سلیمانی
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ایرانی پہلوانوں کو کامیابی اور عوام کا دل شاد کرنے پر شاباش
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں ناروے کے شہر اوسلومیں فرنگی کشتی کے عالمی مقابلوں میں ایرانی پہلوانوں کی شاندار کامیابی نیز عوام اور خاص طور پر جوانوں کا دل شاد کرنے پر انھیں مبارکباد اور شاد باش پیش کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فرمایا: آپ کو اور آپ کے کوچ کو شاباش اور مبارکباد ہو ۔ آپ نے عوام اور خاص طور پر جوانوں کے دل کو شاد کیا ہے۔ ان شااللہ ، آپ ہمیشہ کامیاب رہیں ۔
پاکستان کے معروف سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے پاکستان کے معروف سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر کو اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا آج صبح 85 برس کی عمر میں انتقال ہوگيا ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نماز جنازہ اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی ، ڈاکٹر عبدالقدیر کی نماز جنازہ کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، نماز جنازہ کے دوران بارش بھی ہوتی رہی۔ نمازِ جنازہ میں قائم مقام صدر سینیٹر صادق سنجرانی اور وفاقی وزراء سمیت سیاسی و عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔
امریکہ افغان عوام کے خلاف ہونے و الے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی نے افغانستان میں جمعہ کی نماز کے دوران مسجد پر داعش دہشت گرد تنظیم کے مجرمانہ ، بہیمانہ اور دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ دشمن افغانستان میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کررہا ہے افغانستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے خانہ خدا میں عبادت اور بندگی میں مشغول نمازیوں پر دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے افغان قوم اور عالم بشریت کو تعزيت اور تسلیت پیش کی ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ امریکہ داعش دہشت گرد تنظیم کی بھر پور حمایت کررہا ہے امریکہ داعش کے ذریعہ افغانستان میں مذہبی اور قومی فسادات پیدا کرنے کی سازش میں مشغول ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ افغان قوم کو امریکہ کے معاندانہ اقدامات اور سازشوں کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔
افغان حکام کو قندوز کے دلخراش واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان کے صوبہ قندوزمیں مسجد پر حملے کی مذمت اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا: افغانستان کے حکام کو قندوز کے دلخراش واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ اطلاعات کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے افغانستان کے صوبۂ قندوز کے علاقہ سید آباد کی ایک مسجد میں بم دھماکے اور بڑی تعداد میں نمازیوں کی موت کے دلخراش سانحے پر اپنے ایک پیغام میں فرمایا: اس دردناک اور دلخراش واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ہمیں اس المناک واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمسایہ اور برادر ملک افغانستان کے حکام سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے والے خونخوار افراد کو قرار واقعی سزا دیں گے اور ضروری تدابیر اختیار کر کے مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کریں گے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحے کے شہداء پر رحمت و مغفرت نازل فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے، زخمیوں کو جلد از جلد شفاء عطا کرے اور پسماندگان صبر و سکون اور استقامت عطا فرمائے۔
داعش دہشت گرد تنظیم نے قندوز میں شیعہ مسجد پر بہیمانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرلی
مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے صوبہ قندوز کے علاقہ سید آباد میں شیعہ مسجد پر نماز جمعہ کے دوران دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صوبہ قندوز کے علاقہ سید آباد میں نماز جمعہ کے دوران حملے کے نتیجے میں 20 نمازی شہید اور 30 زخمی ہوگئے لیکن تکمیلی اطلاعات کے مطابق داعش دہشت گردوں کے مجرمانہ اور بہیمانہ حملے میں 100 نمازی شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔ الجزیرہ اور آوا کے مطابق داعش دہشت گردوں کے حملے ميں 60 نمازی شہید ہوئے ہیں ۔ ایکس پریس کے مطابق شہداء کی تعداد 100 تک پہنچ گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 250 کے قریب ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب سے منسلک وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے مسجد پرنماز جمعہ کے دوران مجرمانہ اور بہیمانہ حملے کی ذمہ داری قول کرلی ہے۔ داعش دہشت گرد تنظیم اس سے قبل طالبان پر بھی حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔
صلح امام حسن علیہ السّلام کے اسباب واثرات*
علمی اور دینی حوزات کی ترویج میں امام رضا (ع) کا کردار
علم و دین کی قدامت اور ان کے درمیان ربط و تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ اس کے منابع اور مبادی پرانے ہیں اور ان کے درمیان تناسب یا عدم تناسب کی بحث بھی بہت ہی پرانی ہے- اس سلسلے میں مختلف مکاتب نے مختلف نظریات بھی پیش کئے ہیں اور مغربی دنیا میں اس سلسلے میں کافی وسیع بحث ہوئے ہوئے اور ہر کسی نے کسی ایک رجحان کی پیروی کی ہے-البتہ یہ مسئلہ ان معاشروں سے تعلق رکھتا ہے جو علم اور دین کے مقام و منزلت کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ سیکولر اور لادین معاشروں میں دین کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کو علم اور سائنس وغیرہ کے مقابل لانے یا اس کے ساتھ جوڑنے کا کوئی امکان نہیں ہے- نیز اگر کوئی معاشرہ بالفرض سائنس کے لئے کسی منزلت کا قائل نہ ہو وہاں بھی اس مسئلے پر بحث بےجا ہوگی کیونکہ ایسے معاشرے میں علم و سائنس کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ دین کے مقابل یا اس کے ہمراہ بحث کا موضوع قرار دیا جائے اور ان معاشروں میں سائنس کو دین کے بارے میں بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی-پس اس بحث کا تعلق ان معاشروں سے ہے جنہوں نے دین اور علم کی منزلت تسلیم کی ہو- بہرحال یہ امر مسلم ہے کہ علم و دین کی بحث ہر دور میں انسان کے ذہنی مشاغل میں اہمیت کے حامل تھے- اور اس بحث کو ہر دور میں ہر اس معاشرے میں شروع کیا جاسکتا ہے جو ان دو کے مقام و منزلت کو تسلیم کرتا ہو-علم و دین کی حالت کا مسئلہ جن ادوار میں قابل بحث ہے ان ہی ادوار میں ایک امام رضا (ع) کا دور ہے-ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ امام رضا (ع) کے دور میں علم کی کیا حالت تھی اور امام (ع) کا موقف اس حوالے سے کیا تھا؟ تا کہ علم و دین کے درمیان ربط کی عالمانہ اور محققانہ نظریئے تک پہنچ سکین-
عصر رضوی میں علم کا حال:
مورخین امام رضا (ع) کے دور کو علمی بالیدگی اور روئیدگی و بڑھوتری اور اسلامی تہذیب کی عالمگیریت کے حوالے سے سنہرے دور سمجھتے ہیں- اور اور اسلامی ادوار میں ایک تابناک اور سب سے حیرت انگیز دور قرار دیتے ہیں- اس دور میں مسلمانوں کی علمی اور سائنسی پبشرفت نے کرہ خاکی پر اپنا تسلط جمالیا تھا- مختلف شعبوں میں علمی و سائنسی سرگرمیوں میں قابل قدر اضافہ ہوا تھا اور اس تاریخی دور میں اسلامی تہذیب کی ترقی اور فروغ نقطہ عروج تک پہنچا- اس عصر میں فروغ یافتہ علمی اور ثقافتی مظاہر اور نشانیان ہمیں مسلمانوں کی علمی حالت کے بارے میں بہتر انداز سے اس دور کے مسلمانوں کی علمی پوزیشن سے آگہی میں مدد پہنچاتی ہیں- اور ہم یہاں بعض مظاہر کی طرف اشارہ کرتے ہیں-علمی نشستوں کا انعقاد، ان نشستوں کے عوامل میں اضافہ اور رکاوٹوں میں کمی کا اہتمام کیا جاتا تھا تا کہ اہل نظر آسانی اور آزادی سے تحقیق و مطالعہ کرسکیں- مختلف شعبوں میں علمی حلقے تشکیل دیئے جاتے تھے اور مختلف علمی موضوعات پر بحث ہوتی تھے- اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں میں متعدد کتب خانوں کی بنیاد رکھی گئی؛ مسلم علماء کے لئے تحقیق اور تحصیل علم کے بھرپور مواقع فراہم کئے گئے اور اسلامی علماء اور دانشوروں کو اسلامی مملکت میں اکٹھا کیا گیا-حکومت نے تقریباً تیس بڑے اور اونچی سطح کے مدارس قائم کئے تھے جن میں مدرسہ نظامیہ سب سے زیادہ مشہور ہوا- ان مدارس میں عمومی کتب خانے قائم کئے گئے جن میں سب سے مشہور کتب خانہ دارالحکمہ تھا- (1)
تحریک ترجمہ:
امام رضا (ع) کے دور کی علمی تحریکوں میں سے ایک اہم تحریک - جس نے مسلمانوں کے علمی ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا - بیرونی زبانوں میں موجود کتابوں کی عربی زبان میں تراجم سے عبارت تھے- طب، ریاضیات، فلسفہ، سیاسی علوم Political Science ، علم نجوم Astrology وغیرہ جیسے درآمد شدہ علوم میں تحقیق نے علمی تحقیقات کے جذبے کو تقویت پہنچائے-"ابن ندیم" اپنی کتاب الفہرست میں کئی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور خاص طور پر تحریک ترجمہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مامون نے روم کے بادشاہ کے نام اپنے مراسلوں کے ضمن میں ان سے درخواست کی تھی کہ خیرسگالی اور تعاون کے عنوان سے اپنے گوداموں میں ذخیرہ ہونے والی کتابوں کو بغداد بھیجنے کی اجازت دے دیں؛ روم کے بادشاہ نے ابتدا میں ممانعت کی مگر آخر الامر اس درخواست کا مثبت جواب دیا اور مامون نے حجاج بن مطر، ابن بطریق اور دارالحکمہ کی سرپرست «سلم» کو کئی دیگر ماہرین کے ہمراہ روم روانہ کیا اور انہوں نے وہ تمام کتابین دارالحکمہ میں منتقل کردیں-(2) ان کتابوں کے تراجم نے مسلمانوں کے علمی حلقوں کی بڑی مدد کی؛ تمام اسلامی ممالک میں نئے علمی آراء ظہور پذیر ہوئے اور تنقید اور جائزوں کو وسعت ملی؛ اسلامی معاشرے کے علمی ارتقاء میں ان تراجم نے اہم کردار ادا کیا- اگرچہ ان کتابوں کے بعض موضوعات و مباحث - جو اسلامی افکار و عقائد سے متصادم تھے اور ان میں الحادیات کا شائبہ تھا جو - عالم اسلام کے علمی حلقوں کے افکار میں اعتقادی مسائل کا باعث بنے-
رصدگاہ (Observatory) (ستاروں کی حرکت کا مشاہدہ کرنے کے لئے مناسب مقام) کی تعمیر اور علمی نقشہ جات کی ترسیم:
اس دور کے علمی مظاہر میں سے «عالمی نقشہ جات» کی ترسیم و تیاری اور رصدگاہوں کی تعمیر جیسے کا اقدامات بھی تھے- مامون نے حکم دیا تھا کہ پوری دنیا کا نقشہ تیار کیا جائے اور اس حکم کی تعمیل ہوئی- اور اس نقشے کو «نقشہ مامون» (یا صور المامونیہ) کا نام دیا گیا- اور یہ پہلا عالمی نقشہ تھا جو عباسیوں کے دور میں رسم کیا گیا-اسی طرح مامون نے ہی رصدخانے کی تعمیر کا بھی حکم دیا جو بغداد کے ایک محلے میں تعمیر ہوا جس کا نام شمسائیہ رکھا گیا-(3)امام رضا (ع) کے زمانے مرسوم علوم و فنون اور ان کی طرف مفکرین کی توجہ بھی ہمارے لئے امام رضا (ع) کے دور کی علمی حالت اور اس زمانے کے لوگوں کے علمی شغف کے ادراک میں ممدّ و معاون ثابت ثابت ہوسکتی ہے:اس زمانے میں علم تفسیر علوم مرسومہ میں سے ایک تھا جو اس زمانے کے علماء اس علم کی طرف خاص توجہ دیا کرتے تھے- اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ (ص) کے اوصیاء کے سوا کوئی بھی قرآن مجید کے تمام ظواہر اور بواطن کے ادراک کا دعوی نہیں کرسکتا ہے(4)؛ لہذا اس علم کا مشعل فروزان فطرتاً امام رضا (ع) اور دیگر ائمہ ہدایت (ع) کے فیض و برکت سے روشن تھا اور اسی بنا پر علماء اور دانشوروں نے امام رضا (ع) کے افاضات کے سائے میں علم تفسیر زبردست خیرمقدم کیا-
"علم حدیث " بھی اس دور کی علوم مرسومہ میں سے ایک تھا- اور شیعیان اہل بیت (ع) اور شیعہ علماء نے ائمہ طاہرین کی فیض رسانی کی بدولت معتبر احادیث کی تالیف اور تدوین کے سلسلے میں دیگر مکاتب کے علماء پر سبقت حاصل کی اور اس زمانے میں شیعہ علم حدیث کے سلسلے میں شیعہ علماء کا تخلیقی کارنامہ یہ تھا کہ امام رضا (ع) کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے معتبر احادیث کو ایک بڑی کتاب میں فراہم کیا اور یہ مسلمین اور خاص طور پر شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے پہلی جامع کتاب حدیث تھے- اور یہی کتاب جوامع اربعہ یا کتب اربعہ کی تدوین کے لئے بنیاد قرار پائی اور عالم اسلام کے تین بڑے علماء یعنی « شیخ الطائفة ابی جعفر محمد بن الحسن الطوسی» (متوفی 460ہ ،) «رئیس المحدثین شیخ صدوق ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ قمی» (متوفی سنہ 381) اور « ثقة الاسلام ابیجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی» (متوفی سنہ 328 یا329 ھ) نے شیعہ مکتب کی بنیادی کتابوں یعنی «الکافی»، «الاستبصار»، «التہذیب» اور «من لایحضرہ الفقیہ» کی تالیف اور تدوین میں اس کتاب سے استفادہ کیا-(5)
"علم کلام " [یا علم عقائد] بھی اس دور میں خاص توجہ کا مرکز بنا- اس دور میں مختلف فکری مکاتب کے علمائے کلام [متکلمین] نے اپنے عقائد و نظریات کے دفاع میں مختلف آراء قائم کئے اور یہ امر حقیقت کے طالب افراد کے درمیان کلامی موضوعات کے حوالے سے جذبہ تحقیق کی تقویت کا باعث ہوا-گو کہ اس دور میں مختلف فرقے ظاہر ہوئے یا انہیں فروغ ملا جو کسی نہ کسی لحاظ سے اعتقادی انحرافات کا شکار تھے اور اپنے دعووں کے اثبات کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے- اور افسوس کا مقام ہے کہ ان انحرافی افکار نے بعض افراد کو شدید متاثر کیا تھا- البتہ ان فرقوں کے افکار و نظریات کو دلیل و برہان اور منطقی روشوں سے جھٹلانے اور باطل کرنے اور خداوند متعال کے واحد صراط مستقیم کی طرف مسلمانوں کی ہدایت کے حوالے سے امام رضا (ع) اور آپ (ع) کے اصحاب اور شاگردوں کے کردار کی اہمیت ناقابل انکار تھا اور دانشوروں اور متکلمین نے اس اہم کردار کا اعتراف کیا ہے-
علم طب:
علم طب بھی امام رضا (ع) کے دور کا خاصہ تھا اور علم طب کی ترویج میں بنیادی کردار امام (ع) نے ادا کیا- امام (ع) نے اس سلسلے میں اہم مباحث چھیڑے اور نہایت اہم مسائل مکتوب کر ڈالے- اس ضمن میں آپ (ع) کا ایک رسالہ، رسالہ ذھبیہ ہے- امام (ع) کی جانب سے اس رسالے کی تصنیف کے بعد عباسی خلیفہ نے بھی اس سلسلے میں تحقیق اور حصول علم کا حکم دیا اور لوگوں کو علم طب حاصل کرنے کی ترغیب دلائی اور خلیفہ نے خود بھی اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے اور اس سلسلے میں اچھی خاصی رقم خرچ کی اور اس علم کی حاملین کے لئے مالی امداد فراہم کی تا کہ اس سلسلے میں تحقیق اور بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری رہے- جبریل بن یختیشوع، دربار کا ماہر طبیب مامون کے ہاں خاصا مقبول تھا-
علم کیمیا: (Chemistry)
"علم کیمیا" کا چرچا بھی اس دور میں اپنی مثال آپ تھا- امام صادق (ع) کے شاگر جابر بن حیان اپنی تحقیقات میں اس مقام پر پہنچے تھے کہ دنیا انگشت بدندان رہ گئی- معاصر مغربی سائنسدانوں نے جابر بن حیان کو «عالم انسانیت کا سوچنے والا دماغ» قرار دیا ہے اور وہ اسی بنا پر دنیا میں علم کیمیا کے بانی سمجھے جاتے ہیں-
معماری اور انجنیئرنگ کی تحیققات:
"معماری اور انجنیئرنگ کی تحیققات" کو بھی اس دور میں کافی پیشرفت ملی اور اس زمانے کے مسلم انجنئیروں نے جیومیٹری اور ٹیکنالوجی میں عروج حاصل کیا اور مسلمانوں کی معماری اور انجنئرنگ کا دنیا میں چرچا ہوا-(6 ) امام (ع) کے دور میں علم نجوم کا ارتقاء اور اس کے فوائد عام ہونے سے متعلق تاریخی حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا-مذکورہ بالا حقائق امام رضا (ع) کے دور میں علوم و فنون کی ترقی کے مظاہر اور مثالیں ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور میں اسلامی تمدن و تہذیب نے کتنی ترقی کی تھی اور مسلم معاشرہ علم و سائنس کو کتنی اہمیت دی جاتی تھی! اس علمی اور سائنسی تحریک اور اسلامی تمدن کی ترقی میں امام رضا (ع) کے کردار کے دو پہلو ہیں: ایک علمی پہلو اور دوسرا عملی پہلو
الف: علم و دین امام رضا (ع) کی علمی سیرت
امام رضا (ع) کی علمی سیرت اور حوزہ درس میں علم و دین کی اہمیت ناقابل انکار ہے- آپ (ع) دین کی تبلیغ و احیاء کے ساتھ ساتھ علم و دانش کے اکرام اور علم و دانش کی طرف مسلمانوں کی ترغیب کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے-آپ (ع) نے مختلف دینی اور علمی موضوعات میں متعدد متون تحریر فرمائے؛ آپ نے مسئلہ توحید اور دین کے تمام اصولِ موضوعہ کی وضاحت و تشریح فرمائی؛ فقہ اور احکام دینی کے فلسفے کی وضاحت فرمائی؛ عالَم و زمین کی تخلیق پر آپ نے بحث کی؛ علم طب اور دیگر طبیعیاتی علوم سے متعلقہ موضوعات کی تشریح کی؛ چنانچہ ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ (ع) کا علم نہایت وسیع تھا اور علم و دین کی تمام شعبوں کی ترقی پر یقین رکھتے تھے-علم طب پر آپ (ع) کو عبور حاصل تھا؛ صحت عامہ اور مائکرو حیاتیات پر کامل عبور رکھتے تھے اور خلاصہ یہ کہ امام (ع) نے اس دور کی صحت عامہ اور علم طب پر گہرے نقوش مرتب کئے- بہر حال امام کے علم و دانش پر بحث کرتے ہوئے اس کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے-امام (ع) کی معلومات کے دائرے ان امور میں سے ہیں جو امام (ع) کی ذات با برکات کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں- الہیات اور دینیات اور آسمانی ادیان و کتب کے بارے میں معلومات، قرآنی معارف و علوم سے مکمل آگہی، کلامی موضوعات پر امام (ع) کا مکمل احاطہ، طب کے بارے میں امام (ع) کے مباحث و آراء، اصول فقہ کی بنیاد رکھنا اور امام (ع) کی دیگر علمی کاوشیں امام (ع) کے علمی دائروں کی وسعت کی دلیلیں ہیں---فلسفہ احکام، فلسفہ غسل و وضو، فلسفہ حرمت زنا، فلسفہ زکواة اور فلسفہ حرمتِ شراب کے بارے میں امام (ع) کی بیانات و مباحث، احکام کے سلسلے میں سماجی اور اخلاقی مباحث ظاہر کرتے ہیں کہ امام (ع) برہانی اور استدلالی فکر کے مالک تھےاور خطابت، شعر و ادب اور فصاحت و بلاغت میں یگانہ روزگار تھے-(7)
ب: امام (ع) کی عملی سیرت میں علم و دین
امام (ع) کی عملی سیرت میں علم و دین کے درمیان نہ صرف کوئی تضاد یا اختلاف و گوناگونی کا کوئی نشان نہیں ملتا بلکہ ان دو کے درمیان نہایت قوی رابطہ برقرار ہے اور آپ (ع) کی عملی سیرت میں علم و دین ایک دوسرے کے معاون ہیں-حضرت رضا (ع) نے اس حقیقت کو - علمی اور دینی موضوعات پر بیش بہاء کتابیں لکھ کر - ثابت کیا ہے- آپ (ع) نے مناظروں اور علمی دوروں اور مسافرتوں کے ذریعے اس حقیقت کا اثبات کیا ہے کہ ان دو کے درمیان کوئی عناد اور دشمنی نہیں ہے-(جاری ہے)
آپ (ع) کی بعض کاوشیں:
1- صحیفة الرضا،(ع): یہ کتاب ان احادیث پر مشتمل ہے جو آپ (ع) نے اپنے والد ماجد امام موسی کاظم (ع) سے اور امام کاظم (ع) نے اپنے آباء و اجداد طیبین سے نقل کیا اور ان حدیثوں کا سلسلہ سند امیرالمومنین (ع) تک جاپہنچتا ہے اور علی (ع) نے یہ حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرمائی ہیں اور فضل بن حسن طبرسی نے یہ حدیثین محفوظ کرلی ہیں-
2- طب الرضا یا رسالة الذہبیة: مامون نے امام (ع) سے درخواست کی تھی کہ اپنے اور اپنی آباء و اجداد کے علم و دانش کی روشنی میں اس کو کھانے اور پینے کے سلسلے میں ہدایات دیں تا کہ اس کے جسم میں تمام قوتیں محفوظ رہیں اور بیماریوں اور کمزوریوں سے بچا رہے- امام (ع) نے ایک مفصل خط کے ضمن میں صحت کے سلسلے میں صحیح احکام، مختلف النوع غذاوں کی خصوصیات، ضروری مشروبات، اور ان کا صحیح وقت استعمال بیان فرمایا، امام نے اس رسالے میں مزاج کے اعتدال اور جسمانی خصوصیات و جزئیات کے بارے میں تمام امور بیان فرمائے، اور مامون پر اس خط کو دیکھنے کے بعد وجد و ہیجان کی کیفیت طارے ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ امام کے مکتوب کو سنہری حروف سے تحریر کیا جائے اور اس کے اس حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور یہ خط «رسالة الذہبیة» کے نام سے مشہور ہوا- امام (ع) نے 201 ہجری میں یہ خط مامون کے لئے لکھا اور اس زمانے تک طبّ علمی صورت نہیں اپنا سکا تھا اور تجربات اور مسلسل معالجات کی بنا پر طبی معالجات کا اہتمام ہوتا تھا جس میں علمی و سائنسی دریافتوں کا کوئی کردار نہ تھا- اس زمانے میں جراثیم دریافت نہیں ہوئے تھے؛ ویٹامنز کے بارے میں آگہی نہ تھی اور جراثیموں کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی اہم سائنسی دریافت نہیں ہوئی تھی-(8) اور امام (ع) نے اس خط کے ذریعے معاشرے کو تحقیق اور جستجو کی راہ دکھائی اور نہ صرف امام (ع) کا یہ اقدام اسلامی تہذیب کی بالیدگی کا باعث ہوا بلکہ امام (ع) کے خط نے علم اور دین کے درمیان ربط و تعلق کی موجودگی کا بھی اثبات کیا-
امام رضا (ع) کے علمی دورے اور مناظرات
امام رضا (ع) کا دور نہایت حساس دور تھا؛ کیونکہ فکری انحراف کے عوامل اپنے عروج پر تھے- ان انحرافات کا سبب یہ تھا کہ اجنبی دنیا سے علوم و فنون خام صورت میں اسلامی معاشرے میں داخل ہوئے تھے اور ان کا تصفیہ نہیں ہوا تھا اور دوسری طرف سے عباسی سلطنت نے بیرونی افکار کی درآمد کی جو اجازت دی تھی اس کے لئے حدود کا تعین نہیں ہوا تھا- اسی وجہ سے امام (ع) مجبور ہوئے کہ دین خداوند کی محافظ اور شرک و الحاد سے امت اسلامی کی نجات دہندہ کے عنوان سے ضروری اقدامات کریں- امام (ع) نے اجنبی افکار کے فروغ کے مراکز یعنی کوفہ اور بصرہ کے دورے کئے اور الحادی افکار کے بانیوں اور حامیوں کے ساتھ مناظرے کئے اور جب ولیعہد ہوئے تو آپ (ع) کو ان مکاتب کے دانشوروں کے ساتھ مناظرات کے مواقع سے بھرپور استفادہ کیا اور دین اور ہدایت انسان کے لئے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کی تبلیغ فرمائی-
اس سلسلے میں آپ (ع) نے مختلف ادیان و فِرَق کے ساتھ بھی مناظرے کئے، البتہ یہ سلسلہ ولیعہدی سے پہلے بھی جاری رہا تھا اور ولیعہدی کے دور میں بھی جاری رہا- امام (ع) کا طرز مناظرہ اس دور کی دنیا میں شہرت خاصہ سے بہرہ مند تھا- آپ (ع) کے استدلالات عقل و منطق پر استوار تھے؛ ان مناظرات میں امام (ع) دین اور دینی اصول و فروع کا دفاع کیا کرتے تھے؛ جن کے لئے مختلف شعبوں اور مختلف مضامین و موضوعات میں حصول علم کی ضرورت ہوتی ہے اور امام کے یہ سارے اقدامات اور کارنامے ثابت کرتے ہیں کہ آپ (ع) کی علمی سیرت میں علم اور دین کے درمیان مکمل ہماہنگی پائی جاتی ہے-
بحث کا نتیجہ:
امام رضا (ع) کے دور میں علم و دین کے بارے میں مذکورہ بالا واقعات و حقائق اور ان دو کی ترویج میں امام رضا (ع) کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپ (ع) کے دور میں علم اور دین کے درمیان نہ تو تمایز تھا اور نہ ہی تعارض بلکہ علم اور دین خدا کی طرف انسان کی ہدایت کے سلسلے میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں- نہ علم دین کی نفی کرتا ہے اور نہ ہی دین علم کی نفی کرتا ہے- ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہیں اور یہ دو ایک دوسرے کے مد مقابل نہیں ہیں اور اگر علم کا اثبات ہوجائے تو دین کی نفی نہیں ہوتی اور اگر دین کا اثبات ہو تو علم کی نفی نہیں ہوتی؛ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اگر کوئی دینی اصول ثابت ہوجائے تو کوئی سائنسی اور علمی اصول باطل ہوجائے-امام (ع) کے دور میں ایسا کوئی تعارض نظر نہیں آتا- علم و دین کے درمیان تمایز اور اختلاف بھی نظر نہیں آتا اور ایسا نہیں تھا ( اور نہ ہے) کہ علم و دین کے درمیان کوئی بھی وجہ اشتراک نہ ہو اور معنی کے لحاظ سے روش اور غایت مکمل مفارقت میں قرار پائی ہو؛ اور علم و دین الگ الگ اور ایک دوسرے سے غیر متعلق اور غیر مربوط فرائض کے عہدہ دار ہوں؛ اس دور میں ایسا بھی نہیں تھا بلکہ علم و دین کے آپس کی نسبت اس دور میں توافق اور ایک دوسرے کی تکمیل سے عبارت تھی- یعنی ان دو مقولوں کے درمیان مکمل سازگاری اور ہماہنگی تھی اور اس کے علاوہ وہ ایک دوسرے کو مکمل کرنے کا کردار ادا کیا کرتے تھے- علماء اور دانشور جو اسلامی معاشرے کی نمائندگی کرتے تھے غالباً دین اور علم کے پیکر تھی اور علماء اور دانشوروں کی اکثریت دیندار افراد اور علمائے دین پر مشتمل تھی اور علمائے دین ہی دیگر علوم و فنون کے بھی استاد تھے-البتہ یہ ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسلامی معاشروں کے لئے یہ عظیم نعمت ائمہ ہدایت (ع) اور حضرت امام علی بن موسی الرضا (ع) کے فیضان کا نتیجہ تھا- اور اسلامی تہذیب میں اعتلا و ارتقاء اور دینی تہذیب کی بالیدگی حضرت ثامن الحجج (ع) اور آپ (ع) کے آباء طیبین (ع) کی مرہون منت تھی کیونکہ اس زمانے میں دین کی ترویج و حفاظت اور علم و سائنس کی ترویج کا کام صرف ائمہ طاہرین (ع) کے توسط سے انجام پاتا رہا، دوسرے تو دوسرے کاموں میں مصروف تھے اور اگر کسی حاکم نے علم کی ترویج کی حمایت کی ہے تو یہ اس کی مجبوری بھی تھی اور وجہ شہرت بھی ہوسکتی تھی!- اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہارون و مامون ان برکات کا سرچشمہ ہوں جیسا کہ بعض درباری مولفین نے تحریر کیا ہے-کیوں کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ "اس علمی اور دینی تحریک کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اور یہ کہ یہ پیشرفت و ترقی کہاں سے شروع ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہارون اور مامون کے دور میں علم کا مقام و مرتبہ حد کمال کو پہنچا؟ اس دور میں علم کا چرچا اس لئے ہوا کہ صادقَین (امام باقر اور امام صادق) علیہماالسلام کے دور میں عظیم ترین علماء، فقہاء، قضات، ادباء اور شعراء ابھرے، علمی و سائنسی مقابلے اور ادبی مناظرے ہوئے، مفکرین اور ارباب علم و نظر وجود میں آئے اور انہوں نے نور وجود امام باقر اور امام صادق (ع) کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان ہی لوگوں نے دوسری اسلامی صدی کے نصف ثانی اور تیسری اسلامی صدی کے نصف اول کو اپنی کاوشوں اور آثار سے منور کیا اور ان دوخلفاء کی اہمیت کا سبب یہ ٹہرا کہ ان کے دور میں علم و دانش اپنے اصلی سرچشموں سے پھوٹتا رہا- اور بہت سے لوگ ائمہ طاہرین کے نورانی وجود سے پھوٹتے علم و دانش کے سرچشموں سے سیراب ہونے کل لئے تیار ہوئے اور رشد و کمال کے عروج پر پہنچے--- خلاصہ یہ کہ عصری تقاضوں ہی کا تقاضا ہوا کہ منصور عباسی اور ہارون و مامون علم کے طالب و خریدار ٹہریں جیسا کہ سرکاری جبر کے تقاضوں کا تقاضا ہے!!!- (ختم شد)
--------------
حوالے جات:
1- امام رضا (ع) کی زندگی میں باریک بینانہ تحقیق، شریف قرشی، ج2، ص283
2- الفہرست، ابن ندیم، ص239
3- امام رضا (ع) کی زندگی میں باریک بینانہ تحقیق، ج2، ص286
4- التبیان فی تفسیر القرآن، محمد بن حسن طوسی، ج1، ص4
5- مقدمہ النفع و الہدایہ، ص10
6- امام رضا (ع) کی زندگی میں باریک بینانہ تحقیق، ج2، ص290
7- حضرت حضرت رضا(ع) کی زندگی کی خصوصیات؛، داکتر علی شریعتمداری، ج3، ص119117
8- امام رضا (ع) کی حالات زندگی کا ایک تجزیہ، محمد جواد فضل اللہ ، ترجمہ سید محمد صادق عارف، ص161
ماسکو میں ایرانی وزير خارجہ کی روسی وزیر خارجہ سے ملاقات
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان روس کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، علاقائي امور اور عالمی مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گيا۔ اطلاعات کے مطابق ایران اور روس کے وزير خارجہ نے باہمی ملاقات میں مشترکہ ایٹمی معاہدے ، جنوبی قفقاز، بحر کاسپیئن، مشرق وسطی اور افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بھی بات چیت اور گفتگو کیا۔ اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ نے روس میں ایرانی سفیر اور ديکر سفارتکاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران بے فائدہ اور غیر مفید مذاکرات کو قبول نہیں کرےگا۔ مذاکرات کو بامقصد ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پیکر صلح و رحمت
رآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔
گذشتہ زمانے میں تحریف ایک ایسا وسیلہ تھا جس سے جاہل اور مغرض افراد استفادہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھاتے تھے اور اس کو بار بار بیان کرکے کوشش کرتے تھے کہ تحریف کے موضوع کوایک حقیقت اور واقعیت میں بدل دیں ۔
صدیوں سے خصوصا جنگ صلیبی کے زمانہ سے مغرب میں یہ کوشش کی جاتی تھی کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شخصیت کو مخدوش کردیں اور آپ کو جنگ طلب اور صلح سے بہت دور معرفی کریں، اور یہ کام ابھی تک مغرب میں جاری ہے یہ لوگ دوسرے مذاہب کے افکار و مقدسات کو تسامع اورتساہل سے بیان کرتے ہیں اورخود کو سکولاریزم کے عنوان سے پہچنواتے ہیں ، ابھی تک ان کے تہذیب و تمدن کے گذشتہ آثار ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ پیغمبروں کے درمیان فرق کے قائل ہیںجب کہ پیغمبروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور خداوندعالم نے ان سب کو ایک ہدف کیلئے اور انسانوں کی اصلاح و ہدایت کیلئے بھیجا ہے ، یہ لوگ ایک پیغمبر کو صلح و ثبات والا بیان کرتے ہیںاور دوسرے پیغمبر کو کسی اور طر ح سے پہچنواتے ہیں ۔
یہ لوگ ہمیشہ نفاق و اختلاف کا بیج بوتے رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ انبیاء میں بھی اختلاف بتاتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیغمبر خاتم کیلئے ایجاد کرتے ہیں ، اس محبوب اور مظلوم پیغمبر کی توہین کرتے ہیں، اور کروڑوں مسلمانوں کے دل کو زخمی کرتے ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کی شہادت اور آنحضرت کے اقرار اور آپ کی مشہود سیرت عملی ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اخلاق، صلح، دوستی، برادری، رحمت اور محبت کا پیغمبر بتاتی ہے اور آپ کی مشقت بار زندگی اس بات کی گواہ ہے ۔
یہاں پر مختصر طور پر مندرجہ بالا خصوصیات کی وضاحت کریں گے:
١۔بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم
قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔
٢۔ گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بعثت کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں، لہذا آپ نے گذشتہ انبیاء کی رسالت کو جاری رکھا ، پورا قرآن کریم ،گذشتہ انبیاء کے اعتقاد اور ان کے احترام سے بھرا ہوا ہے اور گذشتہ انبیاء کی کتب اور ان کی رسالت کا بھی قرآن کریم میں تذکرہ ملتاہے ۔
٣- صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دینا
۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی میں اپنی عملی سیرت کے ذریعہ ()اور جنگجو و سرکش قوم کے درمیان زندگی بسر کرکے ایسی امت بنائی جو اپنے کینہ اور حسد کو بھول گئی اور انہوں نے اپنی قدرت و طاقت یعنی فتح مکہ کے وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دیا ، بعض جگہوں پر ایمان لانے والے اپنے زمانہ جاہلیت کے قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے بیان کرتے تھے اور آپ ان حادثات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آپ ان کی وحشی گری اور بے رحمی کی باتوں کو برداشت نہیں کرپاتے تھے ، آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت اور اپنے چچا حضرت حمزہ(ع) کی شہادت پر گریہ و عزاداری کرکے اس معاشرہ میں ایک قسم کے عاطفہ، رحم اور احساسات کو جگایا، آپ جاہلی معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑرہے تھے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مہاجر و انصار اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو ارتباط و عاطفہ پیدا کیا وہ ان لوگوں کیلئے ایک بہترین پیغام تھاجو اپنے جاہلیت کے زمانہ کے بغض و حسد کو زمانہ اسلام میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
٤۔ مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کے قوانین و احکام میں ایک عمیق تبدیلی پیدا ہوگئی ، اور یہ تبدیلی، اسلام کے جدید قوانین و احکام اور رسوم جاہلی کے آداب ، افکاراورعقاید سے مستقم تعارض ہونے کی وجہ سے آئی تھی ،ان میں سے بعض احکام کو اسلام نے تاسیس کیا اور بعض احکام کی تائید کی اور ان کے اندر اصلاحات اور تبدیلیاں انجام دیں، اور جاہلیت کے تمام مظاہر کو ان سے حذف کردیا جیسے حج کے احکام سے شرک کے مظاہر کو حذف کردیا گیا ۔
بعض افراد ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عقد اخوت کو جاہلی کے عہدو پیمان ''حلف'' سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ لوگ اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ ہمارے پیغمبر اکرم نے جو کام انجام دیا ہے وہ زمانہ جاہلی کے عہد و پیمان ''حلف'' کے برخلاف ہے ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عہد و پیمان میں بندہ اور مولی ، ضعیف و قوی ، ثروتمند و فقیر کا رابطہ مساوی سمجھا جاتا تھا اور اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کو نزدیک سمجھتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے لہذا آپ نے فرمایا : '' لا حلف فی الاسلام''۔
٥۔ قوم اور قبیلہ کے عقیدے کو ختم کرنا
زمانہ جاہلیت کی عداوت، دشمنی، بغض اور حسد ان کے دلوں میں باقی رہ گیا تھا خاص طورسے انصار کے دل ، بھرے ہوئے تھے ، یہ ایسی حقیقت ہے جس کی قرآن کریم نے بھی تصریح کی ہے(جس وقت تم لوگ آپس میں دشمن تھے)اور یہ دشمنی ظاہری نہیں تھی جو ایک آدمی یا چند افراد کے وسیلے سے ختم ہوجاتی بلکہ یہ اجتماعی مشکل اس قدرعمیق تھی کہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے فرمایا: اگر تم زمین کی تمام قیمت کو ان پر صرف کردیتے تو یہ کام انجام نہ پاتا ۔ اور خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس عمل کو اس کی اہمیت و ارزش کی وجہ سے اپنی طرف نسبت دی ہے اور یہ کوئی سیاسی یا کسی خاص زمانہ کیلئے کام نہیں تھا جس کوالفاظ یا نعروں میں خلاصہ کردیا جائے اور اسی طرح قوم وقبیلہ کے عقیدہ کا معیار اس طر ح ہوگیا کہ مختلف قوم و قبیلہ کے لوگ اس زمانہ میں ایک مسلمان امت ''المومنون اخوة'' کے زمرہ میں آگئے لہذا جو کاروان مدینہ آئے انہوں نے آپ کے اس اقدام کا بہت زیادہ ااستقبال کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا ، اسی طرح پیغمبراکرم کے دوسرے بہت سے اقدامات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاوید معجزے ہیں اور یہ سب آپ کے اخلاق حسنہ ، رحمت، محبت، صلح اور برادری و بھائی چارگی کی وجہ سے وجو د میں آیا تھا ۔
- مؤلف:
- سید ابوالحسن نواب
- ذرائع:
- تقریب ڈاٹ آئی آر
اپنی سلامتی کے سلسلے میں غیر قوتوں پر بھروسہ کسی سانحے سے کم نہیں، علاقائی ممالک ایران کی طاقت اور دانشمندی کو نمونہ عمل بنائیں: رہبر انقلاب اسلامی
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امام حسین ملٹری یونیورسٹی میں، فوجی افسران کی مشترکہ پاسنگ آوٹ پریڈ سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسلح افواج کو سربلند ایرانی قوم اور طاقتور نیز وطن عزیز کی سلامتی کی مستحکم فصیل قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شمال مغربی ہمسایہ ملکوں کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ شمال مغربی ملکوں کے مسائل کا حل، ان ملکوں میں بیرونی ملکوں کی عسکری مداخلت کی روک تھام میں مضمر ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ خطے میں بیرونی مداخلت نقصاد دہ ہے اور تمام مسائل کو بیرونی قوتوں کی مداخلت کے بغیر حل کیا جانا چاہیے۔ آپ نے فرمایا کہ خطے کے ملکوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ایران اور ایران کی مسلح افواج کی طاقت اور دانشمندی کو نمونہ عمل بنائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سلامتی کو ملکی ترقی و پیشرفت کی اساس اور بیرونی طاقتوں پر بھروسہ کیے بغیر ملکی سلامتی کو یقینی بنائے جانے کو انتہائی اہم قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ البتہ ایرانی عوام کے لیے یہ عام سی بات ہے لیکن دیگر ملکوں حتی یورپی ممالک بھی اس حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپ اور امریکہ کے درمیان حالیہ چپقلش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض یورپی ملکوں نے امریکی اقدام کو پیٹھ میں خنجر گھوپنے کے مترادف قرار دیا ہے، دوسرے لفظوں میں یورپی ممالک یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں نیٹو اور امریکہ کے بغیر اپنی سلامتی کا تحفظ کرنا ہوگا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جب یورپی ممالک بھی امریکہ پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے اپنی سلامتی کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں تو ان ممالک کا حساب پوری طرح واضح ہے جنہوں نے اپنی فوجوں کو امریکہ اور دیگر بیرونی ملکوں کے کنٹرول میں دے رکھا ہے۔
ایران کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دوسرے کے بھروسے پر اپنی سلامتی کے تحفظ کو ایک وہم قرار دیا اور فرمایا کہ اس وہم میں مبتلا ہونے والوں کے منہ پر جلد طمانچہ پڑے گا، کیونکہ کسی بھی ملک کی سلامتی، جنگ اور امن جیسے معاملات میں بیرونی مداخلت، کسی سانحے سے کم نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو ظاہری اور جھوٹی طاقت کا ایک نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بیس سال قبل امریکہ نے طالبان کو سرنگوں کرنے کے لیے افغانستان پر لشکر کشی کی تھی اور اس طویل لشکر کشی کے دوران انہوں نے قتل و جرائم کا ارتکاب کیا اور بے پناہ تباہی مچائی، لیکن تمام تر جانی اور مالی نقصان کے بعد حکومت، طالبان کے سپرد کرکے باہر نکل گئے اور یہ تمام ملکوں کے لیے سبق آموز واقعہ ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکہ اور اس جیسے ملکوں کے ہالی ووڈ اسٹائل، فلمی دکھاوا ہیں، کیونکہ ان کی حقیقت وہی ہے جو افغانستان میں دیکھی گئی ہے۔
ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے امریکی فوج کے حوالے سے مشرقی ایشیائی اقوام میں پائی جانے والی نفرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ نے جہاں بھی مداخلت کی ہے، اسے وہاں قوموں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خطے کی بھلائی اس میں ہے کہ تمام ممالک کے پاس مستقل اور اپنی قوموں پر بھروسہ کرنے والی فوج ہو اور ہمسایہ ملکوں کی مسلح افواج کے ساتھ جڑی رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خطے کی مسلح افواج، علاقائی سلامتی کا تحفظ کر سکتی ہیں اور انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے، بیرونی افواج کو مداخلت اور موجودگی کی اجازت نہیں دینا چاہییے۔