں آتی ہے تو گھر کی بنیادیں بھی مضبوط ہو جاتی ہیں، ایسی مضبوط بنیاد کہ جو سالہا سال قائم رہتی ہے۔

لیکن اگر میاں بیوی یہ احساس کریں کہ اس کی بیوی یا میاں کا دل کسی اور سے لگا ہوا ہے یا وہ یہ احساس کرے کہ وہ سچ نہیں بولتا یا منافقت سے کام لیتا یا لیتی ہے یا وہ احساس کریں کہ ان کے درمیان اعتماد نہیں ہے تو دونوں کے درمیان کتنی ہی محبت کیوں نہ ہو وہ محبت کمزور ہو جائے گی۔


کتاب: طُلوعِ عشق، رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس

آنحضرتکی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے


اہل سنّت بھائیوں کے منابع سےپیغمبر اعظم  ﷺکی سیرت طیبہ اور وحدت
یہاں ہم اختصار کی بنا پر صرف رسول اکرم  ﷺکی سیرت طیبہ سے وحدت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو جاے کہ انھوں نے وحدت کی راہ میں کیا کیا قربانیاں دی ہیں اور ہم جو ان کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ؛ وحدت کی راہ میں کیا قدم اٹھائے ہیں ۔
آنحضرت  ۖکی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے۔ اگر آپ  ان کی الٰہی سیرت اٹھا کر دیکھیں تو ان کی زندگی کے ہر قدم پر وحدت  کے سینکڑوں نمونے نظر آتے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے بلکہ تمام بشر یت کے لئے تا قیام قیامت نمونہ عمل ہے ۔آپ  ﷺکی پاک سیرت میں وحدت واتحاد کے ایسےانمول  نمونے پائے جاتے ہیں جس کی مثال سابقہ امتوں میں نہیں ملتی۔
حد یہ ہے کہ آپ  ﷺے مدینہ تشریف لانے کے فورا بعد  چند اہم اور بنیادی اقدامات انجام دىے، ان میں سے    اىک  قدم مختلف گروہوں ، امتوں اور قوموں کے درمیان وحدت اور اتحاد و اتفاق ایجاد کرنا تھا جو اپنی جگہ بے سابقہ ہے ہم یہاں چند نمونے  ذکرکرتے  ہیں ۔
ا۔امت واحدہ کی تشکیل میں تاریخی دستاویز
اسلام کا نورانی پیام مدینہ آنے کے بعد اس شہر میں مختلف مکاتب سے وابستہ لوگ بسنے لگے تھے ۔ نو مسلموں کے ساتھ ساتھ  یہودی بھی چند قوموں کی شکل میں رہتے تھے ۔ بت پرست اور مشرک اقوام بھی آباد تھیں ۔جب سرور کائنات مدینہ تشریف لائے تو آپ  ﷺنے یہ احساس کیا کہ اس شہر کی اجتماعی زندگی ٹھیک نہیں ہے ، نا منظم ہے اور ہر گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے ،مختلف قبیلوں کے درمیان سخت قسم کے اختلافات اور تنازعے پائے جاتے ہیں ؛ سب سے بڑے دو قبیلے اوس وخزرج کے درمیان دیرینہ خونی دشمنی پائی جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ؛ اب اس حالت میں ہر لمحہ ممکن تھا کہ کوئی نا گوار واقعہ پیش آے ۔
چنانچہ پیغمبر اکرم  ﷺے مدینہ میں رہنے والے تمام  گروہوں کے درمیان باہمی تعاون اور یکجہتی کی وہ عظیم دستاویز پیش کی  جو بعد میں اسلام کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی دستاویز کہلائی ؛ اور مورخین کے مطابق یہ قرارداد آپ  ﷺنے اپنے پہلے خطبے کے فورا بعدپاس کی۔
رسالت مآب  ﷺنے اس قرار داد میں مدینہ شہر میں رہنے والے مختلف گروہوں کے حقوق معین کےا اور یہ قرارداد مسالمت آمیز زندگی گزارنے اور ہر طرح کے ہنگامے اور اختلافات کے جنم لینے اور ان کے درمیان نظم وعدالت کو بر قرار رکھنے کی ضامن بنی ۔اس تاریخی قرارداد کے چند اہم نکات یہ تھے :
(1)       مسلمان اور یہود ایک امت ہیں
(2)       مسلمان اور یہود اپنے دین کی پیروی میں آزاد ہیں
(3)       اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ سب مل کر شہر مدینہ کا دفاع کریں
(4)       مدینہ ایک مقدس شہر ہے جس میں ہر طرح کا خون  خرابہ حرام ہو گا
(5)       اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوںمیں اختلاف پیدا   ہونے کی صورت میں حل وفصل کرنے والے محمد  ﷺہوں گے ۔ اس قرارداد کی تفصیلات  اس طرح بیان کرسکتے ہیں۔
اس تاریخی قرارداد سے دو اہم نکتے ہمارے ذہن میں آتے ہیں جو کسی قوم یا جماعت کے درمیان اتحاد برقرار رکھنے اور یکجہتی پیدا  کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
(1)مذہبی آزادی :  امت مسلمہ کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لئے اہم ترین چیز مذہبی آزادی ہے خواہ اسلامی فرقوں کے درمیان ہو یا اس سے بھی زیادہ وسیع سطح پر مختلف ادیان کے درمیان ہو کہ جس کا خوبصورت ترین نمونہ پیغمبر اکرم  ۖکی سیرت طیبہ میں ہمیں نظر آتا ہے ۔
چونکہ ایک دین میں مختلف فکری مذاہب ، شریعت کے فکری اور عملی احکام میں علماء کے اجتہادات اور قرآن وسنت سے استنباط کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں کہ جس کی ہم سب اجازت دیتے ہیں ،اب اس صورت میں ایک مسلمان کو کامل طور پر یہ اختیار حاصل ہونا چاہئے  کہ وہ اپنی مرضی سے ان اسلامی فرقوں اور مذاہب میں سے اپنی نظر میں جو سب سے افضل ہو اور بروز قیامت پروردگار عالم کے حضور میں جواب گو ہو ؛ اسی مذہب کی پیروی کرے اور کسی کو یہ حق نہیں ہو گا کہ اسے کسی خاص مذہب کے انتخاب پر برا بھلا کہے یا اس کی مذمت کرے ؛ اسی طرح کسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ کسی دوسرے شخص کوکسی خاص مذہب کے انتخاب پر مجبور کرے چونکہ مذہب کا انتخاب ایمان اور قلبی اطمینان کے حصول کے ساتھ وابستہ ہے جو صرف اور صرف حجت اور دلیل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
اور اسی طرح ہر مذہب کو اپنی آراء و نظریات خواہ عقیدتی میدان میں ہو یا فقہی اور عملی میدان میں ؛ پیش کرنے اور اس پر دلیل قائم کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور یہ اس وقت تک مطلوب ہے جب تک بے فائدہ جدل ودشمنی اور ایک دوسرے کی اہانت کى سبب   نه بنے ۔
(2) قومی انسجام :پہلے بھی عرض کیا کہ وحدت انسانیت اور اسلامیت کی بقا ء کا ضامن ہے یہ کسی خاص قوم یا کسی خاص زمان ومکان تک محدود نہیں بلکہ انسانی معاشرے کی بقاء کے لئے ایک دائمی اصل ہے ۔جس طرح اسلام اور مسلمانوں کی بقا ء وتحفظ اور ترقی وتمدن کے لئے اسلامی اتحاد کی ضرورت ہے ، اسی طرح کسی قوم وملک کی بقاء  کے لئے  اسکی ترقی و تمدن کے لئے بھی اس ملک کے اندر بسنے والے مختلف گروہوں قوموں اور مختلف طبقات اور مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان قومی اور ملی انسجام واتحاد شہ رگ کی مانند ہے ۔
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ استعماری اور طاغوتی ایجنڈے  اسلامی مالک میں نہ صرف مسلم فرقوں ،گروہوں کو آپس میں لڑوانے کے پیچھے ہیں بلکہ مختلف قوموںاور نژادوںکو قومیت اور نژادیت کی بنیاد پر  ایک دوسرے سے جدا کر کے ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کی  بھر پور کوشش میں ہیں ۔
چنانچہ پیغمبر اکرم  ﷺنے بھی اسی اہم نکتے کو مد نظر رکھتے  ہوئے ایک معاشرتی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل اور اسلامی حکومت  کی بنیاد رکھنے سے پہلے ہی مدینہ شہر کے رہنے والے مختلف مکاتب فکر سے وابستہ لوگوں کے درمیان قومی اور ملی اتحاد واتفاق کی قرار داد پاس کی کہ جس عہد نامے میں مسلمانوںاور یہودیوں کو ایک ملت قرار دیا  گیا ، ان سب کی جان و مال کو محترم شمار کیا گیا اور سب پر مدینہ شہر کے دفاع کی ذمہ داری ڈالی گئی اس طرح مدینہ کی اجتماعی زندگی میں رونق آ گئی اور سب کے حقوق محفوظ ہوگئے۔
٢۔ انصارومہاجرین کے درمیان ا خوت کامعاہدہ
پیغمبر اعظم  ﷺے ہجرت کے بعد اتحاد کی راہ میں جو دوسرا قدم اٹھایا وہ مہاجرین اور انصار کے درمیان رشتہ اخوت اور بھائی چارگی بر قرار کرنا تھا ۔
چونکہ اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں دو بڑے گروہوں میں پیشہ اور نسل کے لحاظ میں تفاوت کے سبب کشمکش پائی جاتی تھی ؛ کیونکہ انصار جنوب عرب (یمن )سے ہجرت کر کے آئے تھے اور نسب کے اعتبار سے ان کا تعلق قحطان سے تھا جبکہ مہاجرین شمالی حصے سے  آئے تھے اور ان کا تعلق عدنانی نسل سے تھا اور دوسری طرف انصار کا مشغلہ کاشتکاری و باغبانی تھا ؛ جبکہ مہاجرین اور اہل مکہ تجارت کرتے تھے اور کاشکاری کو ایک پست پیشہ سمجھتے تھے ؛ اس سے قطع نظر یہ دونوں  گروہ الگ ماحول کے پروردہ تھے ؛ لیکن اب نوراسلام کی بدولت آپس میں بھائی بھائی ہو گئے تھے (٢)
لیکن ان دونوں گروہوں میں گزشتہ افکار و خیالات اور کلچر کے اثرات ابھی بھی بعض لوگوں کے ذہنوںمیں رہ گئے تھے اور ہر لحظہ یہ اندیشہ تھا کہ کہیں قدیمی عصبیت بھڑک نہ اٹھے ،اب ان اختلافات کے ہوتے ہوئے ایک عالم گیر الٰہی حکومت کی بنیاد ڈالنا نا ممکن تھا اور مکتب اسلام کو دوسرے مکاتب فکر اور مشرکین کے مقابلے میں مضبوط بنانے کے لئے آپ  ﷺنے اپنی حکمت با لغہ سے ان کے درمیان( تآخوا فی اللہ اخوین) کا نعرہ بلند کر کے اخوت اور بھائی چارگی کا رشتہ برقرار کیا اور ہر مہاجر و انصار میں سے ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا اور علی علیہ السلام کو اپنا بھائی بنا یا اور فرمایا : انت اخی فی  الدنیا والآخرة… ( ٣) جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان اخوت و برادری اور وحدت ویکجہتی کی ایک نئی لہر دوڑ اٹھی ایک دوسرے کے درمیان سالہا سال پرانی دشمنی دوستی اور اخوت میں تبدیل ہو گئی کہ جس کی کوئی نظیر سابقہ امتوں میں نہیں ملتی ۔
اتحاد ووحدت کی راہ میں اس جیسے سینکڑوں نمونے آپ  ﷺکی با برکت زندگی میں دیکھنے میں آتے ہیں اور آپ  ۖاپنے آخری دم تک لوگوں کو اتفاق و وحدت کے ساتھ زندگی گزارنے کی دعوت دیتے رہے اور فرمایا کرتے تھے  ايها الناس علکمت بالجماعة واياکم والفرقة (٤) لوگو! خبردار تفرقہ بازی  اور گروہ بندی سے بچو اور ہمیشہ متحد ہو کے رہو،اسی طرح کسی اور مقام پر آپ  ﷺفرماتے ہیں کہ تم میں سے کون ایسا عقلمند ہے جو اتحاد اور انسجام کی ضرورت کا احساس نہ کرے ؟ لیکن اسکے باوجود یہ سننے میں آتا ہے کہ بعض تنگ نظر جاہل ومقدس مآب اور متعصب افراد مختلف اسلامی فرقوں اور گروہوں کے درمیان وحدت برقرارکرنے کو پسند نہیں کرتے اورکھلم کھلا وحدت کی ضرورت کا انکا ر کرتے ہیں یقینا اس کی  علت سیرت رسول اعظم  ۖسے لا علمی و دوری اور اپنے من گھڑت عقائد وافکار پر اصرارکر نے کے سواکچھ نہیں ہے ۔
خدایا ! ہم سب کو سرور کائنات کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما  آمین !

حوالہ جات
(1)-ابن هشام : السیرة النبوی :ج 2 ص 147-150 مطبع المصطفی الباقی قاهره ۔
(2)-۔ابن هشام : السیره النبویة ؛ج 2 ص 150 اور مجلسی : بحار الانوار ج 19 ص۔
(3)- ابن هشام،ص 130۔: السیره النبویة ؛ج2 ص 150اور عسقلانی : الاصابة؛ج2 ص 507طبع  بیروت دار ا التراث العربی 1328ق.بحارالانوار ج :8 ص :1 ۔
(4)۔محمد تقی هندی : کنز العمال ؛ج 1 ص 206حدیث نمبر 1028۔