سلیمانی

سلیمانی

اسلامی علمِ کلام کے علما اور عیسائی الہیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کی تخلیق میں پائی جانے والی خوبصورتی، نظم اور کمال خدا کے وجود کی سب سے مضبوط دلیلیں ہیں۔ یہ حقیقت بعض مشہور ملحد سائنس دانوں نے بھی تسلیم کی ہے، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ کوانٹم میکینکس پروفیسر ڈیوڈ ڈوئچ بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں موجودہ دور کے ملحدوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اسے اس کائنات اور اس کے قوانین میں پائے جانے والے حیرت انگیز نظم و ضبط پر کوئی تعجب نہیں ہوتا تو وہ دراصل حقیقت سے منہ موڑ رہا ہے۔ اس کائنات میں بہت سی حیرت انگیز اور ناقابل یقین مخلوقات ہیں۔" (دی گارڈین، جمعرات 8 جنوری 2009)

یہ بات ایک ایسے شخص نے کی ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ کہنا اس الجھن اور بے بسی کو ظاہر کرتاہے جو ملحدانہ سوچ کائنات کے حیرت انگیز نظم اور ہم آہنگی میں محسوس کرتی ہے۔

قرآنِ کریم نے بھی اس حقیقت کو کئی آیات میں بیان کیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (النمل: 88)

اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے، وہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ (السجدة: 7)

جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔

یہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ کمال و حسن کوئی اتفاقی وصف نہیں ہےبلکہ ایک ایسا آفاقی قانون ہے جو پوری کائنات کو محیط ہے۔

کمالِ تخلیق کے شاہکاروں پر غور و فکر

جب انسان مخلوقات کی دقیق ترین معلومات پر غور کرتا ہے تو وہ تخلیق کے عظیم الشان نظام پر حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ اسی کی ایک مثال آرکیڈ کا پھول ہے۔ یہ پھول صرف اپنی دلکش خوبصورتی ہی سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ حیرت انگیز طور پر مادہ مکھی کی شکل کی مشابہت بھی رکھتا ہے تاکہ نر مکھی کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ نر مکھی یہ سمجھ کر اس پر بیٹھتی ہے کہ یہ اس کی ساتھی ہے اور اسی عمل کے دوران وہ پولن (جراثیمِ نر) کو ایک پھول سے دوسرے پھول تک منتقل کر دیتا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آرکیڈ کا پھول صرف شکل کی نقل نہیں کرتا بلکہ بالکل وہی خوشبو خارج کرتا ہے جو مادہ مکھی خارج کرتی ہے۔یوں یہ حیاتیاتی فریب مکمل ہوتا ہے اور پھول کا تخم ریزی کا عمل یقینی بن جاتا ہے۔ یہی وہ منظر تھا جس نے چارلس ڈارون جو نظریۂ ارتقاء کے بانی ہیں کو وفات سے ایک سال قبل یہ اعتراف کرنے پر مجبور کیا کہ یہ کیفیت اس کے ذہن کو ہلا دینے والی ہے کیونکہ اس کی کوئی توجیہ ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اس  تخلیق کے پیچھے ایک باقاعدہ منصوبہ اور مقصد کارفرما ہے۔

دوسری جانب، اگر ہم انسانی جسم پر غور کریں تو اس میں بھی اتنی ہی حیرت انگیز باریک بینیاں پائی جاتی ہیں جتنی باریکیاں نباتات کی دنیا میں ہیں۔ مثال کے طور پر ہرمونِ نمو (Growth Hormone) کو لیجیے، جو خون میں نہایت معمولی مقدار میں جو تقریباً5 نینوگرام کے تناسب سے خارج ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی معمولی مقدار ہے مگر صرف ایک گرام ہرمون تین ہزار انسانوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ اگر اس کے توازن میں ذرا سا بھی فرق آ جائے تو پورے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ مثلاً اگر اس کا تناسب ایک سو ملین میں سے صرف ایک حصےکے برابر بڑھ جائے تو انسان عظمتِ جسم (Gigantism) کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اتنا ہی کم ہو جائے تو بونا پن (Dwarfism) کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیا یہ حیرت انگیز توازن اور درستگی اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ کوئی حکمت و تدبیر رکھنے والی ذات اس نظام کو نہایت باریکی سے سنبھالے ہوئے ہے؟

قدرت کے کمالات بہت زیادہ ہیں یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔ پوری کائنات خواہ وہ کوانٹم ذرات کی باریک دنیا ہو یا عظیم کہکشاؤں کا پھیلا ہوا نظام ہو سب ایک نہایت درست اور متوازن قانون کے تابع ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک قانون معمولی سا بھی بدل جائے تو کائنات کا وجود ہی ممکن نہ رہے۔ یہی حقیقت مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی عظمت کو اورپختہ کر دیتی ہے:

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا  مَا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ  فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِنْ فُطُورٍ (الملك: 3)

۳۔ اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟

کمالِ تخلیق کی یہ نشانیاں کہ جن میں انسانی ہارمونز کی نازک ترتیب، قدرتی پھولوں کی حیرت انگیز کاریگری، فزکس کے قوانین کی ہم آہنگی اور ستاروں سے سجی آسمان کی خوبصورتی شامل ہیں سے یہ  حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ کائنات گویا ایک کھلی ہوئی کتاب ہےجسے ہر منصف مزاج انسان پڑھ سکتا ہے۔ تخلیق کا یہ کمال کسی اتفاق یا بے ترتیبی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایمان کے دروازے کھولتا ہے اور اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ سارا حسین و منظم نظام اسی خدا کی صناعت ہے جس نے ہر چیز کو کمال کے ساتھ بنایا۔

لہٰذا الحاد کا دعویٰ، چاہے اس کے ماننے والے اسے کتنے ہی خوبصورت الفاظ میں پیش کریں، آخرکار ایک ایسی حقیقت سے ٹکرا جاتا ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔وہ یہ ہے کہ اس مکمل اور منظم کائنات کے پیچھے ایک حکمت و علم والا رب موجود ہے اور صرف وہی ذات عبادت کے لائق ہے۔

اسپیکر محمد باقر قالیباف کا کہنا تھا کہ قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کے ساتھ ہی ایران کے ایٹمی پروگرام پر عمل درآمد کی نگرانی اور تصدیق  کے حوالے سے آئي اے ای اے  کے ڈائریکٹر جنرل کا رپورٹنگ مشن بھی ختم ہو گیا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، روسی فیڈریشن اور عوامی جمہوریہ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کے نام خط ان تینوں عظیم طاقتوں کی اسٹریٹجک یکجہتی کی علامت ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسنیپ بیک مکینیزم  کو فعال کرنے کے لیے تین یورپی ممالک کی کوششیں بنیادی طور پر قانونی جواز سے عاری ہیں۔

ایران کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا کہ قرارداد 2231 کے پیراگراف 8 کی بنیاد پر اس قرارداد میں درج تمام پابندیاں اور تقاضے ختم  ہوچکے ہیں۔  

انہوں نے کہا کہ منسوخ شدہ قراردادوں کی بحالی کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اور ایران کے افزودگی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایٹمی معاملہ بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج ہوگیا ہے۔

ایران اور اسرائیل کی جنگ کے بعد اپنے تجزیئے میں خود سابقہ اعلیٰ اسرائیلی سیکورٹی عہدیدار نے کہا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور ایران میں حکومت کی تبدیلی محض خواب ہے۔ اسرائیلی فوج کے انٹیلی جنس مرکز کے سابق سربراہ برائے تحقیق و تجزیہ میجر (ریٹائرڈ) ڈینی سیترینووِچ نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں ایران کے خلاف شکست سے دوچار ہوا۔ انہوں نے بیرونِ ملک مقیم ایرانی اپوزوزیشن اور ایران میں حکومت کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کے متعلق مکمل مایوسی کا اظہار کیا۔

سیترینووِچ اس وقت صہیونی تحقیقی ادارے آبا اِیبان انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی فارسی (برطانوی حکومت کے زیرِ انتظام میڈیا) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قیادت نے ایران کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے اور یہ سمجھ لیا تھا کہ چند فضائی حملے ایرانی حکومت کو گرا سکتے ہیں، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل میں کوئی حقیقت پسند نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 12 روزہ جنگ کے دوران ہم نے سمجھا کہ صرف فضائی بمباری سے ایران کی حکومت کو بدلا جا سکتا ہے، مگر نتیجہ بالکل الٹا نکلا، ایران نے اسی جنگ کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس سابقہ اسرائیلی انٹیلی جنس عہدیدار نے مزید کہا کہ ایران میں کوئی حقیقی اپوزیشن موجود نہیں اور بیرون ملک مقیم مخالفین بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں، میں رضا پہلوی کو ایسا شخص نہیں سمجھتا جو ایران واپس جا کر حالات پر قابو پا سکے۔

صہیونی تحقیقی ادارے کا دعویٰ:
انہوں نے ایک تو یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 12 روزہ جنگ نے واضح کر دیا کہ ہم باہر سے ایران کی حکومت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ دوسرا ان کا کہنا ہے کہ اتنے فاصلے سے 950 ایرانی میزائل بھی اسرائیل پر گرے۔ اسی تناظر میں اسرائیلی ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز (INSS)” کی مبینہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں اسرائیل کو متعدد محاذوں پر بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سال کی جنگوں میں 1,986 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں 919 فوجی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں غزہ محاذ پر ہوئیں، جہاں 1,724 افراد مارے گئے۔

55 اسرائیلی گرفتار یا لاپتہ ہوئے، جن میں سے 13 کی لاشیں اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ 30,135 اسرائیلی زخمی ہوئے، اور 164,500 افراد کو اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، جن میں سے 74,600 غزہ کے اطراف کے رہائشی تھے۔ غزہ سے اسرائیل کی سمت 51 ڈرون داغے گئے، اور اسرائیلی فوج نے جنگ کے دوران 3 لاکھ ریزرو فوجی بلائے۔ مجموعی طور پر 37,500 راکٹ اور میزائل اسرائیل پر فائر کیے گئے، جن میں سے 10,200 صرف غزہ سے تھے۔

مغربی کنارا اور بیت المقدس: 76 اسرائیلی ہلاک اور 565 زخمی ہوئے، جن میں 32 فوجی شامل تھے۔ اسرائیلی فوج نے 129 فضائی حملے کیے اور جنین و طولکرم کے کیمپوں کو تباہ کیا یا خالی کروایا۔ مجموعی طور پر 15,456 گرفتاریاں ہوئیں اور 10,496 آپریشنز کیے گئے، جن میں ہزاروں پتھراؤ اور آتش گیر بموں کے واقعات شامل تھے۔

ایرانی محاذ: رپورٹ کے مطابق جون 2025 کی مختصر جھڑپوں کے دوران 950 ایرانی میزائلوں کے نتیجے میں 33 اسرائیلی ہلاک اور 3,550 زخمی ہوئے۔
لبنانی محاذ: حزب اللہ کی راکٹ اور ڈرون حملوں میں 132 اسرائیلی مارے گئے، 17,300 راکٹ اور 593 ڈرون فائر کیے گئے، جبکہ 68,500 شمالی اسرائیلی باشندے بے گھر ہوئے۔

یمنی محاذ: یمن کی جانب سے داغے گئے 500 میزائل و ڈرون میں سے 70 میزائل اور کئی ڈرون اسرائیل کے اندر گرے، جن کے نتیجے میں کم از کم ایک اسرائیلی ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان حملوں سے ایلات بندرگاہ کی 80 فیصد سرگرمیاں متاثر ہوئیں، جس کے جواب میں اسرائیل نے 19 حملے یمن پر کیے اور 90 اہداف کو نشانہ بنایا۔

یہ رپورٹ مجموعی طور پر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اسرائیل متعدد محاذوں پر بیک وقت دباؤ کا شکار ہے، اور اندرونی طور پر بھی اس کے سیکورٹی ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ ایران کے خلاف جنگی یا نفسیاتی حکمتِ عملی ناکام ہو چکی ہے۔

علامہ میرزا محمد حسین نائینی پر بین الاقوامی کانفرنس کے منتظمین سے رہبر انقلاب کی ملاقات کے دوران ہونے والا رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، آج جمعرات 23 اکتوبر 2025 کی صبح شہر قم میں کانفرنس کے انعقاد کے مقام پر جاری کیا گيا۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں علامہ نائینی کو نجف اشرف کے قدیم حوزہ علمیہ کو بلند علمی اور معنوی ستونوں میں سے ایک قرار دیا اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مہارت کے پہلو سے مرحوم نائینی کی نمایاں خصوصیت، اپنی علمی و فکری بنیادوں اور مضبوط اور بے شمار جدت عمل کی اساس پر علم اصول میں ایک نیا ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔

انھوں نے نمایاں شاگردوں کی پرورش کو علامہ نائینی کی ایک اور خصوصیت شمار کیا اور کہا کہ ان کی ایک دوسری نمایاں خصوصیت، جو انھیں مراجع کے درمیان ایک غیر معمولی شخصیت میں تبدیل کرتی ہے، سیاسی سوچ کا حامل ہونا ہے جو ان کی گرانقدر کتاب "تنبیہ الامۃ" میں بخوبی سامنے آتی ہے تاہم اس کتاب پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آمریت کے مقابلے میں ولایت کے نظریے پر مبنی ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کے عقیدے کو علامہ نائینی کے سیاسی نظریات کا ایک اہم عنصر بتایا اور کہا کہ مرحوم نائینی کی سیاسی سوچ کے مطابق حکومت اور اس کے تمام ذمہ داروں کو، قومی نگرانی میں اور جوابدہ ہونا چاہیے جس کے لیے نگرانی اور قانون سازی کی غرض سے انتخابات کے انعقاد کے ذریعے ایک مجلس (پارلیمنٹ) کی تشکیل ہے اور اس مجلس کے قوانین کا اعتبار، فقہاء اور جید علماء کی تائيد و توثیق پر منحصر ہے۔

انھوں نے کہا کہ علامہ نائینی جس اسلامی اور عوامی حکومت کی تشکیل کے قائل تھے، وہ آج کی زبان میں "اسلامی جمہوریہ" ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرزا نائینی نے اپنی کتاب تنبیہ الامۃ کو خود اپنے ہاتھوں سے واپس لے لیا جس کی وجہ یہ تھی کہ مرحوم نائینی اور نجف کے دیگر علماء نے جس آئینی تحریک کی حمایت کی تھی وہ دراصل انصاف کی حکومت کے قیام اور آمریت کے خاتمے کی حمایت تھی اور انگریزوں نے جو کچھ آئینی تحریک کے نام پر ایران میں شروع کیا تھا، اس سے بالکل مختلف تھی۔

اس ملاقات میں ایران کے اعلی دینی تعلیمی مراکز کے سربراہ آيت اللہ اعرافی نے علامہ نائینی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے کانفرنس کے پروگراموں اور سرگرمیوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

 ٹرانسپورٹ اور اربن ڈویلپمنٹ کی وزیر فرزانہ صادق نے ایران اور پاکستان کے درمیان مواصلاتی رابطوں کو مضبوط بنانے کی غرض ٹھوس اقدامات کا عزم ظاہر کیا ہے۔

یہ بات انہوں نے اسلام آباد جاری ریجنل ٹرانسپورٹ منسٹرز کانفرنس کے پہلے دن ارنا کے نمائندے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

محترمہ فرزانہ صادق نے مواصلاتی رابطوں کو مضبوط بنانے کی غرض سے دونوں ملکوں میں پائي جانے والی صلاحیتوں اور گنجائشوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہونے جاری ٹرانسپورٹ منسٹر کانفرنس دوران ٹرانزٹ اور کوریڈور رابطوں کو آسان بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

ایران کی وزیر ٹرانسپورٹ و اربن ڈویلپمنٹ نے مزید کہا کہ اس کانفرنس  کے دوران، دو طرفہ اور کثیر الجہتی بات چیت ہوگی جن میں ٹرانزٹ سہولیات اور ریجنل کوریڈور جیسے معاملات سرفہرست ہیں۔

 

انہوں نے بتایا کہ ایران پاکستان دوطرفہ تعلقات کے میدان میں ٹرانزٹ اور روڈ ٹرانسپورٹ، کسٹم سہولت کاری ، ریلوے روٹس کی مرمت کے معاملات میں باہمی تعاون کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ارنا کے مطابق ریجنل ٹرانسپورٹ منسٹرز کانفرنس جمعرات سے اسلام آباد میں شروع ہوگئي ہے جو دو روز تک جاری رہے گی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے شعبہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر اولار بیگ شارشیف نے جو  تاجکستان کے دورے پر گئے ہوئے ہیں،صحافیوں کو بتایا کہ "سہند اینٹی ٹررزم 2025 " کے نام سے شنگھائی تعاون کی مشترکہ انسداد دہشت گردی مشقیں ایران میں تبریز کے نزدیک انجام پائيں گی۔

  انھوں نے بتایا کہ ان مشقوں میں شرکت کرنے والے ملکوں اور مبصرین کو دعوت نامے عنقریب بھیج دیئے جائيں گے۔

جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں منعقدہ عظیم الشان “علماء و مشائخِ اسلام کانفرنس” میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام، مشائخِ عظام اور ممتاز مذہبی شخصیات نے شرکت کرتے ہوئے اتحادِ امت، قومی ہم آہنگی اور اسلامی وحدت کے فروغ پر زور دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جامعۃ الکوثر اسلام آباد کی جانب سے ایک عظیم الشان “علماء و مشائخِ اسلام کانفرنس” منعقد ہوئی، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام، مشائخِ عظام اور ممتاز مذہبی شخصیات نے شرکت کی۔

اس موقع پر حرمِ مطہرِ امام حسین علیہ السلام سے تشریف لائے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حجۃ الاسلام علامہ علی القرعاوی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ کانفرنس کے اختتامی خطاب میں قائدِ ملتِ جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے اتحادِ امت، قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

تقریب کے مہمانِ خصوصی وفاقی وزیرِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی جناب سردار محمد یوسف نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان عالمِ اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے، اور اس کی بقا و ترقی اتحادِ بین المسلمین میں مضمر ہے۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر اور رحمۃ اللعالمین اتھارٹی کے ممبر علامہ عارف حسین واحدی نے کہا کہ عالَمِ اسلام کے عظیم دینی اور علمی ادارے جامعۃ الکوثر میں تمام مسالک کے جید علمائے کرام اور مشائخ عظام نے وحدت امت کا خوبصورت پیغام دیا۔ وطن عزیز کے استحکام و سالمیت،امت کی عزت و عظمت اور مسلمانوں میں انتشار و افتراق کے خاتمے کے لئے ایسے پروگرام کسی نعمت سے کم نہیں۔

قرآنِ مجید امت کو ایک واحد امت قرار دیتا ہے، اسلام کا پیغام توحید و وحدت ہے، مقررین

علمائے کرام کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی اور ایٹمی طاقت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ پورا عالمِ اسلام اس ملک پر فخر کرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے چند دہائیوں سے فرقہ وارانہ اور تکفیری عناصر نے اس کے استحکام کو نقصان پہنچایا۔ ان عناصر نے امن و سلامتی کو متاثر کیا اور مذہبی ہم آہنگی کی فضا کو مجروح کیا۔

مقررین نے کہا کہ ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء نے ہمیشہ اتحاد و وحدت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دیوبندی، شیعہ، بریلوی، اہلِ حدیث اور جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں نے ماضی میں مشترکہ کوششوں کے ذریعے ملک میں امن و وحدت کا پیغام عام کیا۔

۱۹۹۵ء میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے دوران تمام مکاتبِ فکر کے علماء، جن میں قاضی حسین احمد مرحوم، علامہ سید ساجد علی نقوی، مولانا سمیع الحق مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم، مولانا فضل الرحمن اور پروفیسر ساجد میر شامل تھے، نے مل کر ملی یکجہتی کونسل قائم کی، جس نے ملک میں ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔

مقررین نے کہا کہ آزادیِ وطن کی جدوجہد بھی اتحاد ہی کے نتیجے میں کامیاب ہوئی۔ اگر اس وقت مختلف مکاتبِ فکر اور قیادتیں متحد نہ ہوتیں تو قیامِ پاکستان ممکن نہ تھا۔آج بھی ہمیں انہی خطوط پر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ وطنِ عزیز کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ قرآنِ مجید امت کو ایک واحد امت قرار دیتا ہے: “إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ” (یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری عبادت کرو۔) قرآن کسی مسلک یا مکتب کی نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی بات کرتا ہے۔ اسلام کا پیغام توحید، اخوت اور وحدت کا پیغام ہے۔

قاضی حسین احمد مرحوم کا نعرہ “دردِ مشترک، قدرِ مشترک” آج بھی امتِ مسلمہ کے اتحاد کے لیے بہترین اصول ہے۔ اگر ہم اس جذبے کے تحت آگے بڑھیں تو یقیناً دوست خوش ہوں گے اور دشمن مایوس۔

قرآنِ مجید امت کو ایک واحد امت قرار دیتا ہے، اسلام کا پیغام توحید و وحدت ہے، مقررین

مقررین نے کہا کہ امت مسلمہ کے موجودہ عالمی حالات، خصوصاً فلسطین، غزہ میں جاری مظالم،ان حالات میں ایران کا صہیونی ریاست کو پوری قوت کے ساتھ جواب دینے سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن اسلام کمزور ہے امریکی صدر اور ان کے اتحادی ان قاتلوں کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

یہ حالات امتِ مسلمہ کے اتحاد اور بیداری کا تقاضا کرتے ہیں۔ استعماری قوتیں مسلمانوں کو تقسیم اور کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں، لہٰذا امت کو ہوشیاری اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

آخر میں مقررین نے کہا کہ ملک کے اندر فرقہ وارانہ فضا میں بہتری آئی ہے، تاہم مزید مثبت پیش رفت کے لیے محراب و منبر کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔انہوں نے اتحادِ امت کے فروغ کے لیے اس طرح کی کانفرنسوں کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

اختتام پر جامعۃ الکوثر کے مہتمم علامہ شیخ انور نجفی، علامہ شیخ اسحاق نجفی اور ان کے رفقاء کو اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا، جس نے اتحادِ امت اور مذہبی ہم آہنگی کے پیغام کو مزید تقویت دی۔

قرآنِ مجید امت کو ایک واحد امت قرار دیتا ہے، اسلام کا پیغام توحید و وحدت ہے، مقررین

کانفرنس میں سابق امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق، سیکریٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل جناب لیاقت بلوچ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ مفتی راغب نعیمی،حضرت پیر مجتبی فاروق گل بادشاہ سجادہ نشین دربار عالی موھڑہ شریف راولپنڈی،علامہ محمد رمضان توقیر،صدر ملی یکجہتی کونسل شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم،علامہ شیخ حسن جعفری،علامہ تنویر علوی،علامہ شفا نجفی سمیت بڑی تعداد میں تمام مسالک کے ممتاز علمائے کرام،مشائخ عظام اور شخصیات نے شرکت کی اور اتحادِ امت کے موضوع پر مدلل و بصیرت افروز خطابات پیش کیا۔


شام اور لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس براک نے خطے کے تھانیدار کے طور پر ظاہر ہوتے ہوئے یہ دھمکی لگا دی ہے کہ اگر لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات انجام نہ دیے گئے تو حزب اللہ لبنان کے ملٹری ونگ کو اس بڑی جنگ کا سامنا کرنا پڑ جائے گا جس کا آغاز اسرائیل کرے گا۔ اس نے کہا: "اگر لبنان حکومت بدستور تذبذب کا شکار رہتی ہے تو عین ممکن ہے کہ اسرائیل یکطرفہ طور پر اقدام کرے اور اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے کیونکہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا اسرائیل کے لیے اپنی شمالی سرحدوں کو محفوظ بنانے کا معنی رکھتا ہے۔" جیسا کہ لبنان اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کی اس دھمکی سے واضح ہے اس کی نظر میں لبنان کی ریاست، قوم اور حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
 
لہذا تھامس براک غاصب صیہونی رژیم کی سلامتی اور تحفظ یقینی بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہے۔ اس کی یہ بات کہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا مطلب اسرائیل کی شمالی سرحدوں کا تحفظ ہے، ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ لبنان حکومت کو محض ایک آلہ کار کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے غاصب صیہونی رژیم کی سلامتی یقینی بنانے کا محض ایک ذریعہ تصور کرتی ہے۔ لبنان اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کی جانب سے اس حد سے زیادہ ڈو مور کے مطالبے کے بارے میں تین نکات بہت اہم ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
1)۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ایک جعلی، غاصب، قابض اور ناجائز رژیم ہے جس نے مقامی فلسطینیوں کو جلاوطن کر کے گذشتہ 77 برس سے اسلامی سرزمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
 
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم گذشتہ 77 برس سے مغربی ایشیا خطے میں بسنے والی قوموں اور عرب ممالک کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے اور اس دوران اس نے جنگوں، قتل عام، تباہی و بربادی اور وسیع نقصان کے ذریعے خطے کی قوموں اور ممالک کو شدید نالاں کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ دو سال سے غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم آئے دن مغربی کنارے پر جارحانہ حملے کرتی ہے، اس نے اب تک لبنان کے 4 ہزار شہریوں کو شہید کیا ہے، لبنان میں بڑی تعداد میں رہائشی عمارات کو تباہ کیا ہے، شام کے بڑے علاقے پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے، شام کا فوجی انفرااسٹرکچر تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور اس ملک کا ایک بڑا علاقہ جدا کرنے کے درپے ہے اور ایسے ہی بہت سے مجرمانہ اقدامات اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو نہ صرف کسی ملک کی حمایت اور شہہ حاصل نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام حکومتوں کو اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں اس پر سخت پابندیاں عائد کر کے اسے مزید مجرمانہ اقدامات سے روک دینا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت غاصب صیہونی رژیم کے حکمرانوں کو غزہ میں نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب کے جرم میں سزا سنا چکی ہے اور ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں لہذا تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی گرفتاری کے لیے ہر ممکنہ کوشش انجام دیں۔ دوسری طرف امریکی حکومت نہ صرف اس قانونی ذمہ داری پر عمل پیرا نہیں ہے بلکہ پورے زور و شور سے مجرم صیہونی حکمرانوں کی مدد اور حمایت میں مصروف ہے اور یوں انہیں مزید مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے لیے ضروری مالی اور فوجی وسائل مہیا کر رہی ہے۔ امریکہ کے یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
 
2)۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ مغربی ایشیا خطے کی حکومتوں کے معاملات خود ان سے ہی مربوط ہیں اور خطے کے سیکورٹی امور بھی انہی حکومتوں کو سنبھالنے چاہیئں۔ دنیا کے دوسرے کونے میں رہنے والے امریکہ کو اس بات کا کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے اور مثال کے طور پر لبنان حکومت کی ذمہ داریوں کا تعین کرے؟ یہ مداخلت لبنان کی حکومت اور قوم کی سب سے بڑی توہین ہے اور لبنان کی رائے عامہ بھی اپنے معاملات میں امریکی مداخلت کی مخالف ہے۔ جیسا کہ خود امریکی عوام بھی اپنی حکومت کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی حمایت کے مخالف ہے اور انہوں نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی حکومت کو ان کے ادا کیے گئے ٹیکسز کو اسرائیل کو بم اور فوجی ہتھیار فراہم کرنے میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لہذا اس لحاظ سے بھی یہ امریکی پالیسی غلط ہے۔
 
3)۔ امریکہ کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنا نہ صرف ایک ناجائز مطالبہ ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ نہ تو لبنانی عوام کی اکثریت اور نہ ہی لبنان آرمی، حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں لبنان کی ملکی سالمیت کی حفاظت صرف حزب اللہ اور اس کے ہتھیاروں نے ہی کی ہے جبکہ لبنان آرمی اس قدر طاقتور نہیں ہے۔ واضح ہے کہ حزب اللہ کے غیر مسلح ہو جانے کے نتیجے میں لبنان غاصب صیہونی رژیم کے لیے ایک لذیذ اور تر نوالہ بن جائے گا۔ لہذا امریکہ کے اس ناجائز مطالبے کا اصل مقصد لبنان کو جولانی کے شام میں تبدیل کر دینا ہے تاکہ یوں اس پر اسرائیل کے مکمل قبضے کی راہ ہموار ہو جائے۔

تحریر: علی احمدی

سماجی عدم مساوات شاید جدید منصوبے کے تخلیق کاروں کو شرمندہ کر دے۔ یہی نتیجہ میشال روکار، دومنيك بورغ، اور فلوران اوغانيور نے اپنی مشترکہ تحریر میں اخذ کیا ہے، جو "انسانی نسل خطرے میں" کے عنوان سے 3 اپریل 2011 کو فرانسیسی اخبار لوموند میں شائع ہوئی۔" (ماخذ: الحداثة السائلة، صفحہ 35)

قرآن مجید میں ایک واضح اور صریح اشارہ ہے کہ قوموں اور معاشروں کو ایک دوسرے کے تجربات اور علم سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے." (الحجرات: 13)۔

لہذا، ہمیں ایک ایسی امت کے طور پر جو قرآن کو سامنے رکھتی ہے اور اس کے مطابق چلتی ہے، قوموں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس میں سے ایک سبق یہ ہے کہ ہمیں مغربی معاشروں میں بڑھتی ہوئی سماجی خلیج اور معاشرتی مساوات کے فقدان پر غور کرنا چاہیے، جس سے ان معاشروں کے ٹوٹنے اور سنگین بحرانوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہ حالات اس بات پر سوالات اٹھاتے ہیں کہ کیا موجودہ سماجی اور اقتصادی نظام واقعی سماجی انصاف فراہم کر سکتے ہیں۔

حالیہ اعداد و شمار اور علمی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور متعدد یورپی ممالک میں معاشی اور سماجی تفاوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہر اقتصادیات توماس پیکیٹی اپنی مشہور کتاب "Capital in the Twenty-First Century"

 میں اشارہ کرتے ہیں کہ "یورپ میں دولت کی تقسیم تیزی سے غیر مساوی ہو رہی ہے"، اور مزید کہتے ہیں کہ "امیر اور غریب کے درمیان خلیج خطرناک حد تک وسیع ہو رہی ہے، جو یورپی معاشروں کے استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے"۔ پیکیٹی اس تفاوت کی وجہ لبرل اقتصادی پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں، جو آزاد منڈی اور دولت کی دوبارہ تقسیم میں ریاست کے کردار کو کم کرنے پر انحصار کرتی ہیں۔

اسی تناظر میں، اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم( (OECDکی ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ "یورپی یونین کے متعدد ممالک میں نسبتا غربت کی سطح بڑھ گئی ہے، جو سماجی تحفظ کے نظام کی کمزوری اور آمدنی کی تقسیم میں بڑھتے ہوئے تفاوت کو ظاہر کرتی ہے۔" یہ تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بعض یورپی ممالک میں جاری اقتصادی ترقی کے ثمرات معاشرے کے تمام طبقات پر منصفانہ طور پر ظاہر نہیں ہو رہے، جس سے امیر مزید امیر ہو رہے ہیں جبکہ غریب غربت کے دائرے میں محصور ہیں۔

((OECD، 2020۔ آمدنی کی عدم مساوات اور غربت کے اشارے، اقتصادی تفاوت کے ساتھ ساتھ، یورپ نسل اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا بھی سامنا کر رہا ہے، جو سماجی خلیج کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ محقق پال گلمارٹن اپنی European Journal of Sociology میں شائع شدہ تحقیقی مضمون میں اشارہ کرتے ہیں کہ "یورپ میں تارکین وطن اور نسلی اقلیتیں ملازمت، تعلیم، اور صحت کی خدمات میں بلند سطح کے امتیاز کا سامنا کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ غربت اور سماجی حاشیے پر زندگی گزارنے کے خطرات سے زیادہ دوچار ہیں۔" گلمارٹن وضاحت کرتے ہیں کہ ان طبقات کو ثقافتی اور لسانی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جو ان کے یورپی معاشروں میں انضمام میں رکاوٹ بنتی ہیں، اور یہ تفاوت اس کو مزید گہرا اور مساوات کے فقدان کو بڑھاتی ہیں۔

مزید برآں، پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ "کچھ یورپی ممالک میں تارکین وطن کے بارے میں منفی رائے میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں انہیں معاشی اور سماجی بحرانوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ (Pew Research Center2021) یورپ میں تارکین وطن کے بارے میں رویے، یہ رجحانات اس ماحول کے فقدان کو اجاگر کرتے ہیں جو ہر ایک کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بناتا ہے، خواہ ان کا نسلی یا ثقافتی پس منظر کچھ بھی ہو۔ اس حوالے سے معروف ماہر اقتصادیات اور سماجیات زیجمونٹ باومان کہتے ہیں: "مثال کے طور پر، تارکین وطن اب اطالوی قومی پیداوار میں 11 فیصد کا حصہ ڈالتے ہیں، مگر انہیں نہ ووٹ کا حق حاصل ہے اور نہ ہی اطالوی انتخابات میں حصہ لینے کا۔ اس کے علاوہ، کسی کو بھی ان آنے والوں کی حقیقی تعداد کا علم نہیں ہے جو یا تو سفر کے قانونی کاغذات نہیں رکھتے یا جعلی کاغذات کے ساتھ بھرپور انداز میں قومی پیداوار اور قوم کی خوشحالی میں حصہ لے رہے ہیں۔" یہاں "دالما" ایک سوال اٹھاتے ہیں جسے کسی بھی صورت میں محض بلاغی سوال نہیں کہا جا سکتا: "یورپی یونین ایسے حالات کو کیسے برداشت کر سکتی ہے، جہاں آبادی کے ایک بڑے طبقے کو سیاسی، اقتصادی، اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، جس سے ہمارے جمہوری اصولوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے؟ اور جب شہری کے فرائض بنیادی طور پر اس کے حقوق کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہم واقعی توقع کرتے ہیں کہ تارکین وطن اس معاہدۂ معاشرت کی بنیادوں پر یقین رکھیں، اس کا احترام کریں، اس کا ساتھ دیں، اور اس کا دفاع کریں؟

ہمارے ملک میں سیاست دان انتخابات میں اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کے لیے تارکین وطن پر الزام عائد کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مقامی آبادی کے معیار میں ضم ہونے میں ناکام ہیں یا اس میں ہچکچاتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے سیاست دان ان معیارات کو تارکین وطن سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور مزید اقدامات کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔ اس عمل میں، وہ ان معیارات کی توہین کرتے ہیں یا انہیں بگاڑ دیتے ہیں جنہیں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غیر ملکی یلغار سے محفوظ رکھ رہے ہیں۔" (الحداثة السائلة، صفحہ 34-35)

اسی طرح ہمیں معیشت کی نجکاری کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ماضی کی دہائیوں میں یورپ میں ریاست کو سماجی انصاف اور مساوات فراہم کرنے کا بنیادی ستون سمجھا جاتا تھا، جہاں حکومتیں مفت تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور بے روزگاروں کے لیے امداد فراہم کرتی تھیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب سے پالیسیوں کا رخ نجکاری اور عوامی اخراجات میں کمی کی طرف ہوا، یہ ماڈل کمزور ہونا شروع ہوگیا ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ ہاروی اپنی کتاب "نیولیبرلزم: ایک مختصر تاریخ" میں اشارہ کرتے ہیں کہ "نجکاری کی طرف تبدیلی اور معیشت میں ریاست کے کردار کو کم کرنے سے ان سماجی بنیادوں میں کمی آئی ہے جو کمزور طبقات کی حمایت کرتی تھیں۔"

یہ پسپائی حکومتوں کی سماجی خلیج کو حل کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرتی ہے، کیونکہ بنیادی خدمات جیسے صحت اور تعلیم ان لوگوں کے لیے بہتر دستیاب ہوتی ہیں جو مالی استطاعت رکھتے ہیں، جس سے سماجی تفاوت مزید بڑھتا ہے۔ اس تناظر میں، محقق جون راولی اپنی   (Journal of Social Policy) میں شائع شدہ مقالے میں لکھتے ہیں کہ: ریاست کی سماجی ذمہ داری میں کمی اور نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے کردار سے امیر اور غریب کے درمیان تفاوت میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ عوامی خدمات کم مؤثر اور زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔" آج ہم دیکھتے ہیں کہ عدم مساوات اور مواقع کی عدم برابری کی وجہ سے امیر اور غریب کے بچوں کو ایک جیسے تعلیمی معیار تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ امیر گھرانوں کے بچے بہتر ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو غریب بچوں کے لیے ممکن نہیں، جس سے سماجی تفاوت گہرا ہوتا ہے اور اس کے خطرناک اثرات تیزی سے ظاہر ہونے لگتے ہیں، جو بالآخر معاشرتی بکھراؤ تک پہنچ سکتے ہیں۔

حل کیا ہے ؟

مغرب میں عدم مساوات کے اثرات پیش کرنے کے بعد، جو کہ خالص مادی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، جو عوام کے مفاد کا خیال نہیں رکھتی ہیں، بلکہ طاقتور کو بااختیار بنانے اور کمزور کو کچلنے کی نچلی سوچوں اور فلسفوں پر مبنی ہیں، اس کا حل اسلامی تصورات کی طرف لوٹنے میں ہے، جو اقتصادی اور سماجی پالیسیوں کے لیے اخلاقی اصول فراہم کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں ریاست کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ معاشرے کے افراد کے درمیان مساوات کو یقینی بنایا جا سکے، جیسے کہ سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

(مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)

 اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے (الحشر: 7)

(لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ)

(یہ مال غنیمت) ان غریب مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔ (الحشر: 8)

(وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)

 اور جو پہلے سے اس گھر (دارالہجرت یعنی مدینہ) میں مقیم اور ایمان پر قائم تھے، وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آیا ہے اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دے دیا گیا اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں پاتے اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں (الحشر: 9)

(وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ)

 اور جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ (الحشر: 10)

یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہمیں اپنے سماجی اور اقتصادی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کے لیے مساوات اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔

یہ آیات انفال کے مال کے بارے میں ہیں، جو مسلمانوں نے بغیر لڑائی کے حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان غنائم کا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے بعد امام کی دسترس میں رکھا، یعنی ان کا معاملہ حکومتی ریاست کے حوالے کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کے جمع ہونے کو روکا جا سکے، جو وسیع پیمانے پر مالیاتی گردش میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (کَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ)، یعنی یہ یقینی بنایا جائے کہ دولت صرف امیروں تک محدود نہ رہے۔ اس لیے اس کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں رکھا گیا، یعنی ریاست کے سربراہ کے پاس، تاکہ وہ اسے فقراء، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کریں، یعنی معاشرے کے کمزور اور ناتواں طبقات پر۔

شیخ ناصر مکارم شیرازی کہتے ہیں: " اس آیت میں جو مفہوم بیان کیا گیا ہے، وہ اسلامی معیشت کا ایک بنیادی اصول واضح کرتا ہے، یعنی اسلامی معیشت میں اس بات کی اہمیت ہے کہ دولت کسی مخصوص طبقے یا گروہ کے ہاتھ میں متجمع نہ ہو، بلکہ یہ ایک دوسرے کے درمیان گردش کرتی رہے، جبکہ ذاتی ملکیت کا پورا احترام کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک واضح پروگرام تیار کرنا ضروری ہے جو قوم کے بڑے طبقے میں دولت کی گردش کو یقینی بنائے۔

یہ قدرتی بات ہے کہ ہم اس سے یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اپنی مرضی سے قوانین اور ضوابط بنائیں اور ایک طبقے سے دولت لے کر دوسرے کو دیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اسلامی قوانین کو مالی حصول کے میدان میں نافذ کیا جائے، اور دیگر مالیاتی قوانین جیسے خمس، زکات، خراج اور انفال کی صحیح طور پر پابندی کی جائے۔ اس طرح ہم مطلوبہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں، یعنی ایک طرف سے ذاتی محنت کا احترام اور دوسری طرف سماجی مفادات کی حفاظت، اور معاشرے کو دو طبقات (ایک دولت مند اقلیت اور ایک کمزور اکثریت) میں تقسیم ہونے سے روکنا۔" (الأمثل، ج18، ص184)

یہ وہ فریم ورک ہے جس کے تحت اقتصادی نظاموں کو کام کرنا چاہیے۔ جوزف سٹیگلٹز، جو کہ اقتصادیات کے میدان میں نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں، اپنے کتاب "ثمن اللامساواة" میں اشارہ کرتے ہیں کہ "سماجی انصاف صرف مؤثر  انداز میں دوبارہ تقسیم کی پالیسیوں کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، جو کمزور طبقات کی حمایت اور انہیں بااختیار بنانے کے غرض سے بنائی گئی ہوں ۔" سٹیگلٹز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترقی پسند ٹیکسوں کو بڑھانے اور سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج کو کم کیا جا سکے۔

آخر میں، یہ واضح ہے کہ مغرب میں سماجی عدم مساوات ایسی اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو نجکاری کی طرف مائل ہیں اور ریاست کے کردار کو دولت کی دوبارہ تقسیم میں کم کر رہی ہیں، ساتھ ہی نسلی اور لسانی امتیاز اور سماجی پالیسیوں کی کمزوری بھی اس کا حصہ ہے۔ مستقبل کو زیادہ منصفانہ بنانے کے لیے، ان ممالک کو زیادہ جامع اور انصاف پسند پالیسیوں کو اپنانے پر کام کرنا چاہیے جو سب کے لیے، کسی قسم کے اقتصادی تفریق یا نسلی پس منظر کو دیکھے بغیر، یکساں مواقع فراہم کریں۔ صرف سماجی امداد اور بیروزگاری کی الاؤنسز کی فراہمی کافی نہیں ہے، کیونکہ یہ دیرپا حل نہیں ہیں۔ اصل حل وسائل پیدا کرنے اور خاص طور پر سب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنے میں ہے۔