سلیمانی
شيطان كا غلبہ روكنے كا نسخہ
قائد انقلاب اسلامی نے گیارہ صفر چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں شیطان کے غلبے سے بچنے کا طریقہ بتایا گيا ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ دشمن (يہاں مراد شيطان ہے) كے مقابلے ميں انسان كو استقامت اور تقويت عطا كرنے والي اور اسے دشمن كے تسلط ميں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والي سب سے پہلي چيز ہے؛ "واعظ من قلبه" انسان كا ناصح قلب۔ دل اگر بيدار و متنبہ ہو تو انسان كو نصيحت كرتا رہتا ہے۔
كتاب الفقيہ ميں منقول ہے؛ "قَالَ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَاعِظٌ مِنْ قَلْبِهِ وَ زَاجِرٌ مِنْ نَفْسِهِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ قَرِينٌ مُرْشِدٌ اسْتَمْكَنَ عَدُوَّهُ مِنْ عُنُقِه"شافي، صفحه ي 652
ترجمہ و تشريح: حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ دشمن (يہاں مراد شيطان ہے) كے مقابلے ميں انسان كو استقامت اور تقويت عطا كرنے والي اور اسے دشمن كے تسلط ميں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والي سب سے پہلي چيز ہے؛ "واعظ من قلبه" انسان كا ناصح قلب۔ دل اگر بيدار و متنبہ ہو تو انسان كو نصيحت كرتا رہتا ہے۔ انسان كے دل كو اپني نصيحت پر آمادہ كرنے اور اپني ذات كے لئے واعظ بنانے ميں صحيفہ سجاديہ اور ديگر كتب ميں منقول دعاؤں اور اسي طرح صبح كي بيداري كا بہت اہم كردار ہے۔ يہ چيزيں انسان كے دل كو اس كے لئے ناصح اور واعظ بنا ديتي ہيں۔ تو پہلي چيز ہے ناصح قلب۔ دوسري چيز ہے؛ "زاجر من نفسہ" يعني انسان كے اندر كوئي روكنے والا، منع كرنے والا اور خبردار كرنے والا ہو۔ اگر يہ دونوں چيزيں نہ ہوں اور " ولم يكن لہ قرين مرشد" رہنمائي كرنے والا كوئي ساتهي بهي نہ ہو جو اس كي رہنمائي اور مدد كر سكے، كہ جو شيطان كے غلبے سے بچانے والي تيسري چيز ہے، (تو عين ممكن ہے كہ اس پر شيطان غالب آ جائے)۔ اگر انسان كے اندر كوئي طاقت ايسي نہيں ہے جو اس كي ہدايت كرے، اس كے نفس كو قابو ميں ركهے تو اسے كسي دوست اور ہمنوا كي شديد ضرورت ہے۔ ايسا ہمنوا جس كے بارے ميں ارشاد ہوا ہے كہ " من يذكركم اللہ رويته" جس كا ديدار تمہيں اللہ كي ياد دلائے۔ اگر وہ شخص ايسے دوست سے بهي محروم ہے تو "استمكن عدوہ من عنقه" اس نے خود كو اپنے دشمن كا مطيع بنا ليا ہے، اپنے اوپر دشمن كو مسلط كر ليا ہے۔ دشمن سے مراد شيطان ہے۔ تو يہ چيزيں ضروري ہيں۔ انسان كا ضمير اسے نصيحت ديتا ہے۔ كسي بهي انسان كے لئے بہترين ناصح خود اس كا ضمير ہے كيونكہ انسان كبهي اپنے ضمير كي بات كا برا نہيں مانتا۔ اگر كسي اور نے نصيحت كي اور لہجہ ذرا سا سخت اور تند ہوا تو انسان برا مان جاتا ہے ليكن جب انسان كا ضمير نصيحت كرتا ہے، ملامت كرتا ہے، خود كو ناسزا كہتا ہے، سرزنش كرتا ہے تو يہ چيز بہت موثر واقع ہوتي ہے۔ يہ نصيحت اور موعظہ بہت ضروري ہے۔ اس كے ساته ساته ہي يا اس خصوصيت كے فقدان كي صورت ميں ايسے دوست اور ہمدرد كا ہونا ضروري ہے جو انسان كي مدد كرے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام، حضرت علی علیہ السلام کی باوفا شریک حیات
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی نمایاں اور قابلِ احترام خواتین میں سے ہیں، جن کا کردار سانحۂ کربلا میں نہایت مؤثر رہا۔ اگرچہ وہ کربلا کے میدان میں موجود نہ تھیں، لیکن ان کے چار بیٹوں کی قربانی، ادب، شجاعت اور وفاداری نے ان کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں زندہ کر دیا۔ ان صفات کا مظاہرہ ان کی بہترین تربیت کا ثبوت ہے جو ان کی والدہ، حضرت ام البنین، کی شخصیت سے جھلکتی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ام البنین علیہا السلام مسلمان خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ حضرت ام البنین (ع) کے فضائل اور خوبیوں کا ذکر ہمیشہ ان کے فرزند حضرت عباس علیہ السلام کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حضرت عباس علیہ السلام جو کربلا کے علمدار تھے اور جن کے مقام پر روزِ قیامت شہداء رشک کریں گے، اپنی شجاعت، ادب اور وفاداری میں اپنے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ حضرت ام البنین علیہا السلام کے وارث تھے۔
نسب اور خاندان
تاریخی منابع کے مطابق، حضرت ام البنین علیہا السلام کی ولادت مدینہ کے جنوب میں رہنے والے طائفۂ ہوازن کے مشہور قبیلے بنی کلاب میں ہوئی۔ آپ کے والد ابوالمجل حزام بن خالد اور والدہ ثمامہ بنت سہیل بن عامر دونوں کا تعلق عرب کے معروف اور بہادر خاندانوں سے تھا۔ بنی کلاب اپنے وقت میں شجاعت، سخاوت اور دیگر اعلی صفات کی وجہ سے مشہور تھے۔ حضرت ام البنین علیہا السلام نے انہی اعلی اخلاقی اور نسبی صفات کو وراثت میں پایا۔
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شہادت کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب جو کہ عرب قبائل کے نسب اور خصوصیات سے گہری واقفیت رکھتے تھے، سے درخواست کی کہ میرے لیے ایسی عورت تلاش کرو جو دلیر اور بہادر نسل سے ہو تاکہ وہ ایسا بیٹا جنم دے جو شجاعت اور وفاداری میں نمایاں ہو۔
عقیل نے حضرت علی علیہ السلام کو ام البنین کلابیہ کے انتخاب کا مشورہ دیا کیونکہ ان کے نسب میں ایسی صفات پائی جاتی تھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کیا اور یوں یہ مبارک نکاح عمل میں آیا۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کا خواب
حضرت ام البنین علیہا السلام فرماتی ہیں کہ رشتہ ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک سرسبز اور گھنے باغ میں بیٹھی ہوں۔ وہاں بہتے ہوئے نہریں اور بے شمار پھل موجود تھے۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند اور ستارے روشن تھے اور میں انہیں دیکھ رہی تھی۔ میں اللہ کی تخلیق کی عظمت اور بغیر ستون کے کھڑے آسمان، چاند کی روشنی اور ستاروں کے بارے میں غور و فکر کر رہی تھی۔ اسی دوران اچانک چاند آسمان سے زمین پر اترا اور میری گود میں آ گیا۔ اس چاند سے ایک ایسی روشنی نکل رہی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ میں حیرت اور تعجب میں مبتلا تھی کہ اسی وقت چار روشن ستارے اور میری گود میں آ گرے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کے والد حزام بن خالد نے اپنی قوم کے خوابوں کی تعبیر کرنے والے عالم سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ معبر نے کہا یہ خواب کسی کو مت بتائیں اور یقین رکھیں کہ آپ کی بیٹی کے لیے عرب و عجم کے کسی بڑے شخص کا رشتہ آئے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے چار بیٹے عطا کرے گا۔
جب حضرت علی علیہ السلام کے بھائی حضرت عقیل علیہ السلام جو قبائل عرب کے نسب شناس تھے، خواستگاری کے لیے حزام بن خالد کے پاس آئے، تو حزام نے اپنی بیٹی کے خواب کو یاد کرتے ہوئے انہیں خوشخبری دی اور کہا: میری بیٹی! یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ دنیا اور آخرت کی خوش بختی کی بشارت ہو! پھر حزام نے اپنی اہلیہ ثمامہ سے مشورہ کیا اور کہا کہ کیا تم ہماری بیٹی فاطمہ (ام البنین) کو امیرالمومنین علی علیہ السلام کے نکاح کے لائق سمجھتی ہو؟ جان لو کہ ان کا گھر وحی، نبوت، علم، حکمت، ادب اور اخلاق کا مرکز ہے۔ اگر تم اپنی بیٹی کو اس گھر کے لائق سمجھتی ہو تو ہم اس مبارک رشتے کو قبول کریں گے۔
تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا نے جب حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں قدم رکھا تو انہوں نے امام علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ انہیں ان کے اصل نام فاطمہ کے بجائے "ام البنین” کے لقب سے پکارا جائے۔ یہ اس لیے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کا نام سن کر اپنی والدہ کی یاد میں غمگین نہ ہوں اور ان کے دلوں میں یتیمی کا درد تازہ نہ ہو۔
کردار اور تربیت
حضرت ام البنین علیہ السلام نے نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی بہترین زوجہ ہونے کا حق ادا کیا بلکہ حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور بی بی زینب علیہا السلام کے لیے ایک شفیق اور محبت کرنے والی ماں کی حیثیت سے بھی اپنی مثال قائم کی۔ اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام کے مشن کے لیے قربان کر دینا ان کی وفاداری اور ایمان کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کی زندگی ہمیں ایثار، شجاعت، اور اہلِ بیت سے وفاداری کا درس دیتی ہے، اور ان کا کردار آج بھی مسلم خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حضرت ام البنین علیہا السلام سے خواستگاری کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک خوبصورت واقعہ ہے جو اس عظیم خاتون کی شرافت، ایمان اور بلند مقام کو واضح کرتا ہے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کے بیٹے
حضرت ام البنین علیہا السلام کے امام علی علیہ السلام سے چار بیٹے تھے: حضرت عباس علیہ السلام، عبد اللہ، عثمان اور جعفر۔ ان سب میں سب سے بڑے حضرت عباس علیہ السلام تھے، جو 4 شعبان 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ یہ تمام فرزند حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین علیہا السلام کی مثالی تربیت کے باعث بلند اوصاف کے حامل تھے۔ ان چاروں جوانوں نے سب سے پہلے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام کے اوصاف اور اخلاق کو اپنایا۔ اس کے بعد اپنی والدہ حضرت ام البنین علیہا السلام سے ادب، ایثار، وفا اور قربانی کی اعلی قدریں سیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک رشادت، نجابت، شرافت، جوانمردی اور اخلاق کے اعلی ترین درجے پر فائز تھا۔
جب امیر المومنین علیہ السلام شہید ہوئے، تو حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 14 سال تھی اور ان کے باقی بھائی ان سے بھی کم عمر کے تھے۔ لیکن ان کی وفاداری اور قربانی کربلا کے میدان میں تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب بن گئی۔ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت اور سانحۂ کربلا کے بعد ان کے صبر و استقامت کی کہانی تاریخ اسلام کے دردناک مگر قابلِ فخر واقعات میں شامل ہے۔
مجھے میرے حسین علیہ السلام کی خبر دو!
سانحۂ کربلا کے بعد جب بشیر امام سجاد علیہ السلام کے نمائندہ کی حیثیت سے مدینہ پہنچا تو حضرت ام البنین علیہا السلام اس کے استقبال کے لیے آئیں۔ انہوں نے فوراً پوچھا: امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کیا خبر ہے؟
بشیر نے کہا: آپ کے بیٹے عباس علیہ السلام شہید ہو گئے ہیں۔
یہ سن کر حضرت ام البنین علیہا السلام نے دوبارہ کہا: "بشیر! میرے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ!”
بشیر نے بتایا کہ ان کے دیگر بیٹے بھی کربلا میں شہید ہو گئے ہیں، لیکن حضرت ام البنین علیہا السلام نے پھر بھی یہی کہا: "بشیر! مجھے میرے حسین علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ!”
جب بشیر نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی، تو حضرت ام البنین علیہا السلام نے بلند آواز میں نالہ و فریاد کی۔
سانحۂ کربلا کے بعد، حضرت ام البنین علیہا السلام نے بی بی زینب علیہا السلام کے ساتھ یزید کی حکومت کے خلاف احتجاج میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ روزانہ اپنے بیٹے حضرت عباس علیہ السلام کے فرزند کو لے کر قبرستان بقیع جاتی تھیں اور وہاں چار قبریں کھینچ کر اپنے شہید بیٹوں کے لیے مرثیے پڑھتی تھیں۔ ان کی مرثیہ خوانی اتنی سوزناک تھی کہ مدینہ کے لوگ ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور گریہ کرتے تھے۔ حتی کہ سخت دل دشمن، جیسے مروان بن حکم بھی ان کے مرثیوں کو سن کر رو پڑتا تھا۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کے مرثیے اور عزاداری کا سلسلہ ان کے وصال تک جاری رہا۔ ان کی محبت اور وفاداری نہ صرف امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہلِ بیت کے لیے ایک لازوال مثال ہے، بلکہ یہ مظلوموں کی حمایت اور حق کے لیے قیام کا درس بھی دیتی ہے۔
آپ کی وفات
بعض محققین کے مطابق حضرت ام البنین علیہا السلام کی وفات 13 جمادی الثانی 64 ہجری قمری کو ہوئی۔ زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ ان کی وفات طبیعی تھی اور کوئی خاص وجہ یا حادثہ اس کے پیچھے نہیں تھا۔ جبکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ام البنین علیہا السلام کی شہادت بنی امیہ کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ ان کے دلگداز مرثیے، جو کربلا کے مظالم کو آشکار کرتے اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے، ممکنہ طور پر ان کی موت کا سبب بنے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں زہر آلود شہد کے ذریعے شہید کیا گیا۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کو قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا، جہاں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعض قریبی رشتہ دار خواتین کے ساتھ آرام فرما رہی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی سے خواتین کی ملاقات
حضرت زہرا (س) مسلم خواتین کے لئے ابدی رول ماڈل ہیں، اسرائیل کا خاتمہ ہوگا، رہبر معظم
رہبر انقلاب اسلامی نے منگل کے روز ایران کے مختلف علاقوں سے آئی خواتین سے ملاقات میں کہا کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے بعض اتحادیوں کا یہ خیال کہ مزاحمت ختم ہو جائے گی سراسر غلط ہے، جو مٹے گا وہ اسرائیل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت اور یوم خواتین کے قومی دن کی مناسبت سے ایک تقریب میں خطاب کے دوران شام میں صیہونی حکومت کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت اس خیال خام میں ہے کہ وہ شام کے راستے حزب اللہ کو گھیرنے کی تیاری کر رہی ہے، لیکن جس کا قلع قمع کیا جائے گا وہ اسرائیل ہے۔
رہبر انقلاب نے مزاحمتی فرنٹ کے کمزور ہونے کے دشمنوں کے پروپگنڈوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے بعض اتحادیوں کا یہ خیال کہ مزاحمت ختم ہو جائے گی سراسر غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ سید حسن نصر اللہ اور سنوار کا جسد خاکی چلا گیا، لیکن ان کے خیالات باقی ہیں اور ان کا راستہ جاری ہے۔ غزہ پر آئے دن حملے ہو رہے ہیں اور لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ پھر بھی غزہ کے لوگ سر اٹھائے کھڑے ہيں اور استقامت کر رہے ہيں۔ لبنان میں استقامت جاری ہے۔
رہبر انقلاب نے کہا کہ سماجی تعلقات کے حساب سے مرد و خواتین کے لئے کچھ پابندیاں ہيں۔ یہ وہ خصوصیات ہيں جن پر اسلام نے توجہ دی ہے۔ آج مغرب میں جو بے بند و باری ہے وہ بھی ہمیشہ سے نہيں تھی، بلکہ یہ نئی صورت حال ہے، شاید دو یا تین صدی سے یہ سب ہے ورنہ ہم جب کچھ کتابیں پڑھتے ہيں ، اٹھارہویں صدی یا انیسویں صدی کے ناول اور کتابیں پڑھتے ہيں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ان میں بہت سے ایسے تحفظات تھے خواتین کے بارے میں جن کا آج مغرب میں نام و نشان نہيں ہے۔ اسلام نے ان تحفظات پر توجہ دی ہے، حجاب ، عفت، نظر، یہ سب وہ چیزيں ہيں جن پر اسلام نے توجہ دی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا کے ہر گوشہ میں ہر دھڑا ایک الگ جذبے کے تحت خواتین کے مسائل پر بات کرتا ہے۔ خواتین کے امور میں بھی دنیا کے سرمایہ کار ، سیاست داں ، جو خود سرمایہ کاروں کے سہارے ہوتے ہيں، وہ ، زندگی کے تمام امور کی طرح ، خواتین کے امور میں بھی مداخلت کرتے ہيں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: اس کے پیچھے جذبہ کیا ہے؟ اس کا مقصد سیاسی و استعماری مقصد کا حصول ہے۔ وہ اس طرح کے مسائل اس لئے اٹھاتے ہيں تاکہ زیادہ مداخلت، زیادہ لوٹ مار اور علاقے میں زیادہ اثر و رسوخ کا انہيں موقع ملے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ تقریبا ایک صدی قبل خواتین کی مالی خودمختاری اور آزادی کا معاملہ پیش کیا گيا۔ بظاہر اچھی چیز نظر آئی، خواتین مالی لحاظ سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوں، یا آزادی حاصل ہو یہ سب اچھی باتیں ہیں لیکن اس کے اندر کیا تھا ؟ اس کے اندر یہ تھا کہ ان کے کارخانوں کو مزدوروں کی ضرورت تھی، مرد مزدور کافی نہيں تھے، وہ خواتین کو بھی مزدوری کے لئے لانا چاہتے تھے لیکن مردوں سے کم مزدوری پر۔ اس مقصد کو انہوں نے ایک انسان دوستانہ اور خواتین کی مالی خود مختاری جیسے نعروں کے پیچھے پوشیدہ کیا تاکہ اس طرح سے خواتین کو گھر سے باہر لا سکیں۔
اسرائیل سے کوئی جھگڑا نہیں
شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون ہو جانے کے بعد برسراقتدار آنے والے گروہ ھیئت تحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع، جو ابو محمد الجولانی کے نام سے مشہور ہے، نے حال ہی میں انتہائی اہم بیان دیا ہے، جس میں اس نے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اس کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا، جب اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم شام پر 300 کے قریب فضائی حملے کرکے اپنے بقول شام کی 80 فیصد دفاعی صلاحیتوں کو نابود کرچکی تھی۔ مزید برآں، غاصب صیہونی فوج نے گولان ہائٹس سے شام کے اندر فوجی چڑھائی بھی شروع کر رکھی ہے اور اب اسرائیلی فوج شام کے دارالحکومت دمشق سے محض 20 کلومیٹر کے فاصلے پر کھڑی ہے۔ اسرائیلی فوج نے شام کے کئی دیہاتوں اور قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
دمشق پر قبضے کے بعد ابو محمد الجولانی نے اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "شام کسی نئی جنگ میں داخل نہیں ہوگا، کیونکہ شام کے شہری گذشتہ کئی سال کی جنگ سے تھک چکے ہیں۔ ہمارا ملک کسی نئی جنگ کے لیے تیار نہیں ہے۔" اس نے غاصب صیہونی رژیم کے وسیع فضائی حملوں کی جانب اشارہ کیے بغیر مزید کہا: "ہمیں اصل تشویش حزب اللہ لبنان اور اسد حکومت سے تھی۔ ان کا خاتمہ شام کے مسائل کا حل ہے۔ موجودہ صورتحال ہمیں ماضی کی جانب واپس پلٹنے کی اجازت نہیں دیتی۔" ھیئت تحریر الشام کی جانب سے یہ کمزور اور بزدلانہ موقف ایسے وقت سامنے آیا، جب اسرائیل شام کے 500 اسٹریٹجک اہمیت کے حامل مقامات پر بمباری کرچکا تھا۔ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت ختم ہو جانے اور شدت پسند گروہوں کے برسراقتدار آجانے نے خطے کی صورتحال بہت ہی پیچیدہ کر دی ہے۔
خطے کے بہت سے سیاسی تجزیہ کار اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ھیئت تحریر الشام (سابق النصرہ فرنٹ) درحقیقت داعش نامی سکے کا دوسرا رخ ہے۔ اب عوام کی جانب سے اس گروہ کے اقدامات پر ناراضگی کے اظہار اور بہت جلد عوام کا اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو محمد الجولانی کے چہرے سے نقاب اتر چکا ہے اور اس کے خوبصورت نعرے اور وعدے عوامی حمایت کا باعث نہیں بن سکتے۔ اگرچہ اس نے سر پر وہ پگڑیاں باندھنا چھوڑ دی ہیں، جو اہلسنت معاشروں میں رائج ہیں اور پینٹ کوٹ پہن کر خود کو لبرل ذہنیت کا حامل اور ماڈرن ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس نے جو وعدے کیے تھے، ان پر تاحال عمل پیرا نہیں ہوسکا۔ ھیئت تحریر الشام کا سربراہ ابو محمد الجولانی خود کو خطے کے نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
القاعدہ جیسے اقدامات کا تکرار
احمد الشرع یا ابو محمد الجولانی ماضی میں دہشت گرد گروہ القاعدہ کے شدت پسند عناصر میں شمار کیا جاتا تھا، لیکن اب وہ اپنا ظاہری حلیہ تبدیل کرکے خود کو روشن خیال ظاہر کر رہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شام میں کسی خاص گروہ یا قوم کو نشانہ نہیں بنائے گا، جبکہ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ الجولانی سے وابستہ مسلح عناصر نے شام کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر علویوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد 120 ہے اور ان میں القرداحہ، لاذقیہ اور طرطوس کے شہری شامل ہیں۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ گرفتار ہونے والے 50 افراد کے تمام اثاثے بھی ضبط کر لیے گئے ہیں۔ ان اقدامات نے ابو محمد الجولانی کے وہ تمام وعدے مشکوک بنا دیئے ہیں، جو اس نے برسراقتدار آنے سے پہلے کیے تھے۔
داعش سے وابستہ دہشتگردوں کی سرگرمیاں
شام میں عوامی ناراضگی کی ایک اور وجہ وہاں داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر کی موجودگی ہے۔ صدر بشار اسد کی حکومت ختم ہو جانے کے بعد شام میں داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ میڈیا ذرائع کے بقول شام کے صوبہ حمص کے مغربی اور مشرقی حصوں میں صرف چار دن میں داعش نے 100 شہریوں کو قتل کیا ہے۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر نے حمص کے مغرب اور مشرق میں چند دیہاتوں پر حملہ کیا اور ان 13 افراد کو گرفتار کر لیا، جو اپنے گھروں کی جانب جا رہے تھے اور انہیں سب کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا۔ ان تکفیری دہشت گردوں نے اپنے مجرمانہ اقدامات کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بھی شائع کی ہیں۔
دمشق میں مظاہرے
تازہ ترین رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ھیئت تحریر الشام کی جانب سے گرفتاریاں اتنے وسیع پیمانے پر انجام پا رہی ہیں کہ شام میں اس کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ مظاہرے دارالحکومت دمشق میں بھی منعقد ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں میں ھیئت تحریر الشام کی جانب سے گرفتار کیے جانے والے شہریوں کے اہلخانہ بھی شامل تھے۔ دوسری طرف دمشق کے عوام پر شدید دباو نیز دارالحکومت میں امن و امان کی ابتر صورتحال کے باعث بھی عوام میں ابو محمد الجولانی کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے عوام میں مسلح گروہوں کے خلاف شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ لہذا مسلسل وعدہ خلافیوں اور عوام کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کے باعث سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاران کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ھیئت تحریر الشام شدید چیلنجز اور مشکلات سے روبرو ہو جائے گا۔
تحریر: علی احمدی
شام کے واقعات امریکی و صیہونی مشترکہ منصوبے کا نتیجہ ہیں، رہبر انقلاب اسلامی
۔ آج صبح تہران میں رہبر معظمِ انقلاب، ولی امر مسلمین "سید علی خامنہ ای" سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملاقات کی۔ جن سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم نے کہا کہ شام میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ امریکہ اور صیہونی رژیم کے مشترکہ منصوبے کا نتیجہ ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ شام کا ایک ہمسایہ ملک اس منصوبے میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے اور کر رہا ہے۔ تاہم اس سازش اور منصوبے کا اصلی عنصر امریکہ و صیہونی رژیم ہیں۔ ہمارے پاس اس بات کے بہت سارے شواہد موجود ہیں، جنہیں دیکھنے کے بعد ساری صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت یا استقامتی محاذ کا مطلب یہ ہے کہ اس پر جتنا دباؤ ڈالا جائے گا، یہ اتنا ہی مضبوط ہوگا، جتنی جارحیت کا سامنا کرے گا، اتنا ہی پُرعزم ہوگا، جتنا آپ اس سے لڑیں گے، یہ اتنا ہی وسیع ہوگا۔ میں آپ سب سے کہتا ہوں کہ اللہ کی مدد سے مقاومت، ماضی کی نسبت جلد ہی سارے خطے میں پھیل جائے گی۔ مقاومت کے معنی سے بے خبر اور نادان دانشور سمجھتے ہیں کہ استقامتی فرنٹ کمزور ہوگیا ہے یا اسلامی جمہوریہ ایران کمزور ہو جائے گا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اللہ کی نصرت سے ایران طاقتور ہے اور مزید طاقتور ہوگا۔
ولی امر مسلمینِ جہاں نے کہا کہ شام میں جاری شورش میں شامل باغی گروہوں کے اپنے اپنے مقاصد ہیں۔ ان میں سے بعض، شمالی شام اور بعض جنوبی شام پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہی کے توسط سے امریکہ چاہتا ہے کہ خطے میں اپنے قدم جمائے، لیکن یہ وقت بتائے گا کہ ان شاء اللہ ان میں سے کوئی بھی فریق اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکے گا۔ شام کے مقبوضہ علاقے شام کے غیور نوجوانوں کے ہاتھوں ہی آزاد ہوں گے۔ آپ شک نہ کریں، یقیناً یہ امر وقوع پذیر ہوگا۔ امریکہ کو خطے میں جگہ نہیں ملے گی اور اللہ کی توفیق و مدد سے استقامتی محاذ ہی خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرے گا۔ رہبر معظم انقلاب نے شام میں فتنہ داعش کے خلاف ایران کی موجودگی کی وجوہات کو بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ داعش یعنی بدامنی کا بم۔ داعش چاہتی تھی کہ عراق، شام اور خطے کو ناامن کرے۔ ان کا اصلی اور آخری ہدف اسلامی جمہوریہ ایران تک پہنچنا تھا۔ لیکن ہم نے داعش کا مقابلہ کیا۔ عراق اور شام میں ہماری فورسز دو وجوہات کی بناء پر وہاں کی حکومتوں کی مدد کے لئے پہنچیں۔ پہلی وجہ مقدس مقامات اور اپنے آئمہ کے مزارات کا تحفظ تھا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ داعش دین، ایمان اور روحانیت سے عاری لوگوں کا ایک گروہ تھا۔
انہیں مقدس مقامات و مزارات سے دشمنی تھی۔ وہ ان مقامات کو برباد کرنا چاہتے تھے اور کسی حد تک کیا بھی۔ جیسا کہ ہم نے سامراء میں دیکھا کہ انہوں نے امریکہ کی مدد سے گنبد امامین عسکریین علیہما السلام کو شہید کر دیا۔ وہ یہی کام نجف، کربلا، کاظمین اور دمشق میں کرنا چاہتے تھے۔ پس اس منظرنامے میں کوئی غیور اور محب اہل بیت ع کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ دوسری وجہ سلامتی کا مسئلہ تھا۔ ہمارے اعلیٰ حکام بہت جلد سمجھ گئے تھے کہ اگر اس فتنے کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ ناسور تیزی کے ساتھ پھیل جائے گا۔ یہانتک کہ ہماری سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ فتنہ داعش کی بدامنی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "جو قوم اپنے گھر میں دشمن کے ساتھ نبردآزما ہو، وہ ذلیل و خوار ہو جائے گی، دشمن کو اپنے اندر گھسنے مت دو۔" لہٰذا ہماری فورسز، سینیئر عسکری ماہرین اور ہمارے پیارے شہید جنرل "قاسم سلیمانی" و ان کے ساتھی اس فتنے سے نبرد آزماء ہونے کے لئے پہلے عراق اور پھر شام پہنچے۔ انہوں نے عراق و شام میں نئے سرے سے فوج کو منظم کیا۔ انہیں اسلحہ دیا اور اس ملک کے اپنے جوانوں کو داعش کے خلاف کھڑا کر دیا۔ جنہوں نے داعش کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
استکباری عناصر شام کی موجودہ صورتحال پر خوشحال ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مقاومت کی طرف دار شامی حکومت کے خاتمے کے بعد استقامتی محاذ کمزور ہوگیا ہے۔ حالانکہ وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان حوادث سے استقامتی محاذ کمزور ہوا ہے، انہیں مقاومت اور استقامتی محاذ کا صحیح ادراک نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ حقیقی طور پر مقاومتی محاذ کیا ہے۔ مقاومتی محاذ کوئی ہارڈویئر نہیں کہ جو ٹوٹ جائے یا پانی میں ڈوب جائے یا نابود ہو جائے۔ مقاومت ایک ایمان ہے، تفکر ہے، قلبی اور قطعی ارادہ ہے، مقاومت ایک آئیڈیالوجی ہے، مقاومت ایک مذہبی نظریہ ہے۔ یہ ایمان نہ تو دباؤ کی وجہ سے کمزور ہوتا ہے بلکہ اس کے مقابلے میں اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ استقامتی محاذ سے وابستہ عناصر و افراد کا جذبہ دشمن کی خباثتوں کے نتیجے میں مزید مضبوط ہوتا ہے اور اس کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مقاومت یہ ہے کہ جب ہم دشمن کے گھناونے جرائم کو دیکھتے ہیں اور وہ افراد جو اس شک میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہمیں مزاحمت کرنی چاہیئے یا نہیں۔ تو وہ شک سے باہر نکلتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ ظالم و ستمگر کے مقابلے میں سینہ سپر کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ ہمیں دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہیئے، مزاحمت کرنی چاہیئے۔ یہی مقاومت کا اصلی مفہوم ہے۔
اگر آپ حزب اللہ لبنان کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ حزب اللہ کو جس بحران کا سامنا کرنا پڑا، کیا وہ ایک مذاق تھا!؟ کیا سید حسن نصراللہ جیسی شخصیت کھو دینا حزب اللہ کے لیے کم چیلنج تھا!؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے حملے، طاقت اور مضبوطی میں اضافہ ہوا ہے۔ نیز دشمن بھی اس بات کو سمجھتا ہے۔ دوسری جانب دشمن سوچتا تھا کہ انہوں نے اب سید حسن نصراللہ کو شہید کر دیا ہے تو وہ لبنان میں داخل ہوسکتا ہے، حزب اللہ کو پسپا کرسکتا ہے، حزب اللہ کو دریائے لیطانی تک پیچھے دھکیل دے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ حزب اللہ نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور یہاں تک کہ بات جنگ بندی تک پہنچ گئی۔ یہ مقاومت کا اثر ہے۔ جب ہم غزہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ غزہ میں صیہونی بمباری کو ایک سال اور چند مہینے ہوچکے ہیں۔ وہاں پر یحییٰ السنوار جیسی برجستہ شخصیات کو شہید کیا جا چکا ہے۔ انہیں نقصان پہنچایا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں کی عوام، دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے۔ دشمن سوچتا تھا کہ وہ غزہ کے عوام پر دباؤ ڈالے گا اور نتیجتاََ وہاں کی عوام حماس کے خلاف کھڑی ہو جائے گی۔ لیکن نتیجہ اس کے برخلاف آیا اور وہاں کی عوام پہلے کی نسبت زیادہ حماس کی طرف دار ہوگئی۔
شام کے مسائل کی اس تفصیل کے ساتھ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم ان چند سالوں میں شام میں موجود تھے یا نہیں۔؟ جس کا جواب ہے ہاں، سب جانتے ہیں اور دوسرا حرم کے دفاع کے طور پر ہماری موجودگی بھی اس بات کو ظاہر کرتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ہم نے شامی حکومت کی مدد کی۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم شامی حکومت کی مدد کریں، ایک نازک موڑ پر شام نے ہماری مدد کی تھی۔ جس کے بارے میں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ایران-عراق جنگ کے دوران جب ساری دنیا "صدام حسین" کی حمایت اور ہماری مخالفت میں اکٹھی ہوگئی اس وقت شامی حکومت حرکت میں آئی اور انہوں نے ہمارے مفاد اور صدام حسین کے خلاف ایک بہت بڑا قدم اٹھایا۔ وہ یہ کہ شام نے عراق سے یورپ کے لئے بحیرہ روم سے گزرنے والی پائپ لائن کو بند کر دیا۔ جس سے دنیا میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ حالانکہ شام خود بھی اپنی سرزمین سے گزرنے والی پائپ لائن کا کرایہ وصول کر رہا تھا۔ لیکن اس نے ہماری خاطر اپنے اقتصادی مفاد کو قربان کیا۔ تاہم ہم نے اس کا ازالہ بھی کیا۔ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران نے اس خدمت کا صلہ بھی دیا۔ پہلے انہوں نے ہماری مدد کی۔ بعد میں شہید جنرل قاسم سلیمانی نے شامی جوانوں کی فوجی تربیت کا اہتمام کیا۔ انہیں مسلح و منظم کیا اور دشمن سے مقابلے کے قابل کیا۔
رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ بد قسمتی سے شام کے بعض عسکری عہدے داروں نے مقاومت پر اعتراضات اٹھانے شروع کر دئیے۔ انہوں نے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں۔ جو چیز ان کے فائدے میں تھی اس سے بے اعتنائی برتنا شروع کر دی۔ جب داعش کا فتنہ ختم ہوا تو ہماری آدھی فورسز واپس آگئیں جبکہ کچھ ہمارا کچھ حصہ وہیں باقی رہا۔ اس وقت کی صورتحال میں بھی ہماری فورسز وہاں موجود تھیں۔ لیکن جس طرح کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اس ملک کی اصلی جنگ شام کی افواج کو لڑنا تھی۔ ہم تو ان کے اتحادی تھے۔ اگر وہاں کی فوج اپنی کمزوری دکھاتی ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے اور بدقسمتی سے یہی کچھ ہوا۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب مقابلہ کرنے کا جذبہ ماند پڑ جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو اس وقت شام میں ہو رہا ہے۔ اس وقت شام کو جس بحران کا سامنا ہے خدا ہی جانتا ہے کہ یہ کب تک جاری رہے گا۔ کب شام کے غیور جوانان انشاءاللہ میدان میں ائیں گے اور مزاحمت کریں گے۔ شام کے حالات اسی کمزوری کا نتیجہ ہے جس کا وہاں کی فورسز نے مظاہرہ کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ سب جان لیں کہ شام کی صورتحال ایسے ہی نہیں رہے گی۔ یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ ایک گروہ دمشق پر قبضہ کر لے پھر دوسری جگہوں پر جشن منائے، ناچے گائے، لوگوں کے گھروں اور عزتوں کو پامال کرے۔ اُدھر صیہونی رژیم بھی آئے روز شام پر بمباری کرتی پھرے، ٹینکاور توپ سے حملہ آور ہو۔ صورتحال ایسی نہیں رہے گی۔ یقیناََ ایک روز شام کے غیور نوجوان کھڑے ہوں گے، ثابت قدمی دکھائیں گے، قربانی پیش کریں گے اور چاہے انہیں اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑے لیکن بہرحال وہ کامیاب ہوں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے عراق کے غیور جوان کامیاب ہو چکے ہیں۔ عراق کے عظیم اور باشرف جوانوں نے شہید قاسم سلیمانی کی کمان میں دشمن کو اپنی گلیوں اور شاہراہوں سے نکال باہر کیا۔ اپنے گھروں سے بے دخل کیا۔ اگر عراقی جوان ایسا نہ کرتے تو یقیناََ امریکہ بھی عراق میں وہی کچھ کرتا جو شام میں صیہونی اور باغی گروہ انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہار جیت انسانی زندگی کا حصہ ہے۔ استقامتی محاذ نہ تو جیت سے مغرور ہوتا ہے اور نہ ہی شکست سے مایوس۔
شام سے سب سے آخر میں انخلاء کرنے والے سپاہ پاسداران انقلاب کے اہلکار تھے، جنرل سلامی
جنرل حسین سلامی نے کہا کہ کچھ لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم شامی فوج کے بجائے جنگ کریں۔ کیا یہ معقول ہے کہ ہم تمام آئی آر جی سی اور رضاکار فورس کو دوسرے ملک کی جنگ میں مصروف کر دیں، جب کہ اس ملک کی فوج تماشائی بنی ہو؟
انہوں نے کہا کہ ایران حقیقت میں زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب ہمیں شام کے حقائق کو قبول کرنا ہے۔ ہم حقائق کو دیکھتے ہیں اور حقائق کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔
جنرل سلامی نے کہا کہ حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل تبدیل ہوتی ہے۔ ہم ہمیشہ ایک ہی حکمت عملی سے دنیا کے بہت سے مسائل کو حل نہيں کر سکتے۔
جنرل سلامی نے مزید کہا: ہم مہینوں پہلے سے (مسلح گروہوں اور تکفیریوں کی نقل و حرکت سے) باخبر تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے ساتھیوں نے خفیہ حربوں کے ذریعے یہ بھی پتہ لگانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی کہ حملے کہاں کہاں سے ہونے والے ہيں اور یہ سب ہم نے شام کے سیاسی و فوجی حلقوں تک منتقل بھی کیا لیکن چونکہ وہاں عزم و ارادہ ، جنگ و مزاحمت کا جذبہ ہی نہيں تھا اس لئے وہ سب کچھ ہوا جس کا آپ لوگوں نے مشاہدہ کیا۔
جنرل سلامی نے کہا کہ تکفیری تنظیمیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ کے خلاف مغربی حربہ تھا۔ تکفیری نظریات کے خلاف جنگ ، ایک عظیم خدمت تھی جو اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام نے پوری انسانیت کے لئے انجام دی ہے۔
پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر نے کہا : 13 سال کے اس عرصے کے دوران ہم نے کوشش کی کہ حزب اللہ لبنان اور فلسطینی تحریکوں کا ہم پر لاجسٹک حمایت اور جغرافیائی رابطہ کی نظر سے انحصار زیادہ سے زیادہ کم ہو جائے اور وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائيں۔
عراقی مجلس اعلیٰ اسلامی کے صدر: ہم شام کے امن، استحکام، عوامی اتحاد اور فلسطین کی حمایت میں اس کے مؤثر کردار کے خواہاں ہیں
حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، عراقی مجلس اعلیٰ اسلامی کے صدر شیخ ہمام حمودی نے شام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: شام عراق کے لیے پھیپھڑوں کی طرح ہے اور خطے کی نبض کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک اس میں استحکام نہ آئے گا اس کے معاملات حل نہیں ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ ہم وہاں کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات پر ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ہم شام کے امن، استحکام، عوامی اتحاد، اور عرب اور اسلامی دنیا خصوصاً فلسطین کی حمایت میں اس کے مؤثر کردار کے خواہاں ہیں۔
شیخ حمودی نے کہا: ہم امید کرتے ہیں کہ شام میں سیاسی نظام کی تبدیلی ایک با شعور جمہوری تبدیلی کے لیے اہم موڑ ہوگی، جو شام اور اس کے عوام کی وحدت اور مقام کو تمام عناصر کے ساتھ محفوظ رکھے گی اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے بین الاقوامی نگرانی میں حکومت میں مساوی شراکت داری کو یقینی بنائے گی۔
صیہونی میڈیا: تل ابیب کا " تحریر الشام گروہ " سے براہ راست رابطہ ہے
ارنا کے مطابق صیہونی نیوز سائٹ واللا نے اتوار کو لکھا ہے کہ صیہونی حکومت شام میں موجود مختلف مسلح گروہوں منجملہ تحریر الشام سے براہ راست رابطے میں ہے۔
اس صیہونی نیوز سائٹ نے لکھا ہے کہ اسرائیل اس مرحلے میں چاہتا ہے کہ مسلح افراد سرحد( شام اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد) کے قریب نہ جائيں۔
صیہونی ذرائع ابلاغ نے اسی کے ساتھ خبر دی ہے کہ صیہونی فوج کی گوریلا اور چـھاتہ بردار بریگیڈ 98 کو شام کی سرحدوں پر بلالیا گیا ہے۔
اس سے پہلے صیہونی میڈیا ذرائع نے رپورٹ دی تھی کہ اتوار کی صبح اسرائيلی فوج کے ٹینک مقبوضہ جولان کا سرحدی حصار عبور کرکے شام کی سرحد کے اندر داخل ہوگئے ہیں
فاطمه رسول خدا(ص) کے لیے جاویدانی کوثر
حضرت فاطمہ، حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ مشہور روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺ کے چار بیٹیاں اور تین بیٹے تھے، جن میں سے چھ بچے حضرت خدیجہؓ کے بطن سے اور ایک بیٹا ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ان کے نام قاسم، عبداللہ، ابراہیم، رقیہ، زینب، ام کلثوم اور فاطمہؓ تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں تمام بچے، سوائے حضرت فاطمہؓ کے، وفات پا گئے۔ رسول اللہ ﷺ کی نسل صرف حضرت فاطمہؓ کے ذریعے آگے بڑھی۔
آیت مبارکہ "إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ" (الکوثر:1) کے بارے میں مختلف اقوال موجود ہیں۔ بعض شواہد، خاص طور پر آیت "إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ" (الکوثر:3) جو کہتی ہے کہ "یقیناً تمہارا دشمن ہی بے نسل اور خیر و برکت سے محروم ہے"، اس بات کی دلیل دیتے ہیں کہ "کوثر" سے مراد رسول اللہ ﷺ کی نسل یعنی حضرت فاطمہؓ کی اولاد ہے۔
حضرت فاطمہؓ کی ولادت کی تاریخ کے بارے میں سیرت نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہل سنت کی اکثر کتب، جیسے ابن سعد کی "طبقات الکبریٰ" اور ابن حجر عسقلانی کی "الاصابہ", میں ان کی ولادت کو بعثت سے پانچ سال قبل، اس وقت ذکر کیا گیا ہے جب قریش خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تاہم، شیعہ روایات میں ان کی ولادت بعثت کے پانچ سال بعد بیان کی گئی ہے۔
لفظ "فاطمہ" ایک وصفی نام ہے اور یہ عربی مصدر "فطم" سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے کاٹ دینا یا جدا کرنا۔ ابن حجر ہیتمی نے "الصواعق المحرقہ" اور نسائی نے "سنن" میں ذکر کیا ہے کہ اللہ نے انہیں فاطمہ اس لیے نام دیا کیونکہ وہ اور ان کے چاہنے والے جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے۔ فتّال نیشاپوری نے "روضۃ الواعظین" میں امام جعفر صادقؓ سے نقل کیا ہے کہ "فاطمہ اس لیے نام رکھا گیا کیونکہ وہ برائیوں سے پاک تھیں۔" ان کے دیگر القاب میں "صدیقہ"، "مبارکہ"، "طاہرہ"، "زکیہ"، "راضیہ"، "مرضیہ"، "محدثہ"، "بتول" اور "زہرا" شامل ہیں۔ ان کا ایک مشہور لقب "ام ابیها" (اپنے والد کی ماں) ہے، جو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے رکھا۔ یہ لقب اس لیے دیا گیا کیونکہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد، حضرت فاطمہؓ کم عمری کے باوجود اپنے والد کی دلجوئی اور تیمارداری میں پیش پیش رہتیں۔
حضرت فاطمہؓ کے بچپن اور نوجوانی کی زندگی کے بارے میں تاریخی روایات کم ہیں۔ تاہم، یہ ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے علانیہ ہونے کے بعد، حضرت فاطمہؓ بعض مواقع پر اپنے والد پر مشرکین کے مظالم کی چشم دید گواہ تھیں۔ ان کا بچپن کے تین سال شعب ابی طالب میں قریش کی جانب سے بنی ہاشم پر اقتصادی اور سماجی پابندیوں کے تحت گزرے۔ اس دوران انہوں نے اپنی والدہ حضرت خدیجہؓ کو بھی کھو دیا۔ قریش کے نبی اکرم ﷺ کو قتل کرنے کے منصوبے، رسول اللہ ﷺ کا مکہ سے مدینہ ہجرت کرنا، اور حضرت فاطمہؓ کا حضرت علیؓ اور دیگر خواتین کے ساتھ مدینہ کی جانب ہجرت کرنا، ان کے بچپن کے اہم واقعات میں شامل ہیں۔