سلیمانی

سلیمانی

وہ بابصیرت خاتون جو عام الفیل سے ۱۵ سال قبل اور ہجرت سے ۶۸ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئیں۔
وہ یکتا پرست خاتون جو اسلام سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت میں بھی آسمانی کتابوں پر اعتقاد رکھتی تھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں، وہ اپنے تجارتی کاروان کو دور دراز ممالک کی طرف روانہ کرتے وقت کعبہ میں جا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خدا سے اپنی تجارت میں برکت حاصل ہونے کی دعا کرتی تھیں۔
وہ بااخلاق خاتون جن کی توصیف عصر جاہلیت میں حضرت ابو طالب اس طرح سے کرتے ہیں:انّ خديجةَ اِمْرَأَةٌ كامِلَةٌ مَيمُونةٌ فاضِلَةٌ تَخْشَي العار و تَحْذِرُ الشَّنار(۱)۔بے شک خدیجہ ایک کامل پربرکت اور فاضلہ عورت ہے جو ہر قسم کے ننگ و عار اور بدنامی سے دور ہے۔
وہ خوبصورت خاتون کہ امام حسن مجتبٰی علیہ السلام تمام تر کمالات کے باوجود اپنے آپ کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شبیہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔۔وَ كُنْتُ أَنَا أَشْبَهَ اَلنَّاسِ بِخَدِيجَةَ اَلْكُبْرَى(۲)۔ میں خدیجہ کبری سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والا ہوں۔
وہ پاکیزہ خاتون جس کی پاکدامنی کی وجہ سے ایام جاہلیت میں ہی آپ کو طاہرہ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔
وہ عظیم خاتون جس نے سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ادا کی۔
آپ وہ پارسا خاتون ہیں جن کی ایمان کی گواہی حضرت علی علیہ السلام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:لم یجمع بیت واحد یومئِذٍ فی الاسلام غیر رسول اللّٰه و خدیجہ و انا ثالثھا( ۳)۔ جب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھا بجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور تیسرا فرد میں تھا۔
وہ مالدار خاتون جو تجارت کرتی تھیں اور اپنے سرمایہ کو مضاربہ اور لوگوں کو تجارت کے لئے استخدام کرنے میں استعمال کرتی تھیں۔
وہ شریف خاتون جس کے لئےخداوند نے خیر اور کرامت کو مدنظر رکھا، جو نسب کے لحاظ سے عرب کے ایک متوسط گھرانے سے متعلق تھیں لیکن عظیم شرافت اور دولت کی مالکہ تھیں۔
وہ پاک طینت خاتون جن کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں۔
وہ نجیب خاتون جو نوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں۔
وہ پاکدامن خاتون جس نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کرکے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اور یوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتا دی۔
وہ عفیف خاتون تھیں جنہیں ایسے شوہر کی تلاش تھی جو متقی اور پرہیزگار ہو، ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب میسرہ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ (س) کو بتائے تو ان کے دل میں امین قریش کیلئے جذبہ محبت و الفت بڑھ گیا البتہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذاتی کمالات اور اخلاقی فضائل تھے۔
وہ باکردار خاتون جس نے خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا اور اس کا فلسفہ کچھ اس طرح بیان فرمایا، "اے میرے چچا زاد بھائی چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راستگو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری جانب مائل ہوئی ہوں (اور شادی کے لئے پیغام بھیجا ہے)”۔
وہ ملیکۃ العرب جن کے بارے میں شیعہ و سنی مورخین کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے (ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصفہانی، ابو القاسم کوفی، احمد بلاذری، علم الدی سید مرتضٰی کتاب شافی اور شیخ طوسی کتاب تلخیص شافی) کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کنواری تھیں اور اس سے پہلے ان کا کوئی شوہر نہیں تھا(۴ )۔وہ دور اندیش خاتون جو ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالکہ ہونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور انسانی فضائل و صفات کو ہرگز نہیں چھوڑا۔
وہ نیک خاتون جس نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکےرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت قربان کر دی اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔ وہ سخی خاتون جس نے اپنی ساری دولت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخش دی لیکن یہ محسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اپنی دولت آپ کو بخش رہی ہیں بلکہ محسوس کر رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت، محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دوستی کی وجہ سے، آپ کو عطا کر رہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
وہ کریم خاتون جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے:ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة(۵)۔ کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ (س) کی دولت نے پہنچایا۔ وہ نیک خاتون جو اسلامی تاریخ کی بہت بہترین عورتوں میں سے ایک تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، دنیا میں چار بہترین عورتیں گزری ہیں۔
ا۔ خدیجہ بنت خویلد
۲۔ فاطمہ بنت محمد
۳۔ مریم بنت عمران
۴۔ آسیہ بنت مزاحم۔
وہ باوفا خاتون جس کے بارے میں عائشہ کے اس بیان پر (کہ یا رسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی جو مرگئی اور خدا نے آپ کو اس سے برتر عطا کر دی ہے)، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے غضبناک ہو کر فرمایا:لا واللّٰه ما ابد لنی اللّٰہ خیرا منھا اٰمنت بی اذکفر الناس و صدقتنی اذکذبنی الناس و واستنی بھا لھا اذحرمنی الناس و رزقنی منھا اللّٰه ولدا دون غیرھا من النساء( ۶)۔ خدا کی قسم خدا نے مجھے اس سے بہتر عطانہیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے، اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کر دیا تھا، اور خدا نے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطا فرمائی اور میری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیا۔
وہ بافضیلت خاتون جس کے لئے خداوند متعال نے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: قال لي جبرائيل: بشّر خديجة ببيت في الجنة من قصب لا صخب فيه و لا نصب فيه، يعني قصب الزمرد(۷)۔  جبرئیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ خدیجہ تمہارے لیے بہشت میں ایک قصر ہے اور وہ قصر زمرد کا بنا ہوا ہے۔
وہ جانثار خاتون جس کی اور حضرت ابو طالب علیہما السلام کی جدائی پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا اور یہ مصیبت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لئے اتنی سخت تھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ نشین ہو گئے۔
وہ باحیاء خاتون جو جب تک زندہ رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رہیں۔ دن بھر کی تبلیغ سے تھک کر اور کفار کی ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ہوکر جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں قدم رکھتے تو جناب خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراہٹ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرجھائے ہوئے چہر ے کو پھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی تھی۔
وہ پرہیزگار خاتون جس نے اسلام اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے عجین کیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹھہری جس میں کہا گیا ہے کہ: الإیمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ( ۸)۔ ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے۔
وہ باکمال خاتون جن نے مکہ کی عورتوں کی طعنہ زنی اور انکے مذاق کہ انہوں نے کیوں عبداللہ کے یتیم کے ساتھ شادی کی کے جواب میں بڑی متانت سے فرمایا، کیا آپ لوگ پوری سرزمین عرب میں محمد {ﷺ} جیسے نیک، پسندیدہ خصلت والے اور شرافت کے مالک کسی دوسرے شخص کو پیدا کر سکتی ہیں؟
وہ اطاعت گذار خاتون جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی من و عن اطاعت کرتی تھیں اور انہیں عملی جامہ پہناتی تھیں۔ جن کی وجہ سے آپ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی حیات میں دوسری شادی نہیں کی اور انکی وفات کے بعد بھی انہیں فراموش نہ کرسکے اور ان کی نیکیوں کا ذکر فرماتے رہتے تھے۔
وہ عظمت والی خاتون جنہیں جنت کے جوانوں کے سردار کی نانی بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں حسن اور حسین علیہما السلام کی شان میں فرمایا، (ایھا الناس الا اخبرکم بخیر الناس جدا و جدہ؟) اے لوگو؛ کیا میں تمھیں خبر دے دوں کہ نانا اور نانی کے لحاظ سے بہترین انسان کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کی؛ جی ہاں، یا رسول اللہ ہمیں خبر دیجئے؛ آنحضرت {ﷺ} نے فرمایا: الحسن و الحسین جدھما رسول اللہ و جدتھما خدیجہ بنت خویلد( ۹)۔

وہ حسن و حسین علیہما السلام ہیں کہ ان کے نانا رسول خدا اور ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ وہ بلند مرتبہ خاتون جن کے بارے آئمہ اطہار علیہم السلام فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے، اور ان کو عزت و احترام سے یاد کرتے تھے۔ حضرت امام حسن مجتبٰی علیہ السلام معاویہ سے مناظرہ کرتے ہوئے اپنی سعادت و خوش قسمتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں،”معاویہ؛ چونکہ تمھاری ماں "ہند” اور دادی "نثیلہ” ہے (اور تم نے اس قسم کی پست اور کمینی عورتوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے) اس لئے تم اس قسم کے برے اور ناپسند اعمال کے مرتکب ہو رہے ہو، میری خاندان کی سعادت، ایسی ماؤں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہما جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن اپنے آپ کو دشمن کے سامنے متعارف کراتے ہوئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: أَنْشُدُكُمُ اللّٰهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدَّتِي خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أَوَّلُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِسْلَاماً قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ(۱۰)۔ تمھیں خدا کی قسم کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ میری نانی خدیجہ (س) بنت خویلد اس امت کی پہلی خاتون نہیں کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے؟ سب نے کہا جانتے ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام دمشق میں دربار یزید میں شام کے سرداروں اور بزرگوں کے سامنے اپنے مشہور خطبہ میں اپنا تعارف یوں کرواتے ہیں، (انا بن خدیجۃ الکبری)( ۱۱)۔ میں اسلام کی باعظمت خاتون حضرت خدیجہ کبریٰ (س) کا بیٹا ہوں۔
وہ خوش قسمت خاتون جن کا کفن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عبا تھی۔ آپ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلا فرمایا، ” اے میری نور چشم؛ اپنے باپ، رسول خدا سے کہدو کہ میری ماں کہتی ہیں کہ میں تدفین کے مراسم کے بارے میں آپ (ص) سے درخواست کر رہی ہوں کہ مجھے اپنی اس عبا کا کفن دے کر قبر میں دفن کرنا جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کے زیب تن ہوتی ہے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اس بات کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عبا کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لئے بھیجا اور وہ خوش ہو گئیں۔(۱۲)
وہ مہربان خاتون جن کی رحلت کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بالین پر بیٹھ کر رو رہے تھے۔ اچانک جبرائیل بہشت سے ایک کفن لے کر حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی، "یا رسول اللہ خداوند متعال نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خدیجہ نے اپنے مال کو ہماری راہ میں صرف کیا ہے ہمیں حق ہے کہ ان کے کفن کی ذمہ داری خود سنبھالیں۔
وہ مومنہ خاتون جنہیں خداوند متعال اور جبرئیل امین سلام بھیجتے ہیں۔ ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ پیامبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میں نے معراج کی شب جبرائیل سے پوچھا کہ کیا کوئی حاجت رکھتے ہو؟ جبرئیل امین نے کہا،(حاجتي أن تقرأ على خديجة من اللّٰه و مني السلام) میں چاہتا ہوں کہ خدا اور میری طرف سے خدیجہ کو سلام کہئے۔ جب پیامبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو سلام پہنچایا تو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: إن اللّٰه هو السلام، و منه السلام، و إليه السلام، و على جبرئيل السلام(۱۳)۔ بیشک اللہ خود سلام ہے اور تمام سلامتی اسی کی طرف سے ہے اور اسی کی جانب پلٹتی ہیں اور جبریل پر سلام ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ بحارالانوار، ج۱۶،ص ۵۶-۷۵۔
۲۔ بحارالانوار، ج۲۴،ص۳۱۶۔
۳۔ بحارالانوار،ج۱۵، ص 361
۴۔ ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب، ج۱، ص۱۵۹۔
۵۔ الاصابہ ج /۸ص /۱۰۱، اسد الغابہ ج/۵ص /۴۳۱، سنن ترمذی کتاب مناقب /۳۸۸۶۔
۶۔ بحارالانوار، ج 19، ص 63.
۷۔ صحیح بخاری،ج 3 / 1389، الرقم: 3608۔ابن حیون 1409ق 3/ 17
۸۔ کلینی، الکافی، ج2، ص 27۔
۹۔ بحارالانوار، ج۴۳،ص۳۰۲۔
۱۰۔ بحارالانوار، ج۴۴،ص۳۱۸۔
۱۱۔ بحارالانوار، ج۴۴،ص۱۷۴۔
۱۲۔ خدیجہ ہمسرپیامبر، اسطورہ ایثار و مقاومت، محمد محمدی اشتہاردی، ص۲۶۲۔
۱۳۔ عیاشی،1380ق: ج2ص279؛ابن عبدالبر،1412: 4/1821؛ابن اثیر 1409: 8/102۔

 

خدا کی پہچان مختلف طریقوں اور ذرائع سے ہو سکتی ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ خدا کا متلاشی کس صلاحیت کا مالک ہے؟ اس کی ذہنی سطح کیا ہے؟ ہر چیز انسان کو خدا کی طرف لے کر جاتی ہے شرط فقط یہ ہے کہ انسان اپنی پوری بساط کے مطابق گہرا مطالعہ کرے اور ان ادلہ کو سمجھے جو تخلیق انسان اور اتنے منظم نظام کو قائم رکھنے اور چلانے میں قائم ہیں۔
آئیں کچھ چھوٹی چھوٹی مثالوں پر غور کرتے ہیں۔ایٹم ایک معمولی سا ذرہ ہے اس سے لے کر کہکشاوں تک غور کریں اس میں موجود پورے نظا م کا مطالعہ کریں یہ سب ایک استاد کی طرح آپ کی رہنمائی کرتے ہوئے آپ کو ایک سپر پاور کے وجود کی طرف لے جائے گا۔وہ سپر پاور جو ایٹم سے لے کر کہکشاوں تک کے نظام کا بندوست کرتی ہے،ہمیشہ ان کی نقل و حرکت کو منظم کرتی ہے،وہ طاقت ایسی ہے جو ایسا کام کرتی ہے جسے کرنا عام طاقتوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔تمام موجودات میں غور و فکر کرنا ایک ایسے نظام کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس تمام کائنات پر حاکم ہے۔
قرآن مجید درست عقیدے کے لیے ہر انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور انسان کو ضلالت و گمراہی سے بچاتا ہے۔ یہ بچانا کئی طریقوں سے ہے سب کے سب میں یہ بات مشترک ہے کہ غور و فکر کرنا ہو گا سوچنا ہو گا مخلوق سے خالق کی طرف سفر کرنا ہو گا آنکھوں سے دیکھنا اور قوت لامسہ سے لمس کرنا ہو گا آسمانوں اور زمین میں دقت نظر کرنی ہو گی اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ) (يونس ـ101)
کہدیجئے: آسمانوں اور زمین میں نظر ڈالو کہ ان میں کیا کیا چیزیں ہیں اور جو قوم ایمان لانا ہی نہ چاہتی ہو اس کے لیے آیات اور تنبیہیں کچھ کام نہیں دیتیں۔
اسی طرح دن اور رات کے آنے جانے میں غور کرنا ہو گا ارشاد باری تعالی ہے:
(إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) (البقرة ـ164)

یقینا آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
انسان کو دعوت فکر دی گئی ہے کہ وہ اس مادہ پر غور کرے جس سے اس کی تخلیق کی گئی ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ) (الطارق ـ5)
پس انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی اور بہت سی آیات اسی طرح غور و فکر کی طرف رہنمائی کری ہیں۔ان آیات میں اس بات کی طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ انسانی تجربے اور اس کی قوت حواس کو استعمال میں لا کر اللہ تعالی کے وجود کو ثابت کیا جا سکتا ہے اور اس کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔عالم ہستی کے نظام کے ذریعے خدا کی معرفت تک پہنچنے کا عمل برھان نظم کہلاتا ہے۔برھان نظم اللہ کے وجود پر سب سے بڑی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے کیونکہ وجود خدا پر بہت سی دلیلوں کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے۔اس کائنات کا منظم نظام اور اس میں موجود تمام نظاموں کا باہمی طور پر مربوط رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی خالق ہے جس نے اتنا منظم نظام بنایا ہے اور یہی اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وہ خالق اس نظام کو چلا بھی رہا ہے ورنہ یہ نظام بغیر چلانے والے کہ نہیں چل سکتا تھا۔یہ ایسا خالق ہے جو تنہا ہی طاقت و حکومت کا مالک ہے اور اس کی حکومت میں ہی یہ پیچیدہ ترین نظام انتہائی منظم انداز میں چل رہا ہے۔اگر یہ طاقتور خالق چلانے والا نہ ہوتا تو یہ نظام کب کا تباہ ہو چکا ہوتا۔یہ نظام منظم نظام ہے جس میں تناسب پایا جاتا ہے ہر چیز خاص مقرر انداز میں اس کا حصہ ہے اس پر حاکم کی حکومت میں کوئی شریک نہیں ہے اور وہی حاکم اللہ تعالی کی ذات ہے۔کسی بھی عقیدے سے مطمئن ہونے سے پہلے او رکسی بھی دینی اور غیر دینی نظریہ کو اختیارکرنے سے پہلے اس عظیم الشان بنانے والے کی پہچان ضروری ہے جس نے اس لا متناہی نظام کو تشکیل دیا ہے جس نے اس نظام کو خلق کیا ہے وہی خالق اللہ تعالی ہے۔

 ماہ مبارک رمضان ولادت قرآن کریم، انس قرآن، بہار قرآن، پہچان قرآن اور اس سے فکری اور عملی فائدہ حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ ایسا مہینہ کی جس کی شب قدر میں قلب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے مکمل قرآن کو جبرائیل امین علیہ السلام سے وصول کیا۔ قرآن مجید لوح محفوظ سے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیع و نورانی قلب پر اتارا گیا۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں ہم سب روزہ رکھنے، عبادت کرنے، مناجات و دعا کر کے معنوی آمادگی کے ذریعے سے قرآن مجید کے استقبال کیلئے اگے بڑھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ خالص روزے، دعا و مناجات کے پرتو میں ہم قرآن کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتے ہوئے یہ مصمم ارادہ کریں کے قرآن کے ساتھ ہمارا رابطہ محکم سے محکم تر ہو جائے۔

 قرآن کریم ماہ مبارک رمضان کی وہ روح ہے جو اسکے جسم میں پھونکی جا چکی ہے، جس سے اس مہینے کی عظمت دوگنی چگنی ہو گئی ہے۔ قرآن قلب ماہ مبارک رمضان ہے جس کے تپش کے بغیر روزہ دارون کی رگوں میں معنوی زندگی کی حقیقت جاری نہیں ہوتی۔ قرآن دلوں کی بہار اور ماہ مبارک رمضان قرآن کی بہار ہے جیساکہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں "لِکُلِّ شَیْ‌ءٍ رَبِیعٌ وَ رَبِیعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَان"‌ ہر چیز کی ایک بہار ہوتی ہے قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے (علامہ مجلسی، بحار الانوار ج 96 ص 386) اسی طرح امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں قرآن میں تدبر کرو کیونکہ قرآن دلوں کی بہار ہے "وَ تَفَقَّهُوا فيه فَاِنَّهُ رَبـيعُ القُلُوبِ" (سید رضی، نہج البلاغہ خطبہ نمبر 110) اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا شب قدر قلب ماہ مبارک رمضان ہے :"قَلبُ شَهرِ رَمَضانَ لَيلَةُ القَدرِ" (بحار الانوار ج 96 ص 386(

 اس سے معلوم ہوا کہ ماہ رمضان کی برکات کا بڑا حصہ قرآن سے متعلق ہے لذا ہمیں چاہیئے اس مبارک مہینے میں اپنے دلوں کی کھیتی میں قرآن مجید کے نورانی اصولوں کے بیج بوئیں تاکہ معنوی رشد و ترقی کر سکیں اور قرآن کے پھل کو اپنی روح کیلئے غذا قرار دیتے ہوئے قوت قلوب کو قرآنی برکات کی روشنی میں محفوظ بنائیں۔ اس طرح کے فوائد انسِ قرآن کے بغیر حاصل کرنا دشوار ہے۔  

اُنسِ قرآن مجید:

 امام الموحدين علی بن ابی طالب علیہ الصلواہ والسلام فرماتے ہیں جو بھی تلاوت قرآن سے مانوس ہو گیا دوستوں کی جدائی اسے وحشت زدہ نہیں کر سکتی "مَن أنِسَ بِتِلاوَةِ القرآنِ لم تُوحِشهُ مُفارَقَةُ الإخوان"  (غرر الحکم  8790)، اسی طرح سے سید الساجدین زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: "لَوْ ماتَ مَنْ بَيْن الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ اَنْ يَكُونَ الْقُرآنُ مَعي" اگر مشرق و مغرب میں رہنے والے تمام لوگ فوت ہو جائیں اور میں اکیلا رہ جاؤں جبکہ قرآن میرے پاس ہو تو مجھے کوئی وحشت و خوف محسوس نہیں ہو گا۔ (محمد بن یعقوب کلینی، اصول کافی ج2، 610)

 یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسِ قرآن کی حقیقت کیا ہے جو انسان کو اتنا محکم اور قدرت مند بناتی ہے کہ ہر قسم کا اضطراب و پریشانی اس سے دور ہو جاتی ہے؟

 اسکا جواب یہ ہے کہ انس کی حقیقت ہمدم ہو جانا ہے جس طرح ایک شیر خوار بچے کو اپنی ماہ کے سینے سے انس ہوتا ہے۔ لیکن کبھی انسان اتنا زیادہ سرشار ہوتا ہے کہ اسکا انس اس شیرخوار کے انس سے بھی  زیادہ ہوتا ہے جس طرح سے امیر المومنین علی علیہ السلام  آپ کو موت کی دھمکی دینے والے دل کے اندھے منافقین کے جواب میں فرماتے ہیں: "وَاللّهِ لاَبنُ أبيطالِبٍ آنَسُ بِالمَوتِ مِنَ الطِّفلِ بِثَدىِ اُمِّهِ" خدا کی قسم  علی بن ابی طالب کا موت و شہادت سے انس ایک شیرخوار کے سینہِ مادر کے انس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 5)

 پس عارف حقیقی وہ ہے جو خدا اور کلام خدا کے ساتھ اس طرح مانوس ہو جیسے امیر المومنین علیہ السلام خدا کے اس فرمان {يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ} (سورہ الانفطار آیت 6) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "كُن للّهِ مُطيعاً ، و بِذِكرِهِ آنِساً"  خدا کی اطاعت کرنے والے بنو اور اس کے ذکر سے مانوس رہو۔  ( نہج البلاغہ خطبہ 223)۔

 پس بنابر این حقیقی انس کا مفہوم انسان کا شیءِ مانوس کے ساتھ عشق و محبت جیسا ناقابل انفکاک ارتباط اور ہمدم ہو جانا ہے۔ خدا اور کلام خدا کے ساتھ ایسا انس و محبت اولیاء خدا کی خصوصیات اور ہر مومن عارف و پارسا کی صفات میں سے ہے جیساکہ امام علی علیہ السلام دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اللَّهُمَّ إِنَّكَ آنَسُ الْآنِسِينَ لِأَوْلِيَائِكَ۔۔۔ إِنْ أَوْحَشَتْهُمُ الْغُرْبَةُ آنَسَهُمْ ذِكْرُكَ" خدایا تو اپنے اولیاء اور چاہنے والوں کیلئے سب سے زیادہ مونس ہے ۔۔۔ اگر غربت و تنہائی انکو وحشت زدہ کرے تو آپکی یاد انکی تنہائی میں مونس بن جاتی ہے۔ ( نہج البلاغہ، خطبہ 227)

ماہ مبارک رمضان تجلی گاہ قرآن:

 ماہ مبارک رمضان، نزول قرآن مجید، ماہ خداوند متعال،  ماہ تزکیہ و تہذیب نفس ہے۔ قرآن مجید کی تجلی قلب مطہر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شب قدر میں ہوئی جوکہ اس مبارک مہینے میں واقع ہے۔  اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ماہ مبارک رمضان تجلی گاہ قرآن کریم اور انسِ قرآن مجید کا مہینہ ہے.

 روزہ دار مومن اس مہینے میں خدا کے مہمان ہیں جن کے لئے قرآن کا پر برکت دستر خوان بچھایا گیا ہے۔  لہذا اس ماہ میں تلاوت قرآن سے مانوس ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کی آیات میں تدبر و تفکر کر کے مفاہیم قرآن سے فکری و عملی طور پر بہرہ مند ہو کر اپنے رشد و تکامل ملکوتی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اسی لئے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے شعبان کے آخری جمعے میں دیے گئے خطبہ شعبانیہ کے ایک فراز میں میں فرمایا: " هُوَ شَهْرٌ دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَی ضِیَافَةِ اللَّهِ وَ۔۔۔۔۔ مَنْ تَلَا فِیهِ آیَةً مِنَ الْقُرْآنِ کَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِی غَیْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ"  ماہ مبارک رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں خداوند میزبان اور اپ مہمان ہیں۔۔۔ جو کوئی بھی اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا  اسے باقی مہینوں میں تلاوت کئے گئے ختم قرآن کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا۔ (شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج ۲، ص ۲۹۵)

 ماہ رمضان کی دعاؤں میں قرآن اور انسِ قرآن کا ذکر کتاب ہدایت و ارشاد کے عنوان کے ساتھ زیادہ آیا ہے۔ خصوصا ماہ مبارک رمضان کی دعائیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں، ہم دوسرے دن کی دعا میں پڑھتے: "اللهم وفقنى فیه لقرائه آیاتك"  اور بیسویں دن کی دعا میں پڑھتے ہیں: "اللهم وفقني فیه لتلاوة القرآن" خدایا مجھے اس دن تلاوت آیات قرآن کی توفیق عطا فرما (مفاتیح الجنان، دعاء ماہ رمضان) ان دو دعائیہ عبارتوں میں تلاوت و قراءت قرآن مجید اور اسی طرح سے تلاوت تدبر آمیز و مقارن با عمل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے؛ کیونکہ کلمہ تلاوت درحقیقت تلو اور تالی سے نکلا ہے جس کا معنی پی در پی آنا اور بغیر کسی فاصلے کے ہونا ہے۔  واضح رہے کہ اس طرح کی توفیق قرآن مجید سے انسِ حقیقی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، انسِ حقیقی قرآن مندرجہ ذیل تین اصولوں سے تشکیل پاتا ہے.

1۔    آیات قرآن کی تلاوت

2۔   تدبّر و شناخت قرآن

3۔   دستورات قرآن پر عمل کرنا

 امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: " قُرّاءُ القرآنِ ثلاثةٌ: رجُلٌ قَرَأَ القرآنَ فاتَّخَذَهُ بِضاعَةً فاستَحرَمَهُ المُلوكَ و استَمالَ به الناسَ ، و رَجُلٌ قَرَأَ القرآنَ فأقامَ حُروفَهُ و ضَيَّعَ حُدودَهُ ، كَثُرَ هؤلاءِ مِن قُرّاءِ القرآنِ لا كَثَّرَهُم اللّهُ تعالى ! و رجُلٌ قَرَأَ القرآنَ فَوَضَعَ دَواءَ القرآنِ على داءِ قلبِهِ فَأسهَرَ بهِ ليلَهُ و أظمَأَ بهِ نَهارَهُ و قامُوا في مَساجِدِهِم و حَبَوا بهِ تَحتَ بَرانِسِهِم ، فهؤلاءِ يَدفَعُ اللّهُ بهِمُ البَلاءَ و يُزيلُ مِن الأعداءِ و يُنزِلُ غيثَ السماءِ ، فو اللّهِ لَهؤلاءِ مِن القُرّاءِ أعَزُّ مِن الكِبريتِ الأحمَرِ" قاریان قرآن تین گروہ ہیں وہ جو قران پرھتے ہین اور اسے بادشاہوں سے قرب کا وسیلہ اور لوگوں کی توجہ جلب کرنے کا ذریعہ  قرار دیتے ہیں۔ وہ جو قرآن پڑھتے ہیں اسکے الفاظ کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ اس کے معانی کو ضائع کر دیتے ہیں، یہ دو گروہ کتنے زیادہ ہیں اللہ تعالی انکی تعداد بڑھنے سے بچائے۔ اور وہ جو قرآن پڑھتا ہے اور اسکی دوا کو اپنے دل کے زخم پر رکھتا ہے، اس سے شب زندہ دار اور روزہ دار بن جاتا ہے اسے اپنی مسجدوں میں برپا کرتے ہیں ۔۔۔ یہ وہ ہیں جن کی برکت سے خدا بلائیں ٹال دیتا ہے، دشمنوں کو نابود کر دیتا ہے اور باران رحمت نازل فرماتا ہے۔ پس خدا کی قسم قاریان قرآن میں ایسا گروہ کبریت احمر سے بھی کامیاب تر ہے۔ (اصول کافی، ج2، ص627)۔

 امام سجاد علیہ السلام جب ختم قرآن کرتے تھے تو دعا فرماتے تھے اس دعا کے ایک فراز میں اس طرح آیا ہے: " اللَّهُمَّ فَإِذْ أَفَدْتَنَا الْمَعُونَةَ عَلَى تِلَاوَتِهِ، وَ سَهَّلْتَ جَوَاسِي أَلْسِنَتِنَا بِحُسْنِ عِبَارَتِهِ، فَاجْعَلْنَا مِمَّنْ یرْعَاهُ حَقَّ رِعَایتِهِ" اے خدا جب آپ نے تلاوت قرآن کرنے میں ہماری مدد فرمائی ہے کہ آپ نے ہماری زبانوں کے عقدوں کو قرآن کی  خوبصورت عبارتوں کے ساتھ آسان کر دیا ہے تو ہمیں اس کا کماحقہ حق ادا کرنے والوں میں سے قرار دے۔ (صحیفہ سجادسجادیہ نمبر ۴۲)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121 [الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ] کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "يَتَّبِعُونَهُ حَقَّ اتِّباعِهِ" مومنین جس طرح سے پیروی کرنے کا حق ہے قرآن کی پیروی کرتے ہیں۔ (سیوطی، الدر المنثور، ج 1 ص 111) ایک اور مقام پر فرمایا: کتنے ہی قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں جبکہ قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے "رُبَّ تالِ القرآنِ و القرآنُ يَلعَنُهُ" (بحار الانوار، ج 92، ص184)

  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام ان حدیثوں اور اس طرح کے دسیوں احادیث میں اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ تلاوت قرآن اس وقت با ارزش اور سود مند ہوگی جب تفکر اور تدبر کے ہمراہ اور دستورات قرآن پر عمل کرنے کے پختہ ارادے کے ساتھ ہوگی۔ حقیقی انسِ قرآن اس طرح کے برناموں سے وابستہ ہے ورنہ خوارج نہروانی جو کہ مولا علی علیہ السلام کے خونخوار دشمن تھے وہ سارے قاریان قرآن میں سے تھے لیکن قرآن میں سے صرف اس کی قاف کو جانتے تھے۔ اسی لیے انہوں سے مولا علی علیہ السلام جوکہ سراپائے توحید تھے کی تکفیر کی اور ان کے خلاف میدان جنگ سجایا۔

اولیاء خدا کا قرآن سے اُنس:

چند نمونے:

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام اور اولیاء الہی قرآن مجید کے ساتھ بہت زیادہ انس و الفت رکھتے ہیں۔ صرف تلاوت قرآن پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسکے ظاہری و باطنی فیض سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ آیات قرآن میں تفکر و تدبر کرتے ہیں۔ آیات کو ٹھہر ٹھہر کر خوبصورت و جذاب آواز میں انکے معانی کی طرف توجہ اور مفاہیم پر عمل کرنے کے مصمم ارادے کے ساتھ تلاوت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر قرآن میں کئی بار [ يأيها الذين آمنوا..] تکرار ہوا ہے حضرت امام رضا علیہ السلام آیات کلام مجید کی تلاوت فرماتے ہوئے اس آیت پر پہنچتے اور اسکی تلاوت فرماتے تو بلا فاصلہ کہتے لبيك اللهم لبيك (بحار الانوار ج 85 ص 34)  اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام دستورات خدا پر عمل پیرا ہونے کا مصمم ارادے کرتے ہوئے تدبر کے ساتھ آیات کتاب خداوند کی تلاوت فرماتے تھے۔ یہاں ہم ائمہ طاہرین کی زندگی سے انس قرآن کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

  1.  امام حسین علیہ السلام کا قرآن مجید سے اتنا زیادہ انس تھا کہ جب میدان کربلا میں 9 محرم الحرام کی شام دشمن آپ اور آپ کے اہل بیت و انصار سے جنگ لڑنے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا تو آپ نے عباس علمدار علیہ السلام سے فرمایا: دشمن کے پاس جا کر آج رات کی مہلت طلب کرو کیونکہ میرا خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز خدا اور تلاوت کتاب خدا سے محبت ہے " فهو یعلم أنّي أحبّ الصّلاة له و تلاوةَ کتابه" (ابن جریر الطبری، تاریخ طبری ج 6 ص 337)
  2. امام سجاد علیہ السلام جب بھی سورہ الحمد کی تلاوت فرماتے ہوئے [مالك يوم الدين]  تک پہنچتے تو خضوع و خشوع کے ساتھ اس آیت مجیدہ کا اتنا تکرار کرتے تھے کہ ایسا لگتا تھا آپ کی جان قفس بدن سے پرواز کرنے والی ہے (اصول کافی، ج 2 ص 602) آپ کلام مجید کی تلاوت اتنی خوبصورت اور دل نشین آواز سے کیا کرتے تھے کہ سقا (پانی بھرنے والے) آپ کے گھر کے قریب سے گزرتے تھے تو آپ کی تلاوت سننے کےلئے رک جایا کرتے تھے  (اصول کافی، ج 2 ص 616)۔
  3. امام صادق علیہ السلام نماز پڑھتے ہوئے ایک مخصوص ملکوتی حالت میں آیات مجیدہ کی تلاوت کرتے تھے کہ عادی حالت سے خارج ہو جاتے تھے۔ ایک روز آپ پر یہ کیفیت طاری ہوئی اور جب عادی حالت میں پلٹے تو وہاں موجود لوگوں نے عرض آپ پر کیسی کیفیت طاری ہوئی تھی؟ آپ نے جواب دیا: "ما زِلتُ اُكَرِّرُ آياتِ القُرآنِ حَتّى بَلَغتُ إلى حَالٍ كَأَنَّني سَمِعتُ مُشافَهَةً مِمَّن أنزَلَها عَلَى المُكاشَفَةِ والعِيانِ ۔۔۔" میں مسلسل ان آیات کا تکرار کر رہا تھا یہاں تک کہ میری یہ کیفیت ہو گئی کہ گویا ان آیات کو میں بالمشافہہ براہ راست حضرت جبرائیل  ع سے سن رہا ہوں ۔۔ (بحار الانوار ج 84 ص 248)۔
  4. حضرت امام رضا علیہ السلام قرآن سے اتنی زیادہ الفت و محبت اور انس رکھتے تھے کہ ہر تین دن کے اندر ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں چاہتا تو تین دن سے کم عرصے میں بھی ختم قرآن کر سکتا تھا لیکن کوئی بھی ایسی آیت نہیں تھی جس کی تلاوت کی ہو لیکن اس کے معنی میں غور و فکر نہ کیا ہو یہ آیت کس موضوع اور کس موقع پر نازل ہوئی ہے اس میں غور نہ کیا ہو "وكان يختم القرآن في كل ثلاثة ويقول: لو أردت أن أختمه في أقرب من ثلاثة تختمت ولكني ما مررت بآية قط إلا فكرت فيها وفي أي شئ أنزلت وفي أي وقت؟ فلذلك صرت أختم في كل ثلاثة أيام" ( ابن شهر آشوب  طبرسی، مناقب آل ابی طالب، ج 4 ص 360)
  5. محدث نوری صاحب کتاب مستدرک الوسائل سند معتبر کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ عالم ربانی اور فقیہ صمدانی حضرت  آیت اللہ العظمی سید مہدی بحرالعلوم (ت 1212) ایک دن مرقد مطہر امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کے لئے حرم میں داخل ہوئے اچانک اس شعر کو مخصوص حالت میں زمزمہ کرنے لگے:

چه خوش است صوت قرآن زتو دلربا شنیدن

به رخت نظاره کردن، سخن خدا شنیدن

تلاوت قرآن آپ کی دلربا آواز میں سننا کتنا اچھا لگتا ہے

تیرے چہرے کی زیارت کرنا سخن خدا کو سننا (کتنا اچھا لگتا ہے)

 کچھ دیر کے بعد کسی نے آپ سے پوچھا  آپ نے اس شعر کو کس مناسبت سے پڑھا تو انہوں نے جواب دیا: جب میں حرم میں داخل ہوا تو ضریح مطہر کے قریب حضرت حجت دوران عجل اللہ فرجہ الشریف کو خوبصورت اور بلند آواز میں تلاوت کلام پاک کرتے دیکھا جب ان کی خوبصورت اور دل نشین آواز سنی تو یہ شعرالشری اور جب میں ضریح کے قریب پہنچا تو آپ تلاوت مکمل کر کے  وہاں سے چلے گئے (محدث نوری جنه الماوی آخر کتاب و بحار الأنوار ج 53 ص 302)۔

  1. امیرالمومنین علی علیہ السلام نے جنگ صفین کے بعد ایک دن مسجد کوفہ میں اپنے اصحاب کو خطاب فرمایا اس خطبہ  میں آپ نے اپنے کچھ برجستہ اصحاب کو دکھی دل سے یاد فرمایا: (کہان ہیں میرے وہ بھائی جو حق کے راستے پر چلے گئے؟ کہاں ہیں عمار یاسر؟ کہاں ہیں ابن تیهان؟ کہاں گئے ذو الشہادتین؟ کہاں ہیں ان جیسے ان کے بھائی جنہوں نے جان کی بازی لگانے کا عہد کیا اور ان کے سروں کو فاجرون کی طرف بھیجا گیا؟) تب مولا نے اپنا ہاتھ اپنی ریش مبارک پر رکھا اور دیر تک گریہ کیا پھر ان کی کچھ خوبیوں کو بیان کیا کہ ان کی پہلی خوبی تلاوت قرآن اور اس پر عمل پیرا ہونا تھا فرمایا: افسوس ہے ان بھائیوں پر جو تلاوت قرآن کیا کرتے تھے اور اس سے فائدہ حاصل کیا کرتے  تھے " أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ وَمَضَوْا عَلَى الْحَقِّ؟ أَيْنَ عَمَّارٌ وَأَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ وَأَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ وَأَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَعَاقَدُوا عَلَى الْمَنِيَّةِ وَ أُبْرِدَ بِرُءُوسِهِمْ إِلَى الْفَجَرَةِ؟ قَالَ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى لِحْيَتِهِ الشَّرِيفَةِ الْكَرِيمَةِ فَأَطَالَ الْبُكَاءَ ثُمَّ قَالَ (علیه السلام): أَوِّهِ عَلَى إِخْوَانِيَ الَّذِينَ تَلَوا الْقُرْآنَ فَأَحْكَمُوهُ.. " (نہج البلاغہ خطبہ نمبر 182)۔
  2. امام راحل حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایسے عالم  بزرگ تھے جنکا ظاہر و باطن میں قرآن کے ساتھ بہت گرم جوش اور عمیق رابطہ تھا۔ وه قرآن سے بہت زیادہ فکری اور عملی استفادہ کیا کرتے تھے۔ ان کا اپنے اہداف کے حصول کے لیے سب سے بڑا اطمینان بخش اور قوی سہارا قرآن مجید تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: "اگر خداوند نے قرآن میں طاغوت کے مقابلے میں انبیاء علیہ السلام کے قصے ذکر کئے ہیں موسی، فرعون، ابراهیم و نمرود کا تذکرہ کیا ہے خدا کا مقصد قصہ گوئی نہیں تھا بلکہ خدا کا منظور نظر ہر دور میں طاغوتوں کے مقابلے کے لئے انبیاء  علیہم السلام کے پروگرام کو بیان کرنا تھا یعنی ہم بھی قرآن کے پیرو ہیں ہمیں چاہیئے طاغوت کی نابودی تک ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں."

بارہا یہ کہا کرتے تھے قرآن ایک مکمل انسان ساز کتاب ہے اسے انسان سازی کے لئے اتارا گیا ہے حضرت امام اپنی زندگی کے اہم حصے یہاں تک کہ دوران جنگ اور آخری عمر کی بیماری کے دوران بھی قرآن کے ساتھ مانوس تھے۔ آیات مجیده کی تلاوت اور ان میں تدبر کے ذریعے خدا سے مرتبط تھے۔

  آپ کے دفتر کے ایک مسوول اس حوالے سے لکھتے ہیں: "حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا روزانہ کا خاص نظم و ضبط تھا جس میں سے کچھ وقت آیات قرآن کی تلاوت میں گزارتے تھے آپ کے کام اتنے منظم تھے کہ عام طور پر ایک کام کی طرف توجہ سے دوسرا کام ضایع نہیں ہوتا تھا"  (محمد حسن رحیمیان درسایه آفتاب  ص 183)

 امام آدھی رات کو جب نماز شب کے لیے جاگتے تھے تو کچھ دیر قرآن کی تلاوت کرتے تھے یہاں تک کہ آخری دنوں میں جب ہسپتال میں ایڈمٹ تھے خفیه کیمرے سے آپ کی ویڈیو بنائی گئی،  بہت سوں نے دیکھا کہ آپ بستر سے اٹھے قرآن مجید کو اٹھایا اور تلاوت میں مصروف ہو گئے۔

 ایک شخص نے میدان جنگ میں بھیجنے کے لیے چھوٹے چھوٹے قرآن تیار کیے اور آپ کے دفتر لے آیا تاکہ آپ ان کو متبرک کریں۔ وہ قرآن آپ کے پاس لائے گئے اور عرض کیا گیا: "یہ وہ قرآن ہے جو چند سوروں پر مشتمل ہیں چاہتے ہیں کہ میدان جنگ کے لیے تبرک بھیجیں" اگرچہ امام کا رویہ مکمل پرسکون اور معتدل ہوتا تھا لیکن انہوں نے خلاف معمول ایک دم  عجلت اور شدید پریشانی کے ساتھ اپنے ہاتھ کو پیچھے کھینچا اور سخت ملامت آمیز لہجے میں بولے میں قرآن کو متبرک کرون؟ یہ کیسا کام ہے جسے انجام دے رہے ہو؟"

 ایک دن غلطی سی قرآن کا ایک نسخہ دوسری چیزوں کے ساتھ امام کے پاس لائے اور زمین پر رکھ دیا  امام ناراض ہوئے اور کہا: "قرآن کو زمین پر مت رکھیں" بلا فاصله انہوں نے قرآن اٹھا کر قریب رکھی میز پر رکھ دیا اس وقت آپ صوفی پر بیٹھے تھے۔  پس معلوم ہوا کہ امام نہیں چاہتے تھے کہ قرآن ان کی بیٹھنے کی جگہ سے نیچے ہو۔

 ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسینیہ جماران میں ملاقات کی تقریب میں خلاف معمول کرسی کی بجائے زمین پر بیٹھے تھے؛ کیونکہ اس دن قرآن کے مقابلے میں کامیاب ہونے والے آئے ہوئے تھے اور فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس اجلاس میں قرآن کی کچھ آیات تلاوت ہوںگی۔

 حضرت امام ہر سال ماہ مبارک رمضان سے کچھ دن قبل حکم دیا کرتے تھے کہ مخصوص افراد کے لیے تلاوت ختم قرآن تلاوت کی جائے۔ (وہی سابق؛  ص 114-115)

 روایات میں آیا ھے ایک دن امام کاظم علیہ السلام کے صالح شاگرد علی بن مغیرہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا "میں اپنے والد کی طرح ماہ مبارک رمضان میں 40 ختم قرآن کرتا ہوں کبھی مصروفیات اور خستگی کی وجہ سے کمی بیشی ہو جاتی ہے اور عید الفطر کے دن ایک ختم قرآن کا ثواب روح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآله سلم دوسرے کا روح امام علی علیہ السلام تیسرے کا روح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا چوتهے کا امام حسن اور باقی ائمہ یہاں تک کہ آپ کو ہدیہ کرتا ہوں اس کا مجھے کیا اجر ملے گا؟ تو امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا: آپ کو اس کام کا یہ ثواب ملے گا کہ آپ قیامت کے دن ہمنشین اہل بیت علیہم السلام ہوں گے۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: اللہ اکبر یقینا مجھے ایسا مقام عطا کیا جائے گا؟ آپ نے تین بار فرمایا : ہاں "فَقَالَ لَهُ أَبِي نَعَمْ مَا اسْتَطَعْتُ فَكَانَ أَبِي يَخْتِمُهُ أَرْبَعِينَ خَتْمَةً فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثُمَّ خَتَمْتُهُ بَعْدَ أَبِي فَرُبَّمَا زِدْتُ وَ رُبَّمَا نَقَصْتُ عَلَى قَدْرِ فَرَاغِي وَ شُغُلِي وَ نَشَاطِي وَ كَسَلِي فَإِذَا كَانَ فِي يَوْمِ الْفِطْرِ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ ص خَتْمَةً وَ لِعَلِيٍّ ع أُخْرَى وَ لِفَاطِمَةَ ع أُخْرَى ثُمَّ لِلْأَئِمَّةِ ع حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَيْكَ فَصَيَّرْتُ لَكَ وَاحِدَةً مُنْذُ صِرْتُ فِي هَذَا الْحَالِ فَأَيُّ شَيْ‌ءٍ لِي بِذَلِكَ قَالَ لَكَ بِذَلِكَ أَنْ تَكُونَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَلِي بِذَلِكَ قَالَ نَعَمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ" (اصول کافی ج 2 ص 618)

  اس بحث کے آخر میں قرآن کی تلاوت کے ثواب کے حوالے سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی حدیث کو ذکر کرتا چلوں کہ آپ نے فرمایا: "قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‌ مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ فِي لَيْلَةٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ وَ مَنْ قَرَأَ خَمْسِينَ آيَةً كُتِبَ مِنَ الذَّاكِرِينَ وَ مَنْ قَرَأَ مِائَةَ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ وَ مَنْ قَرَأَ مِائَتَيْ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْخَاشِعِينَ وَ مَنْ قَرَأَ ثَلَاثَ مِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْفَائِزِينَ وَ مَنْ قَرَأَ خَمْسَمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُجْتَهِدِينَ وَ مَنْ قَرَأَ أَلْفَ آيَةٍ كُتِبَ لَهُ قِنْطَارٌ مِنْ تِبْرٍ الْقِنْطَارُ خَمْسَةَ عَشَرَ أَلْفَ مِثْقَالٍ مِنْ ذَهَبٍ وَ الْمِثْقَالُ أَرْبَعَةٌ وَ عِشْرُونَ قِيرَاطاً أَصْغَرُهَا مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ وَ أَكْبَرُهَا مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ"

 وہ مومن که جو ہر رات قرآن کی دس آیات تلاوت کرے اس کا نام غافلین میں نہیں لکھا جائے گا اور جو پچاس آیات کی تلاوت کرے گا اس کا نام ذاکرین میں لکھا جائے گا اور جو سو آیات تلاوت کرتا ہے تو اس کا نام قانتین میں لکھا جائے گا اور جو دو سو آیات تلاوت کرتا ہے اس کا نام خاشعین میں لکھا جائے گا  اور جو  تین سو آیات تلاوت کرتا ہے اس کا نام فائزین میں لکھا جائے گاںاور جو پانچ سو آیات تلاوت کرے گا اس کا نام مجتہدین میں لکھا جائے گا اور جو ایک ہزار آیات کی تلاوت کرے گا تو بہشت میں اس کے لئے سونے کا ایک ڈھیر ہو گا جو پاندرہ سو مثقال سونے کے برابر ہوگا کہ ہر مثقال 24 قیراط ہے کہ سب سے چھوٹا قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور سب سے بڑا قیراط زمین اور آسمان کے درمیاں فاصلے جتنا ہے۔ (اصول کافی ج 2 ص 613)۔

مصنف: محمد محمدی اشتهاردى

منبع: نشریه پاسدار اسلام 1375 شماره 182

مترجم:  زوار حسین

 شام کے ساحلی علاقوں میں آج سنیچر کو بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور انسانی حقوق کے اداروں نے کئی خونریز مجرمانہ وارداتوں کی خبر دی ہے جن میں دمشق کی نئی حکومت کے  عناصر کے ہاتھوں عورتوں اور بچوں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد عام شہریوں کا قتل عام کردیا گیا

ارنا کے مطابق شام کے ساحلی علاقوں میں  الجولانی کی صدارت میں دمشق کی نئی حکومت کے مسلح عناصر اور الجولانی کی پالیسیوں کے مخالفین کے درمیان کئی دن سے مسلحانہ جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق شام کی نئی حکومت کی پالیسیوں نے بالآخر علویوں میں غم وغصے کے لہر دوڑا دی اور جمعرات سے قرداحہ، جبلہ، لاذقیہ، طرطوس، حمص اور مصیاف سمیت مختلف شہروں میں وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے۔

الجولانی کے مسلح افراد نے ان پر امن مظاہروں کی سرکوبی کے لئے مظاہرین پر راست فائرنگ کردی ۔ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ شہر حمص میں الجولانی کے مسلح افراد کی فائرنگ میں ایک شخص جاں بحق اور تین زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد پورے ساحلی علاقوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔


 

رپورٹوں کے مطابق صوبہ لاذقیہ کے الحفہ، المختاریہ اور الشیر نامی قصبوں میں الجولانی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں اور مسلح کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئيں جن میں درجنوں افراد مارے گئے۔

ابلاغیاتی ذرائع نے بتایا ہے کہ دمشق کی عبوری حکومت کے مسلح افراد نے علویوں کا سر عام قتل عام کیا ہے۔

 
 

بتایا گیا ہے کہ  الجولانی کے مسلح افراد کے ہاتھوں علویوں کے ممتاز مذہبی پیشوا شیخ شعبان منصور، اپنے بیٹے کے ہمراہ پہلے اغوا ہوئے اور پھر قتل کردیئے گئے۔  

ابلاغیاتی ذرائع نے علویوں کے قتل عام کی پانچ مجرمانہ وارداتوں کی خبر دی ہے جن میں دمشق کی نئی حکومت کے مسلح عناصر کے ہاتھوں عورتوں اور بچوں سمیت 162  نہتے شہری قتل ہوگئے ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج سنیچر 8 مارچ کی شام اسلامی جمہوریہ ایران کے تینوں شعبوں، مقننہ، مجریہ اور عدلیہ کے سربراہوں نیز  دیگر حکام سے ملاقات میں شہید سید ابراہیم رئیسی کو یاد کیا۔

 آپ نے اپنے خطاب میں صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی گفتگو کی طرف جو موصوف نے ملاقات کے شروع میں کی تھی، اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ صدر جمہوریہ کی تقریر بہت وسیع، اچھی اور مفید تھی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو چیزی میری توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے وہ ان کے اندر پایا جانے والا جذبہ ہے جو بہت اہم ہے ۔ ان کا یہ احساس بہت اہم ہے اور یہ بات میں نے خود ان سے بھی بارہا کہی ہے۔

   آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ " ان کی یہ بات کہ " ہمارے لئے ممکن ہے، یقینا انجام دیں گے، پیروی کریں گے، ہم خدا پر توکل  کرتے ہیں، خدا کے علاوہ اور کسی پر توکل نہیں کرتے" یہ بہت اہم ہے اور ان شاء اللہ نصرت الہی سے وہ یہ کام کرسکیں گے۔"  

 رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں فرمایا کہ " مغربی تہذیب کی بنیادیں، اسلامی بنیادوں کی مخالف ہیں اور اہم اس کی پیروی نہیں کرسکتے۔"  

آپ نے فرمایا کہ ہم دنیا میں کہیں بھی پائی جانے والی اچھی باتوں سے استفادہ کرسکتے ہیں لیکن جہاں اصولوں کی بات ہو تو ہم مغربی تہذیب کے اصولوں کو بنیاد نہیں بناسکتے۔  

 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ " مغرب کے دوہرے معیار درحقیقت مغربی تمدن کی گھناؤنی حقیقت  سامنے لاتے ہیں؛ ان کے  دوہرے معیاروں کا ایک نمونہ آزاد اطلاع رسانی ہے۔"

 آپ نے فرمایا کہ  کیا آپ مغرب سے متعلق سوشل میڈیا میں حاج قاسم، سید حسن نصراللہ اور شہید ہنیہ کا نام تلاش کرسکتے ہیں اور یہودیوں کے بارے میں ہٹلر کے جرمنی کے بارے میں جو دعوے کئے جاتے ہیں، ان سے انکار کرسکتے ہیں؟ "

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ " ایران کے بارے میں یورپ والوں کا یہ دعوی بذات خود منھ  زوری ہے کہ ایران نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے۔"

آپ نے یورپ والوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ "بے حیائی کی بھی حد ہوتی ہے۔"

روزہ ایک مقدس عبادت ہے مگر روزے کے نتیجے میں انسان کو ایسے حیرت انگیز طبی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کا عام لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روزہ انسان کی ظاہری خوبصورتی، جلد کی تازگی، بالوں حتیٰ کہ ناخنوں کے لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق روزے کے بغیر انسانی جسم کی طاقت اور توانائی نظام انہضام کی وجہ سے صرف ہوتی ہے مگرروزے کے بعد جسم کی توانائی نظام انہضام کی ہدایت پرکام نہیں کرتی۔ بارہ گھنٹے کے روزے کے بعد انسانی جسم میں موجود زہریلا مواد اور دیگر فاسد مادے ختم ہو جاتے ہیں اور یوں جسم کو فاسد مادوں سے نجات ملتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تاثردرست نہیں کہ روزہ انسان کو کمزورکردیتا ہے کیوں کہ روزے کی حالت میں انسانی جسم میں موجود ایسے ہارمونز حرکت میں آجاتے ہیں جو بڑھاپے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ روزے سے انسانی جلد مضبوط ہوتی اور اس میں جھریاں کم ہوتی ہیں اور دراصل روزہ رکھنے سے انسان بڑھاپے کو روکنے کی کامیاب کوشش کررہا ہوتا ہے۔

جلد کی تازگی

ماہرین صحت کے مطابق روزے کی حالت میں جسم ان ہارمونز کو پھیلاتا ہے جو جلد کی خوبصورتی، ناخنوں کی چمک اوربالوں کی مضبوطی کا موجب بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ روزے سے انفیکشن بیکٹیریا کی روک تھام اور بڑھاپے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔گرمی کے موسم میں آنے والے ماہ صیام میں انسانی جسم کو روزے کے عالم میں پانی کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے، سخت گرمی میں جلد جھلس جاتی ہے جس پر ڈاکٹرز مشورہ دیتے ہیں کہ افطاری کے بعد اور سحری کے اوقات میں پانی کا بہ کثرت استعمال کیا جائے، اس سے جلد کو تازہ رکھا جاسکتا ہے۔ انسانی جلد اور ناخنوں پربھی روزے کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ناخن، سرکے بالوں کی نشونما اور ان کی مضبوطی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسانی اور چہرے کی رنگت پر مرتب ہونے والے اثرات ناخنوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر

ماہرین کا کہنا ہے کہ مریضوں اور حاملہ خواتین کو رمضان المبارک سے قبل اپنا طبی معائنہ کرا لینا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا انہیں روزے کی حالت میں کون کون سے کام کرنا ہیں اور کھانے پینے میں کس طرح کی احتیاط کی ضرورت ہے۔ روزے کی وجہ سے زیادہ بھوک اور پیاس انسان کو طبی ضرورت سے زیادہ کھانے پینے پرمجبورکرسکتی ہے مگر سحری اورافطاری میں کھانے پینے میں اعتدال کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کھانا کھانے کے فوری بعد سونے کی عادت نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ جسم کو خوراک ہضم کرنے کا کچھ موقع ضرور دینا چاہیے۔

دینی حوالے سے ماہِ رمضان گویا بچّوں، بڑوں ہر ایک کے لئے نیکی، پرہیز گاری اور کردار سازی کا مہینہ ہے، ایسے میں خاص طور پر مائیں، بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے اس مبارک مہینے کی اہمیت کو اجاگر کریں اور روزے کے اصل مقصد سے واقف کروائیں۔

چھ؍ سال کا اکبر رمضان شروع ہوتے ہی اپنے آس پاس کے معمول میں تبدیلی محسوس کرتے ہوئے اپنی ماں سے کئی سوالات کرتا ہے، ’’ماں! یہ رمضان کیا ہوتا ہے؟‘‘ ’’ماں! سب لوگ اتنی صبح کیوں اٹھ گئے ہیں؟، اتنی جلدی ناشتہ کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ ’’ماں! افطار کیا ہوتا ہے؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ دیکھا جائے تو بچوں کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے آپ ان کی بہتر انداز میں تربیت کرسکتے ہیں۔ دینی حوالے سے ماہِ رمضان گویا بچّوں، بڑوں ہر ایک کے لئے نیکی، پرہیز گاری اور کردار سازی کا مہینہ ہے، ایسے میں خاص طور پر مائیں، بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے اس مبارک مہینے کی اہمیت کو اجاگر کریں اور پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روزے اور رمضان کے حوالے سے ایسی تعلیمات ان کے سامنے رکھیں، جن سے اخلاق و کردار کے حوالے سے مثالی سبق ملتا ہے۔

رمضان کا صحیح مطلب سمجھائیں
بچّوں کو رمضان کی آمد کا احساس دلائیں، انہیں ان کی عمر کے مطابق اس کے فضائل اور نعمتوں سے آگاہ کریں۔ مثال کے طور پر انہیں سمجھائیں کہ اگر آپ عام دنوں میں ایک نیکی کرتے ہیں، تو اس کا دس گنا ثواب ملتا ہے، مگر جب آپ رمضان المبارک میں ایک نیکی کریں گے، تو اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کا ثواب ستر گنا بڑھادیتا ہے۔ انہیں رمضان کی اصل روح سے متعارف کرواتے ہوئے اس مبارک مہینے میں دینی اور تاریخی لحاظ سے ہونے والے واقعات سے روشناس کروائیں۔ انہیں بتایئے کہ روزے کا مقصد صرف کھانا، پینا چھوڑنا نہیں، بلکہ اُن تمام کاموں سے دور رہنا ہے، جو اللہ اور اس کے حبیب، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ناپسند ہیں۔ جیسے غصّہ کرنا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، کسی پر تہمت لگانا اور دیگر برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا۔

اپنے ساتھ بچوں کو نماز میں شامل کریں
رمضان کے مبارک مہینے میں گھر کے بڑے پابندی سے پنج وقتہ نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز میں اپنے ساتھ بچوں کو بھی شامل کریں۔ چھوٹی عمر کے بچوں کو نماز میں پڑھی جانے والی سورتیں یاد کروائیں۔ بچے ایک ہی دن میں نماز پڑھنے لگ جائیں گے، ایسا ہرگز نہ سوچیں۔ یہ عمل دھیرے دھیرے کام کرے گا۔ مائیں بیٹیوں کو جائے نماز، دوپٹہ یا اسکارف دیں تاکہ ان میں نماز کا شوق پیدا ہو اور بیٹوں کو ٹوپی پہنائیں۔ اس طرح بچّے کم عمر ہی سے نماز، روزے کے عادی بن جائیں گے۔

قرآن مجید کی تلاوت کی ترغیب دیں
رمضان المبارک میں بچّوں کے ساتھ مل کر تلاوت قرآن پاک کا خاص اہتمام کیجئے۔ دن میں کم از کم ایک بار تلاوت کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ بٹھایئے اور وہ جو پارہ پڑھ رہے ہوں ان سے ان کے سبق کی تلاوت کروایئے۔ تلاوت پر اللہ تعالیٰ کے انعام کا تذکرہ کیجئے اور محبت بھرے تعریفی کلمات سے ان کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ آپ کی حوصلہ افزائی پاکر بچے مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔

سحری و افطار بناتے وقت ساتھ رکھیں
سحری و افطار کی تیاری کرتے وقت بچوں کا تعاون حاصل کریں۔ ان سے کوئی پھل چھیلنے کے لئے کہیں۔ کسی بچے کو دسترخوان سجانے کی ذمہ داری دے دیں۔ کبھی بچے سے دسترخوان سمیٹنے کے لئے کہیں۔ اس طرح چھوٹے موٹے کام ان سے کرواتے رہیں۔ بعض دفعہ بچے بڑی خوشی دلی سے ان کاموں کو انجام دیتے ہیں لہٰذا ان کی حوصلہ افزائی ضرور کیجئے گا۔

دوسروں کی مدد کا پیغام دیں
رمضان کے مبارک مہینے میں اپنے سے کمتر کی مدد کی جاتی ہے۔ یہی جذبہ اپنے بچوں میں پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔ دوسروں کی مدد کرتے وقت بچوں کو ساتھ رکھیں۔ انہیں سمجھائیں کہ کسی کی مدد کرتے وقت غرور نہیں کرنا چاہئے، اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتا ہے۔ بچے کو یہ بھی درس دیں کہ مدد کرتے وقت نمائش نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایک ہاتھ سے اس طرح دینا چاہئے کہ دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ کم عمر سے بچوں کو سکھائی گئی یہ باتیں آگے چل پر پختہ ہوجاتی ہے اور وہ بڑے ہوکر بھی دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔

روزہ رکھوائیں
بچوں کو بتدریج روزہ رکھنے کی عادت ڈالیں، نسبتاً بڑے بچّوں کو جن پر روزے فرض ہونے والے ہوں۔ رمضان میں بچّوں سے وقفے وقفے خاص طور پر جمعہ کے دن کا روزہ رکھوائیں۔ لیکن بہت زیادہ کم عمر کے بچوں سے روزہ نہ رکھوائیں کیونکہ بعض دفعہ وہ روزہ کا اصل مطلب تک نہیں جانتے لیکن ان کے والدین ان سے روزہ رکھواتے ہیں۔ لہٰذا مناسب عمر میں ہی بچوں سے روزہ رکھوائیں۔

دین اسلام کاایک نهایت هی اهم مقصد،مسلمانو ں کے درمیان اتحادویکجهتی قائم کرنا ہے. قرآن وسنت کے رو سے جیسااتحادووحدت قائم کرناواجب ہے،ویساهی اختلاف وتفرقه سے بچناضروری امر ہے.ائمه اطهار(علیهم السلام)اورمعتبراسلامی شخصیات کی زندگی بھی،امت مسلمه کو اختلافات سے بچاکر،اتحادووحدت برقرارکرنے میں بسرهوئی .همارے پاس،کم ازکم تین ایسے بنیادی اصول ہیں جومسلم امه کے درمیان  نظریاتی اورفکری هم آهنگی ایجادکرسکتے ہیں،یوں یه تینوں اصول ،امت مسلمه کے درمیان   ایک اهم اوربنیادی کرداراداکرسکتے ہیں.یه تینوں اصول ،پور ے معاشر ے کومادی،معنوی،فکری اورعلمی حوالے سے ارتقاءکی طرف لے جاسکتے ہیں.یوں اسلامی مختلف فرقوں کواس  مقدس قرآنی اوراسلامی اهداف کے قریب کرسکتے ہیں که جن  کے حصول  کے بغیرمعاشر ه ترقی نهںی کرسکتا.یه اصول مندرجه ذیل ہیں:توحید،نبوت اورمعاد.

واژه های کلیدی (بنیادی الفاظ): مشترکه اصول ، توحید، نبوت، معاد،وحدت.

وحدت کیوں اورکس لئے ؟

قرآن کریم همیشه مسلمانوں کووحدت کی طرف بلاتانظرآتا ہے.قرآن کی نگاه میں وحدت کے بغیر،معاشرتی ترقی کاکوئی تصور نهیں ملتا.انسانی تکامل اورترقی کادارومداراسی پر ہے.اتحادوهم آهنگی هی کے سایے میں بشردین ودنیاکی سعادتیں حاصل کرسکتا ہے.قرآن پورے انسانوں میں،مومنین سے مخاطب هوکرا سے دستوردے رهاہے که معاشره میں اتحادقائم کریں«يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا»( آل عمران: 10۲ـ103)

 

اس آیه مبارکه میں قابل توجه نکته یه ہے که الله تعالی نے،بیک وقت چارچیزو ں کا حکم  دیا ہے.تقوی الهی اختیارکرنا،حالت مسلمانی اورتسلیم میں زندگی گذارنا،حبل الله سے تمسک اورتفرقه سےبچنا. ایک معاشرے میں زندگی بسرکر نے کےلئے ،یه چارسنهرےاصول هیں.سیاق درونی اوربیرونی آیه سے پته چلتاہے اتحادواجب اورتفرقه حرام ہیں.امت مسلمه کےهرفردپرواجب ہےکه وه متحدرهنے ساتھ ساتھ همه گیراتحاد کےلئے عملی قدم اٹابئے.جس طرح«اعْتَصِمُوا»فعل امرہے اوروجوب پردلالت کرتاہے اسی طرح«لا تَفَرَّقُوا»فعل نهی ہےجوحرمت پردلالت کرتاہےیعنی جس طرح وحدت ایجادکرناواجب ہےاسی طرح تفرقه کرناحرام ہے.

قرآن کریم مسلمانوں کودوسری طرف  سے ایک  اهم ترین عنوان دیتانظرآ رهاہے اوروه عنوان،« امت » کاعنوان ہے. «كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر».(آل عمران:110). اس آیت میں ،مسلم امه کوبهترین امت کهاگیاہے که اس امت کی خلقت کامقصدهی رهبری اورهدایت ہے. اس امت کی تخلیقی هدف اورغایت هی انسانیت کی هدایت ہے.ظاهری بات ہےجوخودهدایت یافته نه هو،وه کسی دوسرے کی هدایت کیسے کرے؟سب سے پهلے یه خودامت بنے،امت بدون وحدت کیسے بن سکتی ہے ؟ اس وقت مسلمان کثیرتعداد میں هونے کے باوجودتمام بین الاقوامی پلٹ فارم په منفعل نظرآتا ہے ،جس کی بنیادی وجه یهی ہے که هم امت نهیں بنے.هم نےقرآنی دستورات په عمل نه کیا.قران نے جن چیزو ں کاحکم دیا تا  ،مسلمانوں نے انهیں فراموش کیئے .قرآن چوده سوسال سے جس خطرکی طرف مسلمانوں کی توجه دلارها ہے، وه خطر،اختلاف کاخطرہے : « ُ وَ لا تَنازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُم»(انفال:46) اگراختلاف کروگے توتمهاری شان وشوکت خاک میں مل جایے گی ،تمهاری عزت ختم هوگی،ذلت ورسوائی تمهاری مقدربن جائے گی.قران معاشرے میں، اسلامی بھائی چارے کی فضادیکناکچاهتاہےلهذاایک قانون اخوت قائم کرتاہے،اوراعلان کرتاہے:« إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ»(حجرات:10)‏.

میرےخیال میں، مسلمانوں کےلئے یه ایک عمومی میثاق کی حثیت رکھتاہے که اگراس میثاق په عمل هوجائے تومسلم امه بدلنے میں دیرنه لگےگی.مسلمان ،صدراسلام کی وهی عزت واقتدارحاصل کرسکتا ہے. قران  معاشره میں انسانی ،اسلامی فضاقائم کرنے کی غرض سے ایک اوراصل وقانون کانه تنهااعلان کرتا ہے،بلکه عملی طورپراس کانفاذ بھی چاهتا ہے.اور وه اصل، « قانون تعاون» ہے،تقوی اورنیکی کی بنیادپر« تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى‏ »(مائده:2).

یه قانون معاشره میں،عدل وانصاف اورباهمی تعاون کوتقوی اورنیکی کی بناپر،پورےمعاشرے میں فروغ دیناچاهتا ہے ،جس کی وجه سےمعاشره،رشدوکمال کی طرف گمزن هوگا.معاشره میں انسانی اورالهی اقداربلندهوگا.قرآن معاشره کوفساد،فتنه،اوردوسرے اخلاقی اوراجتماعی برائیوں سے بچانے کی خاطرایک اوراصل وقانون کااعلان کرتا ہےاوروه اصل،« قانون عدم تعاون » ہے، گناه وسرکشی کی بنیادپر. «وَ لا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَ الْعُدْوان‏»(مائده:2).جب پورامعاشره،گناه اورتجاوزکی حوصله شکنی کرے گاتویقیناوه معاشره،ترقی کرےگااوریه قرآن کی نظر میں،ایک مطلوب معاشره هوگا.البته ایسے معاشرےمیں،رهبرکاکرداربهت اهم هوگا.کیونکه ایک حقیقی الهی رهبرهی لوگوں کےدرمیان اتحاد ووحدت کی کوشش کریں گے.

معاشرےمیں ،وحدت قائم کرنےسےمتعلق ،انبیاءکرام (علیهم السلام)،خاص کرهمارے نبی حضرت محمدمصطفی(صلی الله علیه وآله وسلم)کاکرداربےمثال ہے.مخصوصامدنی زندگی میں هر طرف اتحادو بارئی چارے کی فضانظرآنےلگی،جس کےنتیجے میں مختلف جھنگوں میں فتوحات کےعلاوه ،اسلام دوسرے علاقوں میں پهنچ گیا. اسلام معاشرتی اور اجتماعی مسائل کوبهت زیاده ترجیح دیتا ہے اسلام مسلمانوں کوگوشه نشینی اوررهبانیت کی اجازت نںیع دیتا . اسلام کانظام اجتماع ایک دوسرے سے مربوط رهنےکی تلقین کرتانظرآتا هے. ایک دوسرے کاخیال رکنان،دکھ دردبانٹنایهی نظام اجتماعی کابنیادی فلسفه هے که جس کاخیال کئےبغیر،شخص مسلمان بیب، نںین بنتا.جس نظام حیات اورآئین الهی کو،اجتماعی روابط کااتناخیال هو،وه  بھلا،اختلاف وتفرقه اورآپس کی نفرتو ں کی اجازت کیسے دے سکتا هے؟.

اسلام معاشرے میں اتحاداورامن چاهتا ہے یهی وجه ہے که بهت ساری اسلامی روایتیں اتحادکےموضوع سےمتعلق هیں.ایک حدیث میں مرسل اعظم(صلی الله علیه وآله وسلم)فرماتے هیں:«يدالله مع الجماعة »(ابن حبان،1414:10،438).خداکےهاتھ همیشه جماعت کےساتھ هیں.یعنی خداکی نصرت همیشه اهل جماعت کےشامل ہے.اصلی هدف تک پهنچنے کےلئے جمع هونا،خیر ہے اورتفرقه ، عذاب اورغضب الهی  کا موجب بنتاہے « في الجماعة خير و في الفرقة عذاب»(هندی،1409: 3،266). اسلام اتحادکومعاشره کاایک نهایت هی اهم رکن سمجتا ہےلهذاایک روایت میں آیا ہے:« لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاثة ليال، يلتقيان فيعرض هذا و خيرهما الذي يبدء بالسلام»( دروزه، 1383: ‏8، 510).

اس روایت کے مطابق دومسلمانوں کے درمیان تین دن سےزیادقطع تعلق جائزنهیں ہے.ایک اورحدیث میں جوشخص مسلمانوں کےامورکواهمیت نهیں دیتا،اسے مسلمان هی  نهیں سمادقط ہے«من اصبح و لم يهتم بامور المسلمين فليس بمسلم »( بروجردی،1410: 16،172). اس حدیث میں ایک مسلمان کے کردارپه بحث هوئی ہے که یه کردارمعاشرے میں کتناوزن رکھتاہے ممکن ہے کسی شخص کی تقدیراسی ایک کردارسے بدل جائے.جوشخص معاشرے میں کسی دوسرےکواهمیت نهیں دیتا،کسی کےغم اورخوشی میں شرکت نهیں کرتا،دوسروں سے بے خبررهتا ہے تواس حدیث کےرو سےوه مسلمان نهیں.اس سے پته چلتا ہے که اسلام باهمی تعلقات کوکتنی اهمیت دیتا ہے.

یه ایک زنده دین ہے جوانسانوں کوزندگی سکاختا ہے.اسلام کی نگاه میں ،پورامومن معاشره،ایک هی بدن کی طرح ہے که جس کا هرایک عضو،دوسرے عضوکامحتاج ہے ایک عضواگرتکلیف میں هوتودوسرے کوقرار نهیں.نبی مکرم(صلی الله علیه وآله وسلم)ایک حدیث میں اسی حقیقت کی طرف اشاره کرتے هوئے فرماتے میں هیں: «مثل المؤمن في توادّهم و تراحمهم كمثل الجسد اذا اشتكي بعضه تداعي سائره بالسّهر و الحمي»( مجلسی ،1403: 58،150) اسی مضمون کےقریب،طبری،1415: 1،556). ومن،محبت ورحمت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے، ایک بدن کی مانند هیں که اگرایک عضودرد میں مبتلاهوجائے،توپورابدن رات بر،بےقرار،درد میں مبتلارهتا ہے.اسی حدیث کالب لباب ،ایک ایرانی شاعرجناب سعدی شعرکی صورت میں یوں بیان کرتے هیں:

بنـي آدم اعضـاي يـك پيكرند 

چو عضوي به درد آورد روزگار

كه در آفرينش ز يك گوهرند

دگــر عضـوها را نماند قـرار

اسلام معاشرتی اصلاح کوبهت زیاداهمیت دیتا ہے اوراسے اعلی ترین عبادی درجه دیتا ہے : «الا اخبركم بافضل من درجة الصلاة و الصيام و الصدقة؟ قالوا بلي قال اصلاح ذات البين.»(احمدبن حنبل،بی تا،6،444). ائمه اطهار(علیهم السلام)کی زندگی اتحاد کےحوالےسے ایک بهترین نمونه ہے. ائمه اطهار(علیهم السلام) سے مروی روایتوں میں اتحادپه بهت زیادزوردیاگیا ہےاورتفرقه سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے.امیرالمئومنین (علیه السلام)ایک خطبے میں،اتحاد سے متعلق فرماتے هیں:«و الزموا السواد الاعظم فان يدالله مع الجماعة و اياكم و الفرقة! فان الشاذ من الناس للشيطان كما ان الشاذ من الغنم للذئب. ألا من دعا الي هذا الشعار فاقتلوه، و لو كان تحت عما متي هذه«دشتی،خ127،66).

اس حدیث میں اتحادکی طرف دعوت دی ہے خداکاسهاراجماعت کے ساتھ ہے.فرقه پرستی کی مذمت هوئی ہے اوراس بات پرزوردیاگیا ہےکه جوشخص دوسروں کوتفرقه کی دعوت دے اسے مارواگرچه وه میرے عمامے کےنیچےهی کیوں نه هو.اسکامطلب هی نکلتاہے که اختلاف کی صورت جائزنهیں.

اهل  بیت(علیهم السلام) کےلئے سب سے زیاده اهم مسئله ،دین کی حفاظت کا مئله تا ورنه ظاهری اقتدارکی توکوئی حثیت هی نهیں.حضرت  علی(علیه السلام)قبول بیعت سےمتعلق فرماتے هیں: «لولا حضور الحاضر، و قيام الحجة بوجود الناصر، و ما اخذ الله علي العلماء ألا يقاروا علي كظّة ظالم، و لا سغب مظلوم، لألقيت حبلها علي غاربها و لسقيت آخرها بكأس اولها و لألفيتم؟ دنياكم هذه أزهد عندي من عفطة عنز»( وهی ،خ7،3). امیرالمئومنین (علیه السلام)پوری حیات طیبه اسلام هی کی سربلندی کےلئے وقف رهی . استادشهیدآیه الله مرتضی مطهری (رح)ایک معروف داستان،اهل سنت دانشورجناب ابن ابی الحدیدمعتزلی کے حوالے سےنقل کرتےهیں:« ایک دن حضرت فاطمه(سلام الله علیها)نےحضرت علی(علیه السلام)کوخلفاء کےخلاف قیام کی دعوت دی ،اسی اثناء،مئوذن کی اذان کی آوازبلندهوئی«اشهد ان محمداً رسول‌الله»، امیرالمئومنین (علیه السلام)،حضرت فاطمه(سلام الله علیها) سےمخاطب هوکر فرماتے هیں : کیا آپ چاهتی ہے که یه آوازبندهو؟فرمایا: نهیں . حضرت علی(علیه السلام) فرماتے هیں:یهی میری بات ہے »( مطهری ،1354،184».

 

یعنی اگرآج علی (علیه السلام)خاموش هیں تواس کی تنهادلیل دین کی حفاظت کی ہے تلوارچلاکردین نه بچاسکے تواس سےزیاده علی (علیه السلام)کے لئےکوئی نقصان نهیں اوراگرتلوارچلائےبغیر، دین بچ سکتا ہے توعلی (علیه السلام) یهی کام انجام دیں گے. علی(علیه السلام) کے لئےبقای دین سے زیاده کوئی چیزاهم نهیں.کتاب «حلیف مخزوم» کےمئولف ،ابوبکرکےابتدائی خلافت کے دورکاذکرکرتےهوئےلکےئ  هیں: بهت سارے لوگ ،دوردرازاورنزدیک علاقوں سے اس(علی) کےپاس آتے اورآپ سے حکومت وقت کےخلاف جنگ کی اجازت طلب کرتے،لیکن آپ  ان کوخاموش کرتےاورفرماتے: «حسبنا سلامة الدين»(صدرالدین،1345: 1،161). همارےلئے یهی کافی ہے که دین سالم ہےهردور میں علماءکاکردار بھی وحدت قائم کرنے میں قابل ستائش رهی. علماء کابهت مثبت کردار ہے.اس دور میں نے ،سب سےزیاده جس شخص نے وحدت کانعره لگایااوراس نعرےکوعملی جامه پهنایا،وه شخص امام خمینی(رح)هی کی ذات ہے.آپ نےمسلمانوں کوایک حقیقی اتحادکاتصوردیااوراسی طرح اسلامی حکومت ایران کے تمام ترمادی اورمعنوی وسائل کواسی اتحادکی راه میں قربان کردئے.وحدت کےبارے میں آپ کے بےشمارتقریریں اورمکتوبات موجود هیں.

ایک مقام پرآپ فرماتے هیں:«هم اسلام اوراسلامی ملکوں کی حفاظت اوراستقلال کے واسطے،هرحال میں (ان سے)دفاع کےلئےتیار هیں.همارامنشور،وهی اسلام کامنشور ہےهمارامنشوراتحادکلمه اوراسلامی ممالک کےدرمیان اتحادقائم کرناہے.تمام مسلمان مکاتب فکر کےبرادری چاهتے هیں. هم اسرائیل کےمقابل ، دنیاکےگوشه گوشه، میں رهنے والے مسلمان حکومتوں کے ساتھ اظهاریکجهتی  چاهتے هیں.هم استعماری حکومتوں کےمقابل متحدهونا چاهتے هیں»( خمینی ،1378: 158).

آپ کےجانشین حضرت آیه الله خامنه ای(مدظله العالی)وحدت مسلمین سے متعلق فرماتے هیں:« هم وحدت کےبارے میں پرعزم هیں.هم نے مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی اورمفهوم بیان کئے هیں. مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی یه نهیں ہے که مسلمان اورمختلف مکاتب فکراپنے مخصوص کلامی اورفقهی عقیدےسے منصرف هو،اتحادکادواورمعانی هیں که جسےپوراهوناچاهیے.پهلایه که مختلف مکاتب فکر،حقیقی دشمنو ں کےمدمقابل ایک همدلی،همفکری اورباهمی تعاون  کےذریعے ایک دوسرےکاساتھ دیں.دوسرایه که مختلف مکاتب فکرکی یه کوشش هوکه ایک دوسرےکےقریب جائے اورآپس میں ایک تفاهم ایجادکریں اسی طرح فقهی  مسالک کاایک تطبیقی مقایسه هو.اگرتحقیقانه طورپربحث هوتوبهت سارے فقهاءاورعلماءکےفتاوی، جزی تغییرکےساتھ دونوں مذهب کے فتاوی ایک دوسرے کےقریب هونگے»( حدیث ولایت ،1375: 2 ،229).

شیعه علماءاورمفکرین همیشه وحدت  کی بات کرتے هیں اس راه میں قدم اٹاکنا،دراصل قرآنی اهداف کےتحقق کی راه میں قدم اٹاونا ہے دونوں مکتب فکر (شیعه،سنی)کےپیروکارصدیو ں سے ایجادوحدت کی تلاش میں سرگرم ر ہے هیں اوراس راه میں هرقسم کی قربانی دیتے آیئے هیں.بهت سارے اهل سنت علماء اتحاداسلامی کی خاطراپنے مثبت اورقابل تحسین کرداراداکرتے رهے هیں.

مصر کےجامعه الازهرکےسابق چانسلرمفتی شیخ محمودشلتوت کهتے هیں: «میں اورمیرے جوساتیں جامعه الازهرتےا،مختلف فقهی امور میں فتوی دیتے هوئے فقه جعفری  سے بیو برتپورفائده اٹابتے هیں بلکه بعض امورمیں شیعه نقطه نظرکواهل سنت مذاهب پرترجیح دیتے هیں،حالانکه هم سنی هیں.مصرکے«سول لاء» میں طلاق کے مسئله میں شیعه نقطه نظرکےمطابق فیصله دیاجاتا ہے،نه اهل سنت کےمطابق. اسی طرح رضاع کے مسئله میں، میں  بذات خود شیعه نقطه نظرکوهی قوی جانتاهوں،لهذااسی کے مطابق فتوی دیتاهوں.ایک منصف مزاج  فقیه جهاں بیه شیعه نقطه نظرکو دوسرے نظریات کے مقابلے میں دلیل واستدلال کےاعتبار سے قوی دیکتاط ہے اسی کےمطابق فتوی دیتا ہے،یهی وجه ہےکه،آج  میں اپنی ذمه داری اورفریضه جانتاهوں که الازهریونیورستی کے «اسلامی لاءکالج» میں شیعه سنی فقه پرمشتمل« فقه تطبیقی» کاشعبه قائم کروں،اس کام. سےهمارامقصدصرف یه ہے که صحیح اسلامی احکام کومختلف اسلامی فرقوں کی« فقه» سےاخذکرسکیں،اس سلسلے میں شیعه فقه یقیناسب سے آگے ہے»(ر.ک:بی آزارشیرازی،1403: 10).

جناب شیخ محمودشلتوت نے تمام اسلامی ممالک کےنام ایک تاریخی فتوی جاری کیاجس  میں  فقه جعفری کی پیروی کوبیب دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح جائزقراردیا ہے(ر.ک:وهی). اس فتوی کی تائیدبهت سارے اهل سنت علماءنےکی،جن میں شیخ عبدالمجیدسلیم،شیخ محمدضحام،شیخ عبدالحلیم محمود(الازهرکےسابق چانسلرز)، اسی طرح  استادشیخ محمدغزالی اورعبدالفتاح عبدالمقصودقابل ذکر هیں(ر.ک:وهی).آج تمام مسلمانوں،خاص کردانشوروں،علماء،زعماءاورجوانوں کافریضه ہے که باهمی اتحادکومضبوط بناتےهوئے،فروعی اورجزئی اختلافات کوبالای طاق رکےماهوئے،قرآن وسنت کی بالادستی کےلئےملکرکام کریں.کافی ہے اس سلسلے میں وهی تین بنیادی اصولوں کی پاسداری کریں.

اصل توحید:

تمام اسلامی فرقوں کاایک مشترک اصول،توحید ہے. نظریه توحید پرسب کااتفاق ہے نظریه توحیدکی اپنی کئی قسمیں هیں :

1-توحیدذاتی :

خدااکیلا ہے ،کوئی دوسرااس کاشریک نهیں ہے « قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ»(توحید:1). اورکوئی  دوسرااس جیسا نهیں ہے «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ء شوری:11». کوئی وجوداس سا نهیں: «وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَد »(توحید:4).

2-خالقیت میں توحید:

حقیقی خالق فقط خدا ہے.اس کےسواءکوئی مستقل وجود نهیں ہے کائنات کی هرچیزاسی کے فرمان،اذن اورارادےسے اثرگذارہے «قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّار»(رعد:16).

3-ربوبیت میں توحید:

عالم کاایک هی رب اورایک هی مدبر ہے.کوئی دوسرااس کاشریک نهیں .مختلف امور میں ملائکه کاتدبیرسمیت دوسرے سارے اسباب اسی کے فرمان اوراذن سےہے« إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى‏ عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ما مِنْ شَفِيعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَ فَلا تَذَكَّرُون‏ »( یونس:3).خدا کےسواءکوئی دوسراحقیقی سبب موجود نهںٍ،البته کبیا خداخودهی دوسروں کواذن دیتا ہے.

4-تشریح میں توحید:

حاکمیت تنھاخداکےلئے ہے صرف وهی قانون وضع کرسکتا ہے اس کے علاوه کوئی دوسراامر،نهی،حرمت وحلیت کااختیار نهیں رکھتا، « ٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاه‏»(یوسف:40).

5-اطاعت میں توحید:

خداکےعلاوه کسی اورکی اطاعت بالذات واجب نهیں.نبی اوردوسرے حضرات کی اطاعت کواس نے خودهی واجب قراردی ہے.انبیاء(علیهم السلام)اوراولیاءکی اطاعت،خداکی اطاعت کےمدمقابل نهیں ہے ،بلکه اسی کی اطاعت کےذیل میں متصورہے. « فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوا وَ أَطِيعُوا» (تغابن:16).

6-حاکمیت میں توحید:

خدامطلقالوگوں پرولایت رکھتا ہے.اس کی ولایت اورحاکمیت ذاتی ہے جبکه دوسروں کی ولایت،اس کی اجازت اوراذن کےبعدمتصور ہے.« ِ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَيْرُ الْفاصِلِين»( انعام:57).

7-شفاعت اورمغفرت میں توحید:

مغفرت اورشفاعت خداهی سےمختص ہے وهی غافرالذنب ہے« ْ وَ مَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّه»‏(آل عمران:135).دوسری آیت میں آیا ہے« قُلْ لِلَّهِ الشَّفاعَةُ جَمِيعا»(زمر:44) . شفاعت خداکاذاتی حق ہے ،اوراسے مختص ہے،امادوسر ے لوگ اس کی اجازت اوراذن کے بعدهی، اس حق کامستحق بنتے هیں :« مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه‏»(بقره:255).

8-عبادت میں توحید:

خداکےعلاوه عبادت کاکوئی لائق نهیں،اس نهیں سواءکوئی معبود نهیں،کوئی چیز،کوئی شخص عبادت میں اس کاشریک نهیں.اسی حقیت کااعتراف بنده،سوره حمد میں خداکومخاطب قراردے کرکرتا ہے « إِيَّاكَ نَعْبُد »(حمد:5).کوئی مسلمان توحیدکے بارے میں اختلاف نهیں کرتا.شهیدمطهری (رح)عبادت میں توحید کے بارے میں کهتے هیں: عبادت میں توحید،ایک قسم کی عملی توحید ہے اوریه ایک قسم کی حرکت ہے کمال تک پهنچنے کے.خداهی کاانتخاب،کمال تک جانے کےلئے،عبادت میں توحید ہے.دوسرے سارے دعوائی چیزوں کوترک کرکے خداهی کےلئے جکنا ،اٹھنا،اسی کےلئے قیام کرنا، اسی کےلئے جینااورمرنا» (مطهری1354: 379). عبادت میں توحید کے ذیل میں،مسلمانوں کاایک فرقه،انبیاء(علیهم السلام)اوراولیاءالهی کےسامنے خضوع اورتذلل(جوایک قسم کاامرالهی یوسف:100؛اسرا:24؛مائده:54،ہے)کوشرک قراردیتا ہے.اگرکوئی شخص،تین اوصاف کومدنظررکھ کرایساکرتا ہے تووه خطاپر ہےاوریه عمل موجب شرک ہے.اوروه تین اوصاف درجه ذیل هیں:

1- کوئی شخص کسی نبی یاولی کوخداسمجھ کراس کی الوهیت کے قائل هوکرایساکرے.

2-کوئی شخص کسی نبی یاولی کے ربوبیت کے قائل هوکرایساکرے.

۳. کوئی شخص کسی نبی یاولی کوخدا کے مقابل بےنیازجان کر ایساکرے.

میرے خیال میں کوئی مسلمان شخص،ایساعقیده نهیں رکھتا.یه تینوں اوصاف،صرف خداهی کی ذات بابرکت کے ساتھ مختص هیں.لهذااصل توحیدکوسب مانتے هیں.البته بعض جزئی مسائل میں،بعض  مختلف نظریات هیں جواصل هدف سے نهیں روکتی.حیات انسانی کی ترقی اورکمال یابی میں،توحیدمرکزی کرداراداکرتی ہے،توحیدسعادت دارین  اورمعنوی ومادی اهداف میں اساسی کردار،اداکرتی ہے.توحیدانسان کومقصدخلقت سے متصل کرتی ہے.انسان خداکی طرف سے آیا ہے اوراسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے اوریه بشریت  کے لئے ایک جاودان توحیدی منشور ہے که جس کا اعلان قرآن کررها ہے« إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون‏»(بقره:156).

توحیدی رنگ،انسانی حیات کوتمام جهتوں سے تبدیل کرتی ہے اورانسان کوکمال مطلق کی طرف راهنمائی کرتی ہے. الهی رنگ میں رنگنے کے بعد،انسان هردوسرے رنگ سے بے نیازهوتاهے.رنگ لگانے کاایک مطلب هوتاهے جس جانورپه رنگ لگے، وه اسی رنگ لگانے والے کاهوجاتاهے رنگ شخص کی ملکیت پردلالت کرتاهے.اسی طرح جس شخص پررنگ الهی لگ جائے،وه خالص توحیدکا بن جاتاهے.« صِبْغَةَ اللَّهِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَ نَحْنُ لَهُ عابِدُون‏»(بقره:138).جب انسان توحیدی رنگ میں رنگاجاتاهےتواس کالازمی نتیجه یه هوگاکه؛اس کی هرحرکت الهی بن جائے گی.خداکی راه میں قیام اس کامقصدوهدف بن جائےگااوروه اس راه میں خدا کےسواء،کسی  کی پروانه کرےگا.« قُلْ إِنَّما أَعِظُكُمْ بِواحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنى‏ وَ فُرادى‏»(سبا:46).

اسلام،اصل توحیدکی بناءپراتحادچاهتاهے.توجه کی بات یه هے که اسلام ایسااتحادنه تنهامسلمانوں کےدرمیان چاهتا هے بلکه اس اتحادکے دائرے کواهل کتاب اوردوسرے ادیان تک پھلاتانظرآتا هےیه وجه هے که خداونداصل توحیدکوبنیادبناکراهل کتاب کووحدت کی طرف دعوت دینے کی سفارش کرتاهے:« قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ تَعالَوْا إِلى‏ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَ لا يَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّه‏»(آل عمران:64).اسلام ،توحیدکواصل قراردےکر،پوری انسانیت کواتحاداورامن کی طرف بلاتاهےکیسے ممکن هے که جواپنے هی پیروکارو ں کوظلم،فساد،جهالت اورناانصافی کی طرف بلائے؟اسلام کسی صورت ان چیزو ں کونه فقط برداشت نهیں کرتا،بلکه انهی چیزو ں سےکومعاشرے کوپاک کرنا،اولین ترجیح هے.خدانےتمام انبیاء(علیهم السلام)(علیهم السلام) کومعاشرے میں عدالت اجتماعی قائم کرنے کی غرض سے مبعوث کئے: «لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط»(حدید:25).لهذاتوحیدایک ایسااصل هے که جوپورے انسانی معاشرےکوامن وسکون دے سکتاهے.

قران کی آیتوں اورمرسل اعظم(صلی الله علیه وآله وسلم)روایتوں اورائمه اطهار(علیهم السلام)کی پاکیزه سیرت سے یه چیزعیاں هوجاتی هے که توحیدهی اصل واساس دین هے.اسی کووحدت کےلئےاصل قرادیاجاسکتاهے .جوشخص توحیدکااقرارکرتاهے وه اختلاف سے بچ سکتاهے قران کا اقرارانسان کودوسروں سے بےنیازکرتا هے« ِ وَ يَدْعُونَنا رَغَباً وَ رَهَباً وَ كانُوا لَنا خاشِعِين‏»(انبیاء(علیهم السلام):90).

خداوندعالم دوسری   آیت میں خشیت الهی کو،ایمان کےلئے شرط جانتا هے« ْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِين‏(توبه:12).اسی طرح رسول خدا(صلی الله علیه وآله وسلم)کوخداکے مقابل خشیت کاحکم دیتا هے« ْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْن»‏(مائده:3). ‏جب کسی دل میں خوف وخشیت الهی آجائے،تویقینااس دلسےغیروں کاخوف نکل جائے گا.توحیدکاوه دل مرکزبنےگاخدااس دل په خاص عنایت کرےگاخوف وحزن اس دل سے نکل جائےگا ،اس کےفرشتے،اس دل په نازل هونگے:« إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُون»( فصلت:30).

اگرکسی معاشرے میں،توحیدحاکم هوجائے،توایسے معاشرے موجودتمام اشیاء،خودبخودرنگ الهی پکڑے گی.جس کے نتیجے میں،تمام بت جیسے:لسانی،نسلی ،علاقائی اورحزبی گرجائیں گےیهی وه تنهاصورت هے که جس کے نتیجے میں، معاشرے کے اندروحدت واتحادقائم هونگے ایسامعاشره،توحیدپرستی کی طرف رواں دواں هوسکتا هے.

اصل نبوت:

ایک اوراصل که جوتمام اسلامی مکاتب فکر کے اندراتحاداوروحدت قائم کرسکتا هے،وه اصل،«اصل نبوت »هے تمام مکاتب کااس په اتفاق هے که معاشرے میں، ایک شخص  ایساهوناچاهئے جولوگوں کوخداکی طرف طرف دعوت دے اورخدا کےپیغامات کوبندوں تک لے آئے ،ایسے شخص کوهادی کهاجاتا هے.نبی منصب نبوت کاحامی هوتاهے.جونبی عالمین کے لئے هوتا هے، وه عالمین کے لئے هدایت  کامرکزهوتا هے.تمام مکاتب فکرکااتفاق هے که اسلام ایک عالمی دینهے جوجامع اورکامل نظام حیات پرمشتمل هے.اس بات کی دلیل ،قرآن میں جیسے« يا أَيُّهَا النَّاس‏ »( بقره ،21 ؛نساء،171-174؛فاطر ،15)، «يا بَنِي آدَم‏» اعراف ،26-28)اور«يا أَيُّهَا الْإِنْسان‏»(انفطار،6)، اس جیسے خطابات هیں جن کی دلالت  قران کے تمام بشریت  کےلئے ایک ابدی نظام زندگی  هوناهے. قرآن تمام انسانوں کے لئے هدایت   لے کےآیا هےاوریه کسی ایک زمانه سے مختص نهیں،بلکه یه نظام تمام فکری نظامو ں پرغالب آیئےگا: « لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه‏»( توبه ،33).

اس آیت میں دین اسلام اوراس کے پیروکاروں کی فتح کی نویدسنائی گئی هےاسی طرح بعض آیتں اصل دین کاایک جامع نظام پرمشتمل هونےکی طرف اشاره ملتاهے. «ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْ‏ء »( انعام،38)، «  وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ء» (نحل،89)، « ِ وَ لا رَطْبٍ وَ لا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِين‏»(انعام ،59). اسی طرح یه  حدیث «و حلال محمد حلال الي يوم القيامة و حرامه حرام الي يوم القيامة»(بروجردی،1399: 1 ،136)، دین کی ابدیت پردلالت کرتی هے .انسانی معاشره کے لئے نبوت کے بلندترین اهداف  سےایک هدف،اجتماعی طورپرعدالت کاقیام هے «لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط»(حدید:25).

اس آیت کےتحت رهبرکاکام سب سےپهلے،معاشرے میں ایک اجتماعی نظام عدل کاقیام هے.عدالت خودبخودبرقرارنه هوتی،بلکه کوئی عادل،بابصیرت رهبرهوجواسے برقرارکرے.معاشرتی مسائل سےواقف ایک رهبرکاوجودمعاشرے کے لئے ضروری هے.زندگی کےتمام شعبوںمیں،عدالت کانفاذانتهائی لازمی امر هے.اجتماعی روابط هوں یافردی،یاکوئی اورمسئله،هرایک عدالت کےمحتاج هے.اسی طرح مختلف مکاتب فکرکےدرمیان بیت عدالت قائم هو.مختلف فرقوں کےباهمی روابط کی بنیادعدالت پرهو.اگرهمارے گفتار،کرداراورطرززندگی پرعدالت حاکم هوتوبهت سارے اختلاف کاخودبخودخاتمه هوجائے.آج اگرهمارے معاشرےمیں مختلف گروپوں کےدرمیان  قومی،لسانی،صوبائی اورمذهبی تصادم نظراتا هے تواس کی وجه عدالت سے دوری هی هے.اسلام افراط اورتفریط کی مذمت کرتا هے. افراط اورتفریط کی بنیادی وجه،عدالت سےروگردانی هے.اگر معاشرےمیں عدالت قائم هوتوقتل وغارتگری،ظلم وتجاوزاورتمام اخلاقی برائیوں کاخاتمه هوجا ئے گا.

مختلف مکاتب فکر کی گفتارپه عدالت قائم هوتوایک دوسرے کی توهین نهیں کریں گے، ایک دوسرے کوکافر نهیں کهیں گے.مسلمانوں کی کمرانهیں چیزوں نے خم کردی هیں اب مسلمان  کاپورازور،ترقی اوراجتماعی منصوبوں کی طرف توجه دینے کے بجائے،اپنی مسلمانی ثابت کرنے میں صرف هوتا هے.اگرعدالت حاکم هوتوگفتاری اوررفتاری تناقضات کا خاتمه هو ئےگا.نبوت کادوسرافائده بشریت کے لئے ،فطرت کی بیداری هے رهبرمعاشره کوفطری اصولوں کےمطابق چلاتے هیں. نبوت پراعتقاد،وحدت واتحادکاسبب بنتا هے.نبی اپنے پروکاروں کوهمیشه دعوت اتحاددیتا هےجب لوگ رهبرکے فرامین پرعمل کرتے هیں تورهبرفطرت اورعقل کے مطابق دستوردیتے هیں اورعدالت کےنورانی شارع په معاشره کو چلاتے هیں.

حضرت علی(علیه السلام)فلسفه بعثت کوبیان کرتےهو ئے فرماتے هیں:«فبعث فيهم رسله و واتر اليهم انبيائه ليستادوهم ميثاق فطرته و يذكروهم منسي نعمته و يثيروا لهم دفائن العقول»(دشتی،خ،1). جهالت کا تاریک پرده عقل سلیم پرچافیاهوا هے اوربهت سارے لوگ  جهالت کی تاریکی میں ڈوب چکے هیں توایسے حالات کوبدلنے انبیاء(علیهم السلام)آتے هیں بٹھکتے انسانوں کودوباره فطرت کی راهوں پرچلانے کے لئےانبیاء(علیهم السلام)آیئے هیں.پیاسے لوگوں کومعارف الهی کے چشمےسے سیراب کرنےرهبران الهی آیئے هیں. ایاولیا کے اسکالرجناب  کونت ادواردگیوجیا کهتے   هیں : «میں قدیم اورجدیدادیان  سے متعلق بهت زیاده  گهری تحقیق کرچکاهوں اورسار  ے ادیان کامطالعه کرچکاهو ں جس  کےنتیجے  میں ،اس نتیجے پر میں پهنچا هو ں که تنهااورحقیقی آسمانی آئین، اسلام  هے اس دین کی آسمانی کتاب  یعنی قرآن مجیدانسانی تمام مادی اورمعنوی حوائج  کوپوراکر نے کی ضمانت لیتا هے اوراسے اخلاقی  اورروحی کمالات کی طرف سوق دیتا هے اوراس کی رهبری کرتا هے»( ر.ک:قرماز،1384: 248).

قرآن،لوگوں کی هدایت کے ساتھ ساتھ،سائنس  کی دنیامیں بی  اپناکرداراداکررها هےیهی وجه هے ایک مغربی دانشور جناب دینورت اس بارے میں یوں کهتے هیں:« واجب هے هم یه اعتراف کریں که علوم طبیعی      ،نجومی ،فلسفه،اورریاضی جویورپ میں عروج پرپهنچے،عمومی طورپرقرآن سے لیاگیا هے»( ر.ک:وهی،255). ایک عیسائی مفکرجناب  لامارتین کهتے هیں:« محمد،مادون خداومافوق بشرشخصیت هیں،پس وه بغیرشک،پیغمبراورخداکابیجایهواهے»( ر.ک:وهی،259)

الهی نمائند ے،همیشه  لوگوں کوعلم،فکر،عقل وشعورکی دعوت دیتےهیں.اتحادکسی قوم کے اجتماعی  شعورکاپته دیتا هے.انبیاء(علیهم السلام)کاکام فقط ابلاغ وتبلیغ هے« وَ ما عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِين‏»(نور،54).وه لوگوں کوظلم،شرک اورجهالت کی تاریکی سےتوحید،ایمان اورعلم کی روشنی کی طرف بلاتے هیں« هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلى‏ عَبْدِهِ آياتٍ بَيِّناتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّور»(حدید،9).نبی  کسی شخص کوبزورشمشیردیندارنهیں بناتے. اس دینداری اورایمان کاجوجبرواکراه  کےنتیجے میں حاصل هو،اس کاکوئی فائده نهیں هوتاکیونکه وه مصلحتی ایمان هے نه حقیقی ایمان.دین اختیاری  امر هے جوهرانسان کاحق هے که وه جس دین پرمطمئن هواسی کواپنالے:« لا إِكْراهَ فِي الدِّين‏»(بقره،256). الهی نمائند ے،بندوں پرخداکی حجت اورگناهگاروں اورسرکشو ں پراتمام حجت  هوتے هیں:« وَ ما كانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى‏ حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّها رَسُولاً يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِنا وَ ما كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرى‏ إِلاَّ وَ أَهْلُها ظالِمُون‏»(قصص،59).ان کےکام  معاشره میں، انذاروتبشیر هوتے هیں« وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيراً وَ نَذِيراً وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُون‏»( سبا،28).وه سرکش افرادجواپنی  فطرت مسخ کرچکے هیں« أَ فَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواه‏ »(جاثیه،23)اور معاشره میں انتهائی برائی پراترے هیں ،تجاوزوطغیان  ان کامزاج بن چکا هے« إِنَّ الْإِنْسانَ لَيَطْغى‏ أَنْ رَآهُ اسْتَغْنى‏»(علق،6-7).ایسے ناپاک نفوس کوعلم وحکمت  اورتلاوت کےنورسے برںکے،تزکیه وتعلیم سےآراسته کرکے ،پاکیزه بناناالهی نمائنده کی ذمه داری هوتی هے :«هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِنْ كانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِين»(‏ جمعه،2).اگرمعاشره،فلسفه نبوت سے واقف هوجائے،توپرلاختلاف کاسوچ بی  بوهل جائےگا.انشاءالله بهت جلدزمین پرخدائی حکومت قائم هوگی اور الهی نمائند ے،خداکی نیابت میں پوری انسانیت کوبعث انبیاء(علیهم السلام) کے حقیقی شهراه پرچلائیں گے.

اصل معاد

ایک اوراصل که جوتمام اسلامی مکاتب فکر کے اندراتحاداوروحدت قائم کرسکتا هے،وه اصل،«اصل معاد »هے.جس طرح سارے اسلامی مسالک کےپیروکارمبداءاورخالق هستی په اعتقادرکےهو هیں اسی طرح یه لوگ معادپراعتقادواتفاق نظر رکے ا هیں .انسانی زندگی پرمبداومعادکاگهرااثرحکمفرماء هے . معادپراعتقاد کےحوالے سےلوگوں کی کئی قسمیں هیں:

ایک گروه معادپرمکمل ایمان رکھتا هے.یه گروه سب سے آگے هے.اس گروه کی زندگی گذارنےکاطریقه دوسروں سے کاملامتفاوت اورمختلف هے.معادکی یادنے ان کی زندگی بدل کے رکھ دی هے .اس گروه کی بعض خصوصیت سوره بقره کی ابتدائی آیتوں میں ذکرهوا هے.یه گروه بطوردائم ،غیب په ایمان رکھتا هے اسی طرح ان لوگوں کی صفت،دائمانمازقائم کرنا،خداکی راه میں انفاق کرنا،گذشته کتابوں اورماانزل الله پربطورمطلق ایمان رکنای هے «الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ مِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ  وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِما أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ ما أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون»(‏ بقره،3-4).اسی طرح یه گروه بطوردائم آخرت پریقین رکھتاهے.

قرآن میں مختلف مقامات پراس گروه کے اوصاف  کوخدانےیبان کیا هے اوریه واضح کیا هےکه جس طرح اس گروه کااعتقاددمبداومعادوغیره پردائم هے«وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون» ،ویساهی  اس گروه کے کرداروافعال بیا دائمی هیں« يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَ يَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى‏ حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً»(انسان،7-8).وفابه عهداس گروه کاطره امتیاز هے« يُوفُونَ» اورمسلسل طورپرآخرت کاخوف  یه گروه دل میں رکھتاهے یهی خوف معاد هے که جس کی وجه  سے ان کی زندگی  ایثاروقربانی سے لبریزنظرآتی هے.اوریه لوگ محتاجوں کاهمیشه خیال رکےبت هیں« يُطْعِمُونَ »،گویایه ان کی زندگی کا ایک مستقل حصه  بن چکا هے.اخلاص عمل ان کی نشانی اورعلامت هے. ان کا هرعمل  اخلاص پرمشتمل هے.حتی ان کی نیت اورضمیران کے عمل سےمختلف  نهیں.یهی وجه هے که خداوند ان کے درونی احساس  کی خبردیتے هوئے اس کوآیت کی صورت  میں پیش کرتا هے« إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُورا إِنَّا نَخافُ مِنْ رَبِّنا يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيرا»(انسان،9-10).آیتوں کےسیاق وسباق سے پته چلتاهے که عقیده معادکس طرح اس گروه  کی زندگی پرچامیا هوا هے.ان کےتمام اعمال  ،افکاراورنیتوں کےپیچھے عقیده معادکی  ایک خاص  دخالت هے.

بعض دوسرےگروه معادپر ایمان تو رکےھے هیں، لیکن پهلے گروه کی مانندنهیں.بعض تنهازبان کی حد تک ایمان کا اظهارکرتے هیں،لیکن دل نورایمان سے خالی نظرآتا هے« وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ ما هُمْ بِمُؤْمِنِينَ   يُخادِعُونَ اللَّهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ ما يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُمْ وَ ما يَشْعُرُونَ» (بقره،10-9).اسی طرح جس شخص کی زندگی میں آخرت کاکوئی حصه نهیں اوروه آخرت کوکوئی اهمیت نهیں دیتااس کےتمام اعمال   باطل هونگے اوروه دونوں جهانوں میں خسارےمیں رهےگا.« يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْأَذى‏ كَالَّذِي يُنْفِقُ مالَهُ رِئاءَ النَّاسِ وَ لا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ فَأَصابَهُ وابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْداً لا يَقْدِرُونَ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِين‏»(بقره،264).اس کادل شیطانی وسوسوں کامرکزهوگااورغلط تبلیغات کی طرف مائل هوگا«وَ لِتَصْغى‏ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَ لِيَرْضَوْه‏»( انعام ،113).

ایسا شخص همیشه غلط کاموں کامرتکب هوتا رهےگا،خداپرجوِٹ باندھنا،لوگوں کوراه الهی سے روکنااوراسے مشکوک دیکاُنااس کی عادت بن جائے گی اس پرخداکی لعنت هے«وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى‏ عَلَى اللَّهِ كَذِباً أُولئِكَ يُعْرَضُونَ عَلى‏ رَبِّهِمْ وَ يَقُولُ الْأَشْهادُ هؤُلاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلى‏ رَبِّهِمْ أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَ يَبْغُونَها عِوَجا وَ هُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كافِرُون‏»(هود ،18-19).قرآن  ایسےگروهوں کااوربهت سارے اخلاقی  برائیوں کاذکرمتعددآیتوں میں کرتاهےجیسے:ابراهیم

آیت3؛نحل22-29؛بقره،10؛اسراء45،97،98؛نمل4-5؛روم16؛سبا8؛زمر45؛فصلت5-6ونجم27-28.

یه هماری ذمه داری هے که ایسے عذاب میں گرفتارنه هوں،پرامعاشره اورمسلم امه کوایسی هلاکت  اورتفرقه کی آگ سے نجات دیں.اسلامی تمدن کی عمارت کواتحادووحدت کی بنیادپربنانےکےلئے اپنی تمام توانائیوں کوبروی کارلائیں.اوران مشترکه اصولوں پرکاربندرهیں.یقیناآفتاب عدالت طلوع کرنےهی والا هے همیں پورے معاشرے اورسماج کواسے روشنی لینے کےلئے تیارکرناهے.یه مقصدتب پوراهوگا،جب معاشرے میں ایک دوسرے کااحترام هوگا.کم ازکم دوسروں سے متعلق،انسانی بنیادوں په سوچیں گے اورهم خودانسان بننےکی کوشش کریں گے.

منابع:

قرآن ؛

نهج‌البلاغه،ترجمه  دشتي؛

ابن‌حبان، صحيح ابن حبان، مؤسسة الرسالة، بي‌جا، 1414ق؛

احمدبن حنبل، المسند، بيروت: دار صادر،بی تا؛

آواي وحدت، مجمع جهاني تقريب مذاهب، 1374 ش؛

بروجردي، حسين، جامع احاديث الشيعه، قم: المطبعة العلمية، 1399ق؛

بروجردي، حسين، جامع احاديث الشيعه، قم: منشورات مدينة‌العلم، 1410ق؛

بي‌آزار شيرازي، عبدالكريم، توحيد كلمه، تهران: دفتر نشر فرهنگ اسلامي، 1403ق؛

حديث ولايت، تهران: سازمان مدارك فرهنگي انقلاب اسلامي، 1375؛

دروزة ،محمد عزت‏ ،التفسير الحديث‏، قاهره‏: دار إحياء الكتب العربيه،1383 ق‏؛

صدرالدين، شرف‌الدين، حليف مخزوم (عمار ياسر)، ترجمه غلامرضا سعيدي، تهران: انتشارات جعفري، 1345ش؛

طبري، محمدبن جرير، جامع‌البيان، بيروت: دارالفكر، 1415ق؛

قرماز، فرمان، اثبات جامعيت دين اسلام، قم: پايان نامه كارشناسي ارشد جامعه المصطفی العالمیه ؛

مجلسي، محمدباقر، بحار الانوار، بيروت: مؤسسة الوفاء، 1403ق؛ 

مطهری،مرتضی،سيري در نهج‌البلاغه، تهران: دارالتبليغ اسلامي، 1354؛

وحدت از ديدگاه امام خميني، تهران: مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خميني، 1378؛

هندي، متقي، كنز‌العمال، بيروت: مؤسسة الرسالة ، 1409ق؛

 

 

ذرائع : 
Thursday, 06 March 2025 08:07

وحدت ایک ندائے آسمانی!

اس مقالہ میں ایک اہم ترین اسلامی مسئلہ وحدت ور اتحاد مسلمین پر زور دیا گیا ہے اور اس کی اہمیت و افادیت خاص کر عصر حاضر میں اس کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمین ممخصوصاً کشمیری مسلمین کو قرآن کی رو سے اس کی دعوت دی گئی ہے تا کہ دشمن کی سازشیں کامیاب نہ ہوسکے۔

''قل یااھل الکتاب تعالوا الی کلمة سوآء بیننا وبینکم الانعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیأ ولا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ فان تولوافقولوا اشھدوابانا مسلمون''(آل عمران ٤٦)

''کہہ دیجئے اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤجو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے وہ یہ کہ ہم خدا وند عالم کے سواکسی اور کی عبادت نہ کریں  اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں۔اور ہم میں سے کوئی بھی ایک اللہ کے علاوہ کسی کو اپنے ''ارباب ''نہ بنائے۔پس اگر وہ (اس پیش کش سے )روگردانی کریںتو ان سے کہو تم گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں ''۔

پیام ونکات

١۔دوسروں کو دعوت دینے کے کئی مراحل ہوتے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کی مشترکہ چیزوں کی دعوت دی جائے اور مشترک چیزوں کا محور قرآن ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں  انبیاء علیہم السلام کی تاریخ بھی موجود ہے  اور ہر قسم کی تحریف سے بھی محفوظ ہے۔

٢۔اگر کسی بات میں اس کے تمام مقاصد تک رسائی نہیں ہوسکتی تو اس کے بعض مقاصد کے حصول سے  دست کشی نہیں کرنی چاہیے۔

٣۔توحید اور حق کی طرف دعوت ضروری ہے خواہ یہ استدلال کے ذریعے ہو یانفرین ومباہلہ کے ذریعے یا پھر مشترکات کی طرف دعوت دینے کے ذریعے سے ہو۔

٤۔توحید، اور شرک سے بیزاری تمام آسمانی ادیان کا مشترکہ محور ہے ۔

٥۔انسان کا ایک دوسرے کی بے چون چرا اطاعت کرنا ایک قسم کی غلامی ،فکری استعمار اور ایک طرح کی عبودیت (بندگی) ہے جس سے دور رہنے کی دعوت دی گئی ہے۔(لا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً)

٦۔ مخالفین کا حق کی دعوت سے روگردانی کرنا ہمارے اسلام ،ایمان اور ارادے میں ذرہ بھر بھی لغزش پیدا نہیں کر سکتا۔(فان تولوافقولوا اشھدوابانا مسلمون)

٧۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حق کی تبلیغ کا فریضہ انجا م دینے کے لئے دفاعی طریقہ اختیار نہ کریں بلکہ جارحانہ انداز کو اپنائیں۔( قل یااھل الکتاب تعالوا الی کلمة )

٨۔دوسروں کو حق کی دعوت دینے اور حق کی تبلیغ کرنے میں ان کے حق پر مبنی عقائد اور پاکیزہ احساسات کا احترام ضرور کریں ۔(کلمة سوآء بیننا وبینکم )

٩۔ہر مبلغ کو پہلے ہی سے یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ لوگ اس کی باتوں کوٹھکرا بھی سکتے ہیں ، اس سے روگردانی بھی کر سکتے ہیں اور سرکشی کا اظہار بھی کرسکتے ہیں ۔لہذا ان باتوں کا توڑ بھی اسے پہلے سے تیار کر لینا چاہیے ۔( فان تولوافقولوا اشھدوا)

١٠۔اتحاد اور وحدت کی دعوت میں پیش قدم ہونا چاہیے۔

 

ذرائع : 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایکس اکاؤنٹ پر یوکرینی زبان میں ایک نیا پیغام جاری کیا ہے، جس کا عنوان تھا "رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے امریکہ کے لئے گرم جوشی رکھنے والے ممالک کے لئے تین سال پہلے جاری کیا گیا کا انتباہ۔" KHAMENEI.IR کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے تین سال قبل رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے امریکہ کی حمایت کرنے والے ممالک کے لیے جاری کردہ انتباہ کو شائع کیا تھا۔ اس ٹویٹ کا متن جو یوکرائنی زبان میں بھی شائع ہوا، درج ذیل ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای: یوکرین کے معاملے میں پہلا سبق یہ ہے، بالخصوص ان ممالک اور حکومتوں کے لیے جو ان کی کٹھ پتلی ہیں، مغربی طاقتوں کی حمایت ایک سراب ہے، تمام حکومتوں کو اس کا علم ہونا چاہیے، وہ حکومتیں جو امریکہ اور یورپ کی وفادار ہیں، انہیں آج یوکرین کو درپیش صورتحال کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔