سلیمانی

سلیمانی

ایران کے وزیر خزانہ سید علی مدنی زادہ نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے دورہ چین کے دوران مختلف اقتصادی شعبوں میں اہم سمجھوتوں پر دستخط کیے گئے۔

انہوں نے صدر کے دورہ چین کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور تہران اور بیجنگ نے اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا۔

علی مدنی زادہ کا کہنا تھا کہ ایران اور چین کے درمیان طے پانے والے سمجھوتوں کا جائزہ لینے اور انہیں حتمی شکل دینے کے لیے خصوصی ورکنگ گروپ قائم  کیے گئے ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ ایران اور چین کا ایک مشترکہ ورکنگ گروپ ان سجھوتوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گا۔

 ایران کے وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اقتصادی سفارت کاری کو مضبوط بنانے اور علاقائی تعاون کو بڑھانے کی غرض سے انجام پانے والے اس دورے نے شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ بھی ایران کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔

سلامی جمہوریہ ایران کی موجودہ ملی وفاق کی حکومت کا پہلا سال سیکورٹی بحران، پابندیوں کے دباؤ اور تیز رفتاری علاقائی تغیرات کا سال تھا مگر اس کی کثیر جہتی فعال سفارتکاری، جارحیتوں کے خلاف عالمی اجماع وجود میں لانے میں کامیاب رہی۔ اس حکومت نے گزشتہ ایک برس میں،معیشت اور پڑوسیوں کے تعلق سے بھی موثر اقدامات انجام دیئے اور اپنی سفارتی توانائیوں سے بھرپور استفادہ کرکے، دنیا کے سامنے ایران کی ایک نئی شبیہ پیش کرنے میں کامیاب رہی۔

  •  م

 المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد حجت الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے حوزہ نیوز کے نمائندے کو ”قرآن مجید میں امت کے اتحاد کی اہمیت اور ضرورت“ کے موضوع پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید مسلمانوں کو خیر امت سے یاد کرتا ہے جو معاشرہ سازی اور انسان سازی کے لیے خلق ہوئے ہیں؛ جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے:"كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّه. (سورہ آل عمران، آیت 110) امت کا الله تعالٰی پر ایمان کے بعد خودسازی امت کی اصل اور بنیاد ہے۔ امت کا دوسرا اہم کام، دوسروں کو نیک بنانا اور برائی سے روکنا ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے ہمیں خیر امت سے یاد کیا ہے، کیونکہ ہمارا کام، دوسروں کو اچھائی اور برائی، نیک و بد سمجھانا ہے اس لیے ہم خیر امت کہلائیں۔

وحدت فطری عمل ہے اور فکری اور عملی اختلاف، فطرت سے بغاوت ہے

انہوں نے امت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امت، یعنی جن کا رہبر ایک ہو، جن کا ہدف ایک ہو اور ایک ہی امام کے پیچھے چلنے والے ہوں تو ان کو اس مقدس عنوان ”امت“ سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے ہم وحدت پر ہی خلق ہوئے ہیں فکری اختلاف اور عملی اختلاف، فطرت انسانی سے بغاوت ہے؛ اگر اختلاف کریں گے تو خیر امت کی منزلت سے گر جائیں گے جب اس مرتبے سے گر جائیں گے تو پھر خودسازی و جہاں سازی کے عمل میں سست پڑ جائیں گے۔

ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ اختلاف انسان کو اپنے آپ سے الجھاتا ہے اور اسی طرح دوسروں سے بھی الجھاتا ہے؛ یوں ایسا انسان تخلیق کے مقصد سے پیچھے رہ جاتا ہے جو کہ توحید پرستی کے ساتھ معاشره سازی کا عمل ہے۔

انہوں نے اتحاد و وحدت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایمان کفر سے بدل جائے؛ نیکی برائی سے اور برائی نیکی سے تو یہاں سے معاشرہ تنزلی کی جانب بڑھ جاتا ہے، ایسے میں کمال طلبی کا عمل رک جائے گا؛ اسی لیے قرآن اختلاف سے بچنے کے لیے وحدت کا فارمولہ پیش کرتا ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ. (آل عمران، آیت 103)

المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد نے امت سازی کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امت سازی کے نتیجے میں ہم دنیا پر حکومت کر سکتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ یہ عمل رک جائے تو ہماری نسلیں بھی برباد ہو جائیں گی؛ اسی لیے اللہ حبل اللہ سے مضبوط رابطہ کی سفارش کر رہا ہے اور باقاعدہ طور پر مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ ایک مرکز سے جڑے رہے اور وہ مرکز حبل اللہ ہے۔ قرآن مسلمانوں کو تفرقہ بازی اور اختلاف سے روک رہا ہے، کیونکہ اختلاف سے امت ٹوٹ جاتی ہے اور اغیار کا غلبہ ہوتا ہے۔

شیخ محمد یعقوب بشوی نے اتحاد و وحدت کی شرائط بیان کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد کے لیے بنیادی شرائط، دلوں کا آپس میں مل جانا ہے، دلوں میں محبت کا پیدا ہونا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ملنا ہے، ایک دوسرے سے دلی ہمدردی ہے اور یہ کام بھی خدائی ہے: فالف بین قلوبکم... دلوں کی الفت، الله تعالٰی کی نعمتوں میں سے ہے۔ جب دل میں الفت پیدا ہوگی تو عمل میں بھی اختلاف نہیں ہوگا اور اس طرح عداوت، الفت میں بدل جائے گی، معاشرے میں اخوت کا بول بالا ہوگا اور اخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ قرآن کہتا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ... (سورہ حجرات، آیت 10) سگے بھائیوں کی طرح برادرانِ ایمانی کا رشتہ بھی مقدس ہے؛ خونی رشتے ٹوٹ سکتے ہیں، لیکن ایمانی رشتہ نہیں ٹوٹے گا۔ اختلاف، وہ نامطلوب عنصر ہے جو ایمانی رشتے کو پارہ کر سکتا ہے اور انسان کو حکم خدا کا باغی بنادے گا اور مسلمانوں کی اجتماعی شوکت ختم ہوجائے گی۔ قرآن نے کہا: وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَع الصَّابِرِينَ. (سورہ أنفال، آیت 46)

ڈاکٹر بشوی نے اختلاف کے نقصانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اختلاف کا سب سے بڑا نقصان، الله تعالٰی سے رشتہ ٹوٹ جانا ہے، خدا کی اطاعت سے باہر نکلنا ہے جو بندہ اللہ تعالٰی کی اطاعت نہیں کرتا وہ خود بخود شیطان کی اطاعت میں چلا جائے گا۔ اختلاف کا اجتماعی نقصان، اجتماعی سوچ اور عمل کا مفلوج ہوجانا ہے؛ اس کے نتیجے میں ایسا معاشرہ کوئی بڑا قدم اٹھانے سے عاجز رہے گا، ہر میدان میں شکست سے دوچار ہوگا، اجتماعی ناامیدی پیدا ہوگی، ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے دوسروں کی طرف دیکھے گا اور حسد، کینہ، پست سوچ اور سست ارادہ ایسے معاشرے کی عام عادت ہوگی۔ قرآن کریم نے انتہائی جامع انداز میں تذھب ریحکم... استعمال کیا ہے، تاکہ مردہ ضمیر، مردہ ارادے اور مردہ قوم جاگ جائے۔

انہوں نے اختلافات سے دوری اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اختلاف سے بچنے کے لیے صبر ایک بہت بڑا ہتھیار ہے، اسی لیے اللہ تعالٰی صبر اور برداشت کی تلقین فرماتا ہے اور ساتھ ساتھ صبر کا پھل اور اس کا فائدہ بھی بیان فرما رہا ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی عنایت اور اس کی معیت اور سرپرستی ہے، لہٰذا ہمیں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ختم کر کے وحدت کی فضاء کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ امت دوبارہ خیر امت کی مصداق بن سکے۔

ہفتہ وحدت اور جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مناسبت سے بہار کی راجدھانی عظیم آباد پٹنہ میں شب 12 ربیع الاول کو قدیمی جلوسِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ نکالا گیا۔ اس جلوس میں معروف عالم دین مولانا مراد رضا رضوی کی موجودگی نے اتحاد بین المسلمین کی فضا کو مزید تقویت بخشی۔

اتحاد بین المسلمین وقت کی اتنی ہی اہم ضرورت ہے جتنی جسم میں خون کی روانی، مولانا مراد رضا رضوی

اس موقع پر نوجوانوں کے سینوں پر ’’فری فلسطین‘‘ کے اسٹیکر بھی نمایاں طور پر دکھائی دیے جو مسلمانوں کی یکجہتی اور مظلوموں کی حمایت کی علامت تھے۔

رپورٹ کے مطابق مولانا مراد رضا جلوس میں شریک ہوئے اور تقریباً تین گھنٹے تک آنے والے مختلف قافلوں کا پرجوش استقبال کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے شرکاء کو ہار پہنائے، معطر کیا اور شیرینی تقسیم کر کے سب کو اپنے قریب لگایا۔

اتحاد بین المسلمین وقت کی اتنی ہی اہم ضرورت ہے جتنی جسم میں خون کی روانی، مولانا مراد رضا رضوی

اس موقع پر مولانا مراد رضا رضوی نے اپنے خطاب میں کہا: اتحاد بین المسلمین وقت کی اتنی ہی اہم ضرورت ہے جتنی کہ جسم میں خون کی روانی۔ آج دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو فرقہ واریت اور انتشار کے ذریعہ کمزور کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے سبق لینا ہوگا۔ جس طرح رسول خدا (ص) نے مدینہ میں اخوت و برادری کی بنیاد رکھی تھی، اسی طرح آج بھی ہمیں باہمی اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کا سہارا بننا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا: یہ وقت مسلمانوں کے درمیان نفرتیں ختم کرنے اور اخوت و محبت کے رشتے کو مضبوط کرنے کا ہے۔ اگر ہم ایک امت بن کر کھڑے ہو جائیں تو نہ کوئی طاقت ہمیں کمزور کرسکتی ہے اور نہ ہی فلسطین و دیگر مظلومین پر ہونے والے مظالم باقی رہیں گے۔

اتحاد بین المسلمین وقت کی اتنی ہی اہم ضرورت ہے جتنی جسم میں خون کی روانی، مولانا مراد رضا رضوی

واضح رہے کہ اس قدیمی جلوس میں دو سو سے زیادہ قافلے شریک ہوئے جو آخرکار علاقے کے منگل تالاب میں موجود تاریخی خانقاہ پر اختتام پذیر ہوئے۔ اس پروگرام کا اہتمام شہر کی قدیم تنظیم ’’انجمن پیغام کربلا‘‘ کی جانب سے کیا گیا تھا۔

Friday, 29 August 2025 10:13

جنگل کا قانون

"اس دنیا میں ہم کس سے قتل عام کی مذمت کرنے کے لیے مدد مانگیں؟! جس طرح چاہو اس کی مذمت کرو، اس کی کیا قیمت اور کیا فائدہ ہے۔۔۔۔ مذبح خانے (slaughter house) میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی مذمت کرنے کا کیا نتیجہ؟! مذمت کرنے سے بارود کی طاقت کم نہیں ہوتی۔۔۔۔"، یہ اشعار اس ترانے کا حصے ہیں، جسے مصری گلوکار "امیر عید" نے غزا کے ایک تہوار میں صیہونی حکومت کی جنگی مشینری کے قتل عام کے تناظر میں ایک تقریب میں پیش کیا ہے۔ اسی ترانے کے ایک اور حصے میں، وہ مخصوص انداز میں شعر پڑھتا ہے اور کہتا ہے "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ دنیا کیا کہتی ہے، آزادی سے مرو اور ذلت میں نہ جیو اور نسل در نسل متاثر کرتے رہو اور انہیں آئندہ آنے والی نسلوں کو پیغام دو کہ شکست نہیں ماننی۔

اور اس مقصد (فلسطین) کے لیے کیسے جینا اور مرنا ہے۔۔۔۔"، 41 سالہ مصری گلوکار کوئی سیاسی شخصیت نہیں، لیکن اس نے ثقافتی اور فنکارانہ انداز میں بین الاقوامی نظام کو درست سمجھا ہے۔ اس نے اسرائیلی حکومت اور عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کی ماہیت و کارکردگی کا صحیح ادراک کیا ہے۔ اس کا یہ ادراک درست ہے کہ دنیا اور اس پر حکمرانی کرنے والے موجودہ نظام ایک جنگل سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر آپ کے پاس طاقت نہیں ہے تو آپ کو انسان نما بھیڑیوں کے ذریعے چیر پھاڑ کر ختم کر دیا جائے گا۔ ایسے منظر میں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوسرے انسان بھیڑیوں کے ہاتھوں چیر پھاڑ کے اس عمل کی مذمت کرتے ہیں یا نہیں۔

مغرب اور امریکہ کے سائے میں صیہونیت نے غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک مختلف طریقوں سے تقریباً 60,000 لوگوں کی جانیں لی ہیں۔ توپوں، ٹینکوں، ہتھیاروں، فاقہ کشی اور مسلط کردہ قحط سے لے کر لائیو ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے امدادی کارکنوں اور صحافیوں پر حملوں تک کی کارروائی کسی سے پوشیدہ نہیں. یورپیوں نے ان ہلاکتوں کی مذمت کی، امریکیوں نے اسرائیل سے حملوں کی تیز رفتاری کو کم کرنے کا مطالبہ کیا، ان تمام مذمتوں اور پابندیوں کے درمیان صہیونی فوج کی قتل عام کرنے والی مشین مسلسل چل رہی ہے اور کی سپلائی چین اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔ سپلائی چین بھی مذمت کرنے والے انہی ممالک کے صنعتی اور ہتھیاروں کے بطن سے وابستہ ہے۔

بعض اسرائیل کی شدید مذمت کرتے ہیں یا اسے روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے کوسوں دور ہیں۔ ان میں بعض کی انسانی اور انسانیت کی رگوں میں ہلچل پیدا ہوتی ہے تو وہ صیہونیوں کی رضامندی کے ساتھ  فضا سے خوراک کی چند کھیپیں غزہ کے بھوکے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ کیا یہ ممکن ہے کہ 1.9 ملین لوگوں کی ضروریات کو چند ٹرانسپورٹ پروازوں کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ میڈیا کے سامنے محض ایک یادگار تصویر کے لیے یہ اقدام کارآمد ہوسکتا ہے، ورنہ حقائق سے انسان کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ ایسے جنگل میں انسان کے لئے صرف مضبوط ہونا لازم ہے، شیطان کے سر کو کچلنا ضروری ہے۔ قاتل کے پرو بازو کو کاٹنا وقت کا تقاضا ہے۔ زندگی اور بقا کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے حملہ آور کو لگاتار زخم لگانا اہم ہے۔

زخم کے بعد زخم، اس حکمت عملی کا ایک مصداق وہی اقدام ہے، جو اس وقت یمنی مسلمان بھائی انجام رہے ہیں۔ مشہور مصری گلوکار نے ایک فیسٹیول کے اسٹیج پر بالکل صحیح گایا ہے۔ جو چاہو مذمت کرو؛ مذبح خانے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی مذمت کرنے کی کیا قیمت اور کیا حیثیت ہے۔؟! مذمتوں سے بارود کی طاقت کم نہیں ہوتی۔" تاہم اب یمن کے آزاد مسلمان اس منطق کو جنگل کے قوانین کے ساتھ دنیا کے اسٹیج پر پرفارم کر رہے ہیں۔ صہیونیت کے پیکر پر ایک کے بعد ایک زخم لگانا ضروری ہے۔ صیہونیت کی جنگی مشینری کو ایک کے بعد ایک دھچکا اور کاری ضرب لگانا وقت کی پکار ہے۔ زبانی کلامی مذمت کافی نہیں، طاقت اور بھرپور جوابی کارروائی ہی دشمن کی بارود کی طاقت کو کم کرسکتی ہے۔

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کے نہتے عوام کے خلاف مجرمانہ اقدامات جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر فلسطینی رپورٹرز اور کیمرہ مینوں کو براہ راست جارحیت کا نشانہ بنایا ہے۔ خان یونس شہر میں واقع ناصر اسپتال پر صیہونی بمباری میں پانچ فلسطینی رپورٹرز شہید ہو گئے ہیں اور یوں غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک شہید ہونے والے صحافیوں کی کل تعداد 244 تک جا پہنچی ہے۔ الجزیرہ چینل کے رپورٹر نے بریکنگ نیوز کا اعلان کرتے ہوئے کہا: "الجزیرہ نیوز چینل کا کیمرہ مین محمد سلامہ، فلسطینی کیمرہ مین حسام المصری، رپورٹر مریم ابودقہ اور معاذ ابوطہ ناصر اسپتال پر اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئے ہیں۔ اس حملے میں کچھ دیگر صحافی زخمی بھی ہوئے ہیں۔" الجزیرہ نے اسی طرح اعلان کیا کہ اب تک ناصر اسپتال پر حملے میں 20 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں پانچ صحافی بھی شامل ہیں۔
 
اس بارے میں فلسطینی حکومت کے دفتر نشریات نے بھی اپنے بیانیے میں کہا ہے کہ ناصر اسپتال پر حملے میں پانچ صحافیوں کی شہادت کے بعد اب تک شہید صحافیوں کی تعداد 244 ہو چکی ہے۔ اس بیانیے میں غاصب صیہونی رژیم، امریکی حکومت اور برطانیہ، جرمنی اور فرانس سمیت کچھ یورپی ممالک کو بھی اس وحشیانہ اور انسان سوز جرم میں صیہونی رژیم کا شریک قرار دیا گیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ صیہونی رژیم نے صحافیوں کی ٹیم کو براہ راست حملے کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے 11 اگست کے دن بھی صیہونی فوج نے صحافیوں کے کیمپ کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا۔ یہ کیمپ غزہ شہر میں شفا میڈیکل کمپلکس کے مین گیٹ کے سامنے نصب کیا گیا تھا۔ اس حملے میں 6 فلسطینی صحافی شہید ہو گئے تھے۔ غزہ میں صیہونی رژیم کی جانب سے صحافیوں کو براہ راست نشانہ بنانے پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
 
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے غزہ میں صحافیوں کے قتل عام کو "بین الاقوامی انسان پسندانہ قوانین کی واضح خلاف ورزی" قرار دیا اور تاکید کی کہ اسرائیل صحافیوں سمیت تمام عام شہریوں کا احترام کرے اور انہیں نقصان پہنچانے سے باز رہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ ہم غزہ تک تمام صحافیوں کی فوری اور محفوظ رسائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر آئرین خان نے آزادی اظہار کے بارے میں بیانیہ جاری کرتے ہوئے کہا: "صیہونی فوج حقیقت کو نابود کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ ہر گز اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو گی۔" فلسطینی ذرائع ابلاغ کی انجمن کے سربراہ محمد یاسین نے غزہ میں صحافیوں کو درپیش شدید مشکل حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "غاصب صیہونی صحافیوں کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت جارحانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
 
انہوں نے مزید کہا: "صیہونی حکمران چاہتے ہیں کہ حقیقت کی آواز بند ہو جائے اور عام شہریوں کے خلاف ان کے مجرمانہ اقدامات پوشیدہ رہ جائیں۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ صحافی ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے افراد کے حقیقی گواہ اور آواز ہیں لہذا ان کی ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں۔" محمد یاسین نے کہا: "صحافی بہت ہی سخت اور مشکل حالات میں اور کسی قسم کی حمایت کے بغیر غزہ میں فعالیت انجام دے رہے ہیں۔ بجلی اور انٹرنیٹ نہ ہونے، اپنے دسیوں دوست صحافیوں کی شہادت اور اپنا گھر مسمار اور اہلخانہ شہید ہو جانے کے باوجود وہ اپنی فعالیت جاری رکھے ہوئے ہیں اور عوام کی آواز دنیا والوں تک پہنچا رہے ہیں۔" فلسطین میڈیا انجمن کے سربراہ نے صیہونی رژیم کی جانب سے غیر ملکی صحافیوں کو غزہ داخلے سے روکنے کے بارے میں کہا: "یہ اقدام واضح طور پر غزہ کا میڈیا بائیکاٹ کرنے اور اپنے جرائم چھپانے کی غرض سے انجام پا رہا ہے۔"
 
انہوں نے کہا: "بین الاقوامی آزاد صحافیوں کی غزہ میں موجودگی صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کو آواز اور تصاویر کے ذریعے فاش کر سکتی ہے اور یہ وہی چیز ہے جسے اسرائیل روک رہا ہے۔" انہوں نے آخر میں عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داری پر عمل کریں اور صحافیوں پر حملے روکنے اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے غزہ می فوری داخلے کے لیے غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالیں۔ غزہ میں فلسطین کی وزارت صحت نے بھی اپنے بیانیے میں صیہونی رژیم کی جانب سے ناصر اسپتال کو فضائی حملوں کا نشانہ بنائے جانے کی شدید مذمت کی اور اسے جنوبی غزہ میں واحد فعال اسپتال کے خلاف ہولناک جرم قرار دیا ہے۔ اس وزارت کے بیانیے میں کہا گیا ہے: "یہ حملہ صحت کے نظام کی نابودی اور سسٹمٹک نسل کشی کا تسلسل ہے اور تمام انسانی اقدار اور عدالت چاہنے والوں کی بے حرمتی ہے۔"
 
فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے بھی اس بزدلانہ حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا: "صیہونی فوج نے ناصر اسپتال پر بمباری کر کے 20 افراد کو شہید کر دیا جن میں صحافی اور امدادی کارکن بھی تھے۔ جرائم پیشہ نازی رژیم نے غزہ کے تمام علاقوں میں جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور عام بے گناہ شہریوں کا وسیع قتل عام کر رہی ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کی دہشت گرد کابینہ نے ایک بار پھر جان بوجھ کر تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسپتال پر حملہ کیا ہے اور حسام المصری، محمد سلامہ، مریم ابودقہ اور معاذ ابوطہ نامی صحافیوں کو شہید کر دیا ہے۔ یہ افراد عرب اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے لیے کام کر رہے تھے۔ ان پر حملہ ایک جنگی جرم ہے جس کا مقصد غزہ کے حقائق پر پردہ ڈالنا ہے۔ عالمی برادری اور بین الاقوامی تنظیمیں صیہونی جنگی جرائم روکنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات انجام دیں۔"

تحریر: علی احمدی

حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی سازش عروج پر ہے اور لبنان اس وقت فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ لبنان حکومت نے امریکہ کی جانب سے "ایک ملک، ایک فوج" نامی منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سازش کی کڑیاں بیرونی طاقتوں سے جا ملتی ہیں۔ اس سازش کے تین اہم کھلاڑی امریکہ، فرانس اور اسرائیل ہیں۔ امریکہ لبنان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے، لبنان آرمی کو فراہم کی جانے والی فوجی امداد کو مشروط کر کے اور بین الاقوامی اداروں میں لابی گری کے ذریعے لبنان حکومت پر دباو کا بانی ہے جبکہ فرانس لبنان سے اپنے تاریخی تعلقات اور ثالثی کے کردار کے بل بوتے پر حزب اللہ کی فوجی طاقت محدود کرنے اور مشرقی مڈیٹرینین میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے درپے ہے۔ اور آخرکار اسرائیل جس ہے جو حزب اللہ لبنان کے غیر مسلح ہونے کو اپنی شمالی سرحدوں کی سلامتی اور خطے پر کنٹرول قائم کرنے کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
 
ان تین اصلی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور کچھ عرب ممالک بھی اس سازش میں ان کی مالی، سیاسی اور عملی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ بظاہر اس دباو کا مقصد لبنان میں مرکزی حکومت کو مضبوط بنانا اور اسلحہ صرف لبنان آرمی تک محدود کر دینا بیان کیا جا رہا ہے لیکن اصل مقصد ایک زیادہ بڑے منصوبے کے ذیل میں آتا ہے جو خطے کا سیکورٹی نظام، مغربی عبری عربی محاذ کی مرضی سے تشکیل دینے پر مبنی ہے۔ اس منصوبے کے تحت لبنان کو ایک ایسے شکست خوردہ اور کمزور ملک میں تبدیل کر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اپنی خودمختاری کی حفاظت نہ کر سکتا ہو اور اسرائیل کے خلاف ڈیٹرنس پاور سے بھی عاری ہو۔ جب یہ امریکی صیہونی منصوبہ لبنان کی کابینہ میں پیش کیا گیا تو حزب اللہ لبنان اور اس کی اتحادی جماعتوں کے وزراء نے واک آوٹ کیا اور امریکہ اور اسرائیل کے دباو کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔
 
امریکہ، سازش کا بانی
اپریل 2025ء میں امریکہ نے مشرق وسطی میں اپنے خصوصی نمائندے میگن اورٹیگاس کو بیروت بھیجا تاکہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے لبنان حکومت پر دباو بڑھایا جا سکے۔ اورٹاگوس نے لبنانی حکام سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ کے پاس موجود تمام اسلحہ لبنان آرمی کے حوالے کر دینا چاہیے اور ساتھ ہی اس نے اس عمل میں تیزی لانے کی وارننگ بھی دی۔ اس کے اس شدت پسندانہ اور مداخلت آمیز موقف پر لبنان میں شدید ردعمل سامنے آیا اور آخرکار اورٹاگوس کو اس کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ اسی سال موسم گرما میں ٹام براک کو امریکہ کے نئے نمائندے کے طور پر لبنان بھیجا گیا اور اس نے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے چار مراحل پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے پر لبنان حکومت کی کابینہ کا اجلاس تشکیل پایا جس میں حزب اللہ اور اس کی اتحادی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود اسے منظور کر لیا گیا۔
 
فرانس اور عرب اتحاد، لبنان کی تعمیر نو کی آڑ میں سازش آگے بڑھانا
لبنان حکومت کی جانب سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ اختیار کرنے کے بعد فرانس نے اس اقدام کو "تاریخی" اور "شجاعانہ" قرار دیا۔ فرانس کی وزارت خارجہ نے وعدہ کیا کہ فرانس اپنے یورپی، امریکی اور علاقائی اتحادیوں کی مدد سے اس عمل میں لبنان حکومت سے بھرپور تعاون کرے گا اور خاص طور پر لبنان آرمی کی مدد، یونیفل کی تقویت اور قرارداد 1701 کو عملی شکل دینے میں پوری مدد فراہم کرے گا۔ فرانس اس وقت شام اور لبنان میں اپنا روایتی استعماری کردار دوبارہ بحال کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح وہ امریکہ سے تعاون کے ذریعے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے درپے ہے۔ امریکہ اور فرانس یونیفل اور لبنان آرمی کی مدد سے حزب اللہ لبنان کو مرحلہ وار غیر مسلح کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ یہ منصوبہ واضح طور پر شکست خوردہ ہے کیونکہ اسرائیل اب تک بارہا جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکا ہے اور جنوبی لبنان کے کچھ علاقوں سے پیچھے بھی نہیں ہٹا۔
 
اسرائیل حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کیلئے بے تاب
اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کو کمزور کرنے اور آخرکار اسے غیر مسلح کرنے کے لیے چند مراحل پر مشتمل حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ فوجی اور انٹیلی جنس میدان میں لبنان کے مختلف علاقوں پر فضائی حملوں، حزب اللہ رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ، فضائی نگرانی میں اضافے، سرحدی علاقوں پر مسلسل حملوں اور زمینی حملے کی تیاریوں کے ذریعے حزب اللہ لبنان پر دباو ڈال رہا ہے تاکہ وہ غیر مسلح ہونے کو قبول کر لے۔ یہ اقدامات امریکہ سے مکمل ہم آہنگی اور اس کی بھرپور حمایت سے انجام پا رہے ہیں۔ دوسری طرف مغربی اور عرب ممالک نے لبنان حکومت پر سفارتی دباو ڈال رکھا ہے۔ حال ہی میں صیہونی رژیم کے عربی بولنے والے ترجمان نے حزب اللہ لبنان کو بیروت دھماکوں کا ذمہ دار قرار دیا اور دعوی کیا کہ اسرائیل کا ان دھماکوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔
 
سازشی مثلث
حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ ملکی سطح پر تیار نہیں کیا گیا بلکہ بیرونی طاقتوں کے براہ راست اور بالواسطہ دباو کا شاخسانہ ہے۔ امریکہ، فرانس اور اسرائیل تینوں نے اپنے اپنے خاص ہتھکنڈوں کے ذریعے اقتصادی پابندیوں سے لے کر سفارتکاری اور جاسوسی کے ذریعے لبنان حکومت کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ دوسری طرف لبنانی حکومت نے ان مداخلت آمیز اقدامات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاکہ عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس شدید تناو کے ماحول میں لبنان کے وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف بیان دے کر عوام میں غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور اسے شدید عوامی تنقید کا سامنا ہے۔ اس نے ایران پر لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا ہے جبکہ واشنگٹن، پیرس اور تل ابیب کی کھلم کھلا مداخلت پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

زائرین کے تاثرات سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ نجف کی فضا میں ایک ایسی روحانی خوشبو رچی بسی ہے جو دل و جان کو مہکا دیتی ہے۔ ان مقدس فضاؤں میں قدم رکھتے ہی دل پر ایک انوکھا سکون اتر آتا ہے اور آنکھوں میں عقیدت و محبت کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کے روضۂ اقدس کی زیارت کے بعد جب کوئی زائر کربلا کی سمت روانہ ہوتا ہے تو اس کے دل کی دھڑکنیں ایک نئے جذبے سے دھڑکنے لگتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت آج یہ مبارک مناظر دنیا بھر کے عاشقانِ اہل بیت علیہم السلام کے لیے بآسانی قابلِ مشاہدہ ہیں۔ اگرچہ ہمیں اب تک اس سفرِ عشق کا شرف حاصل نہیں ہوا، مگر دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ ہر عاشقِ امام حسین علیہ السلام کو یہ عظیم سعادت نصیب ہو۔ کیونکہ یہ محض ایک سفر نہیں بلکہ عشق کا اعلان اور اس تاریخ کا تسلسل ہے جو صدیوں سے ایمان و قربانی کی خوشبو بکھیر رہا ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ نجف تا کربلا مشی کی روایت کی بنیادیں کربلا کے اولین زائر حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضوان اللہ علیہ تک جا پہنچتی ہیں۔ واقعۂ عاشورا کے چالیس دن بعد، سنہ 61 ہجری میں انہوں نے اپنے غلام عطیہ کو ساتھ لیا اور فرات کے کنارے غسل کر کے کربلا پہنچے۔ امام حسین علیہ السلام کے مزار پر گریہ و سلام عرض کیا اور یوں اربعین کی زیارت کا آغاز ہوا۔ بعد کے ادوار میں عاشقانِ حسین علیہ السلام نے اسی سنت کو زندہ رکھا، چاہے حالات کٹھن ہوں یا راستے دشوار۔ بعثی حکومت کے دور میں اس مَشی پر پابندی لگا دی گئی۔ زائرین کو گرفتار کیا جاتا، مارا پیٹا جاتا اور بعض اوقات شہید کر دیا جاتا۔ مگر محبتِ حسین (ع) کی راہ میں یہ رکاوٹیں پہاڑ کی چوٹی پر بہتے چشمے کی طرح راستہ بدل کر بھی جاری رہتی رہیں۔ زیرِ زمین راستے، خفیہ قافلے اور چھپ چھپ کر کی گئی زیارت۔ یہ سب اس بات کا اعلان تھا کہ "حسین زندہ ہیں اور ان کے عاشق بھی"۔

ایک زائر کے بقول اب جب اربعین کا وقت آتا ہے نجف کی گلیوں سے کربلا کی سرزمین تک، تقریباً 80 کلومیٹر کا یہ فاصلہ ایک سمندرِ محبت میں بدل جاتا ہے۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں زائرین۔ عرب و عجم، مشرق و مغرب۔ سفر کے ہر قدم پر ایک ہی نعرہ دہراتے ہیں "لبیک یا حسین"۔ راستے میں بچھے موکب، مٹی کے فرش پر دسترخوان، کھجوریں، چائے، پانی، سب کچھ بلا معاوضہ اور بلا تکلف۔ کوئی پاؤں دبانے کو جھک رہا ہے، کوئی زخم دھونے کو، کوئی دعا دینے کو۔ یہ وہ منظر ہے جو دنیا کی کسی اور تحریک یا اجتماع میں نظر نہیں آتا۔ یہاں رنگ، نسل، زبان اور قومیت سب مٹ جاتی ہے۔ صرف ایک نسبت باقی رہتی ہے: نسبتِ حسین علیہ السلام ۔

احادیث میں آیا ہے کہ اربعین کی زیارت مؤمن کی علامت ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: مؤمن کی پانچ علامات ہیں، جن میں سے ایک اربعین کی زیارت ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای مَشی اربعین کی اہمیت کے حوالے سے فرماتے ہیں: آج کے دور میں جب اسلام دشمن اور امتِ اسلامی کے دشمن مختلف طریقوں، ذرائع، مال، سیاست اور اسلحے کے ساتھ امتِ مسلمہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، خداوند متعال ناگہانی طور پر اربعین کے اس عظیم مارچ کو ایسی عظمت عطا کرتا ہے، ایسا جلوہ عطا کرتا ہے۔ یہ خدا کی عظیم نشانی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتِ اسلامی کی نصرت کی علامت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کا ارادہ امتِ اسلامی کی مدد کے لیے محکم ہو چکا ہے۔

یہ سفر جسم کو تھکا دیتا ہے مگر روح کو جلا بخشتا ہے۔ ہر قدم گویا ایک آنسو بن کر کربلا کے خیموں تک پہنچتا ہے اور ہر لمحہ دل کے صحرا میں وفا کے پھول اگاتا ہے۔ مگر آج کل ایک نیا کھیل رچایا جا رہا ہے۔ ایک ایسا کھیل جس میں سفرِ عشق کی خوشبو میں فریب کی گند چھپائی جا رہی ہے۔ معلومات کے مطابق عاشورہ اور اربعین کے دنوں میں، جب ہزاروں زائرین عقیدت کے چراغ لیے عراق کی سرزمین کا رخ کرتے ہیں، اسی ہجوم کے بیچ ایک اور قافلہ بھی ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ نجف و کربلا کے مسافر ہوتے ہیں اور نہ امام حسین علیہ السلام کے غم میں اشک بہانے والے۔ ان کا سفر محبت کا نہیں، مجبوری کا ہوتا ہے اور ان کے قافلہ سالار "انسانی اسمگلر" کہلاتے ہیں۔

باوثوق ذرائع کے مطابق عراقی بارڈر پر ایک عجب منظر بنتا ہے۔ عقیدت مند زائرین کو ایک طرف بٹھا دیا جاتا ہے، جیسے کوئی قافلہ راہ دیکھ رہا ہو اور دوسری طرف ایک الگ لاٹ تیار کی جاتی ہے۔ یہ "ڈنکی لگانے والے" جوان۔ جیسے ہی امیگریشن کے ساتھ ڈیل کا باب مکمل ہوتا ہے، سب سے پہلے یہ لاٹ سرحد پار لے جائی جاتی ہے اور زائرین اپنے کاغذات کے ساتھ ایک دوسرے کا منہ تکنے پر مجبور رہ جاتے ہیں۔ کہنے کو تو زمینی راستوں پر پابندی زائرین کے تحفظ کے لیے ہے، مگر پردے کے پیچھے کچھ اور ہی منظر ہے۔ کچھ زبانوں پر یہ بھی گلہ ہے کہ سفر عشق کے ٹکٹ بلیک میں بیچے جا رہے ہیں اور عقیدت کی گلی میں کاروبار کی منڈی سجائی جا رہی ہے۔

یہ داستان محض چند افراد کی بددیانتی نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کی غفلت جھلک رہی ہے۔ عشق کی گلیوں میں فریب کے قدموں کی چاپ سنائی دے تو لازم ہے کہ چراغ تھامے کوئی سچ کا قافلہ نکلے۔ ورنہ ڈر ہے کہ کل یہ سفرِ عشق، سفرِ پریشانی بن کر رہ جائے گا۔ دھوکے بازوں اور فریب کاروں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے اور اینٹی کرپشن کے محکمے مؤثر اور فوری اقدامات کریں۔ عوام کو بھی چاہیئے کہ ایسے عناصر کے جال میں نہ پھنسیں جو عقیدت کے نام پر ناجائز منافع کمانے اور انسانی اسمگلنگ جیسے جرائم میں ملوث ہوں۔ خصوصاً زائرینِ امام حسین علیہ السلام کو ہوشیار رہنا چاہیئے اور اگر کسی مشتبہ شخص یا سرگرمی کا مشاہدہ ہو تو فوراً متعلقہ حکومتی ذمہ داران کو اطلاع دیں تاکہ یہ سفرِ عشق اپنی پاکیزگی اور روحانیت کے ساتھ قائم رہے اور فریب کے سائے اس کے راستے کو آلودہ نہ کر سکیں۔

یہ مَشی صرف چلنا نہیں بلکہ ایک اعلان ہے کہ یزیدیت وقت کی قید میں نہیں اور حسینیت بھی زندہ و جاوید ہے۔ یہ دنیا کو بتاتا ہے کہ مظلوم کی یاد کو مٹایا نہیں جا سکتا اور حق کا چراغ صدیوں بعد بھی اسی طرح روشن رہتا ہے جیسے 61 ہجری میں تھا۔ نجف سے کربلا تک کا یہ عاشقانہ سفر اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ محبتِ حسین(ع) محض ایک عقیدت نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک ہے۔ ایسی تحریک جو نہ تلوار سے دبتی ہے، نہ وقت کی گرد میں کھو جاتی ہے۔

 استاد مدرسہ علمیہ صدیقہ کبریٰ (س) شہر بہار محترمہ خدیجہ جواہری موحد نے ہفتۂ عفاف و حجاب کے موقع پر حوزہ نیوز کے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کی ثقافتی شناخت کے تحفظ میں مسلمان خاتون کے کلیدی کردار کی طرف اشارہ کیا اور حجاب کے تہذیبی پہلوؤں کی وضاحت کی۔

انہوں نے کہا: حجاب، مسلمان عورت کی اسلامی اقدار، انسانی کرامت اور ثقافتی شناخت سے وابستگی کی گہری علامت ہے۔ یہ لباس نہ صرف مغرب کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں آزادیِ ثقافت کا اظہار ہے بلکہ عورت کی شخصیت اور سماجی مقام کی حفاظت بھی کرتا ہے۔

استاد مدرسہ علمیہ صدیقہ کبریٰ (س) شہر بہار نے کہا: حجاب، عورت کو ایک قابل احترام فرد کے طور پر متعارف کراتا ہے، اسے معاشرے میں ایک آلہ کے طور پر دیکھے جانے سے آزاد کرتا ہے اور ایک محترم شناخت رکھنے والے شخص کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: مسلمان خاتون جب حجاب اختیار کرتی ہے تو وہ یہ دکھاتی ہے کہ یہ ایک باوقار، باشعور اور آزاد فیصلہ ہے جو اس کے عزتِ نفس سے جنم لیتا ہے۔ باحجاب عورت، علمی، ثقافتی اور سماجی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو یہ واضح پیغام دیتی ہے کہ عورت ہونا جنسی اظہار کا نام نہیں بلکہ عزت، وقار اور خودمختاری کا آئینہ دار بھی ہو سکتا ہے اور یہ سب کچھ کرامت پر مبنی پوشش میں جلوہ گر ہو سکتا ہے۔

وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے فاکس نیوز سے انٹرویو کے بعد ٹرمپ اور دیگر امریکی عہدیداروں کی دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ ایران اچھی طرح جانتا ہے کہ حالیہ امریکی اسرائیلی جارحیت میں ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے اور ہمارے دشمنوں پر کیا گزری ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ  ہمارے وار کس حدتک  سنسر کئے گئے اور انہیں چھپایا گیا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر جارحیت کی تکرار کی گئی تو ہمارا جواب اتنا محکم ہوگا کہ اس کو چھپانا ممکن نہیں ہوگا۔

وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اسی کے ساتھ کہا ہے کہ دس لاکھ ایرانیوں کو نیوکلیئر میڈیسین کی ضرورت ہے جو تہران کے   تحقیقاتی ری ایکٹر میں تیار ہوتی ہیں اور یہ ری ایکٹر جو امریکا نے بنایا تھا، 20 فیصد افزودہ یورینیئم سے کام کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اسی کے ساتھ ایران کو اپنے نئے ایٹمی ری ایکٹروں کا ایندھن تیار کرنے کے لئے یورینیئم کی افزودگی کی ضرورت ہے۔